محمد آصف مغل
سینئر رکن
- شمولیت
- اپریل 29، 2013
- پیغامات
- 2,677
- ری ایکشن اسکور
- 4,006
- پوائنٹ
- 436
پہلا باب : مشترکہ وسائل و اسباب
۱۔ حسنِ انتخاب
ہم میں کون ایسا ہوگا ہے جسے اپنے شریکِ حیات کے انتخاب میں مشکل کا سامنا نہ کرنا پڑا ہو؟ دونوں پارٹیوں کی یہی کوشش ہوتی ہے کہ وہ ایک مکمل اور ہر لحاظ سے بہتر نہیں لائف پارٹنر کا انتخاب کریں جو کہ ظاہر ہے۔ اس دنیا میں ناممکن ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ دنیا میں ایسا کوئی نوجوان لڑکا یا لڑکی نہیں ہے۔ جس میں وہ تمام صفات بدرجہ اتم پائی جاتی ہوں جسے وہ اپنے شریکِ حیات میں تلاش کر رہا ہے لیکن ہوتا یہ ہے کہ بعض اشخاص میں کچھ صفات زیادہ ہوتی ہیں اور بعض میں کچھ کم۔ اس سلسلے میں ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ایسا اصول مقرر فرمایا ہے جو سارے مسائل کا حل ہے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: عورت کے شادی چار وجوہات کی بناء پر کی جاتی ہے۔ ۱۔ اس کے مال و دولت کی وجہ سے۔ ۲۔ اس کے خاندان کی وجہ سے ۳۔ اس کی خوبصورتی کی وجہ سے۔ ۴۔ اور اس کی دینداری کی وجہ سے۔ پس تو دیندار کو لے کے کامیاب ہو۔ تیرے ہاتھوں کو مٹی لگے۔ (۱) صحیح الجامع الصغیر (۲۰۰۲)
اس حدیث آپ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ حقیقت آشکارا فرمائی کہ عموماً لوگ ظاہری امور کی طرف جاتے ہیں جیسے مال و دولت وغیرہ وہ نہ ملے تو پھر بڑا خاندان وہ بھی نہ ملے پھر کم از کم لڑکی حسین و جمیل ہو اور یہ ایک بڑی سنگین غلطی ہے، شادی کی غرض سے لڑکیوں کو دیکھنے والے مردوں کو چاہیے کہ سب سے پہلے لڑکی کا دین دیکھیں۔ دین کو چھوڑ کے حسن وجمال یا خاندان یا مال و دولت دیکھنے والے کی مثال اس کے انجن اور ہارس پاور کی قوت و مضبوطی کو نظرانداز کردے۔ اس گاڑی کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ وہ اسے ہر قدم پے تنگ کرے گی اور عنقریب وہ اس سے تنگ آجائے گا کیونکہ بار بار ٹھیک کرانے کے وہ زبردست خسارے سے دوچار ہوگا۔ اس کے برعکس اگر وہ متوسط درجے کی درمیانی گاڑی خریدے جو اسے مشکلات سے دوچار نہ کرے تو نتیجہ یہ نکلے گا کہ چند ہی دنوں میں یہ اس کی پسندیدہ گاڑی بن جائے گی۔
مذکورہ حدیث کی تفسیر کرتے ہوئے ابن حجر فتح الباری میں فرماتے ہیں: آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمانا کہ دیندار عورت کے ساتھ کامیاب ہو۔ جابر bکی روایت کے الفاظ ہیں ایسی صورت میں تم پے لازم ہے کہ دیندار عورت کا انتخاب کرو۔ حدیث میں معنی یہ ہیں کہ صاحبِ دین و مروت کو چاہیے کہ ہر کام و ہر مال میں دین ہی اس کا مطمع نظر ہو خاص طور پے کوئی ایسی چیز جو لمبے عرصے تک اس کے ساتھ رہے۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نیز عبد اللہ ابن عمرbکی روایت جو ابن ماجہ میں ہے، اس کے الفاظ یہ ہیں: عورتوں کے ان کے حسن و جمال کی بناء پے نکاح مت کرو۔ ہوسکتا ہے کہ ان کا حسن انھیں عنقریب لے ڈوبے اور نہ ہی ان سے ان کے مال و دولت کی بناء پے نکاح کرو ہوسکتا ہے کہ ان کا مال و دولت انھیں برائی پے اکسائے لیکن اگر ان سے نکاح کرو تو ن کی دینداری کی بناء پے کرو اور اگر لونڈی کالی ہو اور دیندار ہو تو وہی افضل ہے (۱) (فتح الباری ۹/۲۸۔ ط۱۴۶۷ھ۔ دارالریان للثراب بقاہرۃ)
ایک اور حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ نیک عورتوں سے نکاح کی ترغیب دیتے ہوئے فرماتے ہیں: ایک مومن کے لئے اللہ تعالیٰ کے تقوی کے بعد نیک بیوی سے بہتر کوئی چیز نہیں۔ اگر وہ اسے کسی بات کا حکم دیتا ہے تو اس کی تعمیل کرتی ہے اور اگر اسے دیکھتا ہے تو اسے خوش کرتی ہے اوراگر اس پر قسم کھاتا ہے تو اس کی قسم پوری کرتی ہے اور اگر اسے چھوڑ کے کہیں جاتا ہے تو اس کی غیر حاضری میں اسی کی اور اس کی دولت کی حفاظت کرتی ہے (۲) (ابن ماجہ)
نیز فرمایا: چار چیز خوشبختی کی علامت ہیں، نیک بیوی اور بڑا گھر، نیک پڑوسی اور آرام دہ سواری اور چار چیز کم بختی کی علامت ہیں اور بری عورت، برا پڑوسی، بری سواری اور تنگ گھر (۳) الصحیح الجامع الصغیر البانی ۱/۷۱۵، ۸۸۷)
نیز نیک عورت اللہ کی اطاعت فرمانبرداری ہے اپنے شوہر کی معاون مددگار ثابت ہوتی ہے۔ فرمایا: جس شخص کو اللہ تعالیٰ نے نیک بیوی، عطا فرمائی تو اس کے نصف دین کو اب وہ باقی نصف میں اللہ تعالیٰ سے ڈرے (۴) السلاعۃ الصحیحہ ص ۱، ص ۷۰۰، ۶۷۵)
نیز عورتوں اور ان کے سرپرستوں کونصیحت کرتے ہوئے فرمایا: اگر تمہارے پاس کوئی ایسا رشتہ آئے جس کے دین و اخلاق سے تم راضی ہو تو اس سے شادی کردو، اگر تم ایسا نہیں کرو گے تو زمین میں فتنہ و فساد برباد ہوگا۔ (۵)
اس حدیث سے پتہ چلا کہ دین و خلق لازم و ملزوم ہیں، اگر ان میں سے ایک بھی دوسرے سے علیحدہ ہوجائے تو ازدواجی خوشیاں ماند پڑجاتی ہیں، ایک آدمی نے حسن بصریؒ سے پوچھا کہ وہ کس سے اپنی بیٹی کی شادی کرے۔ آپ نے فرمایا: دیندار کا انتخاب کرو۔ اگر اس سے محبت کرے گا اور اگر ناپسند کرے گا تو بے عزتی نہیں کرے گا۔
''اور اگر نیک صالح مسلمان شوہر وہی کوئی خوبیاں نہ بھی ہوں سوائے اس کے وہ اپنی بیوی کو حلال کھلاتا ہو اور اس کے دین عزت کی حفاظت کرتا ہو تو یہ بہت کافی ہے۔ رہ گیا فاسق و فاجر آدمی تو ہوسکتا ہے کہ اس کے فسق و فجور کی وجہ سے اس کے رزق میں تنگی پیدا ہوجائے اور اس کا حال تتر بتر ہوجائے اور اس کی سیاہ کاریاں دنیا کے سامنے عیاں ہوجائیں۔ جس کا نتیجہ گھریلو جھگڑے و انتشار کی صورت میں نکلے اور گھر کی اندرونی زندگی ایک دہکتے جہنم کی صورت اختیار کر جائے جہاں چین و سکون کا نام و نشان تک نہیں ہو۔ (۱) آداب الحیاۃ زوجیہ فی ضوء الکشاب و السنہ ج اعداد و خالد عبد اللہ )
نیز حسنِ انتخاب کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ مرد جس لڑکی سے شادی کر رہا ہو۔ اس کے مشاغل ومصروفیات کے بارے میں معلوم کرلے۔ بعض حضرات کا حال یہ ہوتا ہے کہ بات طے کرتے وقت وہ لڑکی کے لئے مختلف شرائط وضع کردیتے یہں جیسا کہ میری بیوی مبلغہ ہونی چاہیے۔ یا ڈاکٹر ہونی چاہیے، یا ملازم پیشہ ہو، یہ شرائط وضع کرتے وقت یہ حضرات بھول جاتے ہیں ان پے شرائط ٹیکس بھی لاگو ہوتا ہے۔ جسے انہوں نے آگے چل کر ادا کرنا ہے۔ مثال کے طور پے مبلغہ وہ عورت ہے جو اپنا سارا وقت دعوت و تبلیغ کے لئے وقف کردے۔ ایسی عورت بہت مصروف زندگی گزارتی ہے اور بسا اوقات اس کی یہ مصروفیت اُس کے گھر پے بھی اثر انداز ہوسکتی ہے۔ ایسی صورتحال میں وہ شوہر جس نے بیوی کی مبلغہ ہونے کی شرط رکھی ہو، اس کو چاہیے کہ صبر کرے اور اللہ نے اجر وثواب کا طالب ہو کیونکہ یہ انتخاب خود اس کا اپنا ہے اور وہ اس پے اللہ کے یہاں اجر و و ثواب کا مستحق ہے۔
بعض دوسرے حضرات بیوی کے لئے ڈاکٹر ہونے کی شرط لگاتے ہیں اور ایسا کرتے وقت وہ یہ بھول جاتے ہیں ایک ڈاکٹر کا کام انتہائی مشکل اور کٹھن ہوتا ہے اور اس کا سارا وقت لے لیتا ہے اور ڈاکٹر عورت کو ایسے شوہر کی ضرورت ہوتی ہے جو اس کے اسی کام اور مصروفیت پے صبرے کرے اور گھر کے کام کاج میں اس کی مدد کرے۔ نیز اسے مختلف سیمینارز اور کانفرنسسز میں شرکت کی ضرورت بھی پڑسکتی ہے۔
اسی طرح سے دوسرے شعبوں کو قیاس کرلیں اور سمجھ لیں کہ ہر پیشے کا ایک ٹیکس ہے جو آپ کو آگے چل کے ادا کرنا ہے۔ اسی طرح سے بیوی کو بھی شوہر کا انتخاب کرتے وقت اس بات کو سمجھ لینا چاہیے۔ بعض عورتیں شادی کے وقت شوہر کے لیے یہ شرط رکھتی ہیں کہ وہ امیر ہو اور یہ بھول جاتی ہیں کہ امیر شوہر عمومی طور پے ایک مصروف آدمی ہوتا ہے جو زیادہ تر سفر میں رہتا ہے اور مختلف میٹنگز میں شرکت کرتا رہتا ہے۔ اس لئے بہتر یہی ہے کہ ہر فریق دوسرے کے مشاغل و مصروفیات کے بارے میں معلومات حاصل کرلے اور اس کے عواقب و نتائج کو بھی سمجھے پھر فیصلہ کرے کہ اسے یہ لڑکی یا لڑکا قبول کرنا چاہیے کہ نہیں اور اگر قبول کرے تو بعد اس کے نتائج پے بھی صبر و تحمل سے کام لے۔