محمد آصف مغل
سینئر رکن
- شمولیت
- اپریل 29، 2013
- پیغامات
- 2,677
- ری ایکشن اسکور
- 4,006
- پوائنٹ
- 436
۱۳۔ غلط نصیحتوں اور مشوروں سے ہوشیار!!
مثال کے طور پے اگر کسی فرد کی شادی کسی ایسی عورت سے ہو جو بہت ہی سخت اور مغرور طبیعت کی مالک ہو۔ اپنے شوہر کی فرمانبرداری نہ کرتی ہو اور اس کا شوہر اس پے یہ سمجھتے ہوئے صابر و شاکر ہو کہ ساری عورتوں کی طبیعت اسی طرح کی ہوئی ہے یا اپنے بیٹوں کی وجہ سے اس کی عادات پے صبر کر رہا ہو یا کوئی اور وجہ ہو تو ایسی صورتحال میں مرد خو کمزور طبیعت کا مالک ہے۔ اب آپ کے خیال میں ایسا شخص نئے شادی شدہ جوڑوں کو کیا نصیحت کرے گا؟
ظاہر ہے وہ لڑکے کو اس کی ہونے والی بیوی سے ڈرائے گا اور اسے اس کے خلاف ابھارے گا۔
یہ نصیحت اُس انسان کا ذاتی تجربہ ہے جو ضروری نہیں ہے کہ منصوح پے بھی منطبق ہو بلکہ ہوسکتا ہے کہ ایسی نصیحت، اس کے لئے مسائل و مشکلات میں اضافہ کردے۔
بعض باپ اپنے بیٹے کو بیوی کے ساتھ سختی سے پیش آنے کی تلقین کرتے ہیں کہ اسے شروع سے ہی اپنی بیوی پے اپنا کنٹرول رکھنا چاہیے۔ ایسا کرکے باپ درحقیقت بیٹے کو بیوی کے خلاف بھڑکا رہا ہوتا ہے اگرچہ اس کا مقصد بیٹے کی خوشی ہی ہے اور ہوسکتا ہے کہ باپ کی بات میں سچائی ہو اور وہ صحیح کہہ رہا ہو۔ لیکن بعض اوقات کم فہم بیٹے ایسی نصیحت کا غلط مطلب لے لیتے ہیں۔ اسی طرح سے ماں اپنی بیٹی کو یہ نصیحت کرتی ہے کہ وہ شوہر کی ہر بات پے (ہاں) کہنے کی عادت نہ ڈالے کیونکہ وہ نوکرانی نہیں بلکہ بیوی ہے۔ اس لیے اسے (نہیں) بھی کہنا چاہیے۔ اس کا اپنا خراج اور مستقل رائے ہونی چاہیے تاکہ اس کی شخصیت میں مضبوطی پیدا ہوسکے وغیرہ وغیرہ۔ اس قسم کی نصیحتیں بہت سی ہوتی ہیں جو بعد میں میاں بیوی کی زندگی میں تباہ کاریاں پھیلاتی ہیں۔
چنانچہ جب میاں بیوی ایک دوسرے سے ملتے ہیں تو وہ ایک دوسرے کے خلاف مسائل طور پے Loaded (بھرے ہوئے) ہوتے ہیں۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ شادی کے چند دن تو ہنسی خوشی پیار محبت میں گذر جاتے ہیں پھر دھیرے دھیرے دونوں کو اپنے بڑوں کی نصیحتیں یاد آنے لگتی ہیں اور جہاں کہیں اختلاف کی معمولی سی چنگاری بھڑکتی ہے تو لڑائی جھڑے، الزامات کا ایسا آتش فشاں پھٹتا ہے کہ الحفیظ الأمامہ!
اس لیے میاں بیوی کو چاہیے کہ ابتدا ء کے ہی ایک دوسرے کی طبیعت کو سمجھی اور ہر ایک دوسرے کو خوش رکھنے کی کوشش کرے۔ والدین، عزیز و اقارب اور دوستوں کی وہ نصیحتیں جو اللہ کے تقوے، دین کے تمسک اور شریکِ حیات کے ساتھ نرم برتائو پے مشتمل ہوتی ہیں تو ایسی نصیحتیں بلا شبک مغلوب اور ضروری ہیں اور غلط نصیحتوں کے دائرہ کار میں نہیں آتی۔
ابو الا مودودی کی اپنی بیٹی کو نصیحت:
مجھ سے میری عام عادات لو تم میری محبت کو ہمیشہ کے لیے پالوگی۔ اور جب میں غصہ میں ہوں تو اس وقت مریے سامنے مت بولو کیونکہ میں نے دیکھا ہے کہ اگر دل میں محبت کے ساتھ ساتھ ناراضگی بھی پیدا ہوجائے تو محبت جانے میں دیر نہیں لگاتی۔