• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

’انٹرنیٹ پر صارفین کی نگرانی کی جاتی ہے‘

شمولیت
مارچ 03، 2013
پیغامات
255
ری ایکشن اسکور
470
پوائنٹ
77
امریکہ کی نیشنل سکیورٹی ایجنسی کے ڈائریکٹر جیمز کلیپر نے تسلیم کیا ہے کہ حکومت نے انٹرنیٹ کمپنیوں سے صارفین کی بات چیت کا ریکارڈ حاصل کرتی ہے تاہم معلومات حاصل کرنے کی پالیسی کا ہدف صرف'غیر امریکی افراد' ہیں۔
جمعرات کو رات گئے امریکی نیشنل سکیورٹی ایجنسی کے ڈائریکٹر کلپیر کی جانب سے جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ' امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ اور برطانوی اخبار گارڈین میں 'پرزم پروگرام' کے بارے میں شائع ہونے والی خبروں میں کئی خامیاں ہیں' تاہم اس بارے میں مزید تفصیل نہیں بتائی گئی۔
انہوں بیان میں مزید کہا ہے کہ بات چیت کی معلومات حاصل کرنے کے پروگرام' کو بنانے کا مقصد بیرون ملک سے انٹیلیجنس معلومات حاصل کرنا ہے اور اس کا تعلق امریکہ سے باہر مقیم افراد سے ہے'۔
جیمز کلیپر کے بیان کے بقول' امریکی شہریوں، دیگر امریکی افراد اور امریکہ میں مقیم کسی بھی فرد کے خلاف جان بوجھ کر استعمال نہیں کیا جائے گا'۔
انہوں نے بتایا کہ یہ پرگرام بیرون ملکی نگرانی کے ایکٹ کے سیکشن 702 کے تحت کام کرتا ہے اور اس کی حال ہی میں کانگریس میں بحث کے بعد اجازت دی گئی تھی۔
'اس پروگرام کے تحت کے جو معلومات حاصل کر جاتی ہیں، وہ بیرونی ملک سے حاصل کرنے والی خفیہ معلومات میں انتہائی اہم اور قیمتی ہوتی ہیں'۔
امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ نے خبر دی ہے کہ امریکی خفیہ ایجنسیاں سراغ رسانی کی غرض سے انٹرنیٹ کی نو بڑی کمپنیوں کے سرورز سے صارفین کے بارے میں براہ راست معلومات حاصل کر رہی ہیں۔ ان کمپنیوں میں فیس بک، یو ٹیوب، سکائپ، ایپل، پال ٹاک، گوگل، مائکروسافٹ اور یاہو بھی شامل ہیں۔
اخبار کے مطابق یہ سب کچھ امریکی حکومت کے ایک خفیہ پروگرام کے تحت کیا جارہا ہے جسے پرزم کا نام دیا گیا ہے اور اسکے ذریعے لوگوں کی ذاتی ویڈیوز، تصاویر اور ای میلز تک نکال لی جاتی ہیں تاکہ مخصوص لوگوں پر نظر رکھی جا سکے۔
اس سے پہلے برطانوی اخبار گارڈین کی ایک رپورٹ کے مطابق امریکہ کی نیشنل سکیورٹی ایجنسی ایک خفیہ عدالتی حکم کے تحت امریکی کی سب سے ٹیلی کمیونیکیشن کمپنی ویریزون سے روزانہ لاکھوں صارفین کے ٹیلیفون ریکارڈ حاصل کرتی ہے۔
انسانی حقوق کی تنظیموں نے امریکی حکومت کے اس فیصلے کو 'حیرت انگیز' قرار دیا ہے۔
امریکہ کے آئینی حقوق کے سینٹر نے اپنے ردعمل میں کہا ہے کہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ کسی عدالت کی جانب سے لوگوں کی نگرانی کا سب سے وسیع حکم ہے۔
صدر بش کے دور میں منظور کیے جانے والے قانون پیٹریوٹ ایکٹ کے تحت جاری اس عدالتی حکم پر جج راجر ونسن کے دستخط ہیں۔
اس عدالتی حکم کے تحت کمپنی پر لازم ہے کہ وہ نیشنل سکیورٹی ایجنسی کو اس تمام الیکٹرانک ڈیٹا کی تفصیلات مہیا کرے جس میں کس صارف نےکس وقت، کہاں اور کس نمبر پر فون کیا۔
کمپنی پر لازم ہے کہ وہ ٹیلیفون نمبر، کالنگ کارڈ نمبر، انٹرنیشنل سبسکرائبر شناختی نمبر ، انٹرنیشنل موبائل سٹیشن آلات نمبر، اور کال کی تاریخ اور وقت کے بارے میں مکمل معلومات مہیا کرے۔
البتہ اس عدالتی حکم کے تحت ٹیلی کمیونیکیشن کمپنی اپنے صارف کا نام، پتہ اور اس رابطے کے دوران مواد کے تبادلے کی معلومات دینے کی پابند نہیں ہے۔
عدالت نے یہ بھی حکم دیا ہے کہ اس عدالتی حکم کے بارے میں کسی کو کوئی معلومات نہ فراہم کی جائے۔
انٹرنیٹ کمپنیوں یاہو، فیس بک اور ایپل نے اپنے ردعمل میں کہا ہے کہ وہ امریکہ کی کسی بھی حکومتی ایجنسی کو اپنے سرورز تک براہ راست رسائی نہیں دیتی ہیں۔
گوگل کی جانب سے جاری ہونے والے بیان میں کہا گیا ہے کہ' گوگل حکومت کو کوئی ایسا خفیہ دروازہ مہیا نہیں کرتی جس کے تحت نجی صارفین کی معلومات حاصل کی جا سکیں۔
ربط
 

کنعان

فعال رکن
شمولیت
جون 29، 2011
پیغامات
3,564
ری ایکشن اسکور
4,424
پوائنٹ
521
نگرانی کے عمل میں توازن برقرار رکھا گیا ہے


صدر اوبامہ کے مطابق انہیں اس پروگرام پرزم کے بارے میں شروع میں جھجھک تھی

امریکہ کے صدر براک اوباما نے فون اور انٹرنیٹ کے ذریعے نگرانی کے حکومتی پروگرام کا دفاع کرتے ہوئے کہا ہے کہ اُن کی انتظامیہ نے سکیورٹی اور پرائیویسی کے درمیان 'صحیح توازن برقرار رکھا ہے۔'

ادھر ورلڈ وائیڈ ویب کے خالق سر ٹم برنرز لی نے 'پرزم' نامی اس پروگرام پر کڑی تنقید کی ہے جبکہ فیس بک اور گوگل کے مالکان نے امریکی خفیہ ایجنسی کو معلومات کی فراہم کرنے کی تردید بھی کی ہے۔

صدر اوباما نے ایک بیان میں کہا ہے کہ کانگریس اور عدالتیں اس پروگرام پر نظر رکھتی ہیں اور امریکی انٹرنیٹ کمیونیکیشن اور امریکی شہری یا وہاں کے رہائشی اس کی زد میں نہیں ہیں۔

انھوں نے امریکی عوام کو اس بات کی یقین دہانی کروانے کی کوشش کی کہ 'کوئی بھی آپ کی فون پر ہونے والی گفتگو نہیں سن رہا ہے' اور یہ پروگرام فون سننے کے بارے میں نہیں بلکہ ماہرین فون نمبرز اور بات چیت کے دورانیے پر نظر رکھتے ہیں۔

امریکی صدر کی جانب سے یہ بیان امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ اور برطانوی اخبار گارڈین میں شائع ہونے والی ان خبروں کے بعد سامنے آیا ہے جن میں یہ کہا گیا تھا کہ امریکی نیشنل سکیورٹی ایجنسی بڑے پیمانے پر فون اور انٹرنیٹ کی نگرانی کر رہی ہے۔

اخبار کے مطابق امریکی خفیہ ایجنسی کے اس پروگرام کے ذریعے لوگوں کی ذاتی ویڈیوز، تصاویر اور ای میلز تک نکال لی جاتی ہیں تاکہ مخصوص لوگوں پر نظر رکھی جا سکے۔

بعدازاں امریکہ کی نیشنل سکیورٹی ایجنسی کے ڈائریکٹر جیمز کلیپر نے تسلیم کیا تھا کہ حکومت انٹرنیٹ کمپنیوں سے صارفین کی بات چیت کا ریکارڈ حاصل کرتی ہے تاہم انہوں نے کہا تھا کہ معلومات حاصل کرنے کی پالیسی کا ہدف صرف 'غیر امریکی افراد' ہیں۔

اس پروگرام کے تحت بیرون ملک سے انٹیلیجنس معلومات حاصل کی جاتی ہیں

جمعہ کو امریکی ریاست کیلیفورنیا میں صدر اوباما نے کہا کہ این ایس اے کے پروگرام کی منظوری کانگریس نے دی ہے اور کانگریس کی انٹیلیجنس کمیٹیاں اور خفیہ جاسوسی کی عدالتیں اس پروگرام کی مسلسل نگرانی کرتی ہیں۔

صدر اوباما نے کہا کہ جب انھوں نے صدر کی ذمہ داری اٹھائی تھی اس وقت دونوں پروگراموں کے بارے میں کافی شکوک پائے جاتے تھے لیکن ان کی جانچ پڑتال اور اس میں مزید حفاظتی انتظامات کے بعد انھوں نے فیصلہ کیا کہ 'یہ قابل قبول ہے'۔

انھوں نے مزید کہا: 'اس کے ذریعہ آپ کو صد فی صد سیکیورٹی تو نہیں مل سکتی لیکن سو فی صد پرائیویسی آپ کو حاصل ہے۔'

ادھر ورلڈ وائیڈ ویب کے خالق سر ٹم برنرز لی نے پرزم پروگرام پر ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ امریکی حکومت کی جانب سے یہ اقدام بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔ انہوں نے انٹرنیٹ کے صارفین سے کہا کہ وہ انفرادی طور پر بھی اس معاملے پر آواز اٹھائیں اور احتجاج کریں۔

دوسری جانب فیس بک کے خالق مارک زکربرگ اور گوگل کے مالک لیری پیج نے امریکہ خفیہ ایجنسی کو صارفین کی معلومات کی فراہمی کی تردید کی ہے۔ اس سے قبل ایپل اور یاہو بھی کسی بھی حکومتی ایجنسی کو اپنے سرورز تک براہ راست رسائی دینے کے الزام سے انکار کر چکی ہیں۔

خیال رہے کہ امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ نے خبر دی تھی کہ امریکی خفیہ ایجنسیاں سراغ رسانی کی غرض سے انٹرنیٹ کی نو بڑی کمپنیوں کے سرورز سے صارفین کے بارے میں براہ راست معلومات حاصل کر رہی ہیں۔ ان کمپنیوں میں فیس بک، یو ٹیوب، سکائپ، ایپل، پال ٹاک، گوگل، مائکروسافٹ اور یاہو بھی شامل ہیں۔


انٹرنیٹ کمپنیوں کا ردعمل
انٹرنیٹ کمپنیوں یاہو، فیس بک اور ایپل نے اپنے ردعمل میں کہا ہے کہ وہ امریکہ کی کسی بھی حکومتی ایجنسی کو اپنے سرورز تک براہ راست رسائی نہیں دیتی ہیں۔ گوگل کی جانب سے جاری ہونے والے بیان میں کہا گیا ہے کہ' گوگل حکومت کو کوئی ایسا خفیہ دروازہ مہیا نہیں کرتی جس کے تحت نجی صارفین کی معلومات حاصل کی جا سکیں۔

برطانیہ میں جاسُوس کمپنی جی سی ایچ کیو پر بھی الزام ہے کہ وہ امریکی خفیہ ایجنسی کے ساتھ تعاون کر رہی ہے۔ کمپنی کو اس حوالے سے پارلیمنٹ کو رپورٹ کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ کمپنی پر الزام ہے کہ اُس نے امریکہ کے جاسوسی کے پروگرام کے ذریعے بڑی انٹرنیٹ کمپنی سے صارفین کی معلومات اکٹھی کی ہیں۔

انسانی حقوق کی تنظیموں نے امریکی حکومت کے خفیہ طور پر معلومات جمع کرنے کے عمل کو 'حیرت انگیز' قرار دیا ہے۔

امریکہ میں آئینی حقوق کے سینٹر نے اپنے ردعمل میں کہا ہے کہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ کسی عدالت کی جانب سے لوگوں کی نگرانی کا سب سے وسیع حکم ہے۔

صدر بش کے دور میں منظور کیے جانے والے قانون پیٹریاٹ ایکٹ کے تحت جاری اس عدالتی حکم پر جج راجر ونسن کے دستخط ہیں۔

اس عدالتی حکم کے تحت کمپنی پر لازم ہے کہ وہ نیشنل سکیورٹی ایجنسی کو تمام الیکٹرانک ڈیٹا کی تفصیلات مہیا کرے ۔جیسے کسی بھی صارف نے کس وقت، کہاں اور کس نمبر پر فون کیا۔

کمپنی پر لازم ہے کہ وہ ٹیلیفون نمبر، کالنگ کارڈ نمبر، انٹرنیشنل سبسکرائبر شناختی نمبر ، انٹرنیشنل موبائل سٹیشن آلات نمبر، اور کال کی تاریخ اور وقت کے بارے میں مکمل معلومات مہیا کرے۔

البتہ اس عدالتی حکم کے تحت ٹیلی کمیونیکیشن کمپنی اپنے صارف کا نام، پتہ اور اس رابطے کے دوران مواد کے تبادلے کی معلومات دینے کی پابند نہیں ہے۔ عدالت نے یہ بھی حکم دیا ہے کہ اس عدالتی حکم کے بارے میں کسی کو کوئی معلومات فراہم نہ کی جائیں۔

ہفتہ 8 جون 2013 ,‭ 04:09 GMT 09:09 PST

ح
 
Top