دوسراحصہ
’’ربنا لک الحمد‘‘ بآواز بلند پڑھنے کے مزعومہ دلائل
جہر کی پہلی دلیل اور اس کا جائزہ
'' ا بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ :'' رسو ل کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز شروع کرتے تھے تو اپنے دونوں ہاتھ مبارک اپنے کندھوں تک اٹھاتے تھے اور اس طرح جب رکوع کرتے اور جب رکوع سے سر مبارک اٹھاتے توبھی اسی طرح ہاتھ مبارک اٹھا تے اور '' سمع اللہ لمن حمدہ ربنا لک الحمد'' کہتے، اورسجدوںمیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم رفع الیدین نہیںکیا کرتے تھے ،(صحیح بخاری)''(''نشاط العبدبجھر ربنالک الحمد'' ص٢٦ـ٢٧،از علامہ بدیع الدین راشدی رحمہ اللہ )۔
تقریر استدلال:
اس حدیث اوراس جیسی دیگراحادیث سے دوطرح استدلال کیاجاتاہے کہ ربنالک الحمدبآواز بلند پڑھنا چاہئے :
(الف) : اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جہر سے نہیں پڑھا تھا تو صحابی نے بیان کیسے کیا ،اور صحابی کو معلوم کیسے ہوا ؟پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جہر ہی سے پڑھا تھا کیونکہ صحابی کو معلوم ہونے کی کوئی اور وجہ نہیں ہے،( نشاط العبد: ص٢٦ ودیگر صفحات)۔
(ب) : ابن عمر رضی اللہ عنہ دونوں جملوں( سمع اللہ لمن حمدہ ربنا لک الحمد) کواکٹھا بتاتے ہیں اور یہ ہرگز درست نہیں کہ پہلے جملے کو جہر پر اور دوسرے کو سر پر محمول کیا جائے، اس تفریق پر کوئی دلیل نہیں ہے،( نشاط العبد:ص٢٧)۔
جواب: اب سلسلہ وار ان شبہات کے جوابات ملاحظہ فرمائے:
(الف) :ـ
اگرصحابی کو معلوم ہونے اور اس کے بیان کرنے سے یہ لازم آتاہے کہ وہ دعا ء بآواز بلند پڑھی گئی تھی اور اسے بآواز بلند ہی پڑھا جائے گاتو ایسی صورت میں پوری نماز تکبیر تحریمہ سے لیکر سلام تک بآواز بلند پڑھنا پڑے گا ، کیونکہ صحابہ نے صرف قومہ ہی کی دعا ء بیان نہیں کی ہے بلکہ رکوع ، سجود ،جلسہ،تشہد اور درود وغیرہ کی دعاؤں کو بھی بیان کیا ہے۔ملاحظہ ہو مسلم کی درج ذیل حدیث :
عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ، عَنْ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهُ كَانَ إِذَا قَامَ إِلَى الصَّلَاةِ، (وفی رواےةاذا قام الی الصلوٰةالمکتوبة)قَالَ: «وَجَّهْتُ وَجْهِيَ لِلَّذِي فَطَرَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ حَنِيفًا، وَمَا أَنَا مِنَ الْمُشْرِكِينَ، إِنَّ صَلَاتِي، وَنُسُكِي، وَمَحْيَايَ، وَمَمَاتِي لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ، لَا شَرِيكَ لَهُ، وَبِذَلِكَ أُمِرْتُ وَأَنَا مِنَ الْمُسْلِمِينَ، اللهُمَّ أَنْتَ الْمَلِكُ لَا إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ أَنْتَ رَبِّي، وَأَنَا عَبْدُكَ، ظَلَمْتُ نَفْسِي، وَاعْتَرَفْتُ بِذَنْبِي، فَاغْفِرْ لِي ذُنُوبِي جَمِيعًا، إِنَّهُ لَا يَغْفِرُ الذُّنُوبَ إِلَّا أَنْتَ، وَاهْدِنِي لِأَحْسَنِ الْأَخْلَاقِ لَا يَهْدِي لِأَحْسَنِهَا إِلَّا أَنْتَ، وَاصْرِفْ عَنِّي سَيِّئَهَا لَا يَصْرِفُ عَنِّي سَيِّئَهَا إِلَّا أَنْتَ، لَبَّيْكَ وَسَعْدَيْكَ وَالْخَيْرُ كُلُّهُ فِي يَدَيْكَ، وَالشَّرُّ لَيْسَ إِلَيْكَ، أَنَا بِكَ وَإِلَيْكَ، تَبَارَكْتَ وَتَعَالَيْتَ، أَسْتَغْفِرُكَ وَأَتُوبُ إِلَيْكَ» ، وَإِذَا رَكَعَ، قَالَ: «اللهُمَّ لَكَ رَكَعْتُ، وَبِكَ آمَنْتُ، وَلَكَ أَسْلَمْتُ، خَشَعَ لَكَ سَمْعِي، وَبَصَرِي، وَمُخِّي، وَعَظْمِي، وَعَصَبِي» ، وَإِذَا رَفَعَ، قَالَ: «اللهُمَّ رَبَّنَا لَكَ الْحَمْدُ مِلْءَ السَّمَاوَاتِ، وَمِلْءَ الْأَرْضِ، وَمِلْءَ مَا بَيْنَهُمَا، وَمِلْءَ مَا شِئْتَ مِنْ شَيْءٍ بَعْدُ» ، وَإِذَا سَجَدَ، قَالَ: «اللهُمَّ لَكَ سَجَدْتُ، وَبِكَ آمَنْتُ، وَلَكَ أَسْلَمْتُ، سَجَدَ وَجْهِي لِلَّذِي خَلَقَهُ، وَصَوَّرَهُ، وَشَقَّ سَمْعَهُ وَبَصَرَهُ، تَبَارَكَ اللهُ أَحْسَنُ الْخَالِقِينَ» ، ثُمَّ يَكُونُ مِنْ آخِرِ مَا يَقُولُ بَيْنَ التَّشَهُّدِ وَالتَّسْلِيمِ: «اللهُمَّ اغْفِرْ لِي مَا قَدَّمْتُ وَمَا أَخَّرْتُ، وَمَا أَسْرَرْتُ وَمَا أَعْلَنْتُ، وَمَا أَسْرَفْتُ، وَمَا أَنْتَ أَعْلَمُ بِهِ مِنِّي، أَنْتَ الْمُقَدِّمُ وَأَنْتَ الْمُؤَخِّرُ، لَا إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ» .
علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز کے لئے کھڑےہوتے تو کہتے : (اور ایک روایت میں ہے کہ جب فرض نمازکے لئے کھڑے ہوتے تو کہتے) ''وجھت و جھی للذی فطرالسماوات والأرض...اور جب رکوع کرتے توکہتے: اللہم!لک رکعت، وبک آمنت ولک أسلمت،خشع لک سمعیوبصری ومخی وعظمی وعصبی'' اور جب رکوع سے سر اٹھاتے توکہتے : ''اللہم ربّنا!لک الحمد،ملٔ السماوات والأرض، وما بینھماوملٔ ما شئت من شیٔ بعد''، اور جب سجدہ کرتے تو کہتے : ''اللہم !لک سجدت وبک آمنت ولک أسلمت،سجدوجھی للذی خلقہ وصورہ وشق سمعہ وبصرہ فتبارک اللہأحسن الخالقین'' پھر آپ اخیر میں تشہد اور سلام کے درمیان یہ کہتے: ''اللہم! اغفرلی...الی آخر الحدیث'
'( مسلم:کتاب صلٰوةالمسافرین وقصرھا:باب الدعاء فی صلٰوة اللیل و قیا مہ،،رقم الحدیث(٧٧١)،سنن الترمذی:کتاب الدعوات: رقم الحدیث (٣٤٢٣)قال الترمذی والألبانی: حسن صحیح)۔
غور کیجئے جس طرح اوپر راشدی صاحب کی مستدل حدیث میں ہے :
'' قال: سمع اللہ لمن حمدہ ربنالک الحمد''ٹھیک اسی طرح اس حدیث میں بھی ہے:
قال: ''اللہم ربّنا! لک الحمد'' لیکن اس حدیث میں یہ اسلوب صرف دعاء قومہ ہی کے لئے نہیں بلکہ یہاں ثناء ، رکوع ، سجود ، اور تشہد کی دعاء کو بھی اسی اسلوب میںبیان کیا گیا ہے، لہٰذا اگر ایک جگہ اس اسلوب سے بیان کردہ دعاء میں جہر کی دلیل ہے تو اسی اسلوب سے بیان کردہ دیگر مقامات میں بھی جہر کی دلیل ہونی چاہئے، پھر دریں صورت تو نماز کی ساری ہی دعائیں بالجہر پڑھنی پڑیں گی، اب فریق دوم بتلائیں کہ وہ اس حدیث کے ہوتے ہوئے ثناء ، رکوع ، سجود ، اور تشہد وغیرہ کی دعاؤں کو بلندآواز سے کیوں نہیں پڑھتے؟ فریق دوم جو بھی جواب اس حدیث اور اس جیسی دیگر احادیث کا دیں گے وہی جواب ہمارا اس حدیث کا بھی ہوگا۔
اس جیسی دیگر احادیث کے لئے دیکھیں :
بخاری: ٧٩٤ ۔
مسلم: ـ٤٨٤ ، ٤٨٧ ، ٤٨٩ ، (٧٠٩س) ، (٧٧٢) ۔
نسائی (بترقیم أبی غدہ): ـ(١٠٠٨) ، (١٠٤٦) ، ١٠٤٧ ، (١٠٤٩) ، ١٠٥٠ ، ١٠٥١ ، ١٠٥٢ ، (١٠٦٩س) ، ١١٠٠ ، ١١٢١ ، ١١٢٢ ، ١١٢٣ ، ١١٢٦ ، ١١٢٧ ، ١١٣٠س ، (١١٣٢) ، (١١٤٥) ۔
ترمذی : ـ(٢٦٢) ، ٢٨٤ ۔
ابوداؤد : ـ(٨٧١) ، ٨٧٢ ، ٨٧٣ ، ٨٧٤ ، ٨٨٧ ، ٨٧٨ ۔
ابن ماجہ:ـ ٨٨٨س ، ٨٨٩ ، ٨٩٧ ، ٨٩٨ وغیرہ ذالک کثیر..
جو نمبرات قوسین میں ہیں ان میں صراحت ہے کہ راوی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حالت نماز میں تھے ، اور جن نمبرات کے ساتھ
'' س'' ہے ان میں راوی کے سماع کی صراحت ہے یعنی راوی نے کہا ہے کہ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز میں یہ دعاء پڑھتے ہوئے سنا ۔
اب کیا ان دعاؤں کو بھی بآواز بلند پڑھاجائے گا ؟ پھر تو پوری نماز ہی جہراً ہو جائے گی ، اور اگرنہیں تو ان حدیثوں کا جو مطلب بھی بیان کیاجائے وہی مطلب ابن عمر رضی اللہ عنہ کی حدیث میں بھی سمجھ لیں۔
(ب) :ـ
یہ بات کہ ابن عمر رضی اللہ عنہ دونوں جملوں (
سمع اللہ لمن حمدہ ربنالک الحمد) کو اکٹھا بتاتے تھے ، پھر اس سے یہ استدلال کی دونوں کوجہرپڑھاجائے گا ، اس سلسلے میں عرض ہے کہ جس طرح یہاں تسمیع (سمع اللہ لمن حمدہ) اورتحمید (ربنالک الحمد) اکٹھے مذکور ہیں ، ٹھیک اسی طرح بعض روایات میں تکبیر تحریمہ اور دعاء ثناء بھی اکٹھے ہی مذکور ہیں ، ملاحظہ ہو :
كَانَ إِذَا قَامَ لِلصَّلَاةِ، قَالَ: " اللَّهُ أَكْبَرُ، وَجَّهْتُ وَجْهِيَ لِلَّذِي فَطَرَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ حَنِيفًا وَمَا أَنَا مِنَ الْمُشْرِكِينَ،
... (مسند البزار:ج٢ ص١٦٨ رقم ٥٣٦من حدیث علی واسنادہ صحیح علی شرط مسلم،آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ دعاء فرض اورنفل ساری نمازوں میں پڑھتے تھے دیکھئے:صفة الصلوةللألبانی:ص٨١عربی)۔
اب بتلائے کہ اس روایت سے متعلق مذکورہ طرز استدلال کا کیا تقاضا ہے ؟ کیا دعاء ثنا ء بھی بآواز بلند پڑھیں گے ؟ آخر یہاں بھی تو تکبیر تحریمہ اور دعاء ثنا ء اکٹھے ذکر ہوئے ہیں ! اور کوئی کہہ سکتا ہے کہ پہلے کو جہر اور دوسرے کو سر پر محمول کرنا درست نہیں ! فماکان جوابکم فھوجوابنا۔
اور قابل غوربات یہ ہے کہ علامہ راشدی رحمہ اللہ نے اپنی تائید میں درج ذیل اثر نقل فرما یا ہے :
كَانَ مُحَمَّدٌ، يَقُولُ: «إِذَا قَالَ سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ، قَالَ مَنْ خَلْفَهُ سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ، اللَّهُمَّ رَبَّنَا لَكَ الْحَمْدُ»
(مصنف ابن أبي شيبة 1/ 227رقم٢٦٠٠،نشاط:ص٤٩)۔
ہم کہتے ہیں ذرااس اثر میں غور کریں، اس میں بھی
''سمع اللہ لمن حمدہ اللہم ربنا لک الحمد '' اکٹھے مذکور ہے ،لیکن امام کے لئے نہیں بلکہ مقتدی کے لئے ، اورمحترم راشدی رحمہ اللہ کے نزدیک مقتدیوں کو
''ربنالک الحمد ''بآوازبلند پڑھناچاہئے ،اب بتلائیں کہ کیا مقتدی حضرات
سمع اللہ لمن حمدہ بھی بآواز بلند پڑھیں گے ؟ کیونکہ دونوں اکٹھے مذکور ہیں ! اور آپ کے بقول ایک کو جہر دوسرے کو سر پر محمول نہیں کر سکتے ، چنانچہ شیخ راشدی رحمہ اللہ بھی ایسانہیں کرسکے کہ اس اثر میں
سمع اللہ لمن حمدہ کو سر اور
اللہم ربنا لک الحمد کو جہر پر محمول کریں ، بلکہ موصوف نے اپنے اصول سے مجبور ہو کر
دونوں کو جہر پر محمول کیا ہے، لیکن
سمع اللہ لمن حمدہ کو جہر پرمحمول کرنے کے بعد یہ کہتے ہوئے اسے ردکردیتے ہیں :
'' سمع اللہ لمن حمدہ میں ان (محمد بن سیرین ) کا قول حجت نہیں ،کیونکہ تابعی کا قو ل کسی کے یہاں حجت نہیں ، ہاں ان کا قول تائیداً پیش کیا جا سکتا ہے ، سو جملہ دوم (اللہم ربنا لک الحمد)کے لئے تو احادیث و آثار ثابت ہیں مگر جملۂ اولی (سمع اللہ لمن حمدہ ) کے لئے نہیں ہیں'' ( نشاط العبد:ص٤٩)۔
گویا کہ موصوف کے نزدیک محمد بن سیرین مذکورہ اثر میں مقتدیوں کو
سمع اللہ لمن حمدہ اور
اللہم ربنا لک الحمد دونوں جہر سے پڑھنے کی تعلیم دے رہے ہیں ، قارئین کرام ! ملاحظہ فرمائیے کہ علامہ راشدی رحمہ اللہ کس قدرتکلف سے کام لے رہے ہیں اور محمد بن سیرین کی طرف کیسی عجیب بات منسوب کررہے ہیں ، غورکریں کہ آخر جب پوری امت
سمع اللہ لمن حمدہ سراً پڑھنے پر متفق تھی اورہے ،تو انہوں نے اسے جہراً پڑھنے کا شوشہ کہاں سے چھوڑ دیا ؟ ہم تو کہتے ہیں کہ محمدبن سیرین اس قول سے بری ہیں ، دنیا کے کسی بھی محدث نے ابن سیرین کے اس قول کا یہ مفہوم ہرگز مراد نہیں لیا ہے، دراصل مذکورہ تمام روایات میں راوی کامقصود دعاؤں کاتذکرہ ہے نہ کہ جہر یا سر کے مسائل بیان کرنا، لہٰذاکسی دعاء کوعلیحدہ ذکرکیاجائے دیگردعاؤں کے ساتھ ذکر کیاجائے اس سے جہروسرکے مسائل پرکوئی فرق نہیں پڑتا۔
یہاں تک ہم نے پیش کردہ حدیث پر قائم کئے گئے دونوں استدلالوں کا الگ الگ جواب دے دیا ہے ،اب ذیل میں ہم کچھ اور جوابات تحریر کرتے ہیں ،جن کاتعلق بیک وقت مذکورہ دونوں استدلالات سے ہے :
أولاً:
پیش کردہ حدیث میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا جو عمل منقول ہوا ہے وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا دائمی عمل ہے چنانچہ اسی حدیث سے أہل حدیث رکوع کے بعد رفع الیدین ثابت کرتے ہیں اور لفظ ''کان ''سے ہمیشگی پر استدلال کرتے ہیں ، اوراحناف اس حدیث کو منسوخ مانتے ہیں اور کہتے ہیں کہ آپ نے یہ عمل شروع شروع میں کیا تھا، بہر حال اس بات پر تو سبھی کا اتفاق ہے کہ ا س حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی جن نمازوں کی کیفیت بیانی ہوئی ہے ، ان میںآپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ابتدائی نمازیں قطعی طور پر شامل ہیں گویا کہ اس حدیث سے جہر کاجو مسئلہ ثابت کیا گیا ہے ا س پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم شروع ہی سے عمل پیرا تھے اور اگر یہ بات ہے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ ربنا جہراً پڑھنے کا حکم شروع ہی سے تھا ۔
پھر یہ دیکھ کر عقل حیران رہ جاتی ہے کہ صحابۂ کرام نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس طریقے کو جانتے ہوئے اس پر عمل کیوں نہ کیا ؟ حالانکہ صحابۂ کرام آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتو ں پر عمل کے سب سے زیادہ حریص تھے ! نیز یہ حکم بھی موجود تھا کہ''صلواکمارأیتمونی أصلی'' (بخاری٧٢٤٦)بلکہ علامہ راشدی رحمہ اللہ کے نزدیک صحابہ کے بارے میں یہ خیال کرنا کہ انھوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقے کو جان لینے کے باوجود اس پرعمل نہ کیا ، صحابہ کے بارے میں سؤ ظن ہے ،( نشاط العبد:ص٣٠)بلکہ ایسا گمان ان میں قدح کا موجب ہے، ( نشاط :ص٣٦)۔ اب اس بات کی دلیل ملاحظہ فرمائیے کہ صحابۂ کرام نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب اس اسوہ پر عمل نہیں کیا :
''رفاعہ بن رافع زرقی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک دن ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے نماز پڑھ رہے تھے ، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رکوع سے سر اٹھا کر ''سمع اللہ لمن حمدہ''کہا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے ایک شخص نے کہا: ''ربنا لک الحمدحمدًاکثیرًاطیبًامبارکًا فیہ'' آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز سے فراغت کے بعد فرمایا :'' (نماز میں) کون بول رہا تھا؟'' تو اس شخص نے کہا : میں ، اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : '' میں نے تیس سے زائد فرشتوں کو دیکھا سبھی جلدی کر رہے تھے کہ کون ان کلمات کو پہلے لکھے '' (بخاری:کتاب الاذان:رقم الباب (١٢٦) ،رقم الحدیث(٧٩٩))۔
اس حدیث کے راوی رفاعہ بن رافع الزرقی رضی اللہ عنہ یہ أنصاری صحابی ہیں ان کے خاندان میں سب سے پہلے ان کے والد نے اسلام قبول کیا ، اپنے والد کے بعد انھوں نے اپنی والدہ کے ساتھ ١٢ نبوی میں اسلام قبول کیا ۔(تھذیب التھذیب:ج٣ص٢٤٣رقم ٥٣٠، نیز ملاحظہ ہو : صحابۂ کرام انسائیکلوپیڈیا : ص ٤١٢ ) چونکہ یہ انصاری صحابی ہیں اور رسول اکرم کے ساتھ اپنی باجماعت نماز کا واقعہ بیان کررہے ہیں لہٰذا ظاہر ہے کہ یہ واقعہ مدینہ میں مسجد نبوی کا ہے ،اور نماز کی فرضیت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مدینہ آنے سے قبل مکہ ہی میں واقعہ معراج میں ہوئی ،جس کا مطلب یہ ہوا کہ فرضیت نماز کے بعد سے لیکر اس واقعہ کے پیش آنے تک تمام صحابۂ کرام ربنالک الحمد سراً ہی پڑھتے تھے ، یہ بات ذہن نشین رہے کہ رفاعہ رضی اللہ عنہ نے ایک خاص واقعہ نقل کیا ہے جو پہلی بار پیش آیا تھا اور رفاعہ خود اس میں موجود تھے جب کہ ابن عمر رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا دائمی عمل نقل کیا ہے کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پوری زندگی میں ''ربنالک الحمد'' ایک ہی طرح پڑھاجانامنقول ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قولاًیافعلاً کبھی بھی اس میں دوطرح کی تعلیم نہیں دی ہے لہٰذاابن عمر رضی اللہ عنہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کاجوعمل بیان کیاہے وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کاشروع سے لیکر اخیر تک دائمی عمل ہے ۔
اب حدیث رفاعہ میں غورکیجئے ،علامہ راشدی رحمہ اللہ اور ان کے مؤیدین فرماتے ہیں کہ یہ حدیث اس بارے میں بالکل صریح ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے ایک شخص نے بآواز بلند ربنالک الحمد پڑھا ،(نشاط:العبدص٢٨)۔
ہم کہتے ہیں کہ ساتھ ہی ساتھ یہ حدیث اس بارے میں بھی بالکل صریح ہے کہ آ پ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے ایک صحابی کے علاوہ کسی اور صحابی نے یہ دعاء جہر سے نہیں پڑھی ، کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز کے بعدصر ف ایک ہی شخص کے بارے کہا کہ : من المتکلم ؟(نماز میں کون بول رہا تھا ؟ ) معلوم ہوا کہ یہ صرف ایک ہی شخص کا عمل تھا ، چنانچہ علامہ راشدی رحمہ اللہ نے بھی اس بات کا اعترا ف کیا ہے کہ یہ صرف ایک ہی صحابی کا عمل تھا (نشاط:ص٢٩)،اب سوال یہ ہے کہ اگر پیش کردہ مذکورہ حدیث میں ربنالک الحمدجہر سے پڑھنے کی دلیل تھی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم شروع ہی سے اس پرعمل پیرا تھے تو اس واقعہ میں ایک صحابی کو چھوڑ کر بقیہ تمام صحابہ نے ربنالک الحمدسراً کیوں پڑھا ؟ اور اس واقعہ میں بھی جس صحابی نے جہر سے پڑھا تھا انھوں نے صرف پہلی رکعت میں جہر کیا تھا بقیہ رکعتوں میں وہ اور ان کے ساتھ تمام صحابہ نے سراً ہی پڑھا ، سوال یہ ہے کہ اس واقعہ سے قبل اور اس واقعہ میں صحابۂ کرام نے ربنالک الحمد سراً ہی پڑھا ، آخر کیوں ؟ جبکہ ان کے سامنے آپ کا طریقہ و عمل موجود تھا؟ اس سوال کا دو ہی جواب ہوسکتا ہے،یا تو یہ کہا جائے کہ صحابۂ کرام نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل کو بہتر نہیں سمجھا اور آپ کے فرمان صلوا کمارأیتمونی أصلیکے ہوتے ہوئے بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت کی، یا یہ کہا جائے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ربنالک الحمد سراً ہی پڑھتے تھے لہٰذا صحابۂ کرام کا عمل آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل کے بالکل موافق تھا ۔
پہلی بات کہناصحابہ کرام کی شان میں واضح گستاخی ہے ،اور دوسری بات کہنے سے صحابہ کرام کا عمل رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل کے مطابق اور فرمان رسول
صلواکما رأیتمونی أصلی کے عین موافق قرار پاتا ہے ، لیکن اس صورت میں ابن عمر کی پیش کردہ مذکورہ حدیث میں اس بات کی دلیل نہیں رہ جاتی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جہراًربنالک الحمد پڑھتے تھے، اب قارئین خود فیصلہ کریں کہ وہ کس بات کو اپنائیں گے ،پہلی یا دوسری ؟ رہی یہ بات کہ اس واقعہ کے بعد صحابہ کرام کاعمل کیاتھاتواس کی وضاحت آگے آرہی ہے ، یہاں صرف یہ بتلانامقصود ہے کہ اوپرپیش کردہ حدیث میںجہرکی دلیل نہیں ہے ۔
ثانیاً:
یہ حدیث صرف فرض نمازوں کے لئے اور امام و مقتدی ہی کے لئے نہیں ہے،بلکہ یہ حدیث عام ہے جس میں فرض نمازیں،نفل نمازیں، سب شامل ہیں اسی طرح یہ امام و مقتدی اور منفرد (اکیلے نماز پڑھنے والے)سب کے لئے ہے ،لہٰذا اگر اس حدیث میں امام و مقتدی کے لئے دعاء قومہ بالجہر کا ثبوت ہے ، تو اس میں منفرد (اکیلے نماز پڑھنے والے) کے لئے بھی دعاء قومہ بالجہر کا ثبوت ماننا لازمی ہے، اسی طرح سنن ونوافل میں بھی اس پر عمل ہونا چاہئے کیونکہ مذکورہ حدیث ان نمازوں کو بھی شامل ہے۔
لیکن افسوس ہے کہ اس سے صرف باجماعت نماز وں میں دعاء قومہ بالجہرپراستدلال کیا جاتا ہے ، حالانکہ اس حدیث کی رو سے تنہا فرض پڑھنے والے نیز سنن و نوافل ادا کرنے والے کو بھی دعاء قومہ بآواز بلند پڑھنا چاہئے۔
اور لطف تو یہ ہے کہ دعاء قومہ بالجہر کے قائلین کی مستدل احادیث میں سے ایک حدیث میں بالکل صراحت ہے کہ یہ حالت تمام نمازوں میں ہوتی تھی ،خواہ وہ فرض ہوں یا نہ ہوں ، رمضان کا مہینہ ہو یا کوئی اور ، اس کے باوجود بھی قائلین جہر اس سے صرف با جماعت نماز میں ہی استدلال کرتے ہیں ، چنانچہ محمد امیر علی صاحب نے اپنے موقف کی دوسری دلیل دیتے ہوئے اسی طرح کی درج ذیل حدیث پیش کی ہے :
'' ابو سلمہ بن عبدالرحمان فرماتے ہیں : '' ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ تمام نمازوں میں تکبیر کہا کرتے تھے خواہ وہ فرض ہوں یا نہ ہوں رمضان کا مہینہ ہو یا کوئی اور مہینہ ہو،چنانچہ جب آپ نماز کے لئے کھڑے ہوتے تو تکبیر کہتے، رکوع میں جاتے تو تکبیر کہتے ، پھر ''سمع اللہ لمن حمدہ'' کہتے، اس کے بعد''ربنا لک الحمد''کہتے ''...الخ(بخاری:کتاب الصلوٰة، باب یھوی بالتکبیرحین یسجد)(جریدہ ترجمان : جلد ٢٨ شمارہ ٦ربیع الاول ١٤٢٩ھ ، مارچ،٢٠٠٨ء ص ١٠ ۔ نیز ملاحظہ ہو رسالہ : ''نماز کی متروکہ سنتوں کا احیاء اور بعض اہم مسائل'' ص ١٠)۔
خط کشیدہ الفاظ پر غور کیجئے یہاں یہ صراحت ہے کہ یہ حالت تمام نمازوں کی تھی، اس کے باوجود بھی اس سے صرف مخصوص نمازوں ہی میں استدلال کیا جارہا ہے ، ہم کہتے ہیں کہ اگر ان احادیث میں منفرد اور سنن ونوافل ادا کرنے والے کے لئے دعاء قومہ بآواز بلند پڑھنے کی دلیل نہیں ہے تو ان احادیث کی رو سے با جماعت نماز ادا کرنے والا بھی بلند آواز سے دعاء قومہ نہیں پڑھ سکتا۔