ابن قدامہ
مشہور رکن
- شمولیت
- جنوری 25، 2014
- پیغامات
- 1,772
- ری ایکشن اسکور
- 428
- پوائنٹ
- 198
اشاعرہ
’اشاعرہ‘‘ کے عمومی طور پر وہی عقائد ہیں جو اہل سنت والجماعت کے عقائد ہیں البتہ کئی ایک امور میں وہ اہل سنت سے الگ ہوئے ہیں :
٭کتاب و سنت کو علم الکلام کے قواعد کی بنیاد پر پرکھتے ہیں ۔
٭خبر آحاد کو عقیدہ میں حجت نہیں مانتے ۔
٭اللہ تعالیٰ کی صفات خبریہ کی تاویل کرتے ہیں۔
٭مسئلہ ایمان میں اعمال کو ایمان سے خارج کیا۔
اللہ تعالیٰ کے علو کا انکار ……جہمیہ اور اشعریہ کے مابین فرق
جہمیہ اللہ کی صفت علوّ(بلندہونا) کو تسلیم نہیں کرتے اوربعض سلف نے اسی سبب سے ان کے کفرکی تصریح کی ہے۔اوراشاعرہ نے بھی اس صفت میں غلطی کھائی ۔ لیکن ان دونوں کی غلطی میں کچھ بنیادی فرق ہے :
(الف ):جہمیہ کا انکار تعطیل پر مبنی ہے جبکہ اشاعرہ کا انکار تاویل کے ساتھ ہے ۔
اشاعرہ اللہ تعالیٰ کی صفات کو تسلیم کرتے ہیں البتہ بعض صفات کی وہ تاویل کرتے ہیں ۔تاویل کا معنی علماء نے یوں بیان کیا ہے :
((صرف اللفظ عن ظاھرہ ))(شرح عقیدۃ الواسطیہ لابن عثیمین)
’’لفظ کو اس کے ظاہری معنوں سے کسی اور معنی کی طرف پھیرنا ۔‘‘
جس طرح اللہ تعالیٰ کے اس قول کی تاویل کرنا
﴿ اَلرَّحْمٰنُ عَلَي الْعَرْشِ اسْتَوٰى﴾ (طہ:۵)
’’وہ بے حد رحم والا عرش پر بلند ہوا۔‘‘
یہاں ’’استویٰ کاعربی زبان میں معنی’’ بلند ہونے ‘‘اور’’ قرار پکڑنے ‘‘کے ہیں لہٰذا اگر کوئی استویٰ کا معنی بلند ہونے کی بجائے ’’استولیٰ ‘‘غالب ہوا کرتا ہے تو اس کی یہ تاویل ہے اور مذموم ہے کیونکہ اس دوسرے معنی کے مراد لیے جانے پر کوئی شرعی یا لغوی دلیل دلالت نہیں کرتی ۔
(ب) جہمیہ حلول و اتحاد کی طرف گئے ہیں جبکہ اشاعرہ اس کے قائل نہیں ۔
جہمیہ کہتے ہیں : اللہ عرش پر نہیں ہے بلکہ وہ ہرجگہ میں ہے ،یہ عقیدہ حلول کی بنیاد ہے جبکہ اشاعرہ کا کہنا ہے کہ :اللہ تعالی اُس وقت موجودتھا جب کوئی مکان نہ تھا اوروہ اب بھی اسی حالت میں ہے جس حالت میں مکان کوپیداکرنے سے پہلے تھا۔ وہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالی کے لیے جہت کااثبات نہ کرنے کے یہ معنی نہیں کہ وہ ہرجگہ میں حلول کرگیاہے۔ دوسرے لفظوں میں جہمیہ کی بدعت کفریہ اور اشاعرہ کی بدعت غیر کفریہ ہے ۔
علامہ ابن عثیمین رحمہ اللہ اسی مسئلہ کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
’’بدعت یا تو مکفرہ ہوتی ہے پھر مفسقہ جو کہ درجہ کفر تک نہیں پہنچتی۔اس کی ایک مثال یہ ہے کہ ایک شخص اللہ تعالیٰ کے عرش پر مستوی ہونے کا انکار کردیتا ہے تو اس کی بدعت یقینا کافر کردینے والی ہے کیوں کہ یہ اللہ تعالیٰ کی تکذیب ہے ۔پس ہر وہ شخص جو اللہ تعالیٰ کی کسی صفت یا اسم کا انکار کرتا ہے وہ کافر ہے کیوں کہ وہ اللہ اور اُس کے رسول کو جھٹلانے والا ہے۔
ایک دوسرا آدمی وہ ہے جو اللہ کے عرش پر مستوی ہونے کا تو اقرار کرتا ہے لیکن کہتا ہے کہ استوی کا معنی غلبہ پانا ہے ۔اس کی بدعت مفسقہ ہے یعنی کفر تک نہیں پہنچتی ۔البتہ اگر وہ اس صفت کا صرف یہی معنی جانتا ہے (یعنی اُسے کسی نے اس کا درست معنی نہیں بتلایا اور وہ خود تحقیق کرنے کے بھی قابل نہیں )،یا وہ بحث و تحقیق کے بعد اسی معنی کو حق سمجھتا ہے تب اُسے فاسق بھی نہیں کہا جائے گا ۔‘‘(شرح نُزھۃ النظر لابن عثیمین :۲۵۵)
اس کے ساتھ ساتھ یہ بات بھی قابل ذکرہے کہ اشاعرہ کے صفت علوّ کے انکارمیں بہت سارے فاضل علماء نے بھی ان کی موافقت کی ہے ۔ جیسے حافظ ابن حجرؒ ، امام نووی ، ابن بطال اور امام شاطبی رحمہم اللہ وغیرہ نے صفات کے مسئلے میں خطا کھائی اور اشاعرہ کی موافقت کی، اہل علم نے نہ صرف ان کی اس بات پر تکفیر نہیں کی بلکہ ان ائمہ کو عذر دیتے ہوئے ان کی امامت کو تسلیم کیاہے ۔
حافظ ابن حجررحمہ اللہ کہتے ہیں: ’’یہ کہناکہ ہمارارب آسمان دنیا کی طرف اترتاہے ۔ اس سے بعض لوگوں نے جہت کوثابت کیا اورکہاکہ اس سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالی کی جہت، بلندی والی ہے۔ اور اس کاجمہورنے انکارکیاہے۔ اس لیے کہ جہت کے اثبات سے لازم آئے گاکہ اللہ تعالی کوکسی نہ کسی جگہ نے گھیراہوا ہے ۔ ‘‘(فتح الباری ۔۳۰؍۳)
جیساکہ ابن بطال رحمہ اللہ کہتے ہیں:
’’ اللہ تعالی نہ توخود جسم ہے اورنہ کسی جگہ کا محتاج ہے کہ جس میں وہ اترسکے اورقرارپکڑ سکے۔ کیونکہ اللہ تعالی اس وقت بھی موجودتھا جبکہ کوئی جگہ نہ تھی اوراب بھی وہ اسی حالت پرہی ہے۔ پھراللہ نے مکان(جگہوں ) کوپیداکیا۔ لہٰذایہ بات محال ہے کہ وہ مکان کوپیداکرنے سے پہلے تو اس سے بے نیازتھا ،بعدمیں وہ اس کامحتاج ہوگیا۔ یہ ناممکن ہے۔‘‘ ( شرح صحیح بخاری لابن بطال۔۱۰؍۴۵۳)
امام شاطبی رحمہ اللہ ’’ کتاب الاعتصام ‘‘میں کہتے ہیں:
اللہ کے اعضاء (مثلاً آنکھ، ہاتھ،قدم، چہرہ، محسوسات، جہت وغیرہ جیسی حادث چیزیں جومخلوقات کے لیے ہوتی ہیں )کوثابت کرنا ظاہریوں کامذہب ہے ۔ (الاعتصام۔۳۰۵؍۱)
امام ابن حجر ،ابن بطال اور امام شاطبی رحمہم اللہ کا یہ کلام اس اعتبارسے درست ہے کہ بے شک اللہ تعالی کومخلوقات میں سے کوئی چیزنہیں گھیرسکتی بلکہ وہ ہر چیز پر محیط ہے اوراس سے اوپرہے۔ لیکن اشاعرہ اوران کے موافقین کی خطاکاسبب یہ ہے کہ وہ سمجھنے لگے کہ اللہ تعالی اپنے لیے جو صفت علوّ(بلندی) ثابت کرتے ہیں، اس سے یہ لازم آتاہے کہ وہ مخلوق جہات میں سے کسی جہت میں گھراہواہے۔ چنانچہ انہوں نے صفت علوّ کواپنے حقیقی معنی سے پھیردیا، ایسا کرتے ہوئے وہ اپنے گمان کے مطابق تعارض کودورکررہے تھے اورسمجھ رہے تھے کہ انہوں نے نصوص کے درمیان تطبیق دی ہے۔ حالانکہ اسی دوران وہ ایک زبردست غلطی میں بھی واقع ہوگئے ۔ یعنی ایسی چیز کی تاویل کربیٹھے جس میں تاویل کرنا سنت رسول سے ثابت نہیں ۔
قرآن وحدیث کی صریح نصوص میں باربارایسی باتیں آئی ہیں جن سے صفت علوّ ثابت ہوتی ہے۔ اوریہ ثبوت ایسا ہے کہ تاویل یاتشکیک کی گنجائش نہیں رہتی۔ چنانچہ اس حالت میں ہمارافریضہ یہ ہے کہ ہم اللہ کے لیے ایمان وتسلیم کے ساتھ وہ چیز ثابت کریں جو اللہ تعالی نے بذات خوداپنے نفس کے لیے ثابت کی ہے۔ اوروہ یہ ہے کہ اللہ تعالی مخلوقات کامحتاج نہیں ۔
اشاعرہ کے گمان کے مطابق صفت علوّکے اثبات سے اللہ کی ہستی کی تحدید ، تجسیم اور اس کاجگہ گھیرنا لازم آتاہے ۔ چنانچہ وہ اللہ تعالی کو جہتوں اور جگہوں کے گھیرنے سے پاک قراردیناچاہتے ہیں اوروہ یہ سمجھتے ہیں کہ علوّ کے وصف کامطلب یہ ہے کہ کسی جہت نے اللہ کوگھیراہواہے، چنانچہ جو اللہ کی صفت علوّ کوثابت کرے وہ اس کوفرقہ مجسمہ یامشبہہ میں سے قراردیتے ہیں۔
ان کے تاویل کی وجہ یہ کوشش تھی کہ اللہ کو عیبوں سے پاک قرار دیاجائے، اوریہی سبب ہے جس کی وجہ سے انہوں نے بعض دیگرصفتوں کی بھی تاویل کی۔
وہ اپنی اس غلطی میں اس لیے واقع ہوئے کہ وہ گمان کرتے تھے کہ اللہ کا فرمان (لیس کمثلہ شیء )تقاضا کرتاہے کہ ہم اللہ سے ہراس صفت کی تاویل کریں جومخلوق کے لیے ثابت ہے اگرچہ قرآن وحدیث سے وہ تاویل صراحۃ ً ثابت نہ بھی ہو اور اس کے وہ معنی بیان کریں جن سے تشبیہ لازم نہ آتی ہو ۔
’’ اشاعرہ‘‘ نے استواء، ید، عین ، رجل وغیرہ جیسی صفات میں تاویل کی ہے ،ویسے ہی وہ صفت علوّ میں بھی تاویل کرتے ہیں ۔ مثلاً وہ اللہ کے قول﴿ءَ اَمِنْتُمْ مَّنْ فِي السَّمَاۗءِ ﴾ کے بارے میں کہتے ہیں کہ اس سے مراد وہ فرشتہ ہے جس کی ذمہ داری عذاب دیناہے۔
خلاصہ کلا م یہ ہے کہ اشاعرہ کا صفت علوّ کی تاویل کرناجہمیہ کی نفی سے مختلف ہے۔ چنانچہ ضروری ہے کہ حکم لگانے میں بھی فرق کیاجائے، یہی وجہ ہے کہ اشاعرہ کی ان تاویلات کے باوجود علمائے امت نے اُن کی تکفیر نہیں کی البتہ اس مسئلہ میں انہیں اہل سنت سے خارج قرار دیا ہے ۔ اگرصفت علوّ میں تاویل کی وجہ سے اشاعرہ کی تکفیر جائز ہوتی تو تمام دیگرصفات کی تاویل پر بھی تکفیرجائزہوتی ، کیونکہ ان میں کوئی فرق نہیں۔ علماء کرام ہمیشہ اشاعرہ پر صفات کی تاویل کے مسئلے میں ردّ کرتے رہے ہیں اورصفات کے اثبات اوران پر ایمان کے وجوب پر دلائل دیتے رہے ہیں لیکن ان میں سے کسی نے بھی ان کی تکفیر ذکرنہیں کی، بلکہ امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ تو اشاعرہ کے بارے میں یہاں تک فرماتے ہیں :((لیسوا کفارا باتفاق المسلمین ))(مجموع الفتاوی:۳۵/۱۰۱)’’تمام مسلمانوں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ وہ کافر نہیں ہیں ۔‘‘
اسماء و صفات میں ہر گمراہی اور غلطی سے انسان کافر نہیں ہوتا اسی بات کو امام ابن قتیبہ رحمہ اللہ بیان فرماتے ہیں :
’’قد یغلط في بعض الصفات قوم من المسلمین فلا یکفرون بذلک ‘‘
’’ مسلمانوں میں سے بعض گروہ بعض صفات باری تعالیٰ میں غلطی کا شکار ہوتے ہیں وہ اس غلطی کی وجہ سے کافر قرار نہیں پاتے ۔‘‘(فتح الباری 604/6)
’اشاعرہ‘‘ کے عمومی طور پر وہی عقائد ہیں جو اہل سنت والجماعت کے عقائد ہیں البتہ کئی ایک امور میں وہ اہل سنت سے الگ ہوئے ہیں :
٭کتاب و سنت کو علم الکلام کے قواعد کی بنیاد پر پرکھتے ہیں ۔
٭خبر آحاد کو عقیدہ میں حجت نہیں مانتے ۔
٭اللہ تعالیٰ کی صفات خبریہ کی تاویل کرتے ہیں۔
٭مسئلہ ایمان میں اعمال کو ایمان سے خارج کیا۔
اللہ تعالیٰ کے علو کا انکار ……جہمیہ اور اشعریہ کے مابین فرق
جہمیہ اللہ کی صفت علوّ(بلندہونا) کو تسلیم نہیں کرتے اوربعض سلف نے اسی سبب سے ان کے کفرکی تصریح کی ہے۔اوراشاعرہ نے بھی اس صفت میں غلطی کھائی ۔ لیکن ان دونوں کی غلطی میں کچھ بنیادی فرق ہے :
(الف ):جہمیہ کا انکار تعطیل پر مبنی ہے جبکہ اشاعرہ کا انکار تاویل کے ساتھ ہے ۔
اشاعرہ اللہ تعالیٰ کی صفات کو تسلیم کرتے ہیں البتہ بعض صفات کی وہ تاویل کرتے ہیں ۔تاویل کا معنی علماء نے یوں بیان کیا ہے :
((صرف اللفظ عن ظاھرہ ))(شرح عقیدۃ الواسطیہ لابن عثیمین)
’’لفظ کو اس کے ظاہری معنوں سے کسی اور معنی کی طرف پھیرنا ۔‘‘
جس طرح اللہ تعالیٰ کے اس قول کی تاویل کرنا
﴿ اَلرَّحْمٰنُ عَلَي الْعَرْشِ اسْتَوٰى﴾ (طہ:۵)
’’وہ بے حد رحم والا عرش پر بلند ہوا۔‘‘
یہاں ’’استویٰ کاعربی زبان میں معنی’’ بلند ہونے ‘‘اور’’ قرار پکڑنے ‘‘کے ہیں لہٰذا اگر کوئی استویٰ کا معنی بلند ہونے کی بجائے ’’استولیٰ ‘‘غالب ہوا کرتا ہے تو اس کی یہ تاویل ہے اور مذموم ہے کیونکہ اس دوسرے معنی کے مراد لیے جانے پر کوئی شرعی یا لغوی دلیل دلالت نہیں کرتی ۔
(ب) جہمیہ حلول و اتحاد کی طرف گئے ہیں جبکہ اشاعرہ اس کے قائل نہیں ۔
جہمیہ کہتے ہیں : اللہ عرش پر نہیں ہے بلکہ وہ ہرجگہ میں ہے ،یہ عقیدہ حلول کی بنیاد ہے جبکہ اشاعرہ کا کہنا ہے کہ :اللہ تعالی اُس وقت موجودتھا جب کوئی مکان نہ تھا اوروہ اب بھی اسی حالت میں ہے جس حالت میں مکان کوپیداکرنے سے پہلے تھا۔ وہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالی کے لیے جہت کااثبات نہ کرنے کے یہ معنی نہیں کہ وہ ہرجگہ میں حلول کرگیاہے۔ دوسرے لفظوں میں جہمیہ کی بدعت کفریہ اور اشاعرہ کی بدعت غیر کفریہ ہے ۔
علامہ ابن عثیمین رحمہ اللہ اسی مسئلہ کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
’’بدعت یا تو مکفرہ ہوتی ہے پھر مفسقہ جو کہ درجہ کفر تک نہیں پہنچتی۔اس کی ایک مثال یہ ہے کہ ایک شخص اللہ تعالیٰ کے عرش پر مستوی ہونے کا انکار کردیتا ہے تو اس کی بدعت یقینا کافر کردینے والی ہے کیوں کہ یہ اللہ تعالیٰ کی تکذیب ہے ۔پس ہر وہ شخص جو اللہ تعالیٰ کی کسی صفت یا اسم کا انکار کرتا ہے وہ کافر ہے کیوں کہ وہ اللہ اور اُس کے رسول کو جھٹلانے والا ہے۔
ایک دوسرا آدمی وہ ہے جو اللہ کے عرش پر مستوی ہونے کا تو اقرار کرتا ہے لیکن کہتا ہے کہ استوی کا معنی غلبہ پانا ہے ۔اس کی بدعت مفسقہ ہے یعنی کفر تک نہیں پہنچتی ۔البتہ اگر وہ اس صفت کا صرف یہی معنی جانتا ہے (یعنی اُسے کسی نے اس کا درست معنی نہیں بتلایا اور وہ خود تحقیق کرنے کے بھی قابل نہیں )،یا وہ بحث و تحقیق کے بعد اسی معنی کو حق سمجھتا ہے تب اُسے فاسق بھی نہیں کہا جائے گا ۔‘‘(شرح نُزھۃ النظر لابن عثیمین :۲۵۵)
اس کے ساتھ ساتھ یہ بات بھی قابل ذکرہے کہ اشاعرہ کے صفت علوّ کے انکارمیں بہت سارے فاضل علماء نے بھی ان کی موافقت کی ہے ۔ جیسے حافظ ابن حجرؒ ، امام نووی ، ابن بطال اور امام شاطبی رحمہم اللہ وغیرہ نے صفات کے مسئلے میں خطا کھائی اور اشاعرہ کی موافقت کی، اہل علم نے نہ صرف ان کی اس بات پر تکفیر نہیں کی بلکہ ان ائمہ کو عذر دیتے ہوئے ان کی امامت کو تسلیم کیاہے ۔
حافظ ابن حجررحمہ اللہ کہتے ہیں: ’’یہ کہناکہ ہمارارب آسمان دنیا کی طرف اترتاہے ۔ اس سے بعض لوگوں نے جہت کوثابت کیا اورکہاکہ اس سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالی کی جہت، بلندی والی ہے۔ اور اس کاجمہورنے انکارکیاہے۔ اس لیے کہ جہت کے اثبات سے لازم آئے گاکہ اللہ تعالی کوکسی نہ کسی جگہ نے گھیراہوا ہے ۔ ‘‘(فتح الباری ۔۳۰؍۳)
جیساکہ ابن بطال رحمہ اللہ کہتے ہیں:
’’ اللہ تعالی نہ توخود جسم ہے اورنہ کسی جگہ کا محتاج ہے کہ جس میں وہ اترسکے اورقرارپکڑ سکے۔ کیونکہ اللہ تعالی اس وقت بھی موجودتھا جبکہ کوئی جگہ نہ تھی اوراب بھی وہ اسی حالت پرہی ہے۔ پھراللہ نے مکان(جگہوں ) کوپیداکیا۔ لہٰذایہ بات محال ہے کہ وہ مکان کوپیداکرنے سے پہلے تو اس سے بے نیازتھا ،بعدمیں وہ اس کامحتاج ہوگیا۔ یہ ناممکن ہے۔‘‘ ( شرح صحیح بخاری لابن بطال۔۱۰؍۴۵۳)
امام شاطبی رحمہ اللہ ’’ کتاب الاعتصام ‘‘میں کہتے ہیں:
اللہ کے اعضاء (مثلاً آنکھ، ہاتھ،قدم، چہرہ، محسوسات، جہت وغیرہ جیسی حادث چیزیں جومخلوقات کے لیے ہوتی ہیں )کوثابت کرنا ظاہریوں کامذہب ہے ۔ (الاعتصام۔۳۰۵؍۱)
امام ابن حجر ،ابن بطال اور امام شاطبی رحمہم اللہ کا یہ کلام اس اعتبارسے درست ہے کہ بے شک اللہ تعالی کومخلوقات میں سے کوئی چیزنہیں گھیرسکتی بلکہ وہ ہر چیز پر محیط ہے اوراس سے اوپرہے۔ لیکن اشاعرہ اوران کے موافقین کی خطاکاسبب یہ ہے کہ وہ سمجھنے لگے کہ اللہ تعالی اپنے لیے جو صفت علوّ(بلندی) ثابت کرتے ہیں، اس سے یہ لازم آتاہے کہ وہ مخلوق جہات میں سے کسی جہت میں گھراہواہے۔ چنانچہ انہوں نے صفت علوّ کواپنے حقیقی معنی سے پھیردیا، ایسا کرتے ہوئے وہ اپنے گمان کے مطابق تعارض کودورکررہے تھے اورسمجھ رہے تھے کہ انہوں نے نصوص کے درمیان تطبیق دی ہے۔ حالانکہ اسی دوران وہ ایک زبردست غلطی میں بھی واقع ہوگئے ۔ یعنی ایسی چیز کی تاویل کربیٹھے جس میں تاویل کرنا سنت رسول سے ثابت نہیں ۔
قرآن وحدیث کی صریح نصوص میں باربارایسی باتیں آئی ہیں جن سے صفت علوّ ثابت ہوتی ہے۔ اوریہ ثبوت ایسا ہے کہ تاویل یاتشکیک کی گنجائش نہیں رہتی۔ چنانچہ اس حالت میں ہمارافریضہ یہ ہے کہ ہم اللہ کے لیے ایمان وتسلیم کے ساتھ وہ چیز ثابت کریں جو اللہ تعالی نے بذات خوداپنے نفس کے لیے ثابت کی ہے۔ اوروہ یہ ہے کہ اللہ تعالی مخلوقات کامحتاج نہیں ۔
اشاعرہ کے گمان کے مطابق صفت علوّکے اثبات سے اللہ کی ہستی کی تحدید ، تجسیم اور اس کاجگہ گھیرنا لازم آتاہے ۔ چنانچہ وہ اللہ تعالی کو جہتوں اور جگہوں کے گھیرنے سے پاک قراردیناچاہتے ہیں اوروہ یہ سمجھتے ہیں کہ علوّ کے وصف کامطلب یہ ہے کہ کسی جہت نے اللہ کوگھیراہواہے، چنانچہ جو اللہ کی صفت علوّ کوثابت کرے وہ اس کوفرقہ مجسمہ یامشبہہ میں سے قراردیتے ہیں۔
ان کے تاویل کی وجہ یہ کوشش تھی کہ اللہ کو عیبوں سے پاک قرار دیاجائے، اوریہی سبب ہے جس کی وجہ سے انہوں نے بعض دیگرصفتوں کی بھی تاویل کی۔
وہ اپنی اس غلطی میں اس لیے واقع ہوئے کہ وہ گمان کرتے تھے کہ اللہ کا فرمان (لیس کمثلہ شیء )تقاضا کرتاہے کہ ہم اللہ سے ہراس صفت کی تاویل کریں جومخلوق کے لیے ثابت ہے اگرچہ قرآن وحدیث سے وہ تاویل صراحۃ ً ثابت نہ بھی ہو اور اس کے وہ معنی بیان کریں جن سے تشبیہ لازم نہ آتی ہو ۔
’’ اشاعرہ‘‘ نے استواء، ید، عین ، رجل وغیرہ جیسی صفات میں تاویل کی ہے ،ویسے ہی وہ صفت علوّ میں بھی تاویل کرتے ہیں ۔ مثلاً وہ اللہ کے قول﴿ءَ اَمِنْتُمْ مَّنْ فِي السَّمَاۗءِ ﴾ کے بارے میں کہتے ہیں کہ اس سے مراد وہ فرشتہ ہے جس کی ذمہ داری عذاب دیناہے۔
خلاصہ کلا م یہ ہے کہ اشاعرہ کا صفت علوّ کی تاویل کرناجہمیہ کی نفی سے مختلف ہے۔ چنانچہ ضروری ہے کہ حکم لگانے میں بھی فرق کیاجائے، یہی وجہ ہے کہ اشاعرہ کی ان تاویلات کے باوجود علمائے امت نے اُن کی تکفیر نہیں کی البتہ اس مسئلہ میں انہیں اہل سنت سے خارج قرار دیا ہے ۔ اگرصفت علوّ میں تاویل کی وجہ سے اشاعرہ کی تکفیر جائز ہوتی تو تمام دیگرصفات کی تاویل پر بھی تکفیرجائزہوتی ، کیونکہ ان میں کوئی فرق نہیں۔ علماء کرام ہمیشہ اشاعرہ پر صفات کی تاویل کے مسئلے میں ردّ کرتے رہے ہیں اورصفات کے اثبات اوران پر ایمان کے وجوب پر دلائل دیتے رہے ہیں لیکن ان میں سے کسی نے بھی ان کی تکفیر ذکرنہیں کی، بلکہ امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ تو اشاعرہ کے بارے میں یہاں تک فرماتے ہیں :((لیسوا کفارا باتفاق المسلمین ))(مجموع الفتاوی:۳۵/۱۰۱)’’تمام مسلمانوں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ وہ کافر نہیں ہیں ۔‘‘
اسماء و صفات میں ہر گمراہی اور غلطی سے انسان کافر نہیں ہوتا اسی بات کو امام ابن قتیبہ رحمہ اللہ بیان فرماتے ہیں :
’’قد یغلط في بعض الصفات قوم من المسلمین فلا یکفرون بذلک ‘‘
’’ مسلمانوں میں سے بعض گروہ بعض صفات باری تعالیٰ میں غلطی کا شکار ہوتے ہیں وہ اس غلطی کی وجہ سے کافر قرار نہیں پاتے ۔‘‘(فتح الباری 604/6)