• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

” جنتی فرقہ “ کون سا ہے ؟

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,409
پوائنٹ
562

حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عُثْمَانَ بْنِ سَعِيدِ بْنِ کَثِيرِ بْنِ دِينَارٍ الْحِمْصِيُّ حَدَّثَنَا عَبَّادُ بْنُ يُوسُفَ حَدَّثَنَا صَفْوَانُ بْنُ عَمْرٍو عَنْ رَاشِدِ بْنِ سَعْدٍ عَنْ عَوْفِ بْنِ مَالِکٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ افْتَرَقَتْ الْيَهُودُ عَلَی إِحْدَی وَسَبْعِينَ فِرْقَةً فَوَاحِدَةٌ فِي الْجَنَّةِ وَسَبْعُونَ فِي النَّارِ وَافْتَرَقَتْ النَّصَارَی عَلَی ثِنْتَيْنِ وَسَبْعِينَ فِرْقَةً فَإِحْدَی وَسَبْعُونَ فِي النَّارِ وَوَاحِدَةٌ فِي الْجَنَّةِ وَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ لَتَفْتَرِقَنَّ أُمَّتِي عَلَی ثَلَاثٍ وَسَبْعِينَ فِرْقَةً وَاحِدَةٌ فِي الْجَنَّةِ وَثِنْتَانِ وَسَبْعُونَ فِي النَّارِ قِيلَ يَا رَسُولَ اللَّهِ مَنْ هُمْ قَالَ الْجَمَاعَةُ

عمرو بن عثمان بن سعید بن کثیر بن دینارحمصی، عباد بن یوسف، صفوان بن عمرو، راشد بن سعد، حضرت عوف بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا یہود کے اکہتر فرقے ہوئے ان میں ایک جنتی ہے اور ستر دوزخی ہیں اور نصاری کے بہتر فرقے ہوئے ان میں اکہتر دوزخی ہیں اور ایک جنت میں جائے گا قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ میں محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی جان ہے میری امت کے تہتر فرقے ہوں گے ایک فرقہ جنت میں جائے گا اور بہتر دوزخی ہوں گے۔ کسی نے عرض کیا اے اللہ کے رسول! جنتی کون ہوں گے؟ فرمایا الْجَمَاعَةُ۔ (سنن ابن ماجہ، کتاب فتنوں کا بیان)

امت میں 73 فرقوں کی پیشنگوئی اور ان میں سے 72 فرقوں کے جہنمی اور ایک ”فرقہ“ کے جنتی ہونے سے متعلق بہت سی احادیث میں سے ایک حدیث یہ بھی ہے​
 

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,409
پوائنٹ
562
اس قسم کی جملہ احادیث کو تقریباً تمام فرقے بیان کرتے ہیں اور ”اپنے والے فرقے“ کو وہ ”واحد فرقہ“ قرار دیتے ہیں، جسے حدیث میں ”جنتی“ قرار دیا گیا ہے۔ یوں اپنی اپنی جگہ سارے فرقے ”مطمئن“ ہیں۔
 

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,409
پوائنٹ
562
قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ نے دو ٹوک الفاظ میں ”تفرقہ“ کی ممانعت کی ہے۔
سُوۡرَةُ آل عِمرَان ۔ 103 : وَٱعۡتَصِمُواْ بِحَبۡلِ ٱللَّهِ جَمِيعً۬ا وَلَا تَفَرَّقُواْ‌ۚ

گویا ”تفرقہ بازی“، قرآن کی رو سے حرام ہوئی۔

متذکرہ بالا احادیث کا ”پہلا حصہ“ بھی اس قرآنی حکم سے ”ہم آہنگ“ ہے کہ 72 فرقے جہنم میں جائیں گے ۔ کیونکہ اسلام میں تفرقہ منع ہے لہٰذا جو ایسا کرے گا وہ جہنمی ہوگا۔

اس حدیث کے دوسرے حصہ کے الفاظ ”ایک فرقہ جنتی ہوگا“ بظاہر قرآنی حکم سے مطابقت نہیں رکھتا کہ قرآن کہتا ہے کہ ”لا تفرقو“ اور حدیث کا یہ حصہ کہتا ہے کہ ”ایک فرقہ جنتی ہے“ ۔

گو کہ اس ایک ”جنتی فرقہ“ کی آگے مختلف الفاظ میں وضاحت بھی کی گئی ہے ۔ ۔ ۔ جیسے ”الجماعت“ ، وہ لوگ جو میری اورے صحابہ کے نقش قدم پر چلیں گے وغیرہ وغیرہ

میرا یہ ”خیال“ ہے کہ ”
فِرْقَةً وَاحِدَةٌ فِي الْجَنَّةِ “ میں لفظ ”فرقہ“ گروپ یا گروہ، کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔ یعنی صرف وہ گروپ ۔ ۔ ۔ صرف وہ گروہ ۔ ۔ ۔ جنت میں جائیں گے جو ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

جبکہ جن ”72 فرقوں“ کے جہنمی ہونے کی وعید سنائی گئی ہے، وہ وہی ”روایتی فرقے“ ہیں، جن کی قرآن ممانعت کرتا ہے۔ یعنی دین اسلام کو چھوڑ کر مختلف ناموں سے فرقے بنانے والے 72 ہوں یا اس سے زائد، یہ سب کے سب جہنمی ہوں گے۔ سوائے اُس ”واحد گروپ“ کے (مسلمانوں کے) جو فرقہ بندی سے دور رہ کر قرآن و سنت پر مبنی اسلام پر عمل پیرا ہوں گے۔

کیا اہل علم اس بات کی وضاحت کریں گے کہ ان احادیث میں ”واحد فرقہ“ میں لفظ ”فرقہ“ مروجہ فرقہ کے معنی میں ہی استعمال ہوا ہے (جو قرآنی حکم ”لا تفرقو“ سے ہم آہنگ نظر نہیں آتا) یا یہاں لفظ ”فرقہ“ گروہ اور گروپ وغیرہ کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔​
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,588
پوائنٹ
791
درج ذیل حدیث ،،اوپر والی حدیث کے ساتھ رکھ کر پڑھیں ،ان شاء اللہ حدیث کا صحیح مرادی معنی سامنے آجائے گا ۔

عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَيَأْتِيَنَّ عَلَى أُمَّتِي مَا أَتَى عَلَى بَنِي إِسْرَائِيلَ حَذْوَ النَّعْلِ بِالنَّعْلِ حَتَّى إِنَّ كَانَ مِنْهُمْ مَنْ أَتَى أُمَّهُ عَلَانِيَةً لَكَانَ فِي أُمَّتِي مَنْ يَصْنَعُ ذَلِكَ وَإِنَّ بَنِي إِسْرَائِيلَ تَفَرَّقَتْ عَلَى ثِنْتَيْنِ وَسَبْعِينَ مِلَّةً وَتَفْتَرِقُ أُمَّتِي عَلَى ثَلَاثٍ وَسَبْعِينَ مِلَّةً كُلُّهُمْ فِي النَّارِ إِلَّا مِلَّةً وَاحِدَةً قَالُوا وَمن هِيَ يَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ مَا أَنَا عَلَيْهِ وأصحابي» . رَوَاهُ التِّرْمِذِيّ
میری امت پر بھی وہی حالات آئیں گے ،جو بنی اسرائیل پر آئے تھے ،اور یہ حالات اس درجہ ان کے مشابہ ہوں گے ،
جس طرح ایک جوتی ،دوسری جوتی کے برابر ہوتی ہے ،،حتی کہ ان میں کوئی بد بخت اپنی ماں سے اعلانیہ برائی کا مرتکب ہوا تھا ،
تو اس امت میں بھی اس جیسا آئے گا ۔
اور بنی اسرائیل میں بہتر (72) فرقے بن گئے تھے ۔جبکہ میری امت میں تہتر (73)بنیں گے ،
اور یہ سارے فرقے جہنمی ہوں گے ۔سوائے ایک جماعت کے ،،،
صحابہ کرام نے پوچھا ،وہ کون سے لوگ ہیں ،جو ان فرقوں میں جہنمی نہیں ؟
فرمایا :جو اس دین پر ہونگے جس پر آج میں ،اور میرے صحابہ ہیں ،
 

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,409
پوائنٹ
562
جزاک اللہ اسحاق سلفی برادر

عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَيَأْتِيَنَّ عَلَى أُمَّتِي مَا أَتَى عَلَى بَنِي إِسْرَائِيلَ حَذْوَ النَّعْلِ بِالنَّعْلِ حَتَّى إِنَّ كَانَ مِنْهُمْ مَنْ أَتَى أُمَّهُ عَلَانِيَةً لَكَانَ فِي أُمَّتِي مَنْ يَصْنَعُ ذَلِكَ وَإِنَّ بَنِي إِسْرَائِيلَ تَفَرَّقَتْ عَلَى ثِنْتَيْنِ وَسَبْعِينَ مِلَّةً وَتَفْتَرِقُ أُمَّتِي عَلَى ثَلَاثٍ وَسَبْعِينَ مِلَّةً كُلُّهُمْ فِي النَّارِ إِلَّا مِلَّةً وَاحِدَةً قَالُوا وَمن هِيَ يَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ مَا أَنَا عَلَيْهِ وأصحابي» . رَوَاهُ التِّرْمِذِيّ

یہاں بھی میرا سوال وہی ہے۔ کیا تینوں جگہ لفظ مِلَّةً کے ایک ہی معنی ہیں ؟ یا ابتدائی دو الفاظ ”ہم معنی“ اور تیسرا ان سے جدا معنی رکھتا ہے ۔

سارے فرقے جہنمی ہوں گے ۔سوائے ایک جماعت کے ،،،جو اس دین پر ہونگے جس پر آج میں ،اور میرے صحابہ ہیں ،
آپ شاید میرا سوال نہیں سمجھ پائے : آپ کا لکھا ہوا ترجمہ تو واضح اور صاف ہے، حقیقت بھی یہی ہے۔ لیکن یہ اس صورت میں ہے، جب ایک ہی لفظ کے دو الگ الگ ترجمے کئے جائیں۔ اگر دونوں جگہ ایک ہی ترجمہ کیا جائے، ”مسئلہ“ تب پیدا ہوتا ہے اور جملہ فرقہ پرست جماعتیں اپنے آپ کو ”جنتی فرقہ“ قرار دیکر اپنے اپنے فرقہ کا ”جواز“ پیش کرتی ہیں۔ یوں فرقہ پرستی پھیلتی پھولتی جارہی ہے۔
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,588
پوائنٹ
791
قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ نے دو ٹوک الفاظ میں ”تفرقہ“ کی ممانعت کی ہے۔
سُوۡرَةُ آل عِمرَان ۔ 103 : وَٱعۡتَصِمُواْ بِحَبۡلِ ٱللَّهِ جَمِيعً۬ا وَلَا تَفَرَّقُواْ‌ۚ

گویا ”تفرقہ بازی“، قرآن کی رو سے حرام ہوئی۔


متذکرہ بالا احادیث کا ”پہلا حصہ“ بھی اس قرآنی حکم سے ”ہم آہنگ“ ہے کہ 72 فرقے جہنم میں جائیں گے ۔ کیونکہ اسلام میں تفرقہ منع ہے لہٰذا جو ایسا کرے گا وہ جہنمی ہوگا۔

اس حدیث کے دوسرے حصہ کے الفاظ ”ایک فرقہ جنتی ہوگا“ بظاہر قرآنی حکم سے مطابقت نہیں رکھتا کہ قرآن کہتا ہے کہ ”لا تفرقو“ اور حدیث کا یہ حصہ کہتا ہے کہ ”ایک فرقہ جنتی ہے“ ۔

گو کہ اس ایک ”جنتی فرقہ“ کی آگے مختلف الفاظ میں وضاحت بھی کی گئی ہے ۔ ۔ ۔ جیسے ”الجماعت“ ، وہ لوگ جو میری اورے صحابہ کے نقش قدم پر چلیں گے وغیرہ وغیرہ

میرا یہ ”خیال“ ہے کہ ”
فِرْقَةً وَاحِدَةٌ فِي الْجَنَّةِ “ میں لفظ ”فرقہ“ گروپ یا گروہ، کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔ یعنی صرف وہ گروپ ۔ ۔ ۔ صرف وہ گروہ ۔ ۔ ۔ جنت میں جائیں گے جو ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

جبکہ جن ”72 فرقوں“ کے جہنمی ہونے کی وعید سنائی گئی ہے، وہ وہی ”روایتی فرقے“ ہیں، جن کی قرآن ممانعت کرتا ہے۔ یعنی دین اسلام کو چھوڑ کر مختلف ناموں سے فرقے بنانے والے 72 ہوں یا اس سے زائد، یہ سب کے سب جہنمی ہوں گے۔ سوائے اُس ”واحد گروپ“ کے (مسلمانوں کے) جو فرقہ بندی سے دور رہ کر قرآن و سنت پر مبنی اسلام پر عمل پیرا ہوں گے۔

کیا اہل علم اس بات کی وضاحت کریں گے کہ ان احادیث میں ”واحد فرقہ“ میں لفظ ”فرقہ“ مروجہ فرقہ کے معنی میں ہی استعمال ہوا ہے (جو قرآنی حکم ”لا تفرقو“ سے ہم آہنگ نظر نہیں آتا) یا یہاں لفظ ”فرقہ“ گروہ اور گروپ وغیرہ کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔​
جزاک اللہ خیراً

( وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِيعًا وَلَا تَفَرَّقُوا )اور سب مل کر اللہ کی رسی (یعنی قرآن و سنت ) کو مضبوطی سے تھامے رکھو ،اور فرقہ ،فرقہ مت بنو)
اس میں جو ( وَلَا تَفَرَّقُوا ۔) ہے ،اس کا آخری الف ضرور لکھنا ہوگا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک اہم بات جو اس ضمن میں مد نظر رکھنی ضروری ہے ،کہ افتراق اور اختلاف کا چولی ،دامن کا تعلق ہے ،
ہرفرقہ کسی نہ کسی اختلاف کےنتیجے میں وجود میں آیا ۔
لیکن اختلاف کی ایک نوعیت اس سے علیحدہ بھی موجود ہے ،جہاں اختلاف تو کیا گیا ،لیکن فرقہ نہیں بنا ،
جیسے دور صحابہ میں چند مسائل پر اختلاف ،یا ائمہ اہل حدیث کا کچھ فروعی مسائل میں مختلف ہونا ۔
((الفرق بين الافتراق والاختلاف أمر مهم جدًا، وينبغي أن يعنى به أهل العلم؛ لأن كثيرًا من الناس خاصة بعض الدعاة وبعض طلاب العلم الذين لم يكتمل فقههم في الدين، لا يفرقون بين مسائل الخلاف ومسائل الافتراق، ومن هنا قد يرتب بعضهم على مسائل الاختلاف أحكام الافتراق، وهذا خطأ فاحش أصله الجهل بأصول الخ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
افتراق و اختلاف کا اصطلاحی مفہوم کیا ہے ؟
ڈاکٹر ناصر العقل لکھتے ہیں :
الافتراق في اللغة: من المفارقة وهي المباينة والمفاصلة والانقطاع، والافتراق أيضًا مأخوذ من الانشعاب والشذوذ ومنه الخروج عن الأصل، والخروج عن الجادة، والخروج عن الجماعة.
وفي الاصطلاح: الافتراق هو الخروج عن السنة والجماعة في أصل أو أكثر من أصول الدين القطعية، سواءً كانت الأصول الاعتقادية، أو الأصول العملية المتعلقة بالقطعيات،
یعنی افتراق ،کا معنی علیحدگی اور جدائی اختیار کرنا ،قطع تعلق کرنا
اور افتراق ،انشعاب یعنی شاخوں میں ہونا پہلے ایک ’’تنا تھا ‘‘ پھر اس کی کئی شاخیں نکل پڑیں،اور شاذ یعنی ،تنہا منفرد اورالگ تھلگ ہونا
اور کسی چیز یا بندہ کا ۔اپنی اصل سے خارج ہونا ،یا متعین راہ سے ہٹنا اور جماعۃ سے نکلنا‘‘
اور اصطلاحاً :افتراق کا مطلب ہے ۔قرآن و سنت اور جماعت صحابہ سے کسی اصل یعنی بنیادی اور عقیدہ کی بات میں خروج،یا اکثر مسائل قطعیہ میں ان کے راستے سے ہٹ جانا ۔مسائل خواہ اعتقادی،یا قطعیات سے ثابت عملی مسائل ہوں ۔))
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,588
پوائنٹ
791
جزاک اللہ اسحاق سلفی برادر

عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَيَأْتِيَنَّ عَلَى أُمَّتِي مَا أَتَى عَلَى بَنِي إِسْرَائِيلَ حَذْوَ النَّعْلِ بِالنَّعْلِ حَتَّى إِنَّ كَانَ مِنْهُمْ مَنْ أَتَى أُمَّهُ عَلَانِيَةً لَكَانَ فِي أُمَّتِي مَنْ يَصْنَعُ ذَلِكَ وَإِنَّ بَنِي إِسْرَائِيلَ تَفَرَّقَتْ عَلَى ثِنْتَيْنِ وَسَبْعِينَ مِلَّةً وَتَفْتَرِقُ أُمَّتِي عَلَى ثَلَاثٍ وَسَبْعِينَ مِلَّةً كُلُّهُمْ فِي النَّارِ إِلَّا مِلَّةً وَاحِدَةً قَالُوا وَمن هِيَ يَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ مَا أَنَا عَلَيْهِ وأصحابي» . رَوَاهُ التِّرْمِذِيّ

یہاں بھی میرا سوال وہی ہے۔ کیا تینوں جگہ لفظ مِلَّةً کے ایک ہی معنی ہیں ؟ یا ابتدائی دو الفاظ ”ہم معنی“ اور تیسرا ان سے جدا معنی رکھتا ہے ۔



آپ شاید میرا سوال نہیں سمجھ پائے : آپ کا لکھا ہوا ترجمہ تو واضح اور صاف ہے، حقیقت بھی یہی ہے۔ لیکن یہ اس صورت میں ہے، جب ایک ہی لفظ کے دو الگ الگ ترجمے کئے جائیں۔ اگر دونوں جگہ ایک ہی ترجمہ کیا جائے، ”مسئلہ“ تب پیدا ہوتا ہے اور جملہ فرقہ پرست جماعتیں اپنے آپ کو ”جنتی فرقہ“ قرار دیکر اپنے اپنے فرقہ کا ”جواز“ پیش کرتی ہیں۔ یوں فرقہ پرستی پھیلتی پھولتی جارہی ہے۔
لفظ ( ملۃ ) جس جمع (ملل ) آتی ہے ،اس مفہوم کو سمجھنے کے ذیل کی عبارت دیکھیں :
مِلَّة [مفرد]: ج مِلَل:
1 - شريعة أو دين، وهي اسم لما شرَّع اللهُ لعباده بوساطةِ أنبيائه؛ ليتوصّلوا به إلى السّعادة في الدنيا والآخرة "مِلَّةُ الإسلام/ النصرانيّة- {لَنُخْرِجَنَّكُمْ مِنْ أَرْضِنَا أَوْ لَتَعُودُنَّ فِي مِلَّتِنَا} ".
2 - طائفة دينيّة، مجموعة متِّحدة بعقيدة مشتركة وتحت اسم واحد " {إِنَّهُمْ إِنْ يَظْهَرُوا عَلَيْكُمْ يَرْجُمُوكُمْ أَوْ يُعِيدُوكُمْ فِي مِلَّتِهِمْ} ".

یعنی لفظ (ملۃ ) کے دو ہی معنی ہیں
(۱) شریعت ،دین ۔یعنی وہ دستور جو اللہ نے اپنے بندوں کے لئے انبیاء کے
ذریعہ مقرر فرمایا ،تاکہ دنیا و آخرت کی سعادتیں سیمٹ سکیں۔
(۲)دینی جماعت اور گروہ ،جو کسی ایک عقیدہ ،پر ایک نام سے مجتمع ہوں ،انہیں بھی (ملۃ ) کہا جاتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسی دوسرے معنے کے لحاظ سے اس موضوع پر اسی نام سے کتب لکھی گئیں ،مثلاً
الملل و النحل ،،عبد الکریم شہرستانی کی
 

عمر اثری

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 29، 2015
پیغامات
4,404
ری ایکشن اسکور
1,137
پوائنٹ
412
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
محترم شیخ @اسحاق سلفی صاحب.
میں سمجھ نہ سکا.
کیا اہل علم اس بات کی وضاحت کریں گے کہ ان احادیث میں ”واحد فرقہ“ میں لفظ ”فرقہ“ مروجہ فرقہ کے معنی میں ہی استعمال ہوا ہے (جو قرآنی حکم ”لا تفرقو“ سے ہم آہنگ نظر نہیں آتا) یا یہاں لفظ ”فرقہ“ گروہ اور گروپ وغیرہ کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔
اگر کسی کتاب کی طرف رہنمائ فرمائیں تو زیادہ بہتر ھوگا. کتاب اردو میں ھو.
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,588
پوائنٹ
791
اگر کسی کتاب کی طرف رہنمائ فرمائیں تو زیادہ بہتر ھوگا. کتاب اردو میں ھو.
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
آپ اس موضوع پر
"الملل و النحل ،،عبد الکریم شہرستانی کی ، جو محدث لائبریری میں ترجمہ کے ساتھ موجود ہے
اسی طرح "الفصل فی الملل و النحل ،،امام ابن حزم ؒ کی پڑھیں ،
ایک اور کتاب جو میری لائبریری میں کافی عرصہ سے موجودہے " الفرق بین الفرق " وہ بھی مفید اور جامع ہے؛
باقی موضوع پر وقت ملتے ہی عرض کرتا ہوں ۔۔۔ان شاء اللہ
 

عمر اثری

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 29، 2015
پیغامات
4,404
ری ایکشن اسکور
1,137
پوائنٹ
412
Top