قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ نے دو ٹوک الفاظ میں ”تفرقہ“ کی ممانعت کی ہے۔
سُوۡرَةُ آل عِمرَان ۔ 103 : وَٱعۡتَصِمُواْ بِحَبۡلِ ٱللَّهِ جَمِيعً۬ا وَلَا تَفَرَّقُواْۚ
گویا ”تفرقہ بازی“، قرآن کی رو سے حرام ہوئی۔
متذکرہ بالا احادیث کا ”پہلا حصہ“ بھی اس قرآنی حکم سے ”ہم آہنگ“ ہے کہ 72 فرقے جہنم میں جائیں گے ۔ کیونکہ اسلام میں تفرقہ منع ہے لہٰذا جو ایسا کرے گا وہ جہنمی ہوگا۔
اس حدیث کے دوسرے حصہ کے الفاظ ”ایک فرقہ جنتی ہوگا“ بظاہر قرآنی حکم سے مطابقت نہیں رکھتا کہ قرآن کہتا ہے کہ ”لا تفرقو“ اور حدیث کا یہ حصہ کہتا ہے کہ ”ایک فرقہ جنتی ہے“ ۔
گو کہ اس ایک ”جنتی فرقہ“ کی آگے مختلف الفاظ میں وضاحت بھی کی گئی ہے ۔ ۔ ۔ جیسے ”الجماعت“ ، وہ لوگ جو میری اورے صحابہ کے نقش قدم پر چلیں گے وغیرہ وغیرہ
میرا یہ ”خیال“ ہے کہ ”
فِرْقَةً وَاحِدَةٌ فِي الْجَنَّةِ “ میں لفظ ”فرقہ“ گروپ یا گروہ، کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔ یعنی صرف وہ گروپ ۔ ۔ ۔ صرف وہ گروہ ۔ ۔ ۔ جنت میں جائیں گے جو ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
جبکہ جن ”72 فرقوں“ کے جہنمی ہونے کی وعید سنائی گئی ہے، وہ وہی ”روایتی فرقے“ ہیں، جن کی قرآن ممانعت کرتا ہے۔ یعنی دین اسلام کو چھوڑ کر مختلف ناموں سے فرقے بنانے والے 72 ہوں یا اس سے زائد، یہ سب کے سب جہنمی ہوں گے۔ سوائے اُس ”واحد گروپ“ کے (مسلمانوں کے) جو فرقہ بندی سے دور رہ کر قرآن و سنت پر مبنی اسلام پر عمل پیرا ہوں گے۔
کیا اہل علم اس بات کی وضاحت کریں گے کہ ان احادیث میں ”واحد فرقہ“ میں لفظ ”فرقہ“ مروجہ فرقہ کے معنی میں ہی استعمال ہوا ہے (جو قرآنی حکم ”لا تفرقو“ سے ہم آہنگ نظر نہیں آتا) یا یہاں لفظ ”فرقہ“ گروہ اور گروپ وغیرہ کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔
جزاک اللہ خیراً
( وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِيعًا وَلَا تَفَرَّقُوا )اور سب مل کر اللہ کی رسی (یعنی قرآن و سنت ) کو مضبوطی سے تھامے رکھو ،اور فرقہ ،فرقہ مت بنو)
اس میں جو ( وَلَا تَفَرَّقُوا ۔) ہے ،اس کا آخری الف ضرور لکھنا ہوگا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک اہم بات جو اس ضمن میں مد نظر رکھنی ضروری ہے ،کہ افتراق اور اختلاف کا چولی ،دامن کا تعلق ہے ،
ہرفرقہ کسی نہ کسی اختلاف کےنتیجے میں وجود میں آیا ۔
لیکن اختلاف کی ایک نوعیت اس سے علیحدہ بھی موجود ہے ،جہاں اختلاف تو کیا گیا ،لیکن فرقہ نہیں بنا ،
جیسے دور صحابہ میں چند مسائل پر اختلاف ،یا ائمہ اہل حدیث کا کچھ فروعی مسائل میں مختلف ہونا ۔
((
الفرق بين الافتراق والاختلاف أمر مهم جدًا، وينبغي أن يعنى به أهل العلم؛ لأن كثيرًا من الناس خاصة بعض الدعاة وبعض طلاب العلم الذين لم يكتمل فقههم في الدين، لا يفرقون بين مسائل الخلاف ومسائل الافتراق، ومن هنا قد يرتب بعضهم على مسائل الاختلاف أحكام الافتراق، وهذا خطأ فاحش أصله الجهل بأصول الخ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
افتراق و اختلاف کا اصطلاحی مفہوم کیا ہے ؟
ڈاکٹر ناصر العقل لکھتے ہیں :
الافتراق في اللغة: من المفارقة وهي المباينة والمفاصلة والانقطاع، والافتراق أيضًا مأخوذ من الانشعاب والشذوذ ومنه الخروج عن الأصل، والخروج عن الجادة، والخروج عن الجماعة.
وفي الاصطلاح: الافتراق هو الخروج عن السنة والجماعة في أصل أو أكثر من أصول الدين القطعية، سواءً كانت الأصول الاعتقادية، أو الأصول العملية المتعلقة بالقطعيات،
یعنی افتراق ،کا معنی علیحدگی اور جدائی اختیار کرنا ،قطع تعلق کرنا
اور افتراق ،انشعاب یعنی شاخوں میں ہونا پہلے ایک ’’تنا تھا ‘‘ پھر اس کی کئی شاخیں نکل پڑیں،اور شاذ یعنی ،تنہا منفرد اورالگ تھلگ ہونا
اور کسی چیز یا بندہ کا
۔اپنی اصل سے خارج ہونا ،یا متعین راہ سے ہٹنا اور جماعۃ سے نکلنا‘‘
اور اصطلاحاً :افتراق کا مطلب ہے ۔قرآن و سنت اور جماعت صحابہ سے کسی اصل یعنی بنیادی اور عقیدہ کی بات میں خروج،یا اکثر مسائل قطعیہ میں ان کے راستے سے ہٹ جانا ۔مسائل خواہ اعتقادی،یا قطعیات سے ثابت عملی مسائل ہوں ۔))
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔