• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کیا جیش مَغْفُوْرٌ لَّهُمْ کے سپہ سالار سیدنا معاویہ تھے؟

کلیم حیدر

ناظم خاص
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,747
ری ایکشن اسکور
26,381
پوائنٹ
995
کیا جیش مَغْفُوْرٌ لَّهُمْ کے سپہ سالار سیدنا معاویہ تھے؟


پروفیسرڈاکٹر حافظ محمد شریف شاکر۔1
حافظ مسعودقاسم ۔2

صحیح بخاری میں نبی کریمﷺ کا فرمانِ گرامی مروی ہے کہ
’’وہ پہلا لشکر جو مدینہ قیصر [قسطنطنیہ] کا جہاد کرے گا، اُس کو معاف کردیا گیا ہے۔‘‘
بہت سے علما مثلاً حافظ ابن حجر عسقلانی، حافظ ابن کثیر، حافظ بدر الدین عینی اور شیخ الاسلام علامہ ابن تیمیہ ﷭ وغیرہم نے یزید بن معاویؓہ کو اس پہلے لشکر کا سالار اور اس سعادت کا مستحق بتلایا ہے جس نے مدینہ قیصر پر حملہ کیا ۔ جنوری 2010ء کے محدث میں ڈاکٹر ابو جابر دامانوی کا تفصیلی مضمون ’’ کیا یزید بن معاویہؓ فوجِ مغفور لہم کا سپہ سالار تھا؟ ‘‘ شائع ہوا کہ مدینہ قیصر پر پہلے تین حملے سیدنا معاویہ﷜ نے کئے تھے جبکہ یزید بن معاویہ کا مدینہ قیصر پر حملہ چھٹے نمبر پر آتا ہے، اس بنا پر یزید بن معاویہ کو اس خوشخبری کا مصداق نہیں ٹھہرایا جاسکتا۔ بعدازاں اسی مضمون پر اپریل2010ء میں مولانا عبد الولی حقانی کی بعض تنقیدات ’’لشکر ِقسطنطنیہ اور امارت ِیزید کا مسئلہ‘‘ مختصراً شائع ہوئیں۔ زیر نظر مضمون میں فاضل محقق نے دلائل کے ساتھ یہ ثابت کیا ہے کہ ڈاکٹر دامانوی کا یہ دعویٰ حقائق پر مبنی نہیں ہے کہ قسطنطنیہ پر پہلے تین حملے سیدنا معاویؓہ نے کئے تھے۔تفصیل ملاحظہ فرمائیے...ح م
1۔ایسوسی ایٹ پروفیسر (ر)،گورنمنٹ کالج یونیورسٹی، فیصل آباد
2۔ لیکچرر اسلامیات، یونیوررسٹی آف ایگری کلچر، فیصل آباد
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,747
ری ایکشن اسکور
26,381
پوائنٹ
995
ہم مناسب سمجھتےہیں کہ مولانا ڈاکٹر ابو جابر عبداللہ دامانوی کے مضمون ’’ کیا یزید بن معاویؓہ فوجِ مغفور لہم کا سپہ سالار تھا؟‘‘ کا تنقیدی جائزہ لینے سے قبل مولانا دامانوی کے مضمون میں سے ایک اہم اقتباس ضرور نقل کردیں ۔ مولانا لکھتے ہیں:
’’ اس مضمون کا مطالعہ کرنے والے حضرات سے درخواست ہے کہ وہ تنقیدی نظر سے اس مضمون کا جائزہ لیں اور اس مضمون کے سلسلے میں جو مثبت یا منفی دلائل ان کے پاس موجود ہوں ، اُن سے راقم الحروف کو ضرور بہ ضرور آگاہ کریں لیکن واضح رہے کہ وہ جو کچھ نقل کریں ، وہ کسی شخص کی رائے نہ ہو، بلکہ وہ جو کچھ بھی نقل کریں وہ تحقیقی مواد ہونا چاہیے اور جو روایت بھی وہ نقل کریں وہ باسند اور صحیح ہو جو محدثین کے اُصول کے مطابق صحیح یا حسن درجہ کو پہنچی ہوئی ہو، کیوں کہ بے سند روایت کا وجود اور عدم برابر ہے اور وہ شریعت میں کسی دلیل کی حیثیت نہیں رکھتی۔ ‘‘
مولانا دامانوی صاحب نے قسطنطنیہ پر چھ حملوں کا ذکر کیا اور پہلا ، دوسرا ،تیسرا حملہ حضرت معاویہ کا ثابت کیا ہے۔ ہم اس مضمون میں صرف ان تین حملوں کا تنقیدی جائزہ لیں گے:
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,747
ری ایکشن اسکور
26,381
پوائنٹ
995
پس منظر

آج سے تقریباً تیرہ سال پہلے1997ء میں جامعہ لاہور اسلامیہ کے شیخ الحدیث مولانا حافظ ثناء اللہ مدنی﷾سے سوال کیا گیا کہ "أوّل جیش من أمتي یغزون مدینة قیصر مغفور لهم" اس حدیث کے مطابق جیشِ مغفور کا پہلا کمانڈر کون ہے؟
اس کے جواب میں آپ نے لکھا کہ
’’ اس حدیث میں اوّلیت کے اعتبار سے تو کسی شخص کا تعین نہیں ، البتہ شارح صحیح بخاری المهلّب نے اس کا مصداق یزید بن معاویہؓ کو قرار دیا ہے ، لیکن واقعاتی طور پر مدینہ قیصر پر پہلے حملہ آور ہونے والے لشکر کا قائد عبدالرحمٰن بن خالد بن ولید تھا ، جس کا تذکرہ سنن ابوداؤد میں موجود ہے ، اس کے باوجود کئی مؤرخین نے اس کا مصداق یزید بن معاویہ کو سمجھا ہے۔‘‘(ہفت روزہ’الاعتصام‘، لاہور،شمارہ ۱۸؍ ج ۴۹، ۲۲ مئی ۱۹۹۷ء بمطابق ۸ محرم الحرام ۱۴۱۸ھ)
اس کے جواب میں راقم الحروف نے ’’قسطنطنیہ پر حملہ آور ہونے والے پہلے لشکر کی قیادت‘‘کے عنوان سے ایک مضمون لکھ کر الاعتصام کی اسی جلد ۴۹ کے شمارہ نمبر ۳۱،۳۲ میں شائع کرایا ، جس میں اصح الکتب صحیح بخاری کی حدیث کو بنیاد بناکر اوّل لشکر کا قائد یزید بن معاویہ کو ثابت کیا۔اس مضمون کے جواب میں مولانا حافظ زبیر علی زئی ﷾ نے ’’حدیثِ قسطنطنیہ اور یزید‘‘کے عنوان سے ڈیڑھ صفحہ پر مشتمل ایک مضمون لکھا جو الاعتصام کی جلد ۴۹ کے شمارہ ۳۵ میں شائع ہوا۔موصوف کے اس مضمون کے جواب میں راقم الحروف نے ’’حدیثِ قسطنطنیہ اور یزید ‘‘ کے عنوان سے ایک مضمون تحریر کیا جس میں مولانا حافظ زبیر علی زئی کے اعتراضات کا بطریق احسن ردّ پیش کیا گیاتھا۔ اس کی اشاعت کا سہر ا ا ہفت روزہ ’اہل حدیث‘ لاہورکے سر ہے جس کی جلد ۲۹ کے شمارہ نمبر۱۹،۲۰ میں یہ مضمون مؤرخہ ۲۲،۲۹ مئی ۱۹۹۸ء کوشائع ہوا۔
مولانا حافظ زبیر علی زئی ﷾ نے چھ سال سے زائد عرصہ گزر جانے کے بعد ماہنامہ ’الحدیث‘ حضرو کے شمارہ نومبر۲۰۰۴ء میں راقم الحروف کے پہلے مضمون کا دوبارہ جواب لکھا جب کہ اس سے پہلے موصوف نے اسی مضمون کا جواب’الاعتصام‘کی جلد ۴۹ کے شمارہ ۳۵ میں دے دیا تھا۔آپ لکھتے ہیں:
ہفت روزہ’الاعتصام‘ج ۴۹،شمارہ ۳۱،۳۲ (اگست ۱۹۹۷ء) میں محترم پروفیسر محمد شریف شاکر صاحب کا ایک مضمون دو قسطوں میں شائع ہوا ہے جس میں پروفیسر صاحب نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ قسطنطنیہ پر مسلمانوں کے پہلے حملہ میں سیدنا معاویہ کا بیٹا یزید بھی شامل تھا۔ (’حدیث قسطنطنیہ اور یزیدؓ‘از حافظ زبیر علی زئی، ماہنامہ’الحدیث‘، حضرو، شمارہ ۶،بابت نومبر۲۰۰۴ء، ص۵ تا۹)
حافظ زبیر علی زئی صاحب کا راقم الحروف کے بارے میں یہ لکھنا کہ ’’پروفیسر صاحب نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ قسطنطنیہ پر مسلمانوں کے پہلے حملہ میں سیدنا معاویہ کا بیٹا یزید بھی شامل تھا‘‘صحیح نہیں ہے۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,747
ری ایکشن اسکور
26,381
پوائنٹ
995
اصل حقیقت

راقم الحروف نے اپنے اس مضمون میں یزید کی شمولیت نہیں بلکہ صحیح بخاری کی حدیث کی رو سے یزید کو ’’ قسطنطنیہ پر سب سے پہلے حملہ آور ہونے والے لشکر کا قائد ‘‘ثابت کیا ہے۔
2004 میں الحدیث میں مولانا زبیر علی زئی کا جواب نہ لکھنے کی وجہ یہ تھی کہ چونکہ راقم الحروف نے مولاناموصوف کے اس مضمون کا جواب ۱۹۹۸ء میں دے دیا تھا، اس لیے اس جواب کا دہرانا تحصیلِ حاصل خیال کیا۔
اب جواب لکھنے کی ضرورت یہ ہے کہ مدتِ مدید کے بعد ماہنامہ ’محدث‘،لاہور میں جنوری ۲۰۱۰ء کو شائع ہونے والا مضمون بعنوان ’’ کیا یزید بن معاویہؓ فوجِ مغفورلهم کا سپہ سالار تھا؟‘‘ نظر سے گزرا، جس میں مولانا ڈاکٹر ابوجابر عبداللہ دامانوی صاحب نے صحیح بخاری کی حدیث : «أوّل جیش من أمتي یغزون مدینة قیصر مغفور لهم»کے صحیح مصداق کے بارے میں کچھ لکھنے سے پہلے مسلمانوں کی نیتوں پر حملہ کرتے ہوئے لکھا :
’’منکرین حدیث میں سے محموداحمد عباسی اور اس کے ہم نوا ناصبی حضرات نے اس حدیث کا مصداق یزید بن معاویہؓ کوقرار دیا۔‘‘(ماہنامہ’محدث‘، لاہور، ۱۰جنوری ۲۰۱۰ء، ص۴۹)
اور پھر اُن محدثین کے اسماے گرامی اور ان کے دلائل یوں ذکر کیے ہیں:
یزید کے قسطنطنیہ والے لشکر میں شرکت کے متعلق علما کرام کی تصریحات ملاحظہ فرمائیں:
1. حافظ ابن حجر عسقلانی﷫ لکھتے ہیں:
’’مہلب فرماتے ہیں کہ اس حدیث میں معاویہؓ کی منقبت بیان ہوئی ہے ،اس لیے کہ اُنہوں نے سب سے پہلے سمندری جہاد کیا، اور ان کے بیٹے یزید کی بھی منقبت بیان ہوئی ہے کیوں کہ اس نے سب سے پہلے قیصر کے شہر میں جہاد کیا۔‘‘ (فتح الباری :۶؍۱۰۲)
مہلب بن احمد بن ابی صفره اندلسی کی وفات ۴۳۵ھ میں ہوئی۔ (سیراعلام النبلاء: ۱۳؍۳۷۷) اور مذکورہ غزوہ ۵۲ھ میں ہوا تھا ، یاد رہے کہ مہلب نے اپنے دعویٰ پر کوئی دلیل بیان نہیں کی۔
2. حافظ ابن کثیر ﷫بیان کرتے ہیں :
’’اور یزید پہلا شخص ہے جس نے یعقوب بن سفیان کے قول کے مطابق ۴۹ھ میں قسطنطنیہ کی جنگ کی اور خلیفہ بن خیاط نے ۵۰ھ بیان کیا ہے۔ پھر اس نے سرزمین روم سے اس غزوہ سے واپس آنے کے بعد اس سال لوگوں کو حج کروایا اور حدیث میں ہے کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا :’’اُمّت کا وہ پہلا لشکر جو قیصر کے شہر پر حملہ کرے گا، وہ مغفور ہے۔‘‘ اور وہ دوسری فوج تھی جسے رسول اللہﷺنے اُمّ حرامؓ کے پاس اپنے خواب میں دیکھا تھا اور اُمّ حرام نے کہا: اللہ سے دعا کریں کہ وہ مجھے ان میں شامل کردے۔آپﷺ نے فرمایا تو اوّلین میں سے ہے یعنی سیدنا معاویہؓ کی فوج میں شامل ہوگی جب وہ قبرص میں جنگ کریں گے ، پس سیدنا معاویہ ؓ نے سیدنا عثمان ؓکے دورِ حکومت میں ۲۷ھ میں قبرص کو فتح کیا اور امّ حرام بھی اُن کے ساتھ تھیں۔ اُنہوں نے وہیں قبرص میں وفات پائی ، پھر دوسری فوج کا امیر ان کا بیٹا یزید بن معاویہؓ تھا اور اُمّ حرام نے یزید کی اس فوج کو نہیں پایا اور یہ دلائل نبوت میں سے ایک انتہائی بڑی دلیل ہے۔‘‘ (البدایۃ والنہایۃ: ۸؍۲۲۹)
3. حافظ ابن حجر عسقلانی﷫ فرماتے ہیں:
’’ اور اس حدیث سے یہ مسئلہ بھی نکلتا ہے کہ جہاد ہر امیر کے تحت جائز ہے (چاہے وہ نیک ہویا بد ) اس حدیث میں قیصر کے شہر میں جہاد کرنے والوں کی تعریف کی گئی ہے اور اس جہاد کا امیر یزید بن معاویہؓ تھا اور یزید تو یزید ہی تھا۔‘‘ (فتح الباری : ۱۱؍۷۷)
4. علامہ قسطلانی فرماتے ہیں:
’’ قیصر کے شہر(قسطنطنیہ) پر سب سے پہلے یزید بن معاویہ ؓ نے جہاد کیا ،اور ان کے ساتھ سادات صحابہ کرام ؓ کی ایک جماعت بھی شریک تھی جس میں عبداللہ بن عمرؓ، عبداللہؓ بن عباسؓ ، عبداللہ ؓبن زبیرؓ، اور ابو ایوب انصاری ؓتھے اور ابوایوب ؓ نے اسی غزوہ میں ۵۲ھ میں وفات پائی۔‘‘ (حاشیہ صحیح بخاری : ج۱؍ص ۴۱۰)
5. علامہ بدر الدین عینی رقم طراز ہیں :
’’ یزید بن معاویہ نے بلادِ روم میں جہاد کیا یہاں تک کہ وہ قسطنطنیہ تک جا پہنچے۔‘‘ (عمدۃ القاری : ج ۱۴؍ ص۱۹۹)
6. شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ﷫ فرماتے ہیں :
’’ قسطنطنیہ پر پہلا حملہ کرنے والے لشکر کے سپہ سالار یزید تھے اور چوں کہ لشکر معین مقدار کو کہا جاتا ہے، اس لیے فوج کا ہر ہر فرد بشارتِ مغفرت میں شریک ہے، نہ کہ اس کا کوئی فرد تو لعنت میں شریک ہو اور کوئی اس میں سے ظالموں میں شریک ہو ۔ کہا جاتا ہے کہ یزید اسی حدیث کی بنا پر قسطنطنیہ کی جنگ میں شریک ہوا تھا۔‘‘ (منہاج السنۃ : ۲؍۲۵۲؛ ماہنامہ’محدث‘،لاہور،۱۰جنوری ۲۰۱۰ء، ص ۵۴،۵۵)
مندرجہ بالا چھ محدثین علما کے اقوال جناب ڈاکٹر دامانوی صاحب کے پیش کردہ ہیں ۔ دامانوی صاحب مزید لکھتے ہیں :
1. امام خلیفہ بن خیاط اپنی تاریخ میں ۵۰ھ کے ضمن میں لکھتے ہیں:
’’اور اسی سن میں یزید بن معاویہ نے ارضِ روم میں جہاد کیا اور ان کے ساتھ سیدنا ابو ایوب انصاریؓ بھی تھے۔‘‘ (تاریخ خلیفہ بن خیاط: ص۲۱۱)
2. حافظ ابن کثیر ﷫ نے
’۵۲ھ‘ عنوان قائم کرکے اس کے ضمن میں سیدنا ابو ایوب انصاریؓ کی وفات کا ذکر کیا اور ۵۲ھ کے قول کو زیادہ قوی قرار دیا ہے۔ (البدایۃ والنہایۃ :ج ۸؍ ص۵۹)
3. حافظ ابن حجر عسقلانی ﷫ فرماتے ہیں:
’’اوریہ غزوہ مذکور۵۲ھ میں ہوا اور اسی غزوہ میں ابو ایوب انصاری ؓکی وفات ہوئی اور اُنہوں نے وصیت فرمائی کہ انہیں قسطنطنیہ کے دروازہ کے قریب دفن کیا جائے۔‘‘(فتح الباری:۶؍۱۰۳ ... بحوالہ ماہنامہ محدث، لاہور: جنوری 2010ء ، ص 58)
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,747
ری ایکشن اسکور
26,381
پوائنٹ
995
تنقیدی جائزہ

قارئین توجہ فرمائیں کہ دامانوی صاحب لکھتے ہیں کہ
’’ محمود احمد عباسی اور اس کے ہم نوا ناصبی حضرات نے اس حدیث کا مصداق یزید بن معاویہؓ کو قرار دیا۔‘‘ (ماہنامہ محدث، لاہور: جنوری 2010ء ، ص ۴۹)
دامانوی صاحب یہ بتائیے کہ
  • مہلب شارح بخاری
  • حافظ ابن کثیر
  • حافظ ابن حجر عسقلانی
  • علامہ قسطلانی
  • علامہ عینی
  • اور شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ ﷭ کیا یہ تمام کے تمام ائمہ وشارحین حدیث محمود احمد عباسی کے ہم نوا ہیں؟
دامانوی صاحب محمود احمد عباسی کو جانتے ہیں جودورِ حاضر کے ایک معروف مؤلف ہیں۔ دامانوی صاحب!آپ محمود احمد عباسی کا غصّہ اسلافِ کرام پر مت نکالیں۔ کیا محمود احمد عباسی کی دعوت اس کے پیدا ہونے سے صدیوں پہلے ان ائمہ کرام تک پہنچ گئی تھی؟
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,747
ری ایکشن اسکور
26,381
پوائنٹ
995
کیا ائمہ کرام کو غلطی لگی؟

پھر دامانوی صاحب کس قدر جرأت کا مظاہرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’جن حضرات نے یزید بن معاویہ کے لشکر کو اوّل جیش کا مصداق قرار دیا ہے اُنہیں اس سلسلہ میں غلطی لگی ہے اور انہوں نے اس بات کی کوئی دلیل ذکر نہیں کی اور نہ سنداً کوئی روایت ذکر کی بلکہ صرف یہی بات ذکرکرکے کہ یزید کے لشکر نے قسطنطنیہ پر لشکر کشی کی تھی اور بس...‘‘ (ماہنامہ’ محدث‘، لاہور، جنوری ۲۰۱۰ء : ص ۵۸،۵۹)
ناقدانہ جائزہ:
وکم من عائبٍ قولاً صحیحًا ... و آفته من الفهم السقیم​
درج ذیل سطور کے مطالعہ سے قارئین کرام خوب سمجھ سکیں گے غلطی ان حضرات کو لگی ہے یا دامانوی صاحب کو؟
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,747
ری ایکشن اسکور
26,381
پوائنٹ
995
قائدِ جیش سے متعلق بیانات میں تضاد

4. شیخ الحدیث حضرت مولانا حافظ ثناء اللہ مدنی ﷾ نے
’’مدینہ قیصر پر پہلے حملہ آور ہونے والے لشکر کا قائد عبدالرحمٰن بن خالد بن الولید ‘‘ کو قرار دیا۔ (ہفت روزہ’الاعتصام‘،لاہور: شمارہ ۱۸، ج ۴۹، ۲۲ مئی ۱۹۹۷ء)
5. حافظ زبیر علی زئی صاحب نے حافظ ثناء اللہ مدنی﷾ کے جواب کی تائید کرتے ہوئے لکھا کہ
’’درج ذیل کتابوں میں بھی صحیح سند کے ساتھ اس حملہ آور فوج کا قائد عبدالرحمٰن بن خالد بن الولید ہی مذکور ہے۔‘‘ (ایضاً :ج ۴۹؍ ش ۳۵)
چونکہ حافظ ثناء اللہ مدنی﷾ نے
’’مدینہ قیصر پر پہلے حملہ آور ہونے والے لشکر کا قائد عبدالرحمٰن بن خالد بن الولید‘‘لکھا تھا، اس لئے حافظ زبیر علی زئی نے بھی ان کی ہاں میں ہاں ملاتے ہوئے یہ لکھ دیا کہ ’’اس حملہ آور فوج کا قائد عبدالرحمٰن بن خالد بن الولید تھا۔‘‘
6. اور اسی اشاعت میں حافظ زبیر علی زئی صاحب نے اپنے پہلے بیان کے خلاف لکھ دیا کہ ’’تاریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ ’’قسطنطنیہ پر کئی حملے ہوئے ہیں۔‘‘ آپ نے مزید لکھا کہ
’’بلکہ ان تمام لشکروں سے پہلے بھی قسطنطنیہ پر ایک لشکر کے حملے کا ثبوت ملتا ہے جس میں حضرت معاویہ بھی شامل تھے۔‘‘ (ہفت روزہ’الاعتصام‘،لاہور: شمارہ ۱۸، ج ۴۹، ۲۲ مئی ۱۹۹۷ء)
کیا ہی خوب تحقیق ہے! اس لشکر کے امیر کون تھے؟ اس کا جواب دینا مولانا زبیر علی زئی صاحب کے ذمہ ہے۔
7. ڈاکٹر ابو جابر عبداللہ دامانوی صاحب نے پہلے لشکر کا قائد حضرت معاویہ کو قرار دیا۔ آپ لکھتے ہیں کہ
’’اس بات کی اشد ضرورت محسوس کی گئی کہ یہ معلوم کیا جائے کہ قسطنطنیہ پر کتنے حملے کئے گئے اور ان حملوں میں سب سے پہلا حملہ کس نے کیا تھا۔‘‘ (ماہنامہ ’محدث‘، لاہور:جنوری ۲۰۱۰ء، ص ۵۹)
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,747
ری ایکشن اسکور
26,381
پوائنٹ
995
کیا قسطنطنیہ پر پہلا حملہ سیدنا معاویہ ؓنے کیا تھا؟

دامانوی صاحب مزید لکھتے ہیں:
’’قسطنطنیہ پر پہلا حملہ سیدنا معاویہؓ نے کیا تھا۔‘‘ حافظ ابن کثیر نے اگرچہ یزید بن معاویہؓ کے لشکر کو’اوّل جیش‘ کا مصداق قرار دیا ہے، لیکن وہ خود ہی دوسرے مقام پر لکھتے ہیں:
8. اور ۳۲ھ میں سیدنا معاویہؓ نے بلادِ روم پر چڑھائی کی یہاں تک کہ وہ خلیج قسطنطنیہ تک پہنچ گئے۔‘‘ (البدایہ والنہایہ: ۷؍۱۵۹)
9. حافظ موصوف ایک اور مقام پر لکھتے ہیں:
’’کہتے ہیں کہ خلیج قسطنطنیہ کی جنگ سیدنا معاویہ کی امارت میں ۳۲ھ میں ہوئی، وہ خود اس سال لوگوں پر امیر تھے۔‘‘ (ایضاً: ج ۸؍ ص۱۲۶)
10. حافظ ذہبی لکھتے ہیں:
"فیها کانت وقعة المضیق بالقرب من قسطنطینیة وأمیرها معاویة" (تاریخ اسلام از ذہبی، عہد خلفائے راشدین: ص ۳۷۱ )
’’اس سن میں مضیق کا واقعہ ہوا جو کہ قسطنطنیہ کے قریب ہے اور اس کے امیر معاویہ ؓتھے۔ لہٰذا یہ حملہ بھی قسطنطنیہ پر ہی تھا۔‘‘ (ماہنامہ ’محدث‘، لاہور:جنوری ۲۰۱۰ء، ص ۵۹،۶۰)
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,747
ری ایکشن اسکور
26,381
پوائنٹ
995
ناقدانہ جائزہ

دامانوی صاحب نے مندرجہ بالا تین اقتباس نقل کئے ہیں: پہلا اور دوسرا اقتباس البدایہ والنہایہ سے اور تیسرا اقتباس حافظ ذہبی﷫کی تاریخ اسلام سے نقل کیا ہے۔ دامانوی صاحب کے پیش کردہ اقتباس میں واضح طور پر لکھا موجود ہے کہ ’’۳۲ھ میں سیدنا معاویہؓ نے بلادِ روم پر چڑھائی کی یہاں تک کہ وہ خلیج قسطنطنیہ تک پہنچ گئے۔‘‘ یہاں دامانوی صاحب قسطنطنیہ پر حملہ کا ثبوت پیش نہیں کر سکے۔ جسے دامانوی صاحب نے خلیج قسطنطنیہ لکھا ہے یہی مَضِیق قسطنطنیہ ہے۔ فافہم
حافظ ابن کثیر﷫سے نقل کردہ دوسرے اقتباس میں بھی دامانوی صاحب نے ’’خلیج قسطنطنیہ کی جنگ‘‘لکھا، یہ بھی وہی ۳۲ھ کی جنگ ہے۔ اور امام ذہبی﷫ سے نقل کردہ اقتباس میں بھی قسطنطنیہ کے قریب مضیق کا واقعہ لکھا ہے نہ کہ یہ قسطنطنیہ پر حملہ ہے۔ ان تینوں اقتباسات میں غلط بیانی سے کام لیتے ہوئے مولانا دامانوی صاحب نے اپنے الفاظ میں لکھ دیا: ’’لہٰذا یہ حملہ بھی قسطنطنیہ پر ہی تھا۔‘‘لیکن اس کی دلیل کیا ہے؟ یاد رہے کہ قسطنطنیہ اور خلیج ؍ مضیق قسطنطنیہ دو علیحدہ مقامات ہیں ، دونوں کو ایک ہی باور کرنا درست نہیں۔
اب مولانا دامانوی صاحب کے اُستاد موصوف (محترم جناب مولانا زبیر علی زئی صاحب) کے حضرت معاویہ کے حملوں کے بارے میں دلائل ملاحظہ فرمائیے! آپ لکھتے ہیں:
1۔ سیدنا معاویہؓ نے رومیوں کی زمین پر سولہ مرتبہ فوج کشی کی۔ (البدایہ والنہایہ: ج ۸؍ ص ۱۳۳)
2۔ یزید بن معاویہ کے آخری حملہ سے پہلے قسطنطنیہ پر سابقہ حملوں کے علاوہ ایک اور حملہ بھی ہوا ہے۔حافظ ابن حجر ﷫لکھتے ہیں:
واستعمل معاویة سفیان بن عوف على الصوائف وکان یعظمه ۔(الاصابۃ:ج ۲؍ص ۵۶)
اور معاویہؓ نے سفیان بن عوف کو قسطنطنیہ پر صیفی حملوں میں امیر بنایا اور آپ ان کی تعظیم کرتے تھے۔
وفي 28ه جهّز معاویة جیشا عظیمًا یفتح قسطنطینیة وکان على الجیش سفیان بن عوف (ج ۲، ص ۱۱۴) اور ۴۸ھ میں معاویہ نے قسطنطنیہ کی فتح کے لئے ایک عظیم لشکر بھیجا جس کے امیر سفیان بن عوف تھے۔(ماہنامہ’الحدیث‘، حضرو: شمارہ ۶؍ ص ۸،۹... بحوالہ ماہنامہ محدث، لاہور: جنوری 2010ء ،ص 71)
قارئین توجہ فرمائیں!
ہم تسلیم کرتے ہیں کہ حضرت معاویہ نے سرزمین روم (یعنی رومی مقبوضات) پر بہت سے حملے کئے اور کئی بار آپ نے مختلف سالاروں کے تحت فوج بھیجی، لیکن جن حملوں کا مذکورہ بالا سطور میں جناب مولانا علی زئی صاحب نے تذکرہ کیا ہے ان میں سے کوئی لشکر قسطنطنیہ تک نہیں پہنچ سکا۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ حضرت معاویہؓ نے قسطنطنیہ کی فتح کے لئے بڑی فوج دے کر سفیان بن عوف کو بھیجا، لیکن وہ بھی قسطنطنیہ تک نہیں پہنچ سکے۔
حضرت معاویہ کے بیٹے (یزید) کے بارے میں امام ذہبی﷫ لکھتے ہیں:
قال سعید بن عبدالعزیز لما قُتل عثمان و وقع الاختلاف لم یکن للناس غزو حتی اجتمعوا علىٰ معاویة فأغزاهم مراتٍ ثم اغز ابنه في جماعة من الصحابه برّا وبحرًا حتى أجاز بهم الخلیج وقاتلوا أهل القسطنطینیة علىٰ بابها ثم قفل۔(سیر اعلام النبلاء: ۳؍۱۵۰)
سعید بن عبدالعزیز فرماتے ہیں کہ جب حضرت عثمان شہید کر دیئے گئے اور (مسلمانوں میں) اختلاف رونما ہو گیا اور لوگوں کے لئے جہاد کا موقع جاتا رہا، یہاں تک کہ معاویہ پر لوگ مجتمع ہو گئے تو آپؓ نے اِن کو غزوات میں بھیجا۔ پھر آپ نے صحابہ کی ایک جماعت میں اپنے بیٹے کو بحر و برّ میں جہاد کرنے کے لئے بھیجا، یہاں تک کہ وہ ان (مجاہدوں) کو خلیج سے پار لے گیا اور قسطنطنیہ کے دروازے پر اہل قسطنطنیہ سے جنگ کی، پھر واپس پلٹ آیا۔
مذكورہ بالا بحث سے چار مختلف خیالات سامنے آئے:
11. حافظ ثناء اللہ مدنی ﷾ کے ہاں: ’’واقعاتی طور پر مدینہ قیصر پر پہلے حملہ آور ہونے والے لشکر کا قائد عبدالرحمٰن بن خالد بن الولید تھا۔‘‘
12. حافظ زبیر علی زئی صاحب کے دو قسم کے خیالات سامنے آئے:
1۔اس حملہ آور فوج کا قائد عبدالرحمٰن بن خالد بن الولید ہی مذکور ہے۔
2۔قسطنطنیہ پر کئی حملے ہوئے ہیں، بلکہ ان تمام لشکروں سے پہلے بھی قسطنطنیہ پر حملے کا ثبوت ملتا ہے۔‘‘ زبیر علی زئی صاحب نے یہاں قائد کا ذکر ہی نہیں کیا۔
13. ڈاکٹر دامانوی صاحب نے برملا لکھا کہ قسطنطنیہ پر پہلا حملہ سیدنا معاویہؓ نے کیا تھا۔
14. راقم الحروف اور سرکردہ محدثین کے ہاں: قسطنطنیہ پر پہلے حملہ آور ہونے والے لشکر کا قائد یزید بن معاویہؓ تھا۔
اصل مقصد تک پہنچنے کے لئے درج ذیل تین چیزوں کی معلومات حاصل کرنا ضروری ہے:
1۔ارضِ روم کا اطلاق کس کس علاقے پر ہوتا ہے؟
2۔مدینہ قیصر سے کونسا شہر مراد ہے؟
3۔مَضِیقِ قسطنطنیہ سے کیا مراد ہے؟
15. ارضِ روم: ارضِ روم کا اطلاق مشرقی روم اور مغربی روم پر ہوتا ہے۔
میجر جنرل محمد اکبر خان لکھتے ہیں کہ
’’مدتِ دراز کے بعد روما کی حکومت قیصر کے دو شہزادوں میں تقسیم ہو گئی۔ دونوں حکمران قیصر کہلائے۔ ایک مغربی روما کا، اور دوسرا مشرقی روما کا۔
مغربی روما: یورپ کا بیشتر حصہ مغربی روما رہا، اور اس سلطنت کا دارالحکومت شہر روم رہا۔مشرقی روما: اس کی سلطنت میں بلقان، یونان، ایشیائے کوچک، شام، مصر، حبشہ وغیرہ تھے اور یہ علاقہ شہزادہ قسطنطین کے حصہ میں آیا۔‘‘(محمد اکبر خان (رنگروٹ) میجر جرنل، کروسیڈ اور جہاد: ناشرپرنسپل اسلامیہ کالج، لائل پور،۱۹۶۱ء، ص ۳۰)
’’اناطولیہ :(عربی میں اناضُول، انگریزی میں (Anatolia،یہ کوہستانی جزیرہ نما مغربی ایشیا میں بحیرہ روم کے ساحل پر واقع ہے۔ یہ مملکت ترکیہ کے ۹۰ فیصد سے زیادہ علاقے پر مشتمل ہے۔ اسے ایشیائے کوچک (Asia Minor) بھی کہا جاتا ہے۔ اس کو (بحیرہ روم کے علاوہ) بحیرہ ایجین، بحیرہ مرمرہ، بحیرہ اسود، درّۂ دانیال اور باسفوس کی آبناؤں نے گھیر رکھا ہے۔ ‘‘ (احمد عادل کمال: اطلس فتوحاتِ اسلامیہ: دارالسلام، لاہور: ۱۴۲۸ھ، ص ۱۸۰)
’’محل وقوع: اناطولیہ کے مشرق میں آرمینیا، جارجیا اور ایران ہیں۔ اور جنوب مشرق میں شام واقع ہے۔‘‘ (احمد عادل کمال: اطلس فتوحاتِ اسلامیہ: دارالسلام، لاہور: ۱۴۲۸ھ، ص ۱۸۰)
16. مدینہ قیصر یعنی قسطنطنیہ (استنبول): مدینہ قیصر سے مراد قسطنطنیہ ہے۔یہ ۱۴۵۳ء سے ۱۹۲۳ء تک سلطنتِ عثمانیہ (خلافتِ عثمانیہ) کا دارالحکومت رہا۔
ترکوں سے پہلے رومیوں کا یہ دارالحکومتConstantinopolisیعنی’ شہر قسطنطین‘ کہلاتا تھا۔ کیونکہ قیصر روم قسطنطین اعظم نے۳۳۰ء میں اسے یونانی شہر بیزنطیم (Byzantium) کی جگہ آباد کیا تھا جس کی بنیاد ساتویں صدی ق م میں رکھی گئی تھی۔(ایضاً)
یاقوت حموی (متوفی ۶۲۶ھ) نے لکھا ہے کہ
قسطنطین اعظم نے اسے دارالحکومت بنا کر اس کا نام قسطنطنیہ (عربی میں قسطنطینية) رکھا جسے آج کل اِصْطنبول کہتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ شہر پہلے سے مسلمانوں میں ’اصطنبول‘ یا ’استنبول‘کے طور پر معروف تھا۔(اُردو دائرہ معارف اسلامیہ دانش گاہِ پنجاب لاہور:۱۹۸۰ء، ص ۱؍۲۵۹ بحوالہ مُعجم البُلْدَان:۴؍۳۴۷)
فتح قسطنطنیہ:
سلطان محمد فاتح (۸۵۵ھ تا۸۸۶ھ) اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے ۲۰؍جمادی الاولیٰ ۸۵۷ھ؍۲۹ مئی ۱۴۵۳ء کو قسطنطنیہ فتح کرنے میں الحمد للہ کامیاب ہو گئے اورسلطان محمد فاتح نے صوتی اور معنوی مناسبت کے باعث ’استنبول‘کو ’اسلامبول‘کا نام دیا۔ (اُردو دائرہ معارف اسلامیہ دانش گاہِ پنجاب لاہور:۱۹۸۰ء، ص ۱؍۲۵۹ بحوالہ مُعجم البُلْدَان:۴؍۳۴۷)
17. مَضیق : لغۃً مَضِیْق، ضَیْقٌ سے ظرف کا صیغہ ہے، اور یہ تنگ جگہ کا معنیٰ دیتا ہے۔ جغرافیہ کی اصطلاح میں یہ ’آبنائے‘ کے لئے استعمال ہوتا ہے۔
آبنائے: پانی کے اس تنگ قطعے کو کہتے ہیں جو دو سمندروں کو ملائے۔
خلیج: سمندر کے اس تنگ حصے کو کہتے ہیں جو دور تک خشکی کے اندر چلا گیا ہو۔ (بیبا سنگھ بی اے: جدید آسان اٹلس: انڈین بک ڈپو، بیرون موری گیٹ، لاہور: سن ندارد: ص ۴)
اس سے ثابت ہوا کہ آبنائے اور خلیج میں تفاوت و تضاد پایا جاتا ہے۔
درّۂ دانیال اور آبنائے باسفورس: یہ (دونوں) یورپی ترکی کو ایشیائی ترکی سے الگ کرتی ہیں۔
آبنائے باسفوس: بحیرہ اسود کو بحیرہ مرمرہ سے ملاتی ہے۔ استنبول (قسطنطنیہ) اسکے جنوب میں بحیرہ مرمرہ کے کنارے واقع ہے۔ اسکی لمبائی ۳۰ کلومیٹر اور چوڑائی ۵۰۰ میٹر سے ۳ کلومیٹر تک ہے۔
درّۂ دانیال: بحیرہ مرمرہ کو بحیرہ ایجین (اور بحیرہ روم) سے ملاتا ہے۔ اس کا طول ۷۰ کلومیٹر اور عرض ۱۲۷۰ میٹر سے ۷ کلومیٹر تک ہے۔ درّۂ دانیال کے یورپی ساحل پر گیلی پولی کی بندرگاہ واقع ہے۔ (احمد عادل کمال :اطلس فتوحاتِ اسلامیہ: ص ۳۵۱)
مندرجہ بالا تاریخی معلومات سے قارئین کرام خوب اندازہ لگا سکتے ہیں بلکہ یقین کی حد تک یہ دعویٰ کر سکتے ہیں کہ مضیق قسطنطنیہ سے قسطنطنیہ شہر مراد نہیں ہے، اس سے آبنائے باسفورس یا درّۂ دانیال مراد لینا زیادہ مناسب ہے۔
اُور خان بن عثمان ۷۲۶ھ؍۱۳۲۶ء میں تختِ حکومت پر براجمان ہوا، اور اُس کی حکومت ۷۶۱ھ؍۱۹۵۹ء تک قائم رہی۔ اُور خان کو اپنے والد (عثمان) کی طرف سے روحِ جہادِ اسلامی کے احیا کے لئے جو جذبہ حاصل ہوا تھا، اسے بروئے کار لاتے ہوئے اس نے اپنے عہد میں سلطنت کی توسیع کا کام جاری رکھا اور اللہ تعالیٰ نے اس کے ہاتھوں ازمیت، ازنیق اور بحیرہ مرمرہ کے جنوب میں امارت ’قرہ سی‘ کی فتح عطا فرمائی۔ ۷۵۸ھ؍۱۳۵۶ء میں اُور خان کے بیٹے سلیمان نے ایک رات ۴۰ جانبازوں کے ساتھ درّۂ دانیال کو پار کیا اور اس کے مغربی کنارے جا پہنچے۔ وہاں سے اُنہوں نے رومی کشتیاں چھینیں اور مشرقی ساحل پر لَوٹ آئے۔ اس وقت عثمانیوں کے پاس بحری بیڑا نہیں تھا کیونکہ ابھی ان کی سلطنت کے قیام کے ابتدائی مراحل طے ہو رہے تھے۔ مشرقی کنارے پر پہنچ کر سلیمان نے اپنے لشکر کو حکم دیا کہ اِن کشتیوں میں سوار ہو جائیں۔ پھر اُنہوں نے اِن کشتیوں میں (سوار ہو کر) یورپی ساحل پر ہلا بول دیا اور قلعہ’ترنب‘کی بندرگاہ اور’گیلی پولی‘فتح کر لئے۔ یہ دونوں دّرٔہ دانیال کے یورپی ساحل پر واقع تھے۔ یہ چاروں اہم مقام درّۂ دانیال کے مغربی ساحل پر جنوب سے شمال تک پھیلے ہوئے تھے۔ ان پر قبضہ کر کے اس عظیم مسلم سپہ سالار نے یورپی ساحل پر ایسے مراکز حاصل کر لئے جن سے بعد میں قسطنطنیہ کی فتح کیلئے آنے والوں نے استفادہ کیا۔ (ایضًا)
اُورخان کی وفات کے بعد زمام سلطنت اس کے بیٹے مراد اوّل کے ہاتھ آئی (۷۶۱ھ؍۱۳۶۰ء) اور اس کا عہدِ حکومت ۷۹۱ھ؍۱۳۸۹ء تک محیط رہا۔ اس عثمانی حکمران نے اپنے پیش روؤں کی فتوحات کا سلسلہ جاری رکھا۔ اُس نے جہاد کا پرچم اٹھایا اور اللہ تعالیٰ نے اسے ۷۶۳ھ؍۱۳۶۲ء میں اَدَرْنہ کی فتح عطا کی۔ اس کے ساتھ ہی مراد اپنا دارالحکومت بَرُوْسہ سے اَدْرَنہ لے گیا۔(احمد عادل کمال :اطلس فتوحاتِ اسلامیہ: ص ۳۵۱) اَدَرْنہ شہر یورپی ترکی یعنی تھریس کی سرحد پر واقع ہے۔ فتح قسطنطنیہ تک ادرنہ عثمانی دارالحکومت رہا۔ (ایضاً)
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,747
ری ایکشن اسکور
26,381
پوائنٹ
995
کیا قسطنطنیہ پر دوسرا حملہ سیدنا معاویہؓ نے کیا تھا؟

ڈاکٹر ابو جابر دامانوی صاحب نے ’’سیدنا معاویہ ؓکا قسطنطنیہ پر دوسرا حملہ‘‘صحیح ثابت کرنے کے لئے عبداللہ بن صالح (ابو صالح) کی روایت کا سہارا لیا ہے جسے انہوں نے (التاریخ الصغیر للبخاری کے حوالے سے) یوں نقل کیا:
حدثنا عبد الله بن صالح حدثني معاویة عن عبد الرحمٰن بن جبیر بن نفیر عن أبیه عن أبي ثعلبة الخشني قال سمعته، في خلافة معاویة بالقسطنطینیة، و کان معاویة غزا الناس بالقسطنطینیة، اَنّ الله لا یعجز هذه الأمة مِن نصف یوم۔(ماہنامہ’محدث‘،لاہور: جنوری ۲۰۱۰ء، ص ۶۰)
’’سیدنا ابو ثعلبہ خشنی بیان کرتے ہیں کہ میں نے معاویہؓ کو اُن کے دورِ حکومت میں قسطنطنیہ میں یہ فرماتے ہوئے سنا، جبکہ وہ لوگوں کو قسطنطنیہ پر چڑھائی کے لئے روانہ کر رہے تھے کہ ’’بیشک اللہ تعالیٰ اس اُمّت کو آدھے دن کے بقدر بھی عاجز نہیں کریگا۔‘‘
ناقدانہ جائزہ:
ڈاکٹر دامانوی صاحب نے مطلب براری کے لئے حدیث کے ترجمہ میں تحریف کر دی، اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ حدیث کے یہ الفاظ "اِنَّ الله لا یعجز هٰذه الأمة مِن نصف یومٍ" حضرت معاویہ کے ہیں، اور آپ نے یہ الفاظ قسطنطنیہ میں کہے تھے، تاکہ حضرت معاویہ کا قسطنطنیہ میں جانا ثابت کیا جائے۔ حالانکہ یہ الفاظ حضرت ابو ثعلبہ خشنی کے ہیں، اور جبیر بن نفیر نے یہ الفاظ ابوثعلبہ سے سنے ہیں۔ جبکہ یہ حدیث صحیح نہیں بلکہ ضعیف ہے۔
 
Top