• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

عقیدہِ حیات فی القبور و حیات النبی صلی اللہ علیہ وسلم فی القبر ( حصہ دوم)

شمولیت
دسمبر 25، 2012
پیغامات
77
ری ایکشن اسکور
167
پوائنٹ
55
السلام علیکم ! عقیدہِ حیات فی القبور و حیات النبیﷺ کا دوسرا حصہ پیشِ خدمت ہے ۔ پہلے حصےمیں ، میں نے اپنا اور اپنے فریقین کا عقیدہ سمجھایا تھا کہ ہم کیا کہتے ہیں اور وہ کیا کہتے ہیں ۔ آج میرا موضوع رہے گا کہ
"انبیاء علیہم السلام کے لیئے موت کا حکم"

۔کہ جیسے ہر انسان ہر موت کا وعدہ ہے قرآن میں اسی طرح انبیاء علیہم السلام پر بھی موت کا حکم ثابت ہے قرآن و مجید سے ۔انبیاء پر بھی موت آئی ۔اور بوقتِ موت ان کی روح کو ان کے جسم سے نکالا گیا۔

دلائل دینے سے پہلے میں "موت" کا سمجھا دوں کہ اصطلاحِ شریعت میں "موت" کیا ہے ۔ اور اسکی کیفیت کیا ہے ۔

اصطلاحِ شریعت میں موت اور اس کی کیفیت


ای الموت فعبارۃ عن زوال القوۃ الحیوۃ الحیوانیۃ و ابنۃ الروح عن الجسد(مفردات امام راغب رحمۃ اللہ علیہ ص ۴۷۷،494)
موت قوت حیات کے زائل ھو جانے اور روح کے بدن سے جدا ھو جانے کا نام ھے۔

۳۔ والموت ضدالحیاۃ (تفسیر قرطبی سورۃ البقرہ آیت ۱۹)
موت حیات کی ضد(یعنی مخالف) ھے

۴۔الموت زوال الحیوٰۃ (ھدایہ عربی ص ۲۴ ج ۱ کتاب الطھارت)
موت حیات کے زائل (یعنی ختم) ھو جانے کا نام ھے۔

اور اھل سنت والجماعت کا اتفاق ھے کہ آدمی کی روح جب تک جسم میں رھتی ھے آدمی زندہ رھتا ھے۔اور جب وہ نکل جاتی ھے تو موت آجاتی ھے۔ (عقائد الاسلام ص ۲۷۱ ج۲)

5- امام رازی رحمہ اللہ علیہ نے فرمایا:

"پس ہم کہتے ہیں موت کا وقت وہ ہوتا ہے کہ بدن سے ظاہری و باطنی تعلق روح کا منقطع ہو جاتا ہے اور یہی موت ہے" ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ( تفسیر کبیر ۔سورۃ زمر)

6- علامہ عینی رحمہ اللہ علیہ نے فرمایا:

"والموت قطع تعلقہ بالبدن ظاھراً و باطناً" ۔۔۔۔ " روح کے جسم سے مکمل جدا ہونے کو موت کہتے ہیں۔کہ ظاہر بدن سے تعلق رہے نہ باطن سے"

عینی شرح بخاری جلد 5 صفحہ 88

7-علامہ بیضاوی رحمہ اللہ علیہ :

قولہ :اللہ یتوفی الانفس حین موتھا: ای یقبضھا عن الابدان با[SUP]ء[/SUP]ن یقطع تعلقھا عنھا واتصا فھا فیھا ظاھراوباطناوذلک ھوالموت۔

"روح کو بدن سے نکال لینا، بایں طورپر کہ بدن سے روح کا تعلق اور اتصاف ظاھری اور باطنی طور پر ختم ہو جاتا ہے۔ اور یہی موت ہے"

(تفسیر بیضاوی سورۃ زمر آیت نمبر 42)

8- امام نیشاپوری رحمہ اللہ علیہ : "بدن سے جسم کا تعلق کلی طور پہ ختم ہو جائے اسے موت کہتے ہیں "
تفسیر نیشاپوری صفحہ 24

9- قاضی ثناء اللہ پانی پتی رحمہ اللہ علیہ : "موت کے وقت کھینچ لیا جاتا ہے روح کو بدن سے اس وقت ختم ہو جاتا ہے تعلق روح اور بدن کا ۔"

10-امام الہند شاہ ولی اللہ محدث رحمہ اللہ علیہ: یہ بات ثابت ہو چکی ہے ہمارے نزدیک صحیح مشاہدے سے بے شک موت کے وقت جسم میں استعدادِ روح نہیں رہتی وہ اسے چھوڑ کر چلی جاتی ہے۔

11- علامہ عبدالحقانی رحمہ اللہ علیہ : اِنَّکَ مَیِّتٌ – یہ موتِ عرفی ہے جو عام موت ہوتی ہے ۔یعنی روح کی جسم سے مفارقت۔
اور جب روح کا تعلق بدن سے منقطع ہو جاتا ہے ظاہر و باطن سے اور سارے اجزائے بدن سے اسے موت کہتے ہیں۔روح اور جسم کا تعلق منقطع کلی ہو جاتاہے۔

تفسیرِ حقانی صفحہ 148
عقائد اسلام جلد 2 صفحہ 271

ان عبارات سے موت و حیات کا معنٰی و مفھوم روز روشن کی طرح واضع ھو گیا ھے۔

اب میں اصل بات کی طرف آرہا ہوں ۔۔

انبیاء علیہم السلام کے لیئے موت کا حکم"

قرآن سے دلائل:

۔آیت نمبر 1 : سورۃ الانبیاء آیت 34، 35

وَمَا جَعَلۡنَا لِبَشَرٍ۬ مِّن قَبۡلِكَ ٱلۡخُلۡدَ‌ۖ أَفَإِيْن مِّتَّ فَهُمُ ٱلۡخَـٰلِدُونَ (٣٤) كُلُّ نَفۡسٍ۬ ذَآٮِٕقَةُ ٱلۡمَوۡتِ‌ۗ وَنَبۡلُوكُم بِٱلشَّرِّ وَٱلۡخَيۡرِ فِتۡنَةً۬‌ۖ وَإِلَيۡنَا تُرۡجَعُون


اور (اے پیغمبر) ہم نے تم سے پہلے کسی آدمی کو بقائے دوام نہیں بخشا۔ بھلا اگر تم مرجاؤ تو کیا یہ لوگ ہمیشہ رہیں گے (۳۴) ہر متنفس کو موت کا مزا چکھنا ہے۔

ااس آیت کا شان نزول یہ ھے کہ کفار کہتے تھے نحن نتربص بہ ریب المومنون یعنی ھم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے حادثہ موت کا انتظار کر رھے ھیں ،مطلب یہ تھا کہ کفار حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی باتیں سن کر یہ کہتے تھے کہ یہ ساری دھوم دھام اس شخص کی وجہ سے ھے جب یہ نھیں رھیں گے تو سب کچھ ختم ھو جائے گا انکے جواب میں اللہ تعالٰی نے یہ آیت نازل فرمائی۔

گویا دلائل قدرت بیان کرنے کے بعد روئے سخن مسلئہ نبوت کیطرف پھیر دیا۔چناچہ فرماتے ھیں اے نبی ھم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے دنیا میں کسی بشر کو (خواہ نبی ہو یا غیر نبی) ھمیشگی (ھمیشہ رھنا) نھیں دی کہ دنیا میں بقا اور دوام کسی کے لیے نھں۔ پس جیسے آپ سے پہلے انبیاءکو موت آئی اس سے ان کی نبوت میں کسی کو شبہ نہیں ہوا اسی طرح آپ کی وفات سے آپ کی نبوت میں کوئی شبہ نہیں ہو سکتاپس اگر تو مر جائے تو کیا لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ھمیشہ رھنے والے ھیں؟ نھیں ! دوام اور بقا ھم نے کسی کو بھی نھیں دیا جو پیدا ھوا ھے وہ ضرور مرے گا،ھر شخص اپنے اپنے وقت پر موت کا مزہ چکھنے والا ھے۔


تفسیر معارف القران ص۲۴۶ ج ۴

Ii-کل نفس ذائقۃ الموت۔ نفس سے مراد روح حیوانی ھے اور موت اسی روح حیوانی کا جسم سے انفاک و انفصال ھے

تفسیر کمالین ترجمہ شرح اردو جلالین)

Iii-آفتاب و مہتاب اور دیگر دار دنیا کے ارکان بیان فرما کر کہ جن میں غور کرنے سے اس گھر کے بنانے والے کا پتا چلتا ھے پھر فرماتا ھے کہ کسی کو اس گھر میں نھیں رھنا، اے محمد صلعم تم سے پہلے کوئی ھمیشہ رھنے والا نھیں بنایا ، نہ تم کو ھمیشگی ھے،اور نہ تمھارے بعد ھمیشہ یہ رھیں گے جو تمہارے مرنے کی آرزو کرتے ھیں (شان نزول ملاحظہ ھو)



تفسیر فتح المنان المعروف تفسیر حقانی ص ۲۹۲ ج ۳


Iv-آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی موت کو محقق کرنے اور ثابت کرنے ک لیے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے صحابہ اکرام کے مجمع میں اور آیات کے ساتھ آئت كُلُّ نَفۡسٍ۬ ذَآٮِٕقَةُ ٱلۡمَوۡتِ‌ۗ بھی تلاوت فرمائی۔


تفسیر قرطبی ص ۱۴۲۵ ج ۲ ، سیرۃ النبویہ لا ابن کثیر ص ۴۸۳ ج ۴)

حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اسی موقع پر آیت:

وَمَا جَعَلۡنَا لِبَشَرٍ۬ مِّن قَبۡلِكَ ٱلۡخُلۡدَ‌ۖ أَفَإِيْن مِّتَّ فَهُمُ ٱلۡخَـٰلِدُون تلاوت فرمائی


ابن ابی شیبہ بروایتہ ابن عمرؓ بحوالہ فتح الباری شرح بخاری ص۷۵۲ ج ۷ ، رقم الحدث ۴۴۵۴





آیت نمبر 2 : سورۃ حجر 99


وَاعْبُدْ رَبَّكَ حَتّٰى يَاْتِيَكَ الْيَقِيْنُ 99۝ۧ


اور اپنے رب کی عبادت کرتے رہئے یہاں تک کہ اسی حالت میں آپ کو موت آجائے۔


یہاں لفظ ٱلۡيَقِين موت کے معنٰی میں استعمال ھوا ھے جیسا کہ ایک اور جگہ اسی معنٰی میں استعمال ھوا ھے



وَكُنَّا نُكَذِّبُ بِيَوۡمِ ٱلدِّينِ (٤٦) حَتَّىٰٓ أَتَٮٰنَا ٱلۡيَقِينُ (المدثر ۴۶،۴۷)


اور ہم انصاف کے دن کو جھٹلایا کرتے تھے (۴۶) یہاں تک کہ ہمیں موت آ پہنچی

اور حدیث میں بھی حضرت عثمان بن مظعونؓ کی شھادت کے سلسہ میں لفظ ٱلۡيَقِين اسی معنٰی میں استعمال ھوا ھے۔


اما ھو فقد جاءہ الیقین واللہ انی لا رجو لہ الخیر


صحیح بخاری کتاب الجنائز ص۱۶۶ ج ۱
حدیث نمبر 1178

اس کے علاوہ قابل بحث اس آیت میں لفظ ’حَتّٰی’ ھے اور اس کے متعلق قانون یہ ھے کہ حَتّٰی انتہاء غایت کے لئے آتا ھے۔


جیسا کہ قرآن میں آیا ھے۔۔


وَ کُنَّا نُکَذِّبُ بِیَوۡمِ الدِّیۡنِ حَتّٰۤی اَتٰىنَا الۡیَقِیۡنُ



اور روز جزا کو جھٹلاتے تھے یہاں تک کہ ہمیں موت آگئی

یعنی جو حکم حتٰی سے پھلے ھوتا ھے وہ حتٰی کے بعد نھیں ھوتا۔مثال کے لیے ایک اور آیت ملاحظہ ھو۔


تَنَزَّلُ الۡمَلٰٓئِکَۃُ وَ الرُّوۡحُ فِیۡہَا بِاِذۡنِ رَبِّہِمۡ ۚ مِنۡ کُلِّ اَمۡرٍ سَلٰمٌ ہِیَ حَتّٰی مَطۡلَعِ الۡفَجۡرِ


اس میں روح (الامین) اور فرشتے ہر کام کے (انتظام) کے لئے اپنے پروردگار کے حکم سے اترتے ہیں

یہ رات سلامتی کی ہوتی ہے اور فجر طلوع ہونے تک رہتی ہے

۔ یعنی مرتے دم تک ذکر عبادت میں مشغول رہیے، اس میں علاوہ مامور بہ اور ماجور علیہ ہونے کے یہ بھی خاصیت ہے کہ اس طرف شغل کو مقتضر کردینے سے دوسرا شغل جو کہ موجب ضیق صدر تھا زائل مغلوب ہوجاتا ہے ۔

تفسیر بیان القرآن


آیت نمبر 3 ۔سورۃ زمر آیت 30:


اِنَّكَ مَيِّتٌ وَّاِنَّهُمْ مَّيِّتُوْنَ 30؀ۡ


یقیناً خود آپ کو بھی موت آئے گی اور یہ سب بھی مرنے والے ہیں۔


یہاں پر لفظِ موت استعمال ہوا ہے جس کی وضاحت پہلے کردی گئی ہے :

جب حضرت عمرؓ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کا سن کر شدت غم سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کا انکار کر دیا تو اس وقت حضرت ابوبکرؓ نے جن آیتوں سے سے استدلال کر کے حضرت عمرؓ کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی موت کا یقین دلایا ان میں یہ آیت بھی تھی۔


اِنَّکَ مَیِّتٌ وَّ اِنَّہُمۡ مَّیِّتُوۡنَ


تفسیر ابن کثیر ص۵۴ ج۴

تفسیر قرطبی ص ۲۸۴ ج ۱۵

انک میت انھم میتون۔ لفظ میت بنشدید الیاءاس کو کہتے ہیں جو زمانہ مستقبل میں مرنے والا ہو اور میت بسکون الیاءاس کو کہتے ہیں جو مر چکا ہو۔ اس آیت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مخاطب کر کے فرمایا گیا ہے کہ آپ بھی مرنے والے ہیں اور آپ کے دشمن اور احباب بھی سب مرنے والے ہیں۔ مقصد اس کے بیان کرنے سے سب کو فکر آخرت کی طرف متوجہ کرنا اور عمل آخرت میں لگنے کی ترغیب دیناہے۔ اور ضمناً یہ بھی بتلا دینا ہے کہ افضل الخلائق اور سید الرسل ہونے کے باوجود موت سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی مستثنیٰ نہیں۔ تا کہ آپ کی وفات کے بعد ان لوگوں میں اس پر اختلاف پیدا نہ ہو۔ (از قرطبی)


تفسیر معارف القران

٣١۔١ یعنی اے پیغمبر! آپ بھی اور آپ کے مخالف بھی، سب موت سے ہمکنار ہو کر اس دنیا سے ہمارے پاس آخرت میں آئیں گے۔ دنیا میں تو توحید اور شرک کا فیصلہ تمہارے درمیان نہیں ہو سکا اور تم اس بارے میں جھگڑتے ہی رہے لیکن یہاں میں اس کا فیصلہ کروں گا اور مخلص موحدین کو جنت میں اور مشرکین و جاحدین اور مکذبین کو جہنم میں داخل کروں گا۔

تفسیر مکہ


آیت نمبر 4 : سورہ العمران 144:

وَمَا مُحَمَّدٌ اِلَّا رَسُوْلٌ ۚ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ ۭ اَفَا۟ىِٕنْ مَّاتَ اَوْ قُتِلَ انْقَلَبْتُمْ عَلٰٓى اَعْقَابِكُمْ ۭ وَمَنْ يَّنْقَلِبْ عَلٰي عَقِبَيْهِ فَلَنْ يَّضُرَّ اللّٰهَ شَـيْـــًٔـا ۭ وَسَيَجْزِي اللّٰهُ الشّٰكِرِيْنَ ١٤٤؁


اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم نرے رسول ہی تو ہیں آپ سے پہلے اور بھی بہت رسول گزر چکے ہیں ۔ سو اگر آپ کا انتقال ہوجائے یا آپ شہید ہی ہوجائیں تو کیا تم لوگ الٹے پھر جاؤ گے اور جو شخص الٹا پھر بھی جاوے گا ۔ تو خدا تعالیٰ کا کوئی نقصان نہ کرے گا اور خدا تعالیٰ جلدی ہی عوض دے گا حق شناس لوگوں کو ۔ (ف۳) (144)

ترجمہ بیان القران از حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی صاحب

شان نزول و تفسیر
میدان احد میں مسلمانوں کو شکست بھی ہوئی اور ان کے بعض قتل بھی کئے گئے۔ اس دن شیطان نے یہ بھی مشہور کر دیا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم بھی شہید ہو گئے اور ابن قمیہ کافر نے مشرکوں میں جا کر یہ خبر اڑا دی کہ میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کر کے آیا ہوں۔اس غلط بات کی شہرت نے مسلمانوں کے دل چھوٹے کردیئے ان کے قدم اکھڑ گئے ۔اسی بارے میں یہ آیت نازل ہوئی کہ اگلے انبیاء کی طرح یہ بھی ایک نبی ہیں ہوسکتا ہے کہ میدان میں قتل کردیئے جائیں لیکن کچھ اللہ کا دین نہیں جاتا رہے ۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا قتل یا انتقال ایسی چیز نہیں کہ تم اللہ تعالٰی کے دین سے پچھلے پاؤں پلٹ جاؤ ، اللہ تعالٰی انہی لوگوں کو جزائے خیر دے گا جو اس کی اطاعت پر جم جائیں اور اس کے دین کی مدد میں لگ جائیں اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی تابعداری میں مضبوط ہوجائیں خواہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم زندہ ہوں یا نہ ہوں،

تفسیر ابن كثیر

حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ بِلَالٍ عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ قَالَ أَخْبَرَنِي عُرْوَةُ بْنُ الزُّبَيْرِ عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَاتَ وَأَبُو بَکْرٍ بِالسُّنْحِ قَالَ إِسْمَاعِيلُ يَعْنِي بِالْعَالِيَةِ فَقَامَ عُمَرُ يَقُولُ وَاللَّهِ مَا مَاتَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَتْ وَقَالَ عُمَرُ وَاللَّهِ مَا کَانَ يَقَعُ فِي نَفْسِي إِلَّا ذَاکَ وَلَيَبْعَثَنَّهُ اللَّهُ فَلَيَقْطَعَنَّ أَيْدِيَ رِجَالٍ وَأَرْجُلَهُمْ فَجَائَ أَبُو بَکْرٍ فَکَشَفَ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَبَّلَهُ قَالَ بِأَبِي أَنْتَ وَأُمِّي طِبْتَ حَيًّا وَمَيِّتًا وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَا يُذِيقُکَ اللَّهُ الْمَوْتَتَيْنِ أَبَدًا ثُمَّ خَرَجَ فَقَالَ أَيُّهَا الْحَالِفُ عَلَی رِسْلِکَ فَلَمَّا تَکَلَّمَ أَبُو بَکْرٍ جَلَسَ عُمَرُ فَحَمِدَ اللَّهَ أَبُو بَکْرٍ وَأَثْنَی عَلَيْهِ وَقَالَ أَلَا مَنْ کَانَ يَعْبُدُ مُحَمَّدًا صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَإِنَّ مُحَمَّدًا قَدْ مَاتَ وَمَنْ کَانَ يَعْبُدُ اللَّهَ فَإِنَّ اللَّهَ حَيٌّ لَا يَمُوتُ وَقَالَ إِنَّکَ مَيِّتٌ وَإِنَّهُمْ مَيِّتُونَ وَقَالَ وَمَا مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ أَفَإِنْ مَاتَ أَوْ قُتِلَ انْقَلَبْتُمْ عَلَی أَعْقَابِکُمْ وَمَنْ يَنْقَلِبْ عَلَی عَقِبَيْهِ فَلَنْ يَضُرَّ اللَّهَ شَيْئًا وَسَيَجْزِي اللَّهُ الشَّاکِرِينَ قَالَ فَنَشَجَ النَّاسُ يَبْکُونَ قَالَ وَاجْتَمَعَتْ الْأَنْصَارُ إِلَی سَعْدِ بْنِ عُبَادَةَ فِي سَقِيفَةِ بَنِي سَاعِدَةَ فَقَالُوا مِنَّا أَمِيرٌ وَمِنْکُمْ أَمِيرٌ فَذَهَبَ إِلَيْهِمْ أَبُو بَکْرٍ وَعُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ وَأَبُو عُبَيْدَةَ بْنُ الْجَرَّاحِ فَذَهَبَ عُمَرُ يَتَکَلَّمُ فَأَسْکَتَهُ أَبُو بَکْرٍ وَکَانَ عُمَرُ يَقُولُ وَاللَّهِ مَا أَرَدْتُ بِذَلِکَ إِلَّا أَنِّي قَدْ هَيَّأْتُ کَلَامًا قَدْ أَعْجَبَنِي خَشِيتُ أَنْ لَا يَبْلُغَهُ أَبُو بَکْرٍ ثُمَّ تَکَلَّمَ أَبُو بَکْرٍ فَتَکَلَّمَ أَبْلَغَ النَّاسِ فَقَالَ فِي کَلَامِهِ نَحْنُ الْأُمَرَائُ وَأَنْتُمْ الْوُزَرَائُ فَقَالَ حُبَابُ بْنُ الْمُنْذِرِ لَا وَاللَّهِ لَا نَفْعَلُ مِنَّا أَمِيرٌ وَمِنْکُمْ أَمِيرٌ فَقَالَ أَبُو بَکْرٍ لَا وَلَکِنَّا الْأُمَرَائُ وَأَنْتُمْ الْوُزَرَائُ هُمْ أَوْسَطُ الْعَرَبِ دَارًا وَأَعْرَبُهُمْ أَحْسَابًا فَبَايِعُوا عُمَرَ أَوْ أَبَا عُبَيْدَةَ بْنَ الْجَرَّاحِ فَقَالَ عُمَرُ بَلْ نُبَايِعُکَ أَنْتَ فَأَنْتَ سَيِّدُنَا وَخَيْرُنَا وَأَحَبُّنَا إِلَی رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَخَذَ عُمَرُ بِيَدِهِ فَبَايَعَهُ وَبَايَعَهُ النَّاسُ فَقَالَ قَائِلٌ قَتَلْتُمْ سَعْدَ بْنَ عُبَادَةَ فَقَالَ عُمَرُ قَتَلَهُ اللَّهُ وَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَالِمٍ عَنْ الزُّبَيْدِيِّ قَالَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ الْقَاسِمِ أَخْبَرَنِي الْقَاسِمُ أَنَّ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ شَخَصَ بَصَرُ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثُمَّ قَالَ فِي الرَّفِيقِ الْأَعْلَی ثَلَاثًا وَقَصَّ الْحَدِيثَ قَالَتْ فَمَا کَانَتْ مِنْ خُطْبَتِهِمَا مِنْ خُطْبَةٍ إِلَّا نَفَعَ اللَّهُ بِهَا لَقَدْ خَوَّفَ عُمَرُ النَّاسَ وَإِنَّ فِيهِمْ لَنِفَاقًا فَرَدَّهُمْ اللَّهُ بِذَلِکَ ثُمَّ لَقَدْ بَصَّرَ أَبُو بَکْرٍ النَّاسَ الْهُدَی وَعَرَّفَهُمْ الْحَقَّ الَّذِي عَلَيْهِمْ وَخَرَجُوا بِهِ يَتْلُونَ وَمَا مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ إِلَی الشَّاکِرِينَ

صحیح بخاری:جلد دوم:حدیث نمبر 884 ، 914
اسماعیل سلیمان ہشام عروہ بن زبیر حضرت عائشہ زوجہ محترمہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کرتے ہیں کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے وفات پائی تو ابوبکر مقام سخ میں تھے (اسماعیل کہتے ہیں کہ سخ مدینہ کے بالائی حصہ میں ایک مقام ہے) عمر یہ کہتے ہوئے کھڑے ہوئے بخدا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات نہیں ہوئی حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ حضرت عمر فرماتے تھے بخدا میرے دل میں بھی یہی تھا کہ یقینا خدا تعالیٰ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اٹھائے گا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم چند لوگوں کے ہاتھ پیر کاٹ ڈالیں گے اتنے میں ابوبکر آ گئے اور انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ انور کھولا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا بوسہ لیا اور کہا میرے ماں باپ آپ پر قربان ہو جائیں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حیات و ممات میں پاکیزہ ہیں اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے وہ آپ کو دو موتوں کا مزہ کبھی نہیں چکھائے گا (یہ کہہ کر) پھر اس کے بعد باہر آ گئے اور عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کہا اے قسم کھانے والے صبر کرو جب حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ باتیں کرنے لگے تو عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیٹھ گئے۔ پھر ابوبکر نے خدا کی حمد و ثناء بیان کی اور کہا خبردار ہو جاؤ جو لوگ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی عبادت کرتے تھے تو ان کو معلوم ہو کہ آپ کا انتقال ہو گیا۔ اور جو لوگ اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتے ہیں وہ مطمئن رہیں کہ ان کا خدا زندہ ہے جس کو کبھی موت نہیں آئے گی اور خدا کا ارشاد ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم یقینا مر جائیں گے اور یہ لوگ بھی مر جائیں گے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم تو ایک رسول ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پیشتر بھی بہت سے رسول گزر چکے اگر وہ مر جائیں یا قتل کر دیئے جائیں تو کیا تم مرتد ہو جاؤ گے؟ اور جو شخص مرتد ہو جائے گا وہ خدا تعالیٰ کو ہرگز کچھ نقصان نہ پہنچا سکے گا اور اللہ تعالیٰ شکر گزار لوگوں کو اچھا بدلہ دے گا۔ سب لوگ (یہ سن کر) بے اختیار رونے لگے۔ (راوی کا بیان ہے) کہ سقیفہ بنی ساعدہ میں انصار حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ کے ہاں جمع ہوئے اور کہنے لگے کہ ایک امیر ہم میں سے ہو اور ایک تم میں سے ہو پھر حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ و عمر بن خطاب اور ابوعبیدہ بن جراح حضرات سعد کے پاس تشریف لے گئے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے گفتگو کرنی چاہی لیکن حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان کو روک دیا۔ حضرت عمر فرماتے ہیں کہ بخدا میں نے یہ ارادہ اس لئے کیا تھا کہ میں نے ایک ایسا کلام سوچا تھا جو میرے نزدیک بہت اچھا تھا مجھے اس بات کا ڈر تھا کہ وہاں تک ابوبکر رضی اللہ عنہ نہیں پہنچیں گے۔ لیکن ابوبکر نے ایسا کلام کیا جیسے بہت بڑا فصیح و بلیغ آدمی گفتگو کرتا ہے۔ انہوں نے اپنی تقریر میں بیان کیا کہ ہم لوگ امیر بنیں گے تم وزیر رہو۔ اس پر حباب بن منذر نے کہا کہ نہیں بخدا! ہم یہ نہ کریں گے بلکہ ایک امیر ہم میں سے بناؤ ایک امیر تم میں سے مقرر کیا جائے گا حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا نہیں بلکہ ہم امیر و صدر بنیں گے اور تم وزیر اس لئے کہ قریش باعتبار مکان کے تمام عرب میں عمدہ برتر اور فضائل کے لحاظ سے بڑے اور بزرگ تر ہیں لہذ اتم عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ یا ابوعبیدہ بن جراح سے بیت کرلو تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ بولے جی نہیں ہم تو آپ سے بیعت کریں گے آپ ہمارے سردار اور ہم سب میں بہتر اور ہم سب سے زیادہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے محبوب ہیں پس حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ہاتھ پکڑ لیا اور ان سے بیعت کرلی اور لوگوں نے آپ سے بیعت کی جس پر ایک کہنے والے نے کہا تم نے سعد بن عبادہ کو قتل کردیا حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا کہ خدا تعالیٰ نے ہی اسے قتل کردیا ہے عبداللہ بن سالم زبیدی عبدالرحمن بن قاسم قاسم حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی ایک دوسری روایت میں مروی ہے انہوں نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رحلت کے وقت آنکھیں اوپر اٹھ گئیں اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تین مرتبہ فرمایا (فی الرفیق الاعلیٰ) یعنی رفیق اعلیٰ خدا تعالیٰ سے ملنا چاہتا ہوں اور پوری حدیث بیان کی حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہما کی جو تقریر ہوئی اس سے اللہ تعالیٰ نے بہت نفع پہنچایا حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے لوگوں کو اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کرنے سے ڈرایا۔ ان میں جو نفاق تھا خدا تعالیٰ نے عمر کی وجہ سے دور کیا پھر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے لوگوں کو ہدایت دکھائی۔ اور جو حق ان پر تھا وہ ان کو بتلایا پھر لوگ اس آیت کی تلاوت کرتے ہوئے باہر نکلے ( وَمَا مُحَمَّدٌ اِلَّا رَسُوْلٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ) 3۔ آل عمران : 144) (الشاکرین) تک

آیت نمبر 5 : سورۃ مریم 15 (حضرت یحییٰ علیہ السلام کے بارے میں)

وَسَلٰمٌ عَلَيْهِ يَوْمَ وُلِدَ وَيَوْمَ يَمُوْتُ وَيَوْمَ يُـبْعَثُ حَيًّا 15۝ۧ


اوران کو الله تعالیٰ کا سلام پہنچے جس دن کہ وہ پیدا ہوئے اور جس دن کے وہ انتقال کریں گے اور جس دن (قیامت میں) زندہ ہو کر اٹھائے جاویں گے۔ (ف۵)


ترجمہ بیان القرآن

ف۵۔ وہ عنداللہ ایسے وجیہ و مکرم تھے کہ ان کے حق میں من جانب اللہ یہ ارشاد ہوتا ہے کہ ان کو اللہ تعالی کا سلام پہنچے جس دن کہ وہ پیدا ہوئے اور جس دن وہ انتقال کریں گے اور جس دن قیامت میں زندہ ہوکر اٹھائے جاویں گے ۔


تفسیر بیان القرآن

ف٧ اللّٰہ جو بندہ پر سلام بھیجے محض تشریف و عزت افزائی کے لیے ہے جس کے معنی یہ ہیں کہ اس پر کچھ گرفت نہیں۔ یہاں (يَوْمَ وُلِدَ وَيَوْمَ يَمُوْتُ وَيَوْمَ يُـبْعَثُ حَيًّا) 19۔مریم:15) سے غرض تعمیم اوقات و احوال ہے۔ یعنی ولادت سے لے کر موت تک اور موت سے قیامت تک کسی وقت اس پر خوردہ گیری نہیں۔ خدا کی پکڑ سے ہمیشہ مامون و مصؤن ہے۔


تفسیر عثمانی


آیت نمبر 6 ۔ سورہ مریم آیت نمبر 33: حضرت عیسٰی علیہ السلام کے بارے میں


وَالسَّلٰمُ عَلَيَّ يَوْمَ وُلِدْتُّ وَيَوْمَ اَمُوْتُ وَيَوْمَ اُبْعَثُ حَيًّا 33؀


حضرت عیسٰیؑ فرماتے ھیں کہ مجھ پر اللہ تعلٰی کی طرف سے سلام و رحمتی ھے جس دن میں پیدا کیا گیا، (دنیا میں) جس روز میں مروں گا (یعنی) قبر میں اور جس روز زندہ کر کے اٹھایا جائوں گا۔


حضرت عیسٰی کی زندگی کے تین حال ھیں۔
۱۔ دنیا میں زندہ
۲۔ قبر میں میت (جب زمیں پر نازل ھو کر دنیا کی زندگی ختم کر کے قبر میں دفن ھوں گے)
۳۔ آخرت میں زندہ ھونا


تفسیر قرطبی ص ۴۱۴۳ ج

قولِ قتادۃ رحمہ اللہ : "اللہ نے آپ کو موت کی خبر دی ، اور نفوس کے مرنے کی بھی ، یعنی آپ اور انہوں نے "موتٰی" میں شمار ہونا ہے۔

تفسیرِ مدارک


آیت نمبر 7 : (حضرت یعقوب علیہ السلام کے بارے میں )سورۃ بقرہ آیت 133



اَمۡ کُنۡتُمۡ شُہَدَآءَ اِذۡ حَضَرَ یَعۡقُوۡبَ الۡمَوۡتُ ۙ اِذۡ قَالَ لِبَنِیۡہِ مَا تَعۡبُدُوۡنَ مِنۡۢ بَعۡدِیۡ ؕ قَالُوۡا نَعۡبُدُ اِلٰہَکَ وَ اِلٰـہَ اٰبَآئِکَ اِبۡرٰہٖمَ وَ اِسۡمٰعِیۡلَ وَ اِسۡحٰقَ اِلٰـہًا وَّاحِدًا ۚۖ وَّ نَحۡنُ لَہٗ مُسۡلِمُوۡنَ

کیا (حضرت) یعقوب کے انتقال کے وقت تم موجود تھے؟ جب (١) انہوں نے اپنی اولاد کو کہا کہ میرے بعد تم کس کی عبادت کرو گے؟ تو سب نے جواب دیا کہ آپ کے معبود کی اور آپ کے آباؤ اجداد ابراہیم علیہ السلام اور اسماعیل علیہ السلام اور اسحاق علیہم السلام کے معبود کی جو معبود ایک ہی ہے اور ہم اسی کے فرمانبردار رہیں گے۔‏


آیت نمبر 8 : سورۃ یوسف آیت 101 (حضرت یوسف علیہ السلام کے بارے میں )



رَبِّ قَدْ اٰتَيْتَنِيْ مِنَ الْمُلْكِ وَعَلَّمْتَنِيْ مِنْ تَاْوِيْلِ الْاَحَادِيْثِ ۚ فَاطِرَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ۣ اَنْتَ وَلِيّٖ فِي الدُّنْيَا وَالْاٰخِرَةِ ۚ تَوَفَّنِيْ مُسْلِمًا وَّاَلْحِقْنِيْ بِالصّٰلِحِيْنَ ١٠١؁


اے میرے پروردگار! تو نے مجھے ملک عطا فرمایا (١) اور تو نے مجھے خواب کی تعبیر سکھلائی (٢) اے آسمان و زمین کے پیدا کرنے والے تو دنیا و آخرت میں میرا ولی (دوست) اور کارساز ہے، تو مجھے اسلام کی حالت میں فوت کر اور نیکوں میں ملا دے۔

الحمد اللہ قرآنِ مجید سے 8 آیات اور بہت سی تفاسیر پیش کر دی ہیں ۔ اب احادیث سے بھی کچھ دلائل دیکھ لیں ورنہ ہدایت کے لیئے یہی کافی ہیں۔ اللہ سب کو سمجھنے کی توفیق عطاء فرمائے۔

احادیث سے دلائل ، وفات النبیﷺ پر :

حدیث نمبر:1
حضرت ابوبردہ فرماتے ھیں کہ حضرت عائشہؓ نے ہمیں ایک پیوند لگی ھوئی چادر نکال کر دکھائی اور فرمایا کہ اسی چادر میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی روح مبارک قبض ھوئی تھی۔


صحیح بخاری ج ۱ ص ۴۳۸ ، فتح الباری شرح بخاری ج ۲ ص ۲۴۴ رقم الحدیث ۳۱۰۸

حدیث نمبر 2:
حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ حَدَّثَنَا أَيُّوبُ عَنْ حُمَيْدِ بْنِ هِلَالٍ عَنْ أَبِي بُرْدَةَ قَالَ أَخْرَجَتْ إِلَيْنَا عَائِشَةُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا کِسَائً مُلَبَّدًا وَقَالَتْ فِي هَذَا نُزِعَ رُوحُ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَزَادَ سُلَيْمَانُ عَنْ حُمَيْدٍ عَنْ أَبِي بُرْدَةَ قَالَ أَخْرَجَتْ إِلَيْنَا عَائِشَةُ إِزَارًا غَلِيظًا مِمَّا يُصْنَعُ بِالْيَمَنِ وَکِسَائً مِنْ هَذِهِ الَّتِي يَدْعُونَهَا الْمُلَبَّدَةَ

صحیح بخاری:جلد دوم:حدیث نمبر 373
محمد بن بشار عبدالوہاب ایوب حمید بن ہلال حضرت ابوبردہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ہمارے سامنے ایک موٹی چادر جیسے اہل یمان بنایا کرتے ہیں نکال کر کہا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات اس کپڑے میں ہوئی تھی سلیمان حمید ابوبردہ کے واسطہ سے اتنا زیادہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے ایک موٹی ازار اور ایک چادر جسے ملبدہ کہتے ہیں ہمارے سامنے نکالی۔ اور کہا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی موت اس میں واقع ہوئی۔

حدیث نمبر 3:

حَدَّثَنَا شَيْبَانُ بْنُ فَرُّوخَ حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ الْمُغِيرَةِ حَدَّثَنَا حُمَيْدٌ عَنْ أَبِي بُرْدَةَ قَالَ دَخَلْتُ عَلَی عَائِشَةَ فَأَخْرَجَتْ إِلَيْنَا إِزَارًا غَلِيظًا مِمَّا يُصْنَعُ بِالْيَمَنِ وَکِسَائً مِنْ الَّتِي يُسَمُّونَهَا الْمُلَبَّدَةَ قَالَ فَأَقْسَمَتْ بِاللَّهِ إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قُبِضَ فِي هَذَيْنِ الثَّوْبَيْنِ

شیبان بن فروخ سلیمان بن مغیرہ حمید بن بردہ حضرت ابوبردہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے پاس گیا تو انہوں نے ہمارے سامنے ایک موٹا تہبند نکالا جو کہ یمن میں بنایا جاتا ہے اور ایک چادر جس کا نام ملبدہ ہے راوی کہتے ہیں کہ پھر حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے اللہ کی قسم اٹھائی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات انہی دو کپڑوں میں ہوئی ہے۔

صحیح مسلم:جلد سوم:حدیث نمبر 945
مسلم شریف ج ۱ ص ۱۹۳
مسلم مترجم اردو ج ۵ ص ۳۰۷

حدیث نمبر 4:
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ حَدَّثَنَا إِسْمَعِيلُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ حَدَّثَنَا أَيُّوبُ عَنْ حُمَيْدِ بْنِ هِلَالٍ عَنْ أَبِي بُرْدَةَ قَالَ أَخْرَجَتْ إِلَيْنَا عَائِشَةُ کِسَائً مُلَبَّدًا وَإِزَارًا غَلِيظًا فَقَالَتْ قُبِضَ رُوحُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي هَذَيْنِ قَالَ أَبُو عِيسَی وَفِي الْبَاب عَنْ عَلِيٍّ وَابْنِ مَسْعُودٍ وَحَدِيثُ عَائِشَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

احمد بن منیع، اسماعیل بن ابراہیم، ایوب، حمید بن ہلال، حضرت ابوبردہ سے روایت ہے کہ حضرت عائشہ نے ہمیں ایک صوف کی موٹی چادر اور ایک موٹے کپڑے کا تہند دکھایا اور فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی روح مبارک انہی دو کپڑوں میں ہوئی تھی اس باب میں حضرت علی اور ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی احادیث منقول ہیں۔ حدیث عائشہ حسن صحیح ہے۔

ترمذی:جلد اول:حدیث نمبر 1803
ترمذی شریف (اردو مترجم) ج ۲ ص ۲۱۷

حدیث نمبر 5:
حَدَّثَنَا مُوسَی بْنُ إِسْمَعِيلَ حَدَّثَنَا حَمَّادٌ ح و حَدَّثَنَا مُوسَی حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ يَعْنِي ابْنَ الْمُغِيرَةِ الْمَعْنَی عَنْ حُمَيْدِ بْنِ هِلَالٍ عَنْ أَبِي بُرْدَةَ قَالَ دَخَلْتُ عَلَی عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا فَأَخْرَجَتْ إِلَيْنَا إِزَارًا غَلِيظًا مِمَّا يُصْنَعُ بِالْيَمَنِ وَکِسَائً مِنْ الَّتِي يُسَمُّونَهَا الْمُلَبَّدَةَ فَأَقْسَمَتْ بِاللَّهِ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قُبِضَ فِي هَذَيْنِ الثَّوْبَيْنِ


موسی بن اسماعیل، حماد، موسیٰ بن سلیمان، ابن مغیرہ، حمید بن ہلال، ابوبردہ فرماتے ہیں کہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے پاس گیا تو انہوں نے ایک موٹے کپڑے کا تہبند نکالا جو کہ یمن میں بنایا جاتا تھا اور ایک چادر جسے ملبدہ کا نام دیا جاتا تھا پس حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے قسم کھا کر فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان دو کپڑوں میں تھے کہ آپ کی روح مبارک قبض ہو گئی۔

سنن ابوداؤد:جلد سوم:حدیث نمبر 646
ابوداود ج ۲ ص ۲۰۴

حدیث نمبر 6:

سیدہ عائشہؓ فرماتی ہمیں جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی روح مبارک قبض کی گئی تو اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا سر مبارک میری گردن اور سینے کے پاس تھا جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی روح مبارک نکلی تو میں نے ایسی عمدہ و اعلٰی خو شبو پائی کہ اس سے بہتر خوشبو کبھی نہیں پائی تھی۔

مسند احمد ج ۲ ص ۱۲۱
سیرۃ النبویۃ لا ابن کثیر ج ۴ صفحہ 478 بسند صحیح

حدیث نمبر 7:

حَدَّثَنَا عَفَّانُ حَدَّثَنَا هَمَّامٌ قَالَ أَخْبَرَنَا هِشَامُ بْنُ عُرْوَةَ عَنْ أَبِيهِ عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ قُبِضَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَرَأْسُهُ بَيْنَ سَحْرِي وَنَحْرِي قَالَتْ فَلَمَّا خَرَجَتْ نَفْسُهُ لَمْ أَجِدْ رِيحًا قَطُّ أَطْيَبَ مِنْهَا

مسند احمد:جلد نہم:حدیث نمبر 4872
حضرت عائشہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا جس وقت وصال ہوا تو ان کا سر مبارک میرے حلق اور سینہ کے درمیان تھا اور جس وقت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی روح نکلی تو اس کے ساتھ ایک ایسی مہک آئی جو اس سے پہلے میں نے کبھی محسوس نہیں کی۔

حدیث نمبر 8:

حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ قَالَ أَخْبَرَنِي ابْنُ جُرَيْجٍ قَالَ أَخْبَرَنِي أَبِي أَنَّ أَصْحَابَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمْ يَدْرُوا أَيْنَ يَقْبُرُونَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى قَالَ أَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ لَنْ يُقْبَرَ نَبِيٌّ إِلَّا حَيْثُ يَمُوتُ فَأَخَّرُوا فِرَاشَهُ وَحَفَرُوا لَهُ تَحْتَ فِرَاشِهِ

مسند احمد:جلد اول:حدیث نمبر 27
ابن جریج کہتے ہیں کہ مجھے میرے والد نے یہ حدیث سنائی کہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا وصال ہو گیا تو لوگوں کے علم میں یہ بات نہ تھی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک کہاں بنائی جائے؟ حتی کہ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے اس مسئلے کو حل کرتے ہوئے فرمایا کہ میں نے جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ ہر نبی کی قبر وہیں بنائی جاتی ہے جہاں ان کا انتقال ہوتا ہے، چنانچہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا بستر مبارک اٹھا کر اس کے نیچے قبر مبارک کھودی اور وہیں تدفین عمل میں آئی۔


حدیث نمبر 9:

حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی روح مبارک قبض کی گئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دفن میں صحابہ کرامؓ کا اختلاف ھوا، تو حضرت ابوبکرؓ نے فرمایا کہ میں نے خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا تھا جو مجھے خوب یاد ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
نہیں قبض فرماتے اللہ کسی نبی کی روح مبارک مگر اس جگہ جہاں اللہ تعالٰی کو اپنے نبی کا دفن کروانا پسند ھوتا ھے‘ لھذا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے بسترہ کی جگہ جہاں انتقال ہو ہے ۔دفن کر دو

فتح الباری شرح بخاری ج ۱ ص ۲۳۱ رقم الحدیث ۴۳۲
الترمذی فی الشمائل ص ۲۶ ،باب ماجاء فی وفات رسول صلی اللہ علیہ وسلم
ناصر الدین البانی (تصدیق حدیث صحیح) صحیح الجامع الصغیر رقم الحدیث ۵۶۴۹


الحمد اللہ! قرآن و سنت سے 17 (سترہ) دلائل اپنے عقیدے پر پیش کر دیئے ہیں کہ

"انبیاء علیہم السلام بھی موت سے مستشنٰی نہیں ہیں۔ان پر بھی موت آئی اپنے وقت پر اور ان کی روح کو قبض کیا گیا"


اب انشاءاللہ ، اللہ نے تو فیق دی تو جلد ہی اسی سلسلہ کے تیسرے حصے "نفی اعادہ روح " پر دلائل کے ساتھ حاضر ہوں گا ۔

دعاؤں میں یاد رکھئے گا ۔ اللہ سب کو ہدایت دے ۔۔ اٰمین
 

طاہر اسلام

سینئر رکن
شمولیت
مئی 07، 2011
پیغامات
843
ری ایکشن اسکور
732
پوائنٹ
256
محل نزاع کی تعیین ہونی چاہیے؛انبیا کرامؑ پر وقع موت کا کوئی بھی منکر نہیں؛اصل مسئلہ یہ ہے کہ انھیں بعد ازوفات ایک خاص نوع کی حیات حاصل ہوتی ہے جو دیگر مومنین کو حاصل نہیں ہوتی:الانبیاء احیاء فی قبورھم یصلون۔۔۔الحدیث؛یہ روایت بہ اعتبار سند مقبول ہے؛کیا صاحب تحریر اسے تسلیم کرتے ہیں؟؟
 

طاہر اسلام

سینئر رکن
شمولیت
مئی 07، 2011
پیغامات
843
ری ایکشن اسکور
732
پوائنٹ
256
موصوف صاحب پوسٹ مماتی عقیدے کے حامل ہیں جیسا کہ نفی روح کی بات سے ظاہر ہے حالاں کہ یہ اہل سنت کے ہاں مسلم ہے کہ قبر میں جسد میت مین روح لوٹائی جاتی ہے۔(بہ روایت براء بن عازبؓ در مسند احمد)
 

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,898
پوائنٹ
436
موصوف صاحب پوسٹ مماتی عقیدے کے حامل ہیں جیسا کہ نفی روح کی بات سے ظاہر ہے حالاں کہ یہ اہل سنت کے ہاں مسلم ہے کہ قبر میں جسد میت مین روح لوٹائی جاتی ہے۔(بہ روایت براء بن عازبؓ در مسند احمد)
@طاہر رمضان بھائی کیا کہیں گے آپ یہاں
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,562
پوائنٹ
791
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ ؛
محترم بھائی !۔۔کون سی تحریر کی وضاحت ؟
اب انشاءاللہ ، اللہ نے تو فیق دی تو جلد ہی اسی سلسلہ کے تیسرے حصے "نفی اعادہ روح " پر دلائل کے ساتھ حاضر ہوں گا ۔
شیخ مرنے کے بعد کیا روح قبر میں لوٹائی جاتی ہے ؟؟؟
 
Top