• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

فاسق وظالم حکمرانوں کے خلاف خروج : ایک تحقیقی وتجزیاتی مطالعہ

سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,555
پوائنٹ
641
پیش لفظ

راقم نے ظالم وفاسق مسلمان حکمرانوں کی تکفیر کے بارے ایک کتابچہ یہاں شیئر کیا ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ معاصر مسلمان مملکتوں کے حکمران ظالم وفاسق یا مجازا کافر تو ہیں لیکن کافر حقیقی نہیں ہیں اور ان کے دائرہ اسلام سے خارج ہونے یا مرتد ہونے کے لیے جن عقلی ونقلی دلائل سے استدلال کیا جاتا ہے، ان کا ایک مفصل تجزیاتی جائزہ بھی اس کتابچہ میں پیش کر دیا گیا ہے۔

اپنے اس کتابچے میں ہم ظالم وفاسق مسلمان حکمرانوں کے خلاف خروج کے جواز اور عدم جواز کی بحث دلائل شرعیہ اور سلف صالحین کے اقوال کی روشنی میں پیش کر رہے ہیں جس کا خلاصہ یہ ہے کہ فاسق مسلمان حکمران کے خلاف تو خروج جائز نہیں ہے لیکن ظالم یا بے نماز مسلمان حکمران کے خلاف خروج کا جواز چند شرائط کے ساتھ مشروط ہے لیکن فی زمانہ ان شرائط کا حصول مفقود ہونے کی وجہ سے ظالم اور بے نماز مسلمان حکمران کے خلاف خروج بھی جائز نہیں ہے۔ احکام خروج سے متعلقہ یہ کتابچہ چند اقساط کی صورت میں ماہنامہ 'الاحرار' ملتان میں شائع ہو چکا ہے۔

اس کے بعد ہم اپنا ایک اور کتابچہ یہاں فورم پر شیئر کریں گے کہ جس میں فی زمانہ ظالم وفاسق مسلمان حکمران کی جگہ عادل واہل حکمران لانے کے خروج کے علاوہ شرعی طریقوں اور مناہج اور ان کے احکامات کو زیر بحث لایا جائے گا۔
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,555
پوائنٹ
641
فاسق وظالم حکمران کے خلاف خروج : ایک تحقیقی مطالعہ

اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ ہمارے موجودہ حکمران فاسق و فاجر ہیں۔صدر زرداری کی (www.youtube.com)ویب سائیٹ پر ایسی ویڈیوز موجود ہیں کہ جن میں اسے شراب پیتے دکھلایا گیا ہے۔ اسی ویب سائیٹ پروزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کی بھی ایسی ویڈیوز موجود ہیں کہ جن میں اسے سابقہ وزیر اطلاعات شیری رحمان کے ساتھ غیر شرعی حرکات کرتے دکھایا گیاہے۔ اسی طرح کی ویڈیوز گورنر پنجاب سلمان تاثیر اور بلاول بھٹو زرداری کی غیر شرعی حرکات کے بارے میں بھی موجود ہیں۔ ہر شخص اس ویب سائیٹ پر ان حضرات کے نام پر یہ ویڈیوزتلاش کر کے دیکھ سکتا ہے۔ علاوہ ازیں ان کا فسق و فجور اور ظلم وستم الیکڑانک وپرنٹ میڈیا کے ذریعے اس قدر اظہر من الشمس ہے کہ جس کا انکار کوئی بھی صاحب عقل نہیں کر سکتا ہے۔
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,555
پوائنٹ
641
فاسق حکمرانوں کے خلاف خروج
پس ایسے حکمرانوں کو وعظ و نصیحت اور امر بالمعروف و نہی عن المنکر واجب ہے لیکن ا للہ کے رسول ۖ کے فرامین کے مطابق کسی فاسق و فاجرمسلمان حکمران کے خلاف خروج حرام ہے کیونکہ اس میں مسلمانوں کا اجتماعی ضرر اور فتنہ و فساد ہے۔ ہاں اگر کسی پر امن طریقے مثلاً احتجاجی سیاست وغیرہ سے ان حکمرانوں کی معزولی اوران کی جگہ اہل عدل کی تقرری ممکن ہو تو پھر ان کی معزولی اور امامت کے اہل افراد کی اس منصب پر تقرری بھی اُمت مسلمہ کا ایک فریضہ ہو گی۔

فاسق و فاجرحکمرانوں کے خلاف خروج کی حرمت کے دلائل درج ذیل ہیں۔ آپ کا ارشاد ہے:
١) ''ألا من ولی علیہ وال فرآہ یأتی شیئاً من معصیة اللہ فلیکرہ ما یأتی من معصیة اللہ ولا ینزعن یدا من طاعة.'' (صحیح مسلم' کتاب الامارة' باب خیار الأئمة و شرارھم)
''خبردار! جس پر بھی کوئی امیر مقررہوا اور وہ اس امیر میں اللہ کی معصیت پر مبنی کوئی کام دیکھے تو وہ امیر کے گناہ کو تو ناپسند کرے لیکن اس کی اطاعت سے ہاتھ نہ کھینچے۔''

٢) ''من کرہ من أمیرہ شیئا فلیصبر علیہ فنہ لیس من أحد من الناس یخرج من السلطان شبرا فمات علیہ لا مات میتة جاھلیة.''(صحیح مسلم' کتاب الامارة' وجوب ملازمة جماعة المسلمین عند ظھور الفتن ؛ صحیح بخاری' کتاب الفتن' قول النبی سترون بعدی أمورا تنکرونھا)
جسے اپنے امیر میں کوئی برائی نظر آئے تو وہ اس پر صبر کرے کیونکہ کوئی بھی شخص جب حکمران کی اطاعت سے ایک بالشت برابر بھی نکل جاتا ہے اور اسی عدم اطاعت پر اس کی موت واقع ہو جاتی ہے تو وہ جاہلیت کی موت مرتا ہے۔

٣) '' ومن خرج علی أمتی یضرب برھا وفاجرھا ولا یتحاش عن مؤمنھا و لا یفی لذی عھد عھدہ فلیس منی ولست منہ.'' (صحیح مسلم' کتاب الامارة' وجوب ملازمة جماعة المسلمین عند ظھور الفتن)
''اور جو شخص بھی میری امت پر خروج کرے اور اس کے نیک و بدکار دونوں کو مارے اور امت کے مومن سے کو بھی اذیت دینے سے نہیں بچتا (جیسا کہ آج کل کے خود کش حملوں میں معصوم اور دیندار شہریوں کی بھی ہلاکت ہو جاتی ہے)۔ اور نہ ہی کسی ذمی کے عہد کا لحاظ کرتا ہے تو نہ ایسے شخص کا مجھ سے کوئی تعلق نہیں اور نہ میرا اس سے کوئی تعلق ہے۔ ''

٤) ''مَنْ حَمَلَ عَلَیْنَا السَّلَاحَ فَلَیْسَ مِنَّا.''(صحیح بخاری' کتاب الفتن' باب قول النبی من حمل علینا السلاح فلیس منا)
''جس نے ہم پر(یعنی مسلمانوں پر) ہتھیار اٹھائے تو وہ ہم میں سے نہیں ہے۔''

٥) ''سباب المسلم فسوق وقتالہ کفر.''(صحیح بخاری' کتاب الایمان' باب خوف المؤمن من أن یحبط عملہ)
''کسی مسلمان کو گالی دینا فسق و فجور ہے اور اس کا قتل کفریہ فعل ہے۔''

٦) '' اذا التقی المسلمان بسیفیھما فالقاتل والمقتول فی النار.''(صحیح بخاری' کتاب الایمان' باب قولہ تعالی وان طائفتان من المؤمنین اقتتلوا)
''جب دو مسلمان آپس میں اپنی تلواروں(یعنی ہتھیاروں) سے آمنے سامنے ہوں تو قاتل ومقتول دونوں آگ میں ہوں گے۔''

٧) ''لا ترجعوا بعدی کفارا یضرب بعضکم رقاب بعض.''(صحیح بخاری' کتاب الفتن' باب قول النبیۖ لا ترجعوا بعدی کفارا)
تم میرے بعد کافر مت بن جانا کہ ایک دوسرے کی گردنیں مارنے لگ جانا۔

٨) عن عدیسة بنت ھبان بن صیفی الغفاری قالت: جاء علی بن أبی طالب لی أبی فدعاہ للخروج معہ' فقال لہ أبی: ان خلیلی و ابن عمک عھد لی اذا اختلف الناس أن اتخذ سیفا من خشب فقد اتخذتہ فن شئت خرجت بہ معک قالت: فترکہ.''(سنن الترمذی' کتاب الفتن عن رسول اللہ' باب جاء فی اتخاذ سیف من خشب فی الفتنة)
'' عدیسہ بنت ھبان فرماتی ہیں کہ حضرت علی میرے والد صاحب کے پاس آئے اور انہیں اپنے ساتھ (حضرت معاویہ کے خلاف جنگ میں) نکلنے کی دعوت دی۔ تو میرے والد نے حضرت علی سے کہا : بے شک میرے دوست اور آپ کے چچازاد(یعنی محمد ۖ) نے مجھ سے یہ عہد لیا تھا کہ جب مسلمانوں میں باہمی اختلاف ہو جائے تو تم لکڑی کی ایک تلوار بنا لینا۔ پس میں نے لکڑی کی ایک تلوار بنا لی ہے۔ اگر آپ چاہتے ہیں تو میں اس تلوار کے ساتھ آپ کے ساتھ جانے کو تیارہوں۔ عدیسہ بنت ھبان فرماتی ہیں: اس بات پر حضرت علی نے میرے والد کو ان کی حالت پر چھوڑدیا۔''
علامہ ألبانی نے اس روایت کو 'حسن صحیح ' کہا ہے۔(صحیح ابن ماجة :٣٢١٤)


٩) کسروا فیھا قسیکم و قطعوا أو تارکم و اضربوا بسیوفکم الحجارة فان دخل علی أحدکم فلیکن کخیر ابنی آدم۔(سنن أبی داؤد' کتاب الفتن و الملاحم' باب فی النھی عن السعی فی الفتنة)
فتنوں کے زمانے میں اپنی کمانیں توڑ دو۔ اور ان کی تانت ٹکڑے ٹکڑے کر دو۔ اور اپنی تلواریں پتھروں پر دے مارو۔ پس اگر تم میں کسی ایک پر کوئی چڑھائی کرے تو وہ آدم کے دو بیٹوں میں سے بہترین کی مانند ہو جائے۔
علامہ ألبانی نے اس روایت کو 'صحیح' کہا ہے۔ (صحیح ابن ماجة:٣٢١٥)
حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ اس بھائی کی مانند ہو جانا کہ جس نے قتل ہونا تو پسند کر لیا تھا لیکن اپنے بھائی کو قتل کرنے سے انکار کر دیا تھا جیسا کہ سورۃ المائدۃ میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:
لَئِن بَسَطتَ إِلَيَّ يَدَكَ لِتَقْتُلَنِي مَا أَنَا بِبَاسِطٍ يَدِيَ إِلَيْكَ لِأَقْتُلَكَ ۖ إِنِّي أَخَافُ اللَّـهَ رَ‌بَّ الْعَالَمِينَ ﴿٢٨
'' البتہ اگر تو نے میری طرف اپنا ہاتھ بڑھایا تاکہ تو مجھے قتل کرے تو میں اپنا ہاتھ تیری طرف بڑھانے والا نہیں ہوں تاکہ تجھے قتل کروں۔ بے شک میں تمام جہانوں کے رب سے ڈرنے والا ہوں۔ بے شک میں یہ چاہتا ہوں کہ تم (یعنی قاتل) میرے اور اپنے گناہوں کے ساتھ لوٹ جاؤ اور اس کے سبب سے جہنم والوں میں سے ہوجاؤ۔''

١٠) ''وان اللہ لیؤید ھذاالدین بالرجل الفاجر.''(صحیح بخاری' کتاب الجھاد والسیر' باب ن اللہ یؤید الدین بالرجل الفاجر)
''بے شک اللہ سبحانہ و تعالی اس دین اسلام کی تائیدو نصرت فاسق و فاجر آدمی کے ذریعے کرتا ہے۔''

١١) ''کان الناس یسألون رسول اللہ ۖ الخیر وکنت أسألہ عن الشر مخافہ أن یدرکنی فقلت یا رسول اللہۖ انا کنا فی جاھلیة وشرفجاء نا اللہ بھذا الخیر فھل بعد ھذا الخیر من شرقال نعم فقلت وھل بعد ذلک الشر من خیر قال نعم وفیہ دخن قلت وما دخنہ قال قوم یھدون بغیر ھدیی تعرف منھم وتنکرقلت فھل بعد ذلک الخیر من شر قال نعم دعاة علی أبواب جھنم من أجابھم الیھا قذفوہ فیھا قلت یا رسول اللہ صفھم لناقال ھم من جلدتنا ویتکلمون بألستنا قلت فما تأمرنی ان أدرکنی ذلک قال تلزم جماعة المسلمین وامامھم فقلت فان لم یکن لھم جماعة والامام قال فاعتزل الفرق کلھا ولو أن تعض بأصل شجرة حتی یدرکک الموت وأنت علی ذلک.''(صحیح بخاری' کتاب الفتن' باب کیف الأمر اذا لم تکن جماعة)
'' لوگ اللہ کے رسول ۖ سے خیر کے بارے میں پوچھتے تھے اور میں اس ڈر سے شر کے بارے میں سوال کرتا تھاکہ وہ مجھے پانہ لے۔ میں نے اللہ کے رسول ۖ سے کہا:ہم زمانہ جاہلیت اور شر میں مبتلاتھے۔ پس آپ ہمارے پاس یہ خیر لے کر آئے۔ کیا اس خیر کے بعد بھی کوئی شر ہوگا تو آپ نے کہا : ہاں!میں نے پھر کہا : اس شر کے بعد کیا پھر کوئی خیر ہو گاتو آپۖ نے کہا : ہاں! لیکن اس میں ملاوٹ ہو گی۔ میں نے یہ سوال کیا کہ اس کی ملاوٹ سے کیا مراد ہے؟ آپ نے فرمایا : ایک ایسی قوم ہو گی جو میری ہدایت کے مطابق ہدایت حاصل نہیں کریں گے۔ تم ان کے بعض اعمال کو ناپسند کرو گے اور بعض کو پسند۔ میں نے کہا : کیا اس خیر کے بعد بھی کوئی شر ہے۔ تو آپ نے کہا: ہاں! ایسے داعی ہوں گے جو جہنم کے دروازوں کی طرف بلا رہے ہوں گے۔ جس نے بھی ان کی دعوت پر لبیک کہا وہ اس کو جہنم میں پھینک دیں گے۔ میں نے کہا: اے اللہ کے رسول ۖ!:ان کی صفات بیان کریں۔ آپ نے فرمایا : وہ ہمارے جیسے چمڑے رکھتے ہوں گے اور ہمارے زبانوں میں ہی گفتگو کریں گے(یعنی ہماری قوم سے ہوں گے) میں نے کہا: اگر مجھے یہ فتنہ پا لے تو آپ مجھے کیا حکم دیتے ہیں۔ آپ نے فرمایا: مسلمانوں کی جماعت اور ان کے امام کو لازم پکڑ لو۔ میں نے کہا: اگر مسلمانوں کی کوئی جماعت اور امام نہ ہو تو آپ نے کہا:پھر تمام فرقوں سے علیحدہ رہو اگرچہ تمہیں درخت کی جڑ چبا کر گزارہ کرنا پڑے یہاں تک کہ موت تمہیں پا لے اور تم اسی حالت پر ہو۔''

امام نووی نے اس مسئلہ پر اجماع نقل کیا ہے کہ فاسق و فاجر حکمران کے خلاف خروج حرام ہے۔ وہ فرماتے ہیں:
''وأما الخروج علیھم وقتالھم فحرام باجماع المسلمین وان کانوا فسقة ظالمین وقد تظاھرت الأحادیث علی ما ذکرتہ وأجمع أھل السنة أنہ لاینعزل السلطان بالفسق.''(شرح النووی : جلد۱۲، ص ۲۲۹' دار احیاء التراث العربی' بیروت' الطبعة الثانیة' ١٣٩٢' کتاب الامارة' باب وجوب طاعة الأمراء فی غیر معصیة )
'' اور جہاں مسلمان حکمرانوں کے خلاف خروج اور ان سے قتال کا معاملہ ہے تو وہ بالاجماع حرام ہے اگرچہ وہ حکمران فاسق وفاجر اور ظالم ہی کیوں نہ ہو۔ اس مسئلے میں وارد شدہ روایات بہت زیادہ ہیں جیسا کہ میں نے ذکر کیا ہے۔اہل سنت کا اس بات پر بھی اتفاق ہے کہ حکمران فسق و فجور کی وجہ سے امامت سے معزول نہیں ہوتا۔''
بعض اہل علم نے یہ سوال پیدا کیا کہ بعض سلف صالحین مثلا حضرت حسین اور حضرت عبد اللہ بن زبیرنے تو فاسق حکمرانوں کے خلاف بھی خروج کیا تو اجماع کا دعویٰ کیسے ممکن ہے۔

اس کا ایک جواب تو یہ دیا گیا ہے کہ شروع میں اس مسئلے میں سلف میں اختلاف تھا لیکن جب انہوں نے بنوأمیہ اور بنو عباس کے زمانے میں امت مسلمہ میں ہونے والے خروج کے فتنے اور مفاسد دیکھے تو بعد کے زمانوں میں ان کا اس بات پر اتفاق ہو گیا کہ فاسق و فاجر حکمران کے خلاف خروج حرا م ہے۔

دوسرا جواب یہ دیا گیا ہے کہ بنو أمیہ کے بعض حکمرانوں کے خلاف جو خروج تھا وہ مجرد فسق کی بنا پر نہیں تھا بلکہ ان پر دین کو تبدیل کرنے اور کفر کوکا الزام بھی لگایا گیا تھا۔ امام نووی لکھتے ہیں:
''وقال جماھیر أہل السنة من الفقھاء والمحدثین والمتکلمین لاینعزل بالفسق والظلم وتعطیل الحقوق ولا یخلع ولا یجوز الخروج علیہ بذلک بل یجب وعظہ وتخویفہ للأحادیث الواردة فی ذلک قال القاضی وقد ادعی أبوبکر بن مجاھد فی ھذا الاجماع وقد رد علیہ بعضھم ھذا بقیام الحسین والزبیر وأھل المدینة علی بنی أمیة وبقیام جماعة عظیمة من التابعین والصدر الأول علی الحجاج مع بن الأشعث... وحجة الجمھور أن قیامھم علی الحجاج لیس بمجرد الفسق بل لما غیر من الشرع وظاھر من الکفر قال القاضی وقیل أن ھذا الخلاف کان أولا ثم حصل الجماع علی منع الخروج علیھم.'' (شرح النووی :جلد۱۲، ص ۲۲۹' دار حیاء التراث العربی' بیروت' الطبعة الثانیة' ١٣٩٢' کتاب الامارة' باب وجوب طاعة الأمراء فی غیر معصیة )
''جمہور اہل سنت یعنی فقہا' محدثین اور متکلمین کا موقف یہ ہے کہ حکمران فسق و فجور یا ظلم یا حق تلفی کی بنا پر معزول نہیں ہوتا اور نہ ہی ( ان اسباب کی وجہ سے) اسے حکمرانی سے اتارا جائے گا اور نہ ہی اس وجہ سے اس کے خلاف خروج جائز ہو گا بلکہ اس کو وعظ و نصیحت کرنا اور اس کو اللہ کاخوف دلانا ایک شرعی فریضہ ہے جیسا کہ احادیث میں وارد ہوا ہے۔ قاضی عیاض نے کہا ہے: أبوبکر بن مجاہد نے اس مسئلے میں اجماع کا دعوی کیا ہے اور ان کے اس دعوی اجماع کا رد یوں کیا گیا ہے کہ حضرت حسین' حضرت عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما اور اہل مدینہ نے بنوأمیہ کے حکمرانوں کے خلاف خروج کیا۔ اسی طرح صدر أول میں تابعین کی ایک عظیم جماعت نے أشعث کے ساتھ حجاج کے خلاف خروج کیا...جبکہ جمہور کی دلیل یہ ہے کہ حجاج کے خلاف ان سلف صالحین کا خروج صر ف فسق و فجور کی بنا پر نہ تھابلکہ اس وجہ سے تھا کہ انہوں نے شریعت اسلامیہ کو تبدیل کر دیا تھااور کفر کی تائید کی تھی۔ قاضی عیاض نے یہ بھی کہا ہے کہ ایک قول یہ بھی ہے کہ یہ اختلاف شروع میں تھا جبکہ کے بعد کے زمانوں میں ایسے حکمرانوں کے خلاف خروج کے عدم جواز پر اجماع ہو گیا۔
اہل علم کے نزدیک اس مسئلے میں اجماع کا دعوی درست نہیں ہے لیکن جمہور اہل علم کا موقف بہر حال یہی ہے کہ فاسق و فاجر حکمران کے خلاف خروج حرام ہے اور اس کے دلائل بھی قوی ہیں جن سے انکار کی گنجائش نہیں ہے جیسا کہ ہم احادیث بیان کر چکے ہیں۔ امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے اس عدم خروج کی حکمت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ایسے خروج سے حاصل ہونے والا فتنہ و فساد' اس حکمران کے ذاتی فسق و فجور سے کئی گنا بڑا ہوتا ہے۔ وہ فرماتے ہیں:
'' لا یجوز انکار المنکر بما ھو أنکر منہ ولھذا حرم الخروج علی ولاة الأمر بالسیف لأجل المعروف والنھی عن المنکر لأن ما یحصل بذلک من فعل المحرمات و ترک واجب أعظم مما یحصل بفعل المنکر والذنوب والأئمة لا یقاتلون بمجرد الفسق کالزنا وغیرہ فلیس کلما جاز فیہ القتل جاز أن یقاتل الأئمة لفعلھم یاہ ذ فساد القتال أعظم من فساد کبیرة یرتکبھا ولی الأمر.''(مجموع الفتاوی : جلد۱۴، ص ۴۷۲)
'' کسی منکر کا انکار اس سے بڑے منکر سے جائز نہیں ہے۔ اسی وجہ سے أمر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی غرض سے حکمرانوں کے خلاف تلوار سے خروج حرام قرار دیا گیا ہے کیونکہ اس قسم کے خروج سے جن محرمات کا ارتکاب اورفرائض کا ترک لازم آئے گا' وہ ان حکمرانوں کے منکرات اور گناہوں سے بڑے ہوں گے۔ حکمرانوں سے صرف ان کے فسق وفجور مثلاً زنا وغیرہ کی وجہ سے قتال نہیں کیا جائے گا۔ پس ہر وہ گناہ کہ جس کے مرتکب کا قتل جائز ہے' اس گناہ کے ارتکاب پر حکمرانوں سے قتال جائز نہیں ہو گا کیونکہ حکمرانوں سے قتال کا فساد اس گناہ سے بہت بڑھ کر ہے کہ جس کا ارتکاب حکمران کرتا ہے۔''

پس اہل علم کے نزدیک یہ بھی فاسق و فاجر حکمران کے خلاف خروج کی حرمت کی ایک صریح دلیل ہے۔ پس ایسے حکمرانوں کو وعظ و نصیحت اور امر بالمعروف و نہی عن المنکر واجب ہے لیکن ا للہ کے رسول ۖ کے فرامین کے مطابق فاسق و فاجرمسلمان حکمران کے خلاف خروج حرام ہے کیونکہ اس میں مسلمانوں کا اجتماعی ضرر اور فتنہ و فساد ہے۔ ہاں اگر کسی پر امن طریقے مثلاً احتجاجی سیاست وغیرہ سے ان حکمرانوں کی معزولی اوران کی جگہ اہل عدل کی تقرری ممکن ہو تو پھر ان کی معزولی اور امامت کے اہل افراد کی اس منصب پر تقرری بھی اُمت مسلمہ کا ایک فریضہ ہو گی۔
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,555
پوائنٹ
641
ظالم حکمران کے خلاف خروج
اس میں بھی کوئی شک نہیں ہے کہ پاکستانی حکمران اور ان کے احکامات کی تنفیذ کرنے والی سیکورٹی فورسز' ایجنسیاں اور انتظامیہ ظالم ہیں اور ناحق قتل بھی کرتی ہیں۔ ان کے ظلم وستم کی داستانوں سے ہمارے اخبارات بھرے پڑے ہیں۔ چند امریکی ڈالروں کے عوض ہمارے ہاں سے بے گناہ افراد کو پکڑ پکڑ کر امریکیوں کے حوالے کیا گیا۔ اس بارے میں مزیدمعلومات کے لیے ترک باشندے'مراد کرناز' کی عبرت ناک داستان بعنوان 'جب مجھے تین ہزار ڈالر میں امریکیوں کے ہاتھ فروخت کیا گیا' ماہنامہ اردو ڈائجسٹ فروری ٢٠٠٩ء میں ملاحظہ فرمائیں۔

آج اگر کوئی شہری لٹ جائے تو انصاف ملنا تو دور کی بات ایف۔ آئی۔ آر تک کٹوانے کے لیے پولیس والوں کی مٹھی گرم کرنی پڑتی ہے۔ آج ہائی کورٹ کے سامنے قتل ہوجائے تو دس سال تو ہائی کورٹ میں مقدمہ دائر کرنے میں لگ جاتے ہیں اور فیصلہ تو دوسری تیسری نسل جا کر سنتی ہے۔ موجودہ حکمرانوں اور سیاسی لیڈروں کی کرپشن کے بارے میں تحقیقاتی رپورٹس کی ایک پوری لائبریری موجود ہے۔ عدالت میں کوئی الزام ثابت کیے بغیر ایجنسیاں معصوم شہریوں کو غائب کر دیتی ہیں۔ مدرسے کی معصوم بچیوں پر یہ حکمران اورسیکورٹی فورسز آگ و بارود کی بارش برساتی ہیں۔ موجودہ سوات آپریشن میں سیکورٹی فورسز کی طرف سے معصوم شہریوں کو کس قدر بے دردی سے ہلاک کیا جا رہا ہے اس کے لیے روزنامہ جنگ 28-05-2009 میں معروف کالم نگار حامدمیر کا کالم '' رحمانی بخش کے دل کی آگ کون بجھائے؟'' ملاحظہ فرمائیں۔

بہر حال ان حالات میں حکمرانوں کو امر بالمعروف اور نہی عن المنکر واجب ہے۔ اور اگر ظالم حکمران ایسے شخص کو قتل کر دے جو ان کو ظلم و ستم سے روکتا ہو تو یہ سید الشہداء میں سے ہے۔ آپ کا ارشاد ہے :
'' سید الشھداء حمزة بن عبد المطلب ورجل قام الی امام جائر فأمرہ ونھاہ فقتلہ.''(مستدرک حاکم : جلد ۳، ص ۲۱۵' دار الکتب العلمیة' بیروت)
'' شہداء کے سردار حمزہ بن عبد المطلب ہیں اور وہ شخص جس نے ظالم حکمران کے خلاف کلمہ حق کہا اور أمر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ اداکیا اور اس کی وجہ سے حکمران نے اس کو قتل کر دیا۔''

اسی طرح اگر کوئی شخص حکمران کو اس ظلم و ستم سے روکے تو آپ نے اس کو افضل جہاد قرار دیا ہے۔ آپ کا ارشاد ہے:
'' أفضل الجھاد کلمة عدل عند سلطان جائر.''(سنن أبی داؤد' کتاب الملاحم ' باب الأمر بالمعروف والنھی عن المنکر)
''افضل جہاد ظالم حکمران کے خلاف کلمہ حق کہنا ہے۔''

اسی طرح اگر کوئی حاکم کسی شخص کو معصیت مثلاً کسی مسلمان کو قتل کرنے کا حکم دے تو اس مسلمان کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ حکمران کی بات مانے۔ آپ کا ارشاد ہے:
''علی المرء المسلم السمع والطاعة فیما أحب وکرہ الا أن یؤمر بمعصیة فان أمر بمعصیة فلا سمع ولاطاعة.''(صحیح مسلم' کتاب الامارة' باب وجوب طاعة الأمراء فی غیر معصیة)
''ایک مسلمان کے ذمے اپنے حکمرانوں کی سمع و طاعت ہے چاہے وہ پسند کرے یا نہ کرے سوائے اس کہ اسے(حکمران کی طرف سے) کسی گناہ کا حکم دیا جائے۔ پس اگر اسے گناہ کا حکم دیا جائے تو اس گناہ کے ارتکاب میں حکمران کی کوئی اطاعت نہیں ہے۔''


شیخ یوسف القرضاوی کے نزدیک ایسے ظالم حکمرانوں کے خلاف' پر امن خروج 'جائز ہے یعنی وہ خروج جو قلم یا زبان یا پرامن طریقے پر مبنی ہو۔ وہ فرماتے ہیں:

''وأما ان کان الخروج بمجرد اظھار رأی مخالف والتعبیر عنہ باللسان أو القلم فھذا من المعارضة المشروعة ما دامت فی اطار المسلم ولا یجوز معارضة القلم أو اللسان بالسیف وانما تقابل الحجة بالحجة والفکرة بالفکرة.''
''اور اگر خروج کی صورت صرف یہ ہو کہ حکمرانوں کی رائے کے خلاف رائے کا اظہار زبان اور قلم کے ذریعے ہو تو حکمرانوں سے ایسا اختلاف کرنا مشروع ہے جب تک کہ مسلمانی کے دائرے میں ہو۔ قلم اور زبان کا مقابلہ تلوار سے جائز نہیں ہے۔ دلیل کا مقابلہ دلیل سے اور فکر کا فکر سے کیا جائے گا۔''
تفصیل کے لیے لنک دیکھیں:
[http://www.islamonline.net/servlet/Satellite?pagename=Islam
Online-Arabic-Ask_Scholar/FatwaA/FatwaA&cid=112252861]

پس ا گر کسی ظالم و غاصب حکمران کی معزولی اور اس کی جگہ کسی عادل حکمران کی تقرری بغیر کسی فتنے کے مثلاً پر امن خروج یا احتجاجی سیاست سے ممکن ہو تو یہ امت مسلمہ کا ایک اجتماعی فریضہ ہے۔ ابن تین' داؤدی سے نقل کرتے ہیں:
'' الذی علیہ العلماء فی أمراء الجور أنہ ان قدر علی خلعہ بغیر فتنة ولا ظلم وجب والا فالواجب الصبر.'' (فتح الباری:جلد۱۳، ص۷۸' دار المعرفة بیروت' ١٣٧٩ھ' کتاب الفتن' باب قول النبیۖ سترون بعدی أمورا تنکرونھا)
''ظالم حکمرانوں کے بارے میں علماء کاجو قول ہے وہ یہ ہے کہ اگر بغیر فتنے و فساد اور ظلم کے حکمرانوں کو معزول کرنے کی قدرت و طاقت ہو تو ایسا کرنا واجب ہے اور اگر بغیر فتنے و فساد کے یہ ممکن نہ ہو تو پھر صبر کرنا واجب ہے۔''
جمہور اہل سنت کے نزدیک ظالم حکمران کے خلاف مسلح بغاوت یا خروج حرام ہے۔ اس موقف کے دلائل درج ذیل احادیث ہیں۔ آپ کا ارشاد ہے:
''یکون بعدی أئمة لا یھتدون بھدای ولا یستنون بسنتی وسیقوم فیھم رجال قلوبھم قلوب الشیاطین فی جثمان انس قال حذیفة: قلت: کیف أصنع یا رسول اللہ؟ ان أدرکت ذلک؟ قال: تسمع وتطیع وان ضرب ظھرک وأخذ مالک فاسمع وأطع.''(صحیح مسلم' کتاب الامارة' وجوب ملازمة جماعة المسلمین عند ظھور الفتن)
''میرے بعد کچھ حکمران ایسے ہوں گے جو میری ہدایت کے مطابق ہدایت نہیں حاصل کریں گے اور میری سنت کو اپنا طریقہ نہیں بنائیں گے اور انہیں حکمرانوں میں ایسے لوگ بھی ہوں گے کہ ان کے دل' انسانوں کے اجسام میںشیاطین کے دل ہوں۔حضرت حذیفہ نے کہا: اے اللہ کے رسول ۖ!میں اگر ان حکمرانوں کو پا لوں توکیا کروں ۔تو آپ نے فرمایا: ان کی بات سن اور ان کی اطاعت کر' اگرچہ تیری پیٹھ پر(ان کی طرف سے) کوڑے برسائے جائیں اور تیرا مال چھین لیا جائے تو پھر بھی ان کی بات مان اور اطاعت کرتا رہ۔ ''

ایک اور روایت میں ہے کہ ایک صحابی نے آپ سے سوال کیا:
''یا نبی اللہ أرأیت ان قامت علینا أمراء یسألوننا حقھم و یمنعوننا حقنا فما تأمرنا؟ فأعرض عنہ ثم سألہ فأعرض عنہ ثم سألہ فی الثالثة فجذبہ الأشعث بن قیس فقال ۖ اسمعوا و أطیعوا فانما علیھم ما حملوا و علیکم ما حملتم.''(صحیح مسلم' کتاب الامارة'فی طاعة الأمراء وان منعوا الحقوق)
''اے اللہ کے نبی ۖ ! اگر ہمارے پر ایسے حکمران مسلط ہو جائیں جو ہم سے تو اپنے حقوق کا سوال کریں لیکن ہمیں ہمارے حقوق نہ دیں تو آپ ہمیں کیا حکم دیتے ہیں؟ آپ نے اس صحابی سے اعراض کیا۔ اس نے پھر سوال کیا۔ آپ نے پھر اعراض کیا۔ اس نے پھر تیسری مرتبہ سوال کیا تو أشعث بن قیس نے اس کو پیچھے سے کھینچا۔ تو آپ نے فرمایا: تم سنو اور اطاعت کرو۔ سواء اس کے نہیں ان حکمرانوں پر اس کو پورا کرنا لازم ہے جس کے وہ ذمہ دار بنائے گے (یعنی عوام حقوق پورا کرنا ان کی ذمہ داری ہے) اور تم پر اس کو پورا کرنا لازم ہے جس کے تم ذمہ دار بنائے گئے (یعنی حکمرانوں کے حقوق پورا کرناتمہاری ذمہ داری ہے)۔''
امام نووی نے اس بات پر علماء کا اجماع نقل کیا ہے کہ ظالم حکمران کے خلاف خروج حرام ہے۔ وہ فرماتے ہیں:
''وأما الخروج علیھم وقتالھم فحرام باجماع المسلمین وان کانوا فسقة ظالمین وقد تظاھرت الأحادیث علی ما ذکرتہ وأجمع أھل السنة أنہ لاینعزل السلطان بالفسق.''(شرح النووی : جلد۱۲، ص۲۲۹' دار حیاء التراث العربی' بیروت' الطبعة الثانیة' ١٣٩٢' کتاب الامارة' باب وجوب طاعة الأمراء فی غیر معصیة)
''اور جہاں مسلمان حکمرانوں کے خلاف خروج اور ان سے قتال کا معاملہ ہے تو وہ بالاجماع حرام ہے اگرچہ وہ حکمران فاسق وفاجر اور ظالم ہی کیوں نہ ہو۔اس مسئلے میں وارد شدہ روایات بہت زیادہ ہیں جیسا کہ میں نے ذکر کیا ہے۔اہل سنت کا اس بات پر بھی اتفاق ہے کہ حکمران فسق و فجور کی وجہ سے امامت سے معزول نہیں ہوتا۔''

ابن بطال نے بھی اس اجماع کو بیان کیاہے۔ وہ فرماتے ہیں:
'' فی الحدیث حجة فی ترک الخروج علی السلطان ولوجار وقد أجمع الفقھاء علی وجوب طاعة السلطان المتغلب والجھاد معہ وأن طاعتہ خیر من الخروج علیہ لما فی ذلک من حقن الدماء وتسکین الدھماء.''(فتح الباری : جلد۱۳، ص۷' دار المعرفة بیروت' ١٣٧٩ھ' کتاب الفتن ' باب قول النبیۖ سترون بعدی أمورا تنکرونھا)
''اس روایت میں اس بات کی دلیل ہے کہ حکمرانوں کے خلاف خروج حرام ہے اگرچہ وہ ظالم ہی کیوں نہ ہوں۔ فقہاء کا اس بات پر اجماع ہے کہ بزور شمشیر غالب آنے والے حکمران کی اطاعت اس کے ساتھ مل کر جہاد کرنا واجب ہے۔ اور اس کی اطاعت اس کے خلاف خروج سے بہت بہتر ہے کیونکہ اس اطاعت کے ذریعے بہت سا خون گرنے سے بچایا اور باہمی اختلاف کرنے والی جماعتوں کو سکون میں لایا جا سکتا ہے۔''

امام أبو الحسن الاشعری نے بھی اس اجماع کو بیان کیا ہے۔ وہ فرماتے ہیں:
''وأجمعوا علی السمع و الطاعة لأئمة المسلمین وعلی أن کل من ولی شیئا من أمورھم عن رضی أو غلبة وامتدت طاعتہ من بر أو فاجر لا یلزم الخروج علیہ بالسیف جار أو عدل۔(رسالة أھل الثغر : ص ٢٩٦۔٢٩٧' مکتبة العلوم والحکم' دمشق)
''علماء کااس اس بات پر اتفاق ہے کہ مسلمان حکمرانوں کی سمع و طاعت فرض ہے۔ اور جو شخص بھی مسلمانوں کی رضامندی یا بزور بازو ان کا حکمران بن گیا اور اس کی اطاعت نیک و بد تک پھیل گئی تو ایسے حکمران کے خلاف تلوار سے خروج جائز نہیں ہے' چاہے وہ ظلم کرے یا عدل۔''

علامہ صابونی نے اس کوسلف صالحین اور محدثین کا عقیدہ قرار دیا ہے۔ وہ فرماتے ہیں:
''ولایرون الخروج علیھم بالسیف وان رأوا منھم العدول عن العدل والجور والحیف.'' (عقیدة السلف وأصحاب الحدیث : ص ٢٩٤' دارالعاصمة' علامہ صابونی)
''محدثین کی جماعت مسلمان حکمرانوں کے خلاف تلوار سے خروج کو جائز نہیں سمجھتی' اگرچہ وہ حکمران عدل سے ظلم و ستم کی طرف ہی کیوں نہ پھر جائیں۔''

پس محدثین کا عقیدہ بھی اس مسئلے میں بیان ہو گیا۔ امام ابو جعفر طحاوی نے اسے امام ابوحنیفہ' امام ابو یوسف اور امام محمد رحمہم اللہ اجمعین کا عقیدہ قرار دیا ہے۔ وہ فرماتے ہیں:
'' ولا نری الخروج علی أئمتنا وولاة أمورنا وان جاروا ولا ندعوا علیھم ولا ننزع یدا من طاعة ونری طاعتھم فی طاعة اللہ عز وجل فریضة ما لم یأمروا بمعصیة وندعوا لھم بالصلاح والمعافاة.''(شرح العقیدة الطحاویة لابن أبی العز الحنفی : ص ٣٧١' الرئاسة العامة لدارات البحوث العلمیة والفتاء والدعوة والرشاد' الریاض' ١٤١٣ھ)
'' اور ہم اپنے مسلمان حکمرانوں اور امراء کے خلاف خروج کو جائز نہیں سمجھتے اگرچہ وہ ظلم ہی کیوں نہ کریں۔ اور ہم ایسے حکمرانوں کے خلاف بدعا بھی نہیں کرتے اور نہ ہی ان کی اطاعت سے ہاتھ کھینچتے ہیں اور ان کی اطاعت کو اللہ کی اطاعت میں شمار کرتے ہیں کہ جس کو اللہ نے فرض قرار دیا ہے جب تک کہ یہ حکمران کسی گناہ کا حکم نہ دیں اور ہم ان کی اصلاح اور معافی کی دعا کرتے ہیں۔''

علامہ سعد الدین تفتازانی فرماتے ہیں:
' ' ولاینعزل الامام بالفسق أی بالخروج عن طاعة اللہ تعالی والجور أی الظلم علی عباد اللہ تعالی لأنہ قد ظھر الفسق وانتشر الجور من الأئمة والأمراء بعد الخلفاء الراشدین والسلف قد کانوا ینقادون لھم ویقیمون الجمع والأعیاد بذنھم ولایرون الخروج علیھم.''(شرح العقائد النسفیة : ص١٤٤)
''حکمران فسق و فجور یعنی اللہ کی اطاعت سے نکل جانے اور اللہ کے بندوں پر ظلم و ستم کی صورت میں معزول نہیں ہوتا کیونکہ خلفائے راشدین کے دور کے بعد حکمرانوں کا فسق و فجوراور ظلم و ستم پھیل گیا تھا لیکن سلف صالحین ان کی اطاعت کرتے تھے' ان کے اذن سے ان کے ساتھ جمعہ اور عیدین کی نمازیں قائم کرتے تھے اور ان کے خلاف خروج کو جائز نہیں سمجھتے تھے۔ ''

بنو عباس کے بعض خلفاء معتزلی عقائد کے نہ صرف حامی بلکہ پرجوش مبلغ بھی تھے۔ان بدعتی خلفاء نے کئی ایک ائمہ اہل سنت کوخلق قرآن کا عقیدہ اختیار کرنے پر مجبور کیا اور ان کو آزمائش و ابتلاء میں بھی مبتلا کیا لیکن اس کے باوجود بھی ائمہ اہل سنت نے ان کے خلاف خروج کوجائز قرار نہیں دیا۔ امام احمد حنبل رحمہ اللہ تعالی کے پاس بغداد کے تقریباً تمام فقہاء' حاکم وقت 'واثق باللہ' کے خلق قرآن کے عقیدے اور اس کی تبلیغ کے خلاف شکایت لے کر آئے اور کہا کہ یہ شخص خلق قرآن کا نہ صر ف عقیدہ رکھتا ہے بلکہ اس کی تبلیغ بھی کرتا ہے تو ہم اس کی امارت اور سلطنت پر راضی نہیں ہیں تو امام أہل سنت، امام احمد بن حنبل نے ان کو جواب دیا:
''علیکم بالانکار بقلوبکم و لا تخلعوا یدا من طاعة ولا تشقوا عصا المسلمین ولا تسفکوا دمائکم و دماء المسلمین معکم وانظروا فی عاقبة أمرکم واصبروا حتی یستریح بر ویستراح من فاجر.وقال لیس ھذا' یعنی نزع أیدیھم من طاعتہ 'صواباً' ھذا خلاف الآثار.''(الآداب الشرعیة للعلامة ابن المفلح' فصل الانکار علی السلطان والفرق بین البغاة والامام الجائر)
''تم پر حکمران کے عقیدے کا دل سے انکار واجب ہے اور اس کی اطاعت سے ہاتھ نہ کھینچو اور مسلمانوں کی اجتماعیت کو پارہ پارہ نہ کرو اور اپنا اورمسلمانوں کا خون نہ بہاؤ۔ اپنے اس فعل کے انجام پر غور کرو اور صبر سے کام لو یہاں تک کہ نیکوکار راحت پائے اور فاسق و فاجر سے راحت حاصل کی جائے۔ امام صاحب نے یہ بھی کہا کہ یہ یعنی حکمران کی اطاعت سے ہاتھ کھینچنا درست نہیں ہے اور روایات کے خلاف ہے۔''

بعض اہل علم کا کہنا یہ ہے کہ اس مسئلے میں امام نووی کا اجماع کا دعوی درست نہیں ہے کیونکہ بنوأمیہ اور بنو عباس کے دور میں ظالم حکمرانوں کے خلاف کئی ایک خروج ہوئے۔حضرت امام أبو حنیفہ نے نفس زکیہ رحمہما اللہ کے خروج کے حق میں فتوی بھی دیا تھا۔

اس کا ایک جواب یہ بھی دیا گیا ہے کہ شروع میں سلف میں اس مسئلے میں اختلاف تھا اور اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ صحابہ اور تابعین کے زمانے میں یہ اختلاف بہت نمایاں تھا لیکن متاخرین میں اتفاق حاصل ہو گیا ہے جیسا کہ امام نووی نے تذکرہ کیا ہے۔لیکن ہماری رائے یہ ہے کہ متاخرین کے زمانے میں بھی اجماع کا دعوی اور اس کا تحقق ایک مشکل امر ہے بلکہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ غالب جمہور کے نزدیک ظالم و فاسق حکمران کے خلاف خروج جائز نہیں ہے۔

یہ بھی کہا جاتا ہے کہ جن علماء نے فاسق و ظالم حکمرانوں کے خلاف خروج کی حرمت کا دعوی نقل کیا ہے' وہ دعوی تو درست ہے لیکن آج کل کے حکمرانوں پر اس کی تطبیق درست نہیں ہے۔ علماء نے اپنے زمانے کے جن ظالم و فاسق حکمرانوں کے خلاف خروج کو حرام قرار دیا ہے' ان حکمرانوں کے دور میں دین قائم تھا اور ان حکمرانوں کا فسق و فجور ان کی ذات تک محدود تھا جبکہ آج کل کے حکمران اللہ کے دین کو بھی قائم نہیں کرنے والے ہیں بلکہ اس کے خلاف قوانین کا نفاذ کرتے ہیں لہذا ان کے خلاف خروج واجب ہے۔

یہ دعوی درست نہیں ہے کہ بنوأمیہ اور بنو عباس کے دور میں دین قائم تھا۔ دین اپنی حقیقی صورت میں آپ یا خلفائے راشدین ہی کے دور میں ہی قائم تھا۔ بنو أمیہ اور بنو عباس کے دور میں خروج کرنے والوں نے اپنے خلفاء پر جو الزامات لگائے' ان میں ذاتی فسق و فجور' ظلم وستم کے علاوہ دین کو بگاڑنے' فساد فی الأرض اور حرام کو حلال بنانے کے الزامات بھی شامل تھے۔ اس میں بہر حال اختلاف کی گنجائش باقی رہتی ہے کہ بنو أمیہ اور بنو عباس کے خلفا نے حرام کو حلال بنا لیا تھا یا نہیں ؟ یا ان سے کفریہ اعمال و افعال کا اظہار ہواتھا یا نہیں؟ یہاں تو اس وقت یہ بحث قابل ذکر ہے کہ جس قسم کے الزامات آج کل کے حکمرانوں پر عائد کیے جاتے ہیں اور ان کے خلاف خروج کو واجب قرار دیا جاتا ہے' اسی قسم کے الزامات بنو أمیہ اور بنو عباس کے خلفاء پر ان کے ادوار میں عائد کیے جاتے تھے۔ مثال کے طور پر حجاج بن یوسف کی حدود حرم اور بیت اللہ میں محصور عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ اور ان کے أصحاب پر سنگ باری کو کفریہ فعل کا نام نہ دیاجائے تو اوراسے کیا کہا جائے گا ؟۔ تاریخ کی مستند کتابوں میں یہ بات موجود ہے کہ اس سنگ باری کے نتیجے میں بیت اللہ کی دیواریں بھی متاثر ہوں۔(تاریخ الطبری' جلد٣' ص ٣٦١'دار الکتب العلمیة' بیروت' الطبعة الأولی١٤٠٧ھ)

بنو أمیہ کے خلاف خروج میں ابن الأشعث کے ساتھ علماء اور قراء کی ایک بہت بڑی جماعت بھی شامل تھی۔ اس جماعت کے معروف فقیہ عبد الرحمن أبی لیلی نے اپنے ساتھیوں کو بنوأمیہ کی افواج کے خلاف لڑنے پر آمادہ کرنے کے لیے جو تقریر کی' اس میں انہوں بنو أمیہ کے حکمرانوں پر 'المحلین المحدثین المبتدعین' کا الزام لگایا۔(أیضاً: ص٦٣٥) اسی طرح نفس زکیہ نے عباسی خلیفہ أبو جعفر المنصور کے خلاف خروج سے پہلے جو اسے خط لکھاتھا' اس خط کی ابتداء ہی قرآن کی آیت إِنَّ فِرْ‌عَوْنَ عَلَا فِي الْأَرْ‌ضِ وَجَعَلَ أَهْلَهَا شِيَعًا يَسْتَضْعِفُ طَائِفَةً مِّنْهُمْ يُذَبِّحُ أَبْنَاءَهُمْ وَيَسْتَحْيِي نِسَاءَهُمْ ۚ إِنَّهُ كَانَ مِنَ الْمُفْسِدِينَ ﴿٤﴾ وَنُرِ‌يدُ أَن نَّمُنَّ عَلَى الَّذِينَ اسْتُضْعِفُوا فِي الْأَرْ‌ضِ وَنَجْعَلَهُمْ أَئِمَّةً وَنَجْعَلَهُمُ الْوَارِ‌ثِينَ ﴿٥ سے کی تھی۔ (أیضاً:جلد٤' ص٤٣١)نفس زکیہ نے اپنے ایک خطبہ میں أبو جعفر المنصور کو طاغوت اور اللہ کا دشمن قرار دیا اور اسے فرعون سے تشبیہ دی اور اس پر یہ الزام بھی عائد کیا کہ اس نے حلال کو حرام اور حرام کو حلال بنا لیا ہے۔ (أیضاً:ص٤٢٥)

اسی وجہ سے علماء کی ایک جماعت کی رائے یہ ہے کہ بنو أمیہ اور بنو عباس میں جو خروج ہوئے تھے ' اس کی وجہ اس وقت کے حکمرانوں کا صرف فسق و فجور نہیں تھا بلکہ ان حکمرانوں کی طرف سے شریعت اسلامیہ کو تبدیل کردینا' حرام کو حلال بنانا اور کفر کا اظہاردر اصل ان کے خلاف خروج کی وجہ تھا۔ (شرح النووی : جلد ۱۲، ص ۲۲۹' دار حیاء التراث العربی' بیروت' الطبعة الثانیة' ١٣٩٢' کتاب الامارة' بابوجوب طاعة الأمراء فی غیر معصیة)

ہم یہاں یہ نہیں کہہ رہے کہ ہم بنو أمیہ اور بنوعباس کے حکمرانوں کو ہم کفر بواح کا مرتکب سمجھتے ہیں۔ ہم اصل میں یہ کہہ رہے ہیں کہ ہر دور میں مسلمان حکمرانوں پر کفر' شریعت کی تبدیلی' حرام کو حلال بنانے' دین کے بگاڑ اور طاغوت وغیرہ کے فتوے لگائے جاتے رہے ہیں۔ اس بات کا فیصلہ کرنے کے کچھ اصول و ضوابط اور منہج و طریقہ کار ہونا چاہیے کہ کسی حکمران نے واقعتاً کسی کفر کا ارتکاب کیا ہے یا نہیں؟ یا اس نے کسی حرام کو حلال بنایا ہے یا نہیں؟

یہ بات بھی واضح رہے کہ بنو أمیہ اور بنو عباس کے دور میں کوئی تحریری آئین یا قانون تو تھا نہیں کہ جس کے بارے میں یہ کہا جا سکے کہ اس دور کا دستور اللہ کی نازل کردہ شریعت کے مطابق تھا یا نہیں؟۔ وہاں تو اصل قانون بادشاہ وقت کا حکم اور فیصلہ تھا۔ عدالتوں میں بھی قاضیوں کے لیے یہ ممکن نہ تھا کہ وہ اپنے فیصلوں میں خلفاء کے اثر سے محفوظ رہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جلیل القدر أئمہ مثلاً امام أبو حنیفہ وغیرہ نے عہدہ قضاء کو قبول کرنے سے انکار کر دیا تھا کیونکہ امام صاحب کا تاثر یہی تھا کہ عدالتی فیصلوں میں بھی جہاں بادشاہ کے مفادات پر زد پڑ رہی ہو گی' وہاں وہ کبھی بھی شریعت اسلامیہ کے مطابق فیصلوں کو برداشت نہیں کریں گے لہذا انہوں نے اس عہدے کو قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ تاریخ اسلامی سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ان ادوار میں بھی حکمران وقت' قاضی کے فیصلوں سے ماوراء ہوکر اپنا کام کرتے تھے۔ تاریخ میں کتنی ہی ایسی مثالیں ملتی ہیں کہ أموی' عباسی ' فاطمی اور عثمانی خلفاء نے اپنے مخالفین کے قتل کے پروانے جاری کیے اور ان کو ان کی سلطنت کی کوئی عدالت پوچھنے والی نہ تھی۔ مغل بادشاہ أکبر کے زمانے کا 'دین أکبری' اور اس دور کے حنفی علماء کااس کے بارے میں عملی و فکری رویہ کیا تھا؟ تاریخ أندلس کے مطالعہ سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ أندلس کے بیسیوں مسلمان حکمران ایسے ہیں کہ جنہوں نے اپنی باہمی لڑائیوں میں عیسائی سلطنتوں سے مدد لی؟ أندلس کے حکمرانوں کامسلمانوں کے قتل عام کے لیے عیسائی بادشاہوں کی مدد اور پاکستانی حکمرانوں کی افغانستان کے مسلمانوں کی قتل وغارت میں امریکہ کی نصرت میں کیا فرق کریں گے؟

اگر یہ مان لیا جائے کہ بنوأمیہ اور بنو عباس کے زمانے میں اللہ کے قانون کے مطابق فیصلے ہوتے تھے اور خلفاء ان فیصلوں پر اثر انداز نہیں ہوتے تھے اور نہ ہی بادشاہ وقت عدالت سے ماوارء ہو کر اپنے کوئی ذاتی اختیارات رکھتا تھا۔ اور آج اسلامی ریاستوں میں اللہ کی نازل کردہ شریعت کے مطابق فیصلے نہیں ہوتے لہذا دونوں حکمرانوںمیں فرق ہے تو پھر بھی ہم یہ کہیں گے کہ یہ مسئلہ ایسا ہے کہ اس کے بارے میں سلف نے اپنی رائے کا اظہار کیا ہے۔ یعنی اگر کوئی مسلمان حکمران کفر بواح کا مرتکب ہو تواس کے خلاف خروج کی شرائط کیا ہے؟ یہ اس مسئلے کا اصل عنوان بنے گا۔ اوراس مسئلے کے بارے میں قرآن وسنت کی تعلیمات اور سلف کی رائے بالکل واضح ہے ۔ہم آگے چل کر اس پر مزید روشنی ڈالیں گے۔
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,555
پوائنٹ
641
امام أبو حنیفہ کا خروج کے بارے نقطہ نظر
ظالم و فاسق مسلمان حکمران کے خلاف خروج کے بارے میں امام أبو حنیفہ کی رائے کیا تھی؟ اس بارے میں حنفیہ کا اختلاف ہے۔ امام طحاوی (٢٣٩ تا ٣٢١ھ) کی کتاب 'عقیدہ طحاویہ' سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ امام صاحب کا نقطہ نظر ظالم و فاسق حکمران کے خلاف عدم خروج کا تھا۔ وہ لکھتے ہیں:
'' ھذا ذکر بیان عقیدة أھل السنة والجماعة علی مذھب فقھاء الملة : أبی حنیفة النعمان بن ثابت الکوفی وأبی یوسف یعقوب بن براہیم الأنصاری وأبی عبد اللہ محمد بن الحسن الشیبانی رضوان اللہ علیھم أجمعین وما یعتقدون من أصول الدین ویدینون بہ رب العلمین۔۔۔ولا نری الخروج علی أئمتنا وولاة أمورنا وان جاروا ولا ندعوا علیھم ولا ننزع یدا من طاعتھم ونری طاعتھم من طاعة اللہ عز وجل فریضة ما لم یأمروا بمعصیة وندعوا لھم بالصلاح والمعافاة.''(العقیدة الطحاویة : ص ١'٤)
'' یہ فقہائے ملت' امام أبو حنیفہ' امام أبو یوسف اور امام محمد رحمہم اللہ أجمعین کے مذہب پر اہل سنت و الجماعت کے عقائد کا بیان ہے اور یہ أئمہ حضرات جن أصول دین کا اعتقاد رکھتے تھے اور ان کو رب العلمین کا دین قرار دیتے تھے' یہ (رسالہ) ان عقائد و اصولوں کا بیا ن ہے..اور ہم اپنے مسلمان حکمرانوں اور امراء کے خلاف خروج کو جائز نہیں سمجھتے اگرچہ وہ ظلم ہی کیوں نہ کریں۔اور ہم ایسے حکمرانوں کے خلاف بدعا بھی نہیں کرتے اور نہ ہی ان کی اطاعت سے ہاتھ کھینچتے ہیں اور ان کی اطاعت کو اللہ کی اطاعت میں شمار کرتے ہیں کہ جس کو اللہ نے فرض قرار دیا ہے جب تک کہ یہ حکمران کسی گناہ کا حکم نہ دیں اور ہم ان کی اصلاح اور معافی کی دعا کرتے ہیں۔''

اسی عقیدے کا اظہار ابن أبی العز الحنفی(٧٣١ تا ٧٩٢ھ)نے 'عقیدہ طحاویہ' کی شرح میں بھی کیا ہے۔وہ لکھتے ہیں:
''وأما لزوم طاعتھم و ان جاروا' فلأنہ یترتب علی الخروج من طاعتھم من المفاسد أضعاف ما یحصل من جورھم' بل فی الصبر علی جورھم تکفیر السیئات ومضاعفة الأجور' فن اللہ تعالی ما سلط علینا الا لفساد أعمالنا' والجزاء من جنس العمل' فعلینا الاجتھاد بالاستغفار والتوبة وصلاح العمل۔ قال تعالی وما أصابکم من مصیبة فبما کسبت أیدیکم ویعفوا عن کثیر وقال تعالی أو لما أصابتکم مصیبة قد أصبتم مثلیھا قلتم أنی ھذا قل ھو من عندأنفسکم وقال تعالی ما أصابک من حسنة فمن اللہ وما أصابک من سیئة فمن نفسک. وقال تعالی وکذلک نولی بعض الظلمین بعضا بما کانوا یکسبون.فذا أراد الرعیة أن یتخلصوا من ظلم الأمیر الظالم.فلیترکوا الظلم.(شرح العقیدة الطحاویة : ص٣٧٣۔ ٣٧٤' الریاض)
'' اگرچہ وہ حکمران ظلم کریں' پھر بھی ان کی اطاعت لازم ہے' یہ اس وجہ سے ہے کہ ان کی اطاعت سے نکل جانے میں جو فساد و بگاڑ ہے وہ اس فساد سے کئی گناہ زیادہ ہے جو ان کے ظلم کے نتیجے میں حاصل ہوتا ہے۔اور اگر امت ان کے ظلم پر صبر کرے گی تو اس کے گناہ معاف ہوں گے اور اس کے درجات بلند ہوں گے کیونکہ اللہ تعالی نے اس ظالم حکمرانوں کو ہمارے اوپر ہمارے اعمال کے بگاڑ کی وجہ سے مسلط کیا ہے اور سزا' عمل کی جنس سے ہی ہے(یعنی امتیوں نے ایک دوسرے پر ظلم کیا تو اللہ نے ان پر ظالم حکمران بطور سزا مسلط کر دیے)۔ پس ہم پر لازم ہے کہ ہم توبہ و استغفار اور اصلاح عمل کی خوب کوشش کریں۔ اللہ سبحانہ و تعالی فرماتے ہیں: جو بھی تم کوکوئی مصیبت پہنچتی ہے تو وہ تمہارے اعمال کا نتیجہ ہے اور تمہارے بہت سے اعمال سے تو اللہ تعالی ایسے ہی در گزر فرمادیتے ہیں۔ ایک اور جگہ ارشاد فرمایا: اور کیا جب تمہیں ایک بڑی مصیبت پہنچی (یعنی أحد میں) جبکہ تم اس سے دو گنا مصیبت (کفار کو بدر میں) پہنچا چکے تھے تو تم نے کہا: یہ مصیبت کہاں سے آ گئی؟ آپ کہہ دیں: یہ مصیبت تمہاری اپنی جانوں کی طرف سے ہے(یعنی تمہارے اعمال کا نتیجہ ہے)۔ اسی طرح اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا: جو بھی تمہیں بھلائی پہنچتی ہے تو وہ اللہ کی طرف سے ہے اور جو بھی تمہیں برائی پہنچتی ہے تو وہ تمہاری اپنی جانوں کی طرف سے ہے۔اور اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا: اور اسی طرح ہم بعض ظالموں کا حکمران بعض دوسرے ظالموں کو بنا دیتے ہیں' اس وجہ سے کہ جو وہ ظالم اعمال کرتے تھے۔پس اگر رعایا حکمران کے ظلم سے نجات چاہتی ہے تو وہ خود ظلم کرنا ترک کر دے۔''

بریلوی اور دیوبندی مدارس میں عموماً عقیدے کی جو کتاب پڑھائی جاتی ہے یا بطور نصاب مقرر ہے وہ 'شرح العقائد النسفیة' ہے۔ اس کتاب میں بھی علامہ سعدالدین تفتازانی (متوفی ٧٩٣ھ) نے ظالم و فاسق حکمرانوں کے خلاف عدم خروج ہی کا عقیدہ بیان کیا ہے' جیسا کہ ہم 'شرح العقائد النسفیة' کا حوالہ اس مسئلے میں سابقہ صفحات میں نقل کر چکے ہیں۔

امام محمد(١٣٢ تا ١٨٩ھ) کی کتاب 'السیر الکبیر' سے بھی یہ معلوم ہوتا ہے کہ ان کا موقف بھی ظالم و فاسق حکمرانوں کے خلاف عدم خروج کا تھا۔ وہ فرماتے ہیں:
''الا أن یأمرھم بأمر ظاھرلا یکاد یخفی علی أحد أنہ ھلکة أو أمرھم بمعصیة فحینئذ لا طاعة علیھم فی ذلک ولکن ینبغی أن یصبروا ولا یخرجوا علی أمیرھم لحدیث ابن عباس رضی اللہ عنھما أن النبیۖ قال من أتاہ من أمیرہ ما یکرھہ فلیصبر فن من خالف المسلمین قید شبرثم مات مات میتة الجاھلیة.''(السیر الکبیر مع شرحہ للسرخسی' باب مایجب من طاعة الوالی وما لایجب' جلد١' ص ١١٨' دار الکتب العلمیة' بیروت)
''سوائے اس کے کہ وہ حکمران کسی شخص کو ایسے کام کا حکم دے کہ جس کے بارے میں کسی ایک کو بھی اشتباہ نہ ہو کہ وہ ہلاکت ہے یا حکمران کسی شخص کو معصیت کا حکم دے تو اس وقت اس مسئلے میں حکمران کی اطاعت رعایا پر لازم نہیں ہے لیکن ان کے لیے یہبھی لازم ہے کہ وہ صبر کریں اور اپنے حکمران کے خلاف خروج نہ کریں جیساکہ حدیث ابن عباس میں ہے کہ آپ نے فرمایا:جو کوئی اپنے حکمران میں کوئی ناپسندیدہ امر دیکھے تو اس پر صبر کرے کیونکہ جس نے بالشت برابر بھی مسلمانوں کی اجتماعیت کی مخالفت کی اور اسی حالت میں وہ مر گیا تو وہ جاہلیت کی موت مرا۔''

حنفیہ کے خاتمة المحققین علامہ ابن عابدین شامی(متوفی ١٢٥٢ھ)لکھتے ہیں:
وعند الحنفیة لیست العدالة شرطا للصحة فیصح تقلید الفاسق الامامة مع الکراھة' وذا قلد عدلا ثم جار وفسق لا ینعزل' ولکن یستحب العزل ان لم یستلزم فتنة' ویجب أن یدعی لہ' ولا یجب الخروج علیہ' کذا عن أبی حنیفة' وکلمتھم قاطبة فی توجیھہ ھو أن الصحابة صلواخلف بعض بنی أمیة وقبلوا الولایة عنھم.''(ردالمحتار علی در المختار ' کتاب الصلاة' باب الامامة)
''حنفیہ کے نزدیک عدالت' صحت ِ امامت کے لیے شرط نہیں ہے۔ پس فاسق امام کی تقلید کراہت کے ساتھ جائز ہے۔ پس اگر تو حالت عدل میں اس کو امامت دی گئی اور پھر وہ ظالم و فاسق بن گیا تو خود بخود معزول نہیں ہو گا لیکن اگر فتنے کا اندیشہ نہ ہو (یعنی اگر پر امن طریقے سے معزولی ممکن ہو) تو اس کو معزول کرنا لازم ہے۔ یہ بھی (امت پر) واجب ہے کہ ایسے امام کے لیے دعا کرے اور اس کے خلاف خروج واجب نہیں ہے۔ امام أبو حنیفہ کا موقف بھی یہی ہے۔ تمام حنفیہ نے اس مسئلے کی توجیہ یہ بیان کی ہے کہ صحابہ بنو أمیہ کے حکمرانوں کے پیچھے نماز پڑھ لیتے تھے اور صحابہ نے بنو أمیہ کے حکمرانوں کی ولایت قبول بھی کی تھی۔''

تا ہم امام جصاص (٣٠٥تا٣٧٠ھ)نے ' أحکام القرآن' اور الموفق المکی (٥٦٨ھ) نے 'مناقب الامام أبی حنیفة' اور 'حافظ الدین الکردری (٨٢٧ھ) رحمہم اللہ نے اپنی کتاب'مناقب'میں امام صاحب کے بارے میں اس نقطہ نظر کا اظہار کیا ہے کہ وہ فاسق وفاجر اور ظالم مسلمان حکمران کے خلاف خروج کو واجب سمجھتے تھے۔ مؤخر الذکر دو کتابیں تو تاریخی کتابیں ہیں کہ جن میں رطب و یابس' سب جمع ہے لہذا کسی امام کے شرعی موقف کو معلوم کرنے کا کوئی مستند ذریعہ نہیں ہیں۔ دوسری بات یہ بھی ہے کہ یہ دونوں حضرات امام صاحب سے بہت متأخر ہیں اور ان کی کسی بات پر بغیر کسی سند کے کیسے اعتماد کیا جا سکتاہے کہ یہی امام صاحب کا موقف ہے جبکہ متقدمین حنفیہ سے اس سے برخلاف موقف مروی ہے؟ اگرچہ مولانا مودودی نے اپنی کتاب 'خلافت و ملوکیت' میں خروج کے مسئلے میں امام صاحب کا مسلک بیان کرنے کے لیے انہی دو تاریخی کتابوں کی روایات کو بنیاد بنایا ہے' جو کہ ہمارے نزدیک درست طرز عمل نہیں ہے۔

کسی بھی مسئلے میں امام صاحب کا شرعی موقف جاننے کے لیے حنفیہ نے کبھی بھی 'مناقب' یا 'تاریخ' کی کتابوں کی طرف رجوع نہیں کیا بلکہ اس کے لیے عموماً فقہ حنفی کی کتابوں کو بنیاد ی مصدر سمجھا جاتا ہے۔ 'تاریخ 'کی کتابوں کا موضوع فقہی موقف کا بیان نہیں ہے بلکہ ماضی کے حالات و واقعات کا بیان ہے۔ فقہ حنفی کے بنیادی مصادر امام محمد کی چھ کتابیں ہیں کہ جنہیں 'ظاہر الروایہ' بھی کہتے ہیں۔ ان چھ کتابوں میںپانچ مطبوع ہیں جن میں سے ایک 'السیر الکبیر' بھی ہے۔ اس کتاب کا حوالہ ہم اوپرنقل کر چکے ہیں۔ ظالم و فاسق حکمران کے خلاف خروج 'فقہ' کا مسئلہ بھی ہے اور اسی طرح علم 'عقیدہ' کے مباحث میں بھی داخل ہے کیونکہ اہل سنت کو اس مسئلے میں معتزلہ' اہل تشیع اور خوارج سے شروع ہی سے اختلاف رہا ہے۔ معتزلہ' اہل تشیع اور خوارج ظالم اور فاسق وفاجرمسلمان حکمرانوں کے خلاف خروج کو واجب سمجھتے ہیں۔ اسی لیے ہم نے حنفیہ کے عقیدے کی معتبر کتابوں کے حوالے سے بھی امام صاحب اور صاحبین کا نقطہ نظر بیان کر دیا ہے۔

تاہم امام جصاص کے' أحکام القرآن'کے حوالہ جات قابل غور ہیں۔ امام جصاص نے سورہ البقرة کی آیت قَالَ إِنِّي جَاعِلُكَ لِلنَّاسِ إِمَامًا ۖ قَالَ وَمِن ذُرِّ‌يَّتِي ۖ قَالَ لَا يَنَالُ عَهْدِي الظَّالِمِينَ ﴿١٢٤﴾ یعنی میرا (امامت کا وعدہ) ظالموں کونہیں پہنچے گا' کے تحت امام أبو حنیفہ کا یہ مسلک نقل کیا ہے کہ امام صاحب فاسق و فاجراورظالم مسلمان حکمران کے خلاف خروج کو واجب سمجھتے تھے۔ امام جصاص نے اس موقف کے اثبات میں آیت مذکورہ بالا کے علاوہ 'أمر بالمعروف اور نہی عن المنکر' کی آیات سے بھی استدلال کیا ہے۔

یہ بات أظہر من الشمس ہے کہ اہل سنت اور معتزلہ کے تصور 'أمر بالمعروف و نہی عن المنکر' میں بہت فرق ہے۔ 'أمر بالمعروف و نہی عن المنکر' معتزلہ کے اصول خمسہ میں سے ایک بنیادی أصول ہے کہ جس کے تحت وہ مسلمان حکمرانوں کے خلاف خروج کو واجب سمجھتے ہیں جیسا کہ عقائد کے کتابوں میں یہ بحث مفصل طور پر موجود ہے۔ امام جصاص اپنی جلالت علم اور فقہی بصیرت کے باوجوداس مسئلے میں 'أمر بالمعروف و نہی عن المنکر' سے متعلق آیات و أحادیث کی جوتشریح و توضیح پیش کرتے ہیں' وہ درحقیقت معتزلہ کے تصور دین اور دلائل پر مبنی ہیں۔ اہل سنت 'نہی عن المنکر بالید' کے قائل ہیں لیکن معتزلہ کی طرح ہر حال میں اس کو واجب قرار نہیں دیتے۔

رہا امام جصاص کا آیت مذکورہ یعنی لَا يَنَالُ عَهْدِي الظَّالِمِينَ سے خروج کے وجوب پر استدلال کرنا' تو یہ استدلال کئی اعتبارات سے محل نظر ہے۔ پہلی بات یہ ہے کہ اس آیت مبارکہ میں خبر دی گئی ہے نہ کہ یہ أمر ہے اور آیت کا سیاق و سباق قَالَ إِنِّي جَاعِلُكَ لِلنَّاسِ إِمَامًا ۖ قَالَ وَمِن ذُرِّ‌يَّتِي ۖ خبر کو بمعنی أمر لینے میں مانع معلوم ہوتا ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ اگر اس آیت کو خبر بمعنی أمرمان بھی لیا جائے تو اس آیت میں منشا متکلم یہ ہے کہ فاسق و فاجر یا ظالم کوابتدا امام یا حکمران نہ بنایا جائے اور اس پر تو جمیع اہل سنت کا اتفاق ہے۔ لیکن مسئلہ تو یہ زیر بحث ہے کہ جب ایسا شخص تلوار یا کسی جمہوری طریقے سے حکمران بن جائے تو اس کے بارے میں کیا طرز عمل ہونا چاہیے؟ تیسری بات یہ ہے کہ اس آیت مبارکہ میں امامت سے مراد کوئی سیاسی امامت یاحکمرانی نہیں ہے بلکہ روحانی امامت مراد ہے جیسا کہ حضرت ابراہیم کو دلوں کی امامت حاصل تھی نہ کہ وہ دنیا کے بادشاہ تھے۔ پس اس معنی میں ہر دور میں اہل علم کو مسلمانوں کی روحانی امامت حاصل رہی ہے اور لوگ دل و جان سے ان کے معتقد اور پیروکار رہے ہیں۔ ہمارے نزدیک یہی اس آیت کا واقعی مفہوم ہے اور یہ امامت آج بھی 'راسخون فی العلم' کوحاصل ہے۔ امام 'فعال' کے وزن میں اسم مفعول کے معنی میں ہے یعنی جس کی پیروی کی جائے اور اصل پیروی تو انبیاء یا ان کے ورثاء اہل علم ہی کی ہوتی ہے نہ کہ سیاسی حکمرانوں کی۔ پس اس معنی کے ساتھ یہ اللہ کی طرف سے انبیاء' صحابہ' تابعین ' أئمہ سلف اور راسخون فی العلم کو روحانی امامت عطا کرنے کا ایک وعدہ ہے جو کہ پورا ہو چکا اور قیامت تک ہوتا رہے گا۔

اگر تاریخی روایات پر اس مسئلہ کی بنیاد رکھیں توامام أبو حنیفہ کوفہ میں تقریباً١٢٠ھ میں اپنے استاذ امام حماد کی وفات کے بعد مسند درس و تدریس پر فائز ہوئے۔ زید بن علی کا خروج١٢٢ھ میں ہوا کہ جس خروج کے حق میں تاریخ کی مستند و ابتدائی کتابوں مثلاً تاریخ طبری' طبقات ابن سعد اور تاریخ بغداد میں امام صاحب کی تائید کا تذکرہ ہمیں نہیں ملا۔ بلکہ امام جصاص نے احکام القرآن میں لکھا ہے کہ امام صاحب نے اس خروج کے بارے میں اس رائے کا اظہار کیا تھا کہ یہ کامیاب ہونے والا نہیں ہے۔ ١٤٥ھ میں محمد بن عبد اللہ نفس زکیہ اور ان کے بھائی ابراہیم بن عبد اللہ نے عباسی خلیفہ أبوجعفر المنصور کے خلاف خروج کیا۔ مولانا مودودی نے امام جصاص اورعلامہ کردری رحمہم اللہ کے حوالے سے یہ نقل کیا ہے کہ امام أبوحنیفہ اپنے شاگردوں کو نفس زکیہ سے بیعت کرنے کی تلقین کرتے تھے اور اس کے ساتھ مل کر عباسی خلیفہ کے خلاف خروج کو کافروں سے جنگ سے بھی زیادہ افضل سمجھتے تھے اور اس خروج کو نفلی حج سے ٥٠ یا ٧٠ گنا زیادہ قابل ثواب سمجھتے تھے۔

یہاں ہم پھر یہی عرض کریں گے کہ جب مولانا مودودی کو تاریخ کی مستند و ابتدائی کتابوں میں اس خروج کے حق میں اس قدر مبالغہ آمیز بیانات یا سرے سے ہی کوئی بیان نہ ملا تو انہوں نے اپنی تحقیق کی بنیاد ثانوی مصادر کو بنالیا۔ امام جصاص کی کتاب'أحکام القرآن' تو سرے سے تاریخ کی کتاب ہی نہیں ہے اور علامہ کردری نویں صدی ہجری کے علماء میں سے ہیں۔ تاریخ کے بنیادی مصادرابن سعد (١٦٨ تا ٢٣٠ھ) کی'الطبقات الکبری' اورابن جریر طبری(٢٢٤تا ٣١٠ھ) کی کتاب'تاریخ طبری' وغیرہ میں امام صاحب کے یہ بیانات موجود نہیں ہیں۔

اب سوال یہ ہے کہ چھٹی یانویں صدی ہجری میں الموفق المکی اور علامہ کردری رحمہما اللہ کو یہ کیسے معلوم ہو گیا کہ امام صاحب کا نفس زکیہ کے خروج کے بارے میں یہ موقف تھا؟ اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ امام صاحب کا طرز عمل ان اقوال کی شدت سے نفی کرتا ہے۔ امام صاحب اگر اپنے شاگردوں کو نفس زکیہ کی بیعت کی تلقین کرتے تھے تو انہوں نے خود ان کی بیعت کیوں نہ کی؟ اگر امام صاحب کے نزدیک یہ خروج واجب تھا تو انہوں نے ایک شرعی واجب کو ترک کیوں کیا؟ اگر امام صاحب اس خروج کو نفلی حج سے ٥٠ یا ٧٠ گنا زیادہ ثواب کا کام سمجھتے تھے تو وہ یہ ثواب حاصل کرنے میں پیچھے کیوں رہے اور صرف اپنے شاگردوں کو ہی اس ثواب کے حصول کی تلقین کرتے رہے؟ اور ان کے شاگردوں میں سے بھی امام أبو یوسف' امام محمد' امام زفر رحمہم اللہ کس نے ان کے اس فتوی پر عمل کیا اور بالفعل اس خروج میں شامل ہوئے؟

ہم اس امکان کو رد نہیں کرتے کہ کبھی امام صاحب سے نفس زکیہ نے خروج کے بارے میں کوئی سوال ہوا ہوتو انہوں نے اس کے خروج کے جواز کی تائید میں کوئی بات کہی ہو لیکن اس کو بھی اسی وقت مانا جاسکتا ہے جبکہ اس بارے میں تاریخ یا فقہ کی اولین و مستند کتابوں میں کوئی بیانات مذکور ہوں اور جہاں تک اس خروج کے حوالے سے مبالغہ آمیز کہاوتیں امام صاحب کی طرف منسوب کرنے کا معاملہ ہے تو ہم اس کے حق میں بالکل بھی نہیں ہیں جیسا کہ بعض متأخرین حنفیہ اور مولانا مودودی رحمہ اللہ نے ایسا کیا ہے۔

اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ امام صاحب نے نفس زکیہ کے خروج کے حق میں فتوی دیا تھا تو پھر بھی اس بات کا امکان موجود رہتا ہے کہ امام صاحب نے اس خروج کی ناکامی اور مفاسد کو دیکھتے ہوئے اپنی رائے سے رجوع کر لیا ہو جیسا کہ شیخ أبو زہرہ نے اپنی کتاب 'حیات امام أبی حنیفہ' میں اس کی طرف اشارہ کیا ہے کہ خروج کے حوالہ سے امام صاحب کی رائے تبدیل ہوئی تھی۔ علاوہ ازیں 'عقیدہ طحاویة' اور 'السیر الکبیر'کے بیانات سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے کہ امام صاحب کی رائے عدم خروج کی تھی اور اگر انہوں نے کسی زمانے میں خروج کے حق میں فتوی دیا بھی تھا تو اس سے رجوع کر لیا تھا۔
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,555
پوائنٹ
641
ظالم حکمران کے خلاف خروج کے دلائل
بعض علماء کا کہنا یہ بھی ہے کہ قتال کی علت 'ظلم' ہے اور قتال ہوتا ہی' ظالم' کے خلاف ہے۔ چاہے وہ ظالم' کافر ہو یا مسلمان ہو۔جیسا کہ آیات قرآنیہ (اُذِنَ لِلَّذِیْنَ یُقٰتَلُوْنَ بِاَنَّھُمْ ظُلِمُوْا)(الحج:٣٩) یعنی (قتال) کی اجازت دی گئی ان لوگوں کو کہ جن سے قتال کیا جارہا تھا اس سبب سے کہ ان پر ظلم ہوا ہے' اور (وَمَالَکُمْ لاَ تُقَاتِلُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ وَالْمُسْتَضْعَفِیْنَ مِنَ الرِّجَالِ وَالنِّسَاء وَالْوِلْدَانِ الَّذِیْنَ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَا اَخْرِجْنَا مِنْ ھٰذِہِ الْقَرْیَةِ الظَّالِمِ اَھْلَھُا وَاجْعَلْنَا مِنْ لَّدُنْکَ وَلِیًّا وَّاجْعَلْنَا مِنْ لَّدُنْکَ نَصِیْرًا)(النساء: ٧٥) یعنی تمہیں کیا ہو گیا ہے تم اللہ کے رستے میں قتال نہیں کرتے حالانکہ کمزور مرد' عورتیں اور بچے یہ کہہ رہے ہیں کہ اے ہمارے رب! ہمیں اس بستی سے نکال کہ جس کے رہنے والے ظالم ہیں اور ہمارے لیے اپنے پاس سے کوئی سرپرست بنا اور ہمارے لیے اپنی طرف سے کوئی مدگار بنا' اس بات کی دلیل ہیں کہ ظالم کافر سے قتال واجب ہے۔

اور اسی طرح آیت مبارکہ( فَقَاتِلُوا الَّتِیْ تَبْغِیْ حَتّٰی تَفِیْئَ اِلٰی اَمْرِ اللّٰہِ)(الحجرات:٩) یعنی تم لڑائی کرو اس جماعت سے جو ظلم کرتی ہے یہاں تک کہ وہ اللہ کے حکم کی طرف لوٹ آئے' اس بات کی دلیل ہے کہ ظالم مسلمان کے ساتھ بھی قتال واجب ہے۔ علاوہ ازیں یہ اہل علم آیت مبارکہ (وَالَّذِیْنَ اِذَا اَصَابَھُمُ الْبَغْیُ ھُمْ یَنْتَصِرُوْنَ)(الشوری: ٣٩) یعنی اور وہ لوگ کہ جن کے ساتھ اگر زیادتی یا ظلم ہو تو وہ بدلہ لیتے ہیں' اور (فَمَنِ اعْتَدٰی عَلَیْکُمْ فَاعْتَدُوْا عَلَیْہِ بِمِثْلِ مَا اعْتَدٰی عَلَیْکُمْ)(البقرة:١٩٤) یعنی پس جو کوئی تم سے زیادتی کرے تو تم بھی اس سے اتنی ہی زیادتی کر سکتے ہو جتنی کہ اس نے تمہارے ساتھ کی ہے' جیسی آیات سے بھی ظالم مسلمان حکمران کے خلاف خروج کے جواز پر استدلال پیش کرتے ہیں۔

ان علماء کا کہنا یہ ہے کہ قرآن کی جن آیات میں ظالم مسلمان سے قتال یا بدلہ لینے کا حکم دیا گیا ہے تو اس سے مراد اجتماعی ظلم ہے۔ یعنی اگر حکمران کا ظلم اجتماعی ہو اور مسلمانوں کا ایک معتد بہ طبقہ یا جماعت اس ظلم سے متاثر ہو رہی ہو تو پھر اس ظالم مسلمان حکمران کے خلاف قتال جائز ہے۔ جن احادیث میں ظالم حکمران کے خلاف خروج سے منع کیا گیا ہے' ان کے بارے میں ان علماء کا کہنا یہ ہے کہ یہ أحادیث انفرادی ظلم وستم کے بارے میں ہیں۔

اسی طر ح اگر حکمران کے خلاف مسلح جدوجہد کرنے والی جماعت سے کوئی معاہدہ یا مصالحت ہو جائے تو اب اس معاہدے کی اگر حکمران خلاف ورزی کرے تو بھی خروج قرآن کی آیت( وَاِنْ طَائِفَتَانِ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ اقْتَتَلُوْا فَاَصْلِحُوْا بَیْنَھُمَا فَاِنْ بَغَتْ اِحْدَاھُمَا عَلَی الْاُخْرٰی فَقَاتِلُوا الَّتِیْ تَبْغِیْ حَتّٰی تَفِیْئَ اِلٰی اَمْرِ اللّٰہِ)(الحجرات:٩) یعنی اگر اہل ایمان کے دو گروہ آپس میں لڑ پڑیں تو ان کے مابین صلح کرواؤ۔ پس اگر ان میں سے ایک گروہ دوسرے گروہ پر ظلم و زیادتی کرے تو اس ظلم و زیادتی کرنے والے سے لڑو یہاں تک کہ وہ اللہ کے حکم کی طرف لوٹ آئے' کے تحت جائز ہے۔

ہمیں اس بات سے تو اتفاق ہے کہ قتال کی علت 'ظلم' ہے اور قتال ظالم کافر ہو یا ظالم مسلمان' دونوں کے خلاف ہوسکتاہے بشرطیکہ اس کی اہلیت و استطاعت ہو۔ پس آیت مبارکہ(وَالَّذِیْنَ اِذَا اَصَابَھُمُ الْبَغْیُ ھُمْ یَنْتَصِرُوْنَ)(الشوری:٣٩) یعنی اور وہ لوگ کہ جن کے ساتھ اگر زیادتی یا ظلم ہو تو وہ بدلہ لیتے ہیں' اور آیت مبارکہ (فَمَنِ اعْتَدٰی عَلَیْکُمْ فَاعْتَدُوْا عَلَیْہِ بِمِثْلَ مَا اعْتَدٰی عَلَیْکُمْ)(البقرة: ١٩٤) یعنی پس جو کوئی تم سے زیادتی کرے تو تم بھی اس سے اتنی ہی زیادتی کر سکتے ہو جتنی کہ اس نے تمہارے ساتھ کی ہے' اورآیت مبارکہ (فَقَاتِلُوا الَّتِیْ تَبْغِیْ حَتّٰی تَفِیْئَ اِلٰی اَمْرِ اللّٰہِ)(الحجرات:٩) یعنی تم لڑائی کرو اس جماعت سے جو ظلم کرتی ہے یہاں تک کہ وہ اللہ کے حکم کی طرف لوٹ آئے' کایہ مطلب بالکل بھی نہیں ہے کہ انسان کے پاس بدلے کی اہلیت و استطاعت نہ ہو اور پھر بھی وہ بدلہ لینے چل پڑے اور اس طرح اپنا اور نقصان کر لے۔یہ خطاب انہی لوگوں سے ہے جو بدلہ لینے کی استطاعت و صلاحیت رکھتے ہیں۔

اس کی دلیل یہ ہے کہ جب تک بدلہ لینے کی استطاعت و صلاحیت نہ تھی اس وقت بھی ظلم ہو رہا تھا لیکن صبر و مصابرت اور ہاتھوں کو روکنے کا کا حکم تھا۔ جیسا کہ قرآن کی آیت (اَلَمْ تَرَ اِلَی الَّذِیْنَ قِیْلَ لَھُمْ کُفُّوْا اَیْدِیَکُمْ وَاَقِیْمُوا الصَّلٰوةَ وَآتُوا الزَّکٰوةَ فَلَمَّا کُتِبَ عَلَیْھِمُ الْقِتَالُ)(النساء: ٧٧) یعنی کیا آپۖ نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا کہ جن کو کہا گیا تھاکہ تم اپنے ہاتھ باندھے رکھو اور نماز قائم کرو اور زکوة ادا کرو 'پس جب ان پر قتال فرض کیا گیا' میں اس بات کی طرف صریح اشارہ ہے کہ پہلے ظلم کے مقابلے میں ہاتھ نہ اٹھانے کا حکم تھا پھر بدلہ لینے کی اجازت بھی نازل ہو گئی۔ لہٰذا ظلم کے جواب میں صبر و مصابرت اور ظلم کے جواب میں بدلہ لینا دونوں ہی اسلام کے منہج ہیں اور تاحال جاری ہیں۔ ان میں سے کوئی منہج بھی منسو خ نہیں ہوا ہے۔

بعض جذباتی عناصر نے یہ دعوی کیا ہے کہ جہاد و قتال کی آیات کے نزول کے بعد قرآن کا وہ ایک تہائی حصہ منسوخ ہے جو صبر و مصابرت اور انذار و تبلیغ کے بارے میں ہے۔ امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے 'مجموع الفتاوی' اور امام زرکشی نے 'البرہان' میں اس مسئلے کی اچھی طرح وضاحت کی ہے کہ یہ دونوں منہج تاحال برقرار ہیں اور قیامت تک جاری رہیں گے ۔حالات کے اعتبار سے یہ فیصلہ کیاجائے گاکہ کون سا منہج اختیار کیا جائے۔

امام ابن تیمیہ نے اس بحث کوبھی خوب اچھی طرح نکھارا ہے کہ ان آیات کا مفہوم یہ بالکل بھی نہیں ہے کہ ان آیات میں ہر ظالم کے ساتھ قتال کا حکم دیا گیا ہے۔ امام صاحب (وَاِنْ طَائِفَتَانِ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ اقْتَتَلُوْا فَاَصْلِحُوْا بَیْنَھُمَا)(الحجرات : ٩) کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ جن دو گروہوں کی لڑائی ہوئی ہے' ان میں سے بھی تو کوئی ایک ظلم و زیادتی کر رہا تھا لیکن اس سے بوجوہ ابتداء قتال کا حکم نہیں دیا اور فرمایا کہ ان کے مابین صلح کروا دو۔ امام صاحب اس سے دلیل پکڑتے ہیں کہ ہر ظالم' کہ جس کا ظلم اجتماعی بھی ہو' اس سے قتال کرنے کا حکم نہیں ہے بلکہ مختلف حالات کے تحت مختلف حکم ہو گا۔ ظالم حکمران سے قتال کی صورت میں جو ظلم پیدا ہو گا' اس کے بارے میں امام صاحب کا کہنا یہ ہے کہ یہ اس ظالم حکمران کے ابتدائی ظلم سے بڑھ کر ہوگا۔ امام صاحب فرماتے ہیں:
''ولھذا کان المشھور من مذھب أھل السنة أنھم لا یرون الخروج علی الأئمة وقتالھم بالسیف وان کان فیھم ظلم کما دلت علی ذلک الأحادیث الصحیحة المستفیضة عن النبیۖ لأن الفساد فی القتال والفتنة أعظم من الفساد الحاصل بظلمھم بدون قتال ولا فتنة فلایدفع أعظم الفسادین بالتزام أدناھما ولعلہ لا یکاد یعرف طائفة خرجت علی ذی سلطان الا وکان فی خروجھا من الفساد أکثر من الذی فی ازالتہ واللہ تعالی لم یأمر بقتال کل ظالم وکل باغ کیفما کان و الا أمر بقتال الباغین ابتداء بل قال ( وان طائفتان من المؤمنین اقتتلوا فأصلحوا بینھما فان بغت احداھما علی الأخری فقاتلوا التی تبغی حتی تفیء الی أمر اللہ فان فاء ت فأصلحوا بینھما بالعدل) فلم یأمر بقتال الباغیة ابتداء فکیف یأمر بقتال ولاة الأمر ابتداء...فقد أخبر النبیۖ أن الأمراء یظلمون ویفعلون أمورا منکرة ومع ھذا فأمرنا أن نؤتیھم الحق الذی لھم ونسأل اللہ الحق الذی لنا ولم یأذن فی أخذ الحق بالقتال ولم یرخص فی ترک الحق الذی لھم.''(منھاج السنة النبویة : ٢٣٠جلد۳ ص ۲۳۰ تا ۲۳۱' مؤسسة قرطبة)
'' اسی وجہ سے اہل سنت کا مشہور مذہب یہ ہے کہ وہ حکمرانوں کے خلاف خروج اور ان کے ساتھ تلوار سے قتال کوجائز نہیں سمجھتے ہیں اگرچہ وہ حکمران ظالم ہی کیوں نہ ہو' جیسا کہ اس مسئلے میں صحیح اور معروف روایات آپ سے مروی ہیں۔ کیونکہ حکمرانوں سے قتال اور اس سے پیدا ہونے والے فتنے کے حالات میں جوفساد حاصل ہوتا ہے وہ بغیر قتال و فتنے کے حالات میں حکمرانوں کے ظلم و ستم حاصل ہونے والے فساد سے بڑھ کر ہے۔ پس دو فسادوں میں سے أدنی فساد کو اختیار کرتے ہوئے بڑے فساد کو دور کیا جائے گا۔ اور یہ اس وجہ سے بھی ہے کہ( تاریخ اسلامی میں) جس گروہ نے بھی کسی حکمران کے خلاف خروج کیا ہے تو اس کے خروج سے اس سے بڑھ کر فساد پیدا ہوا ہے جو کہ اس حکمران کی موجودگی میں تھا۔ اللہ سبحانہ و تعالی نے ہر ظالم اور باغی سے ہر حال میں قتال کا حکم نہیں دیاہے۔ اللہ سبحانہ و تعالی نے باغیوں سے بھی ابتدائً قتال کا حکم نہیں دیا ہے بلکہ یہ کہا ہے : اور اگر اہل ایمان میں سے دو گروہ آپس میں لڑ پڑیں تو ان کے مابین صلح کرواؤ۔ پس اگر ان میں کوئی ایک دوسرے پر پھر بھی ظلم کرے تو اس سے قتال کرو جو ظلم کرتا ہے یہاں تک کہ وہ اللہ کے حکم (یعنی صلح) کی طرف لوٹ آئے۔ پس اگر وہ دوسرا گروہ واپس لوٹ آئے تو ان دونوں کے مابین عدل کے ساتھ صلح کروادو۔ پس اللہ تعالی نے باغی گروہ سے بھی ابتداء قتال کا حکم نہیں دیا تو حکمرانوں سے ابتداء ہی قتال کا حکم کیسے ہو گا؟...آپۖنے یہ بھی خبر دی ہے کہ حکمران ظلم کریں گے اور کچھ منکرات کا ارتکاب کریں گے لیکن اس کے باوجود آپۖ نے ہمیں یہ حکم دیا ہے کہ ہم ان حکمرانوں کو ان کا حق دیں اور اللہ سے اپنے حق کا سوال کریں۔ اورآپۖ نے ہمیں حکمرانوں سے اپنا حق لینے کے لیے قتال کا حکم نہیں دیا اور نہ ہی ہمیں یہ رخصت دی ہے کہ ہم حکمرانوں کو ان کا حق نہ دیں۔''

امام صاحب اس مسئلے میں صرف فکری بحث نہیں کرتے بلکہ وہ تاریخ اسلام کے حوالے دے دے کر یہ ثابت کرتے ہیں کہ اس امت میں فاسق و ظالم حکمرانوں کے خلاف جتنے بھی خروج ہوئے ہیں' ان سے ظلم ختم نہیں ہوا بلکہ بڑھا ہی ہے۔وہ فرماتے ہیں کہ حضرت عثمان' حضرت علی ' حضرت عائشہ' حضرت طلحہ اور حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہم اور بنواُمیہ کے زمانے میں مسلمانوں میں خروج کے نتیجے میں جو باہمی قتل و غارت ہوئی ہے' مسلمان اس کے بارے میں یہ تمنا رکھتے ہیں کہ کاش یہ سب کچھ نہ ہوا ہوتا۔ باوجودیکہ یہ تمام صحابہ رضی اللہ عنہم جنتی ہیں اور اپنے مابعد کے زمانوں کے لوگوں سے افضل ہیں لیکن اس کے باوجود ان کے باہمی جنگ و جدال کو کسی نے بھی پسندیدگی کی نظر سے نہیں دیکھا۔ یہی معاملہ صحابہ کے ما بعد آنے والے زمانوں کا بھی ہے۔ امام صاحب فرماتے ہیں:
''وقل من خرج علی امام ذی سلطان لا کان ما تولد علی فعلہ من الشر أعظم مما تولد من الخیر کالذین خرجوا علی یزید بالمدینة وکابن الأشعث الذی خرج علی عبد الملک بالعراق وکابن المھلب الذی خرج علی ابنہ بخراسان وکأبی مسلم صاحب الدعوة الذی خرج علیھم بخراسان أیضا وکالذین خرجواعلی المنصور بالمدینة و البصرة وأمثال ھؤلاء وغایة ھؤلاء ما أن یغلبوا و ما أن یغلبوا ثم یزول ملکھم فلا یکون لھم عاقبة فان عبد اللہ بن علی و أبا مسلم ھما اللذان قتلا خلقا کثیرا وکلاھما قتلہ أبو جعفر المنصور وأما أھل الحرة وابن الأشعث وابن المھلب وغیرھم فھزموا و ھزم أصحابھم فلا أقاموا دینا ولا أبقوا دنیا واللہ تعالی لا یأمر بأمر لا یحصل بہ صلاح الدین ولا صلاح الدنیا وان کان فاعل ذلک من أولیاء اللہ المتقین ومن أھل الجنة فلیسوا أفضل من علی وعائشة وطلحة والزبیر وغیرھم ومع ھذا لم یحمدوا ما فعلوہ من القتال وھم أعظم قدرا عند اللہ وأحسن نیة من غیرھم وکذلک أھل الحرة کان فیھم من أھل العلم والدین خلق وکذلک أصحاب ابن الأشعث کان فیھم خلق من أھل العلم والدین واللہ یغفر لھم کلھم.''(منھاج السنة النبویة : جلد۴، ص ٣١٣۔ ٣١٤' مؤسسة قرطبة)
''اور جس نے بھی کسی صاحب اختیار حکمران کے خلاف خروج کیا تو اس کے اس خروج سے پیدا ہونے والاشر' اس سے پیدا ہونے والے خیر سے بہت بڑھ کر تھا جیسا کہ وہ لوگ کہ جنہوں نے مدینہ میں یزید کے خلاف خروج کیا اور اسی طرح ابن أشعث کہ جنہوں نے عراق میں مروان بن عبد الملک کے خلاف خروج کیا اور اسی طرح ابن مھلب کہ جس نے خراسان میں اپنے ہی بیٹے کے خلاف خروج کیا اور اسی طرح أبو مسلم کہ جس نے خراسان میں حکمرانوں کے خلاف خروج کیا اور وہ لوگ کہ جنہوں نے مدینہ و بصرہ میں أبو جعفر منصور کے خلاف خروج کیا اور اس طرح کے اور لوگ بھی تھے۔ ان سب کے خروج کا نتیجہ یا تو یہ تھا کہ یہ لوگ مغلوب ہوگئے یا پھر وقتی طور پر غالب آ گئے لیکن جلد ہی ان کی حکمرانی ختم بھی ہو گئی۔ پس اس اعتبار سے ان کا انجام کچھ بھی نہ تھا۔ عبد اللہ بن علی اور أبو مسلم نے مسلمانوں کی ایک بہت بڑی تعداد کو قتل کیا اور ان دونوں کو أبو جعفر منصور نے قتل کر دیا۔ جہاں اہل مدینہ یاابن أشعث یا ابن مہلب وغیرہ کا معاملہ ہے پس انہوں نے اور ان کے پیروکاروں نے شکست کھائی۔ پس نہ تو یہ لوگ دین کو قائم کر سکے اور نہ ہی اپنی دنیا کو بچا سکے۔ اللہ سبحانہ و تعالی کبھی بھی ایسے کام کا حکم نہیں دیتے کہ جس میں نہ تو دین کی اصلاح ہو اور نہ ہی دنیا کی' چاہے اس کے کرنے والے اللہ کے ولی' جنتی اور متقی ہی کیوں نہ ہوں۔پس یہ (خروج کرنے والے) حضرت علی' عائشہ' طلحہ اور زبیر رضی اللہ عنہم سے زیادہ أفضل نہیں ہو سکتے اور ان لوگوں کے جنتی' متقی اور ولی اللہ ہونے کے باوجود ان کے باہمی قتال کی تعریف نہیں کی گئی حالانکہ یہ صحابہ اللہ کے ہاں بہت بلند مرتبہ رکھتے ہیں اور ان کی نیت بھی دوسروں کی نسبت زیادہ خالص تھی۔ اسی طرح اہل مدینہ کے خروج اور ابن أشعث کے أصحاب میں بھی ایسے لوگ موجود تھے جو أصحاب علم و فضل میں سے تھے اور دین و اخلاق کے بلند مرتبہ پر فائز تھے (لیکن جب ان صحابہ اور أئمہ سلف کا باہمی قتال اہل سنت کے ہاں قابل تعریف نہیں ہے تو بعد کے زمانوں میں یہ کیسے قابل تعریف ہو سکتا ہے؟) اللہ سبحانہ و تعالی ان سب سے درگز رفرمائے۔''

اس کو ایک سادہ سی مثال سے یوں سمجھیں کہ ایک تھانیدار نے ایک بے گناہ آدمی زید کو کسی جرم میں اندر کر دیا۔ اب اس بے گناہ نے جب تھانیدار سے اپنا جرم پوچھا تو اس نے اسے ایک تھپڑرسید کر دیا۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ اس مثال میں تھانیدار ظالم ہے اور زید مظلوم ہے۔ اب زید کے تین دوست ہیں۔ ایک دوست کا کہنا یہ ہے کہ زید کو اپنے اوپر کی جانے والی زیادتی کا فوراً بدلہ لیتے ہوئے تھانیدار کو بھی ایک تھپڑ رسید کر دینا چاہیے جبکہ دوسرے دوست کا کہنا یہ ہے کہ زید کو صبر کرنا چاہیے کیونکہ اگر اس نے تھانیدار کو تھپڑ رسید کیا تو تھانیدار کی طرف سے اس کا جواب دس تھپڑوں' لاتوں' مکوں' گالیوں اور ڈنڈوں کی صورت میں ملے گا۔ تیسرا دوست اس بارے میں کسی رائے کا اظہار نہیں کر رہا ہے۔ زید پہلے دوست کی بات مان لیتا ہے اور جواباً تھانیدار کی طر ف سے وہی رد عمل سامنے آتا ہے جس کی پشین گوئی دوسرے دوست نے کی تھی۔ زید رد عمل میں پھر تھانیدار کو ایک تھپڑ رسید کرتا ہے اور جواباً مسلسل تھانیدار کی طرف سے تشدد کا نشانہ بنتا رہتا ہے۔ اب زید کا پہلا دوست اپنے گھر' محلے اور مسجد میں جا کر تھانیدار کے ظلم کی داستانیں عام کرتا ہے لیکن اس سے زید کے ساتھ ہونے والے ظلم کا ازالہ نہیں ہوتا اور اس پر تھانیدار کا ظلم بڑھتا ہی رہتاہے۔ سوال یہ ہے کہ زید کا مخلص دوست کون ہے؟؟؟

خلاصہ کلام یہ ہے کہ ظالم مسلمان حکمران کے خلاف خروج اس صورت میں جائز ہے جبکہ اس کی اہلیت و استطاعت ہواور فی زمانہ یہ اہلیت و استطاعت پیدا کرناتقریباً محال ہے۔ لیکن اس اہلیت و استطاعت کی بعض مخصوص صورتوں پر ہم آگے چل کر بحث کریں گے۔

جہاں تک ان اہل علم کا یہ کہنا ہے کہ احادیث میں صرف انفرادی ظلم کے خلاف خروج سے منع کیا گیا ہے تو یہ بات درست نہیں ہے۔ بعض روایات میں حکمران کے اجتماعی ظلم کے خلاف بھی خروج سے معنی کیا گیاہے۔ جیسا کہ آپ کا ارشاد ہے:
''یا نبی اللہ أرأیت ان قامت علینا أمراء یسألوننا حقھم ویمنعوننا حقنا فما تأمرنا ؟ فأعرض عنہ ثم سألہ فأعرض عنہ ثم سألہ فی الثالثة فجذبہ الأشعث بن قیس فقال ۖ اسمعوا وأطیعوا فانما علیھم ما حملوا وعلیکم ما حملتم.''(صحیح مسلم' کتاب الامارة'فی طاعة الأمراء وان منعوا الحقوق)
'' اے اللہ کے نبی ۖ ! اگر ہمارے پر ایسے حکمران مسلط ہو جائیں جو ہم سے تو اپنے حقوق کا سوال کریں لیکن ہمیں ہمارے حقوق نہ دیں تو آپ ہمیں کیا حکم دیتے ہیں؟ آپ نے اس صحابی سے اعراض کیا۔ اس نے پھر سوال کیا۔آپ نے پھر اعراض کیا۔اس نے پھر تیسری مرتبہ سوال کیا تو أشعث بن قیس نے اس کو پیچھے سے کھینچا۔ تو آپ نے فرمایا: تم سنو اور اطاعت کرو۔ سواء اس کے نہیں ان حکمرانوں پر اس کو پورا کرنا لازم ہے جس کے وہ ذمہ دار بنائے گے (یعنی عوام حقوق پورا کرنا ان کی ذمہ داری ہے) اور تم پر اس کو پورا کرنا لازم ہے جس کے تم ذمہ دار بنائے گئے (یعنی حکمرانوں کے حقوق پورا کرناتمہاری ذمہ داری ہے)۔''

اس خروج کی ممانعت کی علت و حکمت وہی ہے جو ہم نے بیان کر دی ہے یعنی ہر زمانے میں بالعموم اور ہمارے زمانے میں بالخصوص أمراء اور مامورین میں طاقت کا توازن نہ ہونے کے برابر ہے ۔جمہور علماء مالکیہ ' شافعیہ'حنابلہ' اہل الحدیث اور حنفیہ کی ایک جماعت نے اسی حکمت و علت کے پیش نظر ظالم حکمران کے خلاف خروج کو مطلقاً ناجائز قرار دیاہے۔ ان علماء نے امت میں ہونے والے خروج کے مفاسد اور فتن کو دیکھتے ہوئے اپنا منہج ہی یہ قرار دے دیا کہ فاسق و ظالم کے خلاف خروج بالکل بھی جائز نہیں ہے۔کیونکہ اکثر لوگوں نے خروج کیا اور ان کا گمان یہ تھا کہ ان کا خروج کامیاب ہو گا لیکن کامیاب نہ ہوا۔ لہٰذا ان علماء نے قدرت کی شرط بھی نہ لگائی کیونکہ تاریخ میں قدرت و اہلیت کی شرط کا اندازہ اکثرو بیشتر خروج کرنے والے نہ کر سکے اور نتیجے میں مسلمانوں کا قتل عام حاصل ہوا البتہ حنفیہ کی ایک جماعت نے قدرت کی شرط لگائی ہے جس ہرہم آگے چل کر بحث کریں گے۔

ہماری رائے اس مسئلے میں وہی ہے جو جمہور کی ہے کہ ایسے حکمران کے خلاف خروج مطلقاً حرام ہے۔ ہاں اگرکسی ریاست یا ملک کے علماء یہ طے کریں کہ اس خطہ ارضی میں حکمرانوں کا ظلم و ستم اور فسق و فجور کفر کی حد تک بڑھ گیا ہے اور ان کے خلاف خروج سے پیدا ہونے والا فساد ' ان کے باقی رہنے کے فتنہ و فساد سے بڑھ کر ہے تو پھر اس صورت میں خروج جائز ہو گا جبکہ اس خروج کی اہلیت و استطاعت موجود ہو اور اس اہلیت و استطاعت کا علم کیسے ہو گا؟ اس کا فیصلہ بھی اس خطے ہی کے تمام علماء و فقہاء اور أصحاب حل و عقد کریں گے کہ موجودہ حکمرانوں کے خلاف خروج کی طاقت و اہلیت موجود ہے یا نہیں۔ اس اجماعی و اتفاقی فتوی کی موجودگی میں ظلم کا بدلہ لینے والی آیات یا نہی عن المنکر بالید والی روایات سے استدلال کرتے ہوئے خروج کیا جا سکتا ہے۔

خروج کی قدرت و اختیار ہے یا نہیں؟ اس کا فیصلہ کوئی ایک عالم دین ' مذہبی لیڈر یا جماعت کرے گی تو سوائے فتنہ و فساد کے کچھ بر آمدنہ ہوگا اور یہ خروج جائز بھی نہ ہو گا کیونکہ اس مسئلے کا تعلق مسلمانوں کی اجتماعیت سے ہے۔ جب ایک خطے کے تمام مسلمانوں اور مکاتب فکر کے پیروکاروں کو باہمی جنگ و جدال کا حصہ بنانا ہے تو کسی ایک عالم دین یا مذہبی لیڈر کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ اپنے کسی اجتہاد کی بنیاد پر ظالم حکمران کے خلاف خروج کرے اور پورے خطے کے مسلمانوں کو باہمی قتل و غارت کا شکار کر دے۔ اور بالفرض اگر کوئی ایک عالم دین یا گروہ ایساکرے گا تو اسے حکومت کی مخالفت کے ساتھ دیگر مذہبی جماعتوں' دینی تحریکوں اور مخالف مکاتب فکرکے پیروکاروں کی مخالفت کا بھی سامنا کرنا پڑے گا۔ مثلاً اگر دیوبندی مکتب فکر سے تعلق رکھنے والا کوئی جہادی گروہ اس خروج کو واجب سمجھتا ہے اور بریلوی اور اہل حدیث علماء اس خروج کے خلاف ہیں تو یہ دیوبندی جہادی گروہ بریلوی یا اہل حدیث عوام پر بھی اپنی اور حکومت کی باہمی جنگ کو مسلط کرنے کا باعث بنے گا۔ لہذا ا س صورت میں اس گروہ کو پاکستان کے مذہبی حلقے میں ہی شدید رد عمل کا سامنا کرنا پڑے گا اور اس کا بھی امکان ہے کہ اس دیوبندی گروہ کو حکومت وقت سے جنگ لڑنے سے پہلے اپنے ہی مذہبی بھائیوں سے ایک جنگ لڑنی پڑے اور یہ ملک مذہبی فرقہ واریت اور خانہ جنگی کا شکار ہو جائے۔

پس اگر بریلوی' دیوبندی' اہل حدیث علماء اور مذہبی' دعوتی' تحریکی و انقلابی جماعتوں کی قیادت بالاتفاق یہ اجماعی فیصلہ کر لیتی ہے کہ موجودہ ظالم حکمرانوں کے خلاف خروج کرنا چاہیے اور ان حکمرانوں کا فسق و فجور اور ظلم کفر کی سرحدوں کو پار کر چکا ہے اور اس کی اہلیت و قدرت بھی ان کے متبعین میں موجود ہے تو اس اجتماعی مذہبی قیادت میں یہ خروج جائز ہو گا۔ واللہ أعلم بالصواب
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,555
پوائنٹ
641
بے نماز حکمران کے خلاف خروج
ایسا حکمران جو نماز نہ پڑھتا ہو اس کے خلاف خروج جائز ہے بشرطیکہ اس خروج کی طاقت و اہلیت ہو۔ اللہ کے رسول ۖ نے ترک نماز کو کفر قرار دیا ہے۔ آپ کا ارشاد ہے:
''بین الکفر والایمان ترک الصلاة.''(سنن الترمذی' أبواب الایمان عن رسول اللہ' باب ماجاء فی ترک الصلاة)
'' ایمان اور کفر کے مابین حد فاصل نماز کو ترک کر دینا ہے۔''
اس روایت کو علامہ ألبانی نے' صحیح' قرار دیا ہے۔(صحیح الجامع:٢٨٤٩) لہذا جو شخص نماز ادا نہیں کرتا' جمہور علماء کے نزدیک وہ مجازی یا عملی کافر ہے جبکہ علماء کی ایک جماعت اسے حقیقی کافر قرار دیتی ہے۔ ہمارا رجحان پہلی رائے کی طرف ہے۔

امام احمدبن حنبل رحمہ اللہ کے نزدیک بے نماز کافر و مرتد اور واجب القتل ہے جبکہ امام مالک اور امام شافعی رحمہما اللہ کے نزدیک بے نماز کافر حقیقی تونہیں ہے لیکن اسے بطور حد قتل کیا جائے گا۔ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک بے نماز کی سزا تعزیر یعنی قیدہے۔ ہمارا رجحان امام ابو حنیفہ کی رائے کی طرف ہے۔ پس بے نماز حکمران کا فسق و فجور بہت زیادہ ہے کہ جس کی وجہ سے اس کے اس فعل کو احادیث میں ایک کفریہ فعل قرار دیا گیا ہے اور أئمہ نے اس کے بارے میں سخت رائے کا اظہار کیا ہے چونکہ ہمارے معاشروں میں جہالت بہت عام ہے لہذا ایک بے نماز حکمران کے خلاف خروج کی درج ذیل دو شرائط ہونی چاہئیں:
(١) حکمران کو علماء کی ایک جماعت نماز پڑھنے کی تلقین کرے۔ نماز کے فضائل بتلائے اور اس کو نہ پڑھنے کی وعید سنائے۔ اور نمازنہ پڑھنے کی صورت میں حکمران کو اس کا شرعی مقام (status) بھی بتلایا جائے۔ اگر پھر بھی حکمران نماز نہ پڑھنے پر مصر ہو تو اسے بتلایا جائے کہ اب تمہارے خلاف مسلمانوں کا خروج فلاں احادیث کی بنیاد پر جائز ہے۔
(٢) اگر اس سب کچھ کے باوجود حکمران نماز نہ پڑھنے پر مصر رہے تو اس کے خلاف خروج اس صورت میں جائز ہو گا جبکہ اس خروج کی اہلیت و استطاعت ہو اور اس خروج میں مسلمانوں کابڑے پیمانے پر قتل عام یا فساد فی الارض یا امن و امان کی تباہی کا اندیشہ نہ ہو۔ یعنی اگربغیر کسی بڑے فتنے و فساد کے ایسے حکمران سے نجات اور صالح حکمران کی تقرری ممکن ہو تو ایسا خروج جائز ہو گا۔ اس مسئلے میں وارد ہونے والی احادیث کے الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ ایسا خروج جائز ہے یعنی مباح ہے' واجب نہیں ہے۔

لہذا ایک مباح کام سے اگر ایک بڑا مقصد حاصل ہو رہا ہو لیکن اس مباح کام کے ارتکاب میں کوئی بڑا مفسدہ بھی ہو تو پھر اس مفسدے سے اجتناب ( یعنی دفع مضرت ) کو اس مقصد کے حصول (یعنی جلب منفعت) پر ترجیح حاصل ہو گی۔ علاوہ ازیںاس خروج سے پہلے حکمران کا ساتھ دینے والے افراد پر ممکن حد تک حجت قائم کی جائے گی کہ وہ اس مسئلے میںحکمران کا ساتھ نہ دیں۔ اور اس خروج کی اہلیت و قدرت کا فیصلہ اس خطے کے جمیع علماء و مذہبی جماعتوں کے رہنماء کریں گے۔

ایک بے نماز حکمران کے خلاف خروج کے جواز کی دلیل یہ روایت ہے۔آپ کا ارشاد ہے:
'' انہ یستعمل علیکم أمراء فتعرفون و تنکرون فمن کرہ فقد بری و من أنکر فقد سلم و لکن من رضی وتابع قالوا یا رسول اللہ ألا نقاتلھم قال لا ماصلوا.''(صحیح مسلم' کتاب الامارة' باب وجوب الانکار علی الأمراء فیما یخالف الشرع)
''عنقریب تم پر کچھ حکمران ایسے مسلط کیے جائیں گے جن کی بعض باتوں کو تم پسند کرو گے اور ان کی بعض باتوں کاانکار کرو گے۔ پس جس نے ان حکمرانوں کے منکرات کو دل سے ناپسند جانا تو وہ بری الذمہ ہے اور جس نے نہی عن المنکر باللسان کیا تو بھی بچا رہا لیکن جوان حکمرانوں کے منکرات پر راضی ہو گیا اور اس نے ان کی پیروی کی (تو ایسا شخص قابل وبال ہے)۔ صحابہ نے کہا: اے اللہ کے رسول ۖ! کیا ہم ایسے حکمرانوں سے قتال نہ کریں۔ آپ نے فرمایا :نہیں! جب تک کہ وہ نماز پڑھتے ہیں۔''

اسی طرح آپ کا ارشاد ہے کہ جب تک حکمران تمہارے مابین نماز پڑھتے رہیں تو ان کے خلاف خروج نہ کرو۔ یعنی اگر وہ ایسا نہ کریں تو ان کے خلاف خروج جائز ہے' واجب نہیں۔ ایک روایت کے الفاظ ہیں:
''خیار ائمتکم تحبونھم ویحبونکم ویصلون علیکم وتصلون علیھم وشرار أئمتکم الذین تبغضونھم و یبغضونکم وتلعنونھم ویلعنونکم قیل یا رسول اللہ أفلا ننابذھم بالسیف فقال لا ما أقاموا فیکم الصلاة.''(صحیح مسلم' کتاب الامارة' باب خیار الأئمة وشرارھم)
'' تمہارے بہترین حکمران وہ ہیں کہ جن سے تم محبت کرتے ہو اور وہ تم سے محبت کرتے ہیں۔ وہ تمہارے لیے رحمت کی دعا کرتے ہیں اور تم ان کے لیے رحمت کی دعا کرتے ہو۔ اور تمہارے بدترین حکمران وہ ہیں کہ جن سے تم نفرت کرتے ہو اور وہ تم سے نفرت کرتے ہوں۔ تم ان پر لعنت بھیجتے ہو اور وہ تم پر لعن طعن کرتے ہوں۔ کہا گیا: اے اللہ کے رسول ۖ! کیا ہم ان کو تلوار سے ہٹا نہ دیں۔آپ نے فرمایا: نہیں! جب تک کہ وہ تمہارے مابین نماز قائم کرتے رہیں۔''
یہ واضح رہے کہ اگر بے نماز حکمران کی معزولی پر امن خروج اور بغیر فتنے و فساد کے مثلاً احتجاجی سیاست وغیرہ سے ممکن ہو تو ایسا خروج اُمت مسلمہ پرفرض اور واجب ہے۔
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,555
پوائنٹ
641
کفر بواح کے مرتکب حکمران کے خلاف خروج
اگر کوئی مسلمان حکمران' کفر بواح کا مرتکب ہو تو اہل سنت کے نزدیک اس حکمران کے خلاف خروج جائز ہے۔ اس خروج کے جواز میں یہ روایت بیان کی جاتی ہے:
'' دعانا رسول اللہۖ فبایعناہ فکان فیما أخذ علینا أن بایعنا علی السمع والطاعة فی منشطنا ومکرھنا وعسرنا ویسرنا وأثرة علینا وأن لا ننازع الأمر أھلہ قال الا أن تروا کفراً بواحاً عندکم من اللہ فیہ برھان.''(صحیح مسلم' کتاب الامارة' باب وجوب طاعة الأمراء فی غیر معصیة ؛ صحیح بخاری' کتاب الفتن' باب قول النبیۖ سترون بعدی أمورا تنکرونھا)
'' ہمیں اللہ کے رسول ۖ نے پکارا۔ پس ہم نے آپ سے بیعت کی۔ پس جن معاملات میں آپ نے ہم سے وعدہ لیا اور ہم نے آپ سے بیعت کی وہ یہ تھے کہ ہم ہر حال میں سمع و طاعت کریں گے چاہے ہمارے دل آمادہ ہوں یا نہ ہوں' چاہے ہم تنگی میں ہوں یا آسانی میں' اور چاہے ہم پر کسی کو ترجیح دی جائے۔ اور ہم نے اس معاملے میں آپ سے بیعت کی کہ ہم اپنے أمراء سے ان کی امارت میں جھگڑا نہیں کریں گے۔ آپ نے فرمایا: ہاں! سوائے اس کے تم کفر صریح دیکھو کہ جس کفر صریح کے بارے میں تمہارے پاس اللہ کے ہاں کوئی روشن دلیل ہو۔''
مرتد و ظالم حکمران کے خلاف خروج کے جواز میں اس روایت سے استدلال کرنا' ایک کمزور استدلال ہے کیونکہ اس روایت کے معنی و مفہوم میں علمائے سلف کے ہاں اختلاف ہے۔ اس روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ اگر تمہارے پاس 'برہان' انتہائی روشن دلیل ہو تو تم کفر بواح کے مرتکب حکمران کے خلاف خروج کر سکتے ہو حالانکہ یہ روایت ایسے خروج کے ثبوت میں 'برہان' نہیں ہے' اگرچہ ایک استدلال ضرور ہے۔

امام نووی کا کہنا یہ ہے کہ یہ روایت خروج کے مسئلے میں نہیں ہے۔ اس روایت کے الفاظ میں خروج کا تذکرہ ہی نہیں ہے۔ زیادہ سے زیادہ بات سمع و طاعت کی ہے۔ اس روایت کا مفہوم امام نووی کے نزدیک یہ ہے اگر حکمران کفر بواح کا مرتکب ہو تو اس کی سمع و طاعت جائز نہیں ہے اور کفر سے مراد امام نووی کے نزدیک ہر قسم کی معصیت ہے۔ امام نووی لکھتے ہیں:
'' والمراد بالکفر ھنا المعاصی...ومعنی الحدیث لا تنازعوا ولاة الأمور فی ولایتھم ولا تعترضوا علیھم لا أن تروا منھم منکراً محققاً تعلمونہ من قواعد السلام فاذا رأیتم ذلک فأنکروہ علیھم وقولوا بالحق حیث ما کنتم.''(شرح النووی : جلد۱۲، ص ۲۲۹' دار احیاء التراث العربی' بیروت' الطبعة الثانیة' ١٣٩٢' کتاب الامارة' باب وجوب طاعة الأمراء فی غیر معصیة )
''یہاں کفر سے مراد معصیت ہے...اور حدیث کا معنی یہ ہے کہ تم اپنے حکمرانوں سے ان کی حکمرانی کے بارے میں جھگڑا نہ کرو اور ان پر اعتراضات نہ کرو سوائے اس کے کہ تم ان میں کوئی ثابت شدہ منکر دیکھو کہ جو اسلام کی بنیادی تعلیمات کے خلاف ہو۔ پس جب تم حکمران میں کوئی ایسا منکر دیکھو تو اس منکر کا انکار کرو اور جہاں بھی ہو حق بات کہو۔''

جبکہ اس روایت کا ایک دوسرا مفہوم ابن حجرعسقلانی رحمہ اللہ نے یہ بھی بیان کیا ہے کہ اس روایت میں کفر بواح کے مرتکب حکمران کے خلاف خروج کے جواز کا حکم ہے۔ اس رائے کا جواز بھی یوں نکلتا ہے کہ 'ننازع' باب مفاعلہ سے ہے اور 'ننازع الأمرأہلہ' کا معنی حکومت و امارت کو اس کے اہل سے کھینچنا بھی بن سکتا ہے۔ ہمارے نزدیک اس حدیث کے الفاظ امام نووی رحمہ اللہ کی رائے کی تائید کرتے ہیں کہ یہ روایت خروج کے مسئلے کو بیان ہی نہیں کر رہی ہے۔ امام نووی کی اس رائے کی تائید اس بات سے بھی ہو رہی ہے کہ اس حدیث کے الفاظ بتلا رہے ہیں کہ آپ نے صحابہ سے یہ بیعت ان ماتحت امراء کے بارے میں لی تھی کہ جن کو آپ وقتاً فوقتاً مختلف غزوات میں امیر مقرر کرتے رہتے تھے۔ اور آپ کے زمانے میں آپ کے ان ماتحت امراء کے خلاف خروج کا کوئی مسئلہ زیر بحث ہی نہیں ہو سکتا تھا۔ اسی لیے امام نووی نے اس روایت پر 'باب وجوب طاعة الأمراء فی غیر معصیة' کے نام سے باب باندھا ہے۔ بہر حال دونوں معانی کی گنجائش اگرچہ روایت کے الفاظ میں موجود ہے۔

یہ بات بھی درست ہے کہ کفر بواح کے مرتکب حکمران کے خلاف خروج علماء کے نزدیک بالاتفاق جائز ہے۔ لیکن اس میں ان کا اختلاف ہے کہ اس خروج کے جواز کے دلائل کیا ہے۔ بعض علماء نے اس خروج کے جواز کے لیے 'کفر بواح' والی مذکورہ بالا روایت کودلیل بنایا ہے جبکہ بعض علماء نے حکمران کے نماز نہ پڑھنے والی روایات سے اس خروج کے جواز پر استدلال کیا ہے۔

اس مسئلے میں پہلی بات تو یہ ہے کہ کسی مسلمان حکمران کے مرتد ہونے کی دو صورتیں ہیں :
(١) ایک صورت تویہ ہے کہ وہ خود اس بات کا اعلان کرے کہ اس نے دین اسلام کو چھوڑ دیا ہے ۔ یہ تو اس کے مرتد ہونے کی قطعی صورت ہے۔ اس صورت میں اس اعلان کے ساتھ ہی وہ مسلمانوں کی امامت سے معزول ہو جائے گا اور اہلیت و استطاعت کی صورت میں اس کے خلاف جہاد واجب ہو گا۔
(٢) دوسری صورت یہ ہے کہ کوئی مسلمان حکمران نواقض اسلام میں سے کسی ناقض اسلام فعل کا مرتکب یا عقیدے کا حامل ہو اور وہ اپنے مسلمان ہونے کا مدعی ہو تو علماء کے کلام کی روشنی میں اس صور ت میں اس کی تکفیر میں اگرتین شرائط پائی جائیں تو اس کے خلاف خروج جائز ہو گا:
پہلی شرط تو یہ ہے کہ اس کی تکفیر میں کوئی مانع مثلاً جہالت وغیرہ نہ ہو۔
دوسری شرط یہ ہے کہ وہ متأول نہ ہو' اگر وہ کسی نص کی تاویل کر رہا ہے تو اس کا علمی جواب دیا جائے گا۔
تیسری شرط یہ ہے کہ جن بنیادوں پر اس کی تکفیر کی جائے' وہ اتنی واضح ہوں کہ علماء کے مابین اس کی تکفیر میں اختلاف نہ ہو۔


ان تین شرائط کے پائے جانے کے بعد اس حکمران کو علماء کی طرف سے اپنے اس عقیدے یا کفریہ فعل سے رجوع کی دعوت دی جائے گی اور وہ اس کے باوجوداس عقیدے یا کفریہ فعل پر مصر رہے تو اس کے خلاف خروج جائز ہوگا۔ اس تکفیر اور خروج کا فیصلہ بھی جمیع مکاتب فکر کے علماء اور فقہاء کریں گے۔

جہاں تک کافر حکمران کا معاملہ ہے تو اس کے خلا ف خروج یا بغاوت کی اصطلاح نہیں ہے بلکہ جہاد کی اصطلاح ہے۔ لہٰذا کافر حکمران اگر کسی مسلمان ملک پر غاصبانہ قبضہ کر لے تو اس کے خلاف جہاد ہو گا بشرطیکہ اس جہاد کی اہلیت و استطاعت مسلمانوں میں موجود ہو۔ مرتد حکمران کے خلاف خروج کی اصطلاح اس لیے استعمال کی گئی ہے کہ وہ اور اس کے لاؤ لشکراور پیروکار اس کو مسلمان سمجھ رہے ہوتے ہیں اور کلمہ شہادت کا اقراربھی کرتے ہیں جبکہ علماء کا اجتماعی فتویٰ حکمران کے بارے میں تو تکفیر کا ہوتا ہے لیکن اس کے سارے لاؤ لشکر کی تکفیر ایک ناممکن امر ہے۔
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,555
پوائنٹ
641
ظالم' بے نماز اور مرتد حکمران کے خلاف خروج کی شرائط
خروج کی تمام اقسام میں چونکہ مسلمانوں کے مابین قتل و غارت ' فتنہ و فسادہے لہٰذا اس کی کئی ایک شرائط علماء نے مقرر کی ہیں۔

پہلی شرط
ٍ(١) خروج میں مسلمانوں کی بڑے پیمانے پر قتل و غارت' فتنہ و فساد اور امن و أمان کی تباہی نہ ہو۔ اگر ایسا ہو تو ظالم' بے نماز اور مرتد حکمران کے خلاف یہ خروج جائز نہیں ہو گا۔ شیخ صالح العثیمین رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
'' مھما کان الأمر الخروج علی الحاکم ولو کان کفرہ صریحا مثل الشمس لہ شروط فمن الشروط أن لایترتب علی ذلک ضرر أکبر بأن یکون مع الذین خرجوا علیہ قدرة علی ازالتہ بدون سفک دماء أما ذا کان لا یمکن بدون سفک دماء فلا یجوز لأن ھذا الحاکم الذی یحکم بما یقتضی کفرہ لہ أنصار و أعوان لن یدعوہ ...لو فرض أنہ کافر مثل الشمس فی رابعة النھار فلا یجوز الخروج علیہ اذا کان یستلزم اراقة الدماء واستحلال الأموال.''
[http://www.echoroukonline.com/ara/dossiers/islamic_group
/35213.html]
'' جیسا بھی معاملہ کیوں نہ ہو اور اگر حکمران کا کفر سورج کی طرح روشن ہی کیوں نہ ہو پھر بھی اس کے خلاف خروج کی کچھ شرائط ہیں۔ پس ان شروط میں ایک شرط یہ ہے کہ اس خروج کے نتیجے میں کوئی بڑا ضرر مرتب نہ رہا ہو یعنی جو لوگ حکمران کے خلاف خروج کر رہے ہیں' ان کے پاس بغیر مسلمانوں کی خون ریزی کیے حکمران کو ہٹانے کی قوت و طاقت موجود ہو۔ پس اگر حکمران کو بغیرمسلمانوں کی خونریزی کے ہٹانا ممکن نہ ہو تو یہ خروج جائز نہ ہوگا کیونکہ وہ حکمران جو ایسے فیصلے کرتا ہے جو اس کے کفر کے متقاضی ہیں' کے بھی اعوان و انصار ہوتے ہیں...پس اگر یہ فرض کر بھی لیا جائے کہ وہ حکمران دن چڑھے سورج کی طرح کافر ہو گیا ہے تو پھر بھی اس کے خلاف خروج اس صورت میں جائز نہیں ہو گا کہ جو صورت مسلمانوں کا خون بہانے اور ان کے مال کو حلال کرنے کو مستلزم ہو۔''

شیخ عبد العزیز بن باز رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
''فاذا کانت ھذہ الطائفة التی ترید ازالة ھذا السلطان الذی فعل کفرا بواحا ویکون عندھا قدرة علی أن تزیلہ وتضع اماما طیبا دون أن یترتب علی ذلک فساد کبیر علی المسلمین وشر أعظم من شر ھذا السلطان فلا بأس' أما اذا کان الخروج یترتب علیہ فساد کبیر واختلال الأمن وظلم الناس واغتیال من لا یستحق الاغتیال الی غیر ھذا من الفساد العظیم ھذا لا یجوز بل یجب الصبر والسمع والطاعة فی المعروف ومناصحة ولاة الأمور والدعوة لھم بالخبر والاجتھاد فی تخفیف الشر وتقلیلہ وتکثیر الخبر وھذا ھو الطریق السوی الذی یجب أن یسلک لأن فی ذلک مصالح المسلمین عامة ولأن فی ذلک حفظ الأمن وسلامة المسلمین من شر أکثر.''
[http://www.echoroukonline.com/ara/dossiers/islamic_group/
35213.html]
''پس اگر وہ گروہ جو کہ کفر بواح کے مرتکب حکمران کو معزول کرنا چاہتا ہے اور اس گروہ کے پاس اس حکمران کو معزول کرنے اور اس کی جگہ صالح حکمران کی تقرری کی قدرت و صلاحیت ہو بشرطیکہ اس عمل میں مسلمان کسی بڑے فساد کا شکار نہ ہوں اور اس عمل کے نتیجے میں کوئی ایسا شر پیدا نہ ہو جو حکمران کے شر سے بڑھ کر ہو تو پھر اس خروج میں کوئی حرج نہیں ہے۔لیکن اگر اس خروج کے نتیجے میں کوئی بڑا فساد پیدا ہو رہا ہو اور امن و امان تباہ ہو جائے اور لوگوں پر ظلم اور بے گناہوں کا اندھا دھند قتل عام بڑھ جائے اور اس سے کوئی بڑا فساد بر پا ہو جائے تو پھر ایسا خروج جائز نہیں ہے بلکہ اس صورت میں صبر کرنا اور حکمران کی معروف میں اطاعت کرنااور اس حکمرانوں کو نصیحت کرنا اور ان کو خیر و بھلائی کی دعوت دینا اور ان کے شر کو کم کرنے کی کوشش کرنا اور ان کے خیر کو بڑھانے میں محنت کرناواجب ہے۔یہی وہ سیدھا رستہ ہے کہ جس پر چلنا ہمارے لیے واجب ہے کیونکہ اسی رستے پر چلنے میں مسلمانوں کی مصلحت عامہ ہے اور اسی طریقے کو اختیار کرنے میں امن و امان کی بقاء اوربڑے شر سے مسلمانوں کی سلامتی ہے۔''

اسی رائے کا اظہار شیخ صالح الفوزان نے بھی کیا ہے۔
[http://www.echoroukonline.com/ara/dossiers/islamic_group/
35213.html]

علماء نے عدم خروج کی حکمت کے طور پر اسی وجہ کوبیان کیا ہے۔ لہذا ہر ایسا خروج کہ جس میں فتنہ و فساد اور مسلمانوں میں باہمی قتل و غارت ہو' علماء اس کے مخالف ہیں۔ امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ خروج کی حرمت کا سبب ہی یہی ہے کہ اس سے مسلمانوں میں باہمی قتل و غارت کا رستہ ہموار ہوتاہے۔ وہ فرماتے ہیں:
'' قال العلماء وسبب عدم انعزالہ وتحریم الخروج علیہ ما یترتب علی ذلک من الفتن و اراقة الدماء وفساد ذات البین فتکون المفسدة فی عزلہ أکثر منھا فی بقائہ.''(شرح النووی : جلد۱۲، ص۲۲۹' دار احیاء التراث العربی' بیروت' الطبعة الثانیة' ١٣٩٢' کتاب الامارة' باب وجوب طاعة الأمراء فی غیر معصیة )
''علماء نے کہا ہے کہ (ظالم و فاسق )حکمران کے معزول نہ ہونے کا سبب اور اس کے خلاف خروج کی حرمت کی علت یہ ہے کہ اس قسم کے خروج سے فتنے جنم لیں گے اور مسلمانوں کا خون بہایا جائے گا اور مسلمانوں میں باہمی فساد پیدا ہو جائے گا۔ پس حکمران کو معزول کرنے میں جو فساد ہے وہ اس کے باقی رہنے سے بڑھ کر ہے۔''

ابن ابی العز الحنفی رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ ایسے خروج سے صبر بہتر ہے کہ جس سے مسلمانوںمیں فتنہ و فساد ہو۔ وہ لکھتے ہیں:
'' وأما لزوم طاعتھم و ان جاروا فلأنہ یترتب علی الخروج عن طاعتھم من المفاسد أضعاف ما یحصل من جورھم.'' (شرح العقیدة الطحاویة لابن أبی العز الحنفی : ص٣٧٣۔٣٧٤' الرئاسة العامة لدارات البحوث العلمیة و الفتاء و الدعوة و الرشاد' الریاض' ١٤١٣ھ)
''اگرچہ وہ حکمران ظلم کریں' پھر بھی ان کی اطاعت لازم ہے' یہ اس وجہ سے ہے کہ ان کی اطاعت سے نکل جانے میں جو فساد و بگاڑ ہے وہ اس فساد سے کئی گناہ زیادہ ہے جو ان کے ظلم کے نتیجے میں حاصل ہوتا ہے۔''

ابن بطال نے بھی عدم خروج کی یہی حکمت بیان فرمائی ہے:
''وأن طاعتہ خیر من الخروج علیہ لما فی ذلک من حقن الدماء وتسکین الدھماء.(فتح الباری : جلد۱۳، ص۷' دار المعرفة بیروت' ١٣٧٩ھ' کتاب الفتن ' باب قول النبیۖ سترون بعدی أمورا تنکرونھا)
'' اوراس (یعنی ظالم حکمران) کی اطاعت اس کے خلاف خروج سے بہت بہتر ہے کیونکہ اس اطاعت کے ذریعے بہت ساخون گرنے سے بچایا اور باہمی اختلاف کرنے والی جماعتوں کو سکون میں لایا جا سکتا ہے۔''

امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ کسی شر کو ختم کرنے کے لیے امت مسلمہ میں جتنے بھی خروج ہوئے ہیں ان سے شر بڑھا ہی ہے۔ وہ لکھتے ہیں:
'' وقل من خرج علی امام ذی سلطان لا کان ما تولد علی فعلہ من الشر أعظم مما تولد من الخیر.''(منھاج السنة النبویة : جلد۴، ص ٣١٣۔٣١٤' مؤسسة قرطبة)
''اور جس نے بھی کسی صاحب اختیار حکمران کے خلاف خروج کیا تو اس کے اس خروج سے پیدا ہونے والاشر' اس سے پیدا ہونے والے خیر سے بہت بڑھ کر تھا۔''

ایک اور جگہ امام صاحب فرماتے ہیں:
'' لأن الفساد فی القتال والفتنة أعظم من الفساد الحاصل بظلمھم بدون قتال ولا فتنة فلایدفع أعظم الفسادین بالتزام أدناھما ولعلہ لا یکاد یعرف طائفة خرجت علی ذی سلطان لا وکان فی خروجھا من الفساد أکثر من الذی فی ازالتہ.''(منھاج السنة النبویة : جلد۳، ص۲۳۰'مؤسسة قرطبة)
''کیونکہ حکمرانوں سے قتال اور اس سے پیدا ہونے والے فتنے کے حالات میں جوفساد حاصل ہوتا ہے وہ بغیر قتال و فتنے کے حالات میں حکمرانوں کے ظلم و ستم حاصل ہونے والے فساد سے بڑھ کر ہے۔ پس دو فسادوں میں سے أدنی فساد کو اختیار کرتے ہوئے بڑے فساد کو دور کیا جائے گا۔ اور یہ اس وجہ سے بھی ہے کہ( تاریخ اسلامی میں) جس گروہ نے بھی کسی حکمران کے خلاف خروج کیا ہے تو اس کے خروج سے اس سے بڑھ کر فساد پیدا ہوا ہے جو کہ اس حکمران کی موجودگی میں تھا۔''

امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اُمت مسلمہ کا کسی ظالم حکمران کے ساتھ ساٹھ سال گزارنا' بغیر امام کے ایک رات گزارنے سے بہتر ہے۔ امام صاحب اس طرف اشارہ کر رہے ہیں کہ ظالم حکمران کے خلاف خروج کی صورت میں اُمت مسلمہ باہمی جنگ و جدال کا شکار ہو جائے اور کسی امام یا اجتماعیت ہی سے محرو م ہوجائے تو یہ فتنہ اس سے بہت بڑا ہے کہ وہ امت کسی ظالم امام کی قیادت میں مجتمع ہو۔ وہ فرماتے ہیں:
''ولھذا روی: أن السلطان ظل اللہ فی الأرض ویقال: ستون سنة من امام جائر أصلح من لیلة واحدة بلا سلطان والتجربة تبین ذلک. ولھذا کان السلف کالفضیل بن عیاض وأحمد بن حنبل وغیرھما یقولون: لو کان لنا دعوة مجابة لدعونا بھا السلطان.''(مجموع الفتاوی : جلد۲۸، ص۳۹۰)
''اسی وجہ سے یہ بات نقل کی گئی ہے کہ حکمران زمین میں اللہ کا سایہ ہوتا ہے اور یہ بھی کہا جاتا ہے: ظالم حکمران کے ساتھ ساٹھ سال گزارنا بغیر حکمران کے ایک رات گزارنے سے بہتر ہے اور تجربہ بھی اس کی گواہی دیتا ہے۔ اسی وجہ سے سلف صالحین فضیل بن عیاض اور امام أحمد بن حنبل وغیرہ کہا کرتے تھے: اگر ہماری کسی دعا کوبارگاہ الہی میں شرف قبولیت کا پروانہ عطا ہوتا (یعنی ہمیں یہ کہا جاتا کہ تم مانگو تمہاری ایک دعا تو کم از کم لازماًقبول کی جائے گی) تو ہم ضرور حکمران کی اصلاح کی دعا کرتے۔''

ان أئمہ سلف کے ان اقوال پر غور کریں اور اس کے بالمقابل جہادی تحریکوں سے وابستہ ان جذباتی نوجوانوں کی عقل کا ماتم کریں جو یہ کہتے نہیں تھکتے کہ پاکستان میں پاک آرمی کا کنٹرول ہو یا انڈیا کی آرمی کاہو یا امریکہ کا' تینوں طاغوت ہیں لہذا ہمارے لیے برابر ہے۔ پس پاکستانی حکومت کو کمزور کرو' چاہے اس کے نتیجے میں یہاں امریکہ یا انڈیا قابض ہو جائے تو پھر بھی کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ پہلے بھی طاغوت کی حکومت ہے اور امریکہ و انڈیا کے قبضے کے بعد بھی طاغوت ہی کی حکومت ہو گی۔ زیادہ سے زیادہ یہ فرق ہو گا کہ ایک طاغوت کی جگہ دوسرا طاغوت لے لے گا۔ کئی ایک تکفیر کرنے والے نوجوانوں کو ہم جانتے ہیں کہ جن کے افکارو نظریات بالکل ایسے ہی ہیں۔ واقعہ یہ ہے کہ راء اور سی ۔آئی۔ اے کے آلہ کاروں نے جہادی تحریکوں میں گھس کر مسلمان نوجوان کی ایسی برین واشنگ کر دی ہے کہ وہ جہاد کے نام پر امریکہ اور انڈیا کے پاکستان پر قبضے کو شرعی سند جواز عطا کر رہا ہے۔ انا للہ ونا لیہ رجعون۔

اس کے جواب میں ہم یہی کہیں گے کہ خدانخواستہ! انڈیا و امریکہ کی افواج کے پاکستان کے قبضے کے بعد جب یہاں بھی عراق و کشمیر کی طرح مسلمانوں کی ماؤں' بہنوں اور بیٹیوں کی عزتیں تار تار کی جائیں گی تو شاید اس وقت ان جذباتی نوجوانوں کو احساس ہو گا کہ پاکستان پر پاک آرمی اور انڈین یا امریکہ آرمی کے قبضے میں کیا فرق ہے؟

دوسری شرط
ٍ(٢) اگر کفر صریح کی وجہ سے خروج ہو رہا ہے تو اس کفر صریح کا فیصلہ علماء کی ایک جماعت کرے گی نہ کہ کوئی ایک عالم دین یا نوخیز مفتی و جذباتی نوجوان' کیونکہ حکمران کی تکفیر ایک عام انسان کی تکفیر کی مانند نہیں ہے۔ شیخ صالح الفوازان لکھتے ہیں:
''فاذا بلغ لی الکفر البواح الکفر الأکبر فنہ حینئذ لا بیعة لہ ولکن من الذی یحکم بکفرہ؟ لایحکم بکفرہ لا الراسخون فی العلم الذین یصدرون عن کتاب اللہ و سنة رسول اللہۖ ولا یصدرون عن الأھواء.''
''پس اگر حکمران کا کفر ' کفر بواح یا کفر أکبر تک پہنچ جائے تو اس وقت اس کی بیعت جائز نہیں ہے۔لیکن کون اس حکمران کے کفر کا فیصلہ کرے گا؟ اس حکمران کے کفر کا فیصلہ صرف وہ راسخون فی العلم کریں گے جو کتاب اللہ اور سنت رسولۖ سے فتوی جاری کرتے ہیں نہ کہ اپنی خواہشات سے۔''
[]الخروج على الولاة للشيخ صالح الفوزان حفظه الله [الأرشيف] - شبكة الأثري

تیسری شرط
ٍ(٣) اگر حکمران کے کفر صریح یا ظلم یا نماز پڑھنے اور نہ پڑھنے میں کوئی شبہ ہو تو اس کے خلاف خروج جائز نہیں ہو گا۔ شیخ صالح العثیمین فرماتے ہیں:
'' یعنی أنہ لو قدرنا أنھم فعلوا شیئا نری أنہ کفر لکن فیہ احتمال أنہ لیس بکفر فنہ لا یجوز أن ننازعھم أن نخرج علیھم.''
'' مراد یہ ہے کہ اگر ہم یہ سمجھیں کہ حکمرانوں نے جو کام کیا ہے وہ کفر ہے لیکن اس فعل کے کفر یہ نہ ہونے کا بھی احتمال موجود ہو تو پھر ہمارے لیے جائز نہیں ہے کہ ہم ان سے امارت چھیننے کی کوشش کریں یا ان کے خلاف خروج کریں۔''
[http://www.echoroukonline.com/ara/dossiers/islamic
_group/35213.html]

چوتھی شرط
ٍ(٤) اگر کفر کی وجہ سے حکمران کے خلاف خروج ہو رہا ہو تو وہ کفر ایسا ہو علماء کے ہاں متفق علیہ ہو۔ یعنی ایسا نہ ہو کہ بعض علماء تو حکمران کے کفر کے فتوے جاری کر رہے ہوں اور بعض اس کی تکفیر کے قائل نہ ہوں۔ مولانا أشرف علی تھانوی نے 'امداد الفتاوی' میں لکھا ہے کہ 'الا أن تروا کفرا بواحا' میں 'رأی' کا ایک مفعول لایا گیا ہے جو اس بات کا متقاضی ہے کہ یہ کفر ایسا صریح ہو کہ ہر کسی کو نظر آئے اور علما ء کا اس کفر کے کفر ہونے پر اتفاق ہو یعنی علماء کے ہاں وہ کفر متفق علیہ ہو۔ مولانا تقی عثمانی صاحب نے بھی شرح مسلم میں مولاناکے اس قول کا خلاصہ نقل کیا ہے۔ (تکملة فتح الملھم : جلد۳، ص ٣٢٨۔٣٢٩ ، مکتبة دار العلوم ' کراچی)

پانچویں شرط
ٍ(٥) اگر کفر بواح کی بنیاد پر حکمران کے خلاف خروج کیا جا رہا ہے تو یہ دیکھا جائے گا کہ حکمران کے جن افعال پر کفر بواح کا فتوی لگایا جا رہا ہے' وہ ان میں متاول تو نہیں ہے۔ اگر تو حکمران کے پاس خروج کرنے والوں کے الزامات کی کوئی مناسب عقلی ونقلی تردید موجود ہو تو اس حکمران کے خلاف خروج حرام ہو گا۔ ڈاکٹر یوسف القرضاوی لکھتے ہیں:
'' فان کان الخروج عن طاعة الحکم بالسیف أی بالقوة المادیة العسکریة من فئة لھا قوة وشوکة ...فان کان لھم شبھة فی خروجھم وھو ما یعبر عنہ الفقھاء بأن لھم تاویلا سائغا أی لہ وجہ ما کأن یعترضوا علی بعض المظالم الواقعة أو علی التقصیر فی تطبیق بعض جوانب الشریعة أو التھاون مع أعداء الدین والأمة بالتمکین لقواتھم أو جنودھم من أرض الاسلام أو غیر ذلک مما لہ وجہ وان کان الرد علیہ ممکنا ومیسورا فھؤلاء (بغاة) کما سماھم الفقھاء فی المذاھب المختلفة وقتال البغاة مشروع لقول اللہ تعالی (فقاتلوا التی تبغی حتی تفیء لی أمر اللہ) وللحدیث من أتاکم وأمرکم جمیع علی رجل واحد یرید أن یشق عصاکم ویفرق جماعتکم فاقتلوہ.''
'' پس اگر حکمران کی اطاعت سے خروج تلوار یعنی مادی و عسکری قوت کے ساتھ کسی ایسے گروہ کی طرف سے ہو جس کے پاس قوت و شان و شوکت ہو...پس اگر تو حکمرانوں کو اس گروہ کے خروج میں کوئی شبہ ہو یعنی فقہاء کی زبان میں ہم یہ کہیں گے کہ حکمرانوں کے پاس اس گروہ کے اعتراضات کی کوئی آسان تاویل موجودہو' چاہے یہ اعتراضات کسی بھی نوعیت کے ہوں مثلاًخروج کرنے والے حکمرانوں پر یہ اعتراض کریں کہ انہوں نے کچھ ظلم کیے ہیں یا وہ یہ الزام عائد کریں کہ حکمرانوں نے بعض گوشوں میں شریعت اسلامیہ کی تطبیق میں کوتاہی کی ہے یا وہ یہ اعتراض کریں کہ حکمرانوں نے امت مسلمہ اور دین اسلام کے دشمنوں' ان کی افواج اور لشکروں کے مسلمان ممالک پر قبضے میں کے بارے میں سستی کا مظاہرہ کیا ہے یا اس کے علاوہ وہ کوئی اور اعتراض وارد کریں۔ پس اگر اس اعتراض کا رد ممکن اور آسان ہو تو پھر یہ خروج کرنے والے باغی کہلائیں گے جیسا کہ مختلف فقہی مذاہب میں فقہاء نے ان کو یہ نام دیا ہے۔ ایسے باغیوں سے قتال اللہ تعالی کے اس قول کے مطابق مشروع ہے: پس تم قتال کرو ان لوگوں سے جو بغاوت کرتے ہیں یہاں تک کہ وہ اللہ کے حکم کی طرف لوٹ آئیں۔ اور اس حدیث کی وجہ سے بھی ایسے باغیوں سے قتال ہو گا کہ جس میں ہے: جب تمہارے پاس کوئی شخص اس حالت میں حالت میں آئے کہ تم سب ایک شخص کی قیادت میں مجتمع ہو اور وہ شخص تمہارے اقتدار کو ختم اور اجتماعیت کو توڑناچاہے تو اس کو قتل کر دو۔''
[http://www.islamonline.net/servlet/Satellite?pagename=Islam
Online-Arabic-Ask_Scholar/FatwaA/FatwaA&cid=1122528611784]

ڈاکٹر یوسف القرضاوی کے اس قول کی بنیاد امام ابن الہمام الحنفی(متوفی ٨٦١ھ) کا یہ قول ہے۔ امام صاحب لکھتے ہیں:
''والثالث قوم لھم منعة وحمیة خرجوا علیہ بتأویل یرون أنہ علی باطل کفر أو معصیة یوجب قتالہ بتاویلھم وھؤلاء یسمون بالخوارج یستحلون دماء المسلمین وأموالھم...وحکمھم عند جمہور الفقھاء وجمھور أھل الحدیث حکم البغاة. وعند مالک یستتابون فن تابوا ولا قتلوا دفعاً لفسادھم لا لکفرھم.(فتح القدیر' کتاب السیر' باب البغاة)
''تیسری قسم ان لوگوں کی ہے جن کے پاس طاقت بھی ہے اور دین کی حفاظت کا داعیہ و جوش بھی ہے ۔پس یہ لوگ حکمران کے خلاف خروج کریں اس وجہ سے کہ وہ اپنی تاویل(باطل) کے مطابق حکمران کوباطل' کفر یا اللہ کی معصیت کا مرتکب سمجھتے ہوں۔ پس یہ لوگ اپنی اس تاویل(باطل) کی وجہ سے حکمران سے قتال کوواجب سمجھتے ہوں۔ انہی لوگوں کو خوارج کا نام دیا گیا ہے جو مسلمانوں کے خون اور مال کو حلال سمجھتے ہیں...جمہور فقہاء اور جمہور اہل الحدیث کے ہاں ان کا حکم باغیوں کا حکم ہے۔ امام مالک رحمہ اللہ کے نزدیک ان سے توبہ کروائی جائے گی۔اگر تو توبہ کر لیں تو درست ہے ورنہ ان کو قتل کر دیا جائے اور ان کا یہ قتل ان کے فسادسے بچنے کے لیے ہوگا نہ ان کے کفر کی وجہ سے۔''
چھٹی شرط
ٍ(٦) حکمران کے خلاف خروج اس وقت جائز ہے جبکہ خروج کرنے والوں کے پاس اس خروج کی اہلیت و استطاعت ہو یعنی اس بات کا غالب امکان ہو کہ اس خروج کے نتیجے میں ظالم' بے نماز اور کفر بواح کا مرتکب حکمران معزول اور عادل حکمران کی تقرری ہوجائے گی۔ ابن تین ' داؤدی رحمہما اللہ سے نقل کرتے ہیں:
'' الذی علیہ العلماء فی أمراء الجور أنہ ن قدر علی خلعہ بغیر فتنة ولا ظلم وجب والا فالواجب الصبر.''(فتح الباری : جلد۱۳، ص۷۸ ' دار المعرفة بیروت' ١٣٧٩ھ' کتاب الفتن ' باب قول النبیۖ سترون بعدی أمورا تنکرونھا)
'' ظالم حکمرانوں کے بارے میں علماء کو جو موقف ہے وہ یہ ہے اگر اس ظالم حکمران کی معزولی بغیر فتنے اور ظلم کے ممکن ہو تو پھر ایسا کرنا واجب ہو گا ورنہ صبر کرنا واجب ہے۔''

پس ان شرائط کی موجودگی میں خروج جائز ہے اور اگر ان شرائط میں سے کوئی ایک شرط بھی مفقود ہو گی تو خروج جائز نہیں ہو گا' چاہے ظالم و فاسق مسلمان حکمران ہو یا مرتد یا کافر ہو۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ ہمیں حق بات سمجھنے اور اس پر عمل کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
 
سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔
Top