• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تمام انبیاء وشہداء اپنی قبروں میں زندہ ہیں، لیکن ان کی یہ زندگی برزخی ہے۔

سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,351
پوائنٹ
800
بسم الله، والحمد لله، والصلاة والسلام على رسول الله!
انبیاء کرام علیہم السلام تمام انسانوں کے افضل ہیں، جن کے سردار سیدنا نبی کریمﷺ ہیں۔ جو تمام بنی آدم کے سردار بھی ہیں اور سید الانبیاء والمرسلین بھی۔ آپﷺ تمام لوگوں میں اکمل ترین، افضل ترین اور سب سے زیادہ اللہ سے محبت رکھنے والے اور اللہ تعالیٰ کے ہاں سب سے معزز بھی ہیں۔ صلوات اللہ وسلامہ علیہ
لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ اس کی وجہ سے آپ میں سے بشریت کے خصائص سلب ہوگئے ہیں یا آپ کے اندر خالق کی صفات میں سے کوئی صفات آگئی ہیں، نہیں ہرگز نہیں، بلکہ آپ کی افضیلت اور اللہ کے ہاں محبوب ہونے کی بنیادی وجہ ہی آپ کی کامل بندگی وکامل ترین عبودیت ہے۔ اس سے ثابت ہوا کہ نبی کریمﷺ کو باوجود افضل ترین شخصیت ہونے کے وہ چیزیں لاحق ہوتی تھیں جو دیگر لوگوں کو لاحق ہوتی ہیں، مثلاً آپ کو کھانے پینے، سونے اور شادی وغیرہ کرنے کی احتیاج ہوتی تھی، اسی طرح آپ بیمار بھی ہوتے تھے، اور اسی طرح آپﷺ دیگر انسانوں کی طرح فوت بھی ہوئے، اسی لئے آپﷺ کیلئے کفن دفن اور قبر مبارک وغیرہ کا اہتمام کیا گیا۔ فرمان باری ہے:
﴿ کل نفس ذائقة الموت کہ ’’ہر نفس نے موت کا ذائقۃ چکھنا ہے۔‘‘
نیز فرمایا: ﴿ إنك ميت وإنهم ميتون ﴾ کہ ’’(اے میرے حبیب! یقینی بات ہے کہ آپ بھی فوت ہونے والے ہیں اور یہ (کفار مکہ) بھی مر جائیں گے۔‘‘
نیز فرمایا: ﴿ وما جعلنا لبشر من قبلك الخلد أفائن مت فهم الخلدون ﴾ کہ ’’(اے میرے حبیب! ہم نے آپ سے پہلے کسی بشر کو ہمیشہ کی زندگی عطا نہیں کی، تو جب آپ (افضل الشبر علیہ الصلاۃ والسلام) نے فوت ہونا ہے تو کیا یہ (کفار مکہ) ہمیشہ زندہ رہیں گے؟‘‘
دیگر انبیاء کرام علیہم السلام بھی فوت ہوئے، جیسے کہ اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کے انبیاء کرام علیہم السلام کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا:﴿ تلك أمة قد خلت لها ما كسبت ولكم ما كسبتم ﴾ کہ ’’یہ امتیں تھیں جو گزر چکیں، ان کے لئے جو انہوں نے کمایا اور تمہارے لئے جو تم نے کمایا۔‘‘
جب نبی کریمﷺ فوت ہوئے تو سیدنا ابو بکر صدیق﷜ نے اپنا مشہور مقولہ فرمایا تھا: (من کان یعبد محمدا صلی اللہ علیہ وسلم فإن محمدا قد مات ومن كان يعبد الله فإن الله حي لا يموت، وقال: (إنك ميت وإنهم ميتون) وقال: (وما محمد إلا رسول قد خلت من قبله الرسول أفائن مات أو قتل انقلبتم على أعقابكم ومن ينقلب على عقبيه فلن يضر الله شيئا) ...صحيح البخاري کہ ’’جو شخص محمد ﷺ کی بندگی کرتا تھا تو وہ جان لے کہ محمد تو مر چکے ہیں، اور جو شخص اللہ رب العٰلمین کی عبادت کرتا تھا تو یقینا اللہ تعالیٰ زندہ لا زوال ہیں اور کبھی نہیں مریں گے، پھر آپ﷜ نے درج ذیل دو آیات کریمہ کی تلاوت فرمائی جن کا ترجمہ یہ ہے:
1. یقیناً آپ (اے میرے حبیب!) فوت ہونے والے ہیں اور یہ (کفار) بھی مر جائیں کے۔
2. نہیں کہ محمد مگر رسول ہی، جن سے پہلے بہت سے رسول گزر چکے (یعنی آ کر فوت ہوچکے) کیا اگر وہ (محمد) مر جائیں یا شہید کر دئیے جائیں تم مرتد ہوجاؤ گے؟ اور جو اپنے قدموں پر پلٹا تو وہ اللہ کو کچھ نقصان نہیں پہنچا سکے گا۔‘‘
ایک اور صحیح حدیث مبارکہ میں ہے کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا: « ما على الأرض نفس منفوسة ، يعني : اليوم - يأتي عليها مائة سنة » کہ ’’آج زمیں پر جتنے لوگ موجود ہیں، سو سال کے بعد ان میں سے کوئی نفس بھی سانس لینے والا (یعنی زندہ) نہیں ہوگا۔‘‘
ایک اور حدیث مبارکہ میں ہے: « لا يبقى على وجه الأرض بعد مائة سنة ممن هو عليها اليوم أحد » اس کا مفہوم بھی پچھلی حدیث مبارکہ کی طرح ہے۔
جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ انبیاء کرام﷩ بشمول سید الانبیاء والمرسلینﷺ فوت ہوگئے لیکن وہ اپنے قبروں میں زندہ ہیں، جیسے شہید اپنی قبروں میں زندہ ہیں، تو یہ بات صحیح ہے، صحیح حدیث میں سیدنا ابو الدراء﷜ سے مروی ہے کہ رسول کریمﷺ نے فرمایا:« أكثروا الصلاة علي يوم الجمعة ، فإنه مشهود تشهده الملائكة ، وإن أحدا لن يصلي علي إلا عرضت علي صلاته حتى يفرغ منها قال : قلت : وبعد الموت ؟ قال : وبعد الموت ، إن الله حرم على الأرض أن تأكل أجساد الأنبياء ، فنبي الله حي يرزق » ... سنن ابن ماجه وحسنه الألباني في صحيح الترغيب کہ ’’مجھ پر جمعہ کے دن کثرت سے درود پڑھا کرو، کیونکہ اس دن فرشتے جمع ہوتے ہیں، اور جب تم سے کوئی شخص مجھ پر درود پڑھتا ہے تو اس درود مجھ پر پیش کیا جاتا ہے، ابو الدرداء رضی اللہ عنہ نے سوال کیا کہ موت کے بعد بھی؟ فرمایا: موت کے بعد بھی، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے زمین پر انبیاء کرام علیہم السلام کو جسم مبارک کو کھانا حرام کر دیا ہے۔ پس اللہ کے نبی زندہ ہوتے اور رزق دئیے جاتے ہیں۔‘‘
اسی طرح سیدنا انس﷜ سے مروی ایک اور صحیح حدیث مبارکہ میں ہے کہ رسول کریمﷺ نے فرمایا:« الأنبياء أحياء في قبورهم يصلون » ... مسند البزار، وصححه الألباني رحمه الله کہ ’’انبیاء کرام علیہم السلام اپنی قبروں میں زندہ ہیں اور نماز پڑھتے ہیں۔‘‘
لیکن یہ بات واضح رہے کہ انبیاء کرام علیہم السلام اور شہداء وغیرہ کی یہ زندگی برزخی زندگی ہے، جس کا دنیاوی زندگی سے کوئی تعلق نہیں، اور نہ ہی دنیا میں موجود زندہ لوگ اس کو سمجھ سکتے ہیں۔ بلکہ جیسے ہی انبیاء وشہداء فوت ہوتے ہیں، ان کی برزخی زندگی شروع ہوجاتی ہے، لیکن دفنانے سے پہلے وہ ہمارے سامنے تو مردہ ہی ہوتے ہیں، لہٰذا ثابت ہوا کہ یہ انبیاء کرام﷩ اور شہداء﷭ وغیرہ کی قبر کی زندگی برزخی ہے، جسے دنیا کے لوگ نہیں سمجھ سکتے، فرمان باری ہے: ﴿ ولا تقولوا لمن يقتل في سبيل الله أموات بل أحياء ولكن لا تشعرون ﴾ کہ ’’جو لوگ اللہ کے راستے میں شہید ہوجائیں، انہیں مردہ نہ کہو وہ زندہ ہیں لیکن تم (اے انسانو) شعور نہیں رکھتے۔‘‘
یہ آیت کریمہ بہت واضح دلیل ہے کہ ہم اس برزخی زندگی کے معاملات نہیں سمجھ سکتے۔
امام ابن کثیر﷫ شہادت کے بعد شہداء کی روحوں کا سبز پرندوں میں آنا اور اور جنت کی سیر وغیرہ اور پھر شہیدوں کا اللہ سے دوبارہ اپنی روحوں کو دنیاوی اجساد میں لوٹانے کے مطالبے کے متعلق فرماتے ہیں: (يدل على أن هذا النعيم نعيم الأرواح ، وهذه الحياة هي حياة الأرواح أيضا ، وهي حياة برزخية ، لا تشبه الحياة الدنيا بوجه ، وأن الأرواح ليست في أجسادها التي كانت لها في الدنيا ، ولذا سألت الله أن ترد إلى أجساها حتى تقتل ...تفسیر ابن اکثیر 2 ؍1 164) کہ ’’یہ احادیث مبارکہ اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ یہ نعمتیں روحوں کیلئے ہیں۔ اور یہ زندگی بھی روحوں کی زندگی ہے، اور یہ برزخی زندگی ہے جو دنیاوی زندگی سے کسی طور مشابہت نہیں رکھتی، اور ان کی روحیں ان کے دنیاوی اجساد میں نہیں ہوں گی، اسی لئے وہ اللہ سے دوبارہ اپنی روحوں کے دنیاوی جسموں میں لوٹانے کا مطالبہ کریں گے تاکہ وہ دوبارہ شہید ہوں (اور اللہ کے مزید انعامات حاصل کریں۔)‘‘
علماء لجنہ دائمہ﷭ فرماتے ہیں: حياة الأنبياء والشهداء وسائر الأولياء حياة برزخية لا يعلم حقيقتها إلا الله ، وليست كالحياة التي كانت لهم في الدنيا " انتهى ... "فتاوى اللجنة الدائمة" (1 / 173-174) کہ ’’انیباء اور شہداء کی زندگی اور اسی طرح دیگر تمام اولیاء کی زندگی برزخی زندگی ہے جس کی حقیقت اللہ کے علاوہ کوئی نہیں جانتا، یہ زندگی ہرگز اس زندگی کی طرح نہیں جو دنیا میں تھی۔‘‘اور شہیدوں کی برزخی زندگی کی بہت بڑی دلیل یہ بھی ہے کہ ان کی وراثت تقسیم کر دی جاتی ہے، ان کی بیویوں سے دیگر لوگ شادی کر سکتے ہیں اور اسی طرح ان پر مردوں کے دیگر تمام احکامات جاری ہوتے ہیں۔
اسی طرح انبیاء کرام علیہم السلام کے فوت ہونے کے بعد ان کے جانشین خلیفہ ہوتے ہیں جو لوگوں کے معاملات دیکھتے، ان کو نمازیں پڑھاتے، فتوے دیتے اور ان کے دیگر اختلافات کا فیصلہ کرتے ہیں۔
اور اسی لئے جب نبی کریمﷺ فوت ہوئے تو سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا نے اپنی وراثت کا مطالبہ کیا تھا، اگر آپ زندہ ہوتے تو سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کبھی اپنی وراثت نہ مانگتیں اور ابو بکر صدیق﷜ انہیں یہ جواب دیتے کہ ابھی تو نبی کریمﷺ فوت ہی نہیں ہوئے لیکن سیدنا ابو بکر صدیق﷜ نے انہیں جواب میں یہ حدیث مبارکہ پیش کی انبیاء کی اصل وراثت ان کا علم ہوتا ہے، ان کی درہم ودینار کی وراثت تو صدقہ ہوتی ہے۔
واللہ تعالیٰ اعلم!
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,397
پوائنٹ
891
جزاک اللہ انس بھائی جان۔ بہت ہی اہم موضوع ہے۔ غالباً اس موضوع ہی کی بنیاد پر دیوبندی حضرات بھی دو گروہوں میں تقسیم ہو چکے ہیں۔ انبیاء و شہداء کی برزخی زندگی پر ایک اشکال یہ پیش کیا جاتا ہے۔ کہ یہ برزخی زندگی تو ہر مومن و منافق بلکہ کافر کو بھی حاصل ہے، کیونکہ یہی عقیدہ عذاب و ثواب قبر کی بنیاد ہے۔ تو اس میں انبیائے کرام یا شہداء ہی کی کیا تخصیص ہے کہ ان کے بارے میں علیحدہ سے یہ عقیدہ رکھا جائے؟ اس کا کیا جواب ہے؟
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,351
پوائنٹ
800
:)
جزاک اللہ انس بھائی جان۔ بہت ہی اہم موضوع ہے۔ غالباً اس موضوع ہی کی بنیاد پر دیوبندی حضرات بھی دو گروہوں میں تقسیم ہو چکے ہیں۔ انبیاء و شہداء کی برزخی زندگی پر ایک اشکال یہ پیش کیا جاتا ہے۔ کہ یہ برزخی زندگی تو ہر مومن و منافق بلکہ کافر کو بھی حاصل ہے، کیونکہ یہی عقیدہ عذاب و ثواب قبر کی بنیاد ہے۔ تو اس میں انبیائے کرام یا شہداء ہی کی کیا تخصیص ہے کہ ان کے بارے میں علیحدہ سے یہ عقیدہ رکھا جائے؟ اس کا کیا جواب ہے؟
جی شاکر بھائی! بہت اچھا سوال ہے۔ میری ناقص رائے اس سلسلے میں یہ ہے انبیاء کرام﷩ اور شہداء عظام وغیرہ کیلئے اس کو بطور خاص بیان کرنے کی وجہ ان کو خاص اعزاز دینا ہے کہ اس سے اللہ تعالیٰ کے ہاں ان کا خاص مقام ودرجہ کا اظہار ہوتا ہے۔ گویا انبیاء کرام﷩ وشہداء عظام﷭ کی برزخی زندگی دیگر کی برزخی زندگی سے خاص ہے، انیباء کرام﷩ اس برزخی زندگی میں رزق بھی دئیے جاتے ہیں اور نماز بھی پڑھ لیتے ہیں، (لیکن اس سے یہ مراد لینا بالکل جائز نہیں کہ وہ دنیا کی طرح رزق دئیے جاتے اور نماز پڑھتے ہیں، بعض کم نصیبوں کا تو کہنا ہے کہ انبیاء کرام﷩ اپنی قبروں میں دنیا کی طرح زندہ ہیں، کھاتے پیتے اور دیگر وظائف بشریت انجام دیتے ہیں اور تو اور ان پر ان کی بیویاں بھی پیش کی جاتی ہیں ... والعیاذ باللہ! تف ہے ایسی گندی اور جنسی سوچ پر! بلکہ یہ بھی برزخی معاملات ہیں کیونکہ قبر کی جگہ ہی اتنی چھوٹی ہوتی ہے کہ وہاں بیٹھنا ہی ممکن نہیں، کجا یہ کہ نماز پڑھنا۔) جیسا کہ اوپر دئیے گئے نصوص میں صراحت ہے، اسی طرح شہیدوں کو بھی رزق دیا جاتا ہے، اور ان کی پروندوں میں عرش سے نیچے لٹکنے والی قندیلوں میں ہوتی ہیں۔ وغیرہ وغیرہ
یہ ایسے ہی ہے جیسے انبیاء کرام﷩، فرشتے ودیگر اولیاء کرام وشہداء عظام کی سفارش کا معاملہ ہے، ایسی کسی سفارش کا تو تصور ہی نہیں کہ کوئی اللہ کو مجبور کر سکے، یا نعوذ باللہ! اللہ پر کسی کا اتنا دباؤ ہو کہ اللہ تعالیٰ کو مانتے ہی بن پڑے، ایسی سفارش کی تو اللہ تعالیٰ نے جگہ جگہ قرآن کریم میں نفی کر دی، مثلاً ﴿ يأيها الذين ءامنوا أنفقوا مما رزقنكم من قبل أن يأتي يوم لا بيع فيه ولا خلة ولا شفاعة ﴾ ... سورة البقرة
لیکن آخرت میں سفارش کا صحیح تصور موجود ہے کہ لیکن اس کے لئے اللہ کی رضامندی کی شرط ہے: ﴿ من ذا الذي يشفع عنده إلا بإذنه ﴾ ... سورة البقرة
تو یہاں بھی یہی سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب وہاں بھی اللہ کی اجازت ضروری ہے تو پھر کسی سے سفارش کرانے کا کیا مقصد ہے؟ تو اس کا جواب یہی ہے، کہ اصل میں اللہ تعالیٰ نے جس کو معاف کرنا ہوگا، جس پر رحم فرمانا ہوگا، اس کے متعلق اللہ تعالیٰ انبیاء کرام﷩، فرشتوں، اولیاء کرام اور شہیدوں کو حکم دیں گے، کہ ان کے لئے سفارش کرو، وہ سفارش کریں گے اور اللہ تعالیٰ قبول فرما لیں گے۔ گویا یہاں بھی ان سے سفارش کرا کر صرف ان کو اعزاز دینا اور اللہ کے ہاں ان کا مقام مرتبہ بیان کرنا مقصود ہے، وگرنہ تو جسے اللہ چاہیں گے، اسی کی حق میں سفارش قبول کی جائے گی، ہر ایک کے حق میں سفارش کرنے والوں کی اپنی مرضی سے نہیں۔ بلکہ اپنی مرضی سے تو وہ بات بھی نہ کر سکیں گے: ﴿ يوم يقوم الروح والملائكة صفا لا يتكلمون إلا من أذن له الرحمٰن وقال صوابا ﴾ ... سورة النبا
واللہ تعالیٰ اعلم!​
 
شمولیت
مئی 08، 2011
پیغامات
25
ری ایکشن اسکور
156
پوائنٹ
31
صحیح حدیث میں سیدنا ابو الدراء﷜ سے مروی ہے کہ رسول کریمﷺ نے فرمایا:« أكثروا الصلاة علي يوم الجمعة ، فإنه مشهود تشهده الملائكة ، وإن أحدا لن يصلي علي إلا عرضت علي صلاته حتى يفرغ منها قال : قلت : وبعد الموت ؟ قال : وبعد الموت ، إن الله حرم على الأرض أن تأكل أجساد الأنبياء ، فنبي الله حي يرزق » ... سنن ابن ماجه وحسنه الألباني في صحيح الترغيب کہ ’’مجھ پر جمعہ کے دن کثرت سے درود پڑھا کرو، کیونکہ اس دن فرشتے جمع ہوتے ہیں، اور جب تم سے کوئی شخص مجھ پر درود پڑھتا ہے تو اس درود مجھ پر پیش کیا جاتا ہے، ابو الدرداء رضی اللہ عنہ نے سوال کیا کہ موت کے بعد بھی؟ فرمایا: موت کے بعد بھی، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے زمین پر انبیاء کرام علیہم السلام کو جسم مبارک کو کھانا حرام کر دیا ہے۔ پس اللہ کے نبی زندہ ہوتے اور رزق دئیے جاتے ہیں۔‘‘
السلام علیکم انس بھائی!
آپ کی یہ تحریر بہت پسند آئی۔ جزاک اللہ
مگر کجھ باتوں میں ابہام ہے، اس کو ھرا وضاحت سے پیش کریں تو بڑی مھربانی ہوگی، کہ دوسرے مسلک کے بھائیوں کو سمجھانے مین دقت پیش نہ آئے۔
یہ حدیث کس حدیث کے مجموعہ سے لی گئی ہے؟
زندہ کیسے ہوتے ہیں، ظاہر ہے ان کی زندگی برزحی ہی ہوگی، مگر ایسا کہیں کہا گیا ہے کہ یہ زندگی برزخی ہے، کچھ مسلک والے تو اس کو یہ زندگی گردانتے ہیں۔ جوکہ بےشک جہالت کی حد ہی ہے۔
مگر اس پر اگر کہیں سے پرانے دور کے محدثین کے علم کی روشنی ڈالی جائے تو بہتر ہوگا۔ ان شاءاللہ

’’انبیاء کرام علیہم السلام اپنی قبروں میں زندہ ہیں اور نماز پڑھتے ہیں۔‘‘
یہ حدیث کہ حدیث کی کتاب مسند البزار سے لی گئی ہے اور یہ حدیث کسی مستند کتاب جیسا کہ: بخاری، مسلم یا کسی سنن میں کیوں نہیں موجود ہے؟
اور یہ صرف مسند میں ہے اور اس کی بنیاد پر ہی دوسرے مسلک والے شور مچاتے ہیں، اس پر بھی اس دور کے محدثیں کے تاثرات پر مبنی علمی روشنی ڈالیے کہ ہمیں سمجھانے میں آسانی ہو۔ ان شاءاللہ
امید کہ میری بات مثبت پہلو کی طرف عکاسی کرے گی۔ ان شاءاللہ
والسلام علیکم
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,555
پوائنٹ
641
اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ برزخ کی زندگی مومن اور کافر دونوں کے لیے ہے لیکن صرف اہل ایمان کے لیے حیات کے اثبات میں بظاہر یہ نکتہ معلوم ہوتا ہے کہ اہل ایمان کی زندگی راحت وسکون کی زندگی ہے اور معروف معنوں میں زندگی یا حیات نام ہی راحت وسکون کا ہے۔ کفار ومشرکین کی برزخی حیات تکالیف وآلام کی زندگی ہے جسے معروف معنوں میں عذاب کہتے ہیں ۔ہمارے اس دنیا میں بھی ایسے لوگ کہ جو بہت زیادہ تکلیف میں مبتلا ہوں تو یہ کہتے نظر آتے ہیں کہ یہ کوئی زندگی ہے ، اس سے زیادہ تو موت بہتر ہے یعنی بعض اوقات انسانی زندگی میں بھی جب تکالیف اور غم یا دکھ اور درد حد سے بڑھ جائے تو انسان اپنے آپ کو زندوں میں شمار نہیں کرتا ہے۔ پس اللہ کے عذاب کے ساتھ کسی کی زندگی کو زندگی یا حیات کہنا مشکل نظر آتا ہے بلکہ اللہ تعالیی نے بھی عذاب میں مبتلا ان کفار ومشرکین کو نہ زندوں میں شمار کیا ہے اور نہ ہی مردوں میں۔
{إِنَّهُ مَن يَأْتِ رَبَّهُ مُجْرِماً فَإِنَّ لَهُ جَهَنَّمَ لَا يَمُوتُ فِيهَا وَلَا يَحْيى }طه74
بے شک جو اپنے رب کے پاس مجرم بن کر آئے گا تو اس کے لیے جہنم ہے جہاں نہ تو وہ مرے ہووں میں ہو گا اور نہ ہی زندوں میں۔
ایک اور جگہ ارشاد ہے:
{ثُمَّ لَا يَمُوتُ فِيهَا وَلَا يَحْيَى }الأعلى13
 
سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔
Top