• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تقابل ادیان: ضرورت یافتنہ: شیخ عبدالمعید مدنی حفظہ اللہ (علی گڑھ)

شمولیت
ستمبر 11، 2013
پیغامات
26
ری ایکشن اسکور
4
پوائنٹ
52
تقابل ادیان: ضرورت یافتنہ
شیخ عبدالمعید مدنی​
اسلام ایک کامل مستند معتبراورمدلل دین ہے۔ اس کا اپنا منہج ہے اصول ہے اس کے اپنے دلائل ہیں۔ اس نے ایک طریق استدلال اوراستناد عطا کیا پھراس کی تعلیمات کی روشنی میں اسلام کے تعلیمی سیاسی فقہی عقائدی اصول ہیں علوم ومعرفت کے اصول وضابطے مرتب ومدون ہیں۔ اوریہ ایسے نمایاں کارآمد اورشان دار اورمعتدل ومتوازن اصول ہیں کہ ان سے فکر وبصیرت کو جلاملتی ہے انسان کی ذہنی وفکری صلاحیتیں ان کی روشنی میں دنیا کے بڑے سے بڑے کارنامے انجام دے سکتی ہیں۔ ان سے فکر وتدبرکی ساری صلاحیتیں اجاگر ہوسکتی ہیں اورساتھ ہی انسان کے فکروخیال کو توازن اور اعتدال حاصل ہوسکتا ہے وہ افراط وتفریط کی ساری خرابیوں سے بچ سکتی ہیں۔
مصادردین ، طے ہیں، ان کی صحت ومعتبریت بھی طے ۔ ان کے استناد میں بھی کلام نہیں ہے براہین ودلائل کی وہ فراوانی ہے کہ رہتی دنیا تک کھلا ہوا دل ودماغ رکھنے والے اورہراختصاص رکھنے والے اورہرذہن وقابلیت کے لوگ ان سے مطمئن ہوسکتے ہیں۔
اس کا ملیت مختلفہ کے سبب اللہ تعالی نے رسول گرامی ﷺ کی لائی ہوئی تعلیمات پر ختمیت کی مہر لگادی اور قیامت تک کے لئے انھیں نافذ کردیا اورانسان کی کامیابی کو انھیں پرمنحصر ٹھہرایا۔ اوردیگر اورانبیاء ، کی تعلیمات کو منسوخ قراردیا ۔ ان تعلیمات کومنسوخ قراردےئے جانے کا حاصل مطلب یہی تھا کہ ان کی استناد ختم ہوچکی ہے۔ انسانی دست برد نے ان کی معتبریت کو تباہ کردیا ہے۔ رہتی دنیا تک انسان کی ضرورتوں کی ان سے تکمیل نہیں ہوسکتی۔ ان کے اندر کاملیت وسعت جامعیت اورعملیت مفقودہوچکی ہے۔ اوریہ بھی توایک اہم بات ہے کہ نافذ العمل تعلیمات کی اہمیت قدراورنتیجہ خیزی بھی توذہنوں میں اتارنا ضروری تھا۔
ان حقائق حکمتوں اورمصلحتوں کے ہوتے اگرمنسوخ تعلیمات کو نافذ العمل تعلیمات کے مقابلے میں رکھا جائے تواس سے وہ ساری قباحتیں پیدا ہوسکتی ہیں جن سے نافذ تعلیمات کی اہمیت اور قدرو منزلت گھٹے اس کی کاملیت وختمیت پر حرف آئے۔ اس کی معتبریت کے مقابلے میں غیرمعتبرجگہ پائے اس کی استناد پرضرب پڑے۔ اس کی نتیجہ خیزی مشکوک ہو۔ اوردین محض ثقافت کا مضمون بن کررہ جائے۔
مستشرقین کی ہزار ہا عیاریوں اورمکاریوں میں سے ایک مکاری یہ بھی ہے کہ انہوں نے ادیان کے موازناتی مطالعہ کا ایک شوشہ چھوڑا اوراسے مطالعہ کا ایک منہج بناڈالا ۔ دراصل انہوں نے اس کی شروعات اپنے خبث باطن کی بناء پرکی۔ اس کے پیچھے ان کا ایک شیطانی مقصدتھا۔ اوروہ یہ تھا کہ وہ اسلام کو اوردوسرے ادیان کو ایک مقام پر کھڑا دیں اورسارے مذاہب کو یکساں اہمیت ملنے لگے۔ اس کی خاطر بہت سی انجمنیں بنیں۔ بہت سے مذہبی پارلیامنٹ کا انعقاد ہوایکساں عبادت یا ایک عبادت گاہ بنائی جائے۔ بہائیوں اورقادیانیوں نے اس کی طرف خوب لپکا دکھلایا تاکہ ان کی سترپوشی ہوسکے اورہروقت ایسی پیشکش کے تیار رہے جس میں تمام مذاہب کو ایک اسٹیج پر جمع کرنے کی کوشش ہوئی، ایک فتنہ انٹرفیتھ کا تھا جس میں بین مذہبی تبادلہ خیال کی ہوس پرستی کا مظاہرہ ہوا۔ ایسا بھی ہواکہ اس طرح موازناتی اورمقارناتی دینی مطالعے کو سیکولر اورکمیونسٹ سرپرستی بھی حاصل رہیبے دینی کے لئے سازگارتھا۔ اس مقارناتی مطالعے کو سیکولر اورکمیونسٹ سرپرستی حاصل رہے ادھر جدید احیاء پرست ہندوتحریکوں نے بھی اس مقارناتی مطالعے کو خوب پسند کیا اوراپنی لٹی پٹی ساکھ کو مضبوط کرنے سماج میں اپنی حیثیت بحال کرنے اوراسلام فوبیامزعومہ خوف سے خود کوبچانے کے لئے مسلسل یہ پروپیگنڈہ کیا کہ مذہب توسب برابر ہیں اس کا پروپیگنڈہ ایسا زبردست ہوا کہ ہرکہ دمہ کی زبان پریہ بات رہنے لگی کہ مذہب توسب برابرہیں۔
ان نزاکتوں مشکلات اورمسائل کوجانے بغیر بہت سے مبلغین کو یہ شوق چَرّایا ہے کہ وید کاپاٹھ سنائیں گیتاکے گیت گائیں اوربائبل کی آیات کی تلاوت کریں۔ اس وقت انگریزی میں سب کا ترجمہ موجود ہے موازناتی مطالعے کے لئے بڑی آسانی ہے اورفی الواقع تقابل ادیان پر لٹریچرکی بہتات ہے اس سے پبلک میں دھاک بیٹھ جاتی ہے ایسے کرتب کا مظاہرہ دینی جلسوں میں دیکھنے کو خوب ملتا ہے۔
ایک صاحب کواس طرح کے موازناتی مطالعے کا شوق پیدا ہوا۔ پھرکیا تھا انہوں نے مختلف ادیان کی مذہبی کتابوں کو اکٹھا کیا اورغیرمسلموں میں دعوت وتبلیغ کے نام پر سرگرم ہوگئے، انہوں نے ایک نمائش لگائی جس میں میں خود شریک تھا، اس نمائش میں انہوں نے بہت سے چارٹ لگائے، خاص کرایمانیات ستہ کو ہندومذہبی کتابوں سے ثابت کیا اوران کے مقابلے قرآنی آیات کو رکھا۔ اس پر کافی محنت صرف کی، نمائش ہال میں جاتے ہی جب ان چارٹوں پر نگاہ پڑی توفورا یہ تاثربناکہ اس سے توہندؤں کو اڈوانج ملے گا اوران کا مقولہ کہ مذہب سب برابرہیں صحیح ثابت ہوگا۔ زائر ہندوؤں کا تاثریہی بنا، ان صاحب کاموازناتی مطالبہ ایسا بڑھا کہ انھیں یہ نظر آنے لگا کہ ہندوستان کی ساری مسلم تنظیمیں یہو دونصاری کی ایجنٹ ہیں اوردس سال کے اندر ہندوستان میں اسلامی حکومت قائم ہوجائے گی۔ احادیث رسول باطل ہیں۔ نماز میں قرآن کی آیات پڑھیے، وید کے شلوک پڑھیے، بائبل کی آیات پڑھیے نماز ہوجائے گی، کہ سب اللہ کا کلام ہیں اوراپنے موبائل فون کا ٹون اوم نمشوائے رکھ چھوڑا۔
ایک اورصاحب ہیں ہندومذہبی کتابوں کو خوب پڑھتے ہیں اوران کے ماہر مانے جاتے ہیں، احادیث رسول کے متعلق زمانے سے مشکوک ہیں، فکری انحراف کا شکار ہوچکے تھے، انھیں بھی ہندومذہبی کتابوں میں سارا دین اسلام نظر آتاتھا۔
ایسے بہت سے سرپھرے ملیں گے جن کو طہارت کے مسائل صحیح ڈھنگ سے نہیں معلوم ہوں گے لیکن غیراسلامی مذہبی کتابوں سے سرٹکراتے ہیں اورتعالم کا مظاہرہ کرتے پھرتے ہیں۔
سوال یہ ہے آخر یہ فیشن کب تک چلے گا؟ جب اسلام آخری ہدایت ہے اورقرآن اللہ کا آخری کلام ہے جو مستند ہے توکیا ضرورت پیش آئی کہ ان کو تبلیغ کا ذریعہ بنایا جائے۔ سوسال پہلے سرسید نے بائبل کو اہمیت دی اوراس کے ذریعے قرآن سمجھنا چاہتے تھے، ان کی گمراہی کا حشر سب جانتے ہیں، ان کے نقش قدم پر چل کر مولاناحمیدالدین فراہی نے حدیث کے بجائے بائبل کو قرآن کی تفسیر کے لیے دوسرا اہم مصدر بنایا خود بھٹکے اورایک گروپ کو غلط راہ پر ڈال گئے پاکستان میں فراہی گروپ روز اجتہاد اورانحراف کا کوئی نیاشوشہ چھوڑتا ہے۔
برصغیر میں عموما یہ دیکھا گیا ہے کہ جو دین کے موازناتی مطالعہ اورموازناتی دعوت وتبلیغ کا روگ پال لیتے ہیں۔ عموما ان کے دل دوماغ پر حدیث رسول کی عظمت قائم نہیں رہ جاتی ہے۔ یہی نہیں آہستہ آہستہ وہ دین کی عظمت کے سرمائے سے محروم ہونے لگتے ہیں۔ اس کے بھی وجوہ ہوتے ہیں ۔ پہلی وجہ تویہی ہوتی ہے کہ ’’لوکان موسی حیا ما وسعہ الا اتباعی‘‘ کاغضب اترنے لگتا ہے۔ موازناتی مطالعہ پھر اس کی تبلیغ اوراس میں انہماک! جوزیادہ انہماک دکھلاتاہے اس کے بقدر وہ اس غضب کا شکارہوتا ہے بھلا بتائیے جب دین کامل اس کے دلائل کامل توپھرمنسوخ نصوص ومنسوخ تعلیمات سے استدلال کرنا اور ان کو حجت بنانا انھیں غیر شعوری طور پر نافذالعمل دین کے برابر کھڑا کرنا کہاں درست ہے اوریہی ناگواری کی بات ہے ، حضرت عمررضی اللہ عنہ کو اسی غیرشعوری عمل کی وجہ سے رسول گرامی ﷺ کی ناگواری کو دیکھنا پڑ اتھا ۔ جن لوگوں نے اسے چاہت شوق اورقابلیت کا مسئلہ بنالیا ہے اور بلاوجہ عوام وخواص ہرایک کی محفل میں چہکتے ہیں ان کے اوپر اس غضب کا کتنا اثر ہوگا؟ غور کرنے کی بات ہے۔
ایک دوسری وجہ یہ ہے کہ جولوگ دیگر مذاہب کی کتابوں کے نصوص کو دین کی تفہیم کے لئے استعمال کرتے ہیں وہ حدیث رسول سے کٹنے لگتے ہیں اورانھیں حدیث کا درجہ دے بیٹھتے ہیں بلکہ انھیں کتب کوکلام حق ماننے لگتے ہیں ۔ جب غیر اسلامی کتب دینیہ سے انسان کا شغل بڑھتا ہے توحدیث کے مقابلے میں پڑھنا آسان لگتا ہے اسے احادیث صحیحہ کی تلاش مشکل معلوم ہوتی ہے۔ شعوری یا غیر شعوری طورپر یہ عمل دل ودماغ میں جاری رہتا ہے اورلوگ انھیں صداقت کے درجے پرفائز کردیتے اور ان کی معتبریت اوراستناد کے قائل ہوجاتے ہیں ۔اورحدیث رسول سے انھیں وحشت سی ہونے لگتی ہے۔ سرسید فراہی پاکستان فراہی گروپ کا حشر دیکھ لیں نیز دیگر لوگوں کا حال بھی پڑھ لیں، جوآدمی صحیح العقیدہ ہو، علوم اسلامیہ کا اس کو درک ہو اوردیگر کتب مذاہب کے نصوص سے استیناس کرتا ہو اس کے لئے اس کی گنجائش ہے اوراس کی رسول گرامی ﷺ نے اجازت دی ہے حدثواعن بنی اسرائیل ولا جرح لیکن اس سے ادیان کے موازناتی مطالعہ کی گنجائش کہاں نکلتی ہے؟ قاضی محمد سلیمان منصورپوری اورمولانا امرتسری سے زیادہ آج کے تجدد پسند تعالم پسندوں کی نظر دیگر مذاہب کے کتب پر نہ ہوگی لیکن انہوں نے مناظراتی دورمیں اعداء اسلام کی کاٹ انھیں کی کتابوں سے کی نہ کہ ان کی کتابوں سے اسلام سمجھنے اورسمجھانے لگے۔ علامہ ابن تیمیہ نے چار جلدوں میں نصاری کی رد میں کتاب لکھی ’’الجواب الصحیح لمن بدل دین المسیح‘‘ اس کتاب میں انہوں نے بائبل کا مطالعہ پیش کیا ہے اور مجتہدانہ بصیرت کے ساتھ، اسی طرح ان کے شاگردرشید علامہ ابن قیم کی بائبل پربڑی گہری نظر تھی یہودونصاری سے متعلق ان کی تحریروں کو دیکھا جاسکتا ہے، ان تمام علماء کا اسلوب رد باطل تھا نہ کہ موازناتی مطالعہ، نہ غیر اسلامی مذاہب کی کتب کے نصوص سے اسلام اورقرآن کی تفہیم ، قرآن کریم کی تفہیم میں اسرائیلی روایات کو اگر مفسرین نے استعمال کیا تویہ عیب بن گیا اوراس سے ہردو رمیں چھٹکارا حاصل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے، ذخیرہ احادیث میں فضائل وقصص اور عجائب کے باب میں اسرائیلیات کا وجود ہمیشہ علماء اسلام کے لیے الجھن وپریشانی کا باعث رہا، تاریخ میں اسرائیلیات کو مورخین اسلام نے کبھی پسند نہیں کیا، یہ توعلماء کا شعور واحساس ہے دوسری طرف موازناتی مطالعہ کے دلدادہ لوگوں کا حال دیکھئے۔
مشکل یہ ہے کہ جنھیں علوم اسلامیہ کی ابجد کاپتہ نہیں وہ داعی کبیراور بحاث عظیم بننے لگے ہیں،عوام کی تالیوں کی گونج میں شیخ الاسلام اورامیرالمؤمنین کا روگ پال رکھا ہے،چاروں طرف سے انھیں تمغے، سندیں اورصلات ملنے لگے ہیں اور عوامی سماں بندی ان کے لئے حجت بن گئی ہے کہ ہمچنیں دیگرے نیست۔
آج کل ایک فیشن یہ بھی ہے کہ تم کچھ نہیں کررہے ہو وہ کر رہا ہے کرنے کیوں نہیں دیتے؟ یعنی اگر میدان خالی ہو توکوئی کچھ بھی آکر کرے سب جائز ہے۔ میدان کا خالی ہونا وجہ جواز ہے کہ آدمی کے لئے کچھ بھی روا ہوسکتاہے، یہ ہے عوامی فتوی، اب اسے فتوی کہاجائے یا فتنہ۔ اب فتوی اورفتنہ دونوں ایک ہوئے جارہے ہیں۔ ساری قوم سورہی ہے کسی کو دین اس کے تقاضوں کے ساتھ پڑھنے کی فرصت نہیں، ہرایک اپنے ذوق کا دین مانگتا ہے اورچند جزوی چیزوں میں دین کا شوق پورا کرنا چاہتا ہے، وہ بھی تقریروں کے سہارے اورعموما صرف سننے تک ایسے لوگ ہمیشہ تیار رہتے ہیں کہ کب کدھر سے کوئی سریلی آواز آئے اور سراٹھاکر کہہ دیں کہ آپ ہمارے امام ہیں اورپھر سرنیچے کرکے سوجائیں یہی کل ہماری دین سے دلچسپی ہے اوربس۔
ہماری بات کا خلاصہ یہ ہے کہ اسلام ایک کامل دین ہے اور دوسرے تمام ادیان اورکتب کا ناسخ بھی ہے۔ اس کے اپنے متنوع دلائل وبراہین ہیں اس نے فکر وعمل استنباط واستدلال کا ایک منہج دیا ہے حق وباطل کے درمیان خط امتیاز کھیچ دیا ہے اورحکم دیا ہے کہ دلیل کے ساتھ جیو اوردلیل کے ساتھ مرو۔
آدمی جب غیر اسلام ی کتب دینیہ کا تقابل دین اسلام سے کرتا ہے اوراس کا چمپےئن بنتا ہے اور اوران کے نصوص کو فہم قرآن او رفہم دین کا ذریعہ مانتا ہے توعملا وہ پورے منسوخ سسٹم کو اپنے عمل سے قبولیت کا درجہ دیتا ہے، جب کل کتابیں منسوخ ہیں اورکل سلسلہ کتب پرنسخ کا حکم لگ گیا توکچھ کو استنادی درجہ دینے سے کل کو استنادی درجہ ملتا ہے اورحق وباطل سب ایک قرار پاتے ہیں ان کی بے بنیاد اوراضافی باتیں بھی مستند قرارپاتی ہیں۔ اس طرح حکم الہی اورفرمان نبوی کی مخالفت ہوتی ہے اوریہ عمل دین اسلام کو ڈھادینے کے مترادف ہوتاہے۔ ثقاہت اورعدم ثقاہت، استناداورعدم استناد، معتبریت اورعدم معتبریت، صحت اور عدم صحت سب یکساں ہوجاتے ہیں اوراسلام کی طے کردہ حق وباطل کی لکیریں گڈمڈہوجاتی ہیں، امتیاز حق وباطل ختم ہوجاتا ہے اورکل دین ایک من مانی عمل بن جاتاہے ۔ یہی نقطہ لوگوں کے ذہن سے اوجھل ہوجاتاہے اورپھران کی ساری کوششیں تخریب دین کا کام کرتی ہیں۔ یہی سرسید کو درپیش ہوا اوران کی دیکھا دیکھی حمید الدین فراہی نے یہی نادانی کی اور اس کو امین احسن اصلاحی لے اڑے اور پھراس غلطی کو دہراکر غامدی نے پاکستان میں اپنا ایک کلٹ بنالیا۔
جواس راہ پرچلتے ہیں اورتقابل ادیان کی شیخی میں مبتلا ہیں اور غیر شعوری طورپر مستشرقین کا چیلا بنے ہوئے ہیں انھیں پہلے اس کی نزاکتوں کوسمجھنا چاہیے اور نوعیت مسئلہ کو جاننا چاہیے۔ غیراسلامی کتب دینیہ کی پوزیشن یہ ہے کہ وہ کلی طورپر منسوخ ہیں، ان کے اندر بشری تصرفات کی بناء پر اتنا دم نہیں کہ ہدایت بن سکیں اورحکم الہی نے ان کی ہدایت وبرہان کی حیثیت ختم کردی ہے۔ ومن یبتغ غیر الاسلام دینا فلن یقبل منہ وہو فی الآخرۃ من الخاسرین اب ان سے زیادہ سے زیادہ کسی مسئلے میں استیناس کی گنجائش ہے شرعی نقطے سے اسلام سے یا قرآن وسنت سے ان کا تقابل کرنا غلط ان کے نصوص سے اسلام کی تفہیم وتبلیغ غلط۔ اوریہ ایسی بھیانک غلطی بن سکتی ہے کہ بسااوقات دین ایمان ضائع ہونے کا سبب بن سکتی ہے۔ ایسے مستند علماء ضرور ہونے چاہئیں جو ادیان اوران کی کتب سے باخبرہوں، تاکہ وقت ضرورت ردباطل کا حق ادا ہوسکے اورلوگوں کی اصلی پوزیشن سامنے رہے۔ اگرکسی کو علوم دینیہ میں استنادی صلاحیت نہیں ملی ہے یا جوعلوم دینیہ سے بے بہرا ہو اسے چاہیے کہ اپنے دائرے میں رہے اوراپنے قدوقامت کو پہچانے یہ ایک بنیادی مسئلہ ہے، مباحات کامسئلہ نہیں ہے۔ اللہ تعالی جس سے اپنے دین کی خدمت جس معنی میں چاہے لے لے، قابل شکرہے، لیکن دین کے ضوابط، ظاہری جہود، کثرت کار، محنت اورکوششوں کے سبب ٹوٹ نہیں سکتے نہ اس کے تقاضے رد ہوسکتے ہیں انھیں ہرحال میں پیش نظر رکھنا چاہیے۔
تقابل ادیان ایک مسلمان کے لیے عمومی حالت میں ممنوع کے درجے میں ہے علماء غیر اسلامی کتب مذاہب سے استیناس کرسکتے ہیں ان کا عمومی مطالعہ اوران سے اسلام کی تفہیم کھلی ہوئی گمراہی اوربغاوت ہے۔
 
Last edited by a moderator:
Top