مظاہر امیر
مشہور رکن
- شمولیت
- جولائی 15، 2016
- پیغامات
- 1,427
- ری ایکشن اسکور
- 411
- پوائنٹ
- 190
تحریر: غلام مصطفٰے ظہیر امن پوری
اُمِ ایمن رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ایک رات نبی اکرم صلّی اللہ علیہ و سلّم مٹی کے برتن کے پاس اُٹھ کر تشریف لائے اور اس میں پیشاب کیا۔ اسی رات میں اُٹھی اور مجھے پیاس لگی ہوئی تھی۔ میں نے جو اس میں تھا، پی لیا۔ جب صبح ہوئی تو میں نے رسول اللہ صلّی اللہ علیہ و سلّم کو اس واقعہ کی خبر دی تو آپ صلّی اللہ علیہ و سلّم نے فرمایا:
اُمِ ایمن رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ایک رات نبی اکرم صلّی اللہ علیہ و سلّم مٹی کے برتن کے پاس اُٹھ کر تشریف لائے اور اس میں پیشاب کیا۔ اسی رات میں اُٹھی اور مجھے پیاس لگی ہوئی تھی۔ میں نے جو اس میں تھا، پی لیا۔ جب صبح ہوئی تو میں نے رسول اللہ صلّی اللہ علیہ و سلّم کو اس واقعہ کی خبر دی تو آپ صلّی اللہ علیہ و سلّم نے فرمایا:
اما اِ نّک لا یتجعن بطنک أبدا۔
‘‘ خبردار! بے شک آپ آج کے بعد کبھی اپنے پیٹ میں بیماری نہ پاو گی۔’’
(المستدارک علی الصحیحین للحاکم : ۶۴،۶۳/۴، حلیۃ الاولیائ لا بی نعیم الاصبھانی: ۶۸/۲،الائل النبوۃ لا بی نعیم الاصبھانی ۳۸۱،۳۸۰/۲،المعجم الکبیر للطبرانی: ۹۰،۸۹/۲۵،التلخیص الحبیر لابن حجر: ۳۱/۱،البدایۃ والنھایۃ لابن کثیر : ۳۲۶/۵،الاصابۃ فی تمیز الصحابۃ لا بن حجر: ۴۳۳/۴ )
تبصرہ:
اس کی سند ‘‘ ضعیف ’’ ہے اس کا راوی عبد المالک التعی ‘‘ متروک’’ ہے۔
(تقریب التھذ یب لابن حجر: ۸۳۳۷ )
تنبیہ:
ابو یعلٰی کی سند میں ابو مالک تخعی کا واسطہ گر گیا ہے۔ اس پر قرینہ یہ ہے کہ ابو مالک تخعی کے استادوں میں یعلٰی بن عطائی اور یعلٰی بن عطائی کے شاگردوں میں ابو مالک تخعی موجود ہے جبکہ یعلٰی بن عطائی کے شاگردوں میں حسین بن حرب موجود نہیں۔ اس سند کے دو راوی مسلم بن قتیبہ اور الحسین بن حرب کا تعین اور توثیق درکار ہے۔
اس پر دوسرا قرینہ یہ ہے کہ حافظ سیوطی لکھتے ہیں:
(المستدارک علی الصحیحین للحاکم : ۶۴،۶۳/۴، حلیۃ الاولیائ لا بی نعیم الاصبھانی: ۶۸/۲،الائل النبوۃ لا بی نعیم الاصبھانی ۳۸۱،۳۸۰/۲،المعجم الکبیر للطبرانی: ۹۰،۸۹/۲۵،التلخیص الحبیر لابن حجر: ۳۱/۱،البدایۃ والنھایۃ لابن کثیر : ۳۲۶/۵،الاصابۃ فی تمیز الصحابۃ لا بن حجر: ۴۳۳/۴ )
تبصرہ:
اس کی سند ‘‘ ضعیف ’’ ہے اس کا راوی عبد المالک التعی ‘‘ متروک’’ ہے۔
(تقریب التھذ یب لابن حجر: ۸۳۳۷ )
تنبیہ:
ابو یعلٰی کی سند میں ابو مالک تخعی کا واسطہ گر گیا ہے۔ اس پر قرینہ یہ ہے کہ ابو مالک تخعی کے استادوں میں یعلٰی بن عطائی اور یعلٰی بن عطائی کے شاگردوں میں ابو مالک تخعی موجود ہے جبکہ یعلٰی بن عطائی کے شاگردوں میں حسین بن حرب موجود نہیں۔ اس سند کے دو راوی مسلم بن قتیبہ اور الحسین بن حرب کا تعین اور توثیق درکار ہے۔
اس پر دوسرا قرینہ یہ ہے کہ حافظ سیوطی لکھتے ہیں:
و أخرج أ بو یعلٰی والحاکم والدار قطنی و أبو نعیم عن أم أیمن۔
‘‘ ابو یعلٰی ، حاکم، دار قطنی اور ابو نعیم نے اسے ام ایمن سے بیان کیا ہے۔ ’’
(الخصائص الکبری للبھیقی: ۲۵۲/۲ )
حافظ سیوطی یہ باور کرا رہے ہیں کہ یہ سند ایک ہی ہے جس کا دار و مدار ابو مالک نخعی پر ہے جو کہ متروک ہے، نیز الولید بن عبدالرحمٰن کا ام ایمن سے سماع بھی درکار ہے۔
ابو یعلٰی کے علاوہ باقی سب میں نبیح العنزی اور ام ایمن کے درمیان انقظاع بھی ہے۔
تنبیہ :
ایک روایت میں ہے:
(الخصائص الکبری للبھیقی: ۲۵۲/۲ )
حافظ سیوطی یہ باور کرا رہے ہیں کہ یہ سند ایک ہی ہے جس کا دار و مدار ابو مالک نخعی پر ہے جو کہ متروک ہے، نیز الولید بن عبدالرحمٰن کا ام ایمن سے سماع بھی درکار ہے۔
ابو یعلٰی کے علاوہ باقی سب میں نبیح العنزی اور ام ایمن کے درمیان انقظاع بھی ہے۔
تنبیہ :
ایک روایت میں ہے:
فما مرضت قطّ حتّی کانت مرضھا الذی ماتت فیہ ۔
‘‘ تو اس کے بعد خاتون مرض الموت تک کبھی بیمار نہیں ہوئی ’’
(التلخیص الحبیر لابن حجر: ۳۲/۱ )
اس کی سند سخت ‘‘ منقطع’’ اور ‘‘ مدلّس’’ ہے۔ اس میں عبدالرزاق اور امام ابنِ جریج دونوں ‘‘ مدلَّس’’ ہیں اور مخبر نا معلوم و مجہول ہے۔
امیمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے:
(التلخیص الحبیر لابن حجر: ۳۲/۱ )
اس کی سند سخت ‘‘ منقطع’’ اور ‘‘ مدلّس’’ ہے۔ اس میں عبدالرزاق اور امام ابنِ جریج دونوں ‘‘ مدلَّس’’ ہیں اور مخبر نا معلوم و مجہول ہے۔
امیمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے:
اِنّ النبیّ صلّی اللہ علیہ و سلّم کان لہ قدح من عید ان یبول فیہ، ثمّ یوضع تحت سریرہ ، فجا ئت امرأۃ یقال لھا برکۃ ۔ جائت مع أمّ حبیبۃ من الحبشۃ، فشربتہ برکۃ، فسألھا، فقالت : شربتہ ، فقال: لقد احتضرنی من النار بحضار، أو قال: جُنّۃ، أو ھذا معناہ ۔
‘‘نبی اکرم صلّی اللہ علیہ و سلّم کے پاس لکڑی کا ایک پیالا تھا جس میں آپ پیشاب کرتے تھے، پھر اسے چارپائی کے نیچے رکھ د یا جاتا ۔ ایک برکتہ نامی عورت آئی ۔ وہ سیدنا امِ حبیبہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ حبشہ سے آئی تھی ۔ اس نے وہ پیالا نوش کر لیا ۔ سید نا زینب رضی اللہ عنہا نے اس سے پوچھا تو اس نے کہا: میں نے اسے پی لیا ہے۔ رسول اللہ صلّی اللہ علیہ و سلّم نے فرمایا: تو نے آگ سے بچاو حاصل کر لیا ہے یا فرمایا ڈھال بنا لی ہے یا اس طرح کی کوئی بات کہی۔’’
(الآحاد والمثانی لابن ابی عاصم: ۳۳۴۲،و سندہ حسن، الاستیعاب فی معرفۃ الصحابۃ لابن عبد البر: ۲۵۱/۴، و سندہ حسن، المعجم الکبیر للطبرانی: ۱۸۹/۲۴، السنن الکبری للبھیقی ۶۷/۷ و سندہ صحیح )
غالباً یہ یہ کام اس لونڈی کی غلطی سے سر زد ہو گیا تھا اور غلطی سے ایک نا پسندیدہ کام کرنے پر جو کراہت اور تکلیف بعد میں اسے ہوئی اس کے عوض میں اللہ تعالٰی کی طرف سے اسے جہنم سے آزادی مل گئی کیونکہ مومن کی کوئی مشقت و تکلیف نیکی سے خالی نہیں ہوتی ۔ واللہ اعلم بالصواب!
تنبیہ:
ابو رافع کی بیوی سلمٰی نے نبی اکرم صلّی اللہ علیہ و سلّم کے غسل سے بچا ہوا پانی پی لیا تھا آپ صلّی اللہ علیہ و سلّم نے اس کو فرمایا:
(الآحاد والمثانی لابن ابی عاصم: ۳۳۴۲،و سندہ حسن، الاستیعاب فی معرفۃ الصحابۃ لابن عبد البر: ۲۵۱/۴، و سندہ حسن، المعجم الکبیر للطبرانی: ۱۸۹/۲۴، السنن الکبری للبھیقی ۶۷/۷ و سندہ صحیح )
غالباً یہ یہ کام اس لونڈی کی غلطی سے سر زد ہو گیا تھا اور غلطی سے ایک نا پسندیدہ کام کرنے پر جو کراہت اور تکلیف بعد میں اسے ہوئی اس کے عوض میں اللہ تعالٰی کی طرف سے اسے جہنم سے آزادی مل گئی کیونکہ مومن کی کوئی مشقت و تکلیف نیکی سے خالی نہیں ہوتی ۔ واللہ اعلم بالصواب!
تنبیہ:
ابو رافع کی بیوی سلمٰی نے نبی اکرم صلّی اللہ علیہ و سلّم کے غسل سے بچا ہوا پانی پی لیا تھا آپ صلّی اللہ علیہ و سلّم نے اس کو فرمایا:
حرّم اللہ بدنک علی النّار۔
‘‘اللہ تعالٰی تیرے بدن کو آگ پر حرام کرے۔’’
(مجمع الزوائد ۴۸۳/۸ )
حافط ہیثمی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
(مجمع الزوائد ۴۸۳/۸ )
حافط ہیثمی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
و رواہ الطبرانی فی الأوسط ، و فیہ معمر بن محمّد ، و ھو کذّاب ۔
‘‘ اسے امام طبرانی نے اپنی کتاب الاوسط میں بیان کیا ہے۔ اس میں معمر بن محمد راوی ہے اور وہ کذاب ہے۔’’
(مجمع الزوائد : ۲۷۰/۸ )
حافظ ابنِ حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
(مجمع الزوائد : ۲۷۰/۸ )
حافظ ابنِ حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
و فی السند الضعف ۔
‘‘اس کی سند میں کمزوری ہے۔ ’’
( التلحیص لابن حجر : ۳۲/۱)
نبی اکرم صلّی اللہ علیہ و سلّم کے فضلات کے پاک ہونے پر کوئی دلیل شرعی نہیں ۔ لیکن جناب زکریا تبلیغی دیوبندی صاحب لکھتے ہیں:
‘‘ حضور کے فضلات ، پاخانہ، پیشاب وغیرہ سب پاک ہیں ’’
(تبلیغی نصاب از زکریا: ۱۸۵ )
اس بےدلیل اور غلو امیز دعویٰ کے ردّ میں جناب اشرف علی تھانوی دیو بندی صاحب کا قول بھی سن لیں۔ وہ کہتے ہیں: ‘‘ طہارت (پاک ہونے ) کا دعویٰ بلا دلیل ہے۔’’
(بواد النوادر از تھانوی : ۳۹۳ )
( التلحیص لابن حجر : ۳۲/۱)
نبی اکرم صلّی اللہ علیہ و سلّم کے فضلات کے پاک ہونے پر کوئی دلیل شرعی نہیں ۔ لیکن جناب زکریا تبلیغی دیوبندی صاحب لکھتے ہیں:
‘‘ حضور کے فضلات ، پاخانہ، پیشاب وغیرہ سب پاک ہیں ’’
(تبلیغی نصاب از زکریا: ۱۸۵ )
اس بےدلیل اور غلو امیز دعویٰ کے ردّ میں جناب اشرف علی تھانوی دیو بندی صاحب کا قول بھی سن لیں۔ وہ کہتے ہیں: ‘‘ طہارت (پاک ہونے ) کا دعویٰ بلا دلیل ہے۔’’
(بواد النوادر از تھانوی : ۳۹۳ )