• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کیا کسی صحابی سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کا پیشاب پینا ثابت ہے ؟

مظاہر امیر

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 15، 2016
پیغامات
1,427
ری ایکشن اسکور
411
پوائنٹ
190
تحریر: غلام مصطفٰے ظہیر امن پوری
اُمِ ایمن رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ایک رات نبی اکرم صلّی اللہ علیہ و سلّم مٹی کے برتن کے پاس اُٹھ کر تشریف لائے اور اس میں پیشاب کیا۔ اسی رات میں اُٹھی اور مجھے پیاس لگی ہوئی تھی۔ میں نے جو اس میں تھا، پی لیا۔ جب صبح ہوئی تو میں نے رسول اللہ صلّی اللہ علیہ و سلّم کو اس واقعہ کی خبر دی تو آپ صلّی اللہ علیہ و سلّم نے فرمایا:
اما اِ نّک لا یتجعن بطنک أبدا۔
‘‘ خبردار! بے شک آپ آج کے بعد کبھی اپنے پیٹ میں بیماری نہ پاو گی۔’’
(المستدارک علی الصحیحین للحاکم : ۶۴،۶۳/۴، حلیۃ الاولیائ لا بی نعیم الاصبھانی: ۶۸/۲،الائل النبوۃ لا بی نعیم الاصبھانی ۳۸۱،۳۸۰/۲،المعجم الکبیر للطبرانی: ۹۰،۸۹/۲۵،التلخیص الحبیر لابن حجر: ۳۱/۱،البدایۃ والنھایۃ لابن کثیر : ۳۲۶/۵،الاصابۃ فی تمیز الصحابۃ لا بن حجر: ۴۳۳/۴ )
تبصرہ:
اس کی سند ‘‘ ضعیف ’’ ہے اس کا راوی عبد المالک التعی ‘‘ متروک’’ ہے۔
(تقریب التھذ یب لابن حجر: ۸۳۳۷ )
تنبیہ:
ابو یعلٰی کی سند میں ابو مالک تخعی کا واسطہ گر گیا ہے۔ اس پر قرینہ یہ ہے کہ ابو مالک تخعی کے استادوں میں یعلٰی بن عطائی اور یعلٰی بن عطائی کے شاگردوں میں ابو مالک تخعی موجود ہے جبکہ یعلٰی بن عطائی کے شاگردوں میں حسین بن حرب موجود نہیں۔ اس سند کے دو راوی مسلم بن قتیبہ اور الحسین بن حرب کا تعین اور توثیق درکار ہے۔
اس پر دوسرا قرینہ یہ ہے کہ حافظ سیوطی لکھتے ہیں:
و أخرج أ بو یعلٰی والحاکم والدار قطنی و أبو نعیم عن أم أیمن۔
‘‘ ابو یعلٰی ، حاکم، دار قطنی اور ابو نعیم نے اسے ام ایمن سے بیان کیا ہے۔ ’’
(الخصائص الکبری للبھیقی: ۲۵۲/۲ )
حافظ سیوطی یہ باور کرا رہے ہیں کہ یہ سند ایک ہی ہے جس کا دار و مدار ابو مالک نخعی پر ہے جو کہ متروک ہے، نیز الولید بن عبدالرحمٰن کا ام ایمن سے سماع بھی درکار ہے۔
ابو یعلٰی کے علاوہ باقی سب میں نبیح العنزی اور ام ایمن کے درمیان انقظاع بھی ہے۔
تنبیہ :
ایک روایت میں ہے:
فما مرضت قطّ حتّی کانت مرضھا الذی ماتت فیہ ۔
‘‘ تو اس کے بعد خاتون مرض الموت تک کبھی بیمار نہیں ہوئی ’’
(التلخیص الحبیر لابن حجر: ۳۲/۱ )
اس کی سند سخت ‘‘ منقطع’’ اور ‘‘ مدلّس’’ ہے۔ اس میں عبدالرزاق اور امام ابنِ جریج دونوں ‘‘ مدلَّس’’ ہیں اور مخبر نا معلوم و مجہول ہے۔
امیمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے:
اِنّ النبیّ صلّی اللہ علیہ و سلّم کان لہ قدح من عید ان یبول فیہ، ثمّ یوضع تحت سریرہ ، فجا ئت امرأۃ یقال لھا برکۃ ۔ جائت مع أمّ حبیبۃ من الحبشۃ، فشربتہ برکۃ، فسألھا، فقالت : شربتہ ، فقال: لقد احتضرنی من النار بحضار، أو قال: جُنّۃ، أو ھذا معناہ ۔
‘‘نبی اکرم صلّی اللہ علیہ و سلّم کے پاس لکڑی کا ایک پیالا تھا جس میں آپ پیشاب کرتے تھے، پھر اسے چارپائی کے نیچے رکھ د یا جاتا ۔ ایک برکتہ نامی عورت آئی ۔ وہ سیدنا امِ حبیبہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ حبشہ سے آئی تھی ۔ اس نے وہ پیالا نوش کر لیا ۔ سید نا زینب رضی اللہ عنہا نے اس سے پوچھا تو اس نے کہا: میں نے اسے پی لیا ہے۔ رسول اللہ صلّی اللہ علیہ و سلّم نے فرمایا: تو نے آگ سے بچاو حاصل کر لیا ہے یا فرمایا ڈھال بنا لی ہے یا اس طرح کی کوئی بات کہی۔’’
(الآحاد والمثانی لابن ابی عاصم: ۳۳۴۲،و سندہ حسن، الاستیعاب فی معرفۃ الصحابۃ لابن عبد البر: ۲۵۱/۴، و سندہ حسن، المعجم الکبیر للطبرانی: ۱۸۹/۲۴، السنن الکبری للبھیقی ۶۷/۷ و سندہ صحیح )
غالباً یہ یہ کام اس لونڈی کی غلطی سے سر زد ہو گیا تھا اور غلطی سے ایک نا پسندیدہ کام کرنے پر جو کراہت اور تکلیف بعد میں اسے ہوئی اس کے عوض میں اللہ تعالٰی کی طرف سے اسے جہنم سے آزادی مل گئی کیونکہ مومن کی کوئی مشقت و تکلیف نیکی سے خالی نہیں ہوتی ۔ واللہ اعلم بالصواب!
تنبیہ:
ابو رافع کی بیوی سلمٰی نے نبی اکرم صلّی اللہ علیہ و سلّم کے غسل سے بچا ہوا پانی پی لیا تھا آپ صلّی اللہ علیہ و سلّم نے اس کو فرمایا:
حرّم اللہ بدنک علی النّار۔
‘‘اللہ تعالٰی تیرے بدن کو آگ پر حرام کرے۔’’
(مجمع الزوائد ۴۸۳/۸ )
حافط ہیثمی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
و رواہ الطبرانی فی الأوسط ، و فیہ معمر بن محمّد ، و ھو کذّاب ۔
‘‘ اسے امام طبرانی نے اپنی کتاب الاوسط میں بیان کیا ہے۔ اس میں معمر بن محمد راوی ہے اور وہ کذاب ہے۔’’
(مجمع الزوائد : ۲۷۰/۸ )
حافظ ابنِ حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
و فی السند الضعف ۔
‘‘اس کی سند میں کمزوری ہے۔ ’’
( التلحیص لابن حجر : ۳۲/۱)
نبی اکرم صلّی اللہ علیہ و سلّم کے فضلات کے پاک ہونے پر کوئی دلیل شرعی نہیں ۔ لیکن جناب زکریا تبلیغی دیوبندی صاحب لکھتے ہیں:
‘‘ حضور کے فضلات ، پاخانہ، پیشاب وغیرہ سب پاک ہیں ’’
(تبلیغی نصاب از زکریا: ۱۸۵ )
اس بےدلیل اور غلو امیز دعویٰ کے ردّ میں جناب اشرف علی تھانوی دیو بندی صاحب کا قول بھی سن لیں۔ وہ کہتے ہیں: ‘‘ طہارت (پاک ہونے ) کا دعویٰ بلا دلیل ہے۔’’
(بواد النوادر از تھانوی : ۳۹۳ )
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
السلام علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاتہ
انکے کئی مضامین پڑھے ہیں. ہو سکے تو تعارف کرا دیں کہ یہ کون ہیں؟؟؟
وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ وبرکاتہ
شیخ غلام مصطفیٰ ظہیر امن پوری حفظہ اللہ
ضلع اٹک کے رہنے والے ہیں ، الجامعۃ الاثریہ جہلم سے تعلیم حاصل کرنے کے بعد وہیں شیخ الحدیث مقرر ہوئے ،
کچھ عرصہ شیخ الحدیث حافظ زبیر علی زئی ؒ کے ساتھ بھی کام کیا ،، اور مولانا صادق سیالکوٹی کی شہرہ آفاق کتاب صلوۃ الرسول کی شیخ زبیر علی زئی کی تخریج کے ساتھ ان کی تعلیق شامل تھی ،
آج کل اپنا ادارہ چلاتے ہیں ، اور ایک ماہنامہ ( السنہ ) بھی جہلم سے نکالتے ہیں ،
شیخ کی ویڈیو دیکھنے کیلئے
 
Last edited:

T.K.H

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 05، 2013
پیغامات
1,123
ری ایکشن اسکور
330
پوائنٹ
156
حضور کے فضلات ، پاخانہ، پیشاب وغیرہ سب پاک ہیں
بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ
يَا أَيُّهَا الْمُدَّثِّرُ ﴿١﴾ قُمْ فَأَنذِرْ ﴿٢﴾ وَرَبَّكَ فَكَبِّرْ ﴿٣﴾ وَثِيَابَكَ فَطَهِّرْ ﴿٤﴾ وَالرُّجْزَ فَاهْجُرْ ﴿٥﴾
اے اوڑھ لپیٹ کر لیٹنے والے! اٹھو اور خبردار کرو۔ اور اپنے رب کی بڑائی کا اعلان کرو۔ اور اپنے کپڑے پاک رکھو۔اور گندگی سے دور رہو۔
قرآن، سورۃ المدثر ، آیت نمبر 5-1
 

عامر عدنان

مشہور رکن
شمولیت
جون 22، 2015
پیغامات
921
ری ایکشن اسکور
264
پوائنٹ
142
شرب بول کی روایات کا علمی وتحقیقی جائزه

ام ایمن رضی الله عنه سے روایت هے کے ایک رات رسول الله صلی الله علیه وسلم نے گهر میں ایک جانب پڑے برتن میں پیشاب کیا. میں رات کو اپهی مجھے پیاس لگی تهی میں نے پیشاب کو لاشعوری طور پر پی لیا.
"فشربت ما فیها وانا لا اشعر."
جب صبح هوئی تو آپ صلی الله علیه وسلم نے فرمایا ام ایمن جاو اس برتن میں موجود پیشاب کو بها دو. میں نے عرض کیا الله کی قسم میں نے تو وه پی لیا هے. آپ صلی الله علیه وسلم خوب هنسے یهاں تک کر آپ کی داڑهیں مبارک ظاهر هوگئیں. پهر آپ نے فرمایا تمهارا پیٹ کبهی درد نهیں کرے گا. (مستدرک الحاکم ج ۳ ص ۶۳, ۶۴. دلائل النبوۂ لابی نعیم ج ۲, الحلیه ج ۲ ص ۶۷ البدایه والنهایه ج ۵, اور متعدد کتب میں موجود هے.)

تخریج: اسکی سند ضعیف جدا هے.

پهلی بات یه هے کے اسکی سند کا ایک راوی جناب ابومالک عبدالملک بن حسین النخعی متروک هے. جیسا کے حافظ نے تقریب ۸۳۳۷. میں صراحت کی هے.

نوٹ:ابویعلی میں بهی یه روایت موجود هے مگر ابویعلی کی سند میں ابومالک عبدالملک بن حسین النخعی کا واسطه گر گیا هے.اس پر قرینه یه هے کے یعلی بن عطاء کے شاگردوں میں ابومالک کا تذکره تو ملتا هے مگر حسن بن حرب کا تذکره نهیں ملتا. اور ابومالک کے استادوں میں یعلی بن عطاء کا ذکر بهی ملتا هے. اور یه هی وجه هے که ابویعلی کی سند جس کو ابن حجر نے المطالب العالیه ۳۸۲۳. میں موجود هے اور اس میں اسکی سند کپھ یوں هے

"قال ابو یعلی الموصلی ثنا محمد بن ابی بکر ثنا سلم بن قتیبه عن الحسن بن حرب عن یعلی بن عطاء عن الولید بن عبدالرحمن عن ام ایمن...الحدیث."موجود هے.
اور اس کی سند میں حسن بن حرب اور سلم بن قتیبه دونوں کا تعین درکار هے.حسن کے حالات مجھ کو نهیں مل سکهے اگر کس کو مل جائے تو اطلاع دیے شکریه.(نوٹ: بعض لوگ سلم بن قتیبه اور حسن بن حرب کو مسلم بن قتیبه اور حسین بن حرب کهتے هیں. والله اعلم.)

اب اگلی بات یه هے کے اب یه هی سند جو کے ابویعلی سے ابن حجر نے نقل کی هے. اس هی سند کو علامه بوصیری نے اپنے زوائد میں بهی نقل کیا هے. اور اسکی سند کو یوں نقل کیا هے.

"قال ابویعلی الموصلی ثنا محمد بن ابی بکر ثنا سلم بن قتیبه عن الحسین بن حریث عن یعلی بن عطاء عن الولید بن عبدالرحمن عن ام ایمن رضی الله عنه..."(اتخاف الخیرۃ باب الشفاء ببوله صلی الله علیه وسلم, ۶۴۵۵, باب ۳۹.)
یهاں قابل خور بات یه هے که اسکی سند میں سلم بن قتیبه جو هے وه روایت کر رها هے حسین بن حریث سے. اور جب کے ابن حجر نے اس کو سلم بن قتیبه عن حسن بن حرب سے نقل کیا هے.اور پهر مزه کی بات یه هے کے مطالب العالیه کے حواشی جو کے طبع دوم هے انهوں نے بهی اس غلطی کی طرف اشاره کیا هے که مطالب العالیه کے بعض نسخوں میں حسین بن حریث هے. اور بعض میں حسن بن حرب هے.اور یه تو پکا معلوم هے کے یعلی بن عطا کے شاگردوں میں حسن بن حرب موجود نهیں هے. اور نه هی حسن بن حرب کے استادوں میں یعلی بن عطا هے.اور یه بهی یاد رهے کے تاریخ دمشق ابن عساکر میں بهی حسین بن حریث هی هے.
اور اب رهی بات حسین بن حریث اگر تسلیم کیا جائے تو پهر, مگر یهاں بهی وه هی معامله هے استاد شاگروں کا معاصره معلوم نهیں هو سکا مجھ کو کوئی اطلاع دے تو تسلیم کرنے کو تیار هیں.اگر ابویعلی الموصلی کی کتاب موجود هوتی تو حقیقت معلوم کی جاسکتی تهی مگر پته نهیں وه هے بهی یا نهیں سننے میں تو یه هی آیا هے کے یه کتاب دستیاب نهیں.والله اعلم.
مگر راجح بات جو مجھ کو معلوم هوئی هے وه یه هے کے صحیح حسن بن حرب هی هے.اس پر دلیل یه هے کے اس روایت کو دارقطنی نے بهی اپنی کتاب میں ذکر کیا هے جیسا کے علامه سیوطی نے ذکر کیا هے اور یه باوار کروایا هے کے ابویعلی والی روایت اور دارقطنی کی ایک هی هے. کهتے هیں

"واخرج ابویعلی والحاکم والدارقطنی وابونعیم عن ام ایمن."(الخصائص الکبری ج ۲ ص ۲۵۲.)
تو معلوم هوا کے ابو یعلی اور حاکم کی روایت جس میں ابو مالک عبد الملک بن حسین متروک راوی موجود هے وه اور دارقطنی کی روایت ایک هی هے.اور یه بیان کردیا گیا هے کے ابویعلی کی سند میں ابو مالک عبدالملک بن حسین النخعی متروک کا واسطه گر گیا هے. اور جب دونوں روایات ایک هے ابویعلی اور دارقطنی تو, دارقطنی کی سند میں میں جو یه راوی موجود هے حسن بن حرب تو یه سلم بن قتیبه معلوم نهیں.اور پهر امام دارقطنی نے اس هی روایت کو العلل میں بهی نقل کیا هے. امام دارقطنی نے العلل میں اس کها که:

"سلم بن قتیبه حسن عن یعلی بن عطاء عن الولید بن عبدالرحمن عن ام ایمن کی سند سے روایت کرتا هے اور سلم بن قتیبه اور قرۃ بن عبدالرحمن اسے ابومالک عن یعلی عن عطاء عن الولید سے روایت کرتے هیں.
گویا سلم کبهی حسن بن حرب سے اور کبهی ابومالک سے روایت کرتے هیں اسلئے یه روایت اس اضطراب کی وجه سے بهی ضعیف هے."(العلل دارقطنی ج ۱۵ ص ۵۸۱.)
تو معلوم هوا کے راجح بات جو میرے نزدیک هے وه یه هے که" سلم بن قتیبه نے حسن بن حرب نے یعلی بن عطا عن الولید بن عبدالرحمن عن ام ایمن روایت کی هے اور یه هی صحیح هے.
اور یاد رهے ابویعلی کی کتاب معلوم نهیں هے لهذا صحیح بات دارقطنی کی هی تسلیم کی جائے گی. کیونکه انهوں نے ذکر کیا هے کے کبهی حسن بن حرب کا نام آتا اور کبهی دوسرے راوی فرویاه کا, اور سیوطی نے دارقطنی کی سند کو اور ابویعلی کی سند کو ایک هی باوار کیا هے.
خلاصه یه هے کے ابویعلی کی سند اور دارقطنی کی سند ایک هے جیسا کے بیان هوچکا هے سیوطی کے حواله سے, اور اس کی سند کا مدار ابومالک عبدالملک بن حسین النخعی پر هے جو کے متروک هے. اور سلم بن قتیبه اور حسن بن حرب کا تعین اور توثیق درکار هے. اور ابویعلی کی سند میں یه واسطه گر گیا هے.
اور اگر حسن کی جگه حسین هی تسلیم کر لیا جائے تب بهی انکا تعین درکار هے. اور یه روایت تب بهی ضعیف هے.دارقطنی کے الفاظ بهی دیکهے لیں
"فقال یرویه ابومالک النخعی واسمه عبدالملک بن حسین واختلف عنه فرواه شهاب عن ابی مالک عن الاسود بن قیس عن نبیح العنزی عن ام ایمن.
وخالفه سلم بن قتیبه وقرۃ بن سلیمان فرویاه عن ابی مالک عن یعلی بن عطاء عن الولید بن عبدالرحمن عن ام ایمن.وابو مالک ضعیف والاضطراب فیه من جهته."(العلل للدارقطنی ج ۱۵ ص ۴۱۵, ح ۴۱۰۶.)
اس روایت میں دوسری علت یه هے کے اس میں نبیح بن عبدالله العنزی کی ام ایمن سے ملاقات کا ثبوت محل نظر هے.ابن حجر لکهتے هیں

"لم یلق ام ایمن."(التلخیص الحبیر ج ۱ ص ۳۱.)
مگر الاصابه میں انهوں نے ملاقات کو راجح قرار دیا هے.مگر اسکے ساتھ هی ابن السکن سے یه بهی نقل کر دیا که ام ایمن مولاۃ النبی صلی الله علیه وسلم اور هیں. اور انکی وفات حضور پاک صلی الله علیه وسلم کی وفات کے حپھ ماه بعد هوگی تهی.جبکه ایک ام ایمن مولاۃ ام حبیبه هیں, جن کی وفات بعد میں هوئی تهی.
جب یه احتمال موجود هے تو نبیح کا ام ایمن سے سماع مشکوک هے.
یاد رهے دارقطنی اس روایت کو مضطرب قرار دیے چکے هیں.اور یه بهی یاد رهے کے ام ایمن سے سماع بهی ثابت نهیں اور جو روایت حلیه ج ۲ میں هے وه بهی منقطع هونے کی وجه سے ضعیف هے.
اگر اس روایت کو صحیح تسلیم بهی کر لیا جائے تو یه ثابت نهیں کے ام ایمن نے پاک سمجھ کر پیا تها جیسا که اس روایت میں الفاظ هیں

"فشربت ما فیها وانا لا اشعر"
اور دوسری جگه فغلطت "فشربتها" کے الفاظ هیں جو کے صریح دلیل هے کے ام ایمن نے لاشعوری کے طور پر پی لیا تها نه کے پاک سمجھ کر اور یه غلطی سے پیا گیا تها اور کوئی غلطی سے کوئی کام کر لے تو اسکے جائز هونے کی دلیل نهیں هوسکتی. اور اس هی وجه سے اسکو غلطی پر محمول کیا جائے گا اسلئے غلط عمل طهارت کی دلیل نهیں.
رهی بات یه کے "تیرے پیٹ میں درد نهیں هوگا." تو یه اسلئے که رسول الله صلی الله علیه وسلم کی خدمت کے صله میں الله تعالی نے اسے شفاء بنادیا. کبهی نجس چیز بهی شفاء بن جاتی هے مگر یه اسکے پاک هونے کی دلیل نهیں بن سکتی.دوسری روایت جو کے حضرت امیمه بنت رقیقه رضی الله عنه سے هے جو که ابوداود ح ۲۴. نسائی حاکم بیهقی, وغیره اور متعدد کتب میں موجود هے یه روایت بهی صحیح نهیں هے اس میں پهلی علت یه هے کے:حکیمه بنت امیمه مجهول هے جیسا کے ابن حجر نے تقریب میں "لا تعرف" کها هے.
مگر ابن حبان نے اس کو ثقات میں ذکر کیا اور دارقطنی نے اسکی ایک روایت کو الالزامات والتتبع میں ذکر کیا هے, اور اس هی بنا پر بعض علماء نے اس کی سند کو حسن جید کها جیسا که البانی صاحب نے سنن ابی داود ج ۱ ص ۵۳ پر حسن الاسناد! کها هے.اور ساتھ هی کهتے هیں کے حکیمه کو ابن حبان نے ثقات میں نقل کیا اور ذهبی نے کها کے میں نے کسی خواتون کو "متهم ومتروک" نهیں پایا اور حاکم نے اسے صحیح الاسناد کها اور ذهبی نے ان کی موافقت کی هے.مگر عرض هے که صرف اتنی سی بات سے روایت صحیح یا حسن نهیں دی جاسکتی البانی صاحب نے خود کئ جگه تنها ابن حبان کی توثیق کو رد کردیا هے.
اور رهی بات علامه ذهبی کی تو ذهبی نے خود حکیمه کے مجهول هونے کی طرف اشاره کیا کے ابن جریح تنها اس سے روایت کرتا هے. اور یه هی بات ابن حجر نے کهی هے. (میزان ج ۴ ص ۶۰۶, الاصابه ج ۱۳ ص ۱۶۶.) یعنی کے مجهول العین هیں.
اور اس هی وجه سے ابن حجر نے تقریب میں "لا تعرف" کها هے.
اور رهی بات حاکم کی اور موافقت ذهبی کی تو حاکم متساهل هیں انهوں نے کئ جگه مجهول اور سخت ضعیف روایت کی روایت کی تصحیح کی هے اور علامه ذهبی نے موافقت کی هے جبکه وه خود دوسری جگه اس پر جرح کرتے هیں اور یه المستدرک کی تلخیص سے معلوم تو یوں هوتا هے کے علامه ذهبی نے عموما تصحیح سند کا اهتمام صحیحن کے رواۃ تک هی رکها هے. اسکی ایک مثال دیکهے.
امام حاکم نے ج ۳ ص ۱۶۴ پر ایک روایت نقل کی هے جو که ابوبکر بن ابی دارم سے هے اور صحیح الاسناد کها هے.جبکه امام ذهبی نے موافقت کی جبکه اس روایت میں موجود دو روایوں پر جرح کی مگر ابوبکر بن ای دارم پر کوئی جرح نهیں کی جبکه اس روایت کے متعلق تذکرۃ الحفاظ میں لسان میں سخت جرح کی حتی که یهاں تک کها

"کان یترفض وقد اتهم فی الحدیث."
اور اس هی طرف ج ۳ ص ۱۱۴, اور ۱۱۲ پر اس روایت کی روایت پر خاموش هے.!نیز دیکهے حضرت جابر کی حدیث "اذا اذنت فترسل" المستدرک ج ۱ ص ۲۰۴.
اور پهر البانی صاحب بهی ان سے متفق نهیں هیں خواتین ایک روایت کے متعلق جو کے "ام بکر" کے بارے میں سلسله الصحیحه ح ۱۹۹۵ میں اور ام حبیبه کے بارے میں ح ۱۶۷۳.میں کها حاکم نے ان کی سند کو صحیح اور ذهبی نے موافقت کی هے,حالانکه خود علامه ذهبی نے انکی طرف مجهول هونے کا اشاره کیا هے.
اور هم بهی یه هی عرض کر آئے هیں که ذهبی نے خود مجهول هونے کی طرف اشاره کیا هے تو یه روایت حسن یا صحیح کیسے.!محدث ڈیانوی نے ذهبی اور ابن حجر کا کلام نقل کیا اور کها:

"مفاد کلامهما انها مجهوله."
(غایه المقصود ج ۱ ص ۱۵۰.)
اور ابن قطان نے بهی کها امام دارقطنی کیطرف اسکی تصحیح کی نسبت صحیح نهیں کیونکه انهوں نے حکیمه کی تعدیل یا جرح کوئی نهیں کی.
"فالحدیث متوقف الصحه علی العلم بحال حکیمه فان ثبت ثقتها ثبتت روایتها وهی لم تثبت."(البدر المنیر لابن ملقن ج ۱ ص ۴۸۶, بیان الوهم والایهام ج ۵ ص ۵۱۴ ح ۲۷۵۶.)
اور علامه مناوی نے بهی اقتفاء السنن سے نقل کیا هے که:
"اسکی تضعیف نهیں کی گئ حالانکه یه ضعیف هے کیونکه حکیمه مجهول هے."(فیض القدیر ج ۵ ص ۱۸۷.)
علامه مناوی نے روایت کو ضعیف کها هے. لهذا بعض کا اس روایت کی تصحیح وغیره کرنا صحیح نهیں جبکه اصول حدیث کی روح سے بهی یه روایت ضعیف هے. اور علامه ذهبی کا یه کهنا که میں نے خواتین میں سے کس کو متهم ومتروک نهیں پایا.
عرض هے اس سے یه ثابت نهیں هوتا که وه ضعیف بهی نه هوا. کیونکه ذهبی نے یه نهیں کها کے انهوں نے کسی کو ضعیف بهی نهیں پایا.ایسے بهت سے راوی هیں جو کے متروک یا متهم نهیں هیں بلکه سی الحفظ وغیره هیں.لهذا علامه ذهبی کے قول سے بهی یا ثابت نهیں هوتا که راوی ثقه صدوق هے. جبکه وه خود اسکے مجهول هونےکی طرف اشاره کر گئے.

خلاصه:

یه هے کے یه روایت حکیمه کے مجهول هونے کی وجه سے ضعیف هے جیسا کے علامه مناوی نے بهی صراحت کی هے.

دوسری علت:

حکیمه کے بارے میں ابن حجر نے کها هے که یه حپهٹے طبقه کی راویه هے.
اور مقدمه تقریب میں ابن حجر نے اس طبقه کے رایوں کا صحابه سے سماع ثابت نهیں هونا ذکر کیا هے. اس لئے ان کا اپنی والده امیمه بنت رقیقه سے سماع بهی مشکوک اور محل نظر هے لهذا یه روایت منقطع بهی هوئی.
تیسری بات یه هے اس روایت میں بهی هے که میں نهیں جانتی تهی که یه پیشا هے اور یه غلطی کی وجه سے هوا.

تیسری روایت:

علامه سیوطی الخصائص الکبری میں ایک روایت ام حبیبه سے بحواله عبدالرزاق عن ابن جریج نقل کی هے. یه روایت بهی ضعیف هے.کیونکه عبدالرزاق مدلس هے. جو که بعض بریلویوں کو بهی مقبول هے.اور دوسری بات یه هے که ابن جریج میں مدلس هے لهذا یه روایت بهی ضعیف هے. ابن جریج ابوداود میں حکیمه سے یه روایت نقل کرتا هے اور حکیمه اپنی والده سے.یه هوسکتا هے ابن جریج کبهی اسے بالاسناد اور کبهی ارسالا روایت کرتے هوں.مسند روایت تو ضعیف هے جیسا کے گزر چکا هے. لهذا یه روایت بهی ضعیف هے.

چوتهی روایت:

ابو رافع کی بیوی سلمی نے نبی صلی الله علیه وسلم کے غسل کیئے هوئے پانی کو پی لیا کا واقعه ملتا هے جو مجمع الزاوئد ج ۸ ص ۴۸۳ پر موجود هے.
یه روایت بهی سخت ضعیف هے. علامه هیثمی کهتے هیں اسکی سند میں ایک راوی معمر بن محمد راوی هے جو که کذاب هے. (مجمع ج ۸ ص ۲۷۰.)
اور ابن حجر نے التلخیص میں بهی اس کو ضعیف کها دیکهے. (تلخیص ج ۱ ص ۳۲.)
جناب اشرف علی تهانوی صاحب ایک صاحب کا رد کرتے هوئے کهتے هیں که: طهارت کے (پاک) هونے کے دلائل بادلیل هے. (بوادر النوادر ص ۲۹۳ طبع اداره الاسلامیات لاهور.)
یهاں ایک بات فائده سے خالی نهیں سمجھتا کے خون کے متعلق جو روایات آئی هے اگرچه اس میں ضعیف موجود هے اگر تسلیم بهی هو جیسا که ایک راوی کے مجهول هونے پر, سیوطی نے بوصیری نے ابن حبان نے حاکم نے الختاره وغیره میں اسکی تصحیح کی گی هے., مگر اس سے یه لازم نهیں آتا که خون پینا جائز هو گیا بهرحال سیوطی بوصیری ابن حبان حاکم وغیره متساهل هیں اور هیثمی کا حواله مردود هے. صالحی بهت بعد کے هیں اس هی لئے تو ابن حجر نے کها تها کے یه مشهور بالعلم نهیں هے.
بهرحال اگر یه ثابت بهی هو تو یه ثابت نهیں هوتا که خون نجس نهیں.
.
.
.
بنده فقیر کیلئے دعا کی اپیل
حافظ عمر صدیق.

نوٹ:یہ فیس بک کے ایک بھائی کی تحریر ہے

جزاک اللہ خیراً
 
Top