ابوالوفا محمد حماد اثری
مبتدی
- شمولیت
- جون 01، 2017
- پیغامات
- 61
- ری ایکشن اسکور
- 9
- پوائنٹ
- 20
مذہب شیعہ اور اس کے اصول روایت کا ایک سرسری مطالعہ
ابوالوفا محمد حماد اثری
1فرقہ شیعہ اخباری و اصولی میں مبدل ہوا، لیکن یہ تبدیلی کچھ ایسی نہیں کہ بنیادی احکام و عقائد ہی پہ اثر انداز ہوتی، اخباری و اصولی ہر دو فریق، بداء ، رجعت، متعہ اور صحابہ کرام کو غیر عدول سمجھنے والے عقیدے پر متفق ہیں۔
2 شیعہ متقدمین اور متاخرین کے اصول حدیث باہم مختلف ہیں، لیک عقائد متفق ہیں، کیوں کہ متاخرین میں سبھوں کسی خبرکا اشتہار دیکھتے ہیں اور اگر وہ خبر یا روایت شیعہ میں مشہور ہو تو پھر اس کی سند دیکھے بغیر اس کو صحیح قرار دے دیتے ہیں، مکالمہ ڈاٹ کام پر اس سلسلے میں مفتی امجد عباس کی تحریر بھی موجود ہے، اہل ذوق ملاحظہ کرسکتے ہیں۔
بقول مفتی امجد عباس ہزار مسئلہ تو محض مشہور ہونے کی وجہ سے شیعہ میں مختار ہے، یہ لنک دیکھئے :
3شیعہ عقائد و اعمال کی طرح شیعی ذخیرہ روایت میں بھی تقیہ کا اہم کردار ہے، یہ تقیہ ائمہ تو کرتے ہی ہیں، بسا اوقات راوی بھی تقیہ میں خلاف واقعہ بیان کرجاتا ہے، ائمہ ایک آدمی پر لعنت بھی بھیجتے ہیں اس کو ثقہ بھی کہتے ہیں، اسی لئے بعض شیعہ کو یہ اصول بنانا پڑا کہ لعنت بسا اوقات کسی آدمی کی توثیق بیان کرنے کو کی جاتی ہے۔
اس پر یہ سوال الگ سے قائم ہے کہ آخر تقیے اور اصل کاامتیاز کیسے ہوگا؟ اگر کسی راوی پرلعنت کی ہے اور اس کو ثقہ بھی کہا ہے تو لعنت معتبر ہوگی یا توثیق؟
یہ تو واضح ہے کہ بیک وقت لعنتی اور ثقہ اکٹھے نہیں ہوسکتے، اب یا تو امام نے ثقہ تقیے سے کہا ہے یا لعنت تقیے سے کی ہے۔
بعض شیعہ اس کا جواب دیتے ہیں کہ اس صورت میں شیعہ کے اجماع کی طرف رجوع کیاجائے گا، یا شیعہ متقدمین کی آراء کو ملاحظہ کیا جائے گا، لیکن تب یہ سوال کھڑا ہوگا کہ جب آپ نے امت کے اجماع کومعتبر نہیں مانا ہے تو امت کے آپ کے اجماع کو معتبر کیوں کر مان لے؟جب آپ نے امت کے متقدمین سے قرآن کا معنی نہیں لیا تو تمہارے متقدمین سے کوئی تمہارے ائمہ کے اقوال کامعنی کیوں لے؟
4 تقسیم رباعی یا اصطلاح جدید، شیعہ اصول میں جدید اصطلاح سے مراد حلی وغیرہ کی بیان کی گئی اصطلاحات حدیث ہیں، یہ اصطلاحات ساتویں صدی میں اختیار کی گئی، بعض اہل سنت محققین کا کہنا ہے کہ ان اصطلاحات کی ایجاد کا بہانہ امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا وہ طعنہ بنا تھا، جو انہوں نے حلی کودیا تھا کہ آپ کے ہاں اصول حدیث تک نہیں ہیں۔
ان اصطلاحات کا شیعہ میں شدید رد بھی ہوا، اخباری فرقے نے ان کو خوب آڑے ہاتھوں لیا، حتی کہ بعض شیعہ محققین نے کہا ہے کہ دین کا انہدام دو دفعہ ہوا ، سقیفہ کے دن اور حلی کی پیدائش کے دن۔
ڈاکٹر خالد ذویبی کا کہنا ہے کہ اس اصطلاح نے بھی شیعہ عقائد وغیرہ میں اک ذرا تبدیلی نہیں لائی، اس نے امامت اور ائمہ بارے بیان ہوئی روایات کو چھیڑا تک نہیں،نہ رجعت کے عقیدے پر اثر انداز ہوئی،نہ بداء ، تقیے اور متعے کے عقیدے پر موثر ہوئیں،مسح علی الرجلین پر بھی موثر نہ ہوئی،اصول اربعہ کو اب بھی اکثر شیعہ صحیح سمجھتے ہیں، وہ کتابیں انگلیوں پر گنی جاسکتی ہیں، جن میں احادیث کافی یا دیگر کتب کی اسانید کا دراسہ کیا گیا ہے، جیسا کہ مراۃ العقول مجلسی،منتقی الجمان ابن شہید ثانی کی کتابیں ہیں، لیکن جب تدبر کیجئے تو شیعہ لوگ ان کے لگائے ہوئے احکاماے سے مطمئن نہ ہیں،بلکہ خودابن شہید ثانی اپنی ضعیف کہی ہوئی روایات سے استدلال لیتا ہے اور مجلسی نے تو بحار الانوار میں ایسی کتابیں جمع کردی ہیں، جن کو شیعہ موضوع کتابیں قرار دیتے ہیں، جیسا کہ تفسیر عسکری، تفسیر قمی۔
5مخالف کے بارے میں ان کا موقف ایک جیسا ہے، چاہے مخالف تشیع کے دائرے میں ہو یا باہر ہو،
6 دشمنوں پر لعنت اور ان کو گالی امامیہ کا امتیاز ہے، یہاں تک کہ کتب عقائد، کتب فقہ اور کتب روایۃ میں بھی۔
7 امامیہ کے ہاں علوم حدیث نئے ہیں، ان کی کتابیں اہل سنت پر اعتماد کرتی ہیں،البتہ بعض مباحث ان کے اہل سنت سے الگ ہیں۔
8شیعہ کے ہاں جرح و تعدیل کی تصنیف بڑی تاخیر سے شروع ہوئی، ان کی ابتدائی کتابیں صرف فہارس پر تھیں، مقصود ان سے صرف شیعہ میں تصنیف کے وجود کا اثبات کرنا تھا،اس میں انہوں نے امامیہ کی مصنفات کا ذکر کیا، جرح و تعدیل و ذم وغیرہ کا رواج تب بہت کم تھا،یعنی نقد الرجال بہ طور مادہ نقدیہ نہ ہونے کے برابرتھا، اصطلاح جدید کے بعد بھی بہت کم لوگ اس جانب راغب ہوئے، ایک پورا گروہ اصول اربعہ کو قطعی الدلالۃ مانتا رہا اور اگر شیعی دلائل و عقائد کو سامنے رکھئے تو اخباری فریق کا موقف مضبوط نظر آتا ہے، لیکن اصولیوں میں سے بعض نے ان کتابوں کی تحقیق شروع کی، یہ لیکن بہت چھوٹے پیمانے پر شروع ہوئی، اصولیوں میں بھی ایک گروہ کتب اربعہ کو قطعی الثبوت ہی مانتا ہے ۔
پھر اس پر شیعوں کے مابین مباحث ابھی تک جاری ہیں کہ اصول جرح و تعدیل لاگو کرنے چاہئیں یا کہ نہیں، شیعہ گروپوں میں جانے والے یا ان کی مجالس میں بیٹھنے والے اس حقیقت کو جانتے ہیں۔
تاہم یہ بات خوش آئند ہے شیعہ میں ایک پورے گروہ نے جنم لیا ہے، جنہیں اصلاح پسند شیعہ یا قرآنیون وغیرہ کہا جاتا ہے اور وہ خود کو شیعان علی اور امامیہ کو شیعان صفوی کہتے ہیں، ان لوگوں نے عقیدہ امامت، عقیدہ رجعت، مہدی، تحریف قرآن، عقیدہ عصمت وغیرہ سب کا انکار کردیا ہے، ان میں سر فہرست استاذ احمد کاتب ، موسی موسوی، آیت اللہ برقعی، قلمداران وغیرہ کے نام آتے ہیں۔استاد احمد کاتب ہی نے لکھا ہے کہ
شیعی عقدی انحراف حسن عسکری کے بیٹے کی پیدائش پر شروع ہوا، اسی طرح ڈاکٹر موسی موسوی کے بقول یہ انحراف تب شروع ہوا جب اس حسن عسکری کے بیٹے کی غیبوبت کا رسمی اعلان کیا گیا۔
استاد موسی موسوی کا کہنا ہے کہ
دوسری صدی کی ابتداء میں شیعہ مکتب فکر اہل بیت کی فقہ کا نام تھا ٓ، جیسا کہ مالکیہ، شافعیہ حنبلیہ وغیرہ تھے۔
احمد کاتب کا کہنا ہے کہ شیعہ کا نام شروع ہوا ان لوگوں کے لئے جو سیدنا علی رضی اللہ کے ساتھی تھے اور امامیہ کا نام دوسری صدی میں شروع ہوا اور اثنی عشریہ کی اصطلاح چوتھی صدی میں ان پر مستعمل ہوئی جو حسن عسکری کے ہاں ایک بیٹے کی ولادت کی بات کرتے تھے۔
9شیعہ کے ہاں جرح و تعدیل کے اصول غیر منضبط ہیں، حتی کہ ایک قاعدے بارےدعوی اجماع کیا جاتا ہے اور دوسرا قاعدہ اس کے مخالف آجاتا ہے اوراس پر بھی اجماع کا دعوی ہوتا ہے۔
جیسے اس قاعدے پر اجماع کا دعوی کیا جاتا ہے کہ راوی کا مومن اور عادل ہونا ضروری ہے اس کے ساتھ ہی یہ قاعدہ بھی بنایا گیا ہے کہ اصحاب الاجماع سے وارد ہر روایت صحیح ہوتی ہے، حالاں کہ اصحاب الاجماع میں بعض غیر امامی بھی ہیں اور شیعہ کے غیر امامی مومن نہیں ہوسکتا۔
اسی طرح توثیقات عامہ میں اختلاف ہے، معین کتاب کے راویوں کی توثیق پر اجماع بیان کرنا پھر اسی میں ایسے راوی کا آجانا کہ جس کی تکذیب پر ان کے علماء کا اجماع ہوتا ہے، یہ ان کے بہت عام ہے۔
توثیقات عامہ کا اصول، خاص جگہوں کے افراد کی توثیقات کا اصول، یا معین صفات والے افراد کی توثیق کا اصول، اس پہ طرہ یہ ہے کہ مذکورہ تمام قواعد شیعہ علمائے درایہ کے بیان کردہ صریح قواعد کے مخالف ہیں۔
بقول ڈاکٹر خالد ذویبی بعض متاخر شیعہ انہیں وجوہات کی بنیاد پر ایسے قواعد کو رد بھی کرتے ہیں۔
10شیعہ لوگ کتب درایۃ اور کتب اصول میں راوی کی شرائط بارے شدید اضطراب کے شکار ہوگئے ہیں،خاص طور ہر عدالت اور ایمان کی شرائط میں،حالاں کہ ان دو شرائط پر ہی اصول حدیث قائم ہیں۔
11چوں کہ ابتدائی شیعہ میں تطبیق قواعد فی الراوی والمروی کا اہتمام ہی نہیں تھا، اس لئے اہل سنت کا ان سے استفادہ کرنے کا امکان ہی ختم ہوجاتا ہے،البتہ ذہبی و ابن حجر وغیرہ راوی کو شیعہ بتانے واسطے طوسی وغیرہ سے نقل کرتے ہیں۔
ان کے لوگوں نے البتہ جگہ جگہ اہل سنت اصول کی کاپی کی ہے۔
12اہل سنت کی مخالفت شیعہ کے ہاں اتفاقی قاعدہ ہے،ان کے متقدمین متاخرین، اخباریوں اور اصولیوں سب کو اس سے اتفاق ہے،جس کو اہل سنت صحیح کہیں وہ ضعیف ہے اور جس کو ضعیف کہیں وہ صحیح، کیوں کہ ہدایت عامہ کی مخالفت میں ہے۔
یہاں ایک تحقیقی زاویے کی جانب توجہ کا ہینڈل موڑنا چاہوں گا کہ شیعہ نے کئی عقائد اہل سنت روایات کی بنا پر گھڑ لئے ہیں، ان کی اپنی کتابوں میں وہ روایت ان کے نزدیک ضعیف سند سے وارد ہوتی ہے اور اہل سنت کی کتابوں میں اس کی سند صحیح ہوتی ہے تو یہ لوگ اس کی بنیاد پر عقیدہ یا عمل کی بنیاد رکھ لیتے ہیں، مثلا حدیث قرطاس کو شیعہ حضرات سیدنا عمر رضی اللہ عنہ پہ طعن کا سبب قرار دیتے ہیں، لیکن جب تحقیق کیجئے تو شیعہ کی کتابوں میں اس کی صحیح سند موجود ہی نہیں اور اہل سنت میں اس کی صحیح سند موجود ہے، تب ہم ان سے کہہ سکتے ہیں کہ یا تو حدیث قرطاس کی کوئی صحیح سند شیعہ اصول سے پیش کیجئے یا اپنا عقیدہ ختم کیجئے۔
اس طرح کی اور بھی کئی مثالیں موجود ہیں اور کئی مل جائیں گی، اہل سنت محققین کو اس زاویہ نگاہ سے بھی تحقیق کرنی چاہئے۔
13صحابہ کے بارے میں شیعہ کئی مکاتیب فکر ہیں، بعض تو سب صحابہ کو کافر و مرتد ہی جانتے ہیں اور بعض صرف ان صحابہ کو عادل مانتے ہیں، جو سیدنا علی رضی اللہ کے ساتھ تھے یا سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھے، باقی سب صحابہ کو یہ لوگ غیر عادل مانتے ہیں۔
14ان کے ہاں روایت کی سند کسی امام پر جا رکتی ہے، بہت کم رسول اللہ ﷺ تک جاتی ہے، کبھی تو وہ بھی منقطع ہوتی،امام صادق نبی کریم ﷺ سے بیان کرتے ہیں،اکثر روایات ا ن کی امام جعفر پہ جا رکتی ہیں۔
15 ادلہ شرعیہ ان کے ہاں، اجماع ، عقل،قرآن اور اخبار ہیں، لیکن اعتماد صرف اخبا رپر ہے،اخبار ان کے ہاں قرآن سے اہم ہیں۔
16یہ بھی زیر غور رہے کہ امامیہ کے ہاں علم درایۃ کے معاصر دراسہ جات اقوال قدماء سے لئے ہوئے نہیں ہیں۔
17 اصول اربعہ کے مصنفین نے راوی یا روایت اپنی کتاب میں لاتے وقت کوئی قاعدہ ملحوظ نہیں رکھا ہے، اور حیرت یہ ہے کہ ان سب نے اپنی روایتوں پر صحت کا حکم بھی لگایا ہے۔
اس پر بحث آگے بڑھائی جاسکتی ہے کہ شیعہ کے ہاں ایک یا دو بندوں کی توثیق کافی ہوتی ہے کسی راوی کو صحیح کہنے واسطے، تس پہ یہ سوال اٹھایا جاسکتا کہ اصول اربعہ کے جن راویوں کی روایات یہ لوگ مجہول کہہ کر ٹھکر ادیتے ہیں، وہ توثیق ضمنی کے قاعدے سے ثقہ کیوں قرار نہیں پاتیں؟
اس پر یہ جوا ب دیا جاسکتا ہے کہ وہ لوگ صرف راوی کی توثیق دیکھ کر اس حدیث کو صحیح نہیں کہتے تھے بلکہ وہ روایت انہوں نے ان چار سو اصولوں سے لی ہوتی تھی جن کی صحت پر امامیہ کا اجماع ہے تو اس پر یہ سوال اٹھے گا کہ اگر وہ روایت اصولوں سے لی ہوئی ہے تو ان کو ضعیف کہنا ہی غلط ہے، یا تو چار سوا صولوں کی صحت پر اجماع غلط ہے یا یہ روایت صحیح ہے۔
محققین اہل سنت کو اس زاویہ نگاہ پر بھی کچھ سوچنا چاہئے کہ شیعہ کے ہاں وہ راوی ضعیف ہوتا ہے جو کثرت سے ضعیف و مجہول لوگوں سے روایت کرتا ہو، توجدید اصطلاح کے مطابق اصول اربعہ کے مصنفین نے سینکڑوں مجہولین سے روایات لائی ہیں، کیا وہ ضعیف قرار نہ پائیں گے؟
اس پر مزید کام کو آگے بڑھانا چاہئے، اللہ ہمارا حامی و ناصر ہو
یہ پچھلے چند دن کے مطالعہ کے نتائج آپ کے سامنے رکھ دئیے ہیں، ممکن کہ میرے نکالے ہوئے کچھ نتائج کمزور ہوں، کچھ سوالا ت بے وزن ہوں، کیوں کہ یہ مطالعہ کی ابتداء ہے اور اٹھائے ہوئے سوال نئے ہیں، اس لئے ان پر مزید تحقیق کیجئے تاکہ جدید نسل کے ذہن سے تشکیک کے سنپولئے نکالے جاسکیں اور مسلک اہل سنت کی حقانیت کو تحقیقی بنیادوں پر ثابت کیا جاسکے۔
ابوالوفا محمد حماد اثری
1فرقہ شیعہ اخباری و اصولی میں مبدل ہوا، لیکن یہ تبدیلی کچھ ایسی نہیں کہ بنیادی احکام و عقائد ہی پہ اثر انداز ہوتی، اخباری و اصولی ہر دو فریق، بداء ، رجعت، متعہ اور صحابہ کرام کو غیر عدول سمجھنے والے عقیدے پر متفق ہیں۔
2 شیعہ متقدمین اور متاخرین کے اصول حدیث باہم مختلف ہیں، لیک عقائد متفق ہیں، کیوں کہ متاخرین میں سبھوں کسی خبرکا اشتہار دیکھتے ہیں اور اگر وہ خبر یا روایت شیعہ میں مشہور ہو تو پھر اس کی سند دیکھے بغیر اس کو صحیح قرار دے دیتے ہیں، مکالمہ ڈاٹ کام پر اس سلسلے میں مفتی امجد عباس کی تحریر بھی موجود ہے، اہل ذوق ملاحظہ کرسکتے ہیں۔
بقول مفتی امجد عباس ہزار مسئلہ تو محض مشہور ہونے کی وجہ سے شیعہ میں مختار ہے، یہ لنک دیکھئے :
https://www.mukaalma.com/3989
3شیعہ عقائد و اعمال کی طرح شیعی ذخیرہ روایت میں بھی تقیہ کا اہم کردار ہے، یہ تقیہ ائمہ تو کرتے ہی ہیں، بسا اوقات راوی بھی تقیہ میں خلاف واقعہ بیان کرجاتا ہے، ائمہ ایک آدمی پر لعنت بھی بھیجتے ہیں اس کو ثقہ بھی کہتے ہیں، اسی لئے بعض شیعہ کو یہ اصول بنانا پڑا کہ لعنت بسا اوقات کسی آدمی کی توثیق بیان کرنے کو کی جاتی ہے۔
اس پر یہ سوال الگ سے قائم ہے کہ آخر تقیے اور اصل کاامتیاز کیسے ہوگا؟ اگر کسی راوی پرلعنت کی ہے اور اس کو ثقہ بھی کہا ہے تو لعنت معتبر ہوگی یا توثیق؟
یہ تو واضح ہے کہ بیک وقت لعنتی اور ثقہ اکٹھے نہیں ہوسکتے، اب یا تو امام نے ثقہ تقیے سے کہا ہے یا لعنت تقیے سے کی ہے۔
بعض شیعہ اس کا جواب دیتے ہیں کہ اس صورت میں شیعہ کے اجماع کی طرف رجوع کیاجائے گا، یا شیعہ متقدمین کی آراء کو ملاحظہ کیا جائے گا، لیکن تب یہ سوال کھڑا ہوگا کہ جب آپ نے امت کے اجماع کومعتبر نہیں مانا ہے تو امت کے آپ کے اجماع کو معتبر کیوں کر مان لے؟جب آپ نے امت کے متقدمین سے قرآن کا معنی نہیں لیا تو تمہارے متقدمین سے کوئی تمہارے ائمہ کے اقوال کامعنی کیوں لے؟
4 تقسیم رباعی یا اصطلاح جدید، شیعہ اصول میں جدید اصطلاح سے مراد حلی وغیرہ کی بیان کی گئی اصطلاحات حدیث ہیں، یہ اصطلاحات ساتویں صدی میں اختیار کی گئی، بعض اہل سنت محققین کا کہنا ہے کہ ان اصطلاحات کی ایجاد کا بہانہ امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا وہ طعنہ بنا تھا، جو انہوں نے حلی کودیا تھا کہ آپ کے ہاں اصول حدیث تک نہیں ہیں۔
ان اصطلاحات کا شیعہ میں شدید رد بھی ہوا، اخباری فرقے نے ان کو خوب آڑے ہاتھوں لیا، حتی کہ بعض شیعہ محققین نے کہا ہے کہ دین کا انہدام دو دفعہ ہوا ، سقیفہ کے دن اور حلی کی پیدائش کے دن۔
ڈاکٹر خالد ذویبی کا کہنا ہے کہ اس اصطلاح نے بھی شیعہ عقائد وغیرہ میں اک ذرا تبدیلی نہیں لائی، اس نے امامت اور ائمہ بارے بیان ہوئی روایات کو چھیڑا تک نہیں،نہ رجعت کے عقیدے پر اثر انداز ہوئی،نہ بداء ، تقیے اور متعے کے عقیدے پر موثر ہوئیں،مسح علی الرجلین پر بھی موثر نہ ہوئی،اصول اربعہ کو اب بھی اکثر شیعہ صحیح سمجھتے ہیں، وہ کتابیں انگلیوں پر گنی جاسکتی ہیں، جن میں احادیث کافی یا دیگر کتب کی اسانید کا دراسہ کیا گیا ہے، جیسا کہ مراۃ العقول مجلسی،منتقی الجمان ابن شہید ثانی کی کتابیں ہیں، لیکن جب تدبر کیجئے تو شیعہ لوگ ان کے لگائے ہوئے احکاماے سے مطمئن نہ ہیں،بلکہ خودابن شہید ثانی اپنی ضعیف کہی ہوئی روایات سے استدلال لیتا ہے اور مجلسی نے تو بحار الانوار میں ایسی کتابیں جمع کردی ہیں، جن کو شیعہ موضوع کتابیں قرار دیتے ہیں، جیسا کہ تفسیر عسکری، تفسیر قمی۔
5مخالف کے بارے میں ان کا موقف ایک جیسا ہے، چاہے مخالف تشیع کے دائرے میں ہو یا باہر ہو،
6 دشمنوں پر لعنت اور ان کو گالی امامیہ کا امتیاز ہے، یہاں تک کہ کتب عقائد، کتب فقہ اور کتب روایۃ میں بھی۔
7 امامیہ کے ہاں علوم حدیث نئے ہیں، ان کی کتابیں اہل سنت پر اعتماد کرتی ہیں،البتہ بعض مباحث ان کے اہل سنت سے الگ ہیں۔
8شیعہ کے ہاں جرح و تعدیل کی تصنیف بڑی تاخیر سے شروع ہوئی، ان کی ابتدائی کتابیں صرف فہارس پر تھیں، مقصود ان سے صرف شیعہ میں تصنیف کے وجود کا اثبات کرنا تھا،اس میں انہوں نے امامیہ کی مصنفات کا ذکر کیا، جرح و تعدیل و ذم وغیرہ کا رواج تب بہت کم تھا،یعنی نقد الرجال بہ طور مادہ نقدیہ نہ ہونے کے برابرتھا، اصطلاح جدید کے بعد بھی بہت کم لوگ اس جانب راغب ہوئے، ایک پورا گروہ اصول اربعہ کو قطعی الدلالۃ مانتا رہا اور اگر شیعی دلائل و عقائد کو سامنے رکھئے تو اخباری فریق کا موقف مضبوط نظر آتا ہے، لیکن اصولیوں میں سے بعض نے ان کتابوں کی تحقیق شروع کی، یہ لیکن بہت چھوٹے پیمانے پر شروع ہوئی، اصولیوں میں بھی ایک گروہ کتب اربعہ کو قطعی الثبوت ہی مانتا ہے ۔
پھر اس پر شیعوں کے مابین مباحث ابھی تک جاری ہیں کہ اصول جرح و تعدیل لاگو کرنے چاہئیں یا کہ نہیں، شیعہ گروپوں میں جانے والے یا ان کی مجالس میں بیٹھنے والے اس حقیقت کو جانتے ہیں۔
تاہم یہ بات خوش آئند ہے شیعہ میں ایک پورے گروہ نے جنم لیا ہے، جنہیں اصلاح پسند شیعہ یا قرآنیون وغیرہ کہا جاتا ہے اور وہ خود کو شیعان علی اور امامیہ کو شیعان صفوی کہتے ہیں، ان لوگوں نے عقیدہ امامت، عقیدہ رجعت، مہدی، تحریف قرآن، عقیدہ عصمت وغیرہ سب کا انکار کردیا ہے، ان میں سر فہرست استاذ احمد کاتب ، موسی موسوی، آیت اللہ برقعی، قلمداران وغیرہ کے نام آتے ہیں۔استاد احمد کاتب ہی نے لکھا ہے کہ
شیعی عقدی انحراف حسن عسکری کے بیٹے کی پیدائش پر شروع ہوا، اسی طرح ڈاکٹر موسی موسوی کے بقول یہ انحراف تب شروع ہوا جب اس حسن عسکری کے بیٹے کی غیبوبت کا رسمی اعلان کیا گیا۔
استاد موسی موسوی کا کہنا ہے کہ
دوسری صدی کی ابتداء میں شیعہ مکتب فکر اہل بیت کی فقہ کا نام تھا ٓ، جیسا کہ مالکیہ، شافعیہ حنبلیہ وغیرہ تھے۔
احمد کاتب کا کہنا ہے کہ شیعہ کا نام شروع ہوا ان لوگوں کے لئے جو سیدنا علی رضی اللہ کے ساتھی تھے اور امامیہ کا نام دوسری صدی میں شروع ہوا اور اثنی عشریہ کی اصطلاح چوتھی صدی میں ان پر مستعمل ہوئی جو حسن عسکری کے ہاں ایک بیٹے کی ولادت کی بات کرتے تھے۔
9شیعہ کے ہاں جرح و تعدیل کے اصول غیر منضبط ہیں، حتی کہ ایک قاعدے بارےدعوی اجماع کیا جاتا ہے اور دوسرا قاعدہ اس کے مخالف آجاتا ہے اوراس پر بھی اجماع کا دعوی ہوتا ہے۔
جیسے اس قاعدے پر اجماع کا دعوی کیا جاتا ہے کہ راوی کا مومن اور عادل ہونا ضروری ہے اس کے ساتھ ہی یہ قاعدہ بھی بنایا گیا ہے کہ اصحاب الاجماع سے وارد ہر روایت صحیح ہوتی ہے، حالاں کہ اصحاب الاجماع میں بعض غیر امامی بھی ہیں اور شیعہ کے غیر امامی مومن نہیں ہوسکتا۔
اسی طرح توثیقات عامہ میں اختلاف ہے، معین کتاب کے راویوں کی توثیق پر اجماع بیان کرنا پھر اسی میں ایسے راوی کا آجانا کہ جس کی تکذیب پر ان کے علماء کا اجماع ہوتا ہے، یہ ان کے بہت عام ہے۔
توثیقات عامہ کا اصول، خاص جگہوں کے افراد کی توثیقات کا اصول، یا معین صفات والے افراد کی توثیق کا اصول، اس پہ طرہ یہ ہے کہ مذکورہ تمام قواعد شیعہ علمائے درایہ کے بیان کردہ صریح قواعد کے مخالف ہیں۔
بقول ڈاکٹر خالد ذویبی بعض متاخر شیعہ انہیں وجوہات کی بنیاد پر ایسے قواعد کو رد بھی کرتے ہیں۔
10شیعہ لوگ کتب درایۃ اور کتب اصول میں راوی کی شرائط بارے شدید اضطراب کے شکار ہوگئے ہیں،خاص طور ہر عدالت اور ایمان کی شرائط میں،حالاں کہ ان دو شرائط پر ہی اصول حدیث قائم ہیں۔
11چوں کہ ابتدائی شیعہ میں تطبیق قواعد فی الراوی والمروی کا اہتمام ہی نہیں تھا، اس لئے اہل سنت کا ان سے استفادہ کرنے کا امکان ہی ختم ہوجاتا ہے،البتہ ذہبی و ابن حجر وغیرہ راوی کو شیعہ بتانے واسطے طوسی وغیرہ سے نقل کرتے ہیں۔
ان کے لوگوں نے البتہ جگہ جگہ اہل سنت اصول کی کاپی کی ہے۔
12اہل سنت کی مخالفت شیعہ کے ہاں اتفاقی قاعدہ ہے،ان کے متقدمین متاخرین، اخباریوں اور اصولیوں سب کو اس سے اتفاق ہے،جس کو اہل سنت صحیح کہیں وہ ضعیف ہے اور جس کو ضعیف کہیں وہ صحیح، کیوں کہ ہدایت عامہ کی مخالفت میں ہے۔
یہاں ایک تحقیقی زاویے کی جانب توجہ کا ہینڈل موڑنا چاہوں گا کہ شیعہ نے کئی عقائد اہل سنت روایات کی بنا پر گھڑ لئے ہیں، ان کی اپنی کتابوں میں وہ روایت ان کے نزدیک ضعیف سند سے وارد ہوتی ہے اور اہل سنت کی کتابوں میں اس کی سند صحیح ہوتی ہے تو یہ لوگ اس کی بنیاد پر عقیدہ یا عمل کی بنیاد رکھ لیتے ہیں، مثلا حدیث قرطاس کو شیعہ حضرات سیدنا عمر رضی اللہ عنہ پہ طعن کا سبب قرار دیتے ہیں، لیکن جب تحقیق کیجئے تو شیعہ کی کتابوں میں اس کی صحیح سند موجود ہی نہیں اور اہل سنت میں اس کی صحیح سند موجود ہے، تب ہم ان سے کہہ سکتے ہیں کہ یا تو حدیث قرطاس کی کوئی صحیح سند شیعہ اصول سے پیش کیجئے یا اپنا عقیدہ ختم کیجئے۔
اس طرح کی اور بھی کئی مثالیں موجود ہیں اور کئی مل جائیں گی، اہل سنت محققین کو اس زاویہ نگاہ سے بھی تحقیق کرنی چاہئے۔
13صحابہ کے بارے میں شیعہ کئی مکاتیب فکر ہیں، بعض تو سب صحابہ کو کافر و مرتد ہی جانتے ہیں اور بعض صرف ان صحابہ کو عادل مانتے ہیں، جو سیدنا علی رضی اللہ کے ساتھ تھے یا سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھے، باقی سب صحابہ کو یہ لوگ غیر عادل مانتے ہیں۔
14ان کے ہاں روایت کی سند کسی امام پر جا رکتی ہے، بہت کم رسول اللہ ﷺ تک جاتی ہے، کبھی تو وہ بھی منقطع ہوتی،امام صادق نبی کریم ﷺ سے بیان کرتے ہیں،اکثر روایات ا ن کی امام جعفر پہ جا رکتی ہیں۔
15 ادلہ شرعیہ ان کے ہاں، اجماع ، عقل،قرآن اور اخبار ہیں، لیکن اعتماد صرف اخبا رپر ہے،اخبار ان کے ہاں قرآن سے اہم ہیں۔
16یہ بھی زیر غور رہے کہ امامیہ کے ہاں علم درایۃ کے معاصر دراسہ جات اقوال قدماء سے لئے ہوئے نہیں ہیں۔
17 اصول اربعہ کے مصنفین نے راوی یا روایت اپنی کتاب میں لاتے وقت کوئی قاعدہ ملحوظ نہیں رکھا ہے، اور حیرت یہ ہے کہ ان سب نے اپنی روایتوں پر صحت کا حکم بھی لگایا ہے۔
اس پر بحث آگے بڑھائی جاسکتی ہے کہ شیعہ کے ہاں ایک یا دو بندوں کی توثیق کافی ہوتی ہے کسی راوی کو صحیح کہنے واسطے، تس پہ یہ سوال اٹھایا جاسکتا کہ اصول اربعہ کے جن راویوں کی روایات یہ لوگ مجہول کہہ کر ٹھکر ادیتے ہیں، وہ توثیق ضمنی کے قاعدے سے ثقہ کیوں قرار نہیں پاتیں؟
اس پر یہ جوا ب دیا جاسکتا ہے کہ وہ لوگ صرف راوی کی توثیق دیکھ کر اس حدیث کو صحیح نہیں کہتے تھے بلکہ وہ روایت انہوں نے ان چار سو اصولوں سے لی ہوتی تھی جن کی صحت پر امامیہ کا اجماع ہے تو اس پر یہ سوال اٹھے گا کہ اگر وہ روایت اصولوں سے لی ہوئی ہے تو ان کو ضعیف کہنا ہی غلط ہے، یا تو چار سوا صولوں کی صحت پر اجماع غلط ہے یا یہ روایت صحیح ہے۔
محققین اہل سنت کو اس زاویہ نگاہ پر بھی کچھ سوچنا چاہئے کہ شیعہ کے ہاں وہ راوی ضعیف ہوتا ہے جو کثرت سے ضعیف و مجہول لوگوں سے روایت کرتا ہو، توجدید اصطلاح کے مطابق اصول اربعہ کے مصنفین نے سینکڑوں مجہولین سے روایات لائی ہیں، کیا وہ ضعیف قرار نہ پائیں گے؟
اس پر مزید کام کو آگے بڑھانا چاہئے، اللہ ہمارا حامی و ناصر ہو
یہ پچھلے چند دن کے مطالعہ کے نتائج آپ کے سامنے رکھ دئیے ہیں، ممکن کہ میرے نکالے ہوئے کچھ نتائج کمزور ہوں، کچھ سوالا ت بے وزن ہوں، کیوں کہ یہ مطالعہ کی ابتداء ہے اور اٹھائے ہوئے سوال نئے ہیں، اس لئے ان پر مزید تحقیق کیجئے تاکہ جدید نسل کے ذہن سے تشکیک کے سنپولئے نکالے جاسکیں اور مسلک اہل سنت کی حقانیت کو تحقیقی بنیادوں پر ثابت کیا جاسکے۔