• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

صحت اور دواء سے متعلق سوال

sknizamudin

مبتدی
شمولیت
مارچ 03، 2018
پیغامات
10
ری ایکشن اسکور
0
پوائنٹ
8
میڈیکل ٹیسٹ میں میرے خون میں کمی اور دیگر بیماریاں ہے اللہ کی ذات پر یقین رکھتا ہوں
اس لیے میں اپنا علاج نہیں کروایا کیا میں سہی ہوں؟

Sent from my Redmi Note 4 using Tapatalk
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
علاج کروانا سنت سے ثابت ہے

شفاء کے حصول کے لئے اسباب اختیار کرنا ضروری ہے البتہ وہ مالک بغیر اسباب کے بھی شفا دینے پر قادر ہے ، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ حسنہ سے بھی علاج کی ترغیب ملتی ہے آپ نے دوا استعمال کرنے کا حکم دیتے ہوئے فرمایا !
عن اسامة بن شريك، قال:‏‏‏‏ قالت الاعراب:‏‏‏‏ يا رسول الله، ‏‏‏‏‏‏الا نتداوى؟ قال:‏‏‏‏ " نعم يا عباد الله، ‏‏‏‏‏‏تداووا، ‏‏‏‏‏‏فإن الله لم يضع داء إلا وضع له شفاء، ‏‏‏‏‏‏او قال:‏‏‏‏ دواء، ‏‏‏‏‏‏إلا داء واحدا، ‏‏‏‏‏‏قالوا:‏‏‏‏ يا رسول الله، ‏‏‏‏‏‏وما هو؟ قال:‏‏‏‏ الهرم "، ‏‏‏‏‏‏قال ابو عيسى:‏‏‏‏ وفي الباب عن ابن مسعود، ‏‏‏‏‏‏وابي هريرة، ‏‏‏‏‏‏وابي خزامة، ‏‏‏‏‏‏عن ابيه، ‏‏‏‏‏‏وابن عباس، ‏‏‏‏‏‏وهذا حديث حسن صحيح.
اسامہ بن شریک رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ اعرابیوں (بدوؤں) نے پوچھا: اللہ کے رسول! کیا ہم (بیماریوں کا) علاج کریں؟ آپ نے فرمایا: ”ہاں، اللہ کے بندو! علاج کرو، اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے جو بیماری پیدا کی ہے اس کی دوا بھی ضرور پیدا کی ہے، سوائے ایک بیماری کے“، لوگوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! وہ کون سی بیماری ہے؟ آپ نے فرمایا: ”بڑھاپا“ ۱؎۔
امام ترمذیؒ کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں ابن مسعود، ابوہریرہ، «ابو خزامہ عن أبیہ»، اور ابن عباس رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

سنن الترمذی 2038، سنن ابی داود/ الطب ۱ (۳۸۵۵)، سنن ابن ماجہ/الطب ۱ (۳۴۳۶) (تحفة الأشراف: ۱۲۷) (صحیح)

***** ******

علاج و معالجہ پسندیدہ عمل ہے!

صحیح مسلم میں ہے کہ حضرت رسول کریمﷺ نے فرمایا :
«لكل داء دواء فإذا أصيب دواء الداء برأ بـإذن الله عزّوجلّ»صحیح مسلم:۵۷۴۱؛ سنن النسائی الکبریٰ:۷۵۵۶
''ہر بیماری کی دوا ہے۔ جب بیماری کو اس کی اصل دوامیسر ہوجائے تو انسان عزوجل کے حکم سےشفایاب ہوجاتا ہے۔''

صحیح بخاری میں ہے کہ حضرت رسول اللّٰہﷺ نے فرمایا:
«ما أنزل الله دآء إلا أنزل له شفاء»صحیح بخاری:۵۶۷۸؛مسند احمد:۳۵۷۸

''اللّٰہ تعالیٰ نے کوئی ایسی بیماری نازل نہیں کی جس کی شفا نازل نہ کی ہو۔''
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

امام ابن تیمیہ فرماتے ہیں کہ
فإن الناس قد تنازعوا في التداوي هل هو مباح أو مستحب أو واجب؟ . والتحقيق: أن منه ما هو محرم ومنه ما هو مكروه ومنه ما هو مباح؛ ومنه ما هو مستحب وقد يكون منه ما هو واجب وهو: ما يعلم أنه يحصل به بقاء النفس لا بغيره كما يجب أكل الميتة عند الضرورة فإنه واجب عند الأئمة الأربعة وجمهور العلماء.
ترجمہ :
''اہل علم نے اس باب میں اختلاف کیا ہے کہ علاج معالجہ مباح ہے؟ مستحب یا واجب؟ اور تحقیق یہ ہے کہ کچھ چیزوں سے علاج معالجہ حرام ہے اور کچھ سے مکروہ اور کچھ سے مستحب ہے اور پھر بعض صورتوں میں علاج معالجہ واجب ہے اور یہ اس صورت میں جب یقین ہوجائے کہ اس کے بغیر زندہ رہنا ممکن نہیں مثلاً اضطراری حالت میں مُردار کا کھا لینا واجب ہے، کیونکہ ایسی صورتِ حال میں ائمہ اربعہ اور جمہور علما کے نزدیک ایسا کرنا واجب ہے۔'

امام شاطبی  (م۷۹۰ھ) اپنی کتاب 'الموافقات فی اُصول الشریعۃ' میں فرماتے ہیں :
"وقد تكون المشقة الداخلة على المكلف من خارج، لا بسببه، ولا بسبب دخوله في عمل تنشأ عنه، فههنا ليس للشارع قصد في بقاء ذلك الألم وتلك المشقة والصبر عليها، كما أنه ليس له قصد في التسبب في إدخالها على النفس، غير أن المؤذيات والمؤلمات خلقها الله تعالى ابتلاء للعباد وتمحيصا2، وسلطها عليهم كيف شاء ولما شاء: {لا يسأل عما يفعل وهم يسألون} [الأنبياء: 23] ، وفهم من مجموع الشريعة الإذن في دفعها على الإطلاق رفعا3 للمشقة اللاحقة، وحفظا على الحظوظ التي أذن لهم فيها،۔۔۔۔۔
''بسا اوقات انسان پر وارد ہونے والی مشقّت بیرون سے ہوتی ہے، اس میں نہ تو انسان کا کوئی دخل ہوتا ہے اور نہ وہ انسان کے کسی معاملے میں داخل ہونے کے سبب سے وارد ہوتی ہے۔ ایسی صورت حال میں شارع کا مقصد یہ نہیں ہے کہ انسان پر یہ مشقت طاری رہے اور وہ اس کی بنا پر رنج واَلم پر صبر کرتا رہے اور نہ ہی شارع کا یہ مقصد ہے کہ انسان کسی مشقت کو اپنی جان پر وارد کرنے کے لئے کوئی سبب اختیار کرے، البتہ یہ بات ضرور ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو آزمانے اور ان کے ایمان کو خالص کرنے کے لئے موذی اور مؤلِم چیزوں کو پیدا کیا ہے اور اُنہیں اپنے بندوں پر اپنی مشیّت کے موافق مسلط کیا ہے... الخ''

(الموافقات ،کتاب الاحکام و العلۃ:1،260،دار المعرفۃ، بیروت )
 
Last edited:
Top