• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

(39)فقہ السیرۃ النبویہ Fiqh Us Seerat Un Nabavia(( تربیت و قیادت سازی اور اسلامی تصور))

شمولیت
نومبر 14، 2018
پیغامات
305
ری ایکشن اسکور
48
پوائنٹ
79
فقہ السیرۃ النبویہ: سیرت طیبہ سے فکری ، دعوتی ، تربیتی ، تنظیمی اور سیاسی رہنمائی

(( حافظ محمد فیاض الیاس الأثری ، ریسرچ فیلو: دارالمعارف لاہور ))

تربیت و قیادت سازی اور اسلامی تصور:

(1) افراد سے معاشرہ اور معاشرے سے ریاست تشکیل پاتی ہے۔ تربیت افراد، اصلاح معاشرہ اور تشکیل ریاست کے بارے میں اسلام نے مثالی ہدایات دی ہیں۔ سماج اور ریاست کی بہتری کے لیے افراد کی مثالی اسلامی تعلیم و تربیت ناگزیر ہے۔

(2) بہترین افراد سازی اور شاندار قیادت سازی کے لیے بنیادی طور پر تین امور بہت اہمیت کے حامل ہیں: جسمانی و ذہنی تربیت، اخلاقی تعلیم و تربیت اور فکری و روحانی تعلیم و تربیت۔

(3) فکری، جسمانی اور اخلاقی تربیت و پرورش کے بغیر مثالی قیادت سازی ناممکن ہے۔ فکری و روحانی تعلیم و تربیت سب سے اہم ہے۔ روحانی تربیت سے مقصود ہے باطن کی طہارت و تزکیہ، فکر و سوچ کی اصلاح، قلوب واذہان کی بہتری، افکار و نظریات کی درستی اور عقائد و ایمانیات کی آبیاری۔

(4) روحانی و فکری امور کو اعمال قلوب سے بھی تعبیر کیا جاتا ہے۔ تمام طرح کی تربیت و اصلاح اور اعمال کی قبولیت کا دار و مدار فکر و عقیدے پر ہے۔ اسی لیے اسلام میں عقائد وایمانیات پر سب سے زیادہ زور دیا گیا ہے۔

(5) عہد مکی میں اہل اسلام کی تربیت و اصلاح کے لیے جو قرآن کریم نازل ہوا۔ اس میں بھی ظاہری اور حسی طہارت کے بجائے، زیادہ توجہ تزکیہ نفس اور اصلاح باطن پر دی گئی۔

(6) رب تعالیٰ کی ذات و اختیار پر کامل ایمان، حساب و کتاب پر ایمان، حشر نشر پر ایمان، کتابوں اور فرشتوں پر ایمان، جنت اور جہنم پر ایمان۔ ان تمام امور کا تعلق فکری و رحانی تربیت و پرورش سے ہی ہے۔

(7) عقائد و ایمانیات پر شعوری اور مضبوط اعتقاد سے احساس ذمہ داری، تقویٰ و للہیت، اخلاص، زہد و ورع، قناعت پسندی، خدا ترسی، صبر و رضا، شکر و حمیت اور خشوع و توکل جیسے جذبات پروان چڑھتے ہیں۔ ان اوصاف و کمالات کا حامل مسلمان یقینا معاشرے کا بہتر فرد ثابت ہوتا ہے۔ ارکان ایمان اور ارکان اسلام میں بھی روحانی پہلو ہی غالب ہے۔

(8) فکری اور روحانی تربیت کے ساتھ ساتھ جسمانی اور بدنی تربیت و پرورش بھی ناگزیر ہے۔ اس حوالے سے بھی اسلام کی تعلیمات یگانہ اہمیت کی حامل ہیں۔ دوران حمل و رضاعت والدہ کی خوراک، بچے کی خوراک و رضاعت، بچوں کی کھیل کود ، رہائش اور آب و ہوا، تعلیمی ادارے اور تربیتی مراکز۔ ان سب کا بچوں کی جسمانی نشوو نما سے بہت گہرا تعلق ہے۔

(9) اسلامی ہدایات کے مطابق حلال و حرام کی تمیز اور عبادات کی بجا آوری کے بھی ذہنی تربیت اور بدنی نشوونما پر مثالی مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں۔

(10) بدنی اور روحانی تربیت کے ساتھ ساتھ اسلامی اخلاق و آداب کی تعلیم و تعمیل بھی انتہائی ضروری ہے۔ اخلاق حسنہ، صرف چند عادات و اطوار ہی نام ہے ۔بلکہ حسن اخلاق و آداب تمام معاملات زندگی کو محیط ہے۔

(11) اخلاق حسنہ میں رب تعالیٰ سے مثالی تعلق، والدین کی عزت و تکریم، اساتذہ اور عزیز و اقارب سے اچھا رویہ اور دیگر افراد معاشرہ سے بہتر برتاؤ بھی شامل ہے۔

(12) روحانی، جسمانی اور اخلاقی تعلیم و تربیت کی صورت میں ہی مثالی افراد سازی اور قیادت سازی ہو پاتی ہے۔ بچوں کی مثالی اسلامی تعلیم و تربیت کے لیے ان تینوں پہلوؤں پر بھرپور توجہ دینا انتہائی ناگزیر ہے ، بصورت دیگر مقصود کا حصول ناممکن ہے،

(13) مثالی قائد و مربی کا حلم و بردباری، رفق و نرمی، صدق و امانتداری، عفو و درگزر سے متصف ہونا ضروری ہے۔ اسی طرح کامیاب قائد و رہبر کے لیے نفسیات شناسی، قوت فیصلہ، اصول پسندی، مستقل مزاجی، منصوبہ سازی اور عصر حاضر کا گہرا فہم و شعور بھی ناگزیر ہے۔

(14) قرون اولیٰ کے مسلم قائدین اور مصلحین قوم وملت تمام طرح کے قائدانہ اور مربیانہ اوصاف وکمالات سے بدرجہ اتم متصف تھے۔
 
Top