تکفیر کا منفی پہلو
اسلامی تاریخ میں موقع بہ موقع تکفیر کا منفی استعمال بھی سامنے آتا رہا اور قرآن و سنت اور اجماع امت سے مستغنی ہوکر اپنے خود تراشیدہ اور خانہ ساز اصولوں کی روشنی میں افراد ملت کو کافر ٹھہرایا جاتا رہا ہے، جس میں تکفیر کے ضابطوں کی کوئی پروا نہ کی گئی اور صرف معاندت اور اختلافِ رائے کی وجہ سے مدمقابل کی تکفیر کا گناہ سر لیا گیا۔ ان تکفیری گروہوں میں اباضیہ اور خوارج سرفہرست ہیں، جنہوں نے حضرت علی، حضرت عثمان، حضرت معاویہ اور حضرت عمر بن عاص کی لاحاصل تکفیر کی۔ انھی تکفیری فرقوں میں اہل تشیع (شیعہ) بھی شامل ہیں، جن کے منہج میں ابوبکر، حضرت عمر اور دیگر صحابہ کرام کی تکفیر شامل ہے اور تمام اہل سنت مسلمانوں کی تکفیر ان کا وطیرہ رہا ہے۔ اسی لیے یہ گروہ ہمیشہ سے ان کافروں کی اعانت میں سرگرم رہا ہے، جو اہل سنت مسلمانوں پر ظلم و ستم کی مذموم مثالیں قائم کرتے رہے ہیں۔
مثال کے طور پر اسی تکفیری ٹولے نے مسلمانوں کے خلاف چنگیز خاں تاتاری بادشاہ اور اس کے پوتے ہلاکو خاں کا بھرپور ساتھ دیا۔ تکفیر کے حوالے سے علی اسماعیل اور مصطفی شکری مصری کی جماعت المسلمین، جسے ’جماعۃ التکفیر والھجرۃ‘ کا قرار واقعی نام دیا گیا اور مسعود بی ایس سی کراچی کی جماعت المسلمین بھی خوارج کی ہم رکاب ثابت ہوئی ہیں، جنھوں نے عمومی طور پر اپنے سوا تمام مسلمان معاشروں کی تکفیرِ نامقبول کی ہے۔ برصغیر میں بے حد غیر متوازن تکفیری فکر پیش کرنے والے جناب احمد رضا خان بریلوی اور ان کی جماعت خاص طور پر قابل ذکر ہے۔ انہوں نے نہ صرف دیوبندی اور اہل حدیث اربابِ علم و دانش کی وسیع پیمانے پر تکفیر کی، بلکہ اپنے ہی مکتب ِ خیال سے تعلقِ عقیدت رکھنے والے بریلوی اہل علم کی تکفیر میں بھی کسی تامل کا مظاہرہ نہیں کیا۔ چنانچہ عبدالباری لکھنوی، پیر محمد کرم شاہ ازہری اور ڈاکٹرطاہر القادری ایسے بریلوی رہنماؤں کی تکفیر کر ڈالی گئی۔ اس جماعت کے لاابالی پن اور علمی بے بضاعتی کا مرثیہ پڑھتے ہوئے ظفر علی خاں مرحوم کہتے ہیں ؎
مشغلہ ان کا ہے تکفیر مسلمانانِ ہند
ہے وہ کافر جس کو ہو ان سے ذرا اختلاف
جب سے پھوٹی ہے بریلی سے کرن تکفیر کی
دید کے قابل ہے اس کا انعاس و انعطاف
مخالفوں کی تکفیر میں جماعت بریلویہ کے قائد احمد رضا خان اور دیگر اکابر اتنے حریص تھے کہ ہم عصر اہل علم و فضل کے ساتھ ساتھ امام ابن تیمیہ اور امام ابن حزم ایسے اسلافِ امت اور قابل نمونہ شخصیات کی تکفیر بھی اُن کا مطمح نگاہ ٹھہری۔ اور تو اور شاعر مشرق جناب علامہ اقبال، امام الہند جناب ابوالکلام آزاد اور بانی پاکستان محمد علی جناح بھی بریلوی مکتب ِفکر کے تکفیری فتووں سے محفوظ نہ رہ سکے۔ اس سلسلہ میں امام العصر علامہ احسان الٰہی ظہیر شہید کی کتاب ’البریلویۃ‘
(اردو ترجمہ: بریلویت تاریخ و عقاید ) کا مطالعہ مفید رہے گا، جس میں بہ حوالہ ان بیسیوں اساطین علم و فضل اور سماجی شخصیات کی تفصیل موجود ہے جن کی تکفیر بریلوی اکابر کی طرف سے کی گئی ہے۔
تاسف آمیز امر یہ ہے کہ عصر حاضر میں تحریک طالبان پاکستان کے دیوبندی و حنفی عناصر اور عالمی جہاد سے اپنی نسبت و عقیدت بتانے والے کم علم شوریدہ سر نوجوان بھی تکفیر کے حوالے سے غیر معمولی مغالطوں کا شکار ہیں اور گفت و شنید کے نتیجے میں ظلم کی حد تک عدل و انصاف سے تہی دامن ثابت ہوئے ہیں۔ یہ حضرات متعین طور پر مسلمان حکمرانوں اور افواجِ پاکستان کی تکفیر کرتے ہیں۔ جب ان سے اکابر سلفی علماء کے فتووں کے متعلق استفسار کیا جاتا ہے تو ان کی زنبیل سے علما کی مطلق (غیر معین) عبارتوں کے علاوہ کچھ نہیں نکلتا اور جب ان سے ضوابط ِتکفیر کے سلسلے میں دلیل و برہان طلب کی جاتی ہے تو ان کی قبائے علم و فضل پر مایوسی کے چھینٹے پڑے ہوئے صاف دکھائی دیتے ہیں اورقیل و قال اور لیت و لعل کے گرداب میں پھنستے چلے جاتے ہیں۔ ہماری رائے میں مسلمان حکمران اور افواج پاکستان ہرگز کافر نہیں ہیں اور نہ ہم ان کی تکفیر کے اُس اسلوب کو جائز خیال کرتے ہیں، جس کی بنیادیں بے ضابطگی، علمائے حق سے اختلاف اور لاعلمی پر استوار ہوں۔
عسکری طائفوں اور اصحاب بست و کشاد یا کسی بھی مسلمان کو کافر قرار دینا، انتہائی نازک معاملہ ہے جس میں ہمارے نزدیک دو باتوں کا لحاظ رکھنا از حد ضروری اور تقاضاے دین و شریعت ہے:
٭ تکفیر معین کے ضوابط (شرائط کا وقوع اور موانع کی عدم موجودگی)
٭ اکابر سلفی علما سے استفتا اور ان کی متفقہ آراء کے مطابق فکر و نظر کے زاویوں کی درستی
جب تک مذکورہ امور طے نہیں پاتے داعیانِ دین و مذہب حسب موقع صرف یہ بیان کریں کہ فلاں عمل کفر و شرک کی سرحدوں تک لے جانے والا ہے اور فلاں عمل کا مرتکب مشرک و کافر کے درجے میں پہنچ جاتا ہے اور اس میں بھی علمائے دین کی تاویلات و تشریحات کو برسرِ نگاہ رکھا جائے۔