• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مسئلہ تکفیر از سید محمد علی

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
مسئلہ تکفیر

سید محمد علی​
کفر اور اسلام دراصل انسان کا ذاتی معاملہ ہے۔ یہ نجی بھی ہوتا اگر انسان کی طرزِ بودوباش تجردو عزلت پر مبنی ہوتی اور وہ خود معاشرت کی اجتماعی قدروں سے آزاد ہوتا۔ لیکن صورتِ واقعہ اِس سے بہت کچھ مختلف ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ معاشرہ، باہمی میل جول اور ریاست و قانون ابتدائے آفرینش ہی سے انسانی زندگی کا جز و لاینفک رہے ہیں اور یہ امر بھی ناقابل تردید ہے کہ اہل اسلام کے باہمی رویوں اور اہل کفر کے ساتھ برتاؤ میں ایک غیر معمولی فرق پایا جاتا ہے۔ چنانچہ ریاست و اقتدار اگر اہل اسلام کے تصرف میں ہے تو غیر مسلم خواہ وہ کسی مذہب کا پیروکار ہو، ریاست اُسے ذمی یا معاہد کا درجہ دیتے ہوئے اُس کے استحقاقات اور معاملات کو مخصوص دائروں میں محدود رکھتی ہے، جبکہ مسلمان کو اس ریاست کا اصل باشندہ سمجھا جاتا ہے اور وہ نسبتاً وسیع تر اختیارات و تعاملات کا مستحق ٹھہرایا گیا ہوتا ہے، لہٰذا مسلمان معاشروں میں اہل علم و تحقیق اور اہل منصب و اقتدار پر دین یہ پابندی عائد کرتا ہے کہ ریاستی اور معاشرتی سطح پر مسلمان اور کافر کا تعین کیا جائے۔ خیال رکھا جائے کہ ایک مسلمان کب کافر ہوگیا ہے اور کس آن میں ایک کافر دائرہ اسلام میں داخل ہوکر مسلمان کی حیثیت اختیار کرچکا ہے۔ تاکہ دیگر مسلمانانِ ریاست اپنے رویوں میں اور قانونِ ریاست اپنے اطلاقات میں حسب ضابطہ تبدیلی لاسکیں۔ ظاہر ہے کہ اسلام سے نکل جانے والے مرتد سے استتابہ اور سزائے موت ایسے قوانین پر عمل درآمدہوگا۔ یا پھر جب تک ریاست کا فیصلہ کسی بھی وجہ سے موقوف رہتا ہے، دیگر مسلمان لین دین، رشتہ و تعلق اور اعتماد و بھروسہ کے حوالے سے محتاط رہیں گے اور مرتد و کافر سے وہی برتاؤ روا رکھیں گے، جس کی تعلیم و ثایق شریعت میں دی گئی ہے۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
تکفیر کا معنی و مفہوم
اس اجمالی تمہید کو سمجھ لینے کے بعد تکفیر کامعنی و مفہوم اور مقاصد آپ سے آپ قابل فہم ہو جاتے ہیں۔ چنانچہ تکفیر کا مطلب کسی بھی شخص کو کافر بنانا نہیں ہے، بلکہ اُس کی نظریاتی حالت کو ریاست اور معاشرے کے روبہ رو واضح کرنا ہے۔ تکفیر کا مقصد دیگر مسلمانوں کو آگاہ کرنا اور اہل حل و عقد کو مرتد کے حوالے سے شریعت مطہرہ کے قانون کی طرف متوجہ کرنا ہے۔ یہاں یہ امر بھی قابل توجہ ہے کہ جب تکفیر کا عمل معاشرتی اور ریاستی مقاصد کا حامل ہے تو یہ عمل بہ جائے خود انفرادی کیسے ہوسکتا ہے؟ اسے بھی اجتماعی ہی ہونا چاہیے۔ اسی لیے علمائے دین نے یہ ضابطہ طے کیا ہے کہ وہی تکفیر معتبر سمجھی جائے گی جو اربابِ علم و دانش کی متفقہ آراء اور اجماعی فیصلوں سے وجود میں آنے والی ہو۔ یہ اور بات ہے کہ اس تکفیری عمل کا آغاز ایک آدھ عالم دین کے توجہ دلانے پر ہی ہوا ہو (جیسا کہ قادیانیوں کی تکفیر کا آغاز اہل حدیث عالم دین، شیخ الحدیث میاں نذیر حسین محدث دہلوی رح کے فتویٰ سے ہوا) لیکن جب تک کسی فرد و جماعت کی تکفیر میں ریاست و معاشرہ کے صحیح العقیدہ علمائے دین ومذہب کو شامل نہ کیا گیا ہو، وہ تکفیر نہ صرف یہ کہ غیر معتبر، بلکہ بسا اوقات سخت ضرر رساں اور انتشار و افتراق کا باعث ہوگی۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
تکفیر کا مثبت پہلو
سطورِ بالا میں تکفیر کے جس تصور کی وضاحت اور مقاصد کی نشاندہی کی گئی ہے، یہ تکفیر کا مثبت پہلو اور یکے از احکامِ شریعت ہے۔ ماضی میں سلف صالحین اور اہل علم و تحقیق تکفیر کے اس ناگزیر عمل کو ضابطوں کی روشنی میں استعمال کرتے رہے ہیں، چناں چہ امام ابن تیمیہ﷫، امام ابن قیم﷫ اور مذاہب اربعہ سے نسبت علم رکھنے والے اہل علم نے ابن سینا اور فارابی کی خلاف اسلام فلسفیانہ عقائد و آراء کی بنا پر تکفیر کی ہے۔ اسی طرح پچاس سے متجاوز اربابِ علم نے إمام الصوفیاء محی الدین ابن عربی کی تکفیر کی ہے، ان علما کے اسمائے گرامی شیخ احمد الشنقیطی نے اپنی کتاب ’بلوغ غایة الامانی فی الرد علی مفتاح التیجانی‘ میں ذکر کیے ہیں۔ امام ابن تیمیہ﷫ نے عفیف الدین سلیمان بن علی التلمسانی صوفی شاعر کی بھی تکفیر کی ہے۔ اسی طرح کئی علمائے سلف نے فاطمی اور عبیدی حکمرانوں کی تکفیر فرمائی ہے۔ ماضی قریب میں سعودی اکابر اہل علم کی ایک جماعت کی طرف سے لیبیا کے سابق صدر معمر قذافی کی تکفیر کی گئی۔ اسی طرح دیدہ ور اور بالغ نظر علما نے آغا خانی اور نصیری فرقوں کو بھی کافر ٹھہرایا ہے۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
تکفیر کا منفی پہلو
اسلامی تاریخ میں موقع بہ موقع تکفیر کا منفی استعمال بھی سامنے آتا رہا اور قرآن و سنت اور اجماع امت سے مستغنی ہوکر اپنے خود تراشیدہ اور خانہ ساز اصولوں کی روشنی میں افراد ملت کو کافر ٹھہرایا جاتا رہا ہے، جس میں تکفیر کے ضابطوں کی کوئی پروا نہ کی گئی اور صرف معاندت اور اختلافِ رائے کی وجہ سے مدمقابل کی تکفیر کا گناہ سر لیا گیا۔ ان تکفیری گروہوں میں اباضیہ اور خوارج سرفہرست ہیں، جنہوں نے حضرت علی﷜، حضرت عثمان﷜، حضرت معاویہ﷜ اور حضرت عمر بن عاص﷜ کی لاحاصل تکفیر کی۔ انھی تکفیری فرقوں میں اہل تشیع (شیعہ) بھی شامل ہیں، جن کے منہج میں ابوبکر﷜، حضرت عمر﷜ اور دیگر صحابہ کرام﷢ کی تکفیر شامل ہے اور تمام اہل سنت مسلمانوں کی تکفیر ان کا وطیرہ رہا ہے۔ اسی لیے یہ گروہ ہمیشہ سے ان کافروں کی اعانت میں سرگرم رہا ہے، جو اہل سنت مسلمانوں پر ظلم و ستم کی مذموم مثالیں قائم کرتے رہے ہیں۔ مثال کے طور پر اسی تکفیری ٹولے نے مسلمانوں کے خلاف چنگیز خاں تاتاری بادشاہ اور اس کے پوتے ہلاکو خاں کا بھرپور ساتھ دیا۔ تکفیر کے حوالے سے علی اسماعیل اور مصطفی شکری مصری کی جماعت المسلمین، جسے ’جماعۃ التکفیر والھجرۃ‘ کا قرار واقعی نام دیا گیا اور مسعود بی ایس سی کراچی کی جماعت المسلمین بھی خوارج کی ہم رکاب ثابت ہوئی ہیں، جنھوں نے عمومی طور پر اپنے سوا تمام مسلمان معاشروں کی تکفیرِ نامقبول کی ہے۔ برصغیر میں بے حد غیر متوازن تکفیری فکر پیش کرنے والے جناب احمد رضا خان بریلوی اور ان کی جماعت خاص طور پر قابل ذکر ہے۔ انہوں نے نہ صرف دیوبندی اور اہل حدیث اربابِ علم و دانش کی وسیع پیمانے پر تکفیر کی، بلکہ اپنے ہی مکتب ِ خیال سے تعلقِ عقیدت رکھنے والے بریلوی اہل علم کی تکفیر میں بھی کسی تامل کا مظاہرہ نہیں کیا۔ چنانچہ عبدالباری لکھنوی، پیر محمد کرم شاہ ازہری اور ڈاکٹرطاہر القادری ایسے بریلوی رہنماؤں کی تکفیر کر ڈالی گئی۔ اس جماعت کے لاابالی پن اور علمی بے بضاعتی کا مرثیہ پڑھتے ہوئے ظفر علی خاں مرحوم کہتے ہیں ؎

مشغلہ ان کا ہے تکفیر مسلمانانِ ہند
ہے وہ کافر جس کو ہو ان سے ذرا اختلاف
جب سے پھوٹی ہے بریلی سے کرن تکفیر کی
دید کے قابل ہے اس کا انعاس و انعطاف​

مخالفوں کی تکفیر میں جماعت بریلویہ کے قائد احمد رضا خان اور دیگر اکابر اتنے حریص تھے کہ ہم عصر اہل علم و فضل کے ساتھ ساتھ امام ابن تیمیہ﷫ اور امام ابن حزم﷫ ایسے اسلافِ امت اور قابل نمونہ شخصیات کی تکفیر بھی اُن کا مطمح نگاہ ٹھہری۔ اور تو اور شاعر مشرق جناب علامہ اقبال، امام الہند جناب ابوالکلام آزاد اور بانی پاکستان محمد علی جناح بھی بریلوی مکتب ِفکر کے تکفیری فتووں سے محفوظ نہ رہ سکے۔ اس سلسلہ میں امام العصر علامہ احسان الٰہی ظہیر شہید کی کتاب ’البریلویۃ‘ (اردو ترجمہ: بریلویت تاریخ و عقاید ) کا مطالعہ مفید رہے گا، جس میں بہ حوالہ ان بیسیوں اساطین علم و فضل اور سماجی شخصیات کی تفصیل موجود ہے جن کی تکفیر بریلوی اکابر کی طرف سے کی گئی ہے۔
تاسف آمیز امر یہ ہے کہ عصر حاضر میں تحریک طالبان پاکستان کے دیوبندی و حنفی عناصر اور عالمی جہاد سے اپنی نسبت و عقیدت بتانے والے کم علم شوریدہ سر نوجوان بھی تکفیر کے حوالے سے غیر معمولی مغالطوں کا شکار ہیں اور گفت و شنید کے نتیجے میں ظلم کی حد تک عدل و انصاف سے تہی دامن ثابت ہوئے ہیں۔ یہ حضرات متعین طور پر مسلمان حکمرانوں اور افواجِ پاکستان کی تکفیر کرتے ہیں۔ جب ان سے اکابر سلفی علماء کے فتووں کے متعلق استفسار کیا جاتا ہے تو ان کی زنبیل سے علما کی مطلق (غیر معین) عبارتوں کے علاوہ کچھ نہیں نکلتا اور جب ان سے ضوابط ِتکفیر کے سلسلے میں دلیل و برہان طلب کی جاتی ہے تو ان کی قبائے علم و فضل پر مایوسی کے چھینٹے پڑے ہوئے صاف دکھائی دیتے ہیں اورقیل و قال اور لیت و لعل کے گرداب میں پھنستے چلے جاتے ہیں۔ ہماری رائے میں مسلمان حکمران اور افواج پاکستان ہرگز کافر نہیں ہیں اور نہ ہم ان کی تکفیر کے اُس اسلوب کو جائز خیال کرتے ہیں، جس کی بنیادیں بے ضابطگی، علمائے حق سے اختلاف اور لاعلمی پر استوار ہوں۔
عسکری طائفوں اور اصحاب بست و کشاد یا کسی بھی مسلمان کو کافر قرار دینا، انتہائی نازک معاملہ ہے جس میں ہمارے نزدیک دو باتوں کا لحاظ رکھنا از حد ضروری اور تقاضاے دین و شریعت ہے:
٭ تکفیر معین کے ضوابط (شرائط کا وقوع اور موانع کی عدم موجودگی)
٭ اکابر سلفی علما سے استفتا اور ان کی متفقہ آراء کے مطابق فکر و نظر کے زاویوں کی درستی
جب تک مذکورہ امور طے نہیں پاتے داعیانِ دین و مذہب حسب موقع صرف یہ بیان کریں کہ فلاں عمل کفر و شرک کی سرحدوں تک لے جانے والا ہے اور فلاں عمل کا مرتکب مشرک و کافر کے درجے میں پہنچ جاتا ہے اور اس میں بھی علمائے دین کی تاویلات و تشریحات کو برسرِ نگاہ رکھا جائے۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
تکفیر کے ضوابط
قرآن و سنت کے مطالعے سے جو کچھ مفہوم ہوتا ہے وہ یہ کہ تکفیر کے لیے دو شرطیں پوری کرنا ازبس ضروری ہے :
٭ حتمی طور پر معلوم کرلیا جائے کہ جس عقیدہ و عمل کی بنیاد پر تکفیر کا مسئلہ زیر غور ہے، وہ عقیدہ و عمل دین و شریعت میں فی الواقع کفر ہے بھی یا نہیں؟ یعنی وہ صرف ممنوعات، محرمات یا مکروہاتِ دین میں سے تو نہیں؟ کیوں کہ ہر ممنوع اور حرام نظریہ و عمل دائرہ کفر میں لے جانے والا نہیں ہوتا۔
٭ اتمام حجت کرلیا جائے، یعنی یقین و اطمینان کی حد تک ثابت ہوجائے کہ مرتکب ِکفر کو یہ معلوم تھا کہ جس فعل و عقیدہ کا وہ حامل ہے، اُسے دین میں قطعی بنیادوں پر کفر قرار دیا گیا ہے۔
ہم نے یہاں لفظ ’معلوم‘ استعمال کیا ہے، کیونکہ بعض احباب ’معلوم‘ اور ’مفہوم‘ کا علمی فرق پیش نگاہ نہیں رکھتے اور دین کے اصولی مسائل و احکام کا علم رکھنے والے مرتکب ِکفر اکبر کو اس بات کا عذر دیتے ہیں کہ اُسے اِن مسائل و احکام کا فہم تو حاصل نہیں ہے اور اِن کی ٹھیک ٹھیک حیثیت اُس کے ترازوے فہم و ادراک میں اُتری اور تلی ہوئی تو نہیں ہے!
علماے حق نے کامل جستجو اور بے حد دیانت کے ساتھ جو موقف اختیار کیا ہے وہ یہ کہ اتمام حجت سے مقصود حجت و برہان کا قیام (علم) ہے، نہ کہ مفہوم کی گہرائی تک رسائی حاصل کرنا۔ چناں چہ امام محمد بن عبدالوہاب لکھتے ہیں:
فإن کان المعین لا یکفر إلا إذا قامت علیہ الحجة فمن المعلوم أن لیس معناہ ان یفھم کلام اللہ ورسولہ مثل فھم ابی
’’جب یہ طے ہوگیا کہ معین شخص محض اُسی صورت میں کافر ٹھہرایا جائے گا، جب اُس پر حجت تمام ہو جائے تو یہ امر بھی معلوم رہنا چاہیے کہ اِس سے مراد ہرگز یہ نہیں
بکر بل إذا بلغہ کلام اللہ و رسولہ وخلا من شیٔ یعذر بہ فھو کافر کما کان الکفار کلھم تقوم علیہم الحجة بالقرآن مع قولہ تعالیٰ: وَجَعَلْنَا عَلٰی قُلُوْبِہِمْ اَکِنَّة اَنْ یَّفْقَہُوْہُ وقولہ اِنَّ شَرَّ الدَّوَآبِّ عِنْدَ اللّٰہِ الصُّمُّ الْبُکْمُ الَّذِیْنَ لاَ یَعْقِلُوْنَ (الدرر السنیۃ)
کہ وہ خدا اور رسول ﷺ کے کلام کو اُس طرح سمجھے جیسے صدیق و فاروق﷢ نے سمجھا تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ جب اِسے خدا اور پیغمبر کی بات پہنچ گئی اور کوئی عذر بھی نہ رہا تو وہ کافر ہے۔ جیسا کہ تمام کفار پر بہ ذریعہ قرآن حجت قائم ہوچکی ہے لیکن اُس کے ساتھ یہ بھی ارشاد ہے کہ ہم نے اُن کے دلوں پر پردے ڈال رکھے ہیں جن کی وجہ سے وہ اُس کو کچھ نہیں سمجھتے۔نیز فرمایا: یقینا خدا کے نزدیک بدترین قسم کے جانور وہ بہرے گونگے لوگ ہیں جو عقل سے کام نہیں لیتے۔‘‘
دوسرے مقام پر رقم طراز ہیں:
ولکن أصل الاشکال أنکم لم تفرقوا بین قیام الحجة وبین فھم الحجة فإن اکثر الکفار و المنافقین من المسلمین لم یفھموا حجة اللہ مع قیامھا علیھم کما قال تعالیٰ: اَمْ تَحْسَبُ اَنَّ اَکْثَرَہُمْ یَسْمَعُوْنَ اَوْ یَعْقِلُوْنَ اِنْ ہُمْ اِلَّا کَالْاَنْعَامِ بَلْ ہُمْ اَضَلُّ سَبِیْلًا و قیام الحجة وبلوغھا نوع وقد قامت علیھم و فھمھم إیاھا نوع آخر و کفرھم ببلوغھا إیاھم وإن لم یفھموما (الدرر السنیۃ)
’’لیکن اصل اشکال یہ ہے کہ تم نے ’قیام حجت‘اور ’فہم حجت‘ میں فرق روا نہیں رکھا، کیونکہ بہت سے کفار اور مسلمانوں میں منافق لوگ خدا کی حجت کو نہیں سمجھتے۔ درآں حالے کہ وہ ان پر قائم ہوچکی ہے، چنانچہ خدا کا فرمان ہے کہ کیا تم سمجھتے ہو کہ ان میں سے اکثر لوگ سنتے اور سمجھتے ہیں؟ یہ تو جانوروں کی طرح ہیں، بلکہ اُن سے بھی گئے گزرے۔حاصل یہ ہے کہ حجت کا قائم ہونا اور پہنچنا ایک چیز ہے جبکہ اُن پر حجت قائم ہوچکی اور یہ بالکل دوسری چیز ہے کہ وہ اُسے سمجھ لیں یعنی اُس کے پہنچنے کے بعد اُن کا کفر کرنا خواہ وہ نہ ہی سمجھے ہوں۔‘‘
اتمام حجت کی شرط عہد حاضر میں صرف اُن لوگوں کے حق میں مفید رہے گی، جنہوں نے حال ہی میں اسلام قبول کیا ہے اور ابھی تفصیلاتِ دین سے کلیۃً ناواقف ہیں یا ایسے مسلمان جو اُن غیر مسلم ریاستوں کے دور دراز خطوں میں رہنے پر مجبور ہیں، جہاں کفر و شرک کا غلغلہ تو ہے مگر توحید کی شنوائی نہ ہونے کے برابر ہے یا پھر ایسے کفریہ عمل کا مرتکب ہے، جس کا ذکر شریعت کی صریح نصوص میں نہیں ہے، مثال کے طور پر جادو کی ایک قسم ’صرف و عطف‘ ہے، اس کے مرتکب پر مکمل طور پر قیامِ حجت ضروری ہے۔
چناں چہ امام محمد بن عبدالوہاب مزید لکھتے ہیں:
ومسألہ تکفیر المعین مسئلة معروفة إذا
’’تکفیر معین کا مسئلہ، (عقیدئہ اسلامی) کے معروف
قال قولاً یکون القول بہ کفراً فیقال من قال بھذا القول فھو کافر لکن الشخص المعین إذا قال ذلک لایحکم بکفرہ حتیٰ تقوم علیہ الحجة التی یکفر تارکھا وھذا فی المسائل الخفیة التی قد یخفی دلیلھا علی بعض الناس... وأما ما یقع منھم فی المسائل الظاہرۃ الجلیلة أوما یعلم من الدین بالضرورة فھذا لا یتوقف فی کفر قائلہ. (الدرر السنیۃ)
مسائل میں سے ہے۔ یعنی کفریہ قول کے متعلق یہ کہا جاتا ہے: ’’جس نے یہ کہا وہ کافر ہے‘‘۔ لیکن جب متعین شخص کا معاملہ ہو تو اِس پر کفر کا حکم لگانے سے پہلے حجت کا قیام ضروری ہے۔ اور یہ مذکورہ شرط (قیام حجت) اُن مسائل سے متعلق ہے، جو عام طور پر لوگوں سے پوشیدہ ہوتے ہیں… اور جہاں تک اُن مسائل کی بات ہے، جن کا فہم ظاہر و باہر ہے اور وہ ضروریات دین میں شامل ہیں تو ایسے مسائل میں کفر کا حکم عائد کرنے میں کسی تامل کا مظاہرہ نہیں کیا جائے گا۔‘‘
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
تکفیر کے لیے موانع کی عدم موجودگی بھی لازم ہے۔ قرآن و سنت سے معلوم ہوتا ہے کہ تکفیر کے لیے عام طور پر تین موانع پیدا ہوجایا کرتے ہیں، خدا اور اُس کے آخری پیغمبر ﷺ نے ان موانع کی موجودگی میں کسی شخص یا جماعت کو متعین طور پر کافر کہنا ممنوع قرار دیا ہے۔
1۔ جہالت (عدم واقفیت) یہ درحقیقت اتمام حجت کی شرط عائد کیے جانے کا سبب ہے، لہٰذا اسے مباحث اتمام حجت ہی کی روشنی میں سمجھنا قرین قیاس ہے
2۔ خطا و نسیان سے کفریہ فعل کا سرزد ہوجانا بھی تکفیر کے لیے مانع ہے کیونکہ قرآن مجید میں ارشاد ہوا ہے:
وَلَیْسَ عَلَیْکُمْ جُنَاحٌ فِیْمَآ اَخْطَاْتُمْ بِہٖ (الاحزاب:5)
’’نادانستہ جو بات تم کہو، اُس کے لیے تم پر کوئی گرفت نہیں ہے۔‘‘
فرمانِ نبوی ہے:
اِنَّ اللّٰہَ وَضَعَ عَنْ اُمَّتِی الْخَطَائَ وَالنَّسْیَانَ وَمَا اسْتُکْرِھُوا عَلَیْہِ (ابن ماجہ، ابواب الطلاق، باب طلاق المکرہ والناسی: 2053)
’’بے شک اللہ نے میری اُمت سے خطا، نسیان اور حالت اکراہ میں سرزد ہونے والے اعمال کو معاف کردیا ہے۔‘‘
3۔جبر و اکراہ یعنی کفریہ قول و فعل کا مرتکب اگر مجبور و مضطر ہے اور اس کفر کے ارتکاب کے سوا کوئی چارہ کار نہیں ہے تو چند تفصیلی شرائط کے ساتھ جبر و اکراہ کی کیفیت بھی تکفیر میں مانع ہوجاتی ہے، چنانچہ قرآن مجید میں ارشاد ہوا ہے:
مَنْ کَفَرَ بِاللّٰہِ مِنْ بَعْدِ اِیْمَانِہٖٓ اِلاَّ مَنْ اُکْرِہَ وَقَلْبُہٗ مُطْمَئِنٌّ بِالْاِیْمَانِ وَلٰکِنْ مَّنْ شَرَحَ بِالْکُفْرِ صَدْرًا فَعَلَیْہِمْ غَضَبٌ مِّنَ اللّٰہِ وَلَہُمْ عَذَابٌ عَظِیْمٌ. (النحل:106)
’’جو شخص ایمان لانے کے بعد کفر کرے (وہ اگر) مجبور کیا گیا ہو اور دل اُس کا ایمان پر مطمئن ہو (تب تو خیر) مگر جس نے دل کی رضا مندی سے کفر کو قبول کرلیا اُس پر اللہ کا غضب ہے اور ایسے
سب لوگوں کے لیے بڑا عذاب ہے۔‘‘
دوسرے مقام پر ارشاد ربانی ہے:
اِلاَّ الْمُسْتَضْعَفِیْنَ مِنَ الرِّجَالِ وَالنِّسَآئِ وَالْوِلْدَانِ لاَ یَسْتَطِیْعُوْنَ حِیْلَۃً وَّلاَ یَہْتَدُوْنَ سَبِیْلاً - فَاُولٰٓئِکَ عَسَی اللّٰہُ اَنْ یَّعْفُوَ عَنْہُمْ وَکَانَ اللّٰہُ عَفُوًّا غَفُوْرًا. (النسائ:98-99)
’’مگر جو عورتیں اور بچے بے بس ہیں، جنہیں نہ تو کسی چارہ کار کی طاقت اور نہ کسی راستے کا علم ہے، بہت ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ اُن سے درگزر کرے۔ اللہ تعالیٰ درگزر کرنے والا معاف فرمانے والا ہے۔‘‘
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
تکفیر کی بنیادیں
تکفیر کی بنیاد وہ عقائد و اعمال ہیں جن کے لیے اللہ اور اُس کے رسولﷺ نے کفر، شرک، جاہلیت یا لیس منا وغیرہ کے الفاظ استعمال کیے ہیں۔ ان کی تین صورتیں ہیں:
صورت نمبر1:
ان عقائد و اعمال کے کفر اکبر ہونے پر اسلافِ اُمت اور علماے دین متفق الخیال ہوں، مثال کے طور پر دین سے استہزا، بت کو سجدہ، اللہ کے وجود پر شک رکھنا، اللہ اور اُس کے رسول کے حرام کردہ کو حلال سمجھنا، فرائض دین کا انکار، ختم نبوت کا انکار، حجیت حدیث کا انکار وغیرہ ایسے بہت سے افکار و اعمال میں اہلِ علم و دانش کفر دون کفر جیسی تاویل کی گنجائش نہیں پاتے اور اِس امر پر متفق ہیں کہ اصولِ دین میں ان کا حکم (کفرِ اکبر) قطعیت کی حد تک متعین ہے۔
صورت نمبر2:
علما ان عقائد و اعمال کی تاویل اختیار کرنے میں متفق ہوں، جیسا کہ جادو کی بعض صورتیں، اہل اسلام سے قتال اور میت پر نوحہ وغیرہ کے متعلق دیگر قراین کی بنیاد پر اربابِ فکر و نظر کی رائے یہ ہے کہ ان اعمال کو محض تاکیداً کفریہ کہا گیا ہے، درحقیقت کفر سے مراد کفر دون کفر یا کفر اصغر ہے۔
صورت نمبر3:
ان عقائد و اعمال کی تاویل اور عدم تاویل کے بارے میں اہلِ علم کے مابین اختلاف پایا جائے، مثلاً بلا عذر شرعی نماز ترک کرنے کا مسئلہ اسلامی تاریخ کے آغاز ہی سے مختلف فیہ رہا ہے۔ امام شافعی﷫ کی رائے میں تارک نماز کے لیے تاویل کا جواز ہے اور اِسے دین سے خارج نہیں سمجھا جاسکتا، جبکہ امام احمد بن حنبل﷫ نماز چھوڑنے والے کو کافر اور خارج از اسلام خیال کرتے ہیں، چنانچہ اِسی مسئلے پر استاد (امام شافعی ﷫) اور شاگرد (امام احمد بن حنبل ﷫) کے مابین ایک مکالمہ بھی رونما ہوا، جسے فقہائے عظام نے اپنی کتابوں میں درج کیا ہے، علامہ تاج الدین سبکی ’طبقات الشافعیۃ‘ میں لکھتے ہیں:
حکی ان أحمد ناظرا الشافعی فی تارک الصلاة فقال لہ الشافعی یا أحمد اتقول إنہ یکفر قال نعم قال إذا کان کافرا فبم یسلم قال یقول لا إلہ الا اللہ محمدرسول اللہ
’’حکایت ہے کہ (امام) احمد اور (امام) شافعی کے مابین تارک نماز کے متعلق مناظرہ منعقد ہوا۔ امام شافعی نے کہا: کہا آپ کی رائے یہ ہے کہ تارک نماز کافر ہے؟ امام احمد نے اثبات میں جواب دیا۔ امام شافعی نے اس پر سوال کیا کہ اگر وہ کافر ہے تو اب اسلام لانے کے لیے کیا کرے؟ امام احمد نے کہا کہ لا إلٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ کا اقرار کرے۔
ا س پر امام شافعی کہنے لگے:
قال الشافعی فالرجل مستدیم لھذا القول لم یترکہ قال یسلم بان یصلی قال صلاة الکافر لاتصح ولا یحکم بالاسلام بھا فانقطعا احمد و سکت. (طبقات الشافعیۃ الکبریٰ)
اس (کلمہ توحید) کا اقرار تو وہ پہلے سے کیے ہوئے ہے۔ تو امام احمد نے جواب دیا: تو پھر اس کے اسلام لانے کی صورت یہ ہے کہ نماز پڑھے۔ امام شافعی نے فرمایا: کافر کی نماز تو شرعاً صحیح نہیں ہوتی اور نہ ہی کافر پر اس کی نماز کی وجہ سے اسلام کا حکم عائد ہوتا ہے۔ تو امام احمد مزید کوئی جواب نہ پاتے ہوے خاموش ہوگئے۔‘‘
اسی طرح تحکیم بغیر ما انزل اللہ (قانون الٰہی کو چھوڑ کر خود ساختہ یا گزشتہ شریعتوں کے قوانین کے مطابق فیصلے کرنا) کی وہ صورت بھی علمائے دین و ملت کے مابین اختلافی ہے، جس میں ریاستی قوانین اور دستور کا منبع و ماخذ مکمل طور پر غیر شریعت ہو۔ چنانچہ ماضی قریب میں یکے از علمائے نجد امام محمد بن ابراہیم آل شیخ ’جو مدت مدید تک دیار سعودیہ کے مفتی اعظم اور قریباً 16 برس منصب قضا کے عہدے پر فائز رہے ہیں‘ نے اس سلسلے میں ’تحکیم القوانین‘ کے عنوان سے ایک کتابچہ تحریر فرمایا اور تحکیم بغیر ما انزل اللہ کو کفر اکبر قرار دیا ہے۔ جب کہ علمائے نجد ہی میں سے سابقہ قاضی و مفتیِ عام مملکت ِسعودیہ شیخ بن باز کی رائے مختلف ہے۔
مسلمانوں کے خلاف جاسوسی کے متعلق بھی اہل علم کی آرا مختلف ہیں۔ بعض دانائے دہر جاسوسی کو کفر اکبر اور ارتداد کہتے ہیں، جبکہ بعض متبحر فقہائے ملت کی راءے میں یہ کفر اصغر ہے، مگر گناہ کبیرہ کے زمرے میں داخل ہے۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
تکفیری اور مرجئہ کی اصطلاحیں
تکفیری اور مرجئہ کی اصطلاحات ایک علمی اور واقعاتی پس منظر رکھتی ہیں۔ علمائے سلف نے جن ٹولوں کے لیے خوارج اور مرجئہ ایسے الفاظ استعمال کیے ہیں، اُن کے متعدد عقائد و نظریات بے بنیاد اور مسلک اہل سنت والجماعت سے متصادم تھے۔ علمائے سلف نے بے حد احتیاط برتتے ہوے صرف انہی لوگوں کو مرجئی اور تکفیری کہا ہے جو اصولی طور پر مرجئی یا تکفیری کہلانے ہی کے مستحق تھے اور اب بھی انہی نظائر کی بنیاد پر مرجئی اور تکفیری کا فیصلہ کرنا، علم و تحقیق کی خدمت ہے اور عدل و انصاف کا تقاضا بھی۔ مگر عہد حاضر میں موجودہ صورت حال نسبتاً نیا اور غیر موزوں رخ اختیار کرچکی ہے، عام مشاہدہ ہے کہ ناقص معلومات اور کج فہمی کے باعث مدمقابل پر تکفیری یا مرجئی کے فتوے عائد کیے جاتے ہیں اور حد تو یہ ہے کہ بہت سے بے دانش صرف اپنے نقطہ نگاہ کو برسرحق ثابت کرنے کے لیے مخالفوں پر بدباطنی کا زہر اگلتے ہیں، چنانچہ ڈاکٹر طاہر القادری، جن کے بارے میں ڈاکٹر حافظ محمد زبیر کی تحقیقات الاحیاء ستمبر2011ء ہی کے صفحات پر شایع ہوچکی ہیں، نے اپنی کتاب ’دہشت گردی اور فتنہ خوارج‘ میں اہل حدیث اور سلفی احباب پر دہشت گردی کا پورا پورا اطلاق کرنے کی سعی نامشکور فرمائی ہے، باوجودیکے اہل حدیث سلفی علما (بہ طور خاص پاکستان میں) نہ توحالیہ نوعیت کے خودکش حملوں کے قائل ہیں اور نہ ہی عسکریت کی موجودہ غیر منظم اور غیر سرکاری لہر کو شرعی جواز فراہم کرکے اپنی دعوت اور منہج میں شامل سمجھتے ہیں۔اسی طرح بعض حضرات علامہ البانی ﷫ اور اُن جیسے سلفی بزرگوں کو، ایک آدھ مسئلے میں اختلاف کی وجہ سے، مرجئی کہہ دیتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ یہ رویہ کسی طور عالمانہ اور مبنی بر عدل نہیں ہے۔ اختلافی مسائل میں محقق کوئی بھی موقف اپنا سکتا ہے، تاہم مختلف رائے رکھنے والوں کے بارے میں مرجئی یا تکفیری کا حکم لگانا کسی اعتبار سے بھی قرین انصاف نہیں ہے۔
علمائے سلف کا کسی بھی شخص یا جماعت کو تکفیری یا مرجئی قرار دینا درج ذیل افکار و نظریات کی بنا پر ہوتا تھا:
  • مرتکب گناہِ کبیرہ کو کافر اور خارج از اسلام سمجھنا
  • شذوذ کی راہیں اختیار کرنا
  • علماے سلف اور عہد حاضر میں اُن کے فکر و فلسفے کی نمایندگی کرنے والوں سے بغض و عناد قایم رکھنا
  • ہر معصیت، گناہ اور معمولی انحراف پر کفر و ارتداد کا حکم چسپاں کرنا
  • کفر اصغر اور کفر اکبر کا فرق روا نہ رکھنا
اسی طرح علمائے سلف کے مطابق مرجئہ وہ ہے جس میں درج ذیل قرائن موجود ہوں:
  • عمل کو ایمان سے خارج سمجھنا
  • ایمان کو از قبیل کیف سمجھنا
  • کفریہ اعمال و عقاید سے چشم پوشی اختیار کرنا
  • اسلام کے منہاج ترھیب سے اغماض برتتے ہوئے محض ترغیب کی غیر متوازن دعوت پیش کرنا
  • کفر اصغر اور کفر اکبر کو مساوی سمجھنا
الغرض تکفیر اور ارجاء دومکمل مزاج اور طرز ہائے فکر ہیں، جن کی جھلک دعوت کے ہر متن اور منہاج کی ہر کروٹ میں دکھائی دیتی ہے۔
اگر کسی مسئلہ میں علمائے حق کا اختلاف ہے، جیسا کہ نماز، تحکیم بغیر ما انزل اللہ اور جاسوسی وغیرہ کی مثالیں دی گئیں، تو اس تناظر میں کوئی بھی رائے اپنا لینا جائز ہے اور ایسے اختلافی مسائل میں مدمقابل کو تکفیری یا مرجئی کہنا ظاہر ہے کہ علم و تحقیق کی دنیا میں ناقابل ستائش اور جہالتوں کو فروغ دینے کے مترادف ہے، کیوں کہ امام شافعی﷫ نے امام احمد﷫، جو ترک نماز کو کفر اکبر سمجھتے ہیں، کو تکفیری ہرگز قرار نہیں دیا کیوں کہ وہ تکفیری مزاج اور تکفیری فکر و عمل سے بے شبہ پاک تھے۔ اسی طرح امام احمد﷫ نے امام شافعی﷫ کو مرجئی نہیں کہا کیوں کہ وہ ارجائی اوصاف و مزاج سے مکمل طور پر بالاتر تھے۔
 
Top