• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

sahj صاحب کا آمین بالجھر سے متعلق ایک روایت پر اعتراض

شمولیت
ستمبر 06، 2013
پیغامات
44
ری ایکشن اسکور
47
پوائنٹ
20
سوال نمبر65
حافظ عبداللہ روپڑی مشہور غیر مقلد مناظر اپنی کتاب"اہل حدیث کے امتیازی مسائیل"ص76 پر لکھتے ہیں۔
ابوھریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب غیر المغضوب علیھم ولاالضالین پڑھتے تو آمین کہتے یہاں تک کہ پہلی صف میں جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک ہوتے سن لیتے ،روایت کیا اس کو ابوداؤد نے اور ابن ماجہ نے اور ابن ماجہ نے کہا پہلی صف سن لیتی یہاں تک کہ بہت آوازوں کے ملنے سے مسجد میں ہرجلہ ہوجاتا۔نیل الاوطار میں ہے اس حدیث کو دارقطنی نے بھی روایت کیا ہے اور کہا ہے کہ اس کی اسناد اچھی ہیں اور حاکم نے بھی روایت کیا ہے اور کہا ہے کہ بخاری و مسلم کی شرط پر صحیح ہے اور بیہقی نے بھی روایت کیا ہے اور اس کو حسن کہا ہے۔
شوکانی اور حافظ عبداللہ روپڑی نے اس روایت کے نقل کرنے میں تین دھوکے دئیے ہیں اور تین چھوٹ بولے ہیں۔
تین دھوکے
1
ابن ماجہ میں اس حدیث میں یہ الفاظ ہیں " فترک الناس التامین" جس سے معلوم ہوتا تھا کہ صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کا اجماع تھا کہ وہ آمین بالجہر نہیں کہتے تھے یہ فقرہ حدیث کا نقل نہیں کیا۔
2
یہ نہیں بتایا کہ اس روایت کی سند کا راوی بشیر بن رافع نہایت ضعیف ہے۔
3
یہ بھی نہیں بتایا کہ اس کی سند کا اک راوی مجہول و مستور ہے
تین جھوٹ یہ ہیں
1
دارقطنی میں سرے سے یہ ہرجلے والی حدیث ہی نہیں ہے چہ جائیکہ اس کی سند کو اچھا کہا ہو۔
2
مستدرک حاکم میں سرے سے یہ حدیث ہی نہیں چہ جائیکہ اسے بخاری و مسلم کی شرط پر صحیح کہا گیا ہو۔
3
بیہقی میں بھی سرے سے یہ حدیث ہے ہی نہیں ،چہ جائیکہ اسے حسن کہا ہو۔
تفصیلی و شافی جواب کی درخواست ہے-
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
5,001
ری ایکشن اسکور
9,806
پوائنٹ
773
1
ابن ماجہ میں اس حدیث میں یہ الفاظ ہیں " فترک الناس التامین" جس سے معلوم ہوتا تھا کہ صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کا اجماع تھا کہ وہ آمین بالجہر نہیں کہتے تھے یہ فقرہ حدیث کا نقل نہیں کیا۔
امام ابن ماجة رحمه الله (المتوفى273)نے کہا:
حدثنا محمد بن بشار قال: حدثنا صفوان بن عيسى قال: حدثنا بشر بن رافع، عن أبي عبد الله ابن عم أبي هريرة، عن أبي هريرة، قال: ترك الناس التأمين، وكان رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا قال: " {غير المغضوب عليهم ولا الضالين} [الفاتحة: ٧] ، قال: «آمين» حتى يسمعها أهل الصف الأول، فيرتج بها المسجد
صحابی رسول ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ لوگوں نے آمین کہنا چھوڑ دیا حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب {غير المغضوب عليهم ولا الضالين}کہتے تو آمین کہتے تھے یہاں تک کہ پہلی صف والے سن لیتے اور اس سے مسجد گونج جاتی۔[سنن ابن ماجه 2/ 87]

غورفرمائیں ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بعض ان لوگوں کی نکیر کررہے ہیں جو آمین نہیں کہتے تھے ۔
اورالٹا چور کوتوال کوڈانٹے والی مثال تحت معترض کہتا ہے کہ یہ جملہ چھوڑدیا جس سے پتہ چلتا ہے کہ صحابہ کا ترک آمین پر اجماع تھا ۔

بھلا اس معترض سے کوئی پیچھے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہاں صحابہ کانام لیا ہے کہ انہوں نے آمین چھوڑ دیا ۔
انہیں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے پہلی تکبیر کے وقت رفع الیدین اور دعائے ثنا ء اور نماز میں جھکنے اور اٹھنے سے متعلق بھی یہی بات کہی ہے چنانچہ:
امام أحمد بن حنبل رحمه الله (المتوفى241)نے کہا:
حدثنا محمد بن عبد الله ، حدثنا ابن أبي ذئب ، عن سعيد بن سمعان ، عن أبي هريرة ، قال : ترك الناس ثلاثة مما كان يعمل بهن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان رسول الله صلى الله عليه وسلم : إذا قام إلى الصلاة رفع يديه مدا ، ثم سكت قبل القراءة هنية يسأل الله من فضله ، فيكبر كلما خفض ورفع.
لوگوں نے تین چیزیں چھوڑ دیں جن پر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم عمل کرتے تھے ۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نمازشروع کرتے وقت دونوں ہاتھوں کولمبے اٹھا کر رفع الیدین کرتے تھے ۔ پھر قرات سے پہلے کچھ دیر خاموش رہ کر اللہ کا فضل طلب کرتے تھے ، اور جب جب جھکتے اور اٹھتے تو تکبیر کہتے تھے[مسند أحمد ط الميمنية: 2/ 500 واسنادہ صحیح]

اب کیا ان احمقوں کے اصول کی روشنی میں یہ کہاجائے کہ تکبیرتحریمہ والے رفع الیدین چھوڑنے اور دعاء ثنا نہ پڑھنے اور جھکتے اور اٹھتے وقت تکبیر نہ کہنے پر صحابہ کرام کا اجماع تھا؟
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
5,001
ری ایکشن اسکور
9,806
پوائنٹ
773
2
یہ نہیں بتایا کہ اس روایت کی سند کا راوی بشیر بن رافع نہایت ضعیف ہے۔
3
یہ بھی نہیں بتایا کہ اس کی سند کا اک راوی مجہول و مستور ہے
یہ حدیث شواہد کی روشنی میں صحیح ہے اس لئے اس سند میں کوئی عیب ہونا مضر ہی نہیں اس لئے اسے بتانے کی کیا ضرورت ہے۔

آیت الکرسی پڑھنے سے شیطان سے حفاظت ہوتی یہ بات حدیث سے ثابت ہے تو کیا یہ بتانا بھی ضروری ہے کہ یہ معلومات شیطان نے دی ہے؟
جب اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے تصدیق ہوگئی تو کہنے والا کوئی بھی ہو بات ثابت ہوگئی ۔اسی طرح جب ابن ماجہ کے اس روایت کے شواہد موجود ہیں تو یہ بات ثابت ہوگئی اب اس سند میں کیا عیب ہے اسے بیان کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔
تفصیل کے لئے دیکھئے : سلسلة الأحاديث الصحيحة وشيء من فقهها وفوائدها (1/ 831) رقم 464
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
5,001
ری ایکشن اسکور
9,806
پوائنٹ
773
تین جھوٹ یہ ہیں
1
دارقطنی میں سرے سے یہ ہرجلے والی حدیث ہی نہیں ہے چہ جائیکہ اس کی سند کو اچھا کہا ہو۔
شرم نہیں آتی ، جھوٹ یہ بات نہیں بلکہ اس سچی بات کو جھوٹا کہنا ہی بجائے خود جھوٹ ہے۔
کیونکہ امام دارقطنی رحمہ اللہ نے یہ حدیث نقل بھی کی ہے اور اس کی سند کو حسن بھی کہا ہے چنانچہ:

امام دارقطني رحمه الله (المتوفى385)نے کہا:
ثنا محمد بن إسماعيل الفارسي ثنا يحيى بن عثمان بن صالح ثنا إسحاق بن إبراهيم حدثني عمرو بن الحارث حدثني عبد الله بن سالم عن الزبيدي حدثني الزهري عن أبي سلمة وسعيد عن أبي هريرة قال : كان النبي صلى الله عليه و سلم إذا فرغ من قراءة أم القرآن رفع صوته وقال آمين هذا إسناد حسن [سنن الدارقطني: 1/ 335]
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
5,001
ری ایکشن اسکور
9,806
پوائنٹ
773
2
مستدرک حاکم میں سرے سے یہ حدیث ہی نہیں چہ جائیکہ اسے بخاری و مسلم کی شرط پر صحیح کہا گیا ہو۔
یہ بھی الٹا چور کوتوال کو ڈانٹنے والی مثال ہے کیونکہ مستدرک حاکم میں یہ حدیث ہے بھی اور امام حاکم نے اسے بخاری ومسلم کی شرط پر صحیح بھی کہا ہے چنانچہ:

امام حاكم رحمه الله (المتوفى405):
أخبرنا أبو أحمد بكر بن محمد الصيرفي، بمرو، ثنا أبو الأحوص محمد بن الهيثم القاضي، ثنا إسحاق بن إبراهيم بن العلاء الزبيدي، أخبرني عمرو بن الحارث، عن عبد الله بن سالم، عن الزبيدي، قال: أخبرني الزهري، عن أبي سلمة، وسعيد، عن أبي هريرة، قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا فرغ من أم القرآن رفع صوته، فقال: «آمين» . «هذا حديث صحيح على شرط الشيخين [المستدرك على الصحيحين للحاكم: 1/ 345]
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
5,001
ری ایکشن اسکور
9,806
پوائنٹ
773
3
بیہقی میں بھی سرے سے یہ حدیث ہے ہی نہیں ،چہ جائیکہ اسے حسن کہا ہو۔
بیہقی میں بھی یہ حدیث موجود ہے اور امام بیہقی نے امام دارقطنی سے حسن کا قول نقل کیا ہے چنانچہ:

امام بيهقي رحمه الله (المتوفى458)نے کہا:
أخبرنا علي بن محمد بن عبد الله بن بشران العدل ببغداد أنبأ علي بن محمد المصري، ثنا يحيى بن عثمان بن صالح، ثنا إسحاق بن إبراهيم الزبيدي، أخبرني عمرو بن الحارث، ثنا عبد الله بن سالم، عن الزبيدي قال: أخبرني الزهري، عن أبي سلمة، وسعيد، أن أبا هريرة قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم " إذا فرغ من قراءة أم القرآن رفع صوته، فقال: آمين " وكذلك رواه أبو الأحوص القاضي، عن إسحاق بن إبراهيم بن العلاء الزبيدي وأخبرنا أبو بكر بن الحارث قال: قال علي بن عمر الحافظ: هذا إسناد حسن، يريد إسناد هذا الحديث [السنن الكبرى للبيهقي: 2/ 85]
 
Top