• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ایک اعرابی کا انوکھا واقعہ

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,410
پوائنٹ
562
ایک مرتبہ کا واقعہ ہے کہ سید الانبیاء نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم طواف فرما رہے تھے. ایک اعرابی کو اپنے آگے طواف کرتے ہوئے پایا جس کی زبان پر "یاکریم یاکریم" کی صدا تھی۔ حضور اکرم نے بھی پیچھے سے یاکریم پڑھنا شروع کردیا۔ وہ اعرابی رُکن یمانی کیطرف جاتا تو پڑھتا یاکریم، سرکار دوعالم بھی پیچھے سے پڑھتے یاکریم۔ وہ اعرابی جس سمت بھی رخ کرتا اور پڑھتا یاکریم،، سرکار بھی اس کی آواز سے آواز ملاتےہوئے یاکریم پڑھتے۔
اعرابی نے تاجدار کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کیطرف دیکھا اور کہا کہ اے
روشن چہرے والے !اے حسین قد والے ! اللہ کی قسم اگر آپ کا چہرہ اتنا روشن اور عمدہ قد نہ ہوتا تو آپ کی شکایت اپنے محبوب نبی کریم کی بارگاہ میں ضرور کرتا کہ آپ میرا مذاق اڑاتے ہیں.
سید دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم مسکرائے اور فرمایا کہ کیا تو اپنے نبی کو پہچانتا ہے ؟
عرض کیا: نہیں۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پھر تم ایمان کیسے لائے؟
عرض کیا: بِن دیکھے ان کی نبوت و رسالت کو تسلیم کیا، مانا اور بغیر ملاقات کے میں نے انکی رسالت کی تصدیق کی۔ آپ نے فرمایا: مبارک ہو، میں دنیا میں تیرا نبی ہوں اور آخرت میں تیری شفاعت کرونگا۔
وہ حضور علیہ السلام کے قدموں میں گرا اور بوسے دینے لگا۔ آپ نے فرمایا: میرے ساتھ وہ معاملہ نہ کر جو عجمی لوگ اپنے بادشاہوں کے ساتھ کرتے ہیں۔ اللہ نے مجھے متکبر وجابر بناکر نہیں بھیجا بلکہ اللہ نے مجھے بشیر و نذیر بناکر بھیجا ہے۔
راوی کہتے ہیں کہ اتنے میں جبریل علیہ السلام آئےاور عرض کیا کہ اللہ جل جلالہ نے آپ کو سلام فرمایا ہے اور فرماتا ہے کہ اس اعرابی کو بتادیں کہ ہم اسکا حساب لیں گے۔ اعرابی نے کہا: یا رسول اللہ! کیا اللہ میرا حساب لے گا؟ فرمایا: ہاں، اگر وہ چاہے تو حساب لے گا۔
عرض کیا کہ اگر وہ میرا حساب لے گا تو میں اسکا حساب لونگا۔
آپ نے فرمایا کہ تو کس بات پر اللہ سے حساب لیگا؟
اس نے کہا کہ اگر وہ میرے گناہوں کا حساب لیگا تو میں اسکی بخشش کا حساب لونگا۔ میرے گناہ زیادہ ہیں کہ اسکی بخشش؟
اگر اس نےمیری نافرنیوں کا حساب لیا تو میں اسکی معافی کا حساب لونگا۔
اگر اس نے میرے بخل کا امتحان لیا تو میں اس کے فضل و کرم کا حساب لونگا۔
حضور اکرم سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم یہ سب سماعت کرنے کے بعد اتنا روئے کہ ریش مبارک آنسوؤں سے تر ہو گئی۔ پھر جبریل علیہ السلام آئے۔عرض کیا: اے اللہ کے رسول! اللہ سلام کہتا ہے اور فرماتا ہے کہ رونا کم کریں۔ آپ کے رونے نے فرشتوں کو تسبیح و تحلیل بھلا دی ہے۔ اپنے امتی کو کہیں نہ وہ ہمارا حساب لے نہ ہم اسکا حساب لیں گے اور اس کو خوشخبری سنادیں یہ جنت میں آپ کا ساتھی ہوگا۔
کیا عقل نے سمجھا ہے کیا عشق نے جانا ہے
ان خاک نشینوں کی ٹھوکر میں زمانہ ہے
تحریر کو لائک کرنے سے اچھا ہے کہ شیئر کردے،،یہ آپکے اکاؤنٹ میں نیکیوں کا ویٹ زیادہ کرتی ہے،،
کتاب: مسند احمد بن حنبل
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
ایک اعرابی کا انوکھا واقعہ

ایک مرتبہ کا واقعہ ہے کہ سید الانبیاء نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم طواف فرما رہے تھے. ایک اعرابی کو اپنے آگے طواف کرتے ہوئے پایا جس کی زبان پر "یاکریم یاکریم" کی صدا تھی۔ حضور اکرم نے بھی پیچھے سے یاکریم پڑھنا شروع کردیا۔ وہ اعرابی رُکن یمانی کیطرف جاتا تو پڑھتا یاکریم، سرکار دوعالم بھی پیچھے سے پڑھتے یاکریم۔ وہ اعرابی جس سمت بھی رخ کرتا اور پڑھتا یاکریم،، سرکار بھی اس کی آواز سے آواز ملاتےہوئے یاکریم پڑھتے۔
السلام علیکم ورحمۃ اللہ
یہ انوکھا واقعہ حدیث کی کسی کتاب میں موجود نہیں ، نہ مسند احمد میں نہ کسی اور کتاب میں ۔
یہ بالکل جھوٹ ہے جو نبی کریم ﷺ کے نام سے پھیلایا گیا ہے ،
علمی ابحاث کی مستند عربی سائیٹ ( ملتقیٰ اہل الحدیث ) پر سعودیہ کے مععروف محقق عالم اور ام القریٰ یونیورسٹی کے استاذ ڈاکٹرشریف حاتم حفظہ اللہ اس قصہ کے متعلق لکھتے ہیں :
ــــــــــــــــــــــــــــــ
حديث الأعرابي مع النبي صلى الله عليه وسلم بالمطاف
وهذا الجواب من (الإسلام اليوم)
:
المجيب د. الشريف حاتم بن عارف العوني
عضو هيئة التدريس بجامعة أم القرى
التصنيف الفهرسة/ السنة النبوية وعلومها/تصحيح الأحاديث والآثار وتضعيفها
التاريخ 22/5/1424هـ


السؤال
بينما النبي – صلى الله عليه وسلم – في الطواف، إذ سمع أعرابياً يقول: يا كريم، فقال النبي –صلى الله عليه وسلم- خلفه: يا كريم، فمضى الأعرابي إلى جهة الميزاب، وقال: يا كريم، فقال النبي –صلى الله عليه وسلم- خلفه: يا كريم، فالتفت الأعرابي إلى النبي –صلى الله عليه وسلم-، وقال: يا صبيح الوجه، يا رشيق القد، أتهزأ بي لكوني أعرابياً؟ والله لولا صباحة وجهك، ورشاقة قدك لشكوتكم إلى حبيبي محمد – صلى الله عليه وسلم -، تبسم النبي –صلى الله عليه وسلم-، وقال: أما تعرف نبيك يا أخا العرب؟ قال الأعرابي: لا، قال النبي –صلى الله عليه وسلم-: فما إيمانك به؟ قال: آمنت بنبوته ولم أره، وصدَّقت برسالته ولم ألقه، قال النبي –صلى الله عليه وسلم-: يا أعرابي اعلم أني نبيك في الدنيا، وشفيعك في الآخرة فأقبل الأعرابي يقبل يد النبي – صلى الله عليه وسلم–، فقال النبي –صلى الله عليه وسلم-: مه يا أخا العرب لا تفعل بي كما تفعل الأعاجم بملوكها، فإن الله -سبحانه وتعالى- بعثني لا متكبراً ولا متجبراً، بل بعثني بالحق بشيراً ونذيراً، فهبط جبريل على النبي –صلى الله عليه وسلم-، وقال له: يا محمد السلام يقرئك السلام، ويخصك بالتحية والإكرام، ويقول لك: قل للأعرابي، لا يغرنه حلمنا ولا كرمنا، فغداً نحاسبه على القليل والكثير، والفتيل والقطمير، فقال الأعرابي: أو يحاسبني ربي يا رسول الله،قال: نعم يحاسبك إن شاء، فقال الأعرابي: وعزته وجلاله إن حاسبني لأحاسبنه، فقال النبي – صلى الله عليه وسلم –: وعلى ماذا تحاسب ربك يا أخا العرب؟ قال الأعرابي: إن حاسبني ربي على ذنبي حاسبته على مغفرته، وإن حاسبني على معصيتي حاسبته على عفوه، وإن حاسبني على بخلي حاسبته على كرمه، فبكى النبي –صلى الله عليه وسلم- حتى ابتلت لحيته، فهبط جبريل –عليه السلام- على النبي –صلى الله عليه وسلم-، وقال: يا محمد، السلام يقرئك السلام، ويقول لك: يا محمد قلل من بكائك ، فقد ألهيت حملة العرش عن تسبيحهم. قل لأخيك الأعرابي لا يحاسبنا ولا نحاسبه ، فإنه رفيقك في الجنة. فما أصل هذا الحديث، وما مدى صحته

ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
الجواب
إن الحديث المذكور يصلح مثالاً للأحاديث التي تظهر فيها علامات الوضع والكذب ، وفيه من ركاكة اللفظ ، وضعف التركيب ، وسمج الأوصاف ، ولا يَشُكُّ من له معرفة بالسنة النبوية وما لها من الجلالة والجزالة أنه لا يمكن أن يكون حديثاً صحيحاً ثابتاً عن النبي – صلى الله عليه وسلم – ولم أجده بهذا اللفظ، وليت أن السائل يخبرنا بالمصدر الذي وجد فيه هذا الحديث ليتسنى لنا تحذير الناس منه. على أن أبا حامد الغزالي – على عادته رحمه الله – قد أورد حديثاً باطلاً في (إحياء علوم الدين 4/130) قريباً من مضمونه من الحديث المسؤول عنه، وفيه أن أعرابياً قال لرسول الله – صلى الله عليه وسلم – يا رسول الله من يلي حساب الخلق يوم القيامة؟ فقال - صلى الله عليه وسلم-: الله - تبارك وتعالى-، قال: هو بنفسه؟ قال: نعم، فتبسم الأعرابي، فقال - صلى الله عليه وسلم-: ممَّ ضحكت يا أعرابي؟ قال: إن الكريم إذا قدر عفا، وإذا حاسب سامح.. إلى آخر الحديث .
وقد قال العراقي عن هذا الحديث:"لم أجد له أصلاً"، وذكره السبكي ضمن الأحاديث التي لم يجد لها إسناداً (تخريج أحاديث الإحياء: رقم 3466، وطبقات الشافعيـة الكبرى: 6/364)، ومع ذلك فالنصوص الدالة على سعة رحمة الله –تعالى- وعظيم عفوه -عز وجل-، وقبوله لتوبة التائبين، واستجابته لاستغفار المستغفرين كثيرة في الكتاب وصحيح السنة.
قال – تعالى-:"وإني لغفار لمن تاب وآمن وعمل صالحاً ثم اهتدى" [ طه:82]، وقال – تعالى-:"وهو الذي يقبل التوبة عن عباده ويعفو عن السيئات ويعلم ما تفعلون"[الشورى:25]، وقال –تعالى-:"ورحمتي وسعت كل شيء "[ الأعراف : 156] .
وفي الصحيحين البخاري (7554) ومسلم (2751) من حديث أبي هريرة –رضي الله عنه- أن النبي –صلى الله عليه وسلم– قال:"إن الله كتب كتاباً قبل أن يخلق الخلق إن رحمتي سبقت غضبي"، والله أعلم
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
آج ایک صاحب نے اس کے متعلق پوچھا ، انہیں یہ تھریڈ دیکھ کر جواب دیا۔
 
Top