رضا میاں
سینئر رکن
- شمولیت
- مارچ 11، 2011
- پیغامات
- 1,557
- ری ایکشن اسکور
- 3,580
- پوائنٹ
- 384
اسلام علیکم
امام بخاری روایت کرتے ہیں کہ:
قَالَ مُحَمَّد حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيم بْن المختار عَنْ شُعْبَة عَنْ هارون بْن سعد عَنْ ثمامة بْن عقبة عَنْ زيد بْن أرقم قَالَ كنا إذا سلم النَّبِيّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ علينا قلنا وعليك السلام ورحمة اللَّه وبركاته ومغفرته.
زید بن ارقم رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: جب نبی اکرم ﷺ ہمیں سلام کرتے تو ہم کہتے: "وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ ومغفرتہ"۔
(التاریخ الکبیر للبخاری: 1/330 ترجمہ ابراہیم بن مختار)
شیخ البانی اس حدیث کی تصحیح کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
"قلت: وهذا إسناد جيد رجاله ثقات كلهم من رجال " التهذيب " إبراهيم بن المختار وهو الرازي، روى عن جماعة من الثقات ذكرهم ابن أبي حاتم (1 / 1 / 138) ثمقال: " سألت أبي عنه: فقال: صالح الحديث وهو أحب إلي من سلمة بن الفضل، وعلي بن مجاهد ". ومحمد الراوي عنه هو ابن سعيد بن الأصبهاني، وهو من شيوخ البخاري في " الصحيح " فالإسناد متصل غير معلق " (سلسلۃ الصحیحہ: 1449)
جبکہ یہ حدیث سخت ضعیف ومنکر ہے۔ یہ اختلاف امام بخاری کے استاد کے تعیین میں غلطی کی وجہ سے ہوا ہے۔ شیخ البانی نے سمجھا کہ سند میں "محمد" سے مراد "محمد بن سعید الاصبھانی" ہے اور یہ انہوں نے کس بناء پر کہا اس کا کوئی علم نہیں ہے۔ جبکہ سند میں محمد سے مراد اصل میں "محمد بن حمید الرازی" ہے اور اس بات کا تعیین دوسری اسانید میں بالکل واضح طور پر کیا گیا ہے۔
چنانچہ امام طبرانی روایت کرتے ہیں کہ: "حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى بْنُ مَنْدَهِ الأَصْبَهَانِيُّ ، وَجَعْفَرُ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ سِنَانٍ الْوَاسِطِيُّ ، قَالا : ثنا مُحَمَّدُ بْنُ حُمَيْدٍ الرَّازِيُّ ، ثنا إِبْرَاهِيمُ بْنُ الْمُخْتَارِ ، ثنا شُعْبَةُ ، عَنْ هَارُونَ بْنِ سَعْدٍ ، عَنْ ثُمَامَةَ بْنِ عُقْبَةَ ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ مرفوعا"
(المعجم الکبیر)
اسی طرح امام بیہقی نے بھی اسے محمد کے مکمل نام کے ساتھ روایت کیا ہے:
"أَخْبَرَنَا أَبُو الْحَسَنِ مُحَمَّدُ بْنُ يَعْقُوبَ الْفَقِيهُ ، قَالَ : أنا أَبُو عَلِيٍّ الصَّوَّافُ ، قَالَ : نا عَلِيُّ بْنُ الْحُسَيْنِ بْنِ حَبَّانَ ، قَالَ : نا مُحَمَّدُ بْنُ حُمَيْدٍ ، قَالَ : نا أَزْهَرُ بْنُ الْمُخْتَارِ ، عَنْ شُعْبَةَ ، عَنْ هَارُونَ بْنِ سَعْدٍ ، عَنْ ثُمَامَةَ بْنِ عُقْبَةَ ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ مرفوعا"
(شعب الايمان)
لہٰذا معلوم ہوا کہ بخاری کی سند میں محمد سے مراد "محمد بن حمید الرازی" ہے نہ کہ "محمد بن سعید الاصبھانی"!
اور محمد بن حمید الرازی سخت ضعیف و متروک شخص تھا اور اس کی روایت ابراہیم بن المختار سے خصوصا سخت ضعیف تھی۔
امام بخاری محمد بن حمید کے بارے میں فرماتے ہیں: "فِيهِ نَظَرٌ" (تاریخ الکبیر للبخاری: 1/69)
امام احمد بن حنبل فرماتے ہیں: "إذا حدث عن العراقيين يأتي بأشياء مستقيمة ، وإذا حدث عن أهل بلده مثل إبراهيم بن المختار وغيره أتى بأشياء لا تعرف ، لا تدري ما هي." (المجروحین)
امام ابو زرعہ اور ابن وارۃ کہتے ہیں: "صح عندنا أنه يكذب" (المجروحین)
امام ابن حبان فرماتے ہیں: "كان ممن ينفرد عن الثقات بالاشياء المقلوبات ولا سيما إذا حدث عن شيوخ بلده." (المجروحین)
امام ذہبی فرماتے ہیں: "وَهُوَ مَعَ إِمَامَتِهِ مُنْكَرُ الحَدِيْثِ، صَاحِبُ عَجَائِبَ" (سیر اعلام النبلاء: 11/503)۔
أَخْبَرَنَا أَبُو سَعِيدٍ مُحَمَّدُ بْنُ مُوسَى، قَالَ: نا أَبُو الْعَبَّاسِ مُحَمَّدُ بْنُ يَعْقُوبَ، قَالَ: نا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ الْحَمِيدِ، قَالَ: نا أَبُو أُسَامَةَ، عَنِ الْوَلِيدِ بْنِ كَثِيرٍ، قَالَ: نا مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرِو بْنِ عَطَاءٍ، قَالَ: بَيْنَا أَنَا عِنْدَ ابْنِ عَبَّاسٍ، وَعِنْدَهُ ابْنُهُ، فَجَاءَهُ سَائِلٌ فَسَلَّمَ عَلَيْهِ، فَقَالَ: السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ وَمَغْفِرَتُهُ وَرِضْوَانُهُ، وَعَدَدٌ مِنْ ذَا، فَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: " مَا هَذَا السَّلَامُ؟ " وَغَضِبَ حَتَّى احْمَرَّتْ وَجْنَتَاهُ، فَقَالَ لَهُ ابْنُهُ عَلِيٌّ: يَا أَبَتَاهُ إِنَّهُ سَائِلٌ مِنَ السُّؤَّالِ، فَقَالَ: " إِنَّ اللهَ حَدَّ السَّلَامَ حَدًّا، وَنَهَى عَمَّا وَرَاءَ ذَلِكَ "، ثُمَّ قَرَأَ إِلَى: {رَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ عَلَيْكُمْ أَهْلَ الْبَيْتِ إِنَّهُ حَمِيدٌ مَجِيدٌ} ثُمَّ انْتَهَى
محمد بن عمرو بن عطاء نے کہا: میں ابن عباس کے پاس تھا اور ان کے ساتھ ان کا بیٹا بھی تھا، تو ایک سائل آیا اور انہیں سلام کرتے ہوئے کہا: "السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ وَمَغْفِرَتُهُ وَرِضْوَانُهُ، وَعَدَدٌ مِنْ ذَا" تو ابن عباس رضی اللہ عنہ نے اسے کہا: "یہ کون سا سلام ہے؟َ" اور آپ غصہ میں آ گئے یہاں تک کہ ان کے رخسار سرخ ہو گئے چنانچہ ان کے بیٹے علی نے کہا اے ابا جان بے شک وہ تو سائلوں میں سے ایک سائل ہے۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ بے شک اللہ نے سلام کی ایک حد رکھی ہے اور ان کے ما سواء سے منع فرمایا ہے اس کے بعد انہوں نے یہ آیت پڑھی: "رَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ عَلَيْكُمْ أَهْلَ الْبَيْتِ إِنَّهُ حَمِيدٌ مَجِيدٌ" (سورہ ہود 11:73) اس کے بعد رک گئے۔
(شعب الایمان: 8488، واسنادہ صحیح)
امام بخاری روایت کرتے ہیں کہ:
قَالَ مُحَمَّد حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيم بْن المختار عَنْ شُعْبَة عَنْ هارون بْن سعد عَنْ ثمامة بْن عقبة عَنْ زيد بْن أرقم قَالَ كنا إذا سلم النَّبِيّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ علينا قلنا وعليك السلام ورحمة اللَّه وبركاته ومغفرته.
زید بن ارقم رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: جب نبی اکرم ﷺ ہمیں سلام کرتے تو ہم کہتے: "وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ ومغفرتہ"۔
(التاریخ الکبیر للبخاری: 1/330 ترجمہ ابراہیم بن مختار)
شیخ البانی اس حدیث کی تصحیح کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
"قلت: وهذا إسناد جيد رجاله ثقات كلهم من رجال " التهذيب " إبراهيم بن المختار وهو الرازي، روى عن جماعة من الثقات ذكرهم ابن أبي حاتم (1 / 1 / 138) ثمقال: " سألت أبي عنه: فقال: صالح الحديث وهو أحب إلي من سلمة بن الفضل، وعلي بن مجاهد ". ومحمد الراوي عنه هو ابن سعيد بن الأصبهاني، وهو من شيوخ البخاري في " الصحيح " فالإسناد متصل غير معلق " (سلسلۃ الصحیحہ: 1449)
جبکہ یہ حدیث سخت ضعیف ومنکر ہے۔ یہ اختلاف امام بخاری کے استاد کے تعیین میں غلطی کی وجہ سے ہوا ہے۔ شیخ البانی نے سمجھا کہ سند میں "محمد" سے مراد "محمد بن سعید الاصبھانی" ہے اور یہ انہوں نے کس بناء پر کہا اس کا کوئی علم نہیں ہے۔ جبکہ سند میں محمد سے مراد اصل میں "محمد بن حمید الرازی" ہے اور اس بات کا تعیین دوسری اسانید میں بالکل واضح طور پر کیا گیا ہے۔
چنانچہ امام طبرانی روایت کرتے ہیں کہ: "حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى بْنُ مَنْدَهِ الأَصْبَهَانِيُّ ، وَجَعْفَرُ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ سِنَانٍ الْوَاسِطِيُّ ، قَالا : ثنا مُحَمَّدُ بْنُ حُمَيْدٍ الرَّازِيُّ ، ثنا إِبْرَاهِيمُ بْنُ الْمُخْتَارِ ، ثنا شُعْبَةُ ، عَنْ هَارُونَ بْنِ سَعْدٍ ، عَنْ ثُمَامَةَ بْنِ عُقْبَةَ ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ مرفوعا"
(المعجم الکبیر)
اسی طرح امام بیہقی نے بھی اسے محمد کے مکمل نام کے ساتھ روایت کیا ہے:
"أَخْبَرَنَا أَبُو الْحَسَنِ مُحَمَّدُ بْنُ يَعْقُوبَ الْفَقِيهُ ، قَالَ : أنا أَبُو عَلِيٍّ الصَّوَّافُ ، قَالَ : نا عَلِيُّ بْنُ الْحُسَيْنِ بْنِ حَبَّانَ ، قَالَ : نا مُحَمَّدُ بْنُ حُمَيْدٍ ، قَالَ : نا أَزْهَرُ بْنُ الْمُخْتَارِ ، عَنْ شُعْبَةَ ، عَنْ هَارُونَ بْنِ سَعْدٍ ، عَنْ ثُمَامَةَ بْنِ عُقْبَةَ ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ مرفوعا"
(شعب الايمان)
لہٰذا معلوم ہوا کہ بخاری کی سند میں محمد سے مراد "محمد بن حمید الرازی" ہے نہ کہ "محمد بن سعید الاصبھانی"!
اور محمد بن حمید الرازی سخت ضعیف و متروک شخص تھا اور اس کی روایت ابراہیم بن المختار سے خصوصا سخت ضعیف تھی۔
امام بخاری محمد بن حمید کے بارے میں فرماتے ہیں: "فِيهِ نَظَرٌ" (تاریخ الکبیر للبخاری: 1/69)
امام احمد بن حنبل فرماتے ہیں: "إذا حدث عن العراقيين يأتي بأشياء مستقيمة ، وإذا حدث عن أهل بلده مثل إبراهيم بن المختار وغيره أتى بأشياء لا تعرف ، لا تدري ما هي." (المجروحین)
امام ابو زرعہ اور ابن وارۃ کہتے ہیں: "صح عندنا أنه يكذب" (المجروحین)
امام ابن حبان فرماتے ہیں: "كان ممن ينفرد عن الثقات بالاشياء المقلوبات ولا سيما إذا حدث عن شيوخ بلده." (المجروحین)
امام ذہبی فرماتے ہیں: "وَهُوَ مَعَ إِمَامَتِهِ مُنْكَرُ الحَدِيْثِ، صَاحِبُ عَجَائِبَ" (سیر اعلام النبلاء: 11/503)۔
- اسی لیے امام بیہقی اس روایت کے متعلق فرماتے ہیں: "وفي إسناده إلى شعبة من لا يحتج به"۔
- حافظ ابن حجر فرماتے ہیں: "إسناده ضعيف" (فتح الباری: 11/8)
أَخْبَرَنَا أَبُو سَعِيدٍ مُحَمَّدُ بْنُ مُوسَى، قَالَ: نا أَبُو الْعَبَّاسِ مُحَمَّدُ بْنُ يَعْقُوبَ، قَالَ: نا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ الْحَمِيدِ، قَالَ: نا أَبُو أُسَامَةَ، عَنِ الْوَلِيدِ بْنِ كَثِيرٍ، قَالَ: نا مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرِو بْنِ عَطَاءٍ، قَالَ: بَيْنَا أَنَا عِنْدَ ابْنِ عَبَّاسٍ، وَعِنْدَهُ ابْنُهُ، فَجَاءَهُ سَائِلٌ فَسَلَّمَ عَلَيْهِ، فَقَالَ: السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ وَمَغْفِرَتُهُ وَرِضْوَانُهُ، وَعَدَدٌ مِنْ ذَا، فَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: " مَا هَذَا السَّلَامُ؟ " وَغَضِبَ حَتَّى احْمَرَّتْ وَجْنَتَاهُ، فَقَالَ لَهُ ابْنُهُ عَلِيٌّ: يَا أَبَتَاهُ إِنَّهُ سَائِلٌ مِنَ السُّؤَّالِ، فَقَالَ: " إِنَّ اللهَ حَدَّ السَّلَامَ حَدًّا، وَنَهَى عَمَّا وَرَاءَ ذَلِكَ "، ثُمَّ قَرَأَ إِلَى: {رَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ عَلَيْكُمْ أَهْلَ الْبَيْتِ إِنَّهُ حَمِيدٌ مَجِيدٌ} ثُمَّ انْتَهَى
محمد بن عمرو بن عطاء نے کہا: میں ابن عباس کے پاس تھا اور ان کے ساتھ ان کا بیٹا بھی تھا، تو ایک سائل آیا اور انہیں سلام کرتے ہوئے کہا: "السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ وَمَغْفِرَتُهُ وَرِضْوَانُهُ، وَعَدَدٌ مِنْ ذَا" تو ابن عباس رضی اللہ عنہ نے اسے کہا: "یہ کون سا سلام ہے؟َ" اور آپ غصہ میں آ گئے یہاں تک کہ ان کے رخسار سرخ ہو گئے چنانچہ ان کے بیٹے علی نے کہا اے ابا جان بے شک وہ تو سائلوں میں سے ایک سائل ہے۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ بے شک اللہ نے سلام کی ایک حد رکھی ہے اور ان کے ما سواء سے منع فرمایا ہے اس کے بعد انہوں نے یہ آیت پڑھی: "رَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ عَلَيْكُمْ أَهْلَ الْبَيْتِ إِنَّهُ حَمِيدٌ مَجِيدٌ" (سورہ ہود 11:73) اس کے بعد رک گئے۔
(شعب الایمان: 8488، واسنادہ صحیح)