- شمولیت
- اگست 25، 2014
- پیغامات
- 6,372
- ری ایکشن اسکور
- 2,589
- پوائنٹ
- 791
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قِيلَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَا الغِيبَةُ؟ قَالَ: «ذِكْرُكَ أَخَاكَ بِمَا يَكْرَهُ»، قَالَ: أَرَأَيْتَ إِنْ كَانَ فِيهِ مَا أَقُولُ؟ قَالَ: «إِنْ كَانَ فِيهِ مَا تَقُولُ فَقَدْ اغْتَبْتَهُ، وَإِنْ لَمْ يَكُنْ فِيهِ مَا تَقُولُ فَقَدْ بَهَتَّهُ» وَفِي البَابِ عَنْ أَبِي بَرْزَةَ، وَابْنِ عُمَرَ، وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ
سیدنا ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ کسی نے عرض کی : اے اللہ کے رسول! غیبت کیا ہے؟ آپ نے فرمایا: ” (کسی کے سامنے اپنے بھائی کا ایسے ذکر کرنا جسے وہ ناپسند کرے“، اس نے کہا: آپ کا کیا خیال ہے اگر وہ چیز اس میں موجود ہو جسے میں بیان کر رہا ہوں؟ آپ نے فرمایا: ”جو تم بیان کر رہے ہو اگر وہ اس میں موجود ہے تو تم نے اس کی غیبت (چغلی) کی، اور جو تم بیان کر رہے ہو اگر وہ اس میں موجود نہیں ہے تو تم نے اس پر تہمت باندھی“ ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں ابوبرزہ، ابن عمر اور عبداللہ بن عمرو رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/البر والصلة ۲۰ (۲۵۸۹)، سنن ابی داود/ الأدب ۴۰ (۴۸۷۴) (تحفة الأشراف : ۱۴۰۵۴)، و مسند احمد (۲/۲۳۰، ۴۵۸)، سنن الدارمی/الرقاق ۶ (۲۷۵۶) (صحیح)
ــــــــــــــــــــــــــــــــ
وضاحت: ۱؎ : غیبت (چغلی) حرام اور کبیرہ گناہ ہے، قرآن کریم میں اسے مردہ بھائی کے گوشت کھانے سے تشبیہ دی گئی ہے، اس حدیث میں بھی اس کی قباحت بیان ہوئی، اور قباحت کی وجہ یہ ہے کہ غیبت کرنے والا اپنے بھائی کی غیر موجودگی میں اس کی عزت و ناموس پر حملہ کرتا ہے، اور اس کی دل آزاری کا باعث بنتا ہے، غیبت یہ ہے کہ کسی آدمی کا تذکرہ اس طور پر کیا جائے کہ جو اسے ناپسند ہو، یہ تذکرہ الفاظ میں ہو، یا اشارہ و کنایہ میں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عن ابن عباس ان النبي صلى الله عليه وسلم مر على قبرين فقال: " إنهما يعذبان وما يعذبان في كبير: اما هذا فكان لا يستتر من بوله واما هذا فكان يمشي بالنميمة ". قال ابو عيسى: وفي الباب عن ابي هريرة ، وابي موسى ، وعبد الرحمن بن حسنة ، وزيد بن ثابت ، وابي بكرة. قال ابو عيسى: هذا حسن صحيح
جناب عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کا گزر دو قبروں کے پاس سے ہوا تو آپ نے فرمایا: ”یہ دونوں قبر والے عذاب دیئے جا رہے ہیں، اور کسی بڑی چیز میں عذاب نہیں دیئے جا رہے (کہ جس سے بچنا مشکل ہوتا) رہا یہ تو یہ اپنے پیشاب سے بچتا نہیں تھا ۱؎ اور رہا یہ تو یہ چغلی کیا کرتا تھا“ ۲؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں ابوہریرہ، ابوموسیٰ، عبدالرحمٰن بن حسنہ، زید بن ثابت، اور ابوبکرہ رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الوضوء ۵۵ (۲۱۶) و۵۶ (۲۱۸) والجنائز ۹۱ (۱۳۶۱) و۸۸ (۱۳۷۸) والأدب ۴۶ (۶۰۵۲) و۴۹ (۶۰۵۵) صحیح مسلم/الطہارة ۳۴ (۲۹۲) سنن ابی داود/ الطہارة ۱۱ (۲۰) سنن النسائی/الطہارة ۲۷ (۳۱) والجنائز ۱۱۶ (۲۰۷۰) سنن ابن ماجہ/الطہارة ۲۶ (۳۴۷) (تحفة الأشراف : ۵۷۴۷) مسند احمد (۱/۲۲۵) سنن الدارمی/ الطہارة ۶۱ (۷۶۶) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : یعنی پیشاب کرتے وقت احتیاط نہیں کرتا تھا، پیشاب کے چھینٹے اس کے بدن یا کپڑوں پر پڑ جایا کرتے تھے، جو قبر میں عذاب کا سبب بنے، اس لیے اس کی احتیاط کرنی چاہیئے، اور یہ کوئی بہت بڑی اور مشکل بات نہیں۔ ۲؎ : چغلی خود گرچہ بڑا گناہ ہے مگر اس سے بچنا کوئی مشکل بات نہیں، اس لحاظ سے فرمایا کہ کسی بڑی چیز میں عذاب نہیں دیئے جا رہے ہیں۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
غیبت اور چغلی میں کیا فرق ہے؟
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
قرآن وحدیث کی روشنی میں احکام ومسائل
جلد 02 ص 787
محدث فتویٰ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
غیبت اور چغلی کے متعلق یہ فتوی دراصل فتح الباری میں امام ابن حجر عسقلانی ؒ کی درج ذیل عبارت سے ماخوذ ہے؛
الفرق بين الغيبة والنَّميمة:
قال الحافظ ابن حجر رحمه الله: "واختلف في الغيبة والنَّميمة، هل هما متغايرتان أو متَّحدتان؟
والراجح التغاير، وأنَّ بينهما عمومًا وخصوصًا وجهيًّا؛ وذلك أن النَّميمة نقلُ حال شخص لغيره على جهة الإفساد بغير رضاه، سواء كان بعلمه أم بغير علمه، والغيبة ذِكرُه في غيبته بما لا يُرضيه، فامتازت النَّميمة بقصد الإفساد، ولا يشترط ذلك في الغيبة، وامتازت الغيبة بكونها في غيبة المقول فيه، واشتركَا فيما عدا ذلك. ومن العلماء مَن يشترط في الغيبة أن يكون المقول فيه غائبًا، والله أعلم"؛ (فتح الباري بشرح صحيح البخاري: 10/ 473).
کیا غیبت اور چغلی ایک چیز ہیں یا دو مختلف فعل ہیں ؟
حافظ صاحب رحمہ اللہ فرماتے ہیں :راجح بات یہ ہے کہ یہ دو علیحدہ کام ہیں ،
اور دونوں کے مابین عموم و خصوص وجہی پایا جاتا ہے ، یعنی نمیمہ ۔چغلی کسی کے حال کو دوسرے تک اس غرض سے پہنچانا کہ فساد پیدا ہو ،اور یہ نقل حال صاحب حال کو ناپسند ہو ۔اور یہ اس کے اسکے علم میں ہو یا نہ ہو برابر ہے ،
اور غیبت محض کسی کی ناپسندیدہ بات دوسرے تک پہنچانے کو کہا جاتا ہے ،
اس طرح چغلی میں فساد ڈلوانے کی غرض ممتاز ہوتی ہے،
جبکہ غیبت میں یہ شرط نہیں پائی جاتی ،
باقی صفات دونوں میں مشترک ہیں
سیدنا ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ کسی نے عرض کی : اے اللہ کے رسول! غیبت کیا ہے؟ آپ نے فرمایا: ” (کسی کے سامنے اپنے بھائی کا ایسے ذکر کرنا جسے وہ ناپسند کرے“، اس نے کہا: آپ کا کیا خیال ہے اگر وہ چیز اس میں موجود ہو جسے میں بیان کر رہا ہوں؟ آپ نے فرمایا: ”جو تم بیان کر رہے ہو اگر وہ اس میں موجود ہے تو تم نے اس کی غیبت (چغلی) کی، اور جو تم بیان کر رہے ہو اگر وہ اس میں موجود نہیں ہے تو تم نے اس پر تہمت باندھی“ ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں ابوبرزہ، ابن عمر اور عبداللہ بن عمرو رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/البر والصلة ۲۰ (۲۵۸۹)، سنن ابی داود/ الأدب ۴۰ (۴۸۷۴) (تحفة الأشراف : ۱۴۰۵۴)، و مسند احمد (۲/۲۳۰، ۴۵۸)، سنن الدارمی/الرقاق ۶ (۲۷۵۶) (صحیح)
ــــــــــــــــــــــــــــــــ
وضاحت: ۱؎ : غیبت (چغلی) حرام اور کبیرہ گناہ ہے، قرآن کریم میں اسے مردہ بھائی کے گوشت کھانے سے تشبیہ دی گئی ہے، اس حدیث میں بھی اس کی قباحت بیان ہوئی، اور قباحت کی وجہ یہ ہے کہ غیبت کرنے والا اپنے بھائی کی غیر موجودگی میں اس کی عزت و ناموس پر حملہ کرتا ہے، اور اس کی دل آزاری کا باعث بنتا ہے، غیبت یہ ہے کہ کسی آدمی کا تذکرہ اس طور پر کیا جائے کہ جو اسے ناپسند ہو، یہ تذکرہ الفاظ میں ہو، یا اشارہ و کنایہ میں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عن ابن عباس ان النبي صلى الله عليه وسلم مر على قبرين فقال: " إنهما يعذبان وما يعذبان في كبير: اما هذا فكان لا يستتر من بوله واما هذا فكان يمشي بالنميمة ". قال ابو عيسى: وفي الباب عن ابي هريرة ، وابي موسى ، وعبد الرحمن بن حسنة ، وزيد بن ثابت ، وابي بكرة. قال ابو عيسى: هذا حسن صحيح
جناب عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کا گزر دو قبروں کے پاس سے ہوا تو آپ نے فرمایا: ”یہ دونوں قبر والے عذاب دیئے جا رہے ہیں، اور کسی بڑی چیز میں عذاب نہیں دیئے جا رہے (کہ جس سے بچنا مشکل ہوتا) رہا یہ تو یہ اپنے پیشاب سے بچتا نہیں تھا ۱؎ اور رہا یہ تو یہ چغلی کیا کرتا تھا“ ۲؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں ابوہریرہ، ابوموسیٰ، عبدالرحمٰن بن حسنہ، زید بن ثابت، اور ابوبکرہ رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الوضوء ۵۵ (۲۱۶) و۵۶ (۲۱۸) والجنائز ۹۱ (۱۳۶۱) و۸۸ (۱۳۷۸) والأدب ۴۶ (۶۰۵۲) و۴۹ (۶۰۵۵) صحیح مسلم/الطہارة ۳۴ (۲۹۲) سنن ابی داود/ الطہارة ۱۱ (۲۰) سنن النسائی/الطہارة ۲۷ (۳۱) والجنائز ۱۱۶ (۲۰۷۰) سنن ابن ماجہ/الطہارة ۲۶ (۳۴۷) (تحفة الأشراف : ۵۷۴۷) مسند احمد (۱/۲۲۵) سنن الدارمی/ الطہارة ۶۱ (۷۶۶) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : یعنی پیشاب کرتے وقت احتیاط نہیں کرتا تھا، پیشاب کے چھینٹے اس کے بدن یا کپڑوں پر پڑ جایا کرتے تھے، جو قبر میں عذاب کا سبب بنے، اس لیے اس کی احتیاط کرنی چاہیئے، اور یہ کوئی بہت بڑی اور مشکل بات نہیں۔ ۲؎ : چغلی خود گرچہ بڑا گناہ ہے مگر اس سے بچنا کوئی مشکل بات نہیں، اس لحاظ سے فرمایا کہ کسی بڑی چیز میں عذاب نہیں دیئے جا رہے ہیں۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
غیبت اور چغلی میں کیا فرق ہے؟
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
غیبت اور چغلی میں کیا فرق ہے؟ اور صدقہ اور خیرات میں کیا فرق ہے ؟ میرے کم علم کے مطابق تو غیبت اور چغلی ایک ہی ہیں اور صدقہ و خیرات بھی ایک ہی چیز کے دو نام ہیں (قاری محمد یعقوب گجر)
الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
غیبت کا مطلب ہے : ((ذکرک أخاک بما یکرہ))(یعنی ایک مسلمان کا دوسرے مسلمان کی ان باتوں کو بیان کرنا جنہیں بیان کرنا وہ ناپسند کرتا ہے ) 3۔اس سے عام کہ غیبت کرنے والے کی غرض افساد فی الناس (لوگوں میں فساد ڈالنا ) ہو یا نہ۔ اور نمیمہ و چغلی میں غرض افساد بین الناس ہوتی ہے۔ تو ہر نمیمہ و چغلی غیبت ہے ولا عکس ہر غیبت نمیمہ و چغلی نہیں تو دونوں میں عموم خصوص مطلق والی نسبت ہے۔
عربی کے اعتبار سے صدقہ خاص نیکی ہے ، جبکہ خیرات تمام نیکیوں اور خیرکے کاموں وغیرہ پر بولا جاتا ہے ۔ تو ہر صدقہ ، خیرات میں شامل ہے ۔ جبکہ تمام خیرات صدقہ نہیں۔ اور اگر صدقہ کا معنی بھی ((کل معروف صدقۃ)) والا لے لیا جائے تو پھر دونوں میں کوئی فرق نہیں ۔ البتہ ہمارے اُردو پنجابی عرف میں عام طور پر خیرات کا لفظ صدقہ پر بولا جاتا ہے۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
3 مسلم،کتاب البر باب تحریم الغیبۃ۔
۶،۹،۱۴۲۳ھوعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
غیبت کا مطلب ہے : ((ذکرک أخاک بما یکرہ))(یعنی ایک مسلمان کا دوسرے مسلمان کی ان باتوں کو بیان کرنا جنہیں بیان کرنا وہ ناپسند کرتا ہے ) 3۔اس سے عام کہ غیبت کرنے والے کی غرض افساد فی الناس (لوگوں میں فساد ڈالنا ) ہو یا نہ۔ اور نمیمہ و چغلی میں غرض افساد بین الناس ہوتی ہے۔ تو ہر نمیمہ و چغلی غیبت ہے ولا عکس ہر غیبت نمیمہ و چغلی نہیں تو دونوں میں عموم خصوص مطلق والی نسبت ہے۔
عربی کے اعتبار سے صدقہ خاص نیکی ہے ، جبکہ خیرات تمام نیکیوں اور خیرکے کاموں وغیرہ پر بولا جاتا ہے ۔ تو ہر صدقہ ، خیرات میں شامل ہے ۔ جبکہ تمام خیرات صدقہ نہیں۔ اور اگر صدقہ کا معنی بھی ((کل معروف صدقۃ)) والا لے لیا جائے تو پھر دونوں میں کوئی فرق نہیں ۔ البتہ ہمارے اُردو پنجابی عرف میں عام طور پر خیرات کا لفظ صدقہ پر بولا جاتا ہے۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
3 مسلم،کتاب البر باب تحریم الغیبۃ۔
قرآن وحدیث کی روشنی میں احکام ومسائل
جلد 02 ص 787
محدث فتویٰ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
غیبت اور چغلی کے متعلق یہ فتوی دراصل فتح الباری میں امام ابن حجر عسقلانی ؒ کی درج ذیل عبارت سے ماخوذ ہے؛
الفرق بين الغيبة والنَّميمة:
قال الحافظ ابن حجر رحمه الله: "واختلف في الغيبة والنَّميمة، هل هما متغايرتان أو متَّحدتان؟
والراجح التغاير، وأنَّ بينهما عمومًا وخصوصًا وجهيًّا؛ وذلك أن النَّميمة نقلُ حال شخص لغيره على جهة الإفساد بغير رضاه، سواء كان بعلمه أم بغير علمه، والغيبة ذِكرُه في غيبته بما لا يُرضيه، فامتازت النَّميمة بقصد الإفساد، ولا يشترط ذلك في الغيبة، وامتازت الغيبة بكونها في غيبة المقول فيه، واشتركَا فيما عدا ذلك. ومن العلماء مَن يشترط في الغيبة أن يكون المقول فيه غائبًا، والله أعلم"؛ (فتح الباري بشرح صحيح البخاري: 10/ 473).
کیا غیبت اور چغلی ایک چیز ہیں یا دو مختلف فعل ہیں ؟
حافظ صاحب رحمہ اللہ فرماتے ہیں :راجح بات یہ ہے کہ یہ دو علیحدہ کام ہیں ،
اور دونوں کے مابین عموم و خصوص وجہی پایا جاتا ہے ، یعنی نمیمہ ۔چغلی کسی کے حال کو دوسرے تک اس غرض سے پہنچانا کہ فساد پیدا ہو ،اور یہ نقل حال صاحب حال کو ناپسند ہو ۔اور یہ اس کے اسکے علم میں ہو یا نہ ہو برابر ہے ،
اور غیبت محض کسی کی ناپسندیدہ بات دوسرے تک پہنچانے کو کہا جاتا ہے ،
اس طرح چغلی میں فساد ڈلوانے کی غرض ممتاز ہوتی ہے،
جبکہ غیبت میں یہ شرط نہیں پائی جاتی ،
باقی صفات دونوں میں مشترک ہیں
Last edited: