makki pakistani
سینئر رکن
- شمولیت
- مئی 25، 2011
- پیغامات
- 1,323
- ری ایکشن اسکور
- 3,040
- پوائنٹ
- 282
حرمین شریفین کا مقام بہت بلند ہے، مکہ اور مدینہ کی ناموس ہمارے ایمان کا حصہ ہے۔ مکہ کی حرمت اس وجہ سے ہے کہ حج اور عمرہ مکہ میں ادا کیا جاتا ہے جبکہ ہجرت، اسلامی ریاست کی بنیاد اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی آخری آرام گاہ مدینہ منورہ میں ہے۔ علاوہ ازیں جنت البقیع جہاں اصحاب رسولؐ اہل بیتؓ کی محبوب ہستیاں آرام فرما رہی ہیں۔
اسلام کے آغاز سے لیکر آج تک حرمین شریفین کی حفاظت اور دیکھ بھال مسلمانوں کی اولین ذمہ داری چلی آ رہی ہے۔ یہ ذمہ داری صرف ظاہری دیکھ بھال تک محدود نہیں بلکہ ان مقدسات کی طرف اٹھنے والی ہر بری آنکھ سے محفوظ رکھنا بھی تمام مسلمانوں پر فرض ہے۔ ایک طرف تو حرمین شریفین کے لئے اپنا تن من دھن لگانے والوں کی روشن تاریخ ہے جبکہ دوسری جانب انہی مقدسات کے امن کو پراگندہ کرنے والوں کے قابل نفرت اقدامات سے بھی تاریخ کے صفحات بھرے پڑے ہیں۔ انہوں نے اپنے دہشت گردانہ اقدامات سے حاجیوں، نمازیوں اور عبادت میں مصروف افراد کو ڈرایا دھمکایا اور حتی کہ بعض شقی القلب حملہ آوروں نے اپنے اقدامات سے اللہ کے مہمانوں کو خون میں نہلانے سے بھی گریز نہیں کیا۔ ان قبیح اعمال کو دنیا کی آنکھوں سے اوجھل نہیں کیا جا سکتا ہے۔
سامراج کے عزائم بہت خطرناک ہیں۔ سامراجی طاقتیں اس وقت عالم اسلام میں انتہائی خطرناک کھیل کھیل رہی ہیں۔ اس کی شرارتیں کھل کر سامنے آ گئی ہیں۔ عراق اور شام میں یہی کھیل کھیلا جا رہا ہے۔ فلسطین کے صابرہ اور شتیلہ کیمپوں میں جو کچھ بھی ہوا وہ بھی کسی سے مخفی نہیں ہے۔ پھریمن میں جو کھیل کھیلا گیا، یہ کھلم کھلا دہشت گردی نہیں تو اور کیا ہے اور آج مدینۃ الرسولؐ پر حملے نے دنیائے اسلام کو دکھی کردیا۔آج ہمارے ایمان پر حملہ کیا گیا، روضہ رسول، اصحاب رسول اور جنت البقیع میں آرام فرما اہلبیت رضوان اللہ علہیم اجمعین کی حرمت کو پامال کرنے کی جسارت کی گئی۔
اس سے پہلے یمن کے معاملے میں مسلمانوں کو تقسیم کرنے کی کوشش کی گئی، اسے سیاسی جنگ قرار دیا جاتا رہا، ہم تو پہلے ہی کہتے تھے کہ اس جنگ کی آڑ میں حرمین شریفین کا گھیرائو کیا جائے گا۔ یہ ایک عالمی سازش ہے۔ اس بارے میں ہمیں بالکل دو ٹوک موقف اختیار کرنا چاہیے۔ یہ ساری سازش حرمین پر قبضے کے لیے ہے۔ مگر اللہ کی توفیق سے ان کو منہ کی کھانی پڑے گی۔ اس میں وہ ناکام ہوں گے۔ ابرہہ کی اولاد کو کامیابی نہیں ہو گی۔ بات سعودیوں کی بات نہیں ہے، اس وقت ایمان کی بات ہے، اپنے قبلے اور کعبے کے تحفظ کی بات ہے۔ اس میں دو رائے نہیں ہو سکتی۔ اگر ہماری جانوں کی ضرورت پڑے تو سب کو پہنچنا چاہیے، مجھے بھی پہنچنا چاہیے۔ حرمین شریفین کے امن کو پہلی بار تاراج نہیں کیا گیا سب سے پہلے تاراج کرنے والوں میں پہلا نام قرامیطہ کا ہے۔ بحرین کے قرامیطوں نے سنہ ہجری میں مکہ المکرمہ پر حج کے موسم میں حملہ کیا اور اللہ کے مہمانوں کی گردنیں اڑائیں۔ اللہ کے گھر کی توہین کرتے ہوئے غلاف کعبہ اتار لیا۔ حجر اسود کو اس کی جگہ سے نکال لیا اور جاتے ہوئے ساتھ لے گئے۔ اس شہر اورمہینے جس میں قتل و مقاتلہ ممنوع قرار دیا گیا تھا، انہوں نے مقدس شہر کے تیس ہزار شہریوں بشمول حاجیوں کو شہید کیا، خواتین کی بے حرمتی کی اور بچوں کو دھمکایا۔ خانہ خدا سے چرائے حجر اسود کو قرامیطیوں نے 22 برس تک اپنے پاس رکھا۔یہ گروہ کون تھا اس کے ڈانڈے کن سے ملتے ہیں۔ تحقیق کرنے سے سب کچھ پتہ چل سکتا ہے۔ آج بھی انہی کے نظریات کے حامل لوگ یہ سب کچھ کروا رہے ہیں۔
مدینہ پر تازہ حملے سے پوری مسلم دنیا میں تشویش اور سراسیمگی کی لہر دوڑ گئی ہے۔ حملہ آور مسجد نبویؐ میں داخل ہونا چاہتا تھا جہاں ہزاروں زائرین افطاری کے لیے بیٹھے ہوئے تھے۔ سعودی انٹیلی جنس کی بروقت کارروائی اور حکمت عملی نے بڑے نقصان سے بچا لیا۔ بہرحال دن بدن حالات خراب کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ سعودی عرب کے بدخواہوں کے ناپاک ارادے سامنے آرہے ہیں۔ آگے حج بھی آرہا ہے، ان حالات میںسعودی عرب کو سفارتی، سیاسی اور انتظامی لحاظ سے مضبوط کرنیکی ضرورت ہے۔ سعودی حکام نے ماضی میں بھی حملہ آوروں کا ناکام بنایا انشاء اللہ آئندہ بھی ناکام بنائیں گے۔ سعودی عرب کی جانب سے حرمین شریفین کا تحفظ صرف زبانی جمع خرچ نہیں بلکہ اس مقدس فریضے کی جڑیں روشن تاریخ سے جا ملتی ہیں۔ اس کے گواہ مشرق سے لیکر مغرب تک اللہ کے وہ بندے ہیں کہ جو مناسک کی ادائی کے لئے سعودی عرب کا سفر اختیار کرتے ہیں۔ دہشت گردی کا ناسور جہاں مسلم دنیاکو اندون خانہ انواع و اقسام کے بحرانوں سے دوچار کررہا ہے وہی اس کے نتیجے میں مغربی ممالک میں بھی دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔ عالمی برداری کو جہاں مسلمانوں ملکوں میں ہونے والی دہشت گردی کے سدباب میں اپنا مثبت کردار ادا کرنا ہے وہاں عام مسلمانوں پر شکوک وشبہات سے بھی گریز کرنا ہوگا۔ یہ حقیقت ملحوظ خاطر رکھنے کی ضرورت ہے کہ دہشت گردی کا کسی بھی ملک اور مذہب سے تعلق نہیں ہے۔ چنانچہ اس کے لیے لازم ہے کہ اقوام عالم ان عناصر کے خلاف متحد ہوجائیں جو مذہب یا ثقافت سے بڑھ کر انسانیت کے دشمن ہیں۔ سعودی عرب کی سربراہی میں مسلم ممالک کا اتحاد خوش آئند اقدام ہے اس پلیٹ فارم کو فعال بنانیکی ضرورت ہے۔
افسو س ناک امر یہ ہے کہ سعودی سرزمین پر ہونے والی تازہ کاررائیوں نے سعودی عرب نہیں بلکہ حرمین شریفین کے تقدس اور مستقبل کے حوالہ سے بھی کئی سوالات کھڑے کر دیئے ہیں۔ حرمین شریفین کا تقدس اور سعودی عرب کی سا لمیت و وحدت، دو سوال ایسے ہیں جن پر کسی قسم کے تحفظات کا کوئی جواز نہیں بنتا اور ملت اسلامیہ کے اجتماعی مفاد سے دل چسپی رکھنے والا کوئی بھی شخص اس پر تشویش و اضطراب کا اظہار کیے بغیر نہیں رہ سکتا۔ حرمین شریفین کا حسن انتظام کرنے والی حکومت کے گرد جو گھیرا تنگ کیا جا رہا ہے اسے اس سے نکالنے کا اہتمام کیا جائے اور اس کے لیے جو بھی قابل عمل صورت ہو سکے اسے اختیار کرنے سے گریز نہ کیا جائے۔
مرکزی جمعیت اہل حدیث پاکستان سعودی سالمیت کے خلاف کوئی حرکت برداشت نہیں کرے گی۔ ہم عید کے بعد تحفظ حرمین شریفین کیلئے ملک گیر تحریک چلائیں گے، تحریک کی تیاریوں کو حتمی شکل دینے کے لیے 17 جولائی کو لاہور میں مجلس عاملہ کا اجلاس طلب کرلیا ہے۔ تحفظ حرمین شر یفین کے مسئلہ پر او آئی سی کا اجلاس بلا کر مسلم ملکوں کو متفقہ لائحہ عمل قوم کے سامنے لانا چاہیے حرمین شریفین کے تحفظ کے مسئلہ کو سیاسی نہیں بنانا چاہیے۔ سب کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرکے مایوسیاں اور غلط فہمیاں دور کرنے کی ضرورت ہے۔ ہم نے ہمیشہ ہر مسئلہ پر امت مسلمہ کو جوڑنے کی کوشش کی ہے۔ حرمین شریفین کے تحفظ کے معاملہ پر بھی اتحاد و یکجہتی کا ماحول پیدا کرنے کی کوشش کریں گے۔ پاکستان تحفظ حرمین شریفین کے مسئلہ پر کبھی غیر جانبدار نہیں رہ سکتا اور نہ قوم یہ چاہتی ہے کہ سعودی عرب یا حرمین کے بارے میں کوئی دوسری رائے اختیار کی جائے کیونکہ حرمین امت کا مشترکہ مسئلہ ہے۔ امت مسلمہ کے دل حرمین شریفین کے لئے دھڑکتے ہیں۔ ہماری جان، مال، عزت و آبرو حرمین پر قربان ہے۔ اگر حرمین شریفین کو چیلنج در پیش ہوتا ہے تو اس کا دفاع امت مسلمہ کی ذمہ داری ہے اور ایٹمی قوت ہونے کے ناطے پاکستان کی ذمہ داری سب سے زیادہ ہو جاتی ہے۔ ہم نے حرمین شریفین کے حوالے سے مکروہ سازشوں سے ہمیشہ پردہ اٹھایا ہے اور اٹھاتے رہیں گے کیونکہ ہم مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کی سرزمین کی حفاظت کو اپنے ایمان کا حصہ سمجھتے ہیں۔ ہم ہر سطح پر حرمین شریفین کے تحفظ، تقدس اور حرمت کی بات کرتے رہیں گے۔ حرمین شریفین کی طرف میلی آنکھ سے دیکھنے والوں کے ساتھ پاکستانی قیادت اور فوج آہنی ہاتھوں کے ساتھ نپٹے گی۔ انشا اللہ تعالیٰ
(پروفیسر ساجد میر کا مضمون)
اسلام کے آغاز سے لیکر آج تک حرمین شریفین کی حفاظت اور دیکھ بھال مسلمانوں کی اولین ذمہ داری چلی آ رہی ہے۔ یہ ذمہ داری صرف ظاہری دیکھ بھال تک محدود نہیں بلکہ ان مقدسات کی طرف اٹھنے والی ہر بری آنکھ سے محفوظ رکھنا بھی تمام مسلمانوں پر فرض ہے۔ ایک طرف تو حرمین شریفین کے لئے اپنا تن من دھن لگانے والوں کی روشن تاریخ ہے جبکہ دوسری جانب انہی مقدسات کے امن کو پراگندہ کرنے والوں کے قابل نفرت اقدامات سے بھی تاریخ کے صفحات بھرے پڑے ہیں۔ انہوں نے اپنے دہشت گردانہ اقدامات سے حاجیوں، نمازیوں اور عبادت میں مصروف افراد کو ڈرایا دھمکایا اور حتی کہ بعض شقی القلب حملہ آوروں نے اپنے اقدامات سے اللہ کے مہمانوں کو خون میں نہلانے سے بھی گریز نہیں کیا۔ ان قبیح اعمال کو دنیا کی آنکھوں سے اوجھل نہیں کیا جا سکتا ہے۔
سامراج کے عزائم بہت خطرناک ہیں۔ سامراجی طاقتیں اس وقت عالم اسلام میں انتہائی خطرناک کھیل کھیل رہی ہیں۔ اس کی شرارتیں کھل کر سامنے آ گئی ہیں۔ عراق اور شام میں یہی کھیل کھیلا جا رہا ہے۔ فلسطین کے صابرہ اور شتیلہ کیمپوں میں جو کچھ بھی ہوا وہ بھی کسی سے مخفی نہیں ہے۔ پھریمن میں جو کھیل کھیلا گیا، یہ کھلم کھلا دہشت گردی نہیں تو اور کیا ہے اور آج مدینۃ الرسولؐ پر حملے نے دنیائے اسلام کو دکھی کردیا۔آج ہمارے ایمان پر حملہ کیا گیا، روضہ رسول، اصحاب رسول اور جنت البقیع میں آرام فرما اہلبیت رضوان اللہ علہیم اجمعین کی حرمت کو پامال کرنے کی جسارت کی گئی۔
اس سے پہلے یمن کے معاملے میں مسلمانوں کو تقسیم کرنے کی کوشش کی گئی، اسے سیاسی جنگ قرار دیا جاتا رہا، ہم تو پہلے ہی کہتے تھے کہ اس جنگ کی آڑ میں حرمین شریفین کا گھیرائو کیا جائے گا۔ یہ ایک عالمی سازش ہے۔ اس بارے میں ہمیں بالکل دو ٹوک موقف اختیار کرنا چاہیے۔ یہ ساری سازش حرمین پر قبضے کے لیے ہے۔ مگر اللہ کی توفیق سے ان کو منہ کی کھانی پڑے گی۔ اس میں وہ ناکام ہوں گے۔ ابرہہ کی اولاد کو کامیابی نہیں ہو گی۔ بات سعودیوں کی بات نہیں ہے، اس وقت ایمان کی بات ہے، اپنے قبلے اور کعبے کے تحفظ کی بات ہے۔ اس میں دو رائے نہیں ہو سکتی۔ اگر ہماری جانوں کی ضرورت پڑے تو سب کو پہنچنا چاہیے، مجھے بھی پہنچنا چاہیے۔ حرمین شریفین کے امن کو پہلی بار تاراج نہیں کیا گیا سب سے پہلے تاراج کرنے والوں میں پہلا نام قرامیطہ کا ہے۔ بحرین کے قرامیطوں نے سنہ ہجری میں مکہ المکرمہ پر حج کے موسم میں حملہ کیا اور اللہ کے مہمانوں کی گردنیں اڑائیں۔ اللہ کے گھر کی توہین کرتے ہوئے غلاف کعبہ اتار لیا۔ حجر اسود کو اس کی جگہ سے نکال لیا اور جاتے ہوئے ساتھ لے گئے۔ اس شہر اورمہینے جس میں قتل و مقاتلہ ممنوع قرار دیا گیا تھا، انہوں نے مقدس شہر کے تیس ہزار شہریوں بشمول حاجیوں کو شہید کیا، خواتین کی بے حرمتی کی اور بچوں کو دھمکایا۔ خانہ خدا سے چرائے حجر اسود کو قرامیطیوں نے 22 برس تک اپنے پاس رکھا۔یہ گروہ کون تھا اس کے ڈانڈے کن سے ملتے ہیں۔ تحقیق کرنے سے سب کچھ پتہ چل سکتا ہے۔ آج بھی انہی کے نظریات کے حامل لوگ یہ سب کچھ کروا رہے ہیں۔
مدینہ پر تازہ حملے سے پوری مسلم دنیا میں تشویش اور سراسیمگی کی لہر دوڑ گئی ہے۔ حملہ آور مسجد نبویؐ میں داخل ہونا چاہتا تھا جہاں ہزاروں زائرین افطاری کے لیے بیٹھے ہوئے تھے۔ سعودی انٹیلی جنس کی بروقت کارروائی اور حکمت عملی نے بڑے نقصان سے بچا لیا۔ بہرحال دن بدن حالات خراب کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ سعودی عرب کے بدخواہوں کے ناپاک ارادے سامنے آرہے ہیں۔ آگے حج بھی آرہا ہے، ان حالات میںسعودی عرب کو سفارتی، سیاسی اور انتظامی لحاظ سے مضبوط کرنیکی ضرورت ہے۔ سعودی حکام نے ماضی میں بھی حملہ آوروں کا ناکام بنایا انشاء اللہ آئندہ بھی ناکام بنائیں گے۔ سعودی عرب کی جانب سے حرمین شریفین کا تحفظ صرف زبانی جمع خرچ نہیں بلکہ اس مقدس فریضے کی جڑیں روشن تاریخ سے جا ملتی ہیں۔ اس کے گواہ مشرق سے لیکر مغرب تک اللہ کے وہ بندے ہیں کہ جو مناسک کی ادائی کے لئے سعودی عرب کا سفر اختیار کرتے ہیں۔ دہشت گردی کا ناسور جہاں مسلم دنیاکو اندون خانہ انواع و اقسام کے بحرانوں سے دوچار کررہا ہے وہی اس کے نتیجے میں مغربی ممالک میں بھی دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔ عالمی برداری کو جہاں مسلمانوں ملکوں میں ہونے والی دہشت گردی کے سدباب میں اپنا مثبت کردار ادا کرنا ہے وہاں عام مسلمانوں پر شکوک وشبہات سے بھی گریز کرنا ہوگا۔ یہ حقیقت ملحوظ خاطر رکھنے کی ضرورت ہے کہ دہشت گردی کا کسی بھی ملک اور مذہب سے تعلق نہیں ہے۔ چنانچہ اس کے لیے لازم ہے کہ اقوام عالم ان عناصر کے خلاف متحد ہوجائیں جو مذہب یا ثقافت سے بڑھ کر انسانیت کے دشمن ہیں۔ سعودی عرب کی سربراہی میں مسلم ممالک کا اتحاد خوش آئند اقدام ہے اس پلیٹ فارم کو فعال بنانیکی ضرورت ہے۔
افسو س ناک امر یہ ہے کہ سعودی سرزمین پر ہونے والی تازہ کاررائیوں نے سعودی عرب نہیں بلکہ حرمین شریفین کے تقدس اور مستقبل کے حوالہ سے بھی کئی سوالات کھڑے کر دیئے ہیں۔ حرمین شریفین کا تقدس اور سعودی عرب کی سا لمیت و وحدت، دو سوال ایسے ہیں جن پر کسی قسم کے تحفظات کا کوئی جواز نہیں بنتا اور ملت اسلامیہ کے اجتماعی مفاد سے دل چسپی رکھنے والا کوئی بھی شخص اس پر تشویش و اضطراب کا اظہار کیے بغیر نہیں رہ سکتا۔ حرمین شریفین کا حسن انتظام کرنے والی حکومت کے گرد جو گھیرا تنگ کیا جا رہا ہے اسے اس سے نکالنے کا اہتمام کیا جائے اور اس کے لیے جو بھی قابل عمل صورت ہو سکے اسے اختیار کرنے سے گریز نہ کیا جائے۔
مرکزی جمعیت اہل حدیث پاکستان سعودی سالمیت کے خلاف کوئی حرکت برداشت نہیں کرے گی۔ ہم عید کے بعد تحفظ حرمین شریفین کیلئے ملک گیر تحریک چلائیں گے، تحریک کی تیاریوں کو حتمی شکل دینے کے لیے 17 جولائی کو لاہور میں مجلس عاملہ کا اجلاس طلب کرلیا ہے۔ تحفظ حرمین شر یفین کے مسئلہ پر او آئی سی کا اجلاس بلا کر مسلم ملکوں کو متفقہ لائحہ عمل قوم کے سامنے لانا چاہیے حرمین شریفین کے تحفظ کے مسئلہ کو سیاسی نہیں بنانا چاہیے۔ سب کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرکے مایوسیاں اور غلط فہمیاں دور کرنے کی ضرورت ہے۔ ہم نے ہمیشہ ہر مسئلہ پر امت مسلمہ کو جوڑنے کی کوشش کی ہے۔ حرمین شریفین کے تحفظ کے معاملہ پر بھی اتحاد و یکجہتی کا ماحول پیدا کرنے کی کوشش کریں گے۔ پاکستان تحفظ حرمین شریفین کے مسئلہ پر کبھی غیر جانبدار نہیں رہ سکتا اور نہ قوم یہ چاہتی ہے کہ سعودی عرب یا حرمین کے بارے میں کوئی دوسری رائے اختیار کی جائے کیونکہ حرمین امت کا مشترکہ مسئلہ ہے۔ امت مسلمہ کے دل حرمین شریفین کے لئے دھڑکتے ہیں۔ ہماری جان، مال، عزت و آبرو حرمین پر قربان ہے۔ اگر حرمین شریفین کو چیلنج در پیش ہوتا ہے تو اس کا دفاع امت مسلمہ کی ذمہ داری ہے اور ایٹمی قوت ہونے کے ناطے پاکستان کی ذمہ داری سب سے زیادہ ہو جاتی ہے۔ ہم نے حرمین شریفین کے حوالے سے مکروہ سازشوں سے ہمیشہ پردہ اٹھایا ہے اور اٹھاتے رہیں گے کیونکہ ہم مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کی سرزمین کی حفاظت کو اپنے ایمان کا حصہ سمجھتے ہیں۔ ہم ہر سطح پر حرمین شریفین کے تحفظ، تقدس اور حرمت کی بات کرتے رہیں گے۔ حرمین شریفین کی طرف میلی آنکھ سے دیکھنے والوں کے ساتھ پاکستانی قیادت اور فوج آہنی ہاتھوں کے ساتھ نپٹے گی۔ انشا اللہ تعالیٰ
(پروفیسر ساجد میر کا مضمون)
Last edited by a moderator: