محمد فیض الابرار
سینئر رکن
- شمولیت
- جنوری 25، 2012
- پیغامات
- 3,039
- ری ایکشن اسکور
- 1,234
- پوائنٹ
- 402
پارہ نمبر بارہ: سورہ ھود آیت نمبر 01تا 123 اور سورہ یوسف آیت نمبر 01 تا 52
تعارف سورۃ ھود
یہ سورت مکی ہے سابقہ اقوام کے واقعات سورۃ الاعراف میں بھی تفصیل سے بیان کیے جا چکے ہیں۔ سورۂ یونس میں جن پیغمبروں کے واقعات اختصار کے ساتھ بیان ہوئے تھے اس سورت میں انہیں تفصیل کے ساتھ بیان کیاگیا ہے۔خاص طور پر نوح ، ہود، صالح ، شعیب اور لوط علیہم السلام کے واقعات زیادہ تفصیل سے انتہائی بلیغ اور مؤثر اسلوب میں بیان فرمائے گئے ہیں۔
اللہ تعالی کی نافرمانی زور آور قوموں کو تباہ کرچکی ہے اورجب انسان اس نافرمانی کی وجہ سے اللہ تعالی کے قہر اور عذاب کا مستحق ہوجائے تو خواہ وہ کتنے بڑے رسول سے قریبی رشتہ رکھتا ہو اس کا یہ رشتہ اسے عذاب الہی سے نہیں بچاسکتا جیسا کہ نوح علیہ السلام کے بیٹے کو نہیں بچاسکا۔اس سورت میں عذاب الہی کے واقعات اتنے مؤثر انداز میں بیان ہوئے ہیں اور دین پر استقامت کا حکم اتنی تاکید سے فرمایا گیا ہے کہ ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کے مجھے سورۂ ہود او راس جیسی سورتوں نے بوڑھا کردیا ہے۔ان سورتوں میں جو تنبیہ کی گئی ہے اس کی بنا پر آپ کواپنی امت کے بارے میں بھی یہ خوف لگا ہوا تھا کہ کہیں وہ بھی اپنی نافرمانی کی وجہ سے اسی طرح کے کسی عذاب کا شکار نہ ہوجائے۔
نمبر ایک : قرآن کا جامع تعارف 01
ایک کتاب کی صورت میں ہے، اس کی آیات حکمت والی ہیں، اس کی توضیح و تفسیر بھی اللہ نے کی ہے، یہ اللہ کی طرف سے نازل کردہ ہے
نمبر دو: آسمان و زمین کی پیدائش چھ دن میں ہوئی اور اس سے قبل اللہ تعالی کا عرش پانی پر تھا جس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ عرش الہی اور پانی آسمان و زمین کی تخلیق سے قبل موجود تھے اور ایک حدیث کے مطابق عرش الہی ، پانی اور قلم کے بعد آسمان و زمین کی تخلیق ہوئی 07
نمبر تین : قرآن مجید اپنی آیات، معانی، اور مضامین کے اعتبار سے محکم اور منزل من اللہ ہے اور اس میں کوئی فساد اور خلل نہیں داخل ہو سکا اور نہ ہی اس میں کوئی تناقض و تعارض ہےاور اس کی تفسیر چار پہلووں سے ممکن ہے قرآن سے، حدیث سے، اقوال صحابہ سے ، اقوال لغت سے 13
نمبر چار: نوح علیہ السلام کا اپنی قوم کو دعوت دینا اور ان کی قوم کا ردعمل اور پھر عذاب الہی ، آیات 25 تا 49
نمبر پانچ : دین کی طرف دعوت دینے والا معاوضہ طلب نہ کرے کیونکہ یہ اخلاص کے منافی رویہ ہے لہذا دعوت دین میں منافی رویے شہرت، ریاکاری، تعریف ، معاوضہ طلب کرنا ان سب سے اجتناب کرنا اسوہ انبیاء ہے 29،51
نمبر چھ : نافرمان اولاد کو کیسے مخاطب کیا جائے جیسا کہ نوح علیہ السلام نے اپنے کافر بیٹے کو مخاطب کیا اے میرے پیارے بیٹے، تو تربیت اولاد میں اسے محبت سے پکارنا بہت اہم ہے، اگر اولاد کو گھر سے محبت، احترام ملتا ہے تو وہ گھر سے باہر اسے تلاش نہیں کرتے 42
نمبر سات : دعائے نوح اور دعائے آدم علیہ السلام میں مشابہت ، غلطی ہونے پر فوری طور پر توبہ اور استغفاراور رحم الہی کی طلب47
نمبر آٹھ : قوم عاد کا قصہ آیت نمبر 50 تا 60
نمبر نو : استغفار سے رزق کی فراوانی ہوتی ہے اور قوت حاصل ہوتی ہے یہ قوت اولاد کی صورت میں ہویا مال کی صورت میں 52
نمبر دس: قوم ثمود کا قصہ ، آیت نمبر 61 تا 68
نمبر گیارہ : قصہ ابراہیم و لوط علیہما السلام آیات نمبر 69 تا 83
نمبر بارہ : قصہ قوم شعیب علیہ السلام آیات نمبر 84 تا 95
نمبر تیرہ : عقیدہ آخرت کی وضاحت اور بعض شبہات کا ازالہ آیات نمبر 99 تا 108
نمبر چودہ : آیت اوقات نماز 114
دن کے دونوں سروں سے مراد صبح کی اور مغرب کی نماز ہے ۔ رات کی گھڑیوں سے مراد عشاء کی نما ز مراد ہے ۔یہ اس اعتبار سے کہ اس وقت نماز پنجگانہ فرض نہیں ہوئی تھی اور ایک تفسیر یہ بھی ہے کہ دن کے دونوں سروں پر فجر اور عصر کے اوقات ہیں جبکہ رات میں مغرب اور عشاء شامل ہیں۔ لیکن یہ یاد رہے کہ پانچ نمازوں کا موجودہ نظام گیارہ نبوی میں معراج کے بعد قائم ہوا ہے۔ اس سے پہلے مکی دور میں تقریباً ساڑھے دس برس تک نمازوں کے بارے میں جو احکام نازل ہوئے وہ اسی نوعیت کے ہیں
نمبر پندرہ : برائیوں کو نیکیوں سے ختم کیا جانا چاہیے114
سورہ یوسف (تعارف )
یہ سورت مکی ہے دراصل بنو اسرائیل کے جد امجد یعقوب علیہ السلام تھے ان کے بارہ صاحبزادے تھے انہی کی نسل سے بنو اسرائیل کے بارہ قبیلے پیدا ہوئے یعقوب علیہ السلام اپنے صاحبزادوں کے ساتھ فلسطین میں مقیم تھے جن میں یوسف علیہ السلام اورانکے بھائی شامل تھے ان کے سوتیلے بھائیوں نے سازش کرکے یوسف علیہ السلام کو ایک کنویں میں ڈال دیا جہاں سے ایک قافلے نے انہیں اٹھاکر مصر کے ایک سردار کے ہاتھ بیچ دیا شروع میں وہ غلامی کی زندگی گزارتے رہے لیکن اُس واقعے کے تحت جس کی تفصیل اس سورت میں آرہی ہے اُس سردار کی بیوی زلیخا نے انہیں گرفتار کرکے جیل بھجوادیا اللہ تعالی کا کرنا ایسا ہوا کہ مصر کے بادشاہ کے ایک خواب کی صحیح تعبیر دینے پر بادشاہ ان پر مہربان ہوا اورانہیں نہ صرف جیل سے نکال کر باعزت بری کردیا بلکہ انہیں اپنا وزیر خزانہ مقرر کیا اور بعد میں حکومت کے سارےاختیارات انہی کو سونپ دئے اس کے بعد یوسف علیہ السلام نے اپنے والدین کو فلسطین سے مصر بلوالیا اس طرح بنو اسرائیل فلسطین سے مصر منتقل ہوگئے۔
سورۂ یوسف کا مرکزی خیال یہ ہے کہ ا س واقعے کو اتنی تفصیل کے ساتھ بیان کرکے اللہ تعالی نے ان کافروں پر ایک حجت قائم فرمادی ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کا انکار کرتے تھے اس کے علاوہ مکہ مکرمہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کرام کو کفار مکہ کی طرف سے جن تکلیفوں کا سامنا کرنا پڑرہا تھاان کے پیش نظر اس واقعے میں آپ کے لئے تسلی کا بھی بڑا سامان تھا کہ یوسف علیہ السلام اپنے بھائیوں کی سازش کے نتیجے میں بڑے سخت حالات سے گزرے لیکن آخر کار اللہ تعالی نے انہی کو عزت شوکت او ر سربلندی عطا فرمائی او رجن لوگوں نے انہیں تکلیفوں کا نشانہ بنایاتھا ان سب کو ان کے آگے جھکنا پڑا اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اگرچہ مکہ مکرمہ میں تکلیفیں اٹھانی پڑرہی ہیں لیکن آخر کار یہ سازشی لوگ آپ ہی کے سامنے جھکیں گے اور حق غالب ہوکر رہے گا اس کے علاوہ بھی اس واقعے میں مسلمانوں کے لئے بہت سے سبق ہیں اور شاید اسی لئے اللہ تعالی نے اس کو بہترین قصہ قرار دیا ہے۔
نمبر سولہ : یوسف علیہ السلام کا خواب دیکھنا اور یعقوب علیہ السلام سے بیان کرنا اس مکالمہ میں خواب دیکھنے کے حوالے سے آداب موجود ہیں 04 تا 05
نمبر سترہ : یوسف علیہ السلام کا خواب اور بھائیوں کی سازش 03 تا 20
نمبر اٹھارہ ؛ آزمائش سرزمین مصر اور جیل میں اشاعت توحید اور خزائن مصر کی امانت کا حصول 21 تا 57
نمبر انیس : مومن کو مضبوط کردار کا مالک ہونا چاہیے جب کوئی دعوت گناہ یعنی زنا کی صورت میں سامنے آئے تو اسوہ یوسفی کو اختیار کرے (معاذ اللہ ) اور فرمان رسالت کی بشارت کے حامل اس شخص جیسا بننے کی کوشش کرے جو آخرت میں عرش الہی کے سایہ تلے ہو گا جسے کسی خوبصورت مالدار عورت نے دعوت گناہ دی اور وہ یہ کہے کہ انی اخاف اللہ ، یہ حکم مرد و عورت دونوں کے لیے ہے یعنی اگر کسی عورت کو کوئی مالدار مرد دعوت گناہ دے تو اسے بھی یہی اسوہ اختیار کرنا چاہیے 23
نمبر بیس : کردار پر داغ لگنا گوارا نہ کیا جیل کی قید گوارا کر لی یعنی کردار بے داغ رہے خواہ اس کے لیے کتنی ہی آزمائشوں سے گزرنا پڑے 33
آج کا پیغام : اولاد کو محبت اوراحترام سے پکارنا چاہیے تاکہ یہ اعتماد انہیں اپنے گھر سے مل سکے
تعارف سورۃ ھود
یہ سورت مکی ہے سابقہ اقوام کے واقعات سورۃ الاعراف میں بھی تفصیل سے بیان کیے جا چکے ہیں۔ سورۂ یونس میں جن پیغمبروں کے واقعات اختصار کے ساتھ بیان ہوئے تھے اس سورت میں انہیں تفصیل کے ساتھ بیان کیاگیا ہے۔خاص طور پر نوح ، ہود، صالح ، شعیب اور لوط علیہم السلام کے واقعات زیادہ تفصیل سے انتہائی بلیغ اور مؤثر اسلوب میں بیان فرمائے گئے ہیں۔
اللہ تعالی کی نافرمانی زور آور قوموں کو تباہ کرچکی ہے اورجب انسان اس نافرمانی کی وجہ سے اللہ تعالی کے قہر اور عذاب کا مستحق ہوجائے تو خواہ وہ کتنے بڑے رسول سے قریبی رشتہ رکھتا ہو اس کا یہ رشتہ اسے عذاب الہی سے نہیں بچاسکتا جیسا کہ نوح علیہ السلام کے بیٹے کو نہیں بچاسکا۔اس سورت میں عذاب الہی کے واقعات اتنے مؤثر انداز میں بیان ہوئے ہیں اور دین پر استقامت کا حکم اتنی تاکید سے فرمایا گیا ہے کہ ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کے مجھے سورۂ ہود او راس جیسی سورتوں نے بوڑھا کردیا ہے۔ان سورتوں میں جو تنبیہ کی گئی ہے اس کی بنا پر آپ کواپنی امت کے بارے میں بھی یہ خوف لگا ہوا تھا کہ کہیں وہ بھی اپنی نافرمانی کی وجہ سے اسی طرح کے کسی عذاب کا شکار نہ ہوجائے۔
نمبر ایک : قرآن کا جامع تعارف 01
ایک کتاب کی صورت میں ہے، اس کی آیات حکمت والی ہیں، اس کی توضیح و تفسیر بھی اللہ نے کی ہے، یہ اللہ کی طرف سے نازل کردہ ہے
نمبر دو: آسمان و زمین کی پیدائش چھ دن میں ہوئی اور اس سے قبل اللہ تعالی کا عرش پانی پر تھا جس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ عرش الہی اور پانی آسمان و زمین کی تخلیق سے قبل موجود تھے اور ایک حدیث کے مطابق عرش الہی ، پانی اور قلم کے بعد آسمان و زمین کی تخلیق ہوئی 07
نمبر تین : قرآن مجید اپنی آیات، معانی، اور مضامین کے اعتبار سے محکم اور منزل من اللہ ہے اور اس میں کوئی فساد اور خلل نہیں داخل ہو سکا اور نہ ہی اس میں کوئی تناقض و تعارض ہےاور اس کی تفسیر چار پہلووں سے ممکن ہے قرآن سے، حدیث سے، اقوال صحابہ سے ، اقوال لغت سے 13
نمبر چار: نوح علیہ السلام کا اپنی قوم کو دعوت دینا اور ان کی قوم کا ردعمل اور پھر عذاب الہی ، آیات 25 تا 49
نمبر پانچ : دین کی طرف دعوت دینے والا معاوضہ طلب نہ کرے کیونکہ یہ اخلاص کے منافی رویہ ہے لہذا دعوت دین میں منافی رویے شہرت، ریاکاری، تعریف ، معاوضہ طلب کرنا ان سب سے اجتناب کرنا اسوہ انبیاء ہے 29،51
نمبر چھ : نافرمان اولاد کو کیسے مخاطب کیا جائے جیسا کہ نوح علیہ السلام نے اپنے کافر بیٹے کو مخاطب کیا اے میرے پیارے بیٹے، تو تربیت اولاد میں اسے محبت سے پکارنا بہت اہم ہے، اگر اولاد کو گھر سے محبت، احترام ملتا ہے تو وہ گھر سے باہر اسے تلاش نہیں کرتے 42
نمبر سات : دعائے نوح اور دعائے آدم علیہ السلام میں مشابہت ، غلطی ہونے پر فوری طور پر توبہ اور استغفاراور رحم الہی کی طلب47
نمبر آٹھ : قوم عاد کا قصہ آیت نمبر 50 تا 60
نمبر نو : استغفار سے رزق کی فراوانی ہوتی ہے اور قوت حاصل ہوتی ہے یہ قوت اولاد کی صورت میں ہویا مال کی صورت میں 52
نمبر دس: قوم ثمود کا قصہ ، آیت نمبر 61 تا 68
نمبر گیارہ : قصہ ابراہیم و لوط علیہما السلام آیات نمبر 69 تا 83
نمبر بارہ : قصہ قوم شعیب علیہ السلام آیات نمبر 84 تا 95
نمبر تیرہ : عقیدہ آخرت کی وضاحت اور بعض شبہات کا ازالہ آیات نمبر 99 تا 108
نمبر چودہ : آیت اوقات نماز 114
دن کے دونوں سروں سے مراد صبح کی اور مغرب کی نماز ہے ۔ رات کی گھڑیوں سے مراد عشاء کی نما ز مراد ہے ۔یہ اس اعتبار سے کہ اس وقت نماز پنجگانہ فرض نہیں ہوئی تھی اور ایک تفسیر یہ بھی ہے کہ دن کے دونوں سروں پر فجر اور عصر کے اوقات ہیں جبکہ رات میں مغرب اور عشاء شامل ہیں۔ لیکن یہ یاد رہے کہ پانچ نمازوں کا موجودہ نظام گیارہ نبوی میں معراج کے بعد قائم ہوا ہے۔ اس سے پہلے مکی دور میں تقریباً ساڑھے دس برس تک نمازوں کے بارے میں جو احکام نازل ہوئے وہ اسی نوعیت کے ہیں
نمبر پندرہ : برائیوں کو نیکیوں سے ختم کیا جانا چاہیے114
سورہ یوسف (تعارف )
یہ سورت مکی ہے دراصل بنو اسرائیل کے جد امجد یعقوب علیہ السلام تھے ان کے بارہ صاحبزادے تھے انہی کی نسل سے بنو اسرائیل کے بارہ قبیلے پیدا ہوئے یعقوب علیہ السلام اپنے صاحبزادوں کے ساتھ فلسطین میں مقیم تھے جن میں یوسف علیہ السلام اورانکے بھائی شامل تھے ان کے سوتیلے بھائیوں نے سازش کرکے یوسف علیہ السلام کو ایک کنویں میں ڈال دیا جہاں سے ایک قافلے نے انہیں اٹھاکر مصر کے ایک سردار کے ہاتھ بیچ دیا شروع میں وہ غلامی کی زندگی گزارتے رہے لیکن اُس واقعے کے تحت جس کی تفصیل اس سورت میں آرہی ہے اُس سردار کی بیوی زلیخا نے انہیں گرفتار کرکے جیل بھجوادیا اللہ تعالی کا کرنا ایسا ہوا کہ مصر کے بادشاہ کے ایک خواب کی صحیح تعبیر دینے پر بادشاہ ان پر مہربان ہوا اورانہیں نہ صرف جیل سے نکال کر باعزت بری کردیا بلکہ انہیں اپنا وزیر خزانہ مقرر کیا اور بعد میں حکومت کے سارےاختیارات انہی کو سونپ دئے اس کے بعد یوسف علیہ السلام نے اپنے والدین کو فلسطین سے مصر بلوالیا اس طرح بنو اسرائیل فلسطین سے مصر منتقل ہوگئے۔
سورۂ یوسف کا مرکزی خیال یہ ہے کہ ا س واقعے کو اتنی تفصیل کے ساتھ بیان کرکے اللہ تعالی نے ان کافروں پر ایک حجت قائم فرمادی ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کا انکار کرتے تھے اس کے علاوہ مکہ مکرمہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کرام کو کفار مکہ کی طرف سے جن تکلیفوں کا سامنا کرنا پڑرہا تھاان کے پیش نظر اس واقعے میں آپ کے لئے تسلی کا بھی بڑا سامان تھا کہ یوسف علیہ السلام اپنے بھائیوں کی سازش کے نتیجے میں بڑے سخت حالات سے گزرے لیکن آخر کار اللہ تعالی نے انہی کو عزت شوکت او ر سربلندی عطا فرمائی او رجن لوگوں نے انہیں تکلیفوں کا نشانہ بنایاتھا ان سب کو ان کے آگے جھکنا پڑا اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اگرچہ مکہ مکرمہ میں تکلیفیں اٹھانی پڑرہی ہیں لیکن آخر کار یہ سازشی لوگ آپ ہی کے سامنے جھکیں گے اور حق غالب ہوکر رہے گا اس کے علاوہ بھی اس واقعے میں مسلمانوں کے لئے بہت سے سبق ہیں اور شاید اسی لئے اللہ تعالی نے اس کو بہترین قصہ قرار دیا ہے۔
نمبر سولہ : یوسف علیہ السلام کا خواب دیکھنا اور یعقوب علیہ السلام سے بیان کرنا اس مکالمہ میں خواب دیکھنے کے حوالے سے آداب موجود ہیں 04 تا 05
نمبر سترہ : یوسف علیہ السلام کا خواب اور بھائیوں کی سازش 03 تا 20
نمبر اٹھارہ ؛ آزمائش سرزمین مصر اور جیل میں اشاعت توحید اور خزائن مصر کی امانت کا حصول 21 تا 57
نمبر انیس : مومن کو مضبوط کردار کا مالک ہونا چاہیے جب کوئی دعوت گناہ یعنی زنا کی صورت میں سامنے آئے تو اسوہ یوسفی کو اختیار کرے (معاذ اللہ ) اور فرمان رسالت کی بشارت کے حامل اس شخص جیسا بننے کی کوشش کرے جو آخرت میں عرش الہی کے سایہ تلے ہو گا جسے کسی خوبصورت مالدار عورت نے دعوت گناہ دی اور وہ یہ کہے کہ انی اخاف اللہ ، یہ حکم مرد و عورت دونوں کے لیے ہے یعنی اگر کسی عورت کو کوئی مالدار مرد دعوت گناہ دے تو اسے بھی یہی اسوہ اختیار کرنا چاہیے 23
نمبر بیس : کردار پر داغ لگنا گوارا نہ کیا جیل کی قید گوارا کر لی یعنی کردار بے داغ رہے خواہ اس کے لیے کتنی ہی آزمائشوں سے گزرنا پڑے 33
آج کا پیغام : اولاد کو محبت اوراحترام سے پکارنا چاہیے تاکہ یہ اعتماد انہیں اپنے گھر سے مل سکے