شیطان انسان کا ازلی اور اصلی دشمن ہے، شیطان کا وجوداور اس کے وسوسے انسان کے لیے چیلنج ہیں، رسول اللہﷺنے فرمایا:’’ اے لوگو! اپنے رب سے ڈرو اور اس دن کا خوف کرو جب نہ تو باپ اپنے بیٹے کے اور نہ بیٹا باپ کے کچھ کا م آسکے گا، بے شک اللہ کا وعدہ سچا ہے پس دنیا کی زندگی تم کو دھوکے میں نہ ڈال دے اور نہ فریب دینے والا(شیطان)تمہیں اللہ کے بارے میں کسی طرح کا فریب دے‘‘[لقمان :33]۔
اس لیے اللہ تعالیٰ نے شیطان کو دشمن سمجھنے کاحکم دیا اور فرمایا:’’شیطان انسان کے اندر خون کی طرح گردش کرتا ہے‘‘ (بخاری: 2035، مسلم: 2175)
معلوم ہوا کہ گناہوں کے ارتکاب کا سب سے بڑا سبب اللہ کے حضور پیش آنے والے حالات سے غفلت، بے علمی اورایمان کی کمزوری ہے، اس لیے اللہ تعالیٰ نے قرآن حکیم میں بار بار جنت اور جہنم کے احوال بیان فرمائے ہیں۔’’مجھ پر جنت او رجہنم پیش کیے گئے تو میں نے خیرو شر کے سلسلے میں آج جیسا منظر کبھی نہیں دیکھا، اور جو کچھ میں جانتا ہوں اگر تم لوگ جان جاؤ تو تھوڑا ہنسو اور زیادہ روؤ‘‘(مسلم: 2359، بخاری: 4621)
اہل ایمان کو یاد رکھنا چاہئے کہ جہنم کا ایک لمحہ تو دور کی بات ہے اس کی صرف ایک جھلک ہی انسان کو دنیا کی ساری نعمتیں آسائشیں اور عیش و عشرت بھلا دینے کے لیے کافی ہے اس لیے مسلمان کو اپنے ایمان کی آبیاری قرآن و سنت اور سیرت صحابہ سے کرتے رہنا چاہیے ، تاکہ ایمان خالص سے وجود پذیر شجرۃ طیبہ کی بلندیاں آسمان کو چھوتی رہیں، اور اس کے خوشبودار اور لذیذ پھل ہر دم اترتے رہیں ، اور وہ حقیقی مسلم بننے کی کوشش کرتا رہے،حقیقی مسلمان وہ ہے جو ایمان لانے کے بعد عمل صالح کرتا ہے۔’’اے ہمارے رب ! ہم نے ایمان کی طرف دعوت دینے والے کی پکار سنی کہ اپنے رب پر ایمان لاؤ سو ہم ایمان لے آئے‘‘ (آل عمران: 193)
لا الہٰ الا اللہ درحقیقت ایمانیات کا عنوان ہے ۔اس کے تحت موت کےبعد کی زندگی ،جنت،جہنم،کتابوں،رسولوں اور فرشتوں پر ایمان شامل ہے۔جب ایک مسلمان ان باتوں پر ایمان لائے گا تو وہ جہنم کے عذاب سے بچ سکے گا۔جب تک بندہ چار باتوں پر ایمان نہ لائے ایماندار نہیں ہو سکتا۔اس بات کی گواہی دے کہ(۱) اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور(۲) میں اللہ کا رسول ہوں اور اس نے مجھے حق کے ساتھ بھیجا ہے (۳) موت پر اور موت کے بعد دوبارہ زندہ ہونے پر(۴) اور تقدیر پرایمان رکھتا ہو۔(ترمذی ۲۱۴۵،ابن ماجہ ۸۱)
س : اللہ تعالیٰ نے انبیاء کرام علیہ السلام کو دنیا میں کیوں بھیجا؟معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں ایک دن نبی اکرم ﷺکے ساتھ گدھے پر سوار تھا، آپ نے مجھ سے فرمایا: معاذ تمہیں معلوم ہے کہ اللہ کا بندوں پر کیا حق ہے اور بندوں کا اللہ پر کیا حق ہے، میں نے کہا اللہ اور اس کا رسول خوب جانتے ہیں، آپ نے فرمایا: اللہ کا حق بندوں پر یہ ہے کہ صرف اسی کی عبادت کریں اور کسی کو اس کا شریک نہ کریں اور اللہ پر بندوں کا حقیہ ہے کہ جو کوئی شرک نہ کرے اسے عذاب نہ دے، میں نے عرض کیا کہ کیا میں لوگوں کو اس کی خوشخبری نہ دے دوں، آپ نے فرمایا، نہیں ایسا نہ ہو کہ لوگ اسی پر بھروسہ کر لیں‘‘[بخاری: 2856، مسلم: 30]۔
انبیاء کرام علیہما السلام کو مبعوث کرنے کا مقصد ہی یہ ہے کہ لوگوں کو توحید کی دعوت دی جائے اور لوگ اللہ کے سوا کسی اور کی عبادت نہ کریں۔گویا توحید تمام رسولوں کی دعوت کا موضوع رہا ہے:اور ہم نے آپ سے پہلے جو رسول بھیجے ان کی طرف یہی وحی کی کہ میرے سوا کوئی الٰہ نہیں، پس میری ہی عبادت کرو‘‘ [الأنبیاء: 25]۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:جس طرح وضو کرنا اور قبلہ رخ ہونا نماز کی شروط ہیں جو انہیں جان بوجھ کر پورا نہ کرے اس کی نماز نہیں ہوتی۔اسی طرح اسلام کے ہر عمل کی قبولیت کے لیئے چند شروط ہوتی ہیں جن کو پورا کئے بغیر وہ عمل شریعت کی نظر میں معتبر نہیں ہوتا ۔کلمہ کی شروط سے مراد وہ باتیں ہیں جو کلمہ کے الفاظ کی ادائیگی کے وقت مطلوب ہوں ۔اگر ان شروط کو پورا کئے بغیر کلمہ پڑا تو اس کلمہ کا اعتبار نہیں۔شروط کے بغیر کلمہ پڑھنے سے نہ نماز، روزہ،حج اور زکوٰۃ جیسے اعمال قبول ہوں گے۔نہ ہی جہنم کے عذاب سے نجات پا کر جنت میں داخلہ ہو گا۔ان شروط کے ساتھ کلمہ کا اقرار کرنے والا دین اسلام میں داخل ہو تا ہے اور اس پر لازم ہے کہ موت تک اس توحید کی گواہی پر قائم رہے ۔
سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا کہ:معلوم ہوا کہ کفر سے نکل آنے اور ایمان میں داخل ہو کر اپنے درجات بلند کرنے کے لیے علم اور اللہ کی معرفت شرط اول ہے۔
آپ کی اس دعوت کو سن کر مشرکین عرب نے جان لیا کہ نبی کریم ﷺ کی دعوت کیا ہے ۔وہ ہمیں کس بات کی طرف بلا رہا ہے۔صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بھی اس بات کے محتاج تھے کہ وہ الہٰ کے معنی سمجھیں حالانکہ اہل عرب تھے ۔آپ ﷺ نے جب صفا کی پہاڑی پر کھڑے ہو کر آواز دی :۔ اے قریشیو! آپ کی آواز پر لوگ جمع ہو گئے ۔آپ نے ان سے سوال کیا کہ ’’اگر میں تم سے کہوں کہ پہاڑ کی پشت سے ایک لشکر جرار آرہا ہے ‘ تو کیا تم کو یقین آئے گا؟سب نے ایک زبان ہو کر جواب دیا ’’ ہم نے تم کو ہمیشہ سچ ہی بولتے پایا ہے ۔‘‘ فرمایا میں تم سے کہتا ہوں کہ اگر تم ایمان نہ لاؤ گے تو تم پر سخت عذاب نازل ہو۔گا۔(بخاری :۲۰۸)
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’ ان لوگون نے اللہ کو چھوڑ کر اپنے عالموں اور درویشوں کو رب بنایا ہے ۔‘‘تو انہوں نے کہا کہ ہم تو ان کی عبادت نہیں کرتے تھے۔
اگر ایک مسلمان اس دین کو حق اور جنت میں جانے کا واحد راستہ تسلیم نہیں کرتا بلکہ وہ سمجھتا ہے کہ شاید ہو سکتا ہے کہ عیسائیت ،یہودیت یا کوئی اور مذہب بھی حق ہو اور اس پر چلنے والے بھی جنت میں پہنچ جائیں یا وہ اکیلے اسلام کو دنیا میں لوگوں کے مابین فیصلہ کرنے اور نافذکرنے کے لائق نہیں سمجھتا اور یہ سمجھتاہے کہ اسلام کے سوا کسی اور دین اور قانون سے بھی فیصلے کیے جاسکتے ہیں اور اس میں بھی لوگوں کے لیے بھلائی اور خیر پائی جاتی ہے جیسا کہ آج وضعی قوانین نافذ کرنے والوں کا حال ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ لا الہ الا اللہ کا اقرار کرنے کے باوجود اسے یقین نہیں ہے کہ صرف محمد ﷺ پر نازل ہونے والا دین برحق ہے اور اس کے سوا ہر راستہ ،قانون اور نظام باطل ہے ۔اسی طرح اگر وہ یہ عقیدہ رکھتا ہے کہ اکیلے اللہ کی پکار لگانے والے،اسے مشکلات و حاجات میں پکارنے والے بھی حق پر ہیں اورغیراللہ کو مشکل کشا ،حاجت روا ،دستگیر اور قانون ساز ماننے والے بھی حق پر ہیں یا وہ مشرکوں کے باطل پر ہونے میں اور موحدین کے حق پر ہونے میں شک کرتا ہے تب بھی اس کا لا الہ الا اللہ کہنا اسے فائدہ نہ دے گا تا آنکہ وہ کفر وشرک اور باطل معبودوں کی بندگی کے باطل ہونے کا یقین نہ رکھے اور توحید و ایمان کے حق اور سچ ہونے کا عقیدہ نہ رکھے ۔یقین ایمان کی جان ہے۔دل کی گہرائی میں لا الہٰ الا اللہ کی حقیقت کو اتارنا اور اس کلمہ کے معنی کو پورے یقین اور دل کے اطمینان کے ساتھ قبول کرنا کہ شک و شبہ کی گنجائش نہ رہے کلمہ کی دوسری شرط ہے ۔وہی شخص اللہ تعالیٰ کی بندگی کر سکتا ہے جس کے دل میں اللہ کی محبت ،خشیت ،کبریائی،خوف اور توکل ہو ۔پھر عملی زندگی میں وہی اس کے آگے سجدہ ریز ہو گا ۔ہر مصیبت میں اسے پکارے گا۔اس کی ہر بات اس کے لیئے حرف آخر اور قانون ہو گا۔دل میں یہ یقین اسی وقت پیدا ہو گا جب وہ رسولوں کی دعوت پر غور کرے گا ،قرآن کی آیات کی تلاوت کرے گا اور صالحین کی صحبت اختیار کرے گا۔
معلوم ہوا مسلم شک و شبہ کا شکار نہیں ہوتا اور جو کوئی کلمہ کی حقیقت پر شک رکھے وہ منافق ہو گا۔’’حقیقت میں مومن وہ ہیں جو اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لائے پھر انہوں نے کوئی شک نہ کیا اور اپنی جانوں اور مالوں سے اللہ کی راہ میں جہاد کیا وہی سچے لوگ ہیں‘‘ [الحجرات: 15]۔
اس کلمہ کا زبان سے اقرار ضروری ہے ۔قیصر شاہ روم نے نبی اکرم ﷺ اور آپ کی نبوت کی سچائی کو پوری طرح پہچان لیا اور کہا کہ میں جانتا تھا کہ ایک نبی آنے والا ہے لیکن میرا یہ گمان نہ تھا کہ وہ تم میں سے ہوگا۔ اگر مجھے یقین ہوتا کہ میں اس کے پاس پہنچ سکوں گا تو اس سےملاقات کرتا ۔اگر میں اس کے پاس ہوتا تو اس کے دونوں پائوں دھوتا۔ پھر اس نے حمص میں ایک بڑے ہال میں روم کے سرداروں کو جمع کیا اور دروازے بند کر دیئے ۔پھر کہا اے روم کے سردارو! کیا تم لوگ کامیابی چاہتے ہو؟ اور یہ چاہتے ہو کہ تمہاری بادشاہت برقرار رہے؟ تو اس نبی کی پیروی کر لو ۔اس پر وہ لوگ وحشی گدھوں کی طرح بدک کر دروازوں کی طرف بھاگے مگر دروازوں کو بند پایا۔قیصر نے جب ان کی یہ نفرت دیکھی تو کہا کہ میں نے یہ بات تمہارے دین میں تمہاری پختگی آزمانے کے لیئے کہی تھی۔اس پر ان سرداروں نے اسے سجدہ کیا اور اس سے خوش ہو گئے۔(بخاری :۷)رسول اللہ ﷺ نے فرمایا’’ مجھے اس بات کا حکم دیا گیا ہے کہ میں اس وقت تک لوگوں سے قتال کروں جب تک وہ لا الہٰ الا اللہ کا اقرار نہ کر لیں۔جب لوگ لا الہٰ الا اللہ کا اقرار کر لیں تو انہوں نے اپنی جان اور مال مجھ سے محفوظ کر لیا۔البتہ کلمہ کے حقوق ان پر نافذ ہوں گے اور ان کے دل کا حساب اللہ کے ذمہ ہے۔‘‘(بخاری مسلم)
زبان سے کلمہ کا اقرار کرنے کی وجہ سے دنیا میں انہیں مسلمانوں والے حقوق حاصل ہونگے کیونکہ یہ اپنے کفر کو چھپاتے تھے ،کبھی ظاہر ہو جاتا تو قسمیں اٹھا اٹھا کر انکار کر دیتے لیکن آخرت میں یہ مستقل جہنم میں رہیں گے ۔’’آپ کے پاس جب منافق آتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم اس بات پر گواہ ہیں کہ بے شک آپ اللہ کے رسول ہیں ‘اور اللہ جانتا ہے کہ بیشک آپ اس کے رسول ہیں لیکن اللہ گواہی دیتا ہے کہ یہ منافق(اپنے ایمان کے دعوے میں) قطعاً جھوٹے ہیں ۔‘‘
یعنی دل سے اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرنا اور اپنے جوارح سے اس کے سامنے سر تسلیم خم کرنا لا الہٰ الا اللہ کی شرط ہے یعنی آدمی ظاہراً اور باطناً اللہ تعالیٰ کی اطاعت پر امادہ ہو۔’’اور اپنے رب کی طرف رجوع کرو اور اس کے مطیع ہو جائو قبل اس کے کہ تمہارے پاس عذاب آجائے پھر تم مدد نہ کئے جائو گے۔‘‘(الزمر :54)
اسلام میں داخل ہونے کی شرط یہ ہے کہ آدمی زندگی کے ہر معاملے میں فیصلے کا اختیار صرف اور صرف اللہ اور اس کے رسول کو دینے پر آمادہ ہو جائے اور اپنے یا کسی اور کے اختیار کی مکمل نفی کر دے اور انسانوں کے بنائے ہوئے قوانین کو باطل سمجھے۔ اگر کوئی شخص معیشت ،معاشرت ،سیاست یا کاروبار وغیرہ میں سے کسی ایک شعبہ میں بھی اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کے نازل کردہ قوانین کا محتاج نہ سمجھے یا انسانوں کے بنائے ہوئے قوانین کے ذریعے ان معاملات کا فیصلہ کرنا جائز سمجھے اس نے لا الہٰ الا اللہ کی شرط کو قبول نہیں کیا لہٰذا اس کا کلمہ اس کے کام نہیں آئے گا ۔باپ دادا کے طریقوں کی پیروی کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کے احکامات کو قابل التفات نہ جاننا کفار ہی کا شیوہ ہے:’’سو قسم ہے تیرے پروردگار کی ! یہ ایماندار نہیں ہو سکتے ‘جب تک آپس کے تمام اختلافات میں آپ کو حاکم نہ مان لیں ‘پھر جو فیصلے آپ ان میں کر دیں ان سے اپنے دل میں کسی طرح کی تنگی اور ناخوشی نہ پائیں اور فرمانبرداری کے ساتھ قبول کر لیں ۔‘‘