• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

رسولوں پر ایمان

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,859
ری ایکشن اسکور
41,092
پوائنٹ
1,155
بسم اللہ الرحمن الرحیم​
رسولوں پر ایمان

رسل،رسول کی جمع ہے ۔اس کے معنی مرسل،یعنی پیغمبر،مبعوث اور فرستادہ کے ہیں۔جو کسی شے کو پہنچانے کے لیے بھیجا گیا ہو۔یاد رہے کہ یہاں "رسل" سے مراد انسانوں میں سے وہ ہستیاں ہیں جن کی طرف بذریعہ وحی شریعت نازل کی گئی اور انہیں اس تبلیغ کا حکم بھی دیا گیا۔سب سے پہلے رسول حضرت نوح علیہ السلام اور آخری رسول حضرت محمد ﷺ ہیں۔اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
إِنَّآ أَوْحَيْنَآ إِلَيْكَ كَمَآ أَوْحَيْنَآ إِلَىٰ نُوحٍۢ وَٱلنَّبِيِّۦنَ مِنۢ بَعْدِهِۦ ۚ
ترجمہ: بے شک ہم نے تمہاری طرف اسی طرح وحی بھیجی ہے جس طرح نوح اور ان سے پچھلے پیغمبروں کی طرف بھیجی تھی (سورۃ النساء،آیت 163)
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کی روایت میں نبی ﷺ کے فرمان کا خلاصہ اس طرح ہے:
((ان الناس یاتون الی ادم لیشفع لھم فیعتذر الیھم و یقول: ائتوا نوھا اول رسول بعثہ اللہ "وذکر تمام الحدیث))
"(قیامت والے دن)لوگ حضرت آدم علیہ السلام کے پاس آئیں گے تاکہ وہ ان کے لیے شفاعت کریں لیکن وہ عذر پیش کریں گے اور کہیں گے کہ آپ لوگ نوح علیہ السلام کے پاس جائیں جو پہلے رسول ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے بھیجا ہے ،پھر انہوں نے پوری حدیث بیان کی ۔"(صحیح بخاری،التفسیر،باب قول اللہ تعالیٰ (وعلم ادم الاسماء کلھا)،حدیث 7410،4476)
اور حضرت محمد ﷺ کے متعلق اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
مَّا كَانَ مُحَمَّدٌ أَبَآ أَحَدٍۢ مِّن رِّجَالِكُمْ وَلَٰكِن رَّسُولَ ٱللَّهِ وَخَاتَمَ ٱلنَّبِيِّنَ ۗ

ترجمہ: محمد تم میں سے کسی مرد کے باپ نہیں لیکن وہ الله کے رسول اورخاتم النبیین ہیں (سورۃ الاحزاب،آیت 40)
کوئی اُمت ایسی نہیں گزری جو کسی رسول سے خالی رہی ہو بلکہ اللہ تعالیٰ نے یا تو کسی رسول کو اس کی اپنی قوم کی طرف مستقل شریعت کے ساتھ مبعوث فرمایا ہے ،یا پھر کسی نبی کو اس سے پہلے رسول کی شریعت کی تجدید کے لیے بذریعہ وحی احکام شریعت بھیجے ہیں۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِى كُلِّ أُمَّةٍۢ رَّسُولًا أَنِ ٱعْبُدُوا۟ ٱللَّهَ وَٱجْتَنِبُوا۟ ٱلطَّٰغُوتَ ۖ
ترجمہ: اور ہم نے ہر جماعت میں پیغمبر بھیجا کہ اللہ ہی کی عبادت کرو اور بتوں (کی پرستش) سے اجتناب کرو (سورۃ النحل،آیت 36)
ایک اور جگہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَإِن مِّنْ أُمَّةٍ إِلَّا خَلَا فِيهَا نَذِيرٌۭ
ترجمہ: اور کوئی امت نہیں گزری مگر اس میں ایک ڈرانے والا گزر چکا ہے (سورۃ فاطر،آیت 24)
ایک اور مقام پر فرمایا:
إِنَّآ أَنزَلْنَا ٱلتَّوْرَىٰةَ فِيهَا هُدًۭى وَنُورٌۭ ۚ يَحْكُمُ بِهَا ٱلنَّبِيُّونَ ٱلَّذِينَ أَسْلَمُوا۟ لِلَّذِينَ هَادُوا۟
ترجمہ: بیشک ہم نے تورات نازل فرمائی جس میں ہدایت اور روشنی ہے اسی کے مطابق انبیاء جو (اللہ کے) فرمانبردار تھے یہودیوں کو حکم دیتے رہے ہیں (سورۃ المائدہ،آیت 44)
تمام رسول بشر اور مخلوق ہیں ،ان میں سے کسی میں بھی ربوبیت اور الوہیت کی خصوصیات نہیں پائی جاتیں حتی کہ حضرت محمد ﷺ جو اللہ تعالیٰ کے نزدیک تمام رسولوں کے سردار اور بہ لحاظ مرتبہ سب سے بڑے ہیں،کے متعلق اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
قُل لَّآ أَمْلِكُ لِنَفْسِى نَفْعًۭا وَلَا ضَرًّا إِلَّا مَا شَآءَ ٱللَّهُ ۚ وَلَوْ كُنتُ أَعْلَمُ ٱلْغَيْبَ لَٱسْتَكْثَرْتُ مِنَ ٱلْخَيْرِ وَمَا مَسَّنِىَ ٱلسُّوٓءُ ۚ إِنْ أَنَا۠ إِلَّا نَذِيرٌۭ وَبَشِيرٌۭ لِّقَوْمٍۢ يُؤْمِنُونَ ﴿188﴾
ترجمہ: کہہ دو میں اپنی ذات کے نفع و نقصان کا بھی مالک نہیں مگرجو الله چاہے اور اگر میں غیب کی بات جان سکتا تو بہت کچھ بھلائیاں حاصل کر لیتا اور مجھے تکلیف نہ پہنچتی میں تو محض ڈرانے والا اور خوشخبری دینے والا ہوں ان لوگوں کو جو ایمان دار ہیں (سورۃ الاعراف،آیت 188)
ایک اور جگہ یوں ارشاد ہوتا ہے:
قُلْ إِنِّى لَآ أَمْلِكُ لَكُمْ ضَرًّۭا وَلَا رَشَدًۭا ﴿21﴾قُلْ إِنِّى لَن يُجِيرَنِى مِنَ ٱللَّهِ أَحَدٌۭ وَلَنْ أَجِدَ مِن دُونِهِۦ مُلْتَحَدًا ﴿22﴾
ترجمہ: کہہ دو کہ میں تمہارے حق میں نقصان اور نفع کا کچھ اختیار نہیں رکھتا کہہ دو کہ اللہ (کے عذاب) سے مجھے کوئی پناہ نہیں دے سکتا اور میں اس کے سوا کہیں جائے پناہ نہیں دیکھتا (سورۃ الجن،آیت 21-22)
رسولوں کے ساتھ بھی تمام بشری خصوصیات ،مثلا مرض،موت اور کھانے پینے کی حاجتیں لگی ہوئیں تھیں،چنانچہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے بشری تقاضوں کا تذکرہ کرتے ہوئے رب تعالیٰ کے متعلق جو کچھ فرمایا تھا ،اس کی حکایت قرآن کریم میں اس طرح بیان ہوئی ہے:
وَٱلَّذِى هُوَ يُطْعِمُنِى وَيَسْقِينِ ﴿79﴾وَإِذَا مَرِضْتُ فَهُوَ يَشْفِينِ ﴿80﴾وَٱلَّذِى يُمِيتُنِى ثُمَّ يُحْيِينِ ﴿81﴾
ترجمہ: اور وہ جو مجھے کھلاتا اور پلاتا ہے اور جب میں بیمار ہوتا ہوں تو وہی مجھے شفا دیتا ہے اور وہ جو مجھے مارے گا پھر زندہ کرے گا (سورۃ الشعراء،آیت 79-81)
اس طرح نبی ﷺ کا ارشاد ہے:
انما انا بشر مثلکم انسی کما تنسون فاذا نسیت فذکرونی
"میں تو تمھی جیسا بشر ہوں ،جس طرح تم بھولتے ہو اس طرح میں بھی بھولتا ہوں۔پس جب میں بھول جاؤں تو مجھے یاد دلا دیا کرو۔"(صحیح البخاری،الصلوۃ ،باب التوحید نحو القبلۃ حیث کان،حدیث :401،وصحیح مسلم،المساجد وباب سھو فی الصلوۃ والمسجود لہ:572)
اللہ تعالیٰ نے پیغمبروں کو بندگی کے بلند مقامات سے نوازا ہے،چنانچہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے متعدد مقامات پر ان کی تعریف کی ہے۔مثال کے طور پر حضرت نوح علیہ السلام کے بارے میں ارشاد ہے:
إِنَّهُۥ كَانَ عَبْدًۭا شَكُورًۭا ﴿3﴾
ترجمہ: بےشک نوح (ہمارے) شکرگزار بندے تھے (سورۃ الاسراء،آیت 3)
حضرت محمد ﷺ کے متعلق یوں ارشاد ہوتا ہے:
تَبَارَكَ ٱلَّذِى نَزَّلَ ٱلْفُرْقَانَ عَلَىٰ عَبْدِهِۦ لِيَكُونَ لِلْعَٰلَمِينَ نَذِيرًا ﴿1﴾
ترجمہ: وہ بڑی برکت والا ہے جس نے اپنے بندے پر قرآن نازل کیا تاکہ تمام جہان کے لیےڈرانے والا ہو (سورۃ الفرقان،آیت 1)
اسی طرح حضرت ابراہیم ،اسحاق و یعقوب علیھم السلام کے متعلق یوں ارشاد ہوتا ہے:
وَٱذْكُرْ عِبَٰدَنَآ إِبْرَٰهِيمَ وَإِسْحَٰقَ وَيَعْقُوبَ أُو۟لِى ٱلْأَيْدِى وَٱلْأَبْصَٰرِ ﴿45﴾إِنَّآ أَخْلَصْنَٰهُم بِخَالِصَةٍۢ ذِكْرَى ٱلدَّارِ ﴿46﴾وَإِنَّهُمْ عِندَنَا لَمِنَ ٱلْمُصْطَفَيْنَ ٱلْأَخْيَارِ ﴿47﴾
ترجمہ: اور ہمارے بندوں ابراھیم اور اسحاق اور یعقوب کو یاد کر جو ہاتھو ں اور آنکھوں والے تھے بے شک ہم نے انہیں ایک خاص فضیلت دی یعنی ذکر آخرت کے لیے چن لیا تھا اور بے شک وہ ہمارے نزدیک برگزیدہ بندوں میں سے تھے (سورۃ ص،آیت 45-47)
حضرت عیسی بن مریم علیہ السلام کے متعلق ارشاد ہوتا ہے:
إِنْ هُوَ إِلَّا عَبْدٌ أَنْعَمْنَا عَلَيْهِ وَجَعَلْنَٰهُ مَثَلًۭا لِّبَنِىٓ إِسْرَٰٓءِيلَ ﴿59﴾
ترجمہ: وہ تو ہمارا ایک بندہ ہے جس پر ہم نے انعام کیا اور اسے بنی اسرائیل کے لیے نمونہ بنا دیا تھا (سورۃ الزخرف،آیت 59)
رسولوں پر ایمان ان چار امور پر مشتمل ہے
(1)اس بات پر ایمان کہ ان کی رسالت برحق اور اللہ تعالیٰ کی جانب سے تھی،پس جس نے ان رسولوں میں سے کسی بھی رسالت کا انکار کیا تو اس نے ان سب کا انکار کیا جیسا کہ اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد سے واضح ہے:
كَذَّبَتْ قَوْمُ نُوحٍ ٱلْمُرْسَلِينَ ﴿105﴾
ترجمہ: نوح کی قوم نےرسولوں کو جھٹلایا (سورۃ الشعراء،آیت 105)
غور کیجیے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت نوح علیہ السلام کی قوم کو تمام رسولوں کو جھٹلانے والی قوم قرار دیا،حالانکہ جس وقت انہوں نے تکذیب کی تھی اس وقت تک نوح علیہ السلام کے سوا کوئی دوسرا رسول ان کے ہاں نہ آیا تھا۔اسی طرح جن عیسائیوں نے حجرت محمد ﷺ کو جھٹلایا اور ان کی پیروی نہیں کی ،تو گویا انہوں نے حضرت عیسی بن مریم کو بھی جھٹلایا اور وہ ان کی اتباع کرنے والوں میں سے بھی نہ رہے،کیونکہ حضرت عیسی علیہ السلام نے ان عیسائیوں کو حضرت محمد ﷺ کی آمد کی بشارت دی تھی اور اس بشارت کا مطلب اس کے سوا کچھ نہ تھا کہ حضرت محمد ﷺ ان کی طرف اللہ کے بھیجے ہوئے رسول ہوں گے،اللہ تعالیٰ آپ ﷺ کے ذریعے سے ان لوگوں کو گمراہیوں سے محفوظ فرمائے گا اور انہیں سیدھی راہ دکھائے گا۔
(2)ان رسولوں پر ایمان لانا جن کے نام ہمیں معلوم ہیں مثلا حضرت محمد(ﷺ)،ابراہیم،موسی،عیسی اور نوح علیھم السلام یہ پانچ اولوالعزم رسول ہیں،اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں دو مقامات پر ان کا تذکرہ فرمایا ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَإِذْ أَخَذْنَا مِنَ ٱلنَّبِيِّۦنَ مِيثَٰقَهُمْ وَمِنكَ وَمِن نُّوحٍۢ وَإِبْرَٰهِيمَ وَمُوسَىٰ وَعِيسَى ٱبْنِ مَرْيَمَ ۖ
ترجمہ: اور جب ہم نے نبیوں سے عہد لیا اورآپ سے اورنوح اور ابراھیم اور موسیٰ اور مریم کے بیٹے عیسیٰ سے بھی (سورۃ الاحزاب،آیت 7)
مزید ارشاد الہی ہے:
شَرَعَ لَكُم مِّنَ ٱلدِّينِ مَا وَصَّىٰ بِهِۦ نُوحًۭا وَٱلَّذِىٓ أَوْحَيْنَآ إِلَيْكَ وَمَا وَصَّيْنَا بِهِۦ إِبْرَٰهِيمَ وَمُوسَىٰ وَعِيسَىٰٓ ۖ أَنْ أَقِيمُوا۟ ٱلدِّينَ وَلَا تَتَفَرَّقُوا۟ فِيهِ ۚ
ترجمہ: تمہارے لیے وہی دین مقرر کیا جس کا نوح کو حکم دیا تھا اور اسی راستہ کی ہم نے آپ کی طرف وحی کی ہے اور اسی کا ہم نے ابراھیم اور موسیٰ اور عیسیٰ کو حکم دیا تھا کہ اسی دین پر قائم رہو اور اس میں پھوٹ نہ ڈالنا (سورۃ الشوری،آیت 13)
ان برگزیدہ رسولوں کے علاوہ جن انبیاء کرام علیھم السلام کے اسمائے گرامی کا ہمیں علم نہیں ان پر بھی اجمالا ایمان لانا ہم پر لازم ہے۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا رُسُلًۭا مِّن قَبْلِكَ مِنْهُم مَّن قَصَصْنَا عَلَيْكَ وَمِنْهُم مَّن لَّمْ نَقْصُصْ عَلَيْكَ ۗ
ترجمہ: اورہم نے آپ سے پہلے کئی رسول بھیجے تھے بعض ان میں سے وہ ہیں جن کا حال ہم نے آپ پر بیان کر دیا اور بعض وہ ہیں کہ ہم نے آپ پر انکا حال بیان نہیں کیا (سورۃ غافر،آیت 78)
(3)ان کی جو خبریں درست ہوں ان کی تصدیق کرنا۔
(4)ان رسولوں میں سے جو رسول ہمارے پاس تشریف لائے ،ان کی شریعت پر عمل کرنا،اور بلاشبہ وہ خاتم الرسل حضرت محمد ﷺ ہیں جو تمام انسانوں کی طرف بھیجے گئے ہیں۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
فَلَا وَرَبِّكَ لَا يُؤْمِنُونَ حَتَّىٰ يُحَكِّمُوكَ فِيمَا شَجَرَ بَيْنَهُمْ ثُمَّ لَا يَجِدُوا۟ فِىٓ أَنفُسِهِمْ حَرَجًۭا مِّمَّا قَضَيْتَ وَيُسَلِّمُوا۟ تَسْلِيمًۭا ﴿٥٦﴾
ترجمہ: تمہارے پروردگار کی قسم یہ لوگ جب تک اپنے تنازعات میں تمہیں منصف نہ بنائیں اور جو فیصلہ تم کردو اس سے اپنے دل میں تنگ نہ ہوں بلکہ اس کو خوشی سے مان لیں تب تک مومن نہیں ہوں گے (سورۃ النساء،آیت 65)

اسلام کے بنیادی عقائد از محمد بن صالح العثیمین​
 
Top