حسین بن محمد
مبتدی
- شمولیت
- اپریل 10، 2021
- پیغامات
- 50
- ری ایکشن اسکور
- 9
- پوائنٹ
- 21
سوال نمبر#0194
سوال: ہندستان کے یا مغربی ممالک کے سکول و کالجز اور یونیورسٹیز میں علم حاصل کرنا کیسا ہے؟
جواب:
(1) کافروں سے یا ان کے ساتھ پڑھنا شرعی حدود میں ہو تو جائز ہے جیسے غزوہ بدر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بدر کے وہ قیدی جو اپنی رہائی کے لیے پیسے ادا نہیں کرسکتے تھے ان پر صحابہ اکرام کے دس بیٹوں کو پڑھنا لکھنا سیکھانا فدیہ مقرر کیا تھا۔ لیکن اس انداز تعلیم میں مسلمان کسی بھی قسم کے منکر اور شر سے محفوظ تھے کیونکہ پڑھانے والے مسلمانوں کے ہاتھوں میں قیدی تھے اور ان کے زیر تسلط تھے، لہذا وہ کفر و شرک، فسق و فجور کی تعلیم و ترویج نہیں دے سکتے تھے۔
لیکن آج حال یہ ہے کہ دار الکفر (خواہ دار الکفر اصلی ہو یا دار الکفر طاری) میں چلنے والے اسکول اور کالیجیز میں نصاب کفر و شرک کی تعلیم و ترویج پر تیار کیا جاتا ہے۔
جہاں بچے کو ہر روز صبح صبح اپنے دن کا آغاز وطن پرستی اور قوم پرستی سے کرنا ہوتا ہے، یعنی وہ جھنڈے کو سلامی پیش کرتا ہے، وطن پرستی کے ترانی پڑھتا ہے، اور کہیں تو طاغوتی افواج کو ہی سلامی پیش کرتا ہے۔ پھر دن بھر اسے مختلف موضوعات کے نام پر ڈیموکراسی (جمہوریت)، وطن پرستی، مذہب انسانیت، بین المذاہب ہم آہنگی، کفار و مرتدین سے محبت اور ان سے مرعوب ہونا، کفریہ قوانین ( یو این، نیٹو وغیرہ) سے محبت اور اسے ہی انسانوں کی پریشانی کا حل بتلانا، اور ایسے علوم انگریزی، اردو، ہندی زبان سیکھانے کے بہانے سیکھانا جو اسلامی اصولوں، عقیدہ الولاء و البراء، اخلاق و تہذیب، شرم وحیا کے منافی ہوں۔ ڈارون کے کفری نظریات سے لے کر کفار کے جنگجووں کے واقعات پڑھانا جس سے مسلمانوں کے دلوں میں ان کا رعب، تعجب بیٹھ جائے، اور دنیا میں ہر کامیابی، شجاعت و حکمت کو کفر و الحاد پھیلانے والوں کی طرف مںسوب کرنا, وطن پرست، ڈیموکریٹک، انسانی حقوق کے علمبردار افراد کی تعظیم و تکریم اور انہیں ہی اسوہ حسنہ کے طور پر پڑھانا وغیرہ ذلک
خلاصہ یہ کہ اگر کوئی شخص اپنی اولاد کو کسی کافر کے پاس پڑھانے بھیجے اس شرط پر کہ وہ شر و فتنے سے محفوظ علم حاصل کرسکے ( جو کہ جائز امر بھی ہے)۔۔۔۔تو اس دور میں یہ کام ناممکن یے الا یہ کہ جب اللہ چاہے اور اسلام غالب آجائے ۔
اور اگر تعلیمی ادارے بیان کردہ کفر و شرک سے محفوظ نہیں ہیں تو ایسے تعلیمی اداروں میں اپنی اولاد کو تعلیم دلانا جائز نہیں ہے۔
یہ اسلیے کہ اپنے ہاتھوں سے اپنے بچے کو کفریہ عقیدہ سیکھانا ہوا، اسے اسلام سے نکال کر کفری نظریات کا حامل بنانا ہوا۔ اور اسی ضمن میں شیخ بکر ابو زید فرماتے ہیں:
"جو شخص اپنے بیٹے کو اپنی مرضی اور اختیار سے کسی اسکول میں داخل کرتا ہے، یہ جانتے ہوئے کہ وہ اپنے نصاب اور سرگرمیوں کے ذریعے، مسلمان بچوں کو ان کے مذہب سے نکالتے ہیں اور ان کے عقیدہ پر سوال اٹھاتے ہیں، تو وہ اسلام سے مرتد ہے* جیسا کہ علماء کا ایک گروہ اس بات کا قائل ہے"
پس مسلمانوں کو اس معاملے میں اللہ سے خوف رکھنا چاہیے اور اپنی اولاد کو شرک و کفر سے پاک تعلیم دلانا چاہیے۔
اگر کوئی اس نصاب سے کفریات کو کاٹ کر باقی فنون پڑھانا چاہے تو اس میں کوئی حرج نہیں بشرطیکہ نصاب سے تمام کفریات و حرام چیزوں کو پوری طرح کاٹ کر اور مسخ کرکے نکال دیا جائے۔
آج کے دور میں یہ اسی وقت ممکن ہے جب آپ خود بچوں کو گھر میں تعلیم دیں اس بات کا خیال رکھتے ہوئے کہ انہیں کتابوں میں موجود تمام کفریہ، شرکیہ (وطن پرستی، قوم ہرسےی، شخصیت پرستی، مذھب انسانیت، حب کفار و مرتدین وغیرہ ذلک) نظریات کو حذف کر کے اسلامی حدود کے دائرے میں پڑھائیں تو جائز ہے۔
اور جان لو کہ دنیاوی علوم میں جہالت کفر اور دین کے نقصان کے مقابلے میں کوئی وقعت نہیں رکھتی
اڈید: حسین بن محمد
سوال: ہندستان کے یا مغربی ممالک کے سکول و کالجز اور یونیورسٹیز میں علم حاصل کرنا کیسا ہے؟
جواب:
(1) کافروں سے یا ان کے ساتھ پڑھنا شرعی حدود میں ہو تو جائز ہے جیسے غزوہ بدر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بدر کے وہ قیدی جو اپنی رہائی کے لیے پیسے ادا نہیں کرسکتے تھے ان پر صحابہ اکرام کے دس بیٹوں کو پڑھنا لکھنا سیکھانا فدیہ مقرر کیا تھا۔ لیکن اس انداز تعلیم میں مسلمان کسی بھی قسم کے منکر اور شر سے محفوظ تھے کیونکہ پڑھانے والے مسلمانوں کے ہاتھوں میں قیدی تھے اور ان کے زیر تسلط تھے، لہذا وہ کفر و شرک، فسق و فجور کی تعلیم و ترویج نہیں دے سکتے تھے۔
لیکن آج حال یہ ہے کہ دار الکفر (خواہ دار الکفر اصلی ہو یا دار الکفر طاری) میں چلنے والے اسکول اور کالیجیز میں نصاب کفر و شرک کی تعلیم و ترویج پر تیار کیا جاتا ہے۔
جہاں بچے کو ہر روز صبح صبح اپنے دن کا آغاز وطن پرستی اور قوم پرستی سے کرنا ہوتا ہے، یعنی وہ جھنڈے کو سلامی پیش کرتا ہے، وطن پرستی کے ترانی پڑھتا ہے، اور کہیں تو طاغوتی افواج کو ہی سلامی پیش کرتا ہے۔ پھر دن بھر اسے مختلف موضوعات کے نام پر ڈیموکراسی (جمہوریت)، وطن پرستی، مذہب انسانیت، بین المذاہب ہم آہنگی، کفار و مرتدین سے محبت اور ان سے مرعوب ہونا، کفریہ قوانین ( یو این، نیٹو وغیرہ) سے محبت اور اسے ہی انسانوں کی پریشانی کا حل بتلانا، اور ایسے علوم انگریزی، اردو، ہندی زبان سیکھانے کے بہانے سیکھانا جو اسلامی اصولوں، عقیدہ الولاء و البراء، اخلاق و تہذیب، شرم وحیا کے منافی ہوں۔ ڈارون کے کفری نظریات سے لے کر کفار کے جنگجووں کے واقعات پڑھانا جس سے مسلمانوں کے دلوں میں ان کا رعب، تعجب بیٹھ جائے، اور دنیا میں ہر کامیابی، شجاعت و حکمت کو کفر و الحاد پھیلانے والوں کی طرف مںسوب کرنا, وطن پرست، ڈیموکریٹک، انسانی حقوق کے علمبردار افراد کی تعظیم و تکریم اور انہیں ہی اسوہ حسنہ کے طور پر پڑھانا وغیرہ ذلک
خلاصہ یہ کہ اگر کوئی شخص اپنی اولاد کو کسی کافر کے پاس پڑھانے بھیجے اس شرط پر کہ وہ شر و فتنے سے محفوظ علم حاصل کرسکے ( جو کہ جائز امر بھی ہے)۔۔۔۔تو اس دور میں یہ کام ناممکن یے الا یہ کہ جب اللہ چاہے اور اسلام غالب آجائے ۔
اور اگر تعلیمی ادارے بیان کردہ کفر و شرک سے محفوظ نہیں ہیں تو ایسے تعلیمی اداروں میں اپنی اولاد کو تعلیم دلانا جائز نہیں ہے۔
یہ اسلیے کہ اپنے ہاتھوں سے اپنے بچے کو کفریہ عقیدہ سیکھانا ہوا، اسے اسلام سے نکال کر کفری نظریات کا حامل بنانا ہوا۔ اور اسی ضمن میں شیخ بکر ابو زید فرماتے ہیں:
"جو شخص اپنے بیٹے کو اپنی مرضی اور اختیار سے کسی اسکول میں داخل کرتا ہے، یہ جانتے ہوئے کہ وہ اپنے نصاب اور سرگرمیوں کے ذریعے، مسلمان بچوں کو ان کے مذہب سے نکالتے ہیں اور ان کے عقیدہ پر سوال اٹھاتے ہیں، تو وہ اسلام سے مرتد ہے* جیسا کہ علماء کا ایک گروہ اس بات کا قائل ہے"
پس مسلمانوں کو اس معاملے میں اللہ سے خوف رکھنا چاہیے اور اپنی اولاد کو شرک و کفر سے پاک تعلیم دلانا چاہیے۔
اگر کوئی اس نصاب سے کفریات کو کاٹ کر باقی فنون پڑھانا چاہے تو اس میں کوئی حرج نہیں بشرطیکہ نصاب سے تمام کفریات و حرام چیزوں کو پوری طرح کاٹ کر اور مسخ کرکے نکال دیا جائے۔
آج کے دور میں یہ اسی وقت ممکن ہے جب آپ خود بچوں کو گھر میں تعلیم دیں اس بات کا خیال رکھتے ہوئے کہ انہیں کتابوں میں موجود تمام کفریہ، شرکیہ (وطن پرستی، قوم ہرسےی، شخصیت پرستی، مذھب انسانیت، حب کفار و مرتدین وغیرہ ذلک) نظریات کو حذف کر کے اسلامی حدود کے دائرے میں پڑھائیں تو جائز ہے۔
اور جان لو کہ دنیاوی علوم میں جہالت کفر اور دین کے نقصان کے مقابلے میں کوئی وقعت نہیں رکھتی
اڈید: حسین بن محمد