• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

میں علم کا شہر ہوں علی اُس کا دروازہ ہیں". کی تحقیق

شمولیت
ستمبر 07، 2020
پیغامات
109
ری ایکشن اسکور
11
پوائنٹ
54
حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ الْأُمَوِيُّ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ سَالِمٍ أَبِي الْعَلَاءِ الْمُرَادِيِّ، عَنْ عَمْرِو بْنِ هَرِمٍ، عَنْ رِبْعِيِّ بْنِ حِرَاشٍ، عَنْ حُذَيْفَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: كُنَّا جُلُوسًا عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: " إِنِّي لَا أَدْرِي مَا بَقَائِي فِيكُمْ فَاقْتَدُوا بِاللَّذَيْنِ مِنْ بَعْدِي " , وَأَشَارَ إِلَى أَبِي بَكْرٍ , وَعُمَرَ.
حذیفہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ہم لوگ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھے ہوئے تھے تو آپ نے فرمایا: ”میں نہیں جانتا کہ میں تمہارے درمیان کب تک رہوں گا، لہٰذا تم لوگ ان دونوں کی پیروی کرو جو میرے بعد ہوں گے اور آپ نے ابوبکر و عمر رضی الله عنہما کی جانب اشارہ کیا“۔

تخریج الحدیث: «انظر ماقبلہ (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح انظر ما قبله (3662)
 
شمولیت
ستمبر 07، 2020
پیغامات
109
ری ایکشن اسکور
11
پوائنٹ
54
حَدَّثَنِي عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ سَعْدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا أَبِي وَعَمِّي، قَالاَ حَدَّثَنَا أَبِي، عَنْ أَبِيهِ، أَخْبَرَنِي مُحَمَّدُ بْنُ جُبَيْرٍ، أَنَّ أَبَاهُ، جُبَيْرَ بْنَ مُطْعِمٍ أَخْبَرَهُ أَنَّ امْرَأَةً أَتَتْ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فَكَلَّمَتْهُ فِي شَىْءٍ، فَأَمَرَهَا بِأَمْرٍ فَقَالَتْ أَرَأَيْتَ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنْ لَمْ أَجِدْكَ قَالَ ‏ "‏ إِنْ لَمْ تَجِدِينِي فَأْتِي أَبَا بَكْرٍ ‏"‏‏.‏ زَادَ الْحُمَيْدِيُّ عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ سَعْدٍ كَأَنَّهَا تَعْنِي الْمَوْتَ‏.‏
ترجمه:
مجھ سے عبیداللہ بن سعد بن ابراہیم نے بیان کیا ‘ کہا مجھ سے میرے والد اور چچا نے بیان کیا ‘ کہا کہ مجھ سے میرے والد نے بیان کیا اور ان سے ان کے والد نے ‘ انہیں محمد بن جبیر نے خبر دی اور انہیں ان کے والد جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ نے خبر دی کہ ایک خاتون رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں ایک حکم دیا ۔ انہوں نے عرض کیا ‘ یا رسول اللہ ! اگر میں آپ کو نہ پاؤں تو پھر کیا کروں گی ؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب مجھے نہ پانا تو ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس جانا".
[صحيح البخاري:7360]
 
شمولیت
ستمبر 07، 2020
پیغامات
109
ری ایکشن اسکور
11
پوائنٹ
54
میری نے یہ تحریر بطور رد لکھی تھی۔ فیس بُک پر ایک شخص ابو الحسین نام سے ہے اُس نے اِس روایت کو ثابت کرنے کی کوشش کی تھی۔
لنک یہ رہا:
اس کے جواب میں، میں نے یہ مضمون لکھا تھا۔ جو اوپر آپ پڑھ چکے ہیں۔
میرے اس مضمون پر ابو الحسین نے تازہ جواب لکھا ھے (فیس بُک پر) تو میں چاہتا ہوں پہلے ابو الحسین کا جواب یہاں کاپی کردوں۔ تاکہ ناظرین ابوالحسین کے اعتراضات پڑھ لیں۔
اُس کے بعد میں اِس کا جواب لکھ کر تمام اعتراضات کی حقیقت واضح کردوں گا۔ ان شاء الله__
اگلے مراسلے میں ابو الحسین کا جواب ملاحظه فرمائیں
 
شمولیت
ستمبر 07، 2020
پیغامات
109
ری ایکشن اسکور
11
پوائنٹ
54
ابو الحسین کا جواب :
#حدیث_انا_مدینة_العلم_اور_ہماری_تحقیق_قسط_دوم

⭕ پچھلی تحریر میں، میں نے اس حدیث کے چار صحیح السناد طرق پیش کیے تھے اور ساتھ ہی یحیی بن معین کا قول پیش کیا تھا جس میں انہوں نے اس روایت کی تصحیح فرمائ تھی۔ جس پر کچھ ناسبی فکر رکھنے والے حضرات نے بے بانگ دہل ادھے ادھورے اعتراضات اٹھانے شروع کر دیے۔ میرے لیے حیرت کا مقام یہ تھا کے یہ روایت بے شمار طرق سے آئی اور ناقدین کا اس کی صحت پر اختلاف ہے لیکن یہ اتنی کمزور روایت نہیں کے جسے فضائل میں قبول نہ کیا جا سکے۔ اور یہ وہ لوگ ہیں جو معاویہ کے لیے رسولﷺ کی بد دعا کی باطل طاویل کرتے ہوۓ اسے دعا میں شمار کرنا شروع کر دیتے ہیں۔لیکن فضائل علی میں وارد ہونے والی احادیث متاوتر بھی ان سے برداشت نہیں ہوتیں خیر مذید وقت ضائع کیے بغیر ان کے باطل اعتراضات کا جائزہ لیتے ہیں۔

1️⃣ پہلا اعتراض:
آپ نے جو روایت مستدرک للحاکم سے ابو الصلت الھروی کی متابعت میں پیش کی(1) اس میں امام حاکم سے غلطی ہوئ ہے کیونکہ اسی روایت کو ابن محرز نے بھی یحیی بن معین سے روایت کیا(2) جس میں محمد بن طفیل نامی مجھول راوی موجود تھا لیکن امام الحاکم نے اس روایت کو نقل کرتے وقت محمد بن جعفر الفیدی اور ابو معاویة کے درمیان سے محمد بن طفیل کو گرادیا۔ (یہ امام الحاکم سے سہواً ھوا ھے)۔

الجواب:
ہم یہ کہتے ہیں کے ہم اس کو آپ کی دو نمبری سمجھیں؟ آپ کا بغض سمجھیں؟ یا آپ کی کم علمی سمجھیں؟ یعنی آپ ایک مجھول شخص کی روایت کو ایک امام کی روایت پر ترجیع دے رہے ہیں؟ جی بالکل ابن محرز جو کہ (ابو العباس احمد بن محمد بن القاسم بن محرز) ہے اس کا کوئ آتا پتا ہی نہیں کے یہ کون ہے اور کہاں کا باشندا ہے۔ محدثین میں سے اس پر کسی قسم کا کوئ کلام موجود ہی نہیں اس کی کوئ توثیق نہیں۔ جبکہ اس مجھول الحال راوی کو بنیاد بنا کر ایک حدیث کے امام کی روایت کو رد کیا جا رہا ہے؟یہی ہوتا ہے جب انسان اصول حدیث سے سرے سے نابلد ہو لیکن کاپی پیسٹ مارنے میں ماہر ہو۔
امام حاکم کی علمی جلالت کے مداح تو خود حافظ ذہبی ہیں۔ حافظ ذہبی امام حاکم کے ترجمے میں فرماتے ہیں:

الحاكم الحافظ الكبير امام المحدثين... ناظر الدارقطني فرضيه وهو ثقة واسع العلم بلغت تصانيفه قريبا من خمس مائة جزء

️حاکم، بڑے حافظ محدثین کے امام ہیں،دار قطنی نے ان کے ساتھ ایک مناظرہ کیا اور اس پر راضی ہوۓ کے آپ ایک قابل اعتماد اور بہت زیادہ علم رکھنے والی شخصیت ہیں ،ان کی کتابیں ۵۰۰ جلدوں کے قریب ہیں۔ (3)

پھر حافظ ذہبی نے خود بھی اس روایت کی تصحیح کر رکھی ہے۔ حافظ ذہبی نے اس روایت کو مکمل سند کے ساتھ اسی طریق سے لگایا ھے اور پھر کہا: (هذا الحديث صحیح) ابو الصلت هو عبد السلام۔ (4)

️اگر دو منٹ کے لیے ہم یہ مان بھی لیں کے امام حاکم سے غلطی ہوئ تو ہم کہتے ہیں کے حافظ ذہبی جیسا ناقد جو امام حاکم کی ایک ایک روایت کو متشدد ہو کر پرکھتے ہیں ان کو یہ غلطی کیوں نا نظر آسکی؟ یا ان کو آپ جیسے فیسبوکی محقق سے پوچھنا چاہیے تھا؟ اللہ سے دعا ہے کے اللہ ہمیں جاہلوں کی جہالت سے محفوظ رکھے۔ آمین!
ا___________________________________

2️⃣دوسرا اعتراض:
ابو معاویہ نے یہ بہت پہلے روایت بیان کی تھی پھر انہوں نے یہ روایت بیان کرنی چھوڑ دی.

وقال أحمد بن محمد بن القاسم بن المحرز: سألت يحيى بن معين عن أبي الصلت عبد السلام بن صالح الهروي فقال: ليس ممّن يكذب، فقيل له في حديث أبي معاوية أنا مدينة العلم، فقال: هو من حديث أبي معاوية
أخبرني ابن نمير قال: حدّث به أبو معاوية قديماً، ثمّ كفّ عنه. وكان أبو الصّلت رجلا موسراً يطلب هذه الأحاديث ويلزم المشايخ، فكانوا يحدّثونه۔ (5)

️احمد بن محمد بن القاسم بن المحرز نے کہا: میں نے یحییٰ بن معین سے ابو الصلت عبد السلام بن صالح الہروی کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا، وہ جھوٹ نہیں بولتا۔ پھر ان سے ابو معاویہ کی حدیث کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے کہا یہ ابو معاویہ کی احادیث میں سے ہے۔ ابن نمیر کہتے ہیں ابو معاویہ پہلے یہ بیان کرتے تھے پھر اس پر خاموشی اختیار کرلی۔

یہ اس بات کی دلیل ہے کے ابو معاویہ جان گۓ تھے کہ اعمش نے یہاں تدلیس کی ہے تبھی وہ یہ روایت بیان کرنا چھوڑ گۓ تھے۔ کیونکہ اعمش کا مجاہد سے سماع قلیل ہے۔

الجواب:

⭕اولا تو یہ روایت ابو العباس احمد بن محمد بن القاسم بن محرز(ابن محرز) مجھول کی وجہ سے ضعیف ہے۔

️دوسرا یہ کہ اگر کوئ حافظ کسی روایت کو بیان کرنا چھوڑ دے تو یہ اس بات کی دلیل کب سے ہونے لگی کے روایت ہی ضعیف ہوگئ؟ ایک حافظ الحدیث ہوتا ہی وہ ہے جسے ہزاروں احادیث حفظ ہوں اور کئی احادیث ایسی ہوتی ہیں جو صحیح ہوتی ہیں لیکن وہ ان کو بار بار بیان نہیں کرتے۔
اور یحیی بن معین کا یہ کہنا کے یہ حدیث ابو معاویہ کی احادیث میں سے ہے زیادہ معقول ہے کیونکہ ابو معاویہ سے اس حدیث کو ان کے شاگردوں کی ایک جماعت نے نقل کیا ہے۔
خطیب بغدادی بھی کہتے ہیں کے:

أراد أنه صحيح عن أبي مُعَاوِيَةَ إذ قد رواه غير واحد عنه۔ (6)

️یعنی یحیی بن معین کا یہ کہنا کے یہ صحیح ہے سے مراد یہ ہے کہ یہ روایت ابو معاویہ کی احادیث میں سے صحیح ہے کیونکہ اسے ایک سے زیادہ لوگوں نے روایت کیا ہے

️تدلیس کے الزام کو رد کرنے کا تیسرا قرینہ یہ ہے کہ یہ وہ روایت ہے جس پر محدثین کی ایک بڑی جماعت کا اختلاف ہوا ہے اور اس کے ایک ایک طریق پر گہری نظر رکھی گئی ہے لیکن محدثین کی اتنی بڑی جماعت میں سے کسی ایک نے بھی اس روایت پر تدلیس کا حکم نہیں لگایا۔ یہاں تک کے حافظ ذہبی جیسا ناقد جو مستدرک للحاکم کی ایک ایک روایت پر سخت نقد کرتے ہیں انہوں نے مستدرک میں اس روایت کے تین طرق میں سے کسی ایک پر بھی تدلیس کی جرح نہیں کی۔

چوتھی بات یہ کہنا کہ اعمش کا مجاہد سے سماع قلیل ہے اور روایت معنن ہے اس لیے تدلیس ہے۔ یہ انتہائ کمزور بات ہے کیونکہ امام اعمش کی مجاہد سے معنن روایات تو خود صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں موجود ہیں جن کے سماع کی تصریح موجود نہیں ہے۔ملاحظہ ہو:
صحیح مسلم 992، صحیح بخاری 218 اور اس کے علاوہ اعمش، عن مجاھد والی سند کی 6 روایات صحیح بخاری میں، 2 روایات صحیح مسلم میں، 5 روایات سنن ابی داؤد میں، 7 روایات جامع ترمذی میں، 3 روایات سنن ابن ماجہ میں اور 1 روایت سنن نسائی میں موجود ہے۔ اور اکثر کو صحیح تسلیم کیا گیا ہے۔

〽اب اگر کوئ یہ کہتا ہے کے بخاری مسلم میں مدلسین کی معنن روایات سماع پر محمول ہیں تو یہ وہ دعوہ ہے جس پر کوئ دلیل موجود ہی نہیں سرے سے۔ لہذٰا اگر یہاں روایت رد ہوگی تو وہاں بھی رد ہوگی۔ تدلیس پکڑنا محدثین کا، آئمہ علل کا فن ہے اور محدثین کی بہت بڑی جماعت نے اس روایت پر کلام کیا ہے لیکن کسی نے تدلیس کا حکم نہیں لگایا۔ ورنا آپ کی باتوں یہ یوں معلوم ہوتا ہے کے شاید اس روایت پر کلام کرتے ہوۓ محدثین تدلیس پکڑنا ہی بھول گۓ۔ یہ بہت بڑا قرینہ ہے کے محدثین کی اتنی بڑی جماعت نے اس روایت پر کلام کیا پر تدلیس کا حکم نہیں لگایا۔

اگر یہاں تدلیس ہوتئ تو یہ تدلیس تسویہ ہوتی جو کہ تدلیس کی سب سے بری قسم ہے۔ اور اعمش نے بہت قلیل ہی تدلیس تسویہ کی ہے اور جہاں کی وہاں محدثین نے پکڑ لیا اور ان روایات کو جمع کر لیا لیکن اس روایت کو کسی محدث نے وہاں شامل نہیں کیا جو کے مذید ایک مضبوط ترین دلیل ہے۔
ا__________________________________

3️⃣تیسرا اعتراض:
امام یحیی بن معین نے اس روایت کے بارے میں کہا کہ اس کی کوئ اصل نہیں(7) یعنی یہ روایت موضوع ہے گھڑی گئی ہے۔ اس کے ساتھ اس کو بھی ملا لیں:
وقال ابن الجنيد مرة أخرى: سمعت یحیی وذكر أبا الصلت الهروي فقال: "لم يكن عندنا من أهل الكذب، وهذه الأحاديث التي يرويها ما نعرفها(8)

️ابن جنید ایک بار پھر روایت کرتے ہیں: میں نے یحیی بن معین کو ابو الصلت کے بارے میں بات کرتے ہوۓ سنا کہ وہ جھوٹ بولنے والوں میں سے نہیں ہے اور یہ حدیث جو اس نے روایت کی میں اسے نہیں جانتا۔

الجواب:
⭕ہم یہ کہتے ہیں کے یہ درست ہے کے امام یحیی بن معین تحقیق سے قبل اس روایت کو موضوع سمجھتے تھے لیکن جب انہوں نے تحقیق کی تو انہوں نے اپنے اس قول سے رجوع کر لیا ملاحظہ ہو:
واما حديث الأعمش فان أبا الصلت كان يرويه عن أبي معاوية عنه فأنكره أحمد بن حنبل ويحيي بن معين من حديث أبي معاوية ثم بحث يحيي عنه فوجد غير أبي الصلت قد رواه عن أبي معاوية فأخبرنا محمد بن أحمد بن رزق.... عن بن عباس قال قال رسول الله e الله عليه وسلم أنا مدينة العلم وعلي بابها فمن أراد العلم فليأت بابه قال القاسم سألت يحيي بن معين عن هذا الحديث فقال هو صحيح۔

️جہاں تک الاعمش کی حدیث کا تعلق ہے تو ابو الصلت اسے ابی معاویہ کی سند سے روایت کیا کرتے تھے لیکن احمد بن حنبل اور یحییٰ بن معین نے اسے ابی معاویہ کی حدیث ماننے سے انکار کر دیا۔ لیکن یحییٰ بن معین نے اس پر مذید تحقیق کی تو معلوم ہوا کہ ابی الصلت کے علاوہ کسی اور نے بھی اسے ابی معاویہ کی سند سے روایت کیا ہے۔ القاسم نے کہا: یحییٰ بن معین سے اس حدیث کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ یہ صحیح ہے۔(9)

️لہذا یحیی بن معین نے تحقیق کر کے خود ہی اپنے پچھلے قول سے رجوع کیا اور اس حدیث کی تصحیح فرمائ۔ علم حدیث سے شگف رکھنے والے حضرات جنہوں نے اس روایت پر تحقیق کی ہو گی وہ بہت اچھی طرح جانتے ہیں کہ ابو معاویہ سے ان کے شاگردوں کی ایک جماعت نے ان سے اسے روایت کیا لہذا یہ موضوع والی جرح پیش کرنا تو انتہائ علمی خیانت ہے۔
ا_____________________________

4️⃣جوتھا اعتراض:
یہ حدیث موضوع ہے ملاحظہ ہو:

حديث أبي معاوية عن الأعمش عن مجاهد عن ابن عباس (أنا مدينة الحكمة وعلى بابها) كم من خلق قد افتضحوا فيه، ثم قال لي أبو زرعة: أتينا شيخا ببغداد يقال له عمر بن إسماعيل بن مجالد، فأخرج إلينا كراسة لأبيه فيها أحاديث جياد، عن مجالد، وبيان، والناس، فكنا نكتب إلى العصر، وقرأ علينا، فلما أردنا أن نقوم قال: حدثنا أبو معاوية، عن الأعمش بهذا الحديث فقلت له: ولا كل هذا بمرة. فأتيت يحيى بن معين، فذكرت ذلك له فقال: قل له يا عدو الله متى كتبت أنت هذا عن أبي معاوية، إنما كتبت أنت عن أبي معاوية ببغداد، متى روى هذا الحديث ببغدادسؤالات البرذعي لأبي زرعة الرازي ت الهاشمي ؟ ۔ (10)

️ابو زرعہ کہتے ہیں ہم بغداد میں ایک شیخ سے ملے جس کا نام عمر بن اسماعیل بن مجالد تھا انہوں نے ہمیں اپنے والد کی ایک کتاب دکھائ جس میں وہ احادیث تھیں جو انہوں نے مجالد، بیان اور دیگر لوگوں سے سنی تھیں۔ ہم وہ حدیثیں لکھتے اور پڑھتے تھے پس جب ہم نے جانے کا ارادہ کیا تو اس نے وہ حدیث(باب الحکمة) ابو معاویہ عن اعمش کے طریق سے بیان کی تو میں نے اس سے کہا یہ کیسے ہو سکتا ہے؟ پس میں یحیی بن معین کے پاس آیا اور انہیں اس بارے میں بتایا۔ تو انہوں نے کہا اس سے کہو کہ اے الله کے دشمن تم نے یہ ابو معاویہ سے بغداد میں کب سنی؟ انہوں نے کب یہ حدیث بغداد میں بیان کی؟

یہاں یحیی بن معین کا ابو معاویہ سے بغداد میں اس کا رویت ہونا یہ سن کر حیران ہونا اس بات کا ثبوت ہے کے یہ روایت موضوع ہے کیوں کے ابو الصلت کی متابعت والی روایت(1) جو مستدرک میں ہے اس میں محمد بن احمد بن تمیمی اور حسین بن فھم بغداد سے ہیں ممکن ہے ان میں سے کسی نے یہ روایت ابو الصلت سے سن کر گھڑی ہو۔

الجواب:
⭕ہم یہ کہتے ہیں کے یہ اعتراض کرنے والا جاہلوں کا سردار ہے اور اصول حدیث سے بالکل ہی نابلد ہے یا پھر لوگوں کو بیوفوغ بنانے کے لیے ایسے اعتراضات اٹھاتا ہے خیر

اولا تو یہ روایت ہی الگ ہے " میں حکمت کا شہر ہوں" (11) اور جس روایت کے بارے میں ہم بات کر رہے ہیں وہ" میں علم کا شہر ہوں" دونوں الگ الگ روایات ہیں۔

️دوسرا یہ روایت دوسری سند سے آئی ہے جس میں عمر بن اسماعیل بن مجالد ضعیف ہے۔ جبکہ اس روایت سے ہم نے استدلال ہی نہیں کیا تو اس روایت کی جراح وہ بھی اس سند سے ہمیں پیش کرنا جہالت ہے۔

️ثالثا یہ کہنا کے فلاں نے حدیث گھڑ لی ہوگی یا فلاں نے فلاں کام کر دیا ہوگا اصول حدیث سے کورے لوگ ایسی جہالت سے بھرپور باتیں کرتے ہیں، حدیث پر جرح مفروضوں کی بنیاد پر نہیں دلائل کی بنیاد پر ہوتی ہے، کیونکہ یحیی بن معین تو خود اس روایت کو صحیح مان رہے ہیں اس کو روایت کرنے والے ابو الصلت کے دفاع میں خود ہی اس کی متابعت بھی دکھا رہے ہیں۔ ملاحظہ ہو:
⭕عباس بن محمد الدوری کہتے ہیں : میں نے حضرت یحیی بن معین سے ابوصلت ہروی کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا : وہ ثقہ ہے ۔ میں نے کہا : کیا اس نے ابومعاویہ کے واسطے سے اعمش سے یہ روایت نہیں کی ’’ انا مدینۃ العلم ‘‘ تو انہوں نے کہا : اس کو محمد بن جعفر الفیدی نے بھی روایت کیا ہے اور وہ ثقہ ہیں ، مامون ہیں ۔(1)

جب یحیی بن معین سے بار بار اس روایت کے بارے میں اور ابو الصلت کے بارے میں پوچھا جانے لگا تو آپ کیا کہا ملاحظہ ہو؛

قال عباس الدّوري: سمعت يحيي بن معين يوثّق أبا الصّلت عبد السّلام بن صالح فقلت له: إنّه حدّث عن أبي معاوية عن الأعمش: أنا مدينة العلم وعلي بابها! فقال: ما تريدون من هذا المسكين؟ أليس قد حدّث به محمّد بن جعفر الفيدي عن أبي معاوية (12)

️عباس الدوری کہتے ہیں میں نے یحیی بن معین کو ابو الصلت کی توثیق کرتے ہوۓ سنا تو ان سے کہا کہ یہ ابو معاویہ عن اعمش کے طریق سے حدیث مدینة العلم روایت کرتا ہے۔ تو انہوں نے کہا: آخر تم اس مسکین شخص سے چاہتے کیا ہو؟ کیا اس حدیث کو محمد بن جعفر الفیدی نے ابو معاویہ سے روایت نہیں کیا؟

️اسی طرح بغداد ہی کے باشندے اور محدث کبیر خطیب باغدادی کا قول ہم اوپر بیان کر چکے(6) کہ انہوں نے کہا یہ حدیث ابو معاویہ کی احادیث میں سے ہے کیونکہ اسے ابو معاویہ کے کئی شاگردوں نے بیان کیا ہے۔ لہٰذا بغداد کی کمزور جرح پر عمارت کھڑی کرنے والوں کی عمارت کو خود بغداد کے ہی سب سے بہترین محدث نے بھی ایک ہی ٹھوکر میں گرا دیا۔
ا___________________________________

5️⃣پانچھواں اعتراض:
آپ نے کہا کے ذہبی نے تذکرة الحفاظ میں اس روایت کو صحیح کہا ہے(4) لیکن ذہبی نے تو اس روایت کو مستدرک کی تلخیص میں امام حاکم پر حیرت کرتے ہوۓ موضوع کہا ہے۔(1)
امام حاکم نے کہا کے ابو الصلت ثقہ ہے مامون ہے تو حافظ ذہبی نے نقد کرتے ہوۓ کہا کے اللہ کی قسم نہ یہ ثقہ ہے اور نہ مامون ہے۔ اور ساتھ ہی روایت کو بھی منگھڑت قرار دے دیا۔

الجواب :
⭕ہم یہ کہتے ہیں کے اول تو ذہبی نے خود ابو الصلت کو میزان العتدال میں صالح شیخ قرار دیا ہے(13) لیکن چلیں مان لیں کے ذہبی نے ابو الصلت کو نہ ثقہ مانا اور نہ مامون تو پھر ہم کہتے ہیں کے آخر کون سی دلیل پر ذہبی نی جرح کر دی اور کس دلیل پر موضوع کہ دیا؟ اصول حدیث سے شگف رکھنے والے حضرات یہ جانتے ہیں کے جمھور کے نذدیک تعدیل مبھم کو جرح مبھم پر فوقیت حاصل ہوتی ہے لیکن یہاں پر تو معاملہ ہی بالکل الٹ ہے یہاں پر جرح مبھم ہے جبکہ تعدیل مفسر ہے، کہاں امام الآئمہ امیر المؤمنین فی الحدیث امام یحیی بن معین اور کہاں متاخرین میں آنے والا شمس الدین ذہبی یہ تقابل ہی کیسا ہے کیا یہ تقابل کرنا امام یحیی بن معین کی توہین نہیں؟
️اور یہ کہنا کے ابو الصلت پر بخاری نے جرح کردی اور دار قطنی نے رافضی خبیث کہ دیا، کیا ان لوگوں نے خود بھی ابو الصلت کو دیکھا ہے؟ کیا ایک شخص جس پر جرح کر رہا ہے اس کا ادراک ہی نہیں کر پایا اس کی جرح اس شخص کے مقابلے میں مؤثر ہو سکتی ہے کے جس نے خود اس شخص کے ساتھ وقت گزارا ہو؟ جی ہاں بخاری یا دارقطنی کسی تیسرے بندے کے حوالے سے جراح کر رہے ہیں جبکہ یحیی بن معین جو کے بخاری کے بھی استاد ہیں انہوں نے خود نا صرف ابو الصلت کے ساتھ وقت گزارا بلکہ ان کا بھرپور دفاع بھی کرتے رہے۔ لہٰذا یہ کہنا کے دارقطنی نے راف دی خبیث کہ دیا اصل میں امام یحیی بن معین پر تہمت لگانا ہے کیونکہ آپ کے زعم میں تو وہ ایک راف دی خبیث کا دفاع کر رہے ہیں۔
ا_______________________________

مجھے امید ہے کہ حقیر کی اس معمولی سے کاوش سے حق کے متلاشی لوگوں کو کچھ فائدہ ضرور ہوا ہوگا اور نا سبی فکر رکھنے والوں کو بھی دعوت اصلاح ہے کے خدارا محنت کر کے اپنے لیے جہنم نہ خریدیں اور کچھ خدا کا خوف کھائیں۔
واللہ اعلم بالصواب
ا_______________________________

1) مستدرک للحاکم - 4637
2) تاريخ ابن معين رواية ابن محرز: ج 2 - ص 242
3) كتاب طبقات الحفاظ للسيوطي - ص 410
4) تذکرة الحفاظ ج 4 - ص 28
5) تهذيب الكمال ج 18 - ص 79
6) منهج الخطيب البغدادي - ص 423
7) الجرح والتعديل لابن أبي حاتم : ج 6 - ص 99
8) سؤالات ابن الجنيد ،25 ، وانظر: تهذيب الكمال [18/78]
9) تهذيب الكمال ج 18 - ص 77
10) سؤالات البرذعي أبي زرعة الرازي الهاشمي 2 - 521
11) الترمذي ج 1 - 445
12) تهذيب الكمالج ج 18 - ص 79
13) میذان العتدال
__________________________________________
پوسٹ کا لنک:
 
شمولیت
ستمبر 07، 2020
پیغامات
109
ری ایکشن اسکور
11
پوائنٹ
54
الجواب:
ہم یہ کہتے ہیں کے ہم اس کو آپ کی دو نمبری سمجھیں؟ آپ کا بغض سمجھیں؟ یا آپ کی کم علمی سمجھیں؟ یعنی آپ ایک مجھول شخص کی روایت کو ایک امام کی روایت پر ترجیع دے رہے ہیں؟ جی بالکل ابن محرز جو کہ (ابو العباس احمد بن محمد بن القاسم بن محرز) ہے اس کا کوئ آتا پتا ہی نہیں کے یہ کون ہے اور کہاں کا باشندا ہے۔ محدثین میں سے اس پر کسی قسم کا کوئ کلام موجود ہی نہیں اس کی کوئ توثیق نہیں۔ جبکہ اس مجھول الحال راوی کو بنیاد بنا کر ایک حدیث کے امام کی روایت کو رد کیا جا رہا ہے؟یہی ہوتا ہے جب انسان اصول حدیث سے سرے سے نابلد ہو لیکن کاپی پیسٹ مارنے میں ماہر ہو۔
نہ تو یہ ہماری دو نمبر ہے۔ نہ ہی ہم بغض کا شکار ہیں۔ بلکه ھم ھر صحابی کی ثابت شدہ فضیلت کو سینے سے لگاتے ہیں۔
آپ کو یاد دلاتا چلوں۔ ابن محرز والی روایت کو آپ ہی سب سے پہلے پیش کرکے اپنا مدعیٰ ثابت کرنا چاہا تھا۔ لیکن جب میں نے آپ کی دم پر پاؤں رکھا تو آپ نے خود ہی ابن محرز کے مجھول ہونے کا اقرار بھی کرلیا۔ اور ابن محرز والی روایت سے ہاتھ بھی کھڑے کر لئے۔
حالانکه میں نے شروع سے اخیر تک ابن محرز کا جہاں جہاں ذکر کیا وھاں وھاں بریکٹ میں واضح کیا کہ یہ مجھول ہے۔
سب سے پہلے تو میں ابن محرز والی روایت کا شاھد آپ کو دکھا دوں جو "محمد بن الطفیل ہی کے واسطے سے موجود ھے۔ملاحظه ھو:
ابن المغازلي (المتوفیٰ ٤٨٣هـ) نے بھی اس کی وھی سند بیان کی جو ابن محرز (مجھول) نے بیان کی".
ملاحظه ھو:
١٢٨ - أخبرنا أبو طالب محمد بن أحمد بن عثمان البغدادي -قدم علينا واسطا- أخبرنا أبو الحسن علي بن محمد بن لؤلؤ إذنا، حدثني عبد الرحمن بن محمد بن المغيرة، حدثنا محمد بن يحيى، حدثنا محمد بن جعفر الكوفي عن محمد بن الطفيل عن أبي معاوية عن الأعمش عن مجاهد عن ابن عباس قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ((أنا مدينة الحكمة وعلي بابها، فمن أراد الحكمة فليأت الباب".
[مناقب علی لابن مغازلي: صفحة144]-إسناده ضعيف
۔
لہذا اِس شاھد کے بعد ابن محرز کی بات پر مھر لگ گئی۔ کہ اس روایت کو محمد بن طفیل ہی نے ابو معاویة سے بیان کیا تھا۔۔ اور محمد بن جعفر الفیدی نے اِس کو محمد بن الطفیل کے واسطے کے ساتھ ابو معاویة سے بیان کیا تھا۔ یہ تو سند ہی میں اضطراب ھوگیا۔ کبھی محمد بن الطفیل کے واسطے کے ساتھ اور کبھی بناء واسطے کے؟
۔
رہی بات امام حاکم والی سند کی۔ تو امام الحاکم نے اسکی یہ سند پیش کی
٤٦٣٨ - حدثنا بصحة، ما ذكره الإمام أبو زكريا، يحيى بن معين، ثنا أبو الحسين محمد بن أحمد بن تميم القنطري، ثنا الحسين بن فهم، ثنا محمد بن يحيى بن الضريس، ثنا محمد بن جعفر الفيدي، ثنا أبو معاوية، عن الأعمش، عن مجاهد، عن ابن عباس رضي الله عنهما قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «أنا مدينة العلم وعلي بابها، فمن أراد المدينة، فليأت الباب»
[المستدرك للحاكم]
۔
امام حاکم والی روایت میں "محمد بن جعفر الفیدی" کی ابو معاویة سے تحدیث ھے۔ جبکه ابن المغازلی نے عن سے بیان کیا۔
اول تو الحاکم کی سند میں محمد بن احمد بن تمیم القنطری ضعیف ہے۔ اور پھر اس سند میں محمد بن الطفیل کا واسطه بھی موجود نہیں۔ جبکه محمد بن جعفر الفیدی کو خاص محمد بن الطفیل کے تلامذہ میں شمار کیا گیا ہے ، اور محمد بن جعفر الفیدی ، محمد بن الطفیل ہی سے روایت کرتے ہیں۔
ملاحظه ہو:
٥٥٦ - محمد بن يحيى بن الضريس الكوفى كان يسكن فيد روى عن محمد (١) بن فضيل والوليد بن بكير ومحمد بن الطفيل وعمرو بن هاشم الجنبى وعيسى بن عبد الله بن محمد بن عمربن على بن ابى طالب سمع منه أبي وروى عنه سمعت أبي يقول ذلك.
[الجرح والتعديل لان أبي حاتم: جزء8/صفحة124]

اور جو محمد بن الطفیل ہے۔ وہ ابو معاوية (محمد بن خازم) سے روایت کرتے ہیں۔
امام ابن أبي حاتم الرازي رحمه الله نے کہا:
محمد بن طفيل النخعي كوفى سكن فيد روى عن شريك وابن الاصبهاني وأبى معاوية الضرير روى عنه محمد بن يحيى بن الضريس وحماد بن الحسن ابن عنبسة سمعت أبي يقول ذلك، قال أبو محمد هو ابن الطفيل بن مالك النخعي روى عن الصبى بن الاشعث وصدقة بن رستم والجراح بن موسى حدثنا عنه عمرو بن سلم البصري نزيل الرى وابو شيبة إبراهيم بن أبي بكر بن ابى شيبة
[الجرح والتعدیل لابن أبي حاتم]

پھر امام الحاکم نے اس روایت کو لکھنے کے بعد ابو الصلت کی تعدیل نقل کی اس طرح:
فإني سمعت أبا العباس محمد بن يعقوب في التاريخ يقول: سمعت العباس بن محمد الدوري يقول: سألت يحيى بن معين، عن أبي الصلت الهروي، فقال: «ثقة» . فقلت: أليس قد حدث عن أبي معاوية، عن الأعمش «أنا مدينة العلم» ؟ فقال: قد حدث به محمد بن جعفر الفيدي وهو ثقة مأمون
[المستدرك للحاكم: جزء3/صفحة137]
.
اول تو یہ روایت الدوری کی تاریخ میں موجود ہی نہیں اور پھر اسی روایت کو جب امام الدوری سے امام خطیب نے نقل کیا تو امام خطیب نے یہ متن بیان کیا:
أخبرنا محمد بن علي المقرئ، قال: أخبرنا محمد بن عبد الله النيسابوري، قال: سمعت أبا العباس محمد بن يعقوب الأصم، يقول: سمعت العباس بن محمد الدوري، يقول: سمعت يحيى بن معين يوثق أبا الصلت عبد السلام بن صالح، فقلت: أو قيل له: إنه حدث عن أبي معاوية، عن الأعمش: " أنا مدينة العلم وعلي بابها ". فقال ما تريدون من هذا المسكين؟! أليس قد حدث به محمد بن جعفر الفيدي عن أبي معاوية، هذا أو نحوه".
[تاریخ البغداد للخطیب: جزء12/صفحة315]
تنبیہ: محمد بن علی ابو العلاء ضعیف ہے
امام خطیب نے "یوثق" کہا اور امام الحاکم نے یوثق سے واضح ثقة مراد لے کر ثقة ہی نقل کردیا۔
۔
پھر امام حاکم نے ابو الصلت کی توثیق کے لئے دوسرا قول بیان کیا:
سمعت أبا نصر أحمد بن سهل الفقيه القباني إمام عصره ببخارى، يقول: سمعت صالح بن محمد بن حبيب الحافظ يقول: وسئل عن أبي الصلت الهروي، فقال: دخل يحيى بن معين ونحن معه على أبي الصلت فسلم عليه، فلما خرج تبعته فقلت له: ما تقول رحمك الله في أبي الصلت؟ فقال: «هو صدوق» . فقلت له: إنه يروي حديث الأعمش، عن مجاهد، عن ابن عباس، عن النبي صلى الله عليه وسلم «أنا مدينة العلم، وعلي بابها، فمن أراد العلم فليأتها من بابها» ، فقال: قد روى هذا ذاك الفيدي، عن أبي معاوية، عن الأعمش كما رواه أبو الصلت".
[المتسدرك للحاکم:جزء3/صفحة136]

لیکن جب امام خطیب نے یہی قول نقل کیا تو متن یہ تھا".

أخبرنا القاضي أبو العلاء محمد بن علي الواسطي، قال: أخبرنا أبو مسلم بن مهران، قال: أخبرنا عبد المؤمن بن خلف النسفي، قال: سألت أبا علي صالح بن محمد عن أبي الصلت الهروي، فقال: رأيت يحيى بن معين يحسن القول فيه، ورأيت يحيى بن معين عنده وسئل عن الحديث الذي روي عن أبي معاوية حديث علي: " أنا مدينة العلم. فقال: رواه أيضا الفيدي، قلت: ما اسمه، قال: محمد بن جعفر".
[تاریخ بغداد للخطیب: جزء12/صفحة315]-
.
یہاں امام حاکم نے "یحسن القول فیه". سے صدوق مراد لے لیا". یہ دو مثالیں امام حاکم کی تشیع پر۔ اور امام الذھبی نے بھی امام حاکم پر قلیل تشیع کی جرح کر رکھی ہے۔ لہذا آپکا الذھبی والا اعتراض۔ کہ الذھبی نے حاکم کو کچھ کیوں نہیں کہا؟ تو الذھبی نے تشیع قلیل بھی کہا۔ اور حاکم کی المستدرك پر تعلیقات لگائیں۔ تاکہ پڑھنے والوں کو کھرے کھوٹے کی تمیز ہوسکے۔ ورنه امام حاکم نے تو ھر قسم کی روایت جمع کرکے شیخین کے متھے لگادی ہوئی ہے۔
۔
 
شمولیت
ستمبر 07، 2020
پیغامات
109
ری ایکشن اسکور
11
پوائنٹ
54
محمد بن جعفر الفیدی ، محمد بن الطفیل ہی سے روایت کرتے ہیں۔
ملاحظه ہو:
٥٥٦ - محمد بن يحيى بن الضريس الكوفى كان يسكن فيد روى عن محمد (١) بن فضيل والوليد بن بكير ومحمد بن الطفيل وعمرو بن هاشم الجنبى وعيسى بن عبد الله بن محمد بن عمربن على بن ابى طالب سمع منه أبي وروى عنه سمعت أبي يقول ذلك.
[الجرح والتعديل لان أبي حاتم: جزء8/صفحة124]
معذرت
محمد بن یحیی الضریس براہ راست محمد بن الطفیل سے روایت کرتے ہیں۔ جبکه ابن المغازلی اور حاکم کی سند میں ان دونوں کے درمیان کوئی واسطه موجود نہیں۔ محمد بن یحیی الضریس، محمد بن جعفر الفیدی سے روایت نہیں کرتے۔ ایک بھی ایسی سند موجود نہیں جس سے معلوم ہو کہ دونوں استاد شاگرد ہیں۔
اور محمد بن یحیی الضریس براہ راست ابو معاویه کے تلامذہ میں سے ہیں۔ تو محمد بن یحیی الضریس کو دو واسطوں سے اپنے شیخ سے روایت کرنے کیا ضرورت پیش آگئی؟
یہ سند کا اضطراب ھے۔ ایسی انوکھی سند اور کہیں موجود نہیں۔
 
شمولیت
ستمبر 07، 2020
پیغامات
109
ری ایکشن اسکور
11
پوائنٹ
54
پھر حافظ ذہبی نے خود بھی اس روایت کی تصحیح کر رکھی ہے۔ حافظ ذہبی نے اس روایت کو مکمل سند کے ساتھ اسی طریق سے لگایا ھے اور پھر کہا: (هذا الحديث صحیح) ابو الصلت هو عبد السلام
امام الذھبي نے بارہا اس روایت کو موضوع اور ابن معین کی منفرد توثیق کو یکسر نظر انداز کرکے ابو اصلت کو کذاب قرار دیا ہے۔
© قال الذهبي تحت ھذالحدیث:
فقلت: بل موضوع، ثم قال: وأبو الصلت ثقة مأمون، قلت: كلا والله بل رافضي غير ثقة
[موضوعات المستدرك للذهبي: صفحة4]
.
© وقال الذهبي:
قلت: ومن ذنوبه روايته عن أبي معاوية، عن الأعمش، عن مجاهد، عن ابن عباس رفعه: «أنا مدينة العلم وعلي بابها» . والحديث موضوع، ما رواه الأعمش
[تاريخ الإسلام للذهبي: جزء18/صفحة368]
.
© وقال الذهبي:
[١٥٢٥ - جعفر بن محمد الفقيه.]
فيه جهالة.
قال مطين: حدثنا جعفر، حدثنا أبو معاوية، عن الأعمش، عن مجاهد، عن ابن عباس: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: أنا مدينة العلم وعلى بابها.
هذا موضوع.
[ميزان الاعتدال للذهبي: جزء1/صفحة415]
.
© وقال الذهبي:
"أنا مدينة العلم وعلي بابها, فمن أراد بابها فليأت عليا". هذا الحديث غير صحيح وأبو الصلت هو عبد السلام متهم.
[تذكرة الفاظ للذهبي: جزء/صفحة21]
 
شمولیت
ستمبر 07، 2020
پیغامات
109
ری ایکشن اسکور
11
پوائنٹ
54
️اگر دو منٹ کے لیے ہم یہ مان بھی لیں کے امام حاکم سے غلطی ہوئ تو ہم کہتے ہیں کے حافظ ذہبی جیسا ناقد جو امام حاکم کی ایک ایک روایت کو متشدد ہو کر پرکھتے ہیں ان کو یہ غلطی کیوں نا نظر آسکی؟ یا ان کو آپ جیسے فیسبوکی محقق سے پوچھنا چاہیے تھا؟ اللہ سے دعا ہے کے اللہ ہمیں جاہلوں کی جہالت سے محفوظ رکھے۔ آمین!
امام حاکم کی سند میں القنطری ضعیف (فیه لین) ھے ممکن ھے القنطری نے اس واسطے کو حذف کیا ہو۔ اور الذھبي نے کئی جگه اس روایت کو من گھڑت قرار قرار دیا ہوا ہے
 
شمولیت
ستمبر 07، 2020
پیغامات
109
ری ایکشن اسکور
11
پوائنٹ
54
الجواب:

⭕اولا تو یہ روایت ابو العباس احمد بن محمد بن القاسم بن محرز(ابن محرز) مجھول کی وجہ سے ضعیف ہے۔

️دوسرا یہ کہ اگر کوئ حافظ کسی روایت کو بیان کرنا چھوڑ دے تو یہ اس بات کی دلیل کب سے ہونے لگی کے روایت ہی ضعیف ہوگئ؟ ایک حافظ الحدیث ہوتا ہی وہ ہے جسے ہزاروں احادیث حفظ ہوں اور کئی احادیث ایسی ہوتی ہیں جو صحیح ہوتی ہیں لیکن وہ ان کو بار بار بیان نہیں کرتے۔
اور یحیی بن معین کا یہ کہنا کے یہ حدیث ابو معاویہ کی احادیث میں سے ہے زیادہ معقول ہے کیونکہ ابو معاویہ سے اس حدیث کو ان کے شاگردوں کی ایک جماعت نے نقل کیا ہے۔
خطیب بغدادی بھی کہتے ہیں کے:

أراد أنه صحيح عن أبي مُعَاوِيَةَ إذ قد رواه غير واحد عنه۔ (6)

️یعنی یحیی بن معین کا یہ کہنا کے یہ صحیح ہے سے مراد یہ ہے کہ یہ روایت ابو معاویہ کی احادیث میں سے صحیح ہے کیونکہ اسے ایک سے زیادہ لوگوں نے روایت کیا ہے
جب ابن محرز ہی مجھول ھے۔ تو ابن محرز کی بیان کردہ کہانی سے کون سا تاج محل بنانا چاہ رہے ہو؟
امام خطیب نے جو توجیہہ پیش کی وہ بھی بیکار ھے۔ کیونکه اصل قول ہی ثابت نہیں
 
شمولیت
ستمبر 07، 2020
پیغامات
109
ری ایکشن اسکور
11
پوائنٹ
54
️تدلیس کے الزام کو رد کرنے کا تیسرا قرینہ یہ ہے کہ یہ وہ روایت ہے جس پر محدثین کی ایک بڑی جماعت کا اختلاف ہوا ہے اور اس کے ایک ایک طریق پر گہری نظر رکھی گئی ہے لیکن محدثین کی اتنی بڑی جماعت میں سے کسی ایک نے بھی اس روایت پر تدلیس کا حکم نہیں لگایا۔ یہاں تک کے حافظ ذہبی جیسا ناقد جو مستدرک للحاکم کی ایک ایک روایت پر سخت نقد کرتے ہیں انہوں نے مستدرک میں اس روایت کے تین طرق میں سے کسی ایک پر بھی تدلیس کی جرح نہیں کی۔
یا تو آپ بچے ہیں۔ یا بچه بننا اچھا لگتا ھے آپ کو۔
محدثین جب کسی روایت کی تضعیف کرتے ہیں۔ تو اُن کے پیش نظر ھر علت ہوتی ہے۔
اور ابن معین نے تو الاعمش عن مجاھد پر کلی طور تدلیس کا حکم لگا رکھا ھے۔
ابن طمھان نے کہا:
وقال ابن طهمان: سمعت يحيى، يعني ابن معين، يقول: الأعمش سمع من مجاهد، وكل شيء يروى عنه لم يسمع، إنما مرسلة مدلسة. «تاريخه» (٥٩)
۔
ابن معین تو الاعمش کا مجاھد سے عنعنه قبول ہی نہیں کر رھے۔ یہ ابن معین کا اصول ہے۔ اور کئی جگہ ابن معین نے اس حدیث کو منکر کہا۔ ملاحظه ھو۔
أخبرنا البرقاني قال: قرئ على محمد بن عبد الله بن خميرويه، وأنا أسمع: أخبركم يحيى بن أحمد بن زياد، قال: وسألته، يعني يحيى بن معين، عن حديث أبي معاوية الذي رواه عبد السلام الهروي عنه عن الأعمش، حديث ابن عباس، فأنكره جدا
[تاريخ بغداد: جزء12/صفحة315]
.

حدثنا إبراهيم بن عبد الله بن الجنيد، قال: سألت يحيى بن معين، عن أبي الصلت الهروي، فقال: قد سمع وما أعرفه بالكذب، قلت: فحديث الأعمش، عن مجاهد، عن ابن عباس؟ قال: ما سمعت به قط وما بلغني إلا عنه
وقال مرة أخرى: سمعت يحيى، وذكر أبا الصلت الهروي، فقال: لم يكن أبو الصلت عندنا من أهل الكذب، وهذه الأحاديث التي يرويها ما نعرفها
ترجمه: میں اسے جھوٹ کے ساتھ نہیں جانتا۔ پوچھا اور وہ حدیث جو یہ روایت کرتا ہے؟ (الأعمش، عن مجاهد، عن ابن عباس) تو ابن معین نے کہا: یہ حدیث مجھے صرف اسی کے واسطے سے پہنچی ہے۔ میں نے اس بارے میں کسی اور کچھ نہیں سُنا".
پھر کہا: ابو الصلت جو کچھ روایت کرتا ہے میں نہیں جانتا".
[سؤالات ابن الجنید لیحیی بن معین]
۔
اسی روایت کو جب عمر بن اسماعیل نے بیان کیا تو ابن معین نے اُس کو کذاب قرار دیا:
حدثنا إبراهيم بن الجنيد، قال: سمعت يحيى بن معين، وسئل عن عمر بن إسماعيل بن مجالد بن سعيد، فقال: كذاب يحدث أيضا بحديث أبي معاوية، عن الأعمش، عن مجاهد، عن ابن عباس، عن النبي صلى الله عليه وسلم " أنا مدينة العلم وعلي بابها ".
وهذا كذب ليس له أصل
[سؤالات ابن لجنید لیحیی بن معین]
۔
سوال یہ ہے کہ جب اس کا متابع موجود تھا۔ تو اِس خبر کو روایت کرنے پر عمر بن اسماعیل کو ابن معین نے کذاب کیوں قرار دیا؟ اور ناصرف کذاب قرار دیا۔ بلکه اس روایت کو ہی بے اصل (من گھڑت) کہہ ڈالا؟
۔
ابن معین سے اس حدیث کے بارے میں مندرجه ذیل اقوال ثابت شدہ ہیں:
في رواية عبد الخالق بن منصور: ما هذا الحديث بشيء.
وفي رواية يحيى الشيباني: أنكره جداً.
وفي غير رواية: ما أعرفه أو ما سمعت به قط.
وفي رواية عبد الله بن أحمد: أنه كذب لا أصل له عن الأعمش
۔

یہ واضح دلیل ہے کہ ابن معین نے ابو الصلت کو پہچاننے میں حسنِ ظن سے کام لیا۔ کیونکه وہ آپکی مجلس میں بیٹھتا تھا۔ (والله اعلم)
جبکه ابو الصلت ہی کے معاصر علماء نے کذاب اور منکر بیان کرنے کی جرح کی۔
یہ واضح قرینه ھے کہ ابن معین مجموعی طور پر اس روایت کو من گھڑت ہی قرار دیتے ہیں۔ البته صرف ابو الصلت کے بارے میں حسنِ ظن رکھتے ہوئے ابن معین نے کہا کہ یہ روایت محمد بن جعفر الفیدی نے بھی ابو معاویة سے بیان کی ہے". تاکه ابو الصلت سے کذاب کی تہمت دور ہو۔ اسی لئے ابن معین نے بار بار کہا۔ کہ میں اسے جھوٹ کے ساتھ نہیں جانتا".،
البته ابن معین نے اِس روایت کی تصحیح کہیں نہیں کی۔ تاریخ بغداد والی سند ضعیف ہے جس میں تصحیح منقول ھے۔ بلکه اس روایت کو ابن معین نے من گھڑت ہی کہا۔
 
Top