• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

نانی اماں کی کہانیاں

مشکٰوۃ

سینئر رکن
شمولیت
ستمبر 23، 2013
پیغامات
1,466
ری ایکشن اسکور
939
پوائنٹ
237
بسم اللہ الرحمٰن ا لرحیم
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
امید ہے ننھے ساتھیو کے مزاج بالکل ٹھیک ہو ں گے۔۔۔اللہ مالک الملک آپ سب کو ہمیشہ اپنی امان میں رکھیں اور دنیا وآخرت کی تمام بھلائیاں عطا فرمائیں۔۔آمین یا رب العالمین ۔
گمان تو یہی ہے کہ آپ بھی میری طرح کہانیاں شوق سے پڑھتے اور سنتے ہوں گے،اور جب نانی اماں سے ملاقات ہو پھر تو اور بھی مزہ آتا ہو گا کیونکہ نانی اماں سے کہانیاں سننے کا اپنی ہی لطف ہے۔۔
ان دنوں میری نانو امی بھی آئی ہو ئی ہیں بلکہ ہمیشہ کی طرح سب نے فرمائش کر کے بلایا ہے۔اور ان سے مزے مزے کی کہانیاں سنتے ہیں ۔۔کبھی پاکستان بننے سے قبل کی ،کبھی قیام ِ پاکستان کی اور کبھی نانی اماں کے اپنے بچپن کی کہانیاں ۔۔۔
اس تھریڈ میں میں آپ کے ساتھ اپنی نانو امی کی سنائی ہوئی کہانیاں شئیر کرتی ہوں ۔۔آپ نے بھی اپنی نانو امی سے کوئی کہانی سنی ہو تو ضرور شئیر کیجئے گا،
آئیے پہلی کہانی کا آغاز کرتے ہیں جس کا نام ہے۔
’’قاضی کا انصاف‘‘
’’کسی گاؤں میں دو عورتیں رہتی تھیں۔جمیلہ اور صفیہ
جمیلہ کے پاس دو بھینسیں اور صفیہ کے پاس ایک بھینس تھی۔۔ایک دفعہ ہوا یوں کہ جس عورت کے پاس دو بھینسیں تھیں وہ دوسری کے گھر گئی اور اس سے کہنے لگی ’’صفیہ !میرے پاس مکھن ختم ہو گیا ہے ،مجھے مکھن ادھار دے دو ،بعد میں واپس کردوں گی۔‘‘
صفیہ نے اسے بعد میں دینے کے وعدے پر مکھن دے دیا ۔۔
کچھ عرصہ بعد جب صفیہ کو مکھن کی ضرورت پڑی تو اس نے جمیلہ سے مکھن واپس کرنے کا کہا ۔۔تو بچو! جمیلہ نے صاف انکار کر دیا کہ میں نے تو تمھارے سے مکھن ہی نہیں لیا ۔۔صفیہ بیچاری حیران رہ گئی۔۔اس نے جمیلہ کو یاد کروایا لیکن وہ نہ مانی۔۔اب صفیہ نے قاضی کے پاس جانے کا سوچا اور جمیلہ کو کہا کہ وہ قاضی کے پاس جا رہی ہے۔۔تو جمیلہ کہنے لگی’’قاضی کے پاس جاؤ چاہے بادشاہ کے پاس چلی جاؤ جب میں نے تم سے مکھن لیا نہیں تو میں کیوں ڈروں؟‘‘
جب صفیہ قاضی صاحب کے پاس شکایت لے کر گئی تو قاضی صاحب نے جمیلہ کو بھی بلا لیا ۔۔جب جمیلہ آئی تو قاضی صاحب نے صفیہ سے معاملہ پوچھا۔۔
صفیہ نے بتایا کہ اس نے میرے سے مکھن ادھار لیا تھا لیکن ا ب یہ انکار کر رہی ہے ۔۔اس پر جمیلہ بولی’’ میں نے اس سے مکھن نہیں لیا ۔۔میری دو بھینسیں ہیں میں بھلا اس سے مکھن کیوں لوں۔۔مجھے کیا ضرورت پڑی تھی اس سے مکھن لینے کی میرا تو گھر کا مکھن ختم نہیں ہوتا ۔اس کی تو بھینس بھی ایک ہے ،،بھلا میں دو ،دو بھینسوں کی موجودگی میں ایک بھینس والی عورت سے مکھن کیسے لیتی۔۔۔۔‘‘؟؟؟
اب تو جناب قاضی صاحب بھی سوچ میں پڑ گئے ۔۔پھرکچھ دیر بعد انہوں نے دونوں کوایک مقرر ہ دن پردوبارہ آنے کا کہا۔
طے شدہ دن قاضی صاحب نے اپنے ملازموں سے کہا کہ عدالت کے راستے میں پانی بہا کر کیچڑ کر دیں۔۔جب جمیلہ اور صفیہ آئیں تو دونوں کے پاؤں کیچڑ سے بھر گئے۔۔قاضی صاحب نے ملازموں کو حکم دیا کہ ان دونوں کو ایک ایک برتن میں پانی دے دو تا کہ یہ اپنے پاؤں دھو سکیں ۔۔۔جمیلہ نے اپنے پاؤں دھونے شروع کئے ،اس کے پاس موجود پانی ختم ہو گیا تو اس نے صفیہ سے کہا‘‘میرا پانی ختم ہو گیا ہے، مجھے پانی دو۔۔۔ادحر صفیہ کے پاس پاؤں دھونے کے بعد بھی پانی بچ گیاتھا۔۔۔وہ اس نے جمیلہ کو دے دیا۔۔قاضی صاحب یہ سارا معاملہ دیکھ رہے تھے ۔۔جب وہ عدالت میں پہنچیں تو قاضی صاحب نے جمیلہ سے پوچھا ‘‘کیا اس نے صفیہ سے پانی لے کر پاؤں دھوئے ہیں؟‘‘
اس پر جمیلہ نے اقرار میں سر ہلا دیا۔
قاضی صاحب نے پو چھا’’ کیاتم دونوں کو پانی برابر برا برنہیں ملا تھا؟
بھلا جب تم ایک جتناپانی ملنے کے باوجود صفیہ سے پانی لے کر پاؤں دھوئے تو یقیننا تم نے اس سے مکھن بھی لیاہے ۔۔اب تم انکار کر رہی ہو۔۔
جب تم ایک جتناپانی ملنے پر اس سے پانی مانگ سکتی ہو تو دو بھینسیں ہونے کے باوجود مکھن کیوں نہیں ۔۔؟؟‘‘
اس پر جمیلہ شرمندہ ہو گئی اور اس نے مان لیا کہ اس نے صفیہ سے مکھن لیا تھا ۔۔اس پر قاضی صاحب نے اسے مکھن واپس کرنے کاکہا اور صفیہ قاضی صاحب کو دعائیں دیتی لوٹ گئی۔۔۔
تو بچو کیسی رہی آج کی کہانی؟؟؟
ان شاءاللہ جلد ہی ایک اور کہانی کے ساتھ ملاقات کریں گے۔۔۔
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,396
پوائنٹ
891
بہت خوب۔
میں ان شاءاللہ اپنے بیٹے کو پڑھاؤں گا۔
بہت عمدہ سلسلہ ہے سسٹر بلکہ نانی اماں، ابتسامہ۔
ضرور جاری رکھئے گا۔
 

نسرین فاطمہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 21، 2012
پیغامات
1,280
ری ایکشن اسکور
3,232
پوائنٹ
396
جزاک اللہ سسٹر
بہت عمدہ کہانی ہے
راات کو روز بچے کہانی سننے کی فرمائش کرتے ہیں وہی کہانیاں بار بار سناتی ہوں آپ روز ایک کہانی شئیر کردیا کریں تاکہ مشکل آسان ہو۔
اللہ بھلا کرے گا آپ کا۔
 

مشکٰوۃ

سینئر رکن
شمولیت
ستمبر 23، 2013
پیغامات
1,466
ری ایکشن اسکور
939
پوائنٹ
237
بہت خوب۔
میں ان شاءاللہ اپنے بیٹے کو پڑھاؤں گا۔
بہت عمدہ سلسلہ ہے سسٹر بلکہ نانی اماں، ابتسامہ۔
ضرور جاری رکھئے گا۔
ھھ۔۔۔شکریہ بھائی!
ان شاء اللہ
جزاک اللہ سسٹر
بہت عمدہ کہانی ہے
راات کو روز بچے کہانی سننے کی فرمائش کرتے ہیں وہی کہانیاں بار بار سناتی ہوں آپ روز ایک کہانی شئیر کردیا کریں تاکہ مشکل آسان ہو۔
اللہ بھلا کرے گا آپ کا۔
وایاک ۔۔
ان شاء اللہ ضرور سسٹر !
مجھے خنساء کو دیکھ کر اندازہ ہے بچے کتنی ضد کرتے ہیں کہانیوں کی خاطر!
آمین اللہ سب کا بھلا کرے۔۔امیوں کی مشکل آسان ہو جائے تو سمجھوں گی تھریڈ کا مقصد پورا ہو گیا۔۔۔۔ابتسامہ
 

مشکٰوۃ

سینئر رکن
شمولیت
ستمبر 23، 2013
پیغامات
1,466
ری ایکشن اسکور
939
پوائنٹ
237
بہت خوب۔
میں ان شاءاللہ اپنے بیٹے کو پڑھاؤں گا۔
بہت عمدہ سلسلہ ہے سسٹر بلکہ نانی اماں، ابتسامہ۔
ضرور جاری رکھئے گا۔
بہت خوب نانی محترمہ (ابتسامہ)
آپ دونوں بھائیوں کا پیغام محترمہ نانی اماں کو پہنچا دیا جائے گا۔۔۔کانا آئیکون
 

Dua

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 30، 2013
پیغامات
2,579
ری ایکشن اسکور
4,440
پوائنٹ
463
زبردست۔۔۔بہت اچھا سلسلہ شروع کیا ہے آپ نے سسٹر،
امید ہے بچوں کے لیے سبق آموز رہے گا۔ان شاء اللہ
 

مشکٰوۃ

سینئر رکن
شمولیت
ستمبر 23، 2013
پیغامات
1,466
ری ایکشن اسکور
939
پوائنٹ
237
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
ننھے ساتھیو!
انسان کے مقدر میں جو مال و دولت اللہ تعالٰی نے لکھ دیا ہے وہ اسے لازم مل کر رہے گا۔۔اور جو رزق انسان کے مقدر میں نہیں اس کے لئے وہ ہر قسم کی کوشش کر لے وہ اسے نہیں ملے گا۔۔
دوسروں کے مال پر نظر رکھنا اور اسے غلط طریقے سے حاصل کرنا رزق میں اضافے کا باعث نہیں بلکہ قناعت اور اللہ کے دئیے ہوئے رزق کا شکر ادا کرنا رزق میں اضافے کا باعث بنتاہے۔۔جیسا کہ اللہ تعالٰی نے خودسورۃ ابراہیم میں فرمایا ہے ۔
لئن شکرتم لازیدنکم
’’اگر تم میر اشکر کرو تو میں تمھیں مزید دوں گا۔‘‘
اور بچو! لالچ بری اور بہت بری بلا ہے۔۔۔بھلا کوئی بلا ایسی بھی ہے جو اچھی ہو؟؟
مال و دولت کی حرص ،لالچ انسان کے لئے دنیا وآخرت کی تباہی کا باعث بن جاتی ہے۔۔آج کی کہانی کا موضوع بھی یہی ہے کہ کس طرح ایک لالچی انسان اپنی اور اپنے بھائی کی تباہی کا باعث بنا اور اس کی زندگی پچھتاوا بن کر رہ گئی۔۔

میری نانو امی بتاتی ہیں کہ وہ اپنی امی اور بھائی کے ساتھ اپنے آبائی علاقے ’’تنبو غالب شاہ‘‘ جا رہے تھے،(نانو امی کے اجداد اس جگہ آ کر آباد ہوئے تھے اور وہاں ٹینٹ لگائے تھے پنجابی میں ٹینٹ کو’’ تنبو‘‘ کہتے ہیں اس لئے اس علاقےکا نام ’’تنبو غالب شاہ‘‘ مشہور ہو گیا۔)۔ٹرین کے راستے، ایک اسٹیشن قلعہ صوبہ سنگھ تھا وہاں سے تانگے کے ذریعے مزید سفر کر کے’’ تنبو غالب شاہ‘‘ جایا جاتا تھا۔
جب نانو امی ،ان کی امی اور بھائی اسٹیشن سے نکل کر تانگے پر سوار ہوئے تو وہاں معمول سےہٹ کر چہل پہل دیکھی،جب کوچوان سے اس غیر معمولی رش کے متعلق پوچھا گیا تو اس نے بتایا۔
’’گاؤں میں قتل ہو گیا ہے یہ سب اس کے جنازےمیں جا رہے ہیں ‘‘۔

ننھے ساتھیو! ہوا یوں کہ ایک آدمی کسی دکان پر ملازم تھا،دکان کے مالک کے پاس دس لاکھ روپے آئے جو اس نے دکان میں ہی رکھ دیئے۔۔جب اس آدمی کو پتہ چلا کہ دکان میں دس لاکھ روپے پڑے ہیں تو اس کے دل میں لالچ پیدا ہو گیا اور وہ ان پیسوں کو حاصل کرنے کے بارے میں سوچنے لگا۔۔آخر اس کے ذہن میں ایک منصوبہ آگیا ،اس آدمی کا ایک بھائی جو فوج میں ملازم تھا ،ان دنوں چھٹیوں پر آیا ہوا تھا،اس نے گھر جا کر ساری بات اپنے بھائی کو بتائی کہ دکان میں پیسے موجود ہیں اور ہم یہ پیسے حاصل کریں گے ،اس کے لئے کرنا یہ ہوگا کہ آدھی رات کے وقت تم دکان پر آنا میں وہاں موجود ہوں گا ،ہم چوکیدار کو قتل کر دیں گے ،تم پیسے لے کر واپس آ جانا میں وہیں رہوں گا یوں ہمیں پیسے بھی مل جائیں گے اور کوئی ہمارے اوپر کوئی شک بھی نہیں کرے گا۔بچو اسے کہتے ہیں سانپ بھی مر جائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے۔
اس کا بھائی بات مان گیا اور وہ دونوں منوبہ بندی کرنے لگے ۔رات ہوئی تو وہ آدمی معمول کے مطابق دکان پر چلا گیا ۔کچھ دیر باتیں کرنے کے بعد چوکیدار دکان کے باہرپہرہ دینے لگا اور یہ آدمی اندر جا کر سوتا بن گیا۔ادھر چوکیدار کو بھی پہرہ دیتے دیتے نیند آ گئی جس کا اس آدمی کو علم نہ ہوا۔آدھی رات سے کچھ دیر قبل یہ آدمی اٹھ کر پیسے نکالنے لگا تا کہ جب اس کا بھائی آئے تو اسے جلدی سے پیسے دے کر بھیج دے۔دوسری طرف آدھی رات گزرتے ہی اس آدمی کا بھائی دکان کی طرف چل پڑا چونکہ چوکیدار سویا ہوا تھا اس لئے اسےبیرونی دروازہ عبور کرنے میں کوئی مشکل پیش نہ آئی لیکن جونہی وہ دکان میں داخل ہوا اس کا پاؤں کسی چیز سے ٹکرانے سے کھٹکا پیدا ہوا ۔یہ آواز سن کر اندر موجود اس کا بھائی ڈر گیا اور سمجھا کہ چوکیدار جاگ گیا ہے ۔ننھے ساتھیو چور کے دل میں تو پہلے ہی ڈر ہوتا ہے بلکہ ہر غلط کام کرنے والے کے دل میں ڈر ہوتا ہے لیکن انسانوں کا کہ کہیں کوئی اسے برا کام کرتا دیکھ نہ لے۔اگر انسان کے دل میں اللہ مالک الملک کا ڈر ہو تو وہ کوئی غلط کام نہ کرے ۔اب کیا تھا اس نے بلا سوچے سمجھے دروازے کی طرف رخ کر کے گولی چلا دی جو سیدھی اس کے بھائی کو جا لگی اور وہ موقع پر ہی مر گیا۔۔ یہ تھالالچ او راتوں رات امیر بننے کاانجام ۔
اور وہ دس لاکھ اپنے اصل مالک کے پاس رہے ان دونوں بھائیوں میں سے کسی کے ہاتھ بھی نہ آئے۔ایک ان کے خاطر جان سے ہاتھ دھو بیٹھا ور دوسر اساری زندگی کا پچھتاوا لے کر جیل کا مستحق ٹھہرا۔۔
 

نسرین فاطمہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 21، 2012
پیغامات
1,280
ری ایکشن اسکور
3,232
پوائنٹ
396
بہت اچھی کہانی سسٹر جس کے کردار ہماری حقیقی دنیا میں موجود ہیں ۔
اللہ ہر ایک کوناجائز مال کی محبت سے محفوظ رکھے۔
 

مشکٰوۃ

سینئر رکن
شمولیت
ستمبر 23، 2013
پیغامات
1,466
ری ایکشن اسکور
939
پوائنٹ
237
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
ننھے ساتھیو! یہ اس وقت کی بات ہے جب برصغیر میں برطانوی راج قائم تھا ۔دہلی کے علاقے میں ا یک لڑکا رہتا تھا جس کانام تھا’’وزیر شاہ‘‘
وزیر شاہ کو پڑھائی سے دلچسپی نہ تھی ،سکول میں داخل کروایا تو تین ،چار جماعتیں پڑھ کر سکول چھوڑ دیا۔۔اب کیا کام تھا ہر وقت محلہ کے بچوں کے ساتھ کھیلنا اور گلیوں کی خاک پھانکنا۔
امرتسر میں وزیر شاہ کا ایک تایا زاد بھائی رہتا تھا۔جب اسے وزیر شاہ کی عادتوں کا علم ہوا تو اس نے کچھ ہی عرصے بعد اسے امرتسر بلا لیااور برتن قلعی کرنے کی دکان پر کام کے لئے بھیج دیا ۔اس وقت امرتسر اور دہلی کے گردو نواح میں سال بعد برتن قلعی (روغن) کروانے کا رواج تھا،سو کام بھی خوب تھا ۔سب بہت خوش تھے کہ اگر پڑھتا نہیں تو فارغ رہنے کی بجائے کچھ کام ہی سیکھ لے۔۔یوں بھی ان دنوں پڑھنے پڑھانے کازیادہ رجحان بھی نہ تھا۔۔
بچو وزیر شاہ کام سیکھنے کے لئے جانے لگا۔۔لیکن یہ کیا ایک ماہ بعد ہی اس نے اپنے تایا زاد بھائی سے کہا مجھے قلعی کرنا آ گئی ہے اب مجھے قلعی کا سامان لے دیں اور ایک دکان بھی خرید دیں، میں اپنی دکان کھولوں گا ۔۔
وزیر شاہ کے تایا زاد بھائی نے اس کا امتحان لینے کے کئے ایک کٹوری دی کہ یہ قلعی کر دو اگر ٹھیک کی تو تمہیں علیحدہ سامان بھی لے دیں گے۔۔۔لیں جناب وزیر شاہ قلعی کرنے لگا۔۔ادھر سب انتظار میں تھے کہ کب کٹوری قلعی ہوکر سامنے آئے۔۔بچو کٹوری سامنے آئی تو اس کی حالت ہی عجیب تھی۔۔وزیر شاہ نے قلعی کرنے کی بجائے کٹوری جلا دی تھی۔۔۔اب تو تایا زاد بھائی نے وزیر شاہ کو ڈانٹا۔۔بات ختم ۔وزیر شاہ نے دکان پر جانے سے انکار کر دیا کیونکہ بقول اس کے مجھے تو یہ کام آتا ہے۔۔لیکن بچو اب بھلا کون اپنے برتن کالے کرواتا پھرے۔۔۔
ایک بار پھر وزیر شاہ تھا اورا مرتسر کی گلیاں ۔۔۔۔مزید کچھ عرصہ گزرا ۔۔وزیر شاہ کے تایا زاد بھائی کو پتہ چلا ریلوے ملازمین کی ضرورت ہیں اور بھرتیاں جاری ہیں ۔۔اب کی بار تایا زاد بھائی نے وزیر شاہ کو بھرتی ہونے کے لئے امتحان کا کہا۔۔ننھے ساتھیو کسی بھی کام کے لئے علم نہایت ضروری ہے اب یہاں بھی یہی معاملہ تھا پڑھے لکھے افراد کو ترجیح حاصل تھی اور وزیر شاہ چار جماعتیں پڑھا ہوا تھا۔۔۔خیر کہ کہا کروزیر شاہ کو راضی کیا اور ساتھ ہی آفیسر کو سفارش بھی کر دی گئی۔۔
مقررہ دن جب وزیر شاہ آفیسر کے سامنے حاضر ہوا تو آفیسر نے اسے ایک چھوٹا سا انجن تھما دیا اور اسے ٹھیک کر کے لانے کا کہا۔اب وزیر شاہ کو ’’مجھے آتا ہے‘‘ کے علاوہ تو کچھ آتا نہیں تھا ۔لہذا ایک شان بے نیازی سے کہا’’صاحب یہ کیا چیز ہے۔۔اس چھوٹے سے کو میں کیا کروں ۔مجھے کوئی بڑا انجن دیں جو میں آپ کو چلا کر دکھاؤں۔۔‘‘آفیسر صاحب تو وزیر شاہ سے بڑے متاثر ہوئے اور وزیر شاہ کو پاس کر دیا ۔۔
خاندان بھر کے ساتھ علاقے میں بھی خبر پھیل گئی وزیر شاہ پاس ہو گیا ہے۔۔سب نے خوب جشن منایا ۔۔حلوے مٹھائیاں تقسیم ہوئیں ۔ایک طرف تو یہ معاملہ تھا اور دوسری طرف لوگ کہنے لگے جو پڑھے لکھے تھے وہ تو فیل ہو گئے ،یہ ان پڑھ کیسے پاس ہو گیا ؟ضرور کوئی معاملہ ہے۔۔
کچھ عرصہ کام کرتے گزرا تو ہوا یوں کےایک دن اچانک ہی آفیسر کی انگلی وزیر شاہ کی آنکھ میں جا لگی۔۔کہتے ہیں اس وقت انگریز ،مسلمانوں سے بہت ڈرا کرتے تھے۔وہ خوفزدہ ہو گیا کہ کہیں یہ مجھے کچھ کر نا دے۔۔لیکن وزیر شاہ نے کہنے لگا’’جناب پھر کیا ہو گیا آپ ہمارے بڑے ہیں ،اگر انگلی لگ گئی تو کچھ نہیں ہوتا‘‘۔۔آفیسر کی جان میں جان آئی اور اس نے وزیر شاہ کوترقی دے دی۔۔
گھر میں یہ معاملہ خوش اسلوبی سے طے ہوا لیکن جب رشتہ داروں کو خبر ہوئی کہ وہ جس ٹرین کا ڈرائیور ہے وہ کوڑا اٹھانے والی گاڑی ہے تو سب نے خوب مذاق بنایا لیکن اب وزیر شاہ کو تو یہ کام کرنا ہی تھا۔۔۔
ننھے ساتھیو! کام کوئی بھی برا نہیں ہوتا لیکن وزیر شاہ پڑھ لکھ کر کچھ تعلیم حاصل کر لیتا تو اس سے بہتر کام مل جاتا۔۔ ۔
 
Top