• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کرسمس ـــ سورۃ فاتحہ کے آئینے میں !!!

شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,786
پوائنٹ
1,069
کرسمس ـــ سورۃ فاتحہ کے آئینے میں !!!
اخبار میں ایک تصویر ہے۔ مسلمان سکول کی بچیاں کرسمس پر ٹیبلو پیش کر رہی ہیں! عیسائیوں کے ہاں گرجوں میں، مشنری سکولوں میں حضرت عیسیٰؑ کی پیدائش کے واقعات کو عملی شکل میں ظہور میں لایا جاتا ہے۔ مجسموں اور ڈراموں کے ذریعے۔ جس میں واقعہ کے کردار، پنگھوڑے میں عیسیٰؑ کی نمائندگی کرتا بچہ /مجسمہ اور حضرت مریمؑ دکھائے جاتے ہیں۔

پاکستان کے نجی سکولوں، سرکاری سکول، کالج، یونیورسٹیوں، ہسپتالوں میں دھوم دھوم سے یہ دن منایا جائے گا۔ کبھی کسی کے دیوانے خوابوں (Wildest Dream) میں بھی یہ نہ آیا ہو گا۔ دو قومی نظریے والا پاکستان عیسائیت کا گہوارہ علی الاعلان بن جائے گا۔ یہ تو مشرف دور میں بھی سوچنا ممکن نہ تھا! تف ہے اس سیکولرازم پر! اب مشنری سکولوں کی تخصیص نہ رہی ۔ نجی سکول یو –ایس ایڈ کے صدقے وہی فرض نبھا رہے ہیں۔ پاکستانی عوام کو بھیڑیں بنا کر ہانکے جاتے اب گیارہ سال ہونے کو ہیں۔ عوام الناس نے بھی ہر ایشو پر مکمل بھیڑ چال کا ثبوت دیا ہے۔ خواہ قبل ازیں ویلنٹائن ڈے کی روز افزوں پذیرائی ہو، ملالہ ڈے کی دیوانگی ہو یا اب کرسمس کا جوش و خروش ہو۔

کتنی عجیب بات ہے کہ ہم سوال نہیں کرتے۔ نہ اپنی عقل کے ۔ نہ قوم کو ہانکنے والوں سے۔ نہ میڈیا سے۔ نہ مغرب/دنیائے کفر سے! تابڑ توڑ سوال کرتے ہیں تو مولوی سے۔ کثرتِ سوال اور قیل و قال کا ہدف اسلام ہے جس سے رشتہ ایمان کاـــ سمعنا و اطعنا کا تھا! نہ ویلنٹائن ڈے کی بے حیائی پر غیرت تمتمائی۔ نہ لال گلاب، کیک، پارٹیوں پر کوئی سوال اُٹھا۔ نہ ملالہ کی دیوانی حماقتوں بھری کہانی پر چوں چرا کی۔ ایک نیم خواندہ کم عمر لڑکی اور اسکا تیسری دنیا کے چھوٹے سے سکول کا ہیڈماسٹر، باپ یکایک علم وحکمت و دانائی کے ہمالہ پر کیونکر جا بیٹھے؟ پورا پاکستان بلا استثناء اسکے راگ الاپتا رہا، موم بتیاں جلاتا رہا، ترانے گاتا بچاتا رہاـــ آخر کیوںـــ؟پھر اب اس سال کون سی دجالی وحی کے تحت پورے پاکستان پر یکایک کرسمس فرض ہو گیاـــ ؟ جگہ جگہ سیاسی جماعتوں کے لیڈر کیک کاٹ رہے ہیں۔ 'عیسائی / مسیحی بھائیوں' کے لیے اسلام آباد کے سکولوں میں چندے جمع کرکے ہدیے، تحائف پیش ہو رہے ہیں۔ کیا رمشا مسیح اور آسیہ بی بی کو خراجِ تحسین پیش کرنے کا بھی (عیاذاً باللہ) کوئی اہتمام ہوگا؟ یہ مسیحی بھائی، اوباما کے رشتے سے یکایک آپ کے کزن ٹھہرے۔؟ پہلے تو نہ تھے!

علمائے امت کے کرسمس کے حوالے/ مشرکین کے تہواروں کے حوالے سے اجماع کو پہنچے۔ ہوئے موقف تک اگر عوام کی رسائی نہ بھی ہو (جس کی رُو سے یہ شرعاً معصیت ہیں اور ان میں شرکت حرام اور موجبِ غضب الٰہی ہے) تو کیا سورۃ فاتحہ تک بھی ان کی رسائی نہیں ہے۔؟

سورۃ فاتحہ میں بہ صراحت اللہ سے صراطِ مستقیم بہ الحاح مانگنا۔ انعام یافتہ لوگوں کے راستے کی طلب اور مغضوب و ضالین سے بہ صراحت و وضاحت پناہ مانگا جانا تو بچے بچے کی زبان پر ہے۔ تاہم اصل المیہ یہ ہے کہ حیا سوز شاعری کی تو مفصل شرح سکولوں، کالجوں میں پڑھائی اور ازبر کروائی جاتی ہے۔ لیکن نوجوان نسل پر مشتمل طالبات کی ایک بڑی تعداد سے جب یہ سوال کیا گیا کہ مغضوب اور ضالین سے کیا مراد ہے تو مکمل خاموشی تھی ماسوا اس ایک بات کے ، کہ وہ جن پر غضب نازل ہوا اور وہ جو گمراہ ہوئے۔ دیندار گھرانوں میں بھی بہ حوالہ حدیث 'مغضوب' کا یہودی اور 'ضالین' کا عیسائی ہونا اگلی نسل کو ازبر نہ کروایا گیا تھا بلکہ سرے سے نابلد تھیں! (بہ روایت عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ، آپ ﷺ کا فرمان: 'مغضوب علیھم' بے شک یہود ہیں اور 'ضالین' یقیناً نصاریٰ ہیں، ترمذی)۔ اگر دن رات دہرائی جانے والی اس دعا کا سادہ آسان مفہوم کہ یا اللہ یہودیوں، عیسائیوں کے راستے پر نہ چلانا۔ یا اللہ امریکہ، مغرب کے راستے سے بچانا۔ سمجھا دیا گیا ہوتا۔ عملاً برتا ہوتا تو کون سی برتھ ڈے، کہاں کی مغربی تہذیب کی دلدادگی، وارفتگی، کہاں کا ویلنٹائن ڈے، کون سی کرسمس! سب کچھ از خود خارج از بحث ہوتا صرف دل سے مانگی جانے والی اس دعا کے نتیجے ہیں۔ اب بھی وقت ہے بس یہ دعا گھول کر پلا دیجیے۔ جسے اللہ نے سورۃ الحجر میں سات بار بار دہرائی جانے والی آیات کے حوالے سے پوری دنیا کے مال و متاع کے مقابل ایک خزانہ ٹھہرایا ہے! (اس خزانے کی چابی اس وقت افغانوں کے پاس ہے!) گمراہوں کے پیچھے چلتے گمراہ ہو گئے۔ مغضوب علیھم سے دوستی کرکے ہمہ گیر پہلو عذابوں میں گرفتار ہیں۔

سورۃ فاتحہ کے اس حصے ہی کی تائید میں سورۃ مریم (جسے خواتین کی ایک بڑی تعداد پڑھا کرتی ہے) اور سورۃ کہف (جو ہر جمعے پڑھی جاتی ہے) میں اللہ کا غضب شدید ترین انداز میں یہود و نصاریٰ پر برسا ہے۔ "قریب ہے کہ آسمان پھٹ پڑیں اور زمین شق ہو جائے اورپہاڑ ریزہ ریزہ ہو جائیں اس قول کی بنا پر کہ وہ رحمٰن کی اولاد ثابت کرنے بیٹھے ہیں" (مریم) اور یہ کہ "ان لوگوں کو بھی ڈرا دے جو کہتے ہیں کہ اللہ اولاد رکھتا ہے۔ درحقیقت نہ تو خود انہیں اِس کا علم ہے، نہ ان کے باپ دادا کو۔ یہ تہمت بہت بُری ہے جو ان کے منہ سے نکل رہی ہے۔ وہ نرا جھوٹ بک رہے ہیں۔ (الکہف 4-6 )۔

اللہ کی ناراضگی کی شدت دیکھیے۔ انہیں بہتان طراز، جھوٹا، جاہل علم سے بے بہرہ قرار دیا۔ ان دیوانوں، جاہلوں، مغضوبوں، گمراہوں سے دوستی-؟ ان سے اتحاد و اتفاق و یگانگت-؟ ان سے بھائی چارہ-؟ ان سے مصالحت اور -؟ وہ جن پر اللہ نے سورۃ المائدہ (72-81 ) میں کفر و شرک کا فتویٰ لگایا۔ جنت ان پر حرام ٹھہرائی۔ مستحقِ عذاب، لائقِ دوزخ قرار پائے۔ آج دنیا میں جو حکومتوں کے زیرِ عتاب آجائیں۔ جنہیں حساس ادارے غیض و غضب کی نگاہ سے دیکھیں اور ان درپے ہو جائیں۔ لوگ انہیں فون تک کرتے ڈرتے ہیں کہ کہیں ہم بھی غضب کی لپیٹ میں نہ آجائیں۔ اس گھر کے سامنے سے بھی نہ گذریں گے کہ کہیں گاڑی کانمبر نہ نوٹ ہو جائے۔! اور اِدھر ربِ کائنات جس کے درپے ہے، وہاں ہم ریشہ خطمی ہوئے جا رہے ہیں؟ مالکم لا ترجون للہ وقارا۔ فما ظنکم برب العالمین۔ تم نے آخر رب العالمین بارے کیا گمان کر رکھا ہے۔؟ تم اللہ سے کسی وقار کی توقع نہیں رکھتے۔؟ لا یستوی اصحب النار و اصحب الجنۃ۔ یہ دو گروہ فریق فی الجنۃ- فریق فی السعیر۔ اہلِ جنت اہلِ دوزخ کبھی یکساں نہیں ہو سکتے ہیں؟ جس کی محبت پالو گے جس کے اطوار اپناؤ گے اسی کے ساتھ جاؤ گے۔ دنیا میں یہی دو گروہ ہیں۔ بار بار چھٹ کر الگ ہوتے ہیں۔ بار بار لائنیں لگتی ہیں۔ ہر مرتبہ حی علی الصلوٰۃ پر یہ دو گروہ الگ ہو جاتے ہیں۔ کتب علیکم الصیام پر دو گروہ بنتے ہیں، (ماسوا عذرِ شرعی) حی علی الجہاد پر بھی (دنیا بھر سے اٹھتی پکار—دائروں کی شکل میں فرضیت آئے روز بڑھاتا پھیلاتا جہاد – فلسطین، شام، برما، کشمیر، افغانستان، عراق، مالی، صومالیہ، یمن-) کرسمس، ویلنٹائن ڈے، سالِ نو، بسنت جیسے مواقع پر بھی اب یہ صفیں بننے لگیں۔ دجال اور دجالی تہذیب کے لشکری- یا حزب اللہ۔!

یہ بھی تو سوچیے کہ مسلمانوں کو 1400 سال پرانی تہذیب اور معاشرت کے طعنے دینے والے خود قبل از پیدائشِ مسیحؑ کے دور میں جی رہے ہیں۔ کافر رومی اور یونانی تہذیب کے اسیر۔ کرسمس بھی اپنی اصل کے اعتبار سے بت پرست رومیوں کا تہوار ہے جسے عیسائیوں نے گود لے لیا۔ اس میں حضرت عیسیٰؑ کا یومِ پیدائش گھڑ کر رکھ لیا اور یوں کافر رومی عید، عیسائی عید ٹھہری۔ بالکل اسی طرح جیسے برصغیر کے مسلمانوں نے قُل، جمعراتیں ہندوؤں سے مستعار لے کر اسمیں قرآن خوانی، گٹھلیاں رکھ کر انہیں مسلمان کرنے کی ناکام کوشش کر ڈالی۔ عیسائیوں کو بھوت تہوار (ان کی 'تیرہ تیزیوں' والا دن!) ہیلووین بھی بت پرست رومیوں سے گود لیا گیا ہے جس نے اب عیسائیوں یہودیوں کے بعد مسلمانوں کے گھر کا رستہ بھی دیکھ لیا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ڈنکے کی چوٹ (ووٹ بینک سے بے نیاز ہو کر) تمام دینی جماعتیں اس پر ایک دو ٹوک موقف اختیار کریں۔ بدرجئہ اولیٰ جماعتِ اسلامی، جمعیتِ علمائے اسلام اس سیاسی پاکھنڈ کی حقیقت واضح کریں۔ اس کی شناعت جمعے کے خطبوں اور روزانہ دروس میں واضح کی جائے۔ کرسمس کے مسلمانوں کے مال، زبان، قلم کسی طرح سے کوئی پذیرائی نہ ملے۔ شرک و جہالت کا یہ تہوار گرجوں میں دوبارہ مقید کیا جائے۔ یہ ہمارے دین اور عقیدے کا مسئلہ ہے۔ بین المذاہب مکالمہ سورۃ الکافرون میں طے پا چکا۔ جسے درکار ہو اس ضمن میں مسلمانوں کا موقف

(اللہ کی Policy Statement ) پڑھ لے۔ البتہ اقلیتوں کا اسلامی اصولوں کے تحت تحفظ اور انصاف ہم پر لازم ہے۔ ہماری تاریخ نہایت درخشاں ہے۔ جنونی صلیبی اور خونِ مسلم سے رنگین ہاتھوں والے یہودی ہمیں کیا پڑھائیں گے۔ خلافتِ اسلامیہ افغانستان میں بحال ہوئی تو طالبان نے ہندوؤں سکھوں کو لُوٹی املاک اور اغوا شدہ خواتین واپس دلوائیں۔ ان کے جان و مال، کاروبار کو مکمل تحفظ دیا۔

برطانوی عیسائی خاتون ایوان ریڈلے سے حسنِ سلوک کا مطلب پوچھ لیجیے۔ سیکولر رواداری کی آڑ میں پورا پاکستان اللہ کے ہاں بیٹا پیدا ہونے کا جشن منائے۔؟ پناہ بخدا۔! عیاذاً باللہ۔! لاالہ الا اللہ۔ لم یلد ولم یولد۔ ولم یکن لہ کفواً احد۔ رواداری برتنی ہے تو مغرب سے سیکھیے جو مسجد کو دیکھ کر باؤلے ہو جاتے ہیں۔ داڑھی، حجاب سے آنکھوں میں خون اُتر آتا ہے۔ قانون اس پر جرمانہ اور جیل کی سزا دینے لگ گیا ہے۔ جس دن عید کے بکرے وہائٹ ہاؤس کے صحن میں بندھ گئے—اُس دن ہم سے آکر رواداری کا مطلب پوچھ لینا ۔ اگرچہ وہ پہلے ہی سورۃ الکافرون میں درج ہے۔ اسے ترجمہ تفسیر سے پڑھیے، پڑھائیے۔ سورۃ الممتحنہ سے عقیدہ ولاء و براء پکا کیجیے۔ یہ بات سادہ اور آسان ہے اتنی مشکل نہیں۔

عامرہ احسان
 
Top