آیت تطہیر میں ازواج البنی بھی شامل ہیں یہ آپ کے اماموں کا قول ہے آئیں دیکھیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آیت تطہیر کی عملی تفسیر کرکے کیا بتانا چاہتے ہیں
نزلَت هذِهِ الآيةُ على النَّبيِّ صلَّى اللَّهُ علَيهِ وسلَّمَ إِنَّمَا يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيرًا في بيتِ أمِّ سلَمةَ، فدعا النَّبيُّ صلَّى اللَّهُ علَيهِ وسلَّمَ فاطمَةَ وحَسنًا وحُسَيْنًا فجلَّلَهُم بِكِساءٍ وعليٌّ خَلفَ ظَهْرِهِ فجلَّلَهُ بِكِساءٍ ثمَّ قالَ: اللَّهمَّ هؤلاءِ أَهْلُ بيتي فأذهِب عنهمُ الرِّجسَ وطَهِّرهم تطهيرًا قالَت أمُّ سلمةَ: وأَنا معَهُم يا رسولَ اللَّهِ؟ قالَ: أنتِ على مَكانِكِ وأنتِ إلي خَيرٍ
الراوي: عمر بن أبي سلمة المحدث:الألباني - المصدر: صحيح الترمذي - الصفحة أو الرقم: 3787
خلاصة حكم المحدث: صحيح
ترجمہ از ڈاکٹر طاہر القادری
''حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پروردہ حضرت عمر بن ابی سلمہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب اُم المؤمنین اُم سلمہ رضی اﷲ عنہا کے گھر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر یہ آیت ''اہلِ بیت! تم سے ہر قسم کے گناہ کا مَیل (اور شک و نقص کی گرد تک) دُور کر دے اور تمہیں (کامل) طہارت سے نواز کر بالکل پاک صاف کر دے۔'' نازل ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سیدہ فاطمہ اور حسنین کریمین سلام اﷲ علیہم کو بلایا اور انہیں ایک کملی میں ڈھانپ لیا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پیچھے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں بھی کملی میں ڈھانپ لیا، پھر فرمایا : اے اﷲ! یہ میرے اہل بیت ہیں، پس ان سے ہر قسم کی آلودگی دور فرما اور انہیں خوب پاک و صاف کر دے۔ سیدہ اُم سلمہ رضی اﷲ عنہا نے عرض کیا : اے اللہ کے نبی! میں (بھی) ان کے ساتھ ہوں، فرمایا : تم اپنی جگہ رہو اور تم تو بہتر مقام پر فائز ہو۔''
إِنَّمَا يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيرًا
اہلِ بیت! تم سے ہر قسم کے گناہ کا مَیل (اور شک و نقص کی گرد تک) دُور کر دے اور تمہیں (کامل) طہارت سے نواز کر بالکل پاک صاف کر دے۔''
قرآن مجید کی یہ آیت آیت تطہیر کہلاتی ہے اس کی عملی تفسیر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمائی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی چادر میں سیدہ فاطمہ علیہا السلام حسنین کریمین علیہ السلام اور مولا علی علیہ السلام کو لے کر فرمایا " اے اﷲ! یہ میرے اہل بیت ہیں " پھر آیت تطہیر کی تلاوت فرمائی اس پر ام المومنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے درخواست کی کہ مجھے بھی اس آیت تطہیر کی تفسیر میں شامل کرلیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم وہیں رہو تم خیر پر ہو یعنی آیت تطہیر کی جو تفسیر رسول اللہ نے بیان فرمائی اس میں ازواج کو ان کی درخواست پر بھی شامل نہیں کیا
کیا اب بھی حدیث رسول کے مقابلے پر قول امام کو ترجیح دی جائے گی جس کا طنہ آپ لوگوں کو دیتے ہیں ؟
اس مضمون کی تائید آیت مباہلہ کی تفسیر سے بھی ہوتی ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عملی طور سےخود فرمائی ہے
پھر اے محبوب جو تم سے عیسٰی کے بارے میں حجت کریں بعد اس کے کہ تمہیں علم آ چکا تو ان سے فرما دو آؤ ہم تم بلائیں اپنے بیٹے اور تمہارے بیٹے اور اپنی عورتیں اور تمہاری عورتیں اور اپنی جانیں اور تمہاری جانیں پھر مباہلہ کریں تو جھوٹوں پر اللہ کی لعنت ڈالیں
آل عمران : 61
( مترجم : امام احمد رضا بریلوی )
اس آیت مبارکہ میں اللہ تعالیٰ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے فرمارہا کہ آپ ان عیسائیوں کو مباہلہ کا چلنج دیں اور اس طرح کہ ہم اپنے بیٹے اور تم اپنے بیٹے ہم اپنی عورتیں اور تم اپنی عورتیں اور ہم اپنی جانیں اور تم اپنی جانیں لےکر آؤ اور مباہلہ کرو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اللہ کے حکم پر کس طرح عمل کیا اور اس قرآنی آیت کی عملی تفسیر فرمائی وہ اس حدیث صحیح سے معلوم ہوگا
لما أنزل اللهُ هذه الآيةُ تَعَالَوْا نَدْعُ أَبْنَاءَنَا وَأَبْنَاءَكُمْ وَنِسَاءَنَا وَنِسَاءَكُمْ الآية دعا رسولُ اللهِ صلَّى اللهُ علَيهِ وسلَّمَ عليًّا وفاطمةَ وحسَنًا وحُسينًا ، فقالَ : اللَّهمَّ هؤلاءِ أَهلي
الراوي: سعد بن أبي وقاص المحدث:الألباني - المصدر: صحيح الترمذي - الصفحة أو الرقم: 2999
خلاصة حكم المحدث: إسناده صحيح
ترجمہ از ڈاکٹر طاہرالقادری
''حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ جب آیتِ مباہلہ نازل ہوئی : ''آپ فرما دیں کہ آ جاؤ ہم (مل کر) اپنے بیٹوں کو اور تمہارے بیٹوں کو اور اپنی عورتوں کو اور تمہاری عورتوں کو اور اپنے آپ کو بھی اور تمہیں بھی (ایک جگہ پر) بلا لیتے ہیں۔'' تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی، حضرت فاطمہ، حضرت حسن اور حسین علیہم السلام کو بلایا، پھر فرمایا : یا اﷲ! یہ میرے اہلِ بیت ہیں۔''
نزلَت هذِهِ الآيةُ على النَّبيِّ صلَّى اللَّهُ علَيهِ وسلَّمَ إِنَّمَا يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيرًا في بيتِ أمِّ سلَمةَ، فدعا النَّبيُّ صلَّى اللَّهُ علَيهِ وسلَّمَ فاطمَةَ وحَسنًا وحُسَيْنًا فجلَّلَهُم بِكِساءٍ وعليٌّ خَلفَ ظَهْرِهِ فجلَّلَهُ بِكِساءٍ ثمَّ قالَ: اللَّهمَّ هؤلاءِ أَهْلُ بيتي فأذهِب عنهمُ الرِّجسَ وطَهِّرهم تطهيرًا قالَت أمُّ سلمةَ: وأَنا معَهُم يا رسولَ اللَّهِ؟ قالَ: أنتِ على مَكانِكِ وأنتِ إلي خَيرٍ
الراوي: عمر بن أبي سلمة المحدث:الألباني - المصدر: صحيح الترمذي - الصفحة أو الرقم: 3787
خلاصة حكم المحدث: صحيح
ترجمہ از ڈاکٹر طاہر القادری
''حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پروردہ حضرت عمر بن ابی سلمہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب اُم المؤمنین اُم سلمہ رضی اﷲ عنہا کے گھر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر یہ آیت ''اہلِ بیت! تم سے ہر قسم کے گناہ کا مَیل (اور شک و نقص کی گرد تک) دُور کر دے اور تمہیں (کامل) طہارت سے نواز کر بالکل پاک صاف کر دے۔'' نازل ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سیدہ فاطمہ اور حسنین کریمین سلام اﷲ علیہم کو بلایا اور انہیں ایک کملی میں ڈھانپ لیا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پیچھے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں بھی کملی میں ڈھانپ لیا، پھر فرمایا : اے اﷲ! یہ میرے اہل بیت ہیں، پس ان سے ہر قسم کی آلودگی دور فرما اور انہیں خوب پاک و صاف کر دے۔ سیدہ اُم سلمہ رضی اﷲ عنہا نے عرض کیا : اے اللہ کے نبی! میں (بھی) ان کے ساتھ ہوں، فرمایا : تم اپنی جگہ رہو اور تم تو بہتر مقام پر فائز ہو۔''
إِنَّمَا يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيرًا
اہلِ بیت! تم سے ہر قسم کے گناہ کا مَیل (اور شک و نقص کی گرد تک) دُور کر دے اور تمہیں (کامل) طہارت سے نواز کر بالکل پاک صاف کر دے۔''
قرآن مجید کی یہ آیت آیت تطہیر کہلاتی ہے اس کی عملی تفسیر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمائی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی چادر میں سیدہ فاطمہ علیہا السلام حسنین کریمین علیہ السلام اور مولا علی علیہ السلام کو لے کر فرمایا " اے اﷲ! یہ میرے اہل بیت ہیں " پھر آیت تطہیر کی تلاوت فرمائی اس پر ام المومنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے درخواست کی کہ مجھے بھی اس آیت تطہیر کی تفسیر میں شامل کرلیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم وہیں رہو تم خیر پر ہو یعنی آیت تطہیر کی جو تفسیر رسول اللہ نے بیان فرمائی اس میں ازواج کو ان کی درخواست پر بھی شامل نہیں کیا
کیا اب بھی حدیث رسول کے مقابلے پر قول امام کو ترجیح دی جائے گی جس کا طنہ آپ لوگوں کو دیتے ہیں ؟
اس مضمون کی تائید آیت مباہلہ کی تفسیر سے بھی ہوتی ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عملی طور سےخود فرمائی ہے
پھر اے محبوب جو تم سے عیسٰی کے بارے میں حجت کریں بعد اس کے کہ تمہیں علم آ چکا تو ان سے فرما دو آؤ ہم تم بلائیں اپنے بیٹے اور تمہارے بیٹے اور اپنی عورتیں اور تمہاری عورتیں اور اپنی جانیں اور تمہاری جانیں پھر مباہلہ کریں تو جھوٹوں پر اللہ کی لعنت ڈالیں
آل عمران : 61
( مترجم : امام احمد رضا بریلوی )
اس آیت مبارکہ میں اللہ تعالیٰ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے فرمارہا کہ آپ ان عیسائیوں کو مباہلہ کا چلنج دیں اور اس طرح کہ ہم اپنے بیٹے اور تم اپنے بیٹے ہم اپنی عورتیں اور تم اپنی عورتیں اور ہم اپنی جانیں اور تم اپنی جانیں لےکر آؤ اور مباہلہ کرو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اللہ کے حکم پر کس طرح عمل کیا اور اس قرآنی آیت کی عملی تفسیر فرمائی وہ اس حدیث صحیح سے معلوم ہوگا
لما أنزل اللهُ هذه الآيةُ تَعَالَوْا نَدْعُ أَبْنَاءَنَا وَأَبْنَاءَكُمْ وَنِسَاءَنَا وَنِسَاءَكُمْ الآية دعا رسولُ اللهِ صلَّى اللهُ علَيهِ وسلَّمَ عليًّا وفاطمةَ وحسَنًا وحُسينًا ، فقالَ : اللَّهمَّ هؤلاءِ أَهلي
الراوي: سعد بن أبي وقاص المحدث:الألباني - المصدر: صحيح الترمذي - الصفحة أو الرقم: 2999
خلاصة حكم المحدث: إسناده صحيح
ترجمہ از ڈاکٹر طاہرالقادری
''حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ جب آیتِ مباہلہ نازل ہوئی : ''آپ فرما دیں کہ آ جاؤ ہم (مل کر) اپنے بیٹوں کو اور تمہارے بیٹوں کو اور اپنی عورتوں کو اور تمہاری عورتوں کو اور اپنے آپ کو بھی اور تمہیں بھی (ایک جگہ پر) بلا لیتے ہیں۔'' تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی، حضرت فاطمہ، حضرت حسن اور حسین علیہم السلام کو بلایا، پھر فرمایا : یا اﷲ! یہ میرے اہلِ بیت ہیں۔''