ابن حلبی
مبتدی
- شمولیت
- نومبر 23، 2013
- پیغامات
- 38
- ری ایکشن اسکور
- 23
- پوائنٹ
- 19
گذشتہ ایک دہائی سے جہاں امت کے ساتھ ساتھ باقی دنیابڑی تعداد میں اسلام کی طرف راغب ہونا شروع ہوئی وہاں اسلام سمجھانے کی'' صنعت'' بھی اپنے عروج پر ہے۔ بدقسمتی سے اسلام کے افکار پر ہونے والی بحث اسلام کی واضح اور شفاف فکر پہنچانے کے بجائے امت کے افکار کو دھندلانے کا زیادہ سبب بن رہی ہے۔ انہیں میں سے ایک فکر اجتہاد کی ہے۔ اجتہا د کے بارے میں پچھلے کچھ عرصے سے ذرائع ابلاغ خصوصاً الیکٹرونک میڈیا میں ایک بحث جاری ہے۔ افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ یہ بحث امت کو اجتہاد کے مفہوم سے آگاہی تو کجا اسلام کی بنیادوں پر ضرب لگانے کی کوشش محسوس ہوتی ہے۔ اجتہاد پر بات کرنا ایک فیشن بن گیا ہے۔ خصوصاً وہ لوگ جو اسلام کو سرمایہ دارانہ کفریہ نظام کے ساتھ ہم آہنگ کرنا چاہتے ہیں،اجتہاد پر لیکچر دیتے نظر آتے ہیں۔ یوں یہ ''جدیدیت پسند'' (Modernists) آزادیاں، مساوات، سود وغیرہ پر ''اجتہاد'' کرتے ہیں اور ان کے ساتھ ''اسلامی'' کے سابقے اور لاحقے لگا کر امت کو موجودہ حالات اور نظام کو من و عن قبول کرنے کے لئے ذہنی اور فکری طور پر تیار کرتے ہیں۔ اجتہاد کے خوبصورت لبادے میں سرمایہ دارانہ بینکاری نظام اور اس کا سود ، ایٹمی اسلحے کی تلفی،اقوام متحدہ اور ڈبلیو ٹی او جیسے اداروں میں شمولیت، مذہبی آزادی کے نام پر قادیانیت یا نصرانیت کی تبلیغ وغیرہ تمام غیر اسلامی اقدامات کو اسلامی رنگ دے دیا جاتا ہے۔ یہ جدیدیت پسند اجتہاد کے کاندھے پر رکھ کر بے راہ روی کی ایسی بندوق چلانا چاہتے ہیں جس کے بعد اسلام اور کفر میں کوئی تمیز باقی نہ رہے۔ 11 ستمبر 2001 کے بعد مفتی اور سپہ سالارِ پاکستان جناب جنرل مشرف'' نے ''مجتہد''بش کے دئے اصولوں پر چل کر مسلمانوں کے خلاف صلیبی جنگ میں شامل ہونے کے لئے صلح حدیبیہ سے ''اجتہاد'' فرمایا تھا۔
آج اجتہاد کے متعلق کئی غلط تصورات پھیلائے جا چکے ہیں مثال کے طور پر یہ کہ اجتہاد ان معاملات میں ہوتا ہے جس میں شریعت خاموش ہو یا وقت گزرنے کے ساتھ سود اور پردے جیسے مسائل میں نئے اجتہاد کر کے اسلام کو اکیسویں صدی کے تقاضوںسے ہم آہنگ کرنا چاہئے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ حالات بدلنے کی وجہ سے اب ساتویں صدی عیسوی کا ''دقیانوسی معاشرہ'' تشکیل نہیں دیا جاسکتا۔ نیز یہ غلط فہمی بھی پائی جاتی ہے کہ حکمران اجتہاد کر کے اپنی مرضی سے اسلامی حدود و قوانین کو مؤخر، معطل یا تبدیل کرنے کا اختیار رکھتے ہیں۔
اس کتابچے میں اجتہاد کے موضوع کے مختلف پہلوئوں پر روشنی ڈالی گئی ہے
آج اجتہاد کے متعلق کئی غلط تصورات پھیلائے جا چکے ہیں مثال کے طور پر یہ کہ اجتہاد ان معاملات میں ہوتا ہے جس میں شریعت خاموش ہو یا وقت گزرنے کے ساتھ سود اور پردے جیسے مسائل میں نئے اجتہاد کر کے اسلام کو اکیسویں صدی کے تقاضوںسے ہم آہنگ کرنا چاہئے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ حالات بدلنے کی وجہ سے اب ساتویں صدی عیسوی کا ''دقیانوسی معاشرہ'' تشکیل نہیں دیا جاسکتا۔ نیز یہ غلط فہمی بھی پائی جاتی ہے کہ حکمران اجتہاد کر کے اپنی مرضی سے اسلامی حدود و قوانین کو مؤخر، معطل یا تبدیل کرنے کا اختیار رکھتے ہیں۔
اس کتابچے میں اجتہاد کے موضوع کے مختلف پہلوئوں پر روشنی ڈالی گئی ہے
اٹیچمنٹس
-
862.8 KB مناظر: 472