تورات اور قرآن کا فلسفۂ احکام و عبادات
انسان کی پیشانی کو خود بخود ایک مسجود کی تلاش رہتی ہے جس کے سامنے وہ جھکے، اندرونِ دل کی عرض نیاز کرے اور اپنی دلی تمناؤں کو اس کے سامنے پیش کرے۔ غرض عبادت روح کے اسی فطری مطالبے کا جواب ہے۔ اگر یہ نہ ہو تو انسانی روح کے جوشِ جنوں کا علاج ممکن نہیں وحشی سے وحشی مذاہب میں بھی عبادت کے کچھ رسوم اس ندائے فطرت کی تسلی کے لیے موجود ہیں پھر آسمانی مذاہب اس سے کیونکر خالی ہو سکتے ہیں۔ (شبلی نعمانی، عبادات، ص ۳۲)
یہی وجہ ہے کہ اسلامی شریعت کی طرح شریعت موسوی میں بھی دونوں طرح کی یعنی انفرادی اور اجتماعی عبادت کا تصورملتا ہے اور عقائد پر ایمان کے بعد عبادات میں اولین اہمیت کی حامل نماز (صلوٰۃ) ہے۔
صلوٰۃ کا معنی و مفہوم
امام راغب اصفہانی بیان کرتے ہیں:
صلوٰۃ عبادات مخصوصہ(نماز) کا نام ہے اس کی اصل دعا ہے اور چونکہ اس عبادت کا ایک جزو دعا ہے اس لیے کل کو جزو کا نام دے دیا گیا ہے۔ کوئی شریعت صلوٰۃ سے خالی نہیں رہی۔ اگر اس کی ہیئت مختلف شریعتوں میں مختلف تھی عبادت کی جگہ کو بھی صلوٰۃ کہتے ہیں اس لیے کلیسا پر بھی صلوٰۃ کا اطلاق کیا جاتا ہے۔ (المفردات،ص۲۸۵)
اسی لیے قرآنِ کریم میں فرمان ہے:
لَّہُدِّمَتْ صَوَامِعُ وَبِيَعٌ وَّصَلَوٰتٌ وَّمَسٰجِدُ (سورۃ الحج ۲۲:۴۰)
شریعت موسوی میں نماز کا تصور اور فلسفہ
قرآن پاک کی تعلیم کے مطابق دنیا میں کوئی پیغمبر ایسا نہیں آیا جس نے اپنی امت کو نماز کی تعلیم نہ دی ہو۔ اسلام کے زمانے میں بھی چند یہود و نصاریٰ نماز پڑھا کرتے تھے ۔ قرآن کریم میں ارشاد ہے:
مِنْ اَھْلِ الْكِتٰبِ اُمَّۃٌ قَاۗىِٕمَۃٌ يَّتْلُوْنَ اٰيٰتِ اللہِ اٰنَاۗءَ الَّيْلِ وَھُمْ يَسْجُدُوْنَ (سورۃ اٰل عمران ۳:۱۱۳)
ان میں سے کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو راہ راست پر قائم ہیں راتوں کو اللہ کی آیات پڑھتے ہیں اور اس کے آگے سجدہ ریز ہوتے ہیں۔
اس سلسلے میں عرب کا ایک جاہلی شاعر جران العود کہتا ہے:
و أدرکن أعجازاً من اللیل بعدھا
أقام الصلوٰۃ العابد المتحنف
(لسان العرب،۹؍۵۸)
اور ان سواریوں نے رات کے پچھلے پہر میں جب عبادت گزار حینفی نماز پڑھ چکا تھا۔اس شعر سے ثابت ہوتا ہے کہ عرب میں مذہب حنیفی کے پیروکار پچھلی رات میں نماز ادا کرتے تھے۔تورات و انجیل میں نماز کے لیے ’’خدا کا نام لینا‘‘ ’’دعا‘‘ اور ’’سجدہ کرنے‘‘ جیسی اصطلاحات استعمال کی گئی ہیں۔ مثلاً:
اور اُس نے وہاں مذبح بنایا اور خداوند سے دعا کی۔ (پیدائش ،۲۶:۲۵)
انجیل متی میں درج ہے:
لیکن یہ قسم دعا کے سوا اور کسی طرح نہیں نکل سکتی ۔ (متی ،۱۷:۲۱)
کتاب تواریخ میں نماز کے لیے ’’سجدہ کرنا‘‘ بیان کیا ہے۔
پھر داؤد نے ساری جماعت سے کہا اب اپنے خداوند کو مبارک کہو تب ساری جماعت نے خداوند اپنے باپ دادا کے خدا کو مبارک کہا اور سر جھکا کر انھوں نے خداوند اور بادشاہ کے آگے سجدہ کیا۔ (تواریخ ،۲۹:۲۰)
Standered Jewish Encyclopaediaمیں نماز کو اللہ تعالیٰ سے ایک التجا، درخواست اور شکر کے اظہار کا ذریعہ بیان کیا ہے۔ نیز شریعت موسوی میں بالترتیب تین نمازوں کو بیان کیا گیا ہے۔
جن میں صبح کی نماز کو (Shaharit) دوپہر کی نماز کو (Minhah) اور شام کی نماز کو (Maariv) کہا جاتا ہے:
It is man's appeal to God, wheather as a request or in the thanks-giving..... and it is recited three times a day morning, (Shaharit) after noon (Minahah) and evening (Maariv) (Standered Jewish Encyclopaedia, P. 1535)
Max Weber نے نماز کو توحید کے اقرار اور صرف خدائے بزرگ و برتر کو عبادت کے حق دار کا ذریعہ قرار دیا ہے۔
Hear, O Israel, The Lord our God is one Lord." the openning sentence of present Jewish morning prayer stand at the head of exhortation. (Max Weber, Ancient Judaism, P. 244)
اسی لیے یہودیوں کی صبح کی دعا کا پہلا جملہ ہی یہ ہے :سن اے اسرائیل! خداوند ہمارا خدا ایک ہی خدا ہے۔
Prayers in the Jewish tradition goes back to immemorial antiquity. Even at the time when the main emphasis of congregational services was laid on sacrificial worship, individuals turned to God with personal supplication or words of thanks-giving. (Baron and Blau, Judaism, P. 211; Rabbi Geiger, Judaism and Islam, P.68)
Collier's Encyclopaediaمیں شریعت موسوی میں نماز کا مقصد گناہوں سے معافی اور اخروی زندگی میں کامیابی کا حصول بیان کیا ہے۔
If a man sins by omission or commission, the way is open for forgiveness through reflection, Prayers, study of the Torah and above all, good works. (Collier's Encyclopaedia, 13/658)
یہودی عالم نے نماز کا فلسفہService of Heartقرار دیا ہے۔ یعنی دل سے خدا تعالیٰ کے احسانات کا شکر ادا کرنا اور پختہ یقین کے ذریعے اس کی خدائی کا تسلیم کرنا ہے۔
The ancient rabbies deduced the duty of daily prayer from the more general biblical injunction "to serve him with all thine heart." which is the service of heart"? they asked, and replied this is prayer. (Historia Religionum, (Ed by Bleeker and Widengren), 2/34; Encyclopaedia Judaica,16/ 458)
شریعت محمدیہﷺ کی طرح شریعت موسوی میں نماز کی ادائیگی کے بے شمار مقاصد میں شامل روحانیت کا حصول اور معاشرے میں استحکام اور اجتماعیت کے قیام بھی ہیں۔
It is intended that his prayers be ethical and not opposed to the intrests of others, and that his praying be marked by a sense of inwardness prayers at the synagogue is encouraged because here is added strength in praying as a community. (Collier's Encyclopaedia, 13/657)
یہودیت میں عبادات کے متعلق تصور کیا جاتا ہے کہ یہ نیک مقاصد کی خاطر ہوں اور کسی کے مفادات کے خلاف نہ ہوں اوریہ کہ عبادات اپنے اندر روحانیت کے احساسات لیتے ہوں اور اور عبادات کو ادا کرنے کے لیے عبادت گاہ کی تاکید اس لیے کی گئی ہے تاکہ یہودی معاشرے کو مضبوطی حاصل ہو۔
شریعت محمدیہ میں تصور نماز و فلسفہ
قرآنِ کریم میں بے شمار مقامات پر نماز کی ادائیگی اور فرضیت کو بیان کیا ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
وَاَقِيْمُوا الصَّلٰوۃَ وَاٰتُوا الزَّكٰوۃَ وَارْكَعُوْا مَعَ الرّٰكِعِيْنَ (سورۃ البقرۃ۲:۴۳)
اورنماز پڑھا کرو اورزکوٰۃ دیا کرو اور خدا کے آگے جھکنے والوں کے ساتھ جھکا کرو۔
حٰفِظُوْا عَلَي الصَّلَوٰتِ وَالصَّلٰوۃِ الْوُسْطٰى وَقُوْمُوْا لِلہِ قٰنِتِيْنَ (سورۃ البقرۃ۲:۲۳۸)
سب نمازیں خصوصاً بیچ کی نماز پورے التزام کے ساتھ ادا کرتے رہو اور خدا کے آگے ادب سے کھڑے رہا کرو۔
اس سلسلے میں مفتی شفیع بیان کرتے ہیں:
بیچ والی نماز سے مراد نمازِ عصر ہے کیونکہ اس کے ایک طرف دو نمازیں دن کی ہیں۔ فجر اورظہر اور ایک طرف دو نمازیں رات کی ہیں۔ مغرب اور عشاء اس کی تاکید خصوصیت کے ساتھ اس لیے کی گئی ہے کہ اکثر لوگوں کو یہ وقت کام کی مصروفیت کا ہوتا ہے۔ (معارف القرآن، ۱؍۵۸۹؛تدبر قرآن، ۱؍۵۵۳)
ادریس کاندھلوی بیان کرتے ہیں:
عصر کی تخصیص تاکید اور اہتمام کے لیے کی گئی کیونکہ یہ وقت لوگوں کے بازاروں میں مصروف رہنے کا ہے اس لیے اندیشہ ہے کہ یہ نماز فوت نہ ہو جائے یا بغیر جماعت کے ادا کی جائے یا تاخیر سے پڑھی جائے۔ (معارف القرآن، ۱؍۳۵۷)
قرآنِ کریم میں خصوصاً نمازِ جمعہ کی بھی تاکید کی گئی ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
يٰٓاَيُّہَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اِذَا نُوْدِيَ لِلصَّلٰوۃِ مِنْ يَّوْمِ الْجُمُعَۃِ فَاسْعَوْا اِلٰى ذِكْرِ اللہِ وَذَرُوا الْبَيْعَ ذٰلِكُمْ خَيْرٌ لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ (سورۃ الجمعۃ ۶۲:۹)
اے لوگو جو ایمان لائے ہو! جب پکارا جائے نماز کے لیے جمعہ کے دن تو اللہ کے ذکر کی طرف دوڑو اور خرید و فروخت چھوڑ دو یہ تمہارے لیے زیادہ بہتر ہے اگر تم جانو۔
قرآنِ کریم میں نمازِ جمعہ کے ساتھ نمازِ تہجد کی بھی تاکید آئی ہے:
يٰٓاَيُّہَا الْمُزَّمِّلُ قُـمِ الَّيْلَ اِلَّا قَلِيْلًا نِّصْفَہٗٓ اَوِ انْقُصْ مِنْہُ قَلِيْلًا (سورۃ المزمل ۷۳:۱،۳)
اے اوڑھ لپٹ کر سونے والے رات کو نماز میں کھڑے رہا کرو مگر کم، آدھی رات، یا اس سے کچھ کم کر لو۔
مفتی محمد شفیع تہجد کی حکمت بیان کرتے ہیں کہ رات کی نماز نفس کشی اور نفس کو قابو میں رکھنے اور ناجائز خواہشات پر اُڑنے سے روکنے میں نماز تہجد سے بڑی مدد ملتی ہے۔ (معارف القرآن، ۸؍۵۹۲)
ابن عباسؓ نے فرمایا کہ جب پانچ نمازوں کی فرضیت شب معراج میں نازل ہوئی تو نمازِ تہجد کی فرضیت منسوخ ہو گئی البتہ سنت پھر بھی رہی اور رسولﷺ نے ہمیشہ اس پر مداومت فرمائی اور اکثر صحابہ کرامؓ بڑی پابندی سے نمازِ تہجد ادا کرتے تھے۔ (تفسیر البغوی، ۱۳۵۵؛تفسیر قرطبی، ۲؍۳۱۷۵)
نماز کے بے شمار اسرار وحکم ہیں جن میں اولین بامقصد زندگی کا حصول اور اپنے رب سے آگاہی ہے۔
شاہ ولی اللہ بیان کرتے ہیں:
نماز ایک مرکب معجون ہے جس میں غوروفکر ہے۔ اس کے ذریعے سے خدا کی جانب توجہ ہوتی ہے نیز نماز میں مختلف دعائیں بھی شامل ہوا کرتی ہیں۔ جن سے صاف صاف اظہار کیا جاتا ہے کہ اس کا عمل خالصتاً خدا ہی کے لیے ہے اس کا رُخ اسی کی جانب ہے۔ ہرقسم کی اعانت کی خواستگاری صرف اسی سے ہے۔ نماز کی منفعت عام اور خاص سب لوگوں کے لیے یکساں ہے۔ ہر ایک اپنے درجے اور استعداد کے مطابق اس سے نفع اٹھا سکتا ہے۔ (حجۃ اللہ البالغہ، ۱؍۱۵۳)
نماز مقصد حیات کی یاد دہائی کا ایک بڑا ذریعہ ہے اس سلسلے میں پروفیسر خورشید احمد بیان کرتے ہیں:
انسان کی پوری زندگی کو عبادت میں تبدیل کرنے کے لیے سب سے پہلے جس چیز کی ضرورت ہے وہ یہ ہے کہ اس کے ذہن میں یہ شعور ہر وقت تازہ رہے کہ وہ خدا کا بندہ ہے اور اسے اپنی زندگی ایک مخصوص انداز سے گزارنی ہے۔ یہ نماز کا سب سے بڑا فائدہ ہے۔ (اسلامی نظریۂ حیات، ص ۳۰۸)
نور محمد غفاری بیان کرتے ہیں:
نماز انسان کے ذہن میں اس حقیقت کو مرتسم کرتی ہے کہ وہ خدا کا بندہ ہے۔ شیطان و نفس کا بندہ نہیں۔ بے شک اس کی اپنی خواہشات ہیں۔ تقاضے ہیں ارادے ہیں، عزائم ہیں مگر ان سب سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ کی رضا ہے اور اللہ تعالیٰ کی رضا سب سے بڑی چیز ہے۔ (اسلام کا نظام عبادات،ص ۷۰)
نماز کے بے شمار اخلاقی، تمدنی اور معاشرتی مقاصد ہیں جن کو ڈاکٹر محمد اقبال یوں بیان کرتے ہیں مسلمانوں کی نماز کے لیے ایک ہی قبلے کا تعین ان کی جماعت کے لیے وحدت شعور کو یقینی بنانے کے لیے ہے اور اس کی ہیئت بالعموم اجتماعیت کی مساوات کے احساس کو متحقق کرتی ہے اور اس کے روابط کو مضبوط کرتی ہے۔ جو طبقاتی احساس اور امراء کے طبقے کی دوسرے طبقے پر فوقیت کے شعور کی آغاز میں ہی سرکوبی کر دیتی ہے۔ اگر وہ شاہی مزاج مغرور برہمن، جنوبی ہندوستان میں ہر روز اچھوتوں کے ساتھ کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر کھڑا ہو جائے تو یقینا ایک عظیم روحانی انقلاب برپا ہو جائے۔ (Reconstruction of Religious Thought in Islam, P. 74,75)
سید سلیمان ندوی بیان کرتے ہیں:
جماعت کی نماز مسلمانوں میں برادرانہ مساوات اور انسانی برابری کی درسگاہ ہے۔ یہاں امیر و غریب، کالے گورے، حبشی ،عرب وعجم کی کوئی تمیز نہیں سب ایک ساتھ ایک درجہ اور ایک صف میں کھڑے ہو کر خدا کے آگے سرنگوں ہوتے ہیں۔ یہاں شاہ و گدا، شریف و ذلیل سب ایک زمین پر ایک امام کے پیچھے دوش بدوش کھڑے ہوتے ہیں اور اس برادرانہ مساوات اور انسانی برابری کی مشق دن میں پانچ مرتبہ ہوتی ہے۔ (سیرۃ النبی، ۵؍۱۰۳)
آج کی دنیا میں معاشرتی بگاڑ کی جہاں اورکئی وجوہات ہیں وہاں ایک اہم وجہ غیر فطری عدم مساوات بھی ہے۔ وہ ممالک جو اپنے آپ کو تہذیب یافتہ اور انسانی حقوق کا علمبردار کہلاتے ہیں ان کے ہاں حال یہ ہے کہ رنگ و نسل کے امتیازات نے فساد بپا کیے رکھا ہے کالے اور گورے کے عبادت خانے اور قبرستان تک الگ الگ ہیں۔ (اسلام کا نظامِ عبادات،ص۸۰)
نماز اپنے اندر تکمیل اخلاق کی حکمت رکھتی ہے اس سلسلے میں شبلی نعمانی بیان کرتے ہیں:
اصلاحِ اخلاق کا سب سے بڑا ذریعہ یہ ہے کہ نفس ہر وقت بیدار اور اثر قبول کرنے کے لیے آمادہ رہے ۔ تمام عبادات میں صرف نماز ہی ایک ایسی چیز ہے جو نفس کو بیدار رکھ سکتی ہے کیونکہ روزہ، حج، زکوٰۃ اوّلاً تو ہر شخص پر فرض نہیں ہیں۔ اس کے ساتھ روزہ سال میں ایک بار فرض ہوتا ہے۔ زکوٰۃ کا بھی یہ ہی حال ہے اورحج عمر میں ایک بار ادا کرنا پڑتا ہے۔ اس کے برعکس نماز دن میں پانچ مرتبہ ادا کرنی پڑتی ہے جس میں ہر چیز نفس میں تدریجی اثر پذیری کی قابلیت پیدا کرتی ہے۔(عبادات، ص ۱۲۶،۱۲۷)
قرآنِ حکیم نے اہل کتاب کے بگاڑ کا ذکر کرتے ہوئے ان کی جس خرابی کو نمایاں طور پر پیش کیا وہ ترکِ الصلوٰۃ ہے۔ ارشادِ الٰہی ہے:
فَخَــلَفَ مِنْۢ بَعْدِہِمْ خَلْفٌ اَضَاعُوا الصَّلٰوۃَ وَاتَّـبَعُوا الشَّہَوٰتِ فَسَوْفَ يَلْقَوْنَ غَيًّا (سورۃ مریم ۱۹:۵۹)
پھر ان کے بعد وہ ناخلف لوگ ان کے جانشین بنے جنھوں نے نماز کو ضائع کیا اور خواہشاتِ نفس کی پیروی کی پس قریب ہے کہ وہ گمراہی کے انجام سے دوچار ہوں۔
ابن کثیر بیان کرتے ہیں کہ نماز تو دین کی بنیاد ہے اور تمام اعمال سے افضل و بہتر ہے۔ چنانچہ یہ لوگ نفسانی خواہشوں کے پیچھے پڑ گئے اور دنیا کی زندگی پر ریجھ گئے لہٰذا ان کو قیامت کے دن سخت خسارہ ہو گا اور وہ بڑے گھاٹے میں رہیں گے۔ (تفسیر ابن کثیر، ۳؍۳۵۱)
قرآنِ کریم میں ارشاد ہے:
اِنَّ الصَّلٰوۃَ تَنْہٰى عَنِ الْفَحْشَاۗءِ وَالْمُنْكَرِ (سورۃ العنکبوت ۲۹:۴۵)
یقینا نماز فحش اور بُرے کاموں سے روکتی ہے۔
نماز خود اپنی ذات میں بہت بڑی اور اہم عبادت اور دین کا عمود ہے اس کے ساتھ اس میں یہ حکمت بھی ہے کہ جو شخص نماز کی اقامت کرے تو نماز اس کو فحشاء اورمنکر سے روک دیتی ہے۔ یعنی اقامت صلوٰۃ کرنے والے کو منجانب اللہ خود بخود توفیق اعمالِ صالحہ کی ہوتی ہے اور ہر طرح کے گناہوں سے بچنے کی بھی۔ (معارف القرآن ،۶؍۶۹۶،۶۹۷)
نماز کا چھوڑنا ہی دراصل شہوت نفسانیہ کی پیروی ہے کیونکہ پابندی نماز میں حکمت شہوت پر قابو پانا اور منکرات پر بند باندھنا ہے۔ (اسلام کا نظام عبادات، ص ۶۲،۶۳)
اس سلسلے میں سید سلیمان ندوی بیان کرتے ہیں:
ایک مسلمان جو نماز پڑھتا ہے جب کبھی غلطی سے یا بشری کمزوری سے اس کا قدم ڈگمگاتا ہے تو رحمت الٰہی اس کا ہاتھ تھام لیتی ہے۔ اس کو اپنے فعل پر ندامت ہوتی ہے اور خدا کے سامنے شرم آتی ہے اس کا ضمیر ملامت کرتا ہے غرض نماز انسان کے اخلاقی حاسہ کو بیدار کرتی ہے اور اسے برائیوں سے بچاتی ہے۔ (سیرۃ النبیﷺ، ۵؍۹۸)
لہٰذا شریعت موسوی اور محمدی میں نماز، بندگی کے اظہار، رحمت و مغفرت کی طلبگار، روحانی پاکیزگی اورحصول قربِ الٰہی تصور کی گئی ہے۔