• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اردو محا ورات اور زبان وبیان میں اُس کی اہمیت

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
آڑے ہاتھوں لینا
عجیب بات ہے کہ محاورات ہماری تہذیب کے مختلف رُوپ پیش کرتے ہیں اور اُن سے ہمارے ذہن و زندگی کی ترجمانی ہوتی ہے۔ "آڑے ہاتھوں لینا" فضیحتا کرنے کو کہتے ہیں، جس کے معنی یہ ہیں کہ سیدھے ہاتھ کے معنی ہوتے ہیں محبت کا اظہار کہ پیار سیدھے ہاتھوں ہی کیا جاتا ہے۔ اسی لیے"آڑے ہاتھوں لینا" گفتگو کا عمل بھی ہے اور تعلقات کے اچھے بُرے ہونے کی ایک نشانی بھی ہے۔ ترچھی نظروں سے دیکھنا بھی اسی عمل کا ایک حصہ ہے۔ انسانی عمل کی ادائیگی میں الفاظ بھی حصہ لیتے ہیں۔ اعضاء کا ایکشن اور ری ایکشن(reaction) بھی اشارے ا ور کنایے بھی، خیال، عمل، خوشی اور نا خوشی بھی۔ محاورے انہیں سب حقیقتوں کو اپنے اندر سمیٹتے ہیں۔ اب یہ الگ بات ہے کہ محاورہ بھی تشبیہ ہوتا ہے، استعارہ بھی، تصوّر بھی اور تصویر بھی۔
"آڑے آنا" بھی اسی سلسلے کا محاورہ ہے۔ اِس کے معنی بھی رکاوٹ بننے ہی کے ہیں۔ لیکن کسی مصیبت سے بچانے کے لیے آفت میں کام آنے کی غرض سے آڑے آنا کام آتا ہے اور ایک طرح کا سماجی عمل ہے جس میں دوسروں کا تعاون اور ان کی بر وقت مدد شامل رہتی ہے کہ یہ تو وہ تھا کہ آڑے آ گیا، ورنہ کون جانے کتنا نقصان پہنچتا اور کتنی پریشانیاں برداشت کرنی ہوتیں۔ "اڑم ڈھم ہونا" بھی اسی ضمن میں آتا ہے۔ مگر اس کے معنی بھیڑ بھڑکّا کے ہیں۔ جب راستہ نہ ملے اور نہ بیٹھنے کی جگہ ہو، نہ جانے کے کوئی راہ، ایسے وقت میں اَڑم ڈَھم کہتے ہیں۔ محاورہ عوامی طرزِ اظہار بھی ہوتا ہے اور بعض محاوروں میں صوتی اعتبار سے ایک کرختگی بھی ہوتی ہے جو عوامی اظہار میں شامل رہنے والی ایک صورتِ اظہار ہے۔ خواص سخت الفاظ اور کرخت آوازوں کا استعمال کم کرتے ہیں۔ ممکن ہے ہماری زبان میں یہ رجحان پوربی بھاشاؤں سے آیا ہو۔ اُردو کے ابتدائی مراحل میں ان بھاشاؤں کا اثر ہماری زبان پر زیادہ تھا اور بعد میں فارسی اثرات کی بدولت یہ رجحان شہری سطح پر کچھ اور آگے بڑھتا نظر آتا ہے۔ مگر عوامی محاورے نے ان آوازوں کو جو نسبتاً ثقیل آوازیں تھیں، ہماری زبان میں باقی رکھا ہے۔
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
آزاد کا سونٹا (فقیر)
فقیر پابند نہیں ہوتے؛ نہ گھر بار کے، نہ عزیز داری، نہ رشتہ داری کے۔ کاروبار وہ کرتے ہی نہیں۔ جب جو مل گیا وہ کھا لیا، نہ ملا تو صبر کیا۔ ایسی زندگی سماجی اعتبار سے مشکل ہی سے نبھتی ہے۔ لیکن اس طرح کے لوگوں کا ایک طبقہ رہا ضرور ہے۔ اقبال کا یہ مشہور شعر انہیں آزاد طبع لوگوں کی طرف اشارہ کرتا ہے۔
درویشِ خدا مست نہ شرقی ہے نہ غربی
گھر میرا نہ دِلّی، نہ صفاہاں، نہ سمرقند
فقیر کا سونٹا ہی اس کا سب کچھ ہوتا ہے۔ وہ بڑی آزادی سے اس کا استعمال کرتا ہے۔ بھنگ گھونٹتا ہے، کڑا بجاتا ہے، بلّی کتّے کو بھگاتا ہے، اپنے دشمن کا سر پھوڑتا ہے۔ اس معنی میں ہمارے معاشرے میں ایسے شخص کی زبان کو جو اپنے لب و لہجے پر قابو نہیں رکھتا، "آزاد کا سونٹا" یا"فقیر کا سونٹا" کہتے ہیں۔
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
اِزار بند ی کا رشتہ یا اِزار بند کا رشتہ۔ کمر بندی رشتہ
اسے عام زبان میں کمر بندی رشتہ بھی کہتے ہیں۔ یہ شادی، بیاہ کا رشتہ ہوتا ہے جس میں جنسی رشتے کو دخل ہوتا ہے۔ اِزار پائجامہ کو کہتے ہیں۔ اسی لیے ایسے رشتے جو جنس و جذبے سے تعلق رکھتے ہیں، اُن کو اِزار سے نسبت دی جاتی ہے اور سماجی طور پر انسان کی جذباتی کمزوریوں کا ذکر بھی اسی نسبت سے کیا جاتا ہے۔ "اِزار کا کچّا"، "اِزار کا ڈھِیلا" یا"اِزار کی ڈھیلی"، اسی نسبت سے مرد اور عورت کے لیے کہتے ہیں۔ اب یہ محاورے عام نہیں ہیں۔ ان کا استعمال بہت کم ہو تا چلا گیا ہے۔ لیکن آج بھی اُن سے پتہ چلتا ہے کہ محاوروں نے تشبیہ و استعارے یا اشارے و کنایے میں ہمارے سماجی رویّوں یا معاشرتی سطح پر عمل اور ردِ عمل کو محفوظ کر دیا ہے۔ "ازار میں پہن لیا" یا"ازار میں ڈال کر پہن لینا" اسی سلسلے کے کچھ محاورے ہیں اور سماجی طور پر اپنے خالص معنی رکھتے ہیں۔ جب کسی بات کی یا کسی شخص کی دوسروں کی نگاہ میں قدر و قیمت نہ رہے، اس وقت یہ کہا جاتا ہے کہ وہ تو پائجامے میں پہن لینا چاہتے ہیں۔ اِزار میں ڈال لینے کے معنی بھی یہی ہیں۔ اِس طرح سے سماج میں جو ایک ذہنی درجہ بندی رہتی ہے، یہ اسی کی طرف ایک اشارہ ہے۔
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
از غیبی گولا یا از غیبی دھکّا
مشرقی اقوام غیب کی زیادہ قائل رہیں اور ظاہر کے مقابلے میں باطن کو انہوں نے ہمیشہ زیادہ بامعنی اور پُر قوّت تصور کیا۔ اس سے جہان صوفیانہ اور رُوحانی تحریکیں نیز مذہبی فلسفہ ان میں زیادہ رائج رہا۔ وہاں توہّم پرستی اُن میں افکار، خیالات اور عقائد کے اعتبار سے زیادہ رائج رہی کہ کیا خبر کس وقت کیا ہو جائے، کہاں سے کونسی آفت نازل ہو اور کس مصیبت کا سامنا کس وقت کرنا پڑے۔ "از غیبی گولا" یا"از غیبی دھکا" اسی صورتِ حال کو کہتے ہیں جب آدمی اچانک کسی آفت میں مبتلا ہو جائے، کسی مشکل میں پھنس جائے۔ زبان کے اعتبار سے بھی اگر دیکھا جائے تو یہ محاورہ عجیب و غریب ہے کہ اس میں"از" کا لفظ شروع میں آیا ہے، جو سر تا سر فارسی لفظ ہے۔ لیکن اُردو والے اِسے بے تکلف استعمال کرتے تھے۔ خطوں میں"از دہلی"، "از لاہور" یا"از حیدرآباد" بے تکلف طور پر لکھا جاتا تھا۔ "از حد" کہہ کر حد سے زیادہ کی طرف اشارہ کیا جاتا تھا۔ "از حد بد تمیز ہے" یا"از حد خوف ناک ہے" اب بھی کچھ لوگ بولتے ہیں۔ محاورے کی اس صورت نے"از" کے استعمال کو عام زبان کا ایک حصّہ بنا دیا ہے اور حیرت ہے کہ"دھکّا" یا"گولا" جیسا لفظ"از غیبی" کے ساتھ ملا دیا۔ ہماری زبان کی مزاج شناسی کے لیے یہ محاورہ ایک کلیدی حیثیت رکھتا ہے۔
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
آس
آس اُمّید کو کہتے ہیں اور اُمید کے لیے کہا جاتا ہے کہ اس پر دنیا قائم ہے، یعنی اُمید نہ ہو تو پھر کچھ بھی نہیں ہو سکتا۔ اگر چہ امید کے ساتھ بھی قیامت کا اُتار چڑھاؤ رہتا ہے۔ اُردو کا ایک شعر ہے۔
اُمّیدیں باندھتا ہوں، سوچتا ہوں، توڑ دیتا ہوں
کہیں ایسا نہ ہو جائے، کہیں ویسا نہ ہو جائے
امیدیں ہمارے خواب ہیں، خیال ہیں، توقعات ہیں جو زندگی میں وقتاً فوقتاً، موقع بموقع ایک نہایت اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ عورت کے ہاں حمل کی حالت کو اُمید سے ہونا کہتے ہیں۔ اُردو کا ایک شعر ہے۔
کہتے ہیں، جیتے ہیں اُمّید پہ لوگ
ہم کو جینے کی بھی اُمّید نہیں
"اُمید آس" ہے، جو آشا کی عوامی شکل ہے اور بعض محاورات کا ضروری جزو ہے۔ "آس رکھنا" تو خیر اُمّید رکھنے کے بارے میں ہے۔ "آس اولاد" اس سے آگے کی بات ہے۔ ہم اولاد سے بھی آس رکھتے ہیں۔ اور اولاد ہم سے آس رکھتی ہے۔ یہ سلسلہ باہمی طور پر ذہنی رشتوں کو قائم رکھتا ہے۔ دعاؤں میں آس پوری کرنا بھی کہتے ہیں، پوری ہونا بھی۔ اولاد کی آس تو بہت بڑی آس ہوتی ہے اور جس کے اولاد نہ ہو اس کی تو گویا جڑ بنیاد ہی اکھڑ جاتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اس کے تو آس اولاد کچھ بھی نہیں ہے۔ بے اولادا ہونا ایک طرح کی نحوست ہے اور عورت تو اولاد نہ ہونے کی صورت میں بہت ہی نا مرادانہ زندگی گزارتی ہے۔ "آس لگانا" اور"آس رکھنا" بھی اسی میں شامل ہے اور"آس ٹوٹنا" یا"آس بندھنا" بھی۔ "آسرا" بھی اسی ذیل میں آتا ہے۔ "آسرا ڈھونڈنا"، "آسرا جوہنا"، "آسرا لگانا"، "آسرا باندھنا" بھی اور"آسرا رکھنا" بھی۔ فراق کا شعر ہے۔
آسرا وہ بھی شامِ فُرقت کا
خواب تو دیکھیے محبت کا
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
آسامی بنانا
"آسامی" جگہ کو بھی کہتے ہیں۔ اسی لیے یہ کہا جاتا ہے کہ وہاں ایک پٹواری، ایک ٹیچر یا ایک کلرک کی آسامی خالی ہے۔ "آسامی بنانا" ایک محاورہ بھی ہے اور انسان کے فریب، مکر اور دغا کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ آدمی جھوٹ سچ بول کر، پُر فریب باتیں کر کے کسی سے ناجائز فائدہ اٹھا لیتا ہے۔ اسی کا آسامی بنانا کہتے ہیں کہ اُس نے وہاں آسامی بنا رکھی ہے، یا وہ تگڑم باز ہے، آسامی بنا لے گا۔ آسامی بمعنی جگہ اب بہت کم استعمال ہوتا ہے اور درخواستوں میں بھی نہیں آتا۔ اس سے ہم نتیجہ اخذ کر سکتے ہیں کہ بعض الفاظ سماج میں ایک خاص طبقے یا حلقے میں اپنی جگہ بناتے ہیں اور جڑیں پھیلاتے ہیں اور وقت کے ساتھ وہ سمٹ بھی جاتے ہیں اور ان کا استعمال کم یا ختم ہو جاتا ہے۔
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
آستین کا سانپ ہونا
یہ بھی سماج میں موجود افراد کی برائیوں کی طرف ایک اشارہ ہے۔ سانپ خود بھی بطورِ محاورہ اور علامت استعمال کیا جاتا ہے اور یہ کہا جاتا ہے کہ وہ آدمی نہیں بلکہ سانپ ہے۔ اس معنی میں سانپ گویا بدترین دشمن ہوتا ہے اور آستین کا سانپ وہ ہوتا ہے جو بظاہر ہمارے ساتھ ہو، ہمارا ہم درد ہو اور مخلص نظر آتا ہو لیکن در پردہ ہمارا دشمن ہو۔ سماج میں اس طرح کے کردار بہر حال موجود ہوتے ہیں۔
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
آستینوں میں بُت چھُپائے رکھنا
یہ محاورہ ایسے موقعوں پر بولا جاتا ہے جب انسان عقیدہ و خیال کو چھُپائے رکھنا چاہتا ہے۔ حقیقت کچھ اور ہوتی ہے اور ظاہر کچھ اور کہا جاتا ہے۔ یہ روایت ہے کہ عرب کے کچھ لوگ جو دراصل بُت پرست تھے، جب نماز پڑھنے مسجد میں آتے تو اپنی آستینوں میں بت چھپائے رکھتے اور اس طرح ایک منافقانہ کردار ادا کرتے۔ اسی بات کو ذہن میں رکھتے ہوئے اقبال نے یہ شعر کہا ہے۔
اگر چہ بُت ہیں جماعت کی آستینوں میں
مجھے ہے حکمِ اذاں، لا الٰہ الا اللّہ
اِس کان سننا، اُس کان اڑا دینا
معاشرے کا لا پروائی والا رویّہ اُس کے پس منظر میں موجود ہے کہ وہ کسی کی اچھی سچی بات اور فریاد بھی سننا نہیں چاہتا۔ ویسے داستانیں، قصّے، کہانیاں گھڑی بھی جاتی ہیں، سنی بھی جاتی ہیں اور سنائی بھی جاتی ہیں۔ لیکن معاملے کی باتیں نہ کوئی سننا چاہتا ہے، نہ سمجھنا چاہتا ہے۔ اسی لیے یہ رویّہ دیکھنے کو ملتا ہے۔ اور روزمرہ کے تجربے کا حصہ ہے کہ آدمی دوسرے کی بات کو سُنی ان سنی کر دیتا ہے۔ اسی کی طرف اس محاورے میں اشارہ کیا جاتا ہے کہ وہ اس کان سے سنتے ہیں اور اس کان سے اڑا دیتے ہیں۔
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
آسمان پر اُڑنا۔ آکاس پھل
یہ ایسا محاورہ ہے جو ہماری زبان اور ہماری روایتی فکر کی سماجی بنیادوں کی طرف اشارہ کرتا ہے یعنی بہت اونچی اونچی باتیں کرنا، بڑھ چڑھ کر باتیں بنانا، جس کو زمین آسمان کے قُلابے مِلانا بھی کہتے ہیں۔ آسمان ہماری ایک اہم تہذیبی علامت ہے۔ ہم اپنے مذاہب کو بھی آسمانی مذہبوں سے تعبیر کرتے ہیں۔ آسمانی کتابیں کہتے ہیں، آسمانی صحیفہ قرار دیتے ہیں۔ سنسکرت میں اسے"آکاش وانی" کہا جاتا ہے۔ مسلم اقوام میں آسمان کا ایک اور کردار بھی ہے کہ وہ فریب کار ہے، دغا باز ہے، فتنے بر پا کرتا ہے، دِلوں میں فرق ڈالتا ہے اور عاشقوں کا دشمن ہے، رقیبوں کا دوست ہے، وغیرہ وغیرہ۔ اسی لیے فارسی اور اردو شعراء کے ہاں آسمان کی شکایتیں ملتی ہیں اور اس طرح کی تمنائیں بھی کی جاتی ہیں۔
شبِ وِصال بہت کم ہے، آسماں سے کہو
کہ جوڑ دے کوئی ٹکڑا شبِ جُدائی کا
اسی لیے ایک نیا زاویۂ فکر پیدا ہوا۔ وہ یہ کہ آدمی اگر زیادہ مکّاریاں کرتا ہے تو وہ گویا آسمان سے بھی آگے بڑھ جاتا ہے۔ ایسے بہت سے محاورے آئے ہیں جن سے ان ذہنی رویّوں کا پتہ چلتا ہے جو آسمان سے متعلق ہیں، جیسے آسمان کے تارے توڑنا، آسمان سے باتیں کرنا، آسمان میں پیوند لگانا، آسمان پر دماغ ہونا، آسمان پر چڑھنا، آسمان کو ہلا دینا، آسمان جھانکنا یا تاکنا۔ اِس سب میں زیادہ چالاکی دکھانے، جھوٹ بولنے اور فریب دینے کا مفہوم شامل رہتا ہے۔ اِس کے کچھ دوسرے پہلو بھی ہیں جو انسانی مشکلات سے تعلق رکھتے ہیں اور انسانی زندگی پر جو آفتیں ٹوٹتی ہیں، اُن کی طرف اُن میں اشارہ مقصود ہوتا ہے، جیسے آسمان پھٹ پڑنا، آسمان ٹوٹ پڑنا، آسمان سے بلاؤں کا اُترنا۔ فارسی کا ایک شعر ہے۔
ہر بلائے کز" آسمان آید
خانۂ انوری تلاش کُند
یعنی جو بلا آسمان سے نازل ہوتی ہے، وہ انوری کا گھر تلاش کر لیتی ہے۔ یہ ہر وہ آدمی کہہ سکتا ہے۔ جس کے گھر پر زیادہ آفتیں آتی ہیں۔
آسمان سے متعلق اور بھی محاورات ہیں، جیسے آسمان سے گِرا، کھجور میں اٹکا، یعنی ایک جگہ سے کوئی مسئلہ حل بھی ہوا تو دوسری جگہ جا کر اٹک گیا۔ ایسا ہمارے انتظامی معاملات، گھریلو مسائل اور دفتری سطح کی باتوں میں اکثر ہوتا رہتا ہے۔ اس اعتبار سے یہ محاورہ ہمارے معاشرے کی صورتِ حال کو سمجھنے اور محاورے کے ذریعے معاشرتی امور پر تبصرہ کرنے کے لیے ایک کلیدی حیثیت رکھتا ہے۔ اوپر از غیبی گولے کا ذکر آیا ہے۔ "آسمانی گولا"، "آسمانی تھپیڑا" بھی اسی کو کہتے ہیں۔ آسمان کے متعلق اور بھی کچھ محاورے ہماری زبان کا حصہ ہیں۔ اُن میں"آسمان تلے آنا" بھی ہے۔
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
آسن
بیٹھنے کے انداز کو کہتے ہیں۔ جوگی دھیان، گیان کے وقت ایک خاص انداز سے بیٹھتے ہیں۔ اس کو"آسن لگانا" کہتے ہیں۔ اگر وہ اپنی جگہ پر نہ رہے تو اسے"آسن ڈگنا" کہتے ہیں۔ "آسن مارنا" یا"آسن مارکر بیٹھنا" آسن لگانے ہی کے معنی میں آتا ہے۔ جنسیات میں ایک خاص طریقے سے ایک دوسرے کے قریب آنے کو بھی آسن لگانا کہا جاتا ہے۔ "آسن تلے آ جانا" بھی اسی کی طرف اشارہ کرتا ہے۔
 
Top