- شمولیت
- مارچ 08، 2011
- پیغامات
- 2,521
- ری ایکشن اسکور
- 11,552
- پوائنٹ
- 641
کچھ دن پہلے ایک دوست آصف علی نے توجہ دلائی کہ بعض اوقات کوئی صاحب کوئی کام کہتے ہیں جو ہم وقت پر نہیں کر سکتے تو وہ اس کا شکوہ رکھ لیتے ہیں یا شکایت کا اظہار کر دیتے ہیں کہ ہم نے تو آپ کو ایک ہی کام کہا تھا اور آپ نے وہ بھی نہ کیا حالانکہ شکایت کرنے یا شکوہ رکھنے والے صاحب کو یہ معلوم نہیں ہوتا کہ جسے انہوں نے ایک کام کہا ہے، وہ ان پندرہ میں سے ایک ہیں، جنہوں نے اس دن میں اس شخص کو صرف ایک ہی کام کہا ہے۔ اس سے میرا ذہن علماء اور مدرسین کے اس حق کی طرف متوجہ ہوا جس کا عام طور لوگ خیال نہیں رکھتے۔
ہمارے معاشرے میں بہت لوگ ایسے ہیں جو دین کی تعلیم وتعلم، درس وتدریس، وعظ ونصیحت، دعوت وارشاد یا بحث وتحقیق میں اپنے اوقات کا ایک بڑا حصہ لگا دیتے ہیں۔ مدرس قرآن ہی کی مثال کو لے لیں کہ جنہیں اللہ تعالی نے اچھا درس قرآن دینے کی صلاحیت سے نوازا ہے۔ اب ان کے کچھ دروس تو روٹین کے ہوتے ہیں جو ان کی جملہ دیگر دینی اور دنیاوی مصروفیات مثلا ملازمت اور گھر بار وغیرہ کی ذمہ داریوں کے ساتھ چلتے رہتے ہیں۔ اور ان کے بعض دروس ایسے ہوتے ہیں جو عارضی یا وقتی ہوتے ہیں کہ جن کا تقاضا ان کے بعض سامعین کی طرف سے آتا ہے کہ وہ یہ درس ان کے گھر، مسجد یا گاؤں وغیرہ میں بھی فلاں اوقات میں دیں۔ یہ سامعین یقینا ایسے لوگ ہوتے ہیں جو مدرس کے چاہنے والے ہوتے ہیں، ان کے درس سے متاثر ہوتے ہیں اور ان کے درس سے دوسروں کو بھی مستفید کروانا چاہتے ہیں۔ مدرس قرآن کے شیڈول میں بعض اوقات اس کی گنجائش نہیں ہوتی کہ وہ کسی اضافی درس کے لیے علیحدہ سے وقت نکال پائیں لیکن لوگ اصرار کرتے ہیں لہذا بعض مدرسین اس اصرار کی بناء پر یا اس وجہ سے لوگ انہیں متکبر نہ سمجھیں یا شکوہ وشکایت کا اظہار نہ کریں، یا تبلیغ کی دینی ذمہ داری کے احساس وغیرہ جیسی وجوہات کی بناء پر ایسے دروس قرآن کی بھی حامی بھر لیتے ہیں جس کی گنجائش ان کے گھر یا دیگر علمی ودعوتی کام کو کسر لگائے بغیر نہیں نکلتی۔ لہذا یہ لوگ عموما یہ سب کچھ ایک مشین کی طرح کرتے بھی رہتے ہیں اور اس پر اپنے اہل خانہ اور خود اپنی ذات میں پریشانی کا سامنا کرتے رہتے ہیں۔
اسی طرح ایک محقق یا ریسرچر کی مثال لے لیں۔ کوئی ایک صاحب انہیں ایک حدیث کے بارے کہتے ہیں کہ اس کا حوالہ چاہیے جبکہ ایک دوسرے صاحب ان سے ایک دوسری حدیث کی صحت کے بارے معلوم کرنا چاہ رہے ہوتے ہیں۔ ایک تیسرا دوست ان سے اپنے ایک مضمون کی اصلاح مانگ رہا ہے تو چوتھے صاحب کسی مسئلے میں تحریری فتوی کے طلبگار ہیں۔ اب ہر ایک کےنزدیک انہوں نے ان سے ایک ہی کام کہا ہے لیکن ہر ایک کو یہ معلوم نہیں سوائے محقق کے کہ انہیں کتنے لوگوں نے ایک ہی دن میں کتنے کام کہے ہیں یا وہ اپنی ملازمت، گھر بار اور اپنی روٹین کی منظم دینی مصروفیات کے علاوہ کتنا وقت اس قسم کی دینی خدمات کے لیے نکال سکتے ہیں؟
ایک عالم کی مثال لے لیں۔ ان سے موبائل پر مسئلہ پوچھنے والا شخص ایک ہی مسئلہ پوچھتا ہے لیکن اسے یہ نہیں معلوم ہوتا کہ وہ اس دن میں بیسواں شخص ہے، جو اس عالم دین سے ایک مسئلہ پوچھ رہا ہے۔ اس لیے بعض اوقات ایسے علماء یا داعیان دین کہ جن کی طرف لوگ کثرت سے رجوع کرتے ہیں، سے لوگ شکایت کرتے ہیں کہ ان کے موبائل اکثر بند رہتے ہیں یا وہ اپنا موبائل نہیں اٹھاتے۔ تو اس کی وجہ یہی ہے کہ ان کی اپنی ذاتی یا گھریلو زندگی تو بالکل ختم ہو ہی جاتی ہے بلکہ بعض اوقات ان کی منظم دینی مصروفیات بھی متاثر ہونا شروع ہو جاتی ہیں۔ ایک عالم دین نے بتلایا کہ ان کا گھر میں اپنی اہلیہ سے اکثر یہ اختلاف رہتا ہے کہ ان کا موبائل گھر میں داخل ہونے کے بعد آف رہنا چاہیے کیونکہ اہلیہ کا کہنا ہے کہ یہ ان کا وقت ہے جو وہ دوسرے لوگوں کو دے دیتے ہیں۔ اہلیہ اور بچوں کا موقف ہے کہ اہل خانہ کا وقت یعنی ان کا حق، لوگوں کو دینا کس طرح جائز ہے اور وہ بھی دین کے نام پر؟
ایسے میں ان لوگوں کو خیال رکھنا چاہیے جو ایسے مدرسین، علماء، داعیان دین یا واعظین کی طرف کسی مسئلہ میں رجوع کرتے ہیں کہ ان سے اس قدر اصرار نہ کریں کہ وہ اپنی ذات میں تنگ ہو کر مروت میں آپ کا کوئی کام کریں بلکہ کسی مطالبے کے اظہار میں ہمیشہ ایسا انداز اختیار کریں کہ وہ فیصلہ کرنے میں آزاد ہوں اور اگر کسی کام سے ناں بھی کرنا چاہیں تو سہولت سے ناں کر سکیں اور ان کی ناں کو محسوس بھی نہ کریں۔
ہمارے معاشرے میں بہت لوگ ایسے ہیں جو دین کی تعلیم وتعلم، درس وتدریس، وعظ ونصیحت، دعوت وارشاد یا بحث وتحقیق میں اپنے اوقات کا ایک بڑا حصہ لگا دیتے ہیں۔ مدرس قرآن ہی کی مثال کو لے لیں کہ جنہیں اللہ تعالی نے اچھا درس قرآن دینے کی صلاحیت سے نوازا ہے۔ اب ان کے کچھ دروس تو روٹین کے ہوتے ہیں جو ان کی جملہ دیگر دینی اور دنیاوی مصروفیات مثلا ملازمت اور گھر بار وغیرہ کی ذمہ داریوں کے ساتھ چلتے رہتے ہیں۔ اور ان کے بعض دروس ایسے ہوتے ہیں جو عارضی یا وقتی ہوتے ہیں کہ جن کا تقاضا ان کے بعض سامعین کی طرف سے آتا ہے کہ وہ یہ درس ان کے گھر، مسجد یا گاؤں وغیرہ میں بھی فلاں اوقات میں دیں۔ یہ سامعین یقینا ایسے لوگ ہوتے ہیں جو مدرس کے چاہنے والے ہوتے ہیں، ان کے درس سے متاثر ہوتے ہیں اور ان کے درس سے دوسروں کو بھی مستفید کروانا چاہتے ہیں۔ مدرس قرآن کے شیڈول میں بعض اوقات اس کی گنجائش نہیں ہوتی کہ وہ کسی اضافی درس کے لیے علیحدہ سے وقت نکال پائیں لیکن لوگ اصرار کرتے ہیں لہذا بعض مدرسین اس اصرار کی بناء پر یا اس وجہ سے لوگ انہیں متکبر نہ سمجھیں یا شکوہ وشکایت کا اظہار نہ کریں، یا تبلیغ کی دینی ذمہ داری کے احساس وغیرہ جیسی وجوہات کی بناء پر ایسے دروس قرآن کی بھی حامی بھر لیتے ہیں جس کی گنجائش ان کے گھر یا دیگر علمی ودعوتی کام کو کسر لگائے بغیر نہیں نکلتی۔ لہذا یہ لوگ عموما یہ سب کچھ ایک مشین کی طرح کرتے بھی رہتے ہیں اور اس پر اپنے اہل خانہ اور خود اپنی ذات میں پریشانی کا سامنا کرتے رہتے ہیں۔
اسی طرح ایک محقق یا ریسرچر کی مثال لے لیں۔ کوئی ایک صاحب انہیں ایک حدیث کے بارے کہتے ہیں کہ اس کا حوالہ چاہیے جبکہ ایک دوسرے صاحب ان سے ایک دوسری حدیث کی صحت کے بارے معلوم کرنا چاہ رہے ہوتے ہیں۔ ایک تیسرا دوست ان سے اپنے ایک مضمون کی اصلاح مانگ رہا ہے تو چوتھے صاحب کسی مسئلے میں تحریری فتوی کے طلبگار ہیں۔ اب ہر ایک کےنزدیک انہوں نے ان سے ایک ہی کام کہا ہے لیکن ہر ایک کو یہ معلوم نہیں سوائے محقق کے کہ انہیں کتنے لوگوں نے ایک ہی دن میں کتنے کام کہے ہیں یا وہ اپنی ملازمت، گھر بار اور اپنی روٹین کی منظم دینی مصروفیات کے علاوہ کتنا وقت اس قسم کی دینی خدمات کے لیے نکال سکتے ہیں؟
ایک عالم کی مثال لے لیں۔ ان سے موبائل پر مسئلہ پوچھنے والا شخص ایک ہی مسئلہ پوچھتا ہے لیکن اسے یہ نہیں معلوم ہوتا کہ وہ اس دن میں بیسواں شخص ہے، جو اس عالم دین سے ایک مسئلہ پوچھ رہا ہے۔ اس لیے بعض اوقات ایسے علماء یا داعیان دین کہ جن کی طرف لوگ کثرت سے رجوع کرتے ہیں، سے لوگ شکایت کرتے ہیں کہ ان کے موبائل اکثر بند رہتے ہیں یا وہ اپنا موبائل نہیں اٹھاتے۔ تو اس کی وجہ یہی ہے کہ ان کی اپنی ذاتی یا گھریلو زندگی تو بالکل ختم ہو ہی جاتی ہے بلکہ بعض اوقات ان کی منظم دینی مصروفیات بھی متاثر ہونا شروع ہو جاتی ہیں۔ ایک عالم دین نے بتلایا کہ ان کا گھر میں اپنی اہلیہ سے اکثر یہ اختلاف رہتا ہے کہ ان کا موبائل گھر میں داخل ہونے کے بعد آف رہنا چاہیے کیونکہ اہلیہ کا کہنا ہے کہ یہ ان کا وقت ہے جو وہ دوسرے لوگوں کو دے دیتے ہیں۔ اہلیہ اور بچوں کا موقف ہے کہ اہل خانہ کا وقت یعنی ان کا حق، لوگوں کو دینا کس طرح جائز ہے اور وہ بھی دین کے نام پر؟
ایسے میں ان لوگوں کو خیال رکھنا چاہیے جو ایسے مدرسین، علماء، داعیان دین یا واعظین کی طرف کسی مسئلہ میں رجوع کرتے ہیں کہ ان سے اس قدر اصرار نہ کریں کہ وہ اپنی ذات میں تنگ ہو کر مروت میں آپ کا کوئی کام کریں بلکہ کسی مطالبے کے اظہار میں ہمیشہ ایسا انداز اختیار کریں کہ وہ فیصلہ کرنے میں آزاد ہوں اور اگر کسی کام سے ناں بھی کرنا چاہیں تو سہولت سے ناں کر سکیں اور ان کی ناں کو محسوس بھی نہ کریں۔