السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
محترم شیخ
@اسحاق سلفی صاحب!
ایک صاحب ایسی مسجد میں اعتکاف پر ہیں جہاں جمعہ نہیں ہوتا..
کیا اُن کا اعتکاف ہوا یا نہیں؟
جمعہ کی ادائیگی کے لیے انہیں دوسری مسجد جانا پڑے گا..
موصوف کا سوال ہے کہ وہ کیا کریں؟
بسم اللہ الرحمن الرحیم
اس پر تو تمام علماء کا اتفاق ہے کہ اعتکاف صرف مسجد میں ہی ہوسکتا ہے کیونکہ اللہ کریم کا ارشاد ہے :
{وَلَا تُبَاشِرُوهُنَّ وَأَنْتُمْ عَاكِفُونَ فِي الْمَسَاجِدِ} جب تم مساجد میں اعتکاف میں ہو تو اپنی بیویوں سے مباشرت نہ کرو "البقرہ 187 )
اور اس لئے بھی نبی اکرم ﷺ نے ہمیشہ مسجد ہی میں اعتکاف کیا ،
اور یہ بات سب جانتے ہیں کہ " شرعاً اعتکاف سے مراد یہ ہے کہ کچھ وقت کیلئے مسجد میں ٹھہرنا ، رکنا
شرعا: اللبث في المسجد على صفة مخصوصة بنية "
تو واضح ہے کہ مسجد میں مخصوص نیت سے کچھ وقت پابند ہونے کو اعتکاف کہا جاتا ہے ،
اگر اس وقت کے دوران مسجد سے نکلے گا تو اعتکاف ٹوٹ جائے گا ،
لیکن چونکہ انسان کی کچھ ضرورتیں ایسی جن کے بغیر اس کا گزارہ مشکل ہے جیسے کھانا ،پینا اور حوائج ضروریہ تو ان کیلئے مسجد سے نکلنا جائز ہے ،
جسمانی ضرورتوں کی طرح کچھ دینی ضرورتیں بھی ایسی ہیں جن کو چھوڑا نہیں جاسکتا ،مثلاً فرض نماز ،نماز جمعہ وغیرہ
اسی لئے علماء کا کہنا ہے کہ اگرچہ ہر مسجد میں اعتکاف ہوسکتا ہے ،تاہم افضل یہ ہے کہ جامع مسجد میں اعتکاف کیا جائے ؛
علامہ عبد العزیز بن عبد اللہ بن باز فرماتے ہیں :
وإذا كان يتخلل اعتكافه جمعة فالأفضل أن يكون اعتكافه في المسجد الجامع إذا تيسر ذلك."
" اگر دوران اعتکاف جمعہ آتا ہو تو افضل یہ ہے کہ جامع مسجد میں اعتکاف کرے "
اور
علامہ ابن عثیمین ؒ لکھتے ہیں :(والأفضل أن يكون في المسجد الذي تقام فيه الجمعة، لئلا يحتاج إلى الخروج إليها )
(مجموع فتاوى ورسائل فضيلة الشيخ محمد بن صالح العثيمين 20/ 157 )
یعنی افضل یہ ہے کہ جہاں جمعہ پڑھا جاتا ہو وہاں اعتکاف کیا جائے تاکہ نماز جمعہ کیلئے مسجد سے نکل کر نہ جانا پڑے "
مزید لکھتے ہیں :
(فإن اعتكف في غيره فلا بأس أن يبكر إلى صلاة الجمعة )
اگر جامع مسجد اعتکاف نہ کرے ، تو جامع مسجد نماز جمعہ کیلئے جا سکتا ہے "
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
اور اگر ایسی مسجد میں اعتکاف کرے جہاں نماز جمعہ نہیں پڑھی جاتی ،تو نماز جمعہ کیلئے جامع مسجد میں جانا تو واجب ہے
لیکن اگر اعتکاف والی مسجد سے نماز جمعہ کیلئے نکلے گا تو کیا اعتکاف ختم ہوجائے گا یا نہیں ؟
امام محی السنہ أبو محمد الحسين بن مسعود الفراء البغوي (المتوفى: 516 ھ ) فرماتے ہیں :
" أما الخروج للجمعة، فواجب عليه، لا يجوز له تركه.
واختلفوا في بطلان اعتكافه، فذهب قوم إلى أنه لا يبطل به اعتكافه، وهو قول الثوري، وابن المبارك، وأصحاب الرأي، كما لو خرج لقضاء الحاجة.
وذهب بعضهم إلى أنه يبطل اعتكافه، وهو قول مالك، والشافعي، وإسحاق، وأبي ثور، قالوا: إذا كان اعتكافه أكثر من ستة أيام، يجب أن يعتكف في المسجد الجامع، لأنه إذا اعتكف في غيره يجب عليه الخروج لصلاة الجمعة، وفيه قطع لاعتكافه، فإن كان أقل من ذلك، أو كان المعتكف ممن لا جمعة عليه، اعتكف في أي مسجد شاء "
(شرح السنۃ ج6 ص401 )
یعنی :
نماز جمعہ کیلئے جامع مسجد میں جانا تو واجب ہے، جس کو ترک نہیں کیا جاسکتا ،
لیکن اگر (اعتکاف والی مسجد سے نماز جمعہ کیلئے ) نکلے گا تو کیا اعتکاف ختم ہوجائے گا یا نہیں ؟
اس پر دو قول ہیں : ایک یہ اس نکلنے اعتکاف نہیں ٹوٹے گا ،امام سفیان الثوریؒ ،امام عبد اللہ بن مبارکؒ اور اہل رائے کا یہی قول کہنا ہے ، کیونکہ (نماز جمعہ کیلئے مسجد سے نکلنا ) جسمانی حوائج ضروریہ کی طرح (ایک حاجت ضروریہ ) ہی تو ہے ،
لیکن کچھ دیگر ائمہ و علماء کے کہنا ہے کہ اس طرح اعتکاف ٹوٹ جائے گا ،
امام مالکؒ امام شافعی ؒ ،امام اسحاق ؒاور امام ابو ثورؒ کا یہی قول ہے ، وہ کہتے ہیں کہ اگر چھ دن سے زائد کا اعتکاف کرنا مقصود ہو تو ضروری ہے کہ جامع مسجد میں اعتکاف کرے ، کیونکہ اگر جامع مسجد اعتکاف نہیں بیٹھے گا تو جمعہ کیلئے نکلنا ہوگا ، جس سے اعتکاف ختم ہوجائے گا ،
ہاں اگر چھ دن سے کم کا اعتکاف کرے ( اور ان چھ دنوں میں جمعہ نہ آتا ہو ) تو جس مسجد میں چاہے اعتکاف کرسکتا ہے "
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
ہمارے نزدیک صحیح بات یہ ہے کہ:
افضل یہ ہے کہ جہاں جمعہ پڑھا جاتا ہو وہاں اعتکاف کیا جائے تاکہ نماز جمعہ کیلئے مسجد سے نکل کر نہ جانا پڑے ،
لیکن اگر جامع مسجد میں اعتکاف نہیں کیا تو نماز جمعہ کیلئے جامع مسجد جاسکتا ہے ، جس سے اعتکاف پر کوئی اثر نہیں پڑے گا ،
ــــــــــــــــــــــــــــــــ
اس جواز کی تفصیل درج ذیل ہے ،جو " الموسوعة الفقهية الدرر السنیہ ) سے ماخوذ ہے
من وجبت عليه الجمعة، وكانت تتخلَّل اعتكافه، فإنه لا يشترط لصحة استمرار الاعتكاف أن يكون اعتكافه في الجامع - وعليه أن يخرج لحضور الجمعة ثم يرجع إلى المسجد الذي يعتكف فيه - ولكنَّ الأفضل أن يكون اعتكافه في المسجد الجامع، وهو قول الحنفية (7)، والحنابلة (8)، وقولٌ لبعض السلف (9)، وهو اختيار ابن العربي المالكي (10)، وابن باز (11)، وابن عثيمين (12).
الدليل:
عموم قوله تعالى: وَلا تُبَاشِرُوهُنَّ وَأَنْتُمْ عَاكِفُونَ فِي الْمَسَاجِدِ تِلْكَ حُدُودُ اللَّهِ فَلا تَقْرَبُوهَا كَذَلِكَ يُبَيِّنُ اللَّهُ آيَاتِهِ لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَّقُونَ [البقرة: 187]
فلفظ المساجد عامٌّ لجميع المساجد، وتخصيصه ببعض المساجد دون بعضٍ يحتاج إلى دليل.
وأما خروجه إلى الجمعة فهو ضرورةٌ من الضرورات، لا يبطل بها الاعتكاف.
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
حاشية:
(7) ((المبسوط للسرخسي)) (3/ 108)، ((بدائع الصنائع للكاساني)) (2/ 114).
(8) ((الفروع لابن مفلح)) (5/ 140)، ((شرح منتهى الإرادات للبهوتي)) (1/ 501).
(9) قال البغوي: (أما الخروج للجمعة، فواجبٌ عليه، لا يجوز له تركه. واختلفوا في بطلان اعتكافه، فذهب قومٌ إلى أنه لا يبطل به اعتكافه، وهو قول الثوري، وابن المبارك، وأصحاب الرأي، كما لو خرج لقضاء الحاجة) ((شرح السنة)) (6/ 401).
(10) قال ابن العربي: (إذا اعتكف في مسجدٍ لا جمعة فيه للجمعة، فمن علمائنا من قال: يبطل اعتكافه، ولا نقول به; بل يشرف الاعتكاف ويعظم. ولو خرج من الاعتكاف من مسجدٍ إلى مسجد لجاز له; لأنه يخرج لحاجة الإنسان إجماعاً، فأي فرقٍ بين أن يرجع إلى ذلك المسجد أو إلى سواه؟) ((أحكام القرآن)) (1/ 180).
(11) وقال ابن باز: (ومحل الاعتكاف المساجد التي تقام فيها صلاة الجماعة، وإذا كان يتخلل اعتكافه جمعة فالأفضل أن يكون اعتكافه في المسجد الجامع إذا تيسر ذلك) ((مجموع فتاوى ابن باز)) (15/ 442).
(12) وقال ابن عثيمين: (وهو في كل مسجدٍ، سواء كان في مسجدٍ تقام فيه الجمعة، أو في مسجدٍ لا تقام فيه، ولكن الأفضل أن يكون في مسجدٍ تقام فيه، حتى لا يضطر إلى الخروج لصلاة الجمعة) ((مجموع فتاوى ورسائل العثيمين)) (20/ 155).