محمد اجمل خان
رکن
- شمولیت
- اکتوبر 25، 2014
- پیغامات
- 350
- ری ایکشن اسکور
- 30
- پوائنٹ
- 85
*اللہ پر توکل زندگی میں برکت*
*رَبِّ إِنِّي لِمَا أَنزَلْتَ إِلَيَّ مِنْ خَيْرٍ فَقِيرٌ*
"جو خیر بھی تو مجھ پر نازل کر دے میں اس کا محتاج ہوں" (24) سورة القصص
یہ کہانی ہے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی نبوت سے سرفراز کیے جانے سے پہلے کی ہے۔"جو خیر بھی تو مجھ پر نازل کر دے میں اس کا محتاج ہوں" (24) سورة القصص
ذرا اپنے تصور میں لائیے! شاہی محل میں ناز و نعم میں پلا بڑھا ایک نوجوان، اچانک اپنا سب کچھ چھوڑ کر خالی ہاتھ تن تنہا، جان بچا کر مصر سے نکلتا ہے، نہ معلوم کیسی کیسی مشکلات اور تکالیف اٹھا کر صحرائے سینا عبور کرتا ہے، پھر وہ ایک ایسے علاقے میں پہنچتا ہے جہاں اس کا نہ کوئی پرسان حال ہے اور نہ کوئی واقف کار ہے، نہ سر چھپانے کی جگہ ہے اور نہ ہی روٹی روزی کا کوئی وسیلہ ہے، گویا غربت اور محتاجی و مفلسی کی انتہا ہے!
آج کتنے نوجوان بے روزگاری اور تنگ دستی کی وجہ سے فرسٹریشن، ڈپریشن، اور ذہنی انتشار کا شکار ہیں۔ کتنے ایسے نوجوان ہیں جنہیں اچھی تعلیم حاصل کرنے کے باوجود ملازمت نہیں مل رہی ہے، اگر کچھ کو مل بھی جاتی ہے تو تنخواہ اتنی کم ہوتی ہے کہ ان کا اپنا گزارہ بھی مشکل سے ہوتا ہے، چہ جائے کہ وہ اپنی شادی کرنے اور گھر بسانے کی سوچیں۔ اس لیے آج بہت سے نوجوان وقت پر شادی نہیں کر پاتے اور نوجوانوں کی دین سے دوری انہیں زنا و لواطت جیسی کبیرہ گناہوں میں ملوث کر رہی ہے۔
تو نوجوانوں کو بتانا چاہتا ہوں کہ حالات کتنے ہی پریشان کن کیوں نہ ہو گناہوں کی طرف قدم نہ بڑھائیں بلکہ دینداروں کی صحبت اختیار کریں، دین کی صحیح علم حاصل کریں اور اللہ پر توکل کریں۔
دیکھیے حضرت موسیٰ علیہ السلام نے ہر موقعے پر اللہ سے رجوع کیا، نادانستہ قتل کردیا اللہ سے معافی مانگی، مصر سے جان بچا کر نکلتے وقت دعا کی ”اے پروردگار! مجھے ظالم قوم سے بچا لے “، مدین کی طرف رخ کیا راستہ نامعلوم ہے کوئی سنگی ساتھی بھی نہیں ہے تو فرمایا "مجھے اُمید ہے کہ میرا رب مجھے ٹھیک راستے پر ڈال دے گا" اور پھر کئی دنوں کی تھکا دینے والا سفر طے کرکے جب مدین پہنچتے ہیں تو اپنی تھاوٹ کے باوجود خدمت خلق سر انجام دیتے ہیں، کمزور کی مدد کرنے پر کمر بستہ ہوتے ہیں اور دونوں عورتوں کی بکریوں کو بغیر کسی ماوضے کے پانی پلا دیتے ہیں۔
پھر سائے میں جاکر آپ علیہ السلام اپنی زندگی کی سب سے بابرکت دعا مانگتے ہیں:
*رَبِّ إِنِّي لِمَا أَنزَلْتَ إِلَيَّ مِنْ خَيْرٍ فَقِيرٌ*
"پروردگار! جو خیر بھی تو مجھ پر نازل کر دے میں اس کا محتاج ہوں"۔
"پروردگار! جو خیر بھی تو مجھ پر نازل کر دے میں اس کا محتاج ہوں"۔
سوچیے! حضرت موسیٰ علیہ السلام جیسا معاملہ اگر ہمارے ساتھ پیش آتا تو ہم کتنے فرسٹریشن، ڈپریشن، اور ذہنی انتشار کا شکار ہوتے؟ ہماری کیفیت کیا ہوتی؟ اور ہم کیا کرتے؟ اگر ایسے میں ہم اپنے رب سے کیا مانگتے؟ ہم کیا دعا کرتے؟
ہم سب خوب جانتے ہیں کہ ہم کیا مانگتے۔ ہم اللہ سے روزی روٹی مانگتے اور سر چھپانے کی جگہ مانگتے۔
لیکن حضرت موسیٰ علیہ السلام نہ ہی فرسٹریٹ ہوئے نہ ہی ڈپریشن یا ذہنی انتشار کا شکار ہوئے، نہ ہماری طرح اپنے رب سے روزی روٹی کا سوال کیا اور نہ ہی سر چھپانے کے لیے کوئی جائے پناہ مانگا لیکن ایک ایسی جامع دعا کی جس میں سب کچھ اپنے رب پر چھوڑ دیا، فرمایا:
*رَبِّ إِنِّي لِمَا أَنزَلْتَ إِلَيَّ مِنْ خَيْرٍ فَقِيرٌ*
"پروردگار! جو خیر بھی تو مجھ پر نازل کر دے میں اس کا محتاج ہوں"۔
(اس دعا میں یہ بتایا گیا ہے کہ خیر و بھلائی آسمان سے نازل ہوتی ہے اگرچہ ہم اسے سامنے سے آتا دیکھتے ہیں)"پروردگار! جو خیر بھی تو مجھ پر نازل کر دے میں اس کا محتاج ہوں"۔
ہم بندے اپنی اوقات کے مطابق ہی مانگ سکتے ہیں لیکن یہ معاملہ جب رب پر چھوڑ دیا جاتا ہے تو وہ اپنی شان کے مطابق عطا فرماتا ہے۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا۔ آپؑ نے اپنی کوئی خواہش ظاہر نہیں کی بلکہ سب کچھ اپنے رب پر چھوڑ دیا تو اللہ تعالیٰ نے بھی اپنی شان کے مطابق آپؑ کو وہ کچھ عطا فرما دیا جس کا کوئی انسان دیارِ غیر میں تصور بھی نہیں کر سکتا تھا۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام کی یہ دعا اتنی بابرکت ثابت ہوئی کہ ایک تہی دست مسافر جنہیں اس شہر میں کوئی جاننے والا بھی نہیں تھا وہاں انہیں فوراً ہی سب کچھ مل گیا، مثلاً ملازمت، سر چھپانے کی بہترین جگہ، دیندار خاندان، نیک بیوی اور روحانیت کی تکمیل کے لیے ایک جلیل القدر ہستی کی صحبت۔
اور *بعد میں اسی دعا کی برکت سے آپؑ نبوت سے بھی نوازے گیے۔*
*یہ ہوتی ہے برکت جو اللہ تعالیٰ پر توکل کرنے سے ملتی ہے۔*
نیز توکل کرنے والوں کے بارے میں فرمانِ الٰہی ہے:
وَيَرْزُقْهُ مِنْ حَيْثُ لَا يَحْتَسِبُ ۚ وَمَن يَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّهِ فَهُوَ حَسْبُهُ ۚ إِنَّ اللَّهَ بَالِغُ أَمْرِهِ ۚ قَدْ جَعَلَ اللَّهُ لِكُلِّ شَيْءٍ قَدْرًا ﴿٣﴾ ﴿٣﴾ سورة الطلاق
” اور اسے ایسی جگہ سے رِزق عطا فرماتا ہے جہاں سے اس کا گمان بھی نہیں ہوتا، اور جو شخص اللہ پر توکل کرتا ہے تو وہ (اللہ) اسے کافی ہے، بیشک اللہ اپنا کام پورا کرلینے والا ہے، بیشک اللہ نے ہر شے کے لئے اندازہ مقرر فرما رکھا ہے“ ۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اللہ پر توکل کیا تو اللہ تعالیٰ نے بھی انہیں ایسی جگہ سے وہ سب کچھ دیا جس کا گمان انسانی ذہن کسی طرح کر ہی نہیں سکتا۔
آج بھی جو شخص اللہ پر توکل اور بھروسہ کرے گا تو اللہ اس کی ہر جائز کام کے لئے کافی ہوگا۔
حضرت عمر بن خطاب رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر تم لوگ اللہ پر توکل (بھروسہ) کرو جیسا کہ اس پر توکل (بھروسہ) کرنے کا حق ہے تو تمہیں اسی طرح رزق ملے گا جیسا کہ پرندوں کو ملتا ہے کہ صبح کو وہ بھوکے نکلتے ہیں اور شام کو آسودہ واپس آتے ہیں“ ۔(جامع الترمذي:2344، سنن ابن ماجه:4164)
تو نوجوانوں آپ کی ہر پریشانی کا حل دین میں ہے، دین سیکھنے، سمجھنے اور اس پر عمل کرنے میں ہے۔ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی سچی اطاعت و فرمانبرداری کرنے میں ہے۔ اللہ کا ہوجانے میں اور اللہ پر توکل کرنے میں ہے۔
آج بھی وہی رب ہے جس نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو دیار غیر میں ملازمت، مکان، خاندان، نیک بیوی اور بزرگ ہستی کی صحبت عطا فرمایا تھا وہ آج بھی آپ کو یہ سب دینے پر قادر ہے۔
بس ہمیں مانگنا آنا چاہیے، اللہ پر توکل کرنا آنا چاہیے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی اس دعا کو اللہ تعالیٰ اپنی کتاب میں اسی لیے جگہ دیا ہے کہ قیامت تک آنے والے مومن بندے اللہ سے مانگنے کا طریقہ و سلیقہ سیکھ لیں۔ جو نوجوان پریشان ہیں وہ اس دعا کو چلتے پھرتے اٹھتے بیٹھے اپنی زبان پر جاری رکھیں تو اللہ تعالیٰ آپ کو بھی ملازمت، نیک بیوی، مکان و خاندان سب کچھ عطا فرما دے گا اور اللہ تعالیٰ کی مہربانی سے آپ کی زندگی میں بھی برکت آئے گی، آپ کی زندگی بابرکت بن جائے گی۔
+++
زندگی کو بابرکت بنانے والی میری *ایک منفرد کتاب تالیف* ہے: “بابرکت و باسعادت بڑھاپا” ، جسے چاہیے وہ مجھ سے رابطہ کر سکتے ہیں۔
۔