• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

الوہیت کا مدار کس چیز پر ہےِِ؟؟؟

شمولیت
جون 20، 2014
پیغامات
675
ری ایکشن اسکور
55
پوائنٹ
93
دیکھیں جب غیر اللہ سے مانگا جائے گا تو وہاں الوہیت کا اعتقاد نہیں ہوتا اور جب اللہ سے مانگا جاتا ہے تو وہاں الوہیت کا اعتقاد ہوتا ہے اور جس دعا کے بارے میں ہے کہ وہ عبادت ہے اس سے مراد یہی الوہیت کے اعتقاد والی دعا ہے جو غیر اللہ سے جائز نہیں۔اور غیر اللہ کو الہ سمجھ کر نہیں بلکہ اللہ کی قدرت کا مظہر سمجھ کے پکارا ہا اس سے مدد کی درخواست کی جاتی ہے۔
 

بہرام

مشہور رکن
شمولیت
اگست 09، 2011
پیغامات
1,173
ری ایکشن اسکور
439
پوائنٹ
132
1-اے عبدالقادر مجاہدین کی مدد کر
2-اے عبدالقادر غریبوں کی مدد کر
3-اے عبدالقادر پاکستان کی مدد کر
4-اے عبدالقادر طالبان کی مدد کر
اس کو اگر اس طرح کر لیا جائے تو یہ حسب حال ہوگا
1۔ اے امریکہ و اسرائیل یمن میں سعودیوں کی مدد فرما
2۔ اے امریکہ و اسرائیل عراق میں داعش کی مدد فرما
5۔ اے امریکہ و اسرائیل شام میں داعش کی مدد فرما
6۔ اے امریکہ و اسرائیل سعودیہ میں داعش کو نست ونابود فرما
 
شمولیت
ستمبر 13، 2014
پیغامات
28
ری ایکشن اسکور
11
پوائنٹ
32
مخترم قادری صاحب۔۔
آپ عبدہ بھائی کے سوالوں کے جواب دیں تاکہ گفتگو کا کوئی حاصل بھی ہو ۔۔ ورنہ بے جا گفتگو وقت کا ضائع ہے ۔۔
 

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,038
ری ایکشن اسکور
1,225
پوائنٹ
425
دیکھیں جب غیر اللہ سے مانگا جائے گا تو وہاں الوہیت کا اعتقاد نہیں ہوتا اور جب اللہ سے مانگا جاتا ہے تو وہاں الوہیت کا اعتقاد ہوتا ہے اور جس دعا کے بارے میں ہے کہ وہ عبادت ہے اس سے مراد یہی الوہیت کے اعتقاد والی دعا ہے جو غیر اللہ سے جائز نہیں۔اور غیر اللہ کو الہ سمجھ کر نہیں بلکہ اللہ کی قدرت کا مظہر سمجھ کے پکارا ہا اس سے مدد کی درخواست کی جاتی ہے۔
یعنی اگر کوئی کسی کو اللہ سمجھ کر مانگ رہا ہو تو وہ دعا کہلائے گی اور شرک ہو گی مگر کسی کو اللہ سمجھ کر نہ مانگ رہا ہو تو وہ دعا نہیں کہلائے گی بلکہ عام مانگنا ہو گا اور جائز ہو گا

اگر ایسی ہی بات ہے تو پھر اس پر یہ اعتراض آتا ہے کہ
یہ کیسے پتا چلے گا کہ وہ مخاطب کو اللہ سمجھ کر مانگ رہا ہے یا نہیں کیونکہ دل کی حالت تو ہم جان نہیں سکتے جب تک کہ وہ منہ سے اسکی وضاحت نہ کر دے (مگر کسی بندے کو میں نے آج تک اس طرح مانگتے ہوئے نہیں دیکھا کہ اے عبدالقادر جیلانی میں تمھیں اللہ نہ سمجھ کر مانگ رہا ہوں مجھے بیٹا دے دو اور اے اللہ میں تمھیں اللہ سمجھ کر مانگ رہا ہوں مجھے بیٹا دے دو)

اسی تناظر میں ذرا اسکی وضاحت کر دیں کہ مندرجہ ذیل میں سے کون غیراللہ سے شرکیہ دعا مانگ رہا ہے اور کون غیراللہ سے جائز بات مانگ رہا ہے اور قادری صاحب فرق کرنے کی دلیل بھی دینی ہے جو بار بار پوچھنے پر نہیں دی جا رہی شکریہ
1-ہندو بت سے کہتا ہے مجھے بیٹا دے دو
2-عیسائی عیسی علیہ اسلام کا نام لے کر کہتا ہے مجھے بیٹا دے دو
3-سنی عبدالقادر جیلانی کا نام لے کر کہتا ہے کہ مجھے بیٹا دے دو
4-وھابی اللہ کا نام لے کر کہتا ہے کہ مجھے بیٹا دے دو
 
شمولیت
جون 20، 2014
پیغامات
675
ری ایکشن اسکور
55
پوائنٹ
93
جناب شاہ عبد العزیز صاحب نے اپنے فتاوی میں اسی اعتراض کہ ہم سیتلا کالکا سے مانگتے ہیں تو تم بھی بزرگان دین سے مانگتے ہو تو اس کا جواب میں ایک تفصیلی مکالمہ ہے جو ہم عنقیب پیسٹ کردیں گئے۔تھوڑی مصروفیت ہے۔
صنم میں جاں تھی نہ ہے نہ ہے اسے ادراک بھی
بندہ خاکی تو سن لیتا ہے زیر خاک بھی
 
شمولیت
جون 20، 2014
پیغامات
675
ری ایکشن اسکور
55
پوائنٹ
93
1۔ہندو بت سے ،عیسائی عیسی سے ان میں الوہیت کا اعتقاد رکھ کے مانگتے ہیں۔
2۔جب کہ مسلمان کا کبھی بھی الوہیت کا اعتقاد نہیں رکھتا بلکہ انہیں اللہ کی قدرت کا مظہر سمجھتا ہے ۔باقی اولیا کے پاس کوئی بچوں کو گھٹا نہیں ہوتا بلکہ ان سے مدد مانگنے کا مطلب شاہ صاحب نے اسی مکالمے میں یوں بیان کیا ہے کہ اولیا سے مدد مانگنے کا مطلب یہ ہے کہ وہ اللہ سے دعا کریں۔(فتاوی عزیزی)
3۔جب کہ اللہ سے بھی الوہیت کا اعقاد رکھ کر منگا جاتا ہے
 

salfisalfi123456

مبتدی
شمولیت
اگست 13، 2015
پیغامات
84
ری ایکشن اسکور
39
پوائنٹ
6
کیا اللہ کے سوا کوئی اور مشکل حل کرنے پر قادر ہے؟
ایک سُوال کی دس شکلیں
اکثر مذہبی حلقوں میں یہ سوال کہ آیا اللہ کے سوا (غیر اللہ) مشکل حل کرسکتا ہے؟ یا صرف اللہ ہی اس پر قادر ہے، بڑے زور شور سے اُچھالا جاتا ہے مگر فریقین میں سے کوئی بھی قائل نہیں ہوتا۔ ایک ذی شعور انسان کے ذہن میں یہ سوال اُبھرتا ہے تو وہ اس سوال کو مختلف پہلووں سے جانچتا اور پرکھتا ہے کہ کس طرح اللہ کے سوا اور کوئی ہستی مشکل کشائی کرسکتی ہے۔ اس سوال کی دس مختلف صورتیں ہیں۔
زید کو کسی مشکل کا سامنا ہے وہ چاہتا ہے کہ میری مشکل دور ہو، وہ اللہ کے سوا کسی دوسری ہستی کو پکارنا چاہتا ہے جو اس کی مشکل دُور کردے اب ۔۔۔
۱۔ اگر اللہ کے سوا کوئی اور ہتسی مشکل حل کرسکتے ہے تو بتایئے کہ سائل اور مشکل کُشا کے درمیان ہزاروں میلوں کی دُوری پر وہ زندگی میں یا زندگی کے بعد قبر میں آواز سُن سکتا ہے؟
۲۔ بالفرض یہ ثابت ہو جائے کہ وہ اتنے فاصلوں پر آواز سُن سکتا ہے تو پھر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آیا وہ دنیا کی ہر زبان سے واقف ہے یا نہیں مثلاً سرائیکی والا سرائیکی میں مشکل پیش کرے گا۔ اسی طرح جرمن ، جرمنی زبان میں، انگریز ایگریزی میں اور پٹھان پشتو میں آواز دے گا!
۳۔ اگر یہ بات بہی ثابت کردی جائےک ہ وہ ہر ہستی ہر زبان سے واقف ہے تو پھر سوال پیدا ہو گا کہ اگر ایک لمحہ میں سینکڑوں یا ہزاروں لوگ اپنی مشکل اس کے سامنے پیش کریں تو کیا وہ ان سب کی مشکلات اسی لمحہ سُن اور سمجھ لے گا یا اس کے لیے قطار بنانے کی ضرورت پیش آئے گی!
۴۔ کیا اس ہستی کو کبھی نیند بھی آتی ہے یا وہ ہمیشہ جاگتا رہتا ہے؟ اگر کبھی نیند آتی ہے تو ہمارے پاس ایک لسٹ ہونی چاہیے کہ کب اس کو نیند آتی ہے اور کب وہ جاگ رہا ہوتا ہے تاکہ ہم اپنی مشکل صرف اسی وقت پیش کریں جبکہ وہ سو نہ رہا ہو، یا وہ نیند میں بھی سنتا ہے؟
۵۔ ایک شخص بولنے سے قاصر ہے، وہ ایسی مشکل میں مبتلا ہے کہ اس کا گلا بند ہو چکا ہے، اگر وہ دل ہی دل میں اپنی مشکل پیش کرے تو کیا وہ اس کی دلی فریاد بھی سُن لے گا؟
۶۔ انسان کو پیدائش سے لے کر موت تک چھوٹی بڑی تمام مشکلات کا سامنا ہوتا ہے، اگر وہ تمام مشکلات حل کرکستا ہے تو پھر غیر کی طرف رجوع کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ اور اگر غیر ان تمام مشکلا کو حل کرنے پر قادر ہے تو پھر اللہ کی کیا حاجت؟
۷۔ اگر غیر اللہ ’’مشکل کُشا ‘‘ تمام مشکلات حل کرنے پر قادر نہیں، تو ہوسکتا ہے کہ کچھ مشکلات حلق کرنے کا بیڑا اللہ نے اُٹھایا ہو اور کچھ مشکلات حل کرنے کے اختیارات کسی غیر کو دے رکھے ہوں۔ ایسی صورت میں تو ہمارے پاس یہ فہرست ہونی چاہیے کہ کون کون سی مشکلات اللہ تعالیٰ حل کرنے پر قادر ہے اور کون کون سی مشکلات غیرصل کرسکتا ہے تاکہ مسائل اپنی مشکلا اسی کے سامنے پیش کرسکے جو اس کے حل کرنے پر قادر ہو!
۸۔ کیا اللہ کے سوا جو ہستی مشکل نکال سکتی ہے وہ مشکل ڈال بھی سکتی ہے یا اس کی ڈیوٹی صرف حل کرنے پر ہے؟ اگر وہ مشکل حل کرسکتی ہے تو پھر ڈالنے والا کون ہے؟
۹۔ بالآخر نتیجہ یہ نکلے گا کہ اللہ تعالیٰ مشکلات ڈالنے والا ہے اور غیر اللہ مشکل حل کرنے والا۔ بالفرض ایک ہستی مشکل ڈالنے پر مُصر ہو اور دوسری مشکل حل کرنے پر تو دونوں میں سے کونسی ہستی اپنا فیصلہ واپس لے لے گی؟
۱۰۔ کسی بھی برگزیدہ یا گناہ گار ہستی کا جنازہ پڑھنا ہو تو اس کی بخشش کے لیے اللہ کو آواز دی جائے یا’’مشکل کشا‘‘ کو؟
 

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,038
ری ایکشن اسکور
1,225
پوائنٹ
425
1۔ہندو بت سے ،عیسائی عیسی سے ان میں الوہیت کا اعتقاد رکھ کے مانگتے ہیں۔
2۔جب کہ مسلمان کا کبھی بھی الوہیت کا اعتقاد نہیں رکھتا بلکہ انہیں اللہ کی قدرت کا مظہر سمجھتا ہے ۔
3۔جب کہ اللہ سے بھی الوہیت کا اعقاد رکھ کر منگا جاتا ہے
اگر ایسی ہی بات ہے تو پھر اس پر یہ اعتراض آتا ہے کہ
یہ کیسے پتا چلے گا کہ وہ مخاطب کو اللہ سمجھ کر مانگ رہا ہے یا نہیں کیونکہ دل کی حالت تو ہم جان نہیں سکتے جب تک کہ وہ منہ سے اسکی وضاحت نہ کر دے (مگر کسی بندے کو میں نے آج تک اس طرح مانگتے ہوئے نہیں دیکھا کہ اے عبدالقادر جیلانی میں تمھیں اللہ نہ سمجھ کر مانگ رہا ہوں مجھے بیٹا دے دو اور اے اللہ میں تمھیں اللہ سمجھ کر مانگ رہا ہوں مجھے بیٹا دے دو)
یعنی میں اوپر بار بار یہی تو پوچھ رہا ہوں کہ ہمیں یہ کیسے پتا چلے گا کہ کون الوہیت کا اعتقاد رکھ کے مانگ رہا ہے اور کون نہیں ہمارے لئے کوئی نشانی بیان کر دیں جو دل کا عمل نہ ہو بلکہ کوئی قول یا عمل بالجوارح بتائیں یہ بات میں نے اوپر بھی بار بار پوچھی ہوئی ہے مگر سنوائی نہیں ہو رہی

باقی اولیا کے پاس کوئی بچوں کو گھٹا نہیں ہوتا بلکہ ان سے مدد مانگنے کا مطلب شاہ صاحب نے اسی مکالمے میں یوں بیان کیا ہے کہ اولیا سے مدد مانگنے کا مطلب یہ ہے کہ وہ اللہ سے دعا کریں۔(فتاوی عزیزی)
یعنی یہاں آپ کا یہ نظریہ ہے کہ اگر کسی کو بیٹا چاہئے ہو تو وہ اگر یہ کہے کہ اے علی ہجویری مجھے بیٹا دے دو تو یہ شرک ہو گا کیونکہ انکے پاس کوئی گھٹا نہیں ہوتا بلکہ یہ کہنا چاہئے کہ اے علی ہجویری اللہ سے میرے لئے دعا کریں کہ وہ مجھے بیٹا دے دے آگے اللہ انکی دعا قبول کرے یا نہ کرے وہ بعد کی بات ہے اس سلسلے میں عرض یہ ہے کہ اس پر بات بعد میں ہو گی پہلے اوپر والی بات کا فیصلہ کر دیں کہ
1- ہمیں کیسے پتا چلتا ہے کہ کون کسی کو الہ سمجھ کر مانگ رہا ہے اور کون الہ سمجھ کر نہیں مانگ رہا
2-اسکے بعد یہ بھی فیصلہ ہونا ہے کہ اب چونکہ دعا ایک عبادت ہے اور اس میں آپ یہ قید لگا رہے ہیں کہ جب کسی کو الہ سمجھ کر یہ کام کیا جائے تو عبادت ہو گی ورنہ عبادت نہیں ہو گی تو کیا یہ قید باقی عبادتوں میں بھی لگائی جا سکتی ہے جیسا کہ پہلے میں نے پوچھا تھا کہ کیا غیراللہ کا حج اگر اسکو الہ نہ سمجھ کر کیا جائے یا نماز اسکو الہ نہ سمجھ کر پڑھی جائے تو جائز ہو گی (یاد رکھیں یہ فرضی باتیں نہیں ہیں حقیقت میں غیراللہ کا حج و نماز و روزہ بھی رکھا جاتا ہے آپ بے شک نہ رکھتے ہوں مگر جو رکھتے ہیں انکا حکم جاننا چاہتا ہوں شکریہ)
 
شمولیت
جون 20، 2014
پیغامات
675
ری ایکشن اسکور
55
پوائنٹ
93
1۔جناب اس چیز کا تعلق عقیدے سے ہے اور میرے خیال سے سائنس نے آج تک کوئی ایسا آلہ نہیں بنایا جس یہ معلوم کیا جا سکے کہ وہ کس عقیدے سے مانگ رہا ہے۔باقی یہ بات ذہن میں رکھیں کہ بالفرض اگر کوئی ڈائریکٹ بھی مانگے تو اس پر شرک کا فتوی نہیں لگتا کیوں وہاں الوہیت کا اعتقاد نہیں۔اور نہ ہی ان کی طاقت کو ذاتی سمجھا جاتا ہے۔
اس سلسلہ میں ایک سوال ہے کہ ما نگنے کے حوالہ سے
1۔کچھ لوگوں کا یہ اعتقاد ہوتا ہے کہ اے اللہ کے ولی ہمیں عطا کر۔
2۔کچھ لوگ یہ کہتے ہیں کہ اے اللہ کہ ولی اللہ سے ہمارے لئے دعا کرو
3۔اور کچھ لوگ یہ کہتے ہیں کہ اے اللہ یہ نیک بندہ ہے اس کے وسیلہ سے میری دعا قبول کرو۔
اب مجھے یہ بتائیے کہ ان میں شرک کیا چیز ہے؟
2۔جناب قرآن میں دعا 5 معنوں میں استعمال ہوا ہے اور ہماری بحث کا تعلق 2 معنوں سے ہے ایک دعا بمعنی عبادت جو غیر اللہ کے لئے جائز نہیں اور ایک بمعنی نداء و پکار جو غیر اللہ کے لئے جائز ہے۔
اب میرا سوال یہ ہے کہ اللہ نے ارشاد فرمایا کہ اے ایمان والوں اللہ کے نبی کو ایسے مت پکارو جیسے ایک دوسرے کو پکا رتے ہو ۔اس آیت میں بھی لفظ دعا استعمال ہوا ہے اگر دعا کا معنی صراف عبادت ہے تو اس کا ترجمہ ہو گا کہ نبی کی عبادت ایسے مت کرو جیسے ایک دوسرے کی کرتے ہو تو کیا یہ جائز ہے؟
اور نماز صرف اللہ کے لئے خاص ہے جب کہ دعا بمعنی ندا ء و پکار غیر اللہ کے جائز ہے جو خود قرآن سے ثابت ہے لہذا ان کو ایک دوسرے پر قیاس نہیں کیا جا سکتا
 
شمولیت
جون 20، 2014
پیغامات
675
ری ایکشن اسکور
55
پوائنٹ
93
کیا اللہ کے سوا کوئی اور مشکل حل کرنے پر قادر ہے؟
ایک سُوال کی دس شکلیں
اکثر مذہبی حلقوں میں یہ سوال کہ آیا اللہ کے سوا (غیر اللہ) مشکل حل کرسکتا ہے؟ یا صرف اللہ ہی اس پر قادر ہے، بڑے زور شور سے اُچھالا جاتا ہے مگر فریقین میں سے کوئی بھی قائل نہیں ہوتا۔ ایک ذی شعور انسان کے ذہن میں یہ سوال اُبھرتا ہے تو وہ اس سوال کو مختلف پہلووں سے جانچتا اور پرکھتا ہے کہ کس طرح اللہ کے سوا اور کوئی ہستی مشکل کشائی کرسکتی ہے۔ اس سوال کی دس مختلف صورتیں ہیں۔
زید کو کسی مشکل کا سامنا ہے وہ چاہتا ہے کہ میری مشکل دور ہو، وہ اللہ کے سوا کسی دوسری ہستی کو پکارنا چاہتا ہے جو اس کی مشکل دُور کردے اب ۔۔۔
۱۔ اگر اللہ کے سوا کوئی اور ہتسی مشکل حل کرسکتے ہے تو بتایئے کہ سائل اور مشکل کُشا کے درمیان ہزاروں میلوں کی دُوری پر وہ زندگی میں یا زندگی کے بعد قبر میں آواز سُن سکتا ہے؟
۲۔ بالفرض یہ ثابت ہو جائے کہ وہ اتنے فاصلوں پر آواز سُن سکتا ہے تو پھر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آیا وہ دنیا کی ہر زبان سے واقف ہے یا نہیں مثلاً سرائیکی والا سرائیکی میں مشکل پیش کرے گا۔ اسی طرح جرمن ، جرمنی زبان میں، انگریز ایگریزی میں اور پٹھان پشتو میں آواز دے گا!
۳۔ اگر یہ بات بہی ثابت کردی جائےک ہ وہ ہر ہستی ہر زبان سے واقف ہے تو پھر سوال پیدا ہو گا کہ اگر ایک لمحہ میں سینکڑوں یا ہزاروں لوگ اپنی مشکل اس کے سامنے پیش کریں تو کیا وہ ان سب کی مشکلات اسی لمحہ سُن اور سمجھ لے گا یا اس کے لیے قطار بنانے کی ضرورت پیش آئے گی!
۴۔ کیا اس ہستی کو کبھی نیند بھی آتی ہے یا وہ ہمیشہ جاگتا رہتا ہے؟ اگر کبھی نیند آتی ہے تو ہمارے پاس ایک لسٹ ہونی چاہیے کہ کب اس کو نیند آتی ہے اور کب وہ جاگ رہا ہوتا ہے تاکہ ہم اپنی مشکل صرف اسی وقت پیش کریں جبکہ وہ سو نہ رہا ہو، یا وہ نیند میں بھی سنتا ہے؟
۵۔ ایک شخص بولنے سے قاصر ہے، وہ ایسی مشکل میں مبتلا ہے کہ اس کا گلا بند ہو چکا ہے، اگر وہ دل ہی دل میں اپنی مشکل پیش کرے تو کیا وہ اس کی دلی فریاد بھی سُن لے گا؟
۶۔ انسان کو پیدائش سے لے کر موت تک چھوٹی بڑی تمام مشکلات کا سامنا ہوتا ہے، اگر وہ تمام مشکلات حل کرکستا ہے تو پھر غیر کی طرف رجوع کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ اور اگر غیر ان تمام مشکلا کو حل کرنے پر قادر ہے تو پھر اللہ کی کیا حاجت؟
۷۔ اگر غیر اللہ ’’مشکل کُشا ‘‘ تمام مشکلات حل کرنے پر قادر نہیں، تو ہوسکتا ہے کہ کچھ مشکلات حلق کرنے کا بیڑا اللہ نے اُٹھایا ہو اور کچھ مشکلات حل کرنے کے اختیارات کسی غیر کو دے رکھے ہوں۔ ایسی صورت میں تو ہمارے پاس یہ فہرست ہونی چاہیے کہ کون کون سی مشکلات اللہ تعالیٰ حل کرنے پر قادر ہے اور کون کون سی مشکلات غیرصل کرسکتا ہے تاکہ مسائل اپنی مشکلا اسی کے سامنے پیش کرسکے جو اس کے حل کرنے پر قادر ہو!
۸۔ کیا اللہ کے سوا جو ہستی مشکل نکال سکتی ہے وہ مشکل ڈال بھی سکتی ہے یا اس کی ڈیوٹی صرف حل کرنے پر ہے؟ اگر وہ مشکل حل کرسکتی ہے تو پھر ڈالنے والا کون ہے؟
۹۔ بالآخر نتیجہ یہ نکلے گا کہ اللہ تعالیٰ مشکلات ڈالنے والا ہے اور غیر اللہ مشکل حل کرنے والا۔ بالفرض ایک ہستی مشکل ڈالنے پر مُصر ہو اور دوسری مشکل حل کرنے پر تو دونوں میں سے کونسی ہستی اپنا فیصلہ واپس لے لے گی؟
۱۰۔ کسی بھی برگزیدہ یا گناہ گار ہستی کا جنازہ پڑھنا ہو تو اس کی بخشش کے لیے اللہ کو آواز دی جائے یا’’مشکل کشا‘‘ کو؟
مفتی ابراہیم صاحب نے ان کا جواب ایک کتابچے دس گمراہ کن سوالوں کے جواب میں دیا ہے اس کا لنک ملتا ہے تو ہم اس کو یہاں پیسٹ کر دیں گئے
 
Top