• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

انصار اہلِ صُفہّ میں سے نہیں تھے

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207
انصار اہلِ صُفہّ میں سے نہیں تھے

جہاں تک انصار کا تعلق ہے تو وہ اصحاب صُفہّ میں سے نہیں تھے اور نہ بڑے بڑے مہاجرین مثلاً ابوبکر، عمر، عثمان، علی، طلحہ، زبیر، عبدالرحمن بن عوف، ابوعبیدہ وغیرہم علیہم الرضوان صُفہّ پر کبھی فروکش ہوئے۔ ایک روایت ہے کہ مغیرہ بن شعبہ کا ایک غلام صُفہّ میں اترا تھا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ یہ لڑکا سات اکابر اقطاب میں سے ہے مگر اس حدیث کے جھوٹے ہونے پر اہل علم کا اتفاق ہے گو ابونعیم نے اسے حلیۃ الاولیاء میں روایت کیاہے۔ اسی طرح جتنی احادیث بھی اولیاء ، ابدال، نقباء، نجباء، اوتاد اور اقطاب کی تعداد کے متعلق نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی گئی ہیں اور جن میں ان کی تعداد چار، یا سات، یا بارہ، یا چالیس، یا ستر، یا تین سو یا تین سو تیرہ بتائی گئی ہے یا یہ بتایا گیا ہے کہ قطب ایک ہے یا یہ کہ غوث ایک ہے، ان میں کوئی بھی ایسی بات نہیں جس کا نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے صادر ہونا ثابت ہو۔ اور ان الفاظ میں سے کوئی بھی بجز لفظ ابدال کے سلف صالحین کی زبان پر نہیں آیا، ان کے متعلق یہ بھی مروی ہے کہ وہ چالیس آدمی ہیں اور وہ شام میں ہیں۔ یہ مسند میں سیدناعلی رضی اللہ عنہ کی روایت سے ہے اور یہ منقطع ہے، اس کا صحیح ہونا ثابت نہیں ہوا حالانکہ یہ مسلّم ہے کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ اور ان کے رفقاء جو کہ صحابہ میں سے تھے۔ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھیوں سے افضل تھے۔ یہ تو ہونہیں سکتا کہ تمام لوگوں میں جو آدمی افضل ہوں وہ سیدناعلی رضی اللہ عنہ کے کیمپ میں نہ ہوں اور سیدنامعاویہ رضی اللہ عنہ کے کیمپ میں ہوں۔ صحیحین میں ابوسعید رضی اللہ عنہ کی روایت سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حدیث منقول ہے کہ جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
تَمْرُقُ مَارِقَۃٌ مِّنَ الدِّیْنِ عَلٰی حِیْنِ فُرْقَۃٍ مِّنَ الْمُسْلِمِیْنَ یَقْتُلُھُمْ اَوْلَی الطَّائِفَتَیْنِ بِالْحَقِّ
’’جب مسلمانوں میں اختلاف پیدا ہوگا تو ایک گروہ دین سے اس طرح خارج ہو جائے گا جس طرح تیرکمان سے نکل جاتا ہے، ان دین سے نکلنے والوں کو وہ جماعت قتل کرے گی جو حق سے قریب تر ہوگی۔‘‘
(مسلم کتاب الزکوٰۃ باب ذکر الخوارج و صفاتھم رقم: ۲۴۵۸ ، مسند احمد ج ۳، ص ۷۳، ۴۸ ابوداؤد کتاب السنۃ باب مایدل علی ترک الکلام فی الفتنۃ رقم: ۴۶۶۷، بخاری میں ان لفظوں سے منقول نہیں ہے، دیکھیں حدیث نمبر ۳۳۴۴)
یہ مارقین فرقہ حروریہ کے خوارج تھے۔ جب سیدناعلی رضی اللہ عنہ کی خلافت کے بارے میں مسلمانوں کے مابین اختلاف پیدا ہوا تو یہ دین سے نکل گئے۔ سیدناعلی رضی اللہ عنہ بن ابی طالب ، اور ان کے رُفقاء نے انہیں قتل کر دیا، یہ حدیث اس امر پر دلالت کرتی ہے کہ سیدناعلی رضی اللہ عنہ ، معاویہ رضی اللہ عنہ اور ان کے حامیوں کی بہ نسبت حق سے زیادہ قریب تھے تو پھر یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ ابدال، اعلیٰ کیمپ کو چھوڑ کر ادنیٰ کیمپ میں ملک شام میں شامل ہوجائیں۔ اسی طرح وہ حدیث ہے، جسے بعض نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا ہے یعنی یہ کہ کسی شخص نے یہ شعر پڑھے:
لَقَدْ لَسَعَتْ حَیَّۃُ الْھَوٰی کَبِدِیْ
فَلاَ طَبِیْبَ لَھَا وَلاَ رَاقٍ
اِلاَّ الْحَبِیْبُ الَّذِیْ شَغَفْتُ بِہ
فَعِنْدَہ رُقْیَتِیْ وَ تَرْیَاقِیْ​
’’عشق کے سانپ نے میرے جگر کو ڈس لیا ہے۔ اس کا کوئی طبیب معالج ہے اور نہ کوئی دم کرنے والا۔ ہاں اگر اس کا علاج کرنے والا کوئی ہے تو وہ محبوب ہے، جس پر میں شیدا ہوں۔ اسی کے پاس مجھے کیا جانے والا دم ہے اور اسی کے پاس میرے زہر کا تریاق ہے۔ ‘‘
یہ اشعار سن کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر وجد طاری ہوگیا حتیٰ کہ چادر جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دوش مبارک سے گر پڑی۔
علم حدیث کے جاننے والوں نے بالاتفاق اس حدیث کو جھوٹا کہا ہے اور اس سے بھی زیادہ جھوٹی روایت یہ ہے کہ جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا کپڑا پھاڑ کر ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالا اور ان میں سے ایک ٹکڑا جبریل علیہ السلام نے اٹھا کر عرش پر لٹکا دیا۔ یہ اور اس طرح کی روایات ایسی ہیں جو حدیث کا علم اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی معرفت رکھنے والوں کے نزدیک واضح ترین جھوٹ ہیں
میزان الاعتدال ترجمہ عمار بن اسحاق نیز ازالۃ االخفاء ۲؍۱۴۱۔اسے السہروردی نے عوارف المعارف میں اپنی سند کے ساتھ روایت کرنے کے بعد لکھا ہے:
’’ہم نے یہ حدیث جیسے سنی وارد کر دی اور سند کے ساتھ بیان کر دی، محدثین اس کی صحت میں کلام کرتے ہیں۔
جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول ہم نے کوئی روایت اس سے بڑھ کر نہیں دیکھی جو ہمارے زمانے کے لوگوں کے سماع، اجتماع اور ’’حال‘‘ سے مشابہت رکھتی ہو۔اور یہ صوفیاء اور ہمارے زمانے کے سماع کے قائلین کے لیے کس قدر خوبصورت دلیل ہے، سماع اور اپنے خرقے پھاڑنے اور پھر انہیں (بطور تبرک) تقسیم کرنے کے حق میں اگر یہ درجۂ صحت کو پہنچ جائے۔ واللہ اعلم۔اور میرے ضمیر میں یہی بات کھٹکتی ہے کہ یہ صحیح نہیں ہے اور اس میں مجھے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اپنے صحابہ کے ساتھ اجتماع کا ذوق محسوس نہیں ہوا اور وہ ایسا نہیں کیا کرتے تھے جیسا اس حدیث میں ہمیں ملتا ہے اور دل اسے قبول کرنے سے اباکرتا ہے۔ واللہ اعلم (عوارف المعارف ۲؍۲۹۵، برحاشیہ احیاء علوم الدین ) (ازھر عفی عنہ)
اسی طرح ایک اور روایت سیدناعمر رضی اللہ عنہ سے کی گئی ہے کہ انہوں نے فرمایا
’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور سیدناابوبکر رضی اللہ عنہ باہم باتیں کرتے تھے اور میں ان دونوں میں زنگی کی طرح ہوتا تھا۔‘‘
یہ جھوٹ اور بناوٹی حدیث ہے علماء حدیث اس کے جھوٹا ہونے پر متفق ہیں۔
مقصود اس کلام سے یہ ہے کہ جو شخص رسالت عامہ کا ظاہر میں اقرار کرے اور باطن میں اس کے برعکس کا اعتقاد رکھتا ہو تو وہ اس اعتقاد کی بنا پر منافق ہوگا جب کہ وہ خود اپنے اور اپنے جیسوں کے بارے میں اولیاء اللہ ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں حالانکہ وہ اپنے باطن میں جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لائے ہوئے دین و شریعت سے جہالت یا عناد کی بنا پر کفر چھپائے ہوتے ہیں۔

حوالہ
 
Top