• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اہل تصوف کی کارستانیاں

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
3- اسلامی عقیدہ کی بربادی

صوفیانہ افکار سب سے پہلے جس چیز کو تباہ کرتے ہیں اور بدلتے ہیں ، وہ ہے صاف ستھرا اسلامی عقیدہ، عقیدہ کتاب و سنت، کیوں کہ صوفیانہ افکار دنیا بھر میں پھیلے ہوئے ہر قسم کے جدید و قدیم فلسفوں، خرافات اور لاف و گزاف کا پورا پورا معجون مرکب ہے۔
دنیا کا کوئی بھی کفر ، زندقہ اور الحاد ایسا نہیں جو صوفیانہ افکار میں داخل ہوکر صوفی عقیدے کا ایک جزو نہ بن گیا ہو۔
چنانچہ ایک طرف وحدۃ الوجود کا قول ہے کہ جو کچھ موجود ہے وہ اللہ ہی ہے۔
تو دوسری طرف مخلوق میں اللہ کی ذات یا صفات کے حلول کا قول ہے۔
کہیں معصوم ہونے کا دعویٰ ہے تو کہیں غیب سے تلقی اور حصول کی ترنگ ہے۔
کہیں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو سارے عالم کا قبہ اور عرش پر مستوی قرار دیا جارہا ہے،
تو کہیں کہا جاتا ہے کہ اولیاء کرام دنیا کا نظام چلاتے اور کائنات پر حکومت کرتے ہیں۔
غرض کہا جاسکتا ہے کہ روئے زمین پر کوئی بھی شرکیہ عقیدہ ایسا نہیں پایا جاتا جسے صوفیانہ افکار کی طرف منتقل نہ کرلیا گیا ہو،
اور اس کو آیات واحادیث کا لباس نہ پہنا دیا گیا ہو۔
بلکہ کوئی بھی صوفی جو یہ جانتا ہو کہ تصوف کیا ہے میں اسے چیلنج کرتا ہوں کہ وہ اپنے عقیدے کے مطابق یہ ثابت کردے کہ ابلیس کافر اور جہنمی ہے۔ اور فرعون کافر اور جہنمی تھا۔۔ اور بنو اسرائیل کے جن لوگوں نے بچھڑے کی پوجا کی تھی انہوں نے غلطی کی تھی۔ اور آج کل جو گائے کی پوجا کرتے ہیں وہ کافر ہیں۔۔۔۔۔کوئی بھی صوفی جو جانتا ہو کہ تصوف کی حقیقت کیا ہے میں اسے چیلنج کرتا ہوں کہ وہ اپنی ان باتوں کو ثابت کر دے۔
کہنے والا کہہ سکتا ہے کہ یہ باتیں ثابت کیوں نہیں کی جاسکتیں جب کہ یہ قرآن اور حدیث سے ثابت ہیں۔ اور ہر مومن ان کی گواہی دیتا ہے۔ اور جو اس میں شک کرے وہ خود ہی کافر ہے۔
جواب یہ ہے کہ اگر صوفی ان باتوں کو ثابت کردے تو وہ عقیدہ تصوف ہی کو مطعون کردےگا۔ اور اپنے اکابر اور بزرگوں کو مشکوک ٹھہرادے گا۔ بلکہ اپنے بڑے بڑے رہنماؤں اور اساطین کو کافر قرار دے دے گا۔ اور نتیجہ کے طور پر وہ خود تصوف کے دائرہ سے باہر ہوجائے گا۔ کیوں کہ صوفیوں کے شیخ اکبر بددین ابن عربی کا دعویٰ ہے کہ فرعون موسیٰ علیہ السلام سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ کو جانتا تھا۔ اور جن لوگوں نے بچھڑے کی پوجا کی تھی انہوں نے اللہ ہی کو پوجا تھا۔ کیوں کہ بچھڑا بھی ۔ اس کے خبیث عقیدے کی رو سے اللہ تعالیٰ ہی کا ایک روپ تھا۔ (تعالیٰ اللہ عن ذٰلک علوًا کبیرا) بلکہ اس شخص کے نزدیک بتوں کے پجاری بھی اللہ تعالیٰ ہی کی پوجا کرتے ہیں۔ کیوں کہ اس شخص کے نزدیک یہ سارے جدا جدا روپ بھی اللہ ہی کے روپ ہیں۔ وہ ہی سورج اور چاند ہے۔ وہی جن و انس ہے۔ وہی فرشتہ اور شیطان ہے۔ بلکہ وہی جنت اور جہنم ہے۔ وہی حیوان اور پیڑ پودا ہے اور وہی مٹی اور اینٹ پتھر ہے۔ لہٰذا زمین پر جو کچھ بھی پوجاجائے وہ اللہ کے سوا کچھ نہیں۔ ابلیس بھی ابن عربی کے نزدیک اللہ تعالیٰ ہی کا ایک جزو ہے۔ (تعالیٰ اللہ عن ذلک علوًا کبیرا)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
دلچسپ بات یہ ہے کہ اس ملعون عقیدہ کو ( جس سے بڑھ کر گندہ ، بیہودہ، بدبودار اور بدکردار عقیدہ نہ روئے زمین نے کبھی دیکھا ہوگا) صوفیاء حضرات سرّالاسرار (رازوں کا راز) غایتوں کی غایت،
ارادتوں کا منتہا،
پہنچے ہوئے کاملین کا مقام
اور عارفین کی امیدوں کی آخری منزل قرار دیتے ہیں۔
حالانکہ یہ بددینوں ،
زندیقوں،
برہمنوں،
ہندوؤں
اور یونان کے پرانے فلسفیوں کا عقیدہ ہے۔
اور اس کے بعد تصوف میں جو برائی بھی داخل ہوئی وہ یقیناً اسی ملعون عقیدے کی تاریکی میں چھپ کر داخل ہوئی ۔
اور یہ ایسی حقیقت ہے کہ آج روئے زمین پر تصوف کی حقیقت کو جاننے والا کوئی بھی صوفی اس کا انکار نہیں کرسکتا۔
اور نہ اسے برا کہہ سکتا ہے۔ بلکہ وہ زیادہ سے زیادہ یہ کہہ سکتا ہے کہ ان لوگوں کا علم صرف اربابِ ذوق اور اہل معرفت ہی سمجھ سکتے ہیں۔
حالانکہ یہ بات واضح عربی زبان میں صاف صاف لکھی ہوئی ہے۔ ان حضرات نے اسے ضخیم ضخیم جلدوں میں لکھا ہے۔
اور نثر اور شعرا اور قصیدوں اور امثال سے اس کی شرح کی ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
البتہ بعض اہل تصوف اس سلسلے میں یہ معذرت کرتے ہیں کہ یہ بات وجد کے غلبے اور شطحیات کے طور پر کہی گئی ہے۔مگر معلوم ہے کہ شطح درحقیقت مدہوشی،
پاگل پن
اور جنون کو کہتے ہیں۔
اور اہل تصوف کا دعویٰ ہے کہ ان کے یہ احوال کامل ترین احوال ہیں۔
اس لیے سوال یہ ہے کہ جنون اور پاگل پن کمال کیونکر ہوسکتا ہے۔
پھر جو بات دسیوں جلدوں میں لکھی اور مدون کی گئی ہے،
اور جسے اہل تصوف کی غایۃ الغایات اور امیدوں کی آخری منزل قرار دے کر لوگوں کو اس دعوت دی جارہی ہے وہ بات شطحیات (پاگل پن کی بات) کیسے ہوسکتی ہے؟
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
کبھی کبھی یہ بھی کہا جاتا ہے کہ یہ باتیں گھڑ کر ان کی طرف منسوب کردی گئی ہیں۔۔۔۔
مگر یہ بھی حقیقت صوفیوں کے جھوٹ اور فریب کاری کا ایک حصہ ہے۔
میں ہر صوفی کو چیلنج کرتا ہوں کہ وہ کسی معین عبارت کو ذکر کرکے بتائے کہ یہ غلط طور ان کی طرف منسوب کی گئی ہے۔
یا کسی خاص اور معین عقیدے کو ذکر کرکے بتائے کہ فلاں لکھنے والے کی طرف اسے غلط منسوب کیا گیا ہے۔
بھلا ایسا کیسے ہوسکتا ہے، جب کہ اس سلسلہ میں پوری پوری کتاب لکھ ماری گئی ہیں۔ آراستہ وپیراستہ عقیدے تصنیف کرڈالے گئے ہیں۔ اور موزوں و خوش آہنگ قصیدے کہہ ڈالے گئے ہیں ۔ میں کسی بھی صوفی کو چیلنج کرتا ہوں کہ وہ بتائے کہ یہ قصیدہ غلط طور پر منسوب ہے۔
یا فلاں معین قول غلط طور پر منسوب ہے۔ کیوں کہ اگر وہ ایسا کہے گا تو پھر سارا کا سارا تصوف جھوٹا اور غلط انتساب کا مجموعہ بن جائےگا۔
اور یہ بات برحق بھی ہے۔
کیوں کہ تصوف کے یہ بڑے بڑے جفادری یعنی حلاج،
بسطامی،
جیلی،
ابن سبعین،
ابن عربی،
نابلسی ،
تیجانی وغیرہ وغیرہ
یہ سب کے سب درحقیقت اس امت میں غلط طور گھسائے گئے اور اس امت کی طرف غلط طور پر منسوب کئے گئے ہیں ۔
انہوں نے اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر جھوٹ گھڑا ہے۔ اللہ کے دین میں باطل بات کہی ہے۔
ان میں سے ہر ایک کا زعم ہے کہ وہ خود اللہ ہے جو کائنات میں تصرف کرتا ہے ۔ اور ہر ایک کا دعویٰ ہے کہ اللہ نے اس کائنات کا ایک حصہ اس کو سونپا ہے۔ ان میں سے ہر کوئی سمجھتا ہے کہ وہ ولی کامل ہے جس کے پاس صبح و شام وحی آتی ہے۔ بلکہ وہ غیب سے واقف ہے اور لوح محفوظ کو پڑھتا ہے۔ اللہ نے اس کو خاتم الانبیاء بنایا ہے۔ اور اسے دنیا کا قبلہ اور ساری مخلوق کے لئے معجزہ اور مینار قرار دیا ہے۔ نبی کے بعد براہ راست اسی کا درجہ و مقام ہے۔ نبی ان کے نزدیک عرش رحمانی پر مستولی و مستوی ہے۔ یعنی عرش پر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات کے سوا کچھ نہیں ۔ محمد صلی اللہ علیہ وسلم ان کے نزدیک تمام ذات میں سب سے پہلا وجود ہیں۔ اور تمام تعینات میں سب سے پہلا تعین ہیں۔ وہی اللہ کے عرش پر مستوی ہیں۔ وہ سارے انبیاء کی طرف وحی بھیجتے ہیں۔ اور سارے اولیاء کو الہام کرتے ہیں۔ بلکہ انہوں نے خود اپنی طرف سے اپنے پاس وحی بھیجی ۔ یعنی انہوں نے وحی کو آسمان پر جبریل کے حوالے کیا ۔ اور زمین پر ان سے وصول کیا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
مسلمانو! کبھی آپ لوگوں نے کوئی ایسا عقیدہ سنا ہے جو اس درجہ بے حیائی ، خست ، گراوٹ، کفر اور بے دینی لئے ہوئے ہو؟۔۔۔۔۔۔۔
یہ ہے صوفیوں کا عقیدہ،
اور یہ ہے ان کی میراث،
اور یہ ہے ان کا دین۔۔۔۔۔
بحمداللہ ہم نے یہ ساری باتیں تفصیل کے ساتھ اپنی کتاب "الفکرالصوفی فی ضوء الکتاب والسنۃ" کے دوسرے ایڈیشن میں بیان کردی ہیں۔ اور ہر بات کے ثبوت میں ان زندیقوں کی کتابوں سے لمبی لمبی عبارتیں نقل کردی ہیں۔

یہ زندیق آج بھی دنیا کے سامنے یوں ظاہر ہوتے ہیں گویا وہ اللہ کے ولی اور محبوب ہیں،
دلوں کی کنجیوں کے مالک ہیں۔
اور ان کے پاس مسلمانوں کو تاریکیوں سے نکال کر روشنی میں لانے کے لئے تربیت کا بہترین اور افضل ترین طریقہ ہے۔
حالانکہ یہ ہے ان کا عقیدہ اور یہ ہے ان کا طریقہ، جو مسلمانوں کا دین بگاڑنے اور لوگوں کو رب العالمین کے پیغام سے ہٹانے اور بہکانے کا کام کرتا ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
4۔فسق اور فجور اور اباحیّت کی دعوت

جولوگ یہ سمجھتے ہیں کہ تصوف کی بنیاد پہلے پہل تقویٰ پر تھی وہ غلطی پر ہیں۔ ان کے متعلق ابن جوزی رحمہ اللہ کی زبانی حسب ذیل حکایت سنیے ۔
وہ ابوالقاسم بن علی بن محسن تنوخی عن ابیہ کی سند سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے بیان کیا کہ :
مجھے اہل علم کی ایک جماعت نے بتایا کہ شیراز میں ایک شخص تھا جو ابن خفیف بغدادی کے نام سے معروف تھا۔ اور وہاں صوفیوں کا شیخ (پیر) تھا۔ صوفیاء اس کے پاس جمع ہوتے۔ اور وہ دل میں گزرنے والے خیالات اور وسوسوں کے متعلق باتیں کیا کرتا۔ اس کے حلقہ میں ہزاروں آدمی جمع ہوتے۔ وہ بڑا خوشحال ، چالاک اور ماہر تھا۔ اس نے کمزور لوگوں کو اس مذہب میں پھنسا رکھا تھا۔ وہ بیان کرتے ہیں کہ اس کے شاگردوں میں سے ایک آدمی مرگیا، اور اپنی صوفی بیوی کو چھوڑ گیا۔ اس کے پاس بڑی تعداد میں صوفی عورتیں جمع ہوئیں۔ اس ماتم میں ان کے سوا کوئی اور عورت شامل نہ تھی۔ جب لوگ اس آدمی کو دفن کے کرکے فارغ ہوئے تو ابن خفیف اور اس کے خواص شاگرد جو خاصی بڑی تعداد میں اس کے گھر آئے ۔ اور عورت کو صوفیوں کی باتوں کے ذریعہ تسلی دینے لگے۔ یہاں تک کہ اس نے کہا کہ مجھے تسلی ہوگئی۔ تب ابن خفیف نے اس عورت سے کہا : یہاں غیر بھی ہیں؟ اس نے کہا نہیں غیر نہیں ہیں ۔ اس نے کہا :پھر نفس پر غم و الم کی آفتوں کو لازم کرنے اور اسے رنج و غم کے عذاب میں مبتلا رکھنے سے کیا فائدہ؟ آخر ہم کس بناء پر امتزاج (آپس میں خلط ملط ہونے) کو چھوڑ دیں ، کیوں کہ اس سے انوار ایک دوسرے سے ملیں گے ، روحیں صاف ہوں گی، آمد ورفت ہوگی اور برکتیں نازل ہوں گی۔ اس کے جواب میں عورتوں نے کہا: اگر آپ چاہیں۔ نتیجہ یہ ہوا کہ مردوں اور عورتوں کی جماعتیں ایک دوسرے سے رات بھر بھڑی اور خلط ملط رہیں اور جب صبح ہوئی تو نکل بھاگیں۔
اس واقعہ کے راوی محسن کہتے ہیں:
ابن خفیف نے جو یہ کہا کہ کیا یہاں غیر ہیں؟ تو اس کا مطلب یہ تھا کیا یہاں کوئی ایسا بھی ہے جو ہمارے مذہب کے موافق نہیں۔
اور عورت کے جواب کا مطلب یہ تھا کہ ہمارا کوئی مخالف موجود نہیں۔
ابن خفیف نے جو یہ کہا تھا کہ ہم امتزاج کو کیوں چھوڑدیں، تو اس کا مطلب یہ تھا کہ وطی میں اختلاط ہونا چاہیے۔ (یعنی ایک ایک مرد کئی کئی عورتوں سے، اور ایک ایک عورت کئی کئی مردوں سے وطی کریں اور کرائیں۔)
اور جو یہ کہا کہ اس سے انوار ایک دوسرے سے ملیں گے تو ان کا عقیدہ یہ ہے کہ ہر جسم میں ایک خدائی نور ہے (پس بدکاری کے نتیجہ میں مرد اور عورت کے اندر موجود خدائی نور ایک دوسرے سے مل جائے گا۔ العیاذ باللہ)
اور یہ جو کہا کہ آمد ورفت ہوگی، تو اس کا مطلب یہ ہے کہ تم میں سے جس کا شوہر مرگیا، یا سفر میں چلا گیا، اس کی جگہ دوسرا شخص آجائے گا۔
محسن کہتے ہیں کہ یہ میرے نزدیک ایک عظیم واقعہ ہے۔ اگر مجھے اس کی اطلاع ایک ایسی جماعت نے نہ دی ہوتی جو جھوٹ سے دور و نفور ہے تو میرے نزدیک اتنا عظیم واقعہ ہے، اور دارالاسلام میں ایسی بات کا پیش آنا اس قدر مستعبد ہے کہ میں اسے بیان ہی نہ کرتا۔
وہ کہتے ہیں کہ :
مجھے یہ بھی معلوم ہوا کہ یہ اور اس جیسی باتیں پھیل کر عضدالدولہ تک جاپہنچیں، اور جب اس نے ان کے ایک گروہ کو گرفتار کرکے کوڑوں سے پٹائی کی، اور ان کے مجمع کو پراگندہ کیا، تب وہ اس سے باز آئے۔ (تلبیس ابلیس ص 374)
غرض تمہیں یقین کرنا چاہئے کہ یہ گروہ اپنے ہر دور میں محض بددینوں ، جھوٹے مدعیوں اور زندیقوں کا مجموعہ رہا ہے۔
جو بظاہر تو شریعت کے پاک و صاف ظاہر کی پابندی کرتا تھا۔
مگر نگاہوں سے پس پردہ کفر و فسق اور زندقہ چھپائے رکھتا تھا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
اسی لئے ابن عقیل حتمی طور پر کہتے تھے ۔ جیسا کہ ابن جوزی نے ان سے نقل کیا ہے کہ یہ لوگ زندیق ، ملحد اور دین کے جھوٹے دعویدار ہیں۔
چنانچہ وہ کہتے ہیں:
" ان فارغ اور اثبات سے خالی لوگوں کی طرف کان لگانے سے خدا کے لئے بچو۔ یہ نرے بددین لوگ ہیں جو ایک طرف مزدوروں کا لباس یعنی گدڑی اور اون پہنتے ہیں اور دوسری طرف بدکردار بدینوں والے اعمال کرتے ہیں ، یعنی کھاتے اور پیتے ہیں، ناچتے اور تھرکتے ہیں ، عورتوں اور لونڈوں سے گانے سنتے ہیں۔ اور شریعت کے احکام چھوڑتے ہیں۔ زندیقوں کو بھی جراءت نہیں ہوتی تھی کہ شریعت کے احکام چھوڑ دیں۔ یہاں تک کہ اہل تصوف کا ظہور ہوا تو وہ بدکاروں کی روش ساتھ لائے"۔
یاد رہے کہ ابن عقیل رحمہ اللہ نے یہ بلیغ عبارت اپنے زمانہ کے صوفیوں کے احوال درج کرنے کے بعد لکھی ہے۔
چنانچہ وہ لکھتے ہیں:
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
ابن عقیل صوفیوں کی سیاہ کاریاں بیان کرتے ہیں
" میں کئی وجہوں سے صوفیوں کی مذمت کرتا ہوں جن کے فعل کی مذمت کو شریعت نے ضروری قرار دیا ہے۔ ایک وجہ یہ ہے کہ :
"انہوں نے بیکاری کے اڈے یا احدی خانے قائم کررکھے ہیں۔ اس سے مراد ان کی خانقاہیں ہیں۔
جہاں وہ مساجد کی جماعتوں سے کٹ کر پڑے رہتے ہیں۔
یہ خانقاہیں نہ تو مسجد میں نہ مکانات نہ دکانیں۔ وہ ان خانقاہوں میں اعمال معاش سے کٹ کر محض بے کار پڑے رہتے ہیں ۔
اور کھانے پینے اور ناچنے گانے کے لیے جانوروں کی طرح اپنے بدن کو موٹا کرتے ہیں۔
اپنی چمک دمک دکھانے اور نگاہوں کو خیرہ کرنے کے لئے گدڑی اور پیوند پر اعتماد کرتے ہیں۔
اور عوام اور عورتوں پر اثر انداز ہونے والے مختلف رنگ کے شعبدے دکھلاتے ہیں۔
جیسے ریشم کے مختلف رنگ کے شعبدے دکھلاتے ہیں۔
جیسے ریشم کے مختلف رنگوں سے سقلاطون کی چمک دکھلائی جاتی ہے۔
یہ مختلف صورتیں بناکر اور لباس پہن کر عورتوں اور بے داڑھی مونچھ کے نوخیز لڑکوں کو اپنی طرف مائل کرتے ہیں۔
اور جس گھر میں داخل ہوتے ہیں اگر وہاں عورتیں ہوں تو یہ ان عورتوں کا دل ان کے شوہروں سے بگاڑ کر ہی نکلتے ہیں۔
پھر یہ لوگ ظالموں ، فاجروں اور لٹیروں مثلاً نمبرداروں ، فوجیوں اور ناجائز ٹیکس لینے والوں سے کھانے اور غلے اور روپے پیسے قبول کرتے ہیں۔
بے داڑھی مونچھ کے نوخیز لڑکوں کو سماع کی مجلسوں میں اپنے ساتھ لے جاتے ہیں اور شمع کی روشنی میں مجمعوں کے اندر انہیں کھینچتے ہیں۔
اجنبی عورتوں سے ملتے جلتے ہیں۔ اور اس کے لئے یہ دلیل دیتے ہیں کہ انہیں خرقہ پہنانا ہوتا ہے۔
اور حلال بلکہ ضروری سمجھتے ہیں کہ مستی میں جس شخص کے کپڑے گرجائیں اس کے کپڑوں کو آپس میں بانٹ لیں۔
یہ لوگ اس مستی کو وجد کہتے ہیں ،
اور دعوت کو وقت کہتے ہیں،
اور لوگوں کو کپڑے بانٹنے کو حکم کہتے ہیں۔
اور جس گھر میں ان کی دعوت کی گئی ہو وہاں سے اسی وقت نکلتے ہیں جب کہ ایک دوسری دعوت کو لازم کرلیں۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ دعوت واجب ہوگئی۔ حالانکہ ان باتوں کا عقیدہ رکھنا کفر ، اور انہیں کرنا فسق ہے۔
ان کا یہ عقیدہ ہے کہ سارنگی بجاکر گاناگانا عبادت ہے۔
ہم نے ان سے سنا ہے حدی خوانی اور محمل کی آمد کے وقت دعا قبول ہوتی ہے۔ کیوں کہ ان کا عقیدہ ہے کہ یہ بھی عبادت ہے۔ حالانکہ یہ بھی کفر ہے۔ کیوں کہ جو شخص مکروہ اور حرام کام کو عبادت سمجھے وہ اپنے اس عقیدے کی وجہ سے کافر ہوگیا۔ جب کہ باقی لوگوں کے لئے وہ کام صرف حرام یا مکروہ ہی رہا۔
اور اہل تصوف اپنے آپ کو اپنے شیخ (پیر) کے حوالہ کرتے ہیں۔
پس اگر ان کے شیخ کے درجہ و مقام کی بات آتی ہے تو کہا جاتا ہے کہ شیخ پر اعتراض نہیں کیا جاسکتا۔
پھر اس شیخ کی رسی کھلنے اور شطحیات نامی کفر و ضلالت والے اقوال کے دھاگے میں منسلک ہونے اور فسق و فجور کے معلوم و معروف کاموں میں ملوث ہونے کا حال نہ پوچھو۔
اگر وہ شیخ کسی خوبرو لونڈے کو بوسہ لیتا ہے تو کہا جاتا ہے کہ رحمت ہے۔
اگر کسی اجنبی عورت کے تنہائی میں اکٹھا ہوتا ہے تو کہا جاتا ہے وہ اس کی بیٹی ہے، اور اس نے خرقہ پہن رکھا ہے۔
اور وہ کوئی اور کپڑا اس کے مالک کی رضامندی کے بغیر دوسروں پر تقسیم کرتا ہے تو کہا جاتا ہے خرقہ کا فیصلہ ہے۔

ابن عقیل کہتے ہیں کہ :
حالانکہ مسلمانوں کا کوئی شیخ ایسا نہیں جس کو اس کے حال پر چھوڑا جاسکے اور اس کے احوال تسلیم کئے جاسکیں۔ کیوں کہ یہاں کوئی شیخ ایسا نہیں جو دائرہ تکلیف میں نہ ہو۔
پھر پاگلوں اور بچوں کے ہاتھ پر مارا جاتا ہے۔ اور یہی سلوک چوپایوں کے ساتھ بھی ہوتا ہے کہ خطاب کے بدلے مار پڑتی ہے۔(پس صوفیوں کے مشائخ کو ان کے حال پر کیوں کر چھوڑا جاسکتا ہے) ہاں اگر کوئی شیخ ایسا ہوتا جسے اس کے حال پر چھوڑا جاسکتا تو وہ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ہوتے۔
مگر ان کا بھی ارشاد ہے کہ :
"اگر میں ٹیڑھا ہوجاؤں تو مجھے سیدھا کردو" یہ نہیں فرمایا کہ مجھے میرے حال پر چھوڑ دو۔
پھر خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھو کہ کس طرح آپ پر بھی صحابہ نے اعتراض کیا چنانچہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو دیکھو کہ انہوں نے آپ سے کہا کہ ہم نماز قصر کیوں کریں جب کہ حالت امن میں ہیں۔
اسی طرح ایک دوسرے صحابی نے کہا کہ آپ ہمیں وصال سے (یعنی بغیر پے درپے روزہ رکھنے سے) کیوں منع کرتے ہیں۔ جب کہ آپ خود وصال کرتے ہیں؟ اور ایک صحابی نے کہا کہ آپ ہمیں حج کے احرام کو عمرہ میں تبدیل کرنے کا حکم دے رہے ہیں ، اور خود ایسا نہیں کررہے ہیں؟
پھر اور آگے بڑھو۔ دیکھو اللہ تعالیٰ پر اعتراض ہوتا ہے۔ یعنی تخلیق آدم کے موقع پر اس سے فرشتے کہتے ہیں :
"اتجعل فیھا" الخ
(اے اللہ کیا زمین میں ایسی مخلوق کو بنائے گا جو فساد مچائے گی۔ الخ)
اسی طرح اللہ تعالیٰ سے موسیٰ علیہ السلام نے کہا تھا:
"اتھلکنا بما فعل السفھآء منا"
(کیا تو ہمارے بیوقوفوں کی کرنی پر ہمیں ہلاک کرے گا۔)
واضح رہے کہ صوفیوں نے یہ بات (کہ شیخ پر اعتراض نہیں کیا جاسکتا) اپنے اگلوں کو خوش کرنے ، اور تابعداروں اور مریدوں پر اس کے سلوک کا سکہ بٹھانے کے لئے ایجاد کی ہے۔
جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
"فاستخف قومہ فاطاعوہ"
(فرعون نے اپنی قوم کو حقیر جانا تو انہوں نے اس کی بات مان لی)
اور غالباً یہ بات انہی لوگوں نے ایجاد کی ہے جو یہ کہتے ہیں کہ بندہ جب اپنے آپ کو پہچان لے تو جو بھی کرے اسے کوئی ضرر نہیں پہنچتا۔
حالانکہ یہ غایت درجہ بددینی اور گمراہی ہے۔ کیوں کہ فقہاء کا اس بات پر اجماع ہے کہ عارف جس حال تک پہنچتا جاتا ہے اس پر تکلیف کا دائرہ اسی قدر تنگ ہوجاتا ہے۔
جیسے انبیاء کے حالات ہیں کہ انہیں صغائر کے سلسلہ میں بھی تنگی کے اندر رکھا جاتا ہے۔ پس ان فارغ اور اثبات سے خالی لوگوں کی طرف کان لگانے سے خدا کے لئے بچو، خدا کے لئے بچو، یہ لوگ محض زندیق ہیں جنہوں نے ایک طرف مزدوروں کا لباس یعنی گدڑی اور اون پہن رکھا ہے۔ اور دوسری طرف بے حیا اور بدکردار ملحدوں کا عمل اپنائے رکھا ہے۔ یعنی کھاتے پیتے ہیں ناچتے تھرکتے ہیں۔ عورتوں اور لونڈوں سے گانے سنتے ہیں۔ اور شریعت کے احکام چھوڑتے ہیں۔ زندیقوں نے بھی شریعت کو چھوڑنے کی جراءت نہیں کی تھی۔ یہاں تک کہ اہل تصوف آئے تو بدکاروں کی روش بھی ساتھ لائے"۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
صوفیاء اور گانے کی حلت
پھر ابن عقیل رحمہ اللہ ان کے زندقہ اور کفر کا حال بیان کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ کس طرح انہوں نے اپنے خیال میں شریعت اور حقیقت کے درمیان تفریق کی ۔ اور نشہ آور حشیش (گانجا اور بھنگ وغیرہ) کو حلال ٹھہرایا۔ بلکہ یہی وہ گروہ ہے جس نے پہلے پہل اس (گانجے) کا انکشاف کیا۔
اور مسلمانوں کے درمیان اس کو رواج دیا۔ اسی طرح انہوں نے گانے اور مرد و عورت کے درمیان اس کو رواج دیا۔
اسی طرح انہوں گانے اور مرد و عورت کے اختلاط کو حلال ٹھہرایا۔
اور یہ کہہ کر کفر و زندقہ کے اظہار کو بھی حلال ٹھہرایا کہ یہ احوال شطحیات ہیں۔
اور ضروری ہے کہ ان پر نکیر نہ کی جائے ۔ کیونکہ یہ مجذوب لوگ ہیں۔ یا (ان کے خیال میں) بارگاہ پروردگار کے مشاہدہ میں مشغول لوگ ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
ابن عقیل کہتے ہیں کہ
سب سے پہلے تو انہوں نے نام گھڑ ے۔
اور حقیقت و شریعت کا بکھیڑا کھڑا کیا۔
حالانکہ یہ بری بات ہے۔ کیوں کہ شریعت کو حق تعالیٰ نے مخلوق کی ضروریات کے لئے وضع کیا ہے تو اب اس کے بعد حقیقت نفس کے اندر شیطان کے القاء کیے ہوئے وسوسوں کے سوا اور کیا چیز ہوسکتی ہے۔ جو شخص بھی شریعت سے الگ ہوکر کسی حقیقت کا متلاشی ہو وہ بیوقوف اور فریب خوردہ ہے۔
پھر ان صوفیاء کے سامنے کوئی حدیث روایت کرتا ہے تو کہتے ہیں کہ یہ مسکین لوگ ہیں ۔ اپنی حدیث مردے سے روایت کرتے ہیں،
جو کسی اور مردے سے روایت کرتا ہے
جب کہ ہم نے اپنا علم اس زندہ و پائندہ ہستی سے لیا ہے جسے کبھی موت نہیں آئے گی۔
لہٰذا اگر کوئی شخص حدثنی ابی عن جدی کہتا ہے (یعنی میرے باپ نے میرے دادا سے حدیث روایت کی) تو میں حدثنی قلبی عن ربی کہتا ہوں۔ (یعنی میرے دل نے میرے پروردگار سے روایت کیا ہے) غرض ان خرافات کے ذریعہ خود بھی برباد ہوئے اور کم عقلوں کے دلوں کو بھی برباد کیا۔
اور عبرت کی بات یہ ہے کہ اسی کے لیے ان پر مال خرچ کیا جاتا ہے۔ کیوں کہ فقہاء تو مثل اطباء کے ہیں۔ اور دواء کی قیمت پر خرچ کرنا مشکل ہوتا ہے۔ مگر ان لوگوں پر خرچ کرنا ایسا سہل ہے جیسا ناچنے اور گانے والیوں پر خرچ کرنا۔
اور فقہاء سے ان کا بغض ایک بڑا زندقہ (بددینی )ہے۔ کیوں کہ فقہاء اپنے فتاویٰ کے ذریعہ ان کی گمراہی اور فسق سے روکتے ہیں۔ اور حق گراں گزرتا ہے جیسے زکاۃ گراں گزرتی ہے۔ لیکن گانے والی عورتوں پر مال نچھاور کرنا اور شعراء کو ان کی مدحیہ قصیدوں پر عطیہ دینا کس قدر آسان معلوم ہوتا ہے۔ یہی حال اہل الحدیث سے ان کے بغض کا ہے۔
 
Top