ج۔مطلق کی تقیید:
قرآن کے مطلق کو آپ ﷺ مقید کردیں۔ مثلاً: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
{وَالسَّارِقُ وَالسَّارِقَۃُ فَاقْطَعُوْا أَیْدِیْہِمَا جَزَائٌ بِّمَا کَسَبًا نِّکَالَا مِنَ اللّٰہِ وَاللّٰہُ عَزِیْزٌ حَکِیْمٌ} چور مرد ہو یا عورت ان کے ہاتھ کاٹ دو۔ یہ بدلہ ہے اس برائی کا جو انہوں نے کمائی اور سزا ہے اللہ کی جناب سے۔ اللہ غالب ہے ، حکمت والا ہے۔
اس آیت میں
یَدہاتھ کا لفظ مطلق ہے جو نہ صرف ہتھیلی کو بلکہ پورے بازو کو بھی شامل ہے۔حدیث رسول نے اسے مقید کرکے کلائی wristتک رکھا ہے کیونکہ آپ ﷺ نے چور کا ہاتھ یہیں سے کاٹا تھا۔
د: مشکل کی وضاحت:
قرآن کی بعض آیات ناقابل فہم ہوتی ہیں کہ اسے کوئی سمجھ سکے کہ اللہ تعالیٰ کی اس سے مراد کیا ہے؟ صورت میں حدیث ہی اس کی توضیح کرتی ہے۔ عدی ؓبن ابی حاتم کہتے ہیں: جب یہ آیت اتری:
{کُلُوْا وَاشْرَبُوْا حَتّٰی یَتَبَیَّنَ لَکُمُ الْخَیْطُ الْأَبْیَضُ مِنَ الْخَیْطِ الْأَسْوَدِ مِنَ الْفَجْرِ}۔ تو میں نے ایک کالا اور دوسرا سفید عقال لے کر اپنے سرہانے کے نیچے انہیں رکھا۔ اور رات بھر انہیں دیکھتا رہا پھر جب یہ دونوں اپنے اپنے رنگ میں نمودار ہوئے تو میں نے کھانا بند کردیا۔ صبح آپ ﷺ کے پاس حاضر ہوا اور آپ ﷺ کو جو رات کیا بتایا تو آپ ﷺ نے فرمایا:
إِنَّ وِسَادَکَ إِذَنْ لَعَرِیْضٌ، إِنَّمَا ذَلِکَ بَیَاضُ النَّہَارِ مِنْ سَوَادِ اللَّیْلِ۔ تمہارا سرہانہ تو بہت پھیلا ہوا ثابت ہوا بھئی! یہ رات کی تاریکی سے دن کی سفیدی نکلنا مراد ہے۔ (متفق علیہ)
تیسرا طریقہ:
وہ احادیث ہیں جن سے کسی چیز کا وجوب یا اس کی حرمت ثابت ہوتی ہو۔ یہ قانون اور شریعت پیش کرنے میں اپنی مستقل حیثیت رکھتی ہیں۔ جبکہ قرآن مجید میں اس چیز کے وجوب یا حرمت کی صراحت نہیں ہے۔ یا قرآن خاموش ہے نفیاً یا اثباتًا بھی اس کا ذکر نہیں کرتا۔اس قسم کی بے شمار مثالیں ہیں جنہیں کتب حدیث میں دیکھا جاسکتا ہے۔ چند مثالیں یہ ہیں: صحیح بخاری میں (۲۷۲۴، ۲۷۲۵) یہ روایت بھی النساء کی آیت نمبر(۱۵):
{ وَالَّتِیْ یَأْتِیْنَ الْفَاحِشَۃَمِنْ نِّسَائِکُمْ فَاسْتَشْہِدُوْا عَلَیْہِنَّ أَرْبَعَۃَ مِنْکُمْ فَإِنْ شَہِدُوْا فَأَمْسِکُوْہُنَّ فِی الْبُیُوْتِ حَتّٰی یَتَوَفَّہُنَّ الْمَوْتُ أَوْ یَجْعَلَ اللّٰہُ لَہُنَّ سَبِیْلًا}
کے اس اشکال کی وضاحت کرتی ہے کہ زانی محصن(Married Fornicator) کے لئے وہ راستہ کون سا ہے؟ حدیث رسول ہی اس راستے کا تعین کرتی ہے اور جسے سیدناابوہریرہ اور زید بن خالد ۔رضی اللہ عنہما۔نے روایت کیا ہے:
أَنَّ رَجُلاً مِنَ الأَعْرَابِ أَتَی َرسُوْلَ اللّٰہِ ﷺ فَقَالَ: یَارَسُوْلَ اللّٰہِ!أَنْشُدُکَ اﷲَ إِلاَّ قَضَیْتَ لِیْ بِکِتَابِ اللّٰہِ، فَقَالَ الْخَصْمُ الآخَرُ، وَہُوَ أَفْقَہُ مِنْہُ: نَعَمْ، فَاقْضِ بَیْنَنَا بِکِتَابِ اللّٰہِ ، وَائْذَنْ لِیْ، فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ : قُلْ۔ قَالَ: إِنَّ ابْنِیْ کَانَ عَسِیْفًا عَلَی ہَذَا، فَزَنَی بِامْرَأَتِہِ، وَإِنِّی أُخْبِرْتُ أَنَّ عَلَی ابْنِی الرَّجْمُ، فَافْتَدَیْتُ ابْنِیْ مِنْہُ بِمِائَۃِ شَاۃٍ وَوَلِیْدَۃٍ، فَسَأَلْتُ أَہْلَ الْعِلْمِ، فَأَخْبَرُوْنِیْ: أَنَّمَا عَلَی ابْنِیْ جَلْدُمِائَۃٍ وَتَغْرِیْبُ عَامٍ، وَأَنَّ عَلَی امْرَأۃِ ہَذَا الرَّجْمُ، فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ : وَالَّذِیْ نَفْسِیْ بِیَدِہِ لَأَقْضِیَنَّ بَیْنَکُمَابِکِتَابِ اللّٰہِ: اَلْوَلِیْدَۃُ وَالْغَنَمُ رَدٌّ عَلَیْکَ، وَعَلَی ابْنِکَ جَلْدُ مِائَۃٍ وَتَغْرِیْبُ عَاٍم، أُغْدُ یَا أُنَیْسُ إِلٰی امْرَأَۃِ ہَذَا، فَإنِ اعْتَرَفَتْ فَارْجُمْہَا۔ قَالَ: فَغَدَا عَلَیْہَا فَاعْتَرَفَتْ، فَأَمَرَ بِہَا َرسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ فَرُجِمَتْ۔ایک بدو نے رسول کریم ﷺ کے پاس آکر کہا: اے اللہ کے رسول ! اللہ کا واسطہ دیتا ہوں کہ ہمارے درمیان کتاب اللہ کے مطابق فیصلہ فرمائیے۔دوسرے خصم نے کہا: جو زیادہ سمجھدار تھا۔ جی ہاں! آپ ہمارے مابین کتاب اللہ کے مطابق فیصلہ کیجئے اور مجھے اجازت دیجئے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: کہو۔ اس نے کہا: میرا بیٹا اس کا نوکر تھاجو اس کی بیوی کے ساتھ زنا کربیٹھا۔ مجھے بتایا گیا کہ میرے بیٹے پر رجم ہے۔ میں نے اس کی طرف سے سو بکریاں بطور فدیہ ادا کی ہیں اور ایک لونڈی بھی۔ پھر معلوم ہوا کہ بیٹے کو سو کوڑے اور ایک سالہ جلاوطنی کی سزا ہے۔ اور اس کی بیوی کو رجم کی سزا ہے۔آپ ﷺ نے فرمایا: اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے میں تمہارے مابین کتاب اللہ کی روشنی میں فیصلہ کروں گا۔ لونڈی اور بکریاں تمہیں واپس ہوں گی اور تمہارے بیٹے کو سوکوڑوں اور ایک سالہ جلاوطنی کی سزا ملے گی۔انیس! تم صبح اس کی بیوی کی پاس جاؤاگر وہ اعتراف کرلے تو اسے رجم کردینا۔انیس صبح سویرے اس کے پاس گئے اس نے اعتراف کیا۔ چنانچہ آپ کے حکم پر اسے رجم کردیا گیا۔
مزید یہ کہ زانی تو دونوں تھے مگر غیر شادی کی سزا شادی شدہ کی سزا یعنی رجم سے مختلف رکھی۔ جو قرآنی حکم
{ الزَّانِیَۃُ وَالزَّانِی فَاجْلِدُوْا کُلَّ وَاحِدٍ مِنْہُمَا مِأَۃَ جَلْدَۃً} کے عام (Common)حکم کی تخصیص تھی۔ایک کا پہلا تجربہ تھا اس لئے اس کی سزا میں تخفیف رکھی دوسری تجربہ کرچکی تھی مگر اپنے شوہر سے خیانت کی مرتکب ہوئی تھی۔اس لئے اس کی سزا سخت رکھی۔
تفسیر کے یہ طریقے قرآن مجید کے مزید بیان واضافہ ہیں ۔ اختلافی نہیں۔ اس تعین کے بعد کوئی معارضت باقی نہیں رہتی اور تقدیم علی الکتاب کا اصول بھی بے معنی ہوجاتا ہے۔ایسا سوچنا اہانتِ حدیثِ رسول ہے اور
{بِمَا أَرَاکَ اللّٰہُ} پر عدم اطمینان ہے۔آپ ﷺ کی تشریعی حیثیت کا انکار بھی ہے۔ آپ ﷺ کے اس تعین کے بعد اگر کسی کی تسلی لغت ونحو یا رائے وقیاس پر ہی ہوتی ہے تو پھروہ سوچے اس آیت کا کیا مفہوم ہے؟
{مَنْ یُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ أَطَاعَ اللّٰہَ}۔(النساء۸۵) جس نے رسو ل کی اطاعت کی اس نے بلاشبہ اﷲ کی اطاعت کی۔
حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم -حقیقت، اعتراضات اور تجزیہ