Dua
سینئر رکن
- شمولیت
- مارچ 30، 2013
- پیغامات
- 2,579
- ری ایکشن اسکور
- 4,440
- پوائنٹ
- 463
مقدمہ
تالیف: ڈاکٹر محمد ابصار دہلوی
اللہ رب العزت نے کائنات کو وجود بخشنے کے بعد انسان کی تخلیق کی اور پھر اس زمین پر اس کو ایک مقصد کے تحت آباد کیا جس کو قرآن ان الفاظ میں بیان کرتا ہے :
اِنَّا جَعَلْنَا مَا عَلَی الْاَرْضِ زِیْنَةً لَّھَا لِنَبْلُوَھُمْ اَیُّھُمْ اَحْسَنُ عَمَلًا
''بے شک ہم نے اس زمین پر جو کچھ بنا یا ہے وہ اس کے لئے زیب و زینت ہے،تاکہ ہم ان کو آزمائیں کہ ان میں سے کون عمل کے اعتبار سے اچھا ہے''۔
لہٰذا اللہ رب العزت نے اس زمین پر انسانوں کو بھیجا تاکہ وہ آزمائے کہ کون ہے جو اس کی فرمانبرداری اور اس کے احکامات کی بجاآوری کرنے والاہے، تاکہ اس کے اچھے اعمال کی جزا دے اورکون ہے جو اس کی نافرمانی اور اس کے احکام کی حکم عدولی کرنے والاہے ،تاکہ اس کو اس کے برے اعمال کی سزا دے ۔
اور یہ حقیقت ہے کہ انسانوں کے اس زمین پر بھیجے جانے کے بعد ایک دوسرے کے لئے آزمائش بنایا گیاہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَجَعَلْنَا بَعْضَکُمْ لِبَعْضٍ فِتْنَةً
''اور ہم نے تمہیں ایک دوسرے کے لئے آزمائش بنایا ہے''۔
پس یہ آزمائش اس لحاظ سے بھی ہے کہ مختلف علاقوں اور زبانیں بولنے والے لوگوں کے اندر جو اپنی اپنی ثقافت، رہن سہن کی وجہ سے اختلافات پیدا ہوجاتے ہیں اس میں کون صحیح اور درست طرز عمل اختیار کرتاہے اور کون ہے جوکہ انصاف کادامن ہاتھ سے چھوڑ کر عصبیت کی آگ میں کود جاتاہے۔یہ بات اپنی جگہ ہے کہ انسان اپنی قوم سے محبت کرتا ہے لیکن عصبیت یہ ہے کہ انسان ناحق معاملے میں اپنی قوم کا ساتھ دے ۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک شخص نے دریافت کیا کہ :
((یَا رَسُولَ اللَّہِ أَمِنَ الْعَصَبِیَّةِ أَنْ یُحِبَّ الرَّجُلُ قَوْمَہُ قَالَ لَا وَلَکِنْ مِنْ الْعَصَبِیَّةِ أَنْ یَنْصُرَ الرَّجُلُ قَوْمَہُ عَلَی الظُّلْمِ))
''یارسول اللہ !کیا یہ بھی عصبیت ہے کہ آدمی اپنی قوم سے محبت کرے ؟فرمایا :''نہیں !عصبیت یہ ہے کہ آدمی ناحق معاملے میں بھی اپنی قوم کی مدد کرے''۔
کتاب کا اصل موضوع ''ایم کیوایم اور اس کے قائدالطاف حسین ،اپنے نظریات و افکار کے آئینے میں ''جوکہ سرورق سے ہی واضح ہوچکا ہے کہ یہ تحریر پاکستان میں سرگرم عمل ایک تحریک اور اس کے قائد کے افکار ونظریات اور اس کی جدوجہد سے متعلق ہے جس کو ایم کیوایم (متحدہ قومی موومنٹ سابقہ مہاجر قومی موومنٹ) کے نام سے جانا جاتاہے ۔
اگر تو موضوعِ بحث کسی انفرادی شخصیت کے افکار ونظریات ہوتے یا پھر کسی ایسی جماعت کی جدوجہد ہوتی جس کا تعلق یا نسبت کسی خاص قومیت یا زبان سے نہ ہوتا تو اس پر بات کرنا اتناحساس اور احتیاط طلب نہ ہوتا کہ جتنا اس تحریک اور اس کے قائد کے افکار و نظریات پر کلام کرنا حساس اور احتیاط طلب ہے ۔کیوں کہ ایسے کسی بھی معاملے میں کلام جس کا تعلق کسی خاص قومیت یا زبان سے ہو ،ذرا سی بھی بے احتیاطی یا بے انصافی ،عصبیت کی آگ کو بھڑکا دینے کے لئے کافی ہوتی ہے۔
لیکن یہ بات بھی حقیقت ہے کہ کسی بھی گروہ کے افکار یا نظریات اور اس کی عملی جدوجہد اگر اعلانیہ شریعت اور اس کے احکامات کے برخلاف ہوں تو بغیر کسی تغافل اور تساہل کے اس گروہ سے متعلقہ و غیر متعلقہ لوگوں کو اس بات سے آگا ہ کیا جاناازروئے شریعت ضروری ہوجاتا ہے تاکہ وہ اس گروہ کی اصلاح کرسکیں یا پھر خود بھی اس کے فتنے سے بچ سکیں اور دوسرے مسلمانوں کو بھی اس کے فتنے سے بچاسکیں ۔
چونکہ ہمارے موضوع کامحور یہ تحریک اور اس کے قائد کے نظریات وافکار ہیں لہٰذا ہماے اولین مخاطب اس تحریک میں شامل وہ لوگ(کارکنان و رہنما)ہیں،جن کاتعلق اہل سنت والجماعت سے ہے جن کو عرف عام میں ''سنی مسلمان''کہاجاتا ہے، چاہے وہ کسی بھی سنی مکتبہ فکر (حنفی،مالکی ،شافعی ،حنبلی ،سلفی)سے تعلق رکھتے ہوں۔
دوسرے نمبر پرہمارے مخاطب وہ اہل السنۃ(عرف عام میں سنی مسلمان)ہیں جوکہ اس تحریک سے کسی بھی طرح کی ہمدردی و الفت رکھتے ہیں اور اس تحریک کو اپنے مال وجان کے تحفظ کا ضامن سمجھتے ہیں ۔اسی طرح ہمارے مخاطب وہ اہل السنۃ بھی ہیں جوکہ ایسا طرز فکر رکھنے والی کسی بھی جماعت میں شامل ہوں یا اس سے ہمدردی و الفت رکھتے ہوں ۔
چنانچہ اب ہم اس تحریک اور اس کے قائدودیگر رہنماؤں کے افکار و نظریا ت اور ان کی عملی جدوجہد کا جائز لیں گے اور اس بارے میں شریعت کا کیا مؤقف ہے اس کو بھی واضح کریں گے۔کوشش یہ ہوگی کہ ہماری گفتگوکا محور ہمارے ملک میں رائج گندی سیاست کی مانند نہ ہو جوکہ جمہوری نظام کالازمی شاخسانہ ہے بلکہ ہماری مقدور بھر کوشش یہ ہوگی کہ صرف ان اہم اور ضروری نکات پر بحث کی جائے جن کاتعلق ایک مسلمان کے اسلام و ایمان کی سلامتی سے ہو۔
ہم اپنی گفتگو کے درمیان موضوع بحث جماعت ایم کیوایم کے لئے ''تحریک ''،اس کے سربراہ الطاف حسین صاحب کے لئے ''قائد ''کے الفاظ استعمال کریں گے۔اسی طرح ہندوستان سے ہجرت کرکے آنے والے مسلمانوں کے لئے ''اردوبولنے والے''کے الفاظ استعمال کریں گے۔تاکہ ناموں کے باربار استعمال سے بات کا رخ کسی قسم کی عصبیت کی طرف مڑنے کے بجائے اصل موضوع کی طرف رہے۔باقی کل کی کل خیر اللہ رب العزت کے ہاتھ میں ہے وہ جس کے لئے چاہتا ہے اس کے لئے خیر کے دروازے کھول دیتاہے ۔
اِنَّا جَعَلْنَا مَا عَلَی الْاَرْضِ زِیْنَةً لَّھَا لِنَبْلُوَھُمْ اَیُّھُمْ اَحْسَنُ عَمَلًا
''بے شک ہم نے اس زمین پر جو کچھ بنا یا ہے وہ اس کے لئے زیب و زینت ہے،تاکہ ہم ان کو آزمائیں کہ ان میں سے کون عمل کے اعتبار سے اچھا ہے''۔
لہٰذا اللہ رب العزت نے اس زمین پر انسانوں کو بھیجا تاکہ وہ آزمائے کہ کون ہے جو اس کی فرمانبرداری اور اس کے احکامات کی بجاآوری کرنے والاہے، تاکہ اس کے اچھے اعمال کی جزا دے اورکون ہے جو اس کی نافرمانی اور اس کے احکام کی حکم عدولی کرنے والاہے ،تاکہ اس کو اس کے برے اعمال کی سزا دے ۔
اور یہ حقیقت ہے کہ انسانوں کے اس زمین پر بھیجے جانے کے بعد ایک دوسرے کے لئے آزمائش بنایا گیاہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَجَعَلْنَا بَعْضَکُمْ لِبَعْضٍ فِتْنَةً
''اور ہم نے تمہیں ایک دوسرے کے لئے آزمائش بنایا ہے''۔
پس یہ آزمائش اس لحاظ سے بھی ہے کہ مختلف علاقوں اور زبانیں بولنے والے لوگوں کے اندر جو اپنی اپنی ثقافت، رہن سہن کی وجہ سے اختلافات پیدا ہوجاتے ہیں اس میں کون صحیح اور درست طرز عمل اختیار کرتاہے اور کون ہے جوکہ انصاف کادامن ہاتھ سے چھوڑ کر عصبیت کی آگ میں کود جاتاہے۔یہ بات اپنی جگہ ہے کہ انسان اپنی قوم سے محبت کرتا ہے لیکن عصبیت یہ ہے کہ انسان ناحق معاملے میں اپنی قوم کا ساتھ دے ۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک شخص نے دریافت کیا کہ :
((یَا رَسُولَ اللَّہِ أَمِنَ الْعَصَبِیَّةِ أَنْ یُحِبَّ الرَّجُلُ قَوْمَہُ قَالَ لَا وَلَکِنْ مِنْ الْعَصَبِیَّةِ أَنْ یَنْصُرَ الرَّجُلُ قَوْمَہُ عَلَی الظُّلْمِ))
''یارسول اللہ !کیا یہ بھی عصبیت ہے کہ آدمی اپنی قوم سے محبت کرے ؟فرمایا :''نہیں !عصبیت یہ ہے کہ آدمی ناحق معاملے میں بھی اپنی قوم کی مدد کرے''۔
کتاب کا اصل موضوع ''ایم کیوایم اور اس کے قائدالطاف حسین ،اپنے نظریات و افکار کے آئینے میں ''جوکہ سرورق سے ہی واضح ہوچکا ہے کہ یہ تحریر پاکستان میں سرگرم عمل ایک تحریک اور اس کے قائد کے افکار ونظریات اور اس کی جدوجہد سے متعلق ہے جس کو ایم کیوایم (متحدہ قومی موومنٹ سابقہ مہاجر قومی موومنٹ) کے نام سے جانا جاتاہے ۔
اگر تو موضوعِ بحث کسی انفرادی شخصیت کے افکار ونظریات ہوتے یا پھر کسی ایسی جماعت کی جدوجہد ہوتی جس کا تعلق یا نسبت کسی خاص قومیت یا زبان سے نہ ہوتا تو اس پر بات کرنا اتناحساس اور احتیاط طلب نہ ہوتا کہ جتنا اس تحریک اور اس کے قائد کے افکار و نظریات پر کلام کرنا حساس اور احتیاط طلب ہے ۔کیوں کہ ایسے کسی بھی معاملے میں کلام جس کا تعلق کسی خاص قومیت یا زبان سے ہو ،ذرا سی بھی بے احتیاطی یا بے انصافی ،عصبیت کی آگ کو بھڑکا دینے کے لئے کافی ہوتی ہے۔
لیکن یہ بات بھی حقیقت ہے کہ کسی بھی گروہ کے افکار یا نظریات اور اس کی عملی جدوجہد اگر اعلانیہ شریعت اور اس کے احکامات کے برخلاف ہوں تو بغیر کسی تغافل اور تساہل کے اس گروہ سے متعلقہ و غیر متعلقہ لوگوں کو اس بات سے آگا ہ کیا جاناازروئے شریعت ضروری ہوجاتا ہے تاکہ وہ اس گروہ کی اصلاح کرسکیں یا پھر خود بھی اس کے فتنے سے بچ سکیں اور دوسرے مسلمانوں کو بھی اس کے فتنے سے بچاسکیں ۔
چونکہ ہمارے موضوع کامحور یہ تحریک اور اس کے قائد کے نظریات وافکار ہیں لہٰذا ہماے اولین مخاطب اس تحریک میں شامل وہ لوگ(کارکنان و رہنما)ہیں،جن کاتعلق اہل سنت والجماعت سے ہے جن کو عرف عام میں ''سنی مسلمان''کہاجاتا ہے، چاہے وہ کسی بھی سنی مکتبہ فکر (حنفی،مالکی ،شافعی ،حنبلی ،سلفی)سے تعلق رکھتے ہوں۔
دوسرے نمبر پرہمارے مخاطب وہ اہل السنۃ(عرف عام میں سنی مسلمان)ہیں جوکہ اس تحریک سے کسی بھی طرح کی ہمدردی و الفت رکھتے ہیں اور اس تحریک کو اپنے مال وجان کے تحفظ کا ضامن سمجھتے ہیں ۔اسی طرح ہمارے مخاطب وہ اہل السنۃ بھی ہیں جوکہ ایسا طرز فکر رکھنے والی کسی بھی جماعت میں شامل ہوں یا اس سے ہمدردی و الفت رکھتے ہوں ۔
چنانچہ اب ہم اس تحریک اور اس کے قائدودیگر رہنماؤں کے افکار و نظریا ت اور ان کی عملی جدوجہد کا جائز لیں گے اور اس بارے میں شریعت کا کیا مؤقف ہے اس کو بھی واضح کریں گے۔کوشش یہ ہوگی کہ ہماری گفتگوکا محور ہمارے ملک میں رائج گندی سیاست کی مانند نہ ہو جوکہ جمہوری نظام کالازمی شاخسانہ ہے بلکہ ہماری مقدور بھر کوشش یہ ہوگی کہ صرف ان اہم اور ضروری نکات پر بحث کی جائے جن کاتعلق ایک مسلمان کے اسلام و ایمان کی سلامتی سے ہو۔
ہم اپنی گفتگو کے درمیان موضوع بحث جماعت ایم کیوایم کے لئے ''تحریک ''،اس کے سربراہ الطاف حسین صاحب کے لئے ''قائد ''کے الفاظ استعمال کریں گے۔اسی طرح ہندوستان سے ہجرت کرکے آنے والے مسلمانوں کے لئے ''اردوبولنے والے''کے الفاظ استعمال کریں گے۔تاکہ ناموں کے باربار استعمال سے بات کا رخ کسی قسم کی عصبیت کی طرف مڑنے کے بجائے اصل موضوع کی طرف رہے۔باقی کل کی کل خیر اللہ رب العزت کے ہاتھ میں ہے وہ جس کے لئے چاہتا ہے اس کے لئے خیر کے دروازے کھول دیتاہے ۔