• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ایک مشت سے زائد ڈاڑھی کٹانےکے جواز پر صحابہ کا اجماع

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,100
ری ایکشن اسکور
1,460
پوائنٹ
344
پھر کوئی اور صاحب آئیں گے ( بلکہ آچکے ہیں ) کہ جب کٹوانا جائز ہی ہے ، تو پھر مشت سے کم کیا زیادہ کیا ؟ اور پھر جب کٹوانا جائز ہی ہے تو پھر قینچی کیا اور بلیڈ کیا ؟ ابتسامہ ۔
جب اہل علم ہی ایسی بھونڈی بات کریں گے تو پھر جہلا سے کیا توقع ہوگی؟
سلف صالحین سے ایک مشت سے زائد داڑی کو کاٹناصحیح سند سے ثابت ہے،اور مشت کی تفصیل یہ ہے کہ ٹھوڈی کو چھوڑ کر داڑی کو مشت میں اس طرح پکڑا جائے کہ ہاتھ کی انگلیاں ٹھوڈی سے مس نہ ہوں،مشت میں آئی ہوئے بالوں کے بعد جو بال بچ جائیں ان کو کاٹ دیا جائے، سلف سے یہی ثابت ہے،جیسا کہ ابن عبد البر نے جناب نافع سے بیان کیا ہے:
''كَانَ ابْنُ عُمَرَ يَقْبِضُ هَكَذَا. وَيَأْخُذُ مَا فَضَلَ عَنِ الْقَبْضَةِ وَيَضَعُ يده عند الذقن''
سیدنا ابن عمر اس طرح(داڑی کی) مٹھی بھرتے تھے،جومٹھی سے زائد ہوتی اسے کاٹ دیتے ،اور وہ اپنا ہاتھ ٹھوڈی کے قریب رکھتے تھے۔(الطبقات الکبری ابن عبد البر:135/4،سندہ صحیح)
اس اثر میں جو لفظ بیان ہوئے ہیں وہ
عند الذقن ہیں نہ کہ علی الذقن،لہذا اس کے معنی یہ ہوئے کہ سلف صالحین صرف داڑی کو پکڑتے تھے،ٹھوڈی کو نہیں پکڑتے تھے،یہ ایک مشت داڑی ہے اور یہ داڑی کی معقول مقدار ہے۔ واللہ اعلم بالصواب

سب سے اہم بات

حدیث میں داڑی کو بڈھانے کی جو علت بیان ہوئی ہے وہ یہود و نصاری کو چھوڑ کر صرف مشرکین کی مخالفت ہے اورمشرکین سے مراد مجوسی یعنی آگ کے پجاری تھے،وہ داڑیاں منڈاتے تھے یا اتناکٹاتے تھے کہ ان کی داڑیاں بہت چھوتی ہوجاتی تھیں، ورنہ ایسا تو نہیں تھا کہ عہد رسول کے مشرکین نے اتنی لمبی داڑیاں رکھی تھی کہ ان کی مقدار مشت کے برابر ہو، اگر یہ کہا جائے کہ مشرکین کی داڑیاں مشت کے برابر تھیں تو اس سے صحابہ پر حرف آتا کیوں کہ وہ توحج و عمرہ کے موقع پر اپنی داڑی کے مشت کے برابر کر لیتے تھے،لہذا یہی بات درست ہے کہ مجوس و مشرکین داڑی میں حلق کرتے تھے یا کٹانے میں مبالغہ کرتے تھے،اس لیے رسول اللہﷺ نے ان کی مخالفت میں توفیر و اعفا کا حکم صادر فرمایا اور توفیر و اعفا کے معنی کثرت اور بڈھانے کے ہیں جس نے ایک مشت داڑی بڈھا لی گویا اس نے توفیر و اعفا پر عمل کر لیا،یہی بات فضیلۃ الشیخ دبيان محمد الدبيان نے لکھی ہے:
''فمن أعفى لحيته بمقدار القبضة، فقد كثرت لحيته، وصدق على لحيته أنها قد عفت، وأن صاحبها قد أعفاها، وهذا ما فهمه الصحابة رضوان الله عليهم. ''
’’جس نے مشت کے بقدر داڑی کو بڈھا لیا تو یقینا یہ اس کی داڑی کی کثیر مقدار ہے اور اس کی داڑی پر یہ بات صادق آتی ہے کہ وہ داڑی بڑی ہو گئی ہے اور صاحب داڑی نے اعفا پر عمل کر لیا ہے اور یہی وہ فہم ہے جو صحابہ کرام کے نزدیک درست ہے۔‘‘ واللہ اعلم بالصواب!
 

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,100
ری ایکشن اسکور
1,460
پوائنٹ
344
پھر پانچ صحابہ سے مطلقا اعفاء کے ثبوت کے بعد یہ کہا جاسکتا ہے کہ دیگر صحابہ کرام جن سے کچھ مروی نہیں وہ بھی مطلقا اعفاء پر ہی عمل پیرا ہوں گے ، جو اعفاء پر عمل پیرا نہیں تھے ، ان کا نام صراحت کے ساتھ ذکر ہوگیا ہے ، جیساکہ ابن عمر رضی اللہ عنہ و غیرہ ۔
خضر صاحب آپ پانچ کی بات کرتے ہیں یہاں تو سینکڑوں اصحاب رسول ﷺ ہیں:
عَنْ منصورقَالَ: سَمِعْتُ عَطَاءَ بْنَ أَبِي رَبَاحٍ، قَالَ: «كَانُوا يُحِبُّونَ أَنْ يُعْفُوا اللِّحْيَةَ إِلَّا فِي حَجٍّ أَوْ عُمْرَةٍ» (مصنف ابن ابي شيبة:الرقم: 25482 سنده صحيح )
تابعی جلیل جناب عطا بن ابی رباح(وفات: 114 ھ) بیان کرتے ہیں کہ وہ (ہمارے زمانے کے لوگ یعنی صحابہ کرام و تابعین عظام) حج و عمرے کے موقع پر اپنی مشت سے زائدداڑیاں کاٹنا پسند کیا کرتے تھے۔
یہ وہی عطابن ابو رباح ہیں کہ جنھوں نے دو سو صحابہ کرام کو پایا ہے اور ان سے روایات بیان کی ہیں،
محدث کبیر امام ابن ابی شیبہ بیان کرتے ہیں:

عَنِ الْحَسَنِ، قَالَ: «كَانُوا يُرَخِّصُونَ فِيمَا زَادَ عَلَى الْقَبْضَةِ مِنَ اللِّحْيَةِ أَنْ يُؤْخَذَ مِنْهَا»
جناب حسن بصری سے مروی ہے کہ وہ(صحابہ و تابعین)مشت سے زاید داڑی کاٹنے کی رخصت دیتے تھے۔
(مصنف ابن ابي شيبة:الرقم: 25484، اشعث کے سبب اس کی سند حسن ہے )
محدث کبیر امام ابن ابی شیبہ تابع جلیل جناب ابراہیم بن یزید نخعی سے بیان کرتے ہیں:

''كانوا يأخذون من جوانبها، وينظفونها. يعني: اللحية''
وہ (ہمارے زمانے کے لوگ یعنی صحابہ کرام و تابعین عظام)داڑی کے اطراف سے(مشت سے زائد) بال لیتے تھے اور اسےصاف ستھرا رکھتے تھے ۔
(مصنف ابن ابي شيبة: 8/،564الرقم
25490 ، سنده صحيح )
جناب ابراہم نخعی تو ان تابعین میں سے ہیں محدثین نے جن کی مرسل روایات کو بھی قبول کیا ہے،انھوں نے صحابہ کرام کا زمانہ پایا اور ان سے اس فعل کو بیان کیا۔ یہ بھی نہیں کہا جاسکتا کہ ان جلیل القدر اسلاف نے دیدہ دانستہ حدیث کے خلاف کیا نعوذ باللہ اور نہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ ان کو ر سول للہ ﷺ کی حدیث نہیں پہنچی تھی۔ کیونکہ وہ تو خود ہی روایت کرتے ہیں۔

'' کانوا ''سے کون مراد ہے؟

بہت سارے علمائے کرام کی طرف سے مندرجہ بالا آثار صحابہ پر یہ اعتراض ہے کہ اس سے صحابہ کرام مراد نہیں ہیں،بلکہ تابعین مراد ہیں،حالاں کہ ان کی یہ بات بے سروپا ہے،کیوں''کانوا'' ماضی کا صیغہ ہے،یہاں بیان کرنے والے کبار تابعین ہیں،اورکبار تابعین سے پہلے صحابہ کرام ہی موجود تھے،جناب حسن بصری یا عطا سے پہلے کون سے تابعین تھے جو ماضی میں گزر گئے(فوت ہوگئے) تھے جن کی طرف انھوں''کانوا'' کا لفظ بول کر اشارہ کیا؟ اصول فقہ کی متعدد کتب میں یہ بات موجود ہے کہ اس سے صحابہ کرام ہی مراد ہیں،جیسا کہ قاضی ابو يعلى ابن الفراء (المتوفى : 458ھ) نے لکھا ہے:
لأن الصحابي والتابعي إذا قال: كانوا يفعلون كذا، فإنما يقول ذلك على وجه الدلالة على صحة ما فعلوا، فإذا كان كذلك، وكانت الجماعة التي فعلها وقولها حجة.فإن قيل: يجوز أن يكون المراد به فعل بعض الصحابة؛ لأن فعل بعضهم يكون حجة.قيل: الواحد لا يقع عليه اسم الجماعة.
کیوں کہ جب صحابی یا تابعی یہ کہے:''وہ یہ کام کرتے تھے''وہ تو اس کو ان کے فعل کے درست ہونے کی دلیل سمجھ کر بیان کرتا ہے،اگر ایسا ہی ہے ،پھر تو وہ ایسی جماعت تھے کہ ان کا قول و فعل بطور جماعت حجت ہے،اگر کوئی یہ اعتراض کرے کہ اس سے مراد بعض صحابہ کا فعل ہے،کیوں کہ بعض صحابہ کا عمل حجت ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ صرف ایک آدمی پر جماعت کا لفظ بولا نہیں جاتا۔ )العدة في أصول الفقه:998/3
اسی بات کی وضاحت کرتے ہوئےامام ابن تیمیہ رقم طراز ہیں:
''إذا قال الصحابي أو التابعى كانوا يفعلون كذاحمل ذلك على فعل الجماعة التي هى الأمة دون الواحد منهم''
جب صحابی یا تابعی یہ کہے:''وہ اس اس طرح کرتے تھے''اسے پوری جماعت پر محمول کیا جائے گانہ کہ ان میں سے کسی ایک پر محمول کیا جائےگا۔''
(المسودة في أصول الفقه:296)
اس بارے میں ابو الوفا ابن عقيل الظفری(المتوفى 513ھ)نے لکھا ہے:

''إِذا قالَ الصَّحابيُّ أوِ التابعيُّ: كانوا يفعلونَ كذا، حُمِلَ على الجماعةِ دونَ واحدٍ منهم''
جب صحابی یا تابعی یہ کہے:''وہ اس اس طرح کرتے تھے''اسے پوری جماعت پر محمول کیا جائے گانہ کہ ان میں سے کسی ایک صحابی پر ۔''

(الوَاضِح في أصُولِ الفِقه:65/5
اس طرح جناب ظفر احمد تھانوی لکھتے ہیں:
''إذا قال التابعي:كانوا يفعلون كذا وكانوا يقولون كذاولا يرون بذلك بأسافالظاهر إضافته إلى الصحابةإلا أن يقوم دليل على غير ذلك'' )قواعد فی علوم الحدیث:128
''وہ اس طرح کرتے تھےیا اس طرح کہتے تھےیا وہ اس کے کرنے میں کوئی حرج نہیں سمجھتے تھے،تو یقینا اس کی اضافت صحابہ کی طرف ہے الا کہ اس کے خلاف کوئی دلیل آجائے۔''
جناب بدیع الدین شاہ راشدی نے تھانوی صاحب کے بیان کردہ اصول پر کوئی اعتراض نہیں کیا،بلکہ انھوں نے اس اصول کو سامنے رکھتے ہوئے قرآنی اور غیر قرآنی تعویذ کی کراہت پر استدلال کیا ہے،چناں چہ وہ لکھتے ہیں:
upload_2016-10-21_19-50-36.png
(نقض قواعد فی علوم الحدیث:ص:141
تابعین کے کلام میں کانوا سے کون ہوتا ہے،ان آثار پر غور کرنے سے بات بالکل واضح ہوجاتی ہے:
عَنِ ابْنِ سِيرِينَ، قَالَ: «كَانُوا لَا يَرَوْنَ بِالصُّفْرَةِ وَالْكُدْرَةِ بَأْسًا، يَعْنِي بَعْدَ الْغُسْلِ»
عن عَمْرو بْنِ مَيْمُونٍ الْأَوْدِيَّ، يَقُولُ: «كَانُوا لَا يَتْرُكَونَ أَرْبَعًا قَبْلَ الظُّهْرِ، وَرَكْعَتَيْنِ قَبْلَ الْفَجْرِ عَلَى حَالٍ»
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ قَالَ: حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ قَالَ: أَخْبَرَنَا خَالِدٌ، عَنْ أَبِي الْعَالِيَةِ قَالَ: «كَانُوا يَكْرَهُونَ اخْتِصَارَ السُّجُودِ»
عَنِ الشَّعْبِيِّ قَالَ: «كَانُوا يَكْرَهُونَ اخْتِصَارَ السُّجُودِ، وَكَانُوا يَكْرَهُونَ إِذَا أَتَوْا عَلَى السَّجْدَةِ أَنْ يُجَاوِزُوهَا حَتَّى يَسْجُدُوا»

(مصنف ابن ابی شیبہ)
ان تمام آثار میں بھی لفظ
کانوا کی نسبت اصحاب رسولﷺ کی طرف ہے،اس لیے مندرجہ بالا اصول کو سامنے رکھتے ہوئے یہ کہہ سکتے ہیں کہ مندرجہ بالا آثار میں موجود لفظ کانوا سے مراد صحابہ کرام ہیں،اسی طرح وہ آثار صحابہ جن کی سند کمزور ہے،اس اصول کی وجہ سے درست قرار پاتے ہیں،کیوں کہ تابعین نے ان آثار میں تمام صحابہ سے مشت سے زائد داڑی کاٹنے کو نقل کیا ہے۔ اللہ کا واسطہ اب یہ نہ کہیے گا کہ آپ نے چار صحابہ کرام کا نام پیش کیا ہے۔
 

abdullah786

رکن
شمولیت
نومبر 24، 2015
پیغامات
428
ری ایکشن اسکور
25
پوائنٹ
46

محترم ،
اپ نے جتنے حوالے نقل کیے ہیں ان میں سے اکثر میں حج اور عمرہ کی قید ہے اپ کی یہ روایت عموم پر دلالت نہیں کرتے کے مخصوص حال کے بارے میں بتا رہے ہے جیسے حج کا لباس بھی الگ ہوتا ہے اور وہ حج کے ساتھ مقید ہے اسی طرح یہ استثنیٰ حج کے ساتھ ہی ہے .
دوسری بات اپ نے لکھا ہے کہ نبی صلی الله علیہ وسلم کی داڑھی مبارک نحر کو گھیرے ہوۓ تھے اس حد تک بھی اگر داڑھی ہو تو وہ بھی مشت سے زیاد ہی ہوتی ہے کیوں کہ میری خود کی داڑھی نحر تک ہے اس کو گھیرے ہوے بھی نہیں ہے تب بھی میری داڑھی ایک مشت سے زیادہ ہی ہے تو اپ کی بات منطق کے حساب سے بھی غلط ہے الا یہ کہ اتنی گھنی داڑھی کو کاٹنے کی ضرورت ہی نہ ہو تو میرے نزدیک یہ صحابہ کرام کا عمل ہے اور وہ بھی حج کے ساتھ خاص ہے اس کو عموم پر قیاس کرنا درست نہیں ہے
 

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,100
ری ایکشن اسکور
1,460
پوائنٹ
344

محترم ،
اپ نے جتنے حوالے نقل کیے ہیں ان میں سے اکثر میں حج اور عمرہ کی قید ہے اپ کی یہ روایت عموم پر دلالت نہیں کرتے کے مخصوص حال کے بارے میں بتا رہے ہے جیسے حج کا لباس بھی الگ ہوتا ہے اور وہ حج کے ساتھ مقید ہے اسی طرح یہ استثنیٰ حج کے ساتھ ہی ہے .
محترم عبد اللہ صاحب میرا خیال ہے کہ آپ نے پورے مضمون کا مطالعہ نہیں کیا ہے،اگر آپ نے سارے مضمون کو پڈھا ہوتا تو آپ یہ سوال نہ کرتے،اس مضمون میں اس مقصد کے لیے ایک ہیڈنگ دی ہوئی کہ کیا صحابہ یہ عمل حج و عمرہ کے ساتھ خاص ہے؟ آپ سے گزارش ہے مکمل مضمون کا مطالعہ کر لیں آپ کو آپ کے سوال کا جواب مل جائے گا۔

محترم ،
اپ نے جتنے حوالے نقل کیے ہیں ان میں سے اکثر میں حج اور عمرہ کی قید ہے اپ کی یہ روایت عموم پر دلالت نہیں کرتے کے مخصوص حال کے بارے میں بتا رہے ہے جیسے حج کا لباس بھی الگ ہوتا ہے اور وہ حج کے ساتھ مقید ہے اسی طرح یہ استثنیٰ حج کے ساتھ ہی ہے .
دوسری بات اپ نے لکھا ہے کہ نبی صلی الله علیہ وسلم کی داڑھی مبارک نحر کو گھیرے ہوۓ تھے اس حد تک بھی اگر داڑھی ہو تو وہ بھی مشت سے زیاد ہی ہوتی ہے کیوں کہ میری خود کی داڑھی نحر تک ہے اس کو گھیرے ہوے بھی نہیں ہے تب بھی میری داڑھی ایک مشت سے زیادہ ہی ہے تو اپ کی بات منطق کے حساب سے بھی غلط ہے
ویسے نحر کس کو کہتے ہیں نحر کا حدود اربعہ کیا ہے اس بارے میں کسی لغت کاحوالہ دے دیتے تو آپ کی بات کو مان لیا جاتا مگر آپ نے صرف اپنے نظریے کا اظہار کیا ہے۔
معنى نحر في مختار الصحاح ن ح ر : النَّحْرُ و المَنْحَرُ بوزن المَذْهب موضع القِلادة من الصدر والمَنْحَر أيضا موضع نَحْر الهَدْي وغيره و النَّحْرُ في اللَّبَّة كالذبح في الحلق
(عرض أكثر)
معنى نحر في الصحاح في اللغة النَحْرُ: موضع القلادة من الصدر، وهو المَنْحَرُ. والمَنحَرُ أيضاً: الموضع الذي يُنْحَرُ فيه الهَدِيُ وغيره
معنى نحر في تاج العروس
نَحْرُ الصَّدْرِ : أعْلاه
 
Last edited:

abdullah786

رکن
شمولیت
نومبر 24، 2015
پیغامات
428
ری ایکشن اسکور
25
پوائنٹ
46
حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ محمد بن جعفر الهذلي ، عَنْ شُعْبَةَ بن الحجاج بن الورد، عَنْ منصور بن المعتمر بن عبد الله بن ربيعة بن حريث بن مالك بن رفاعة بن الحارث بن بهثة بن سليم ، قَالَ: سَمِعْتُ عَطَاءَ بْنَ أَبِي رَبَاحٍ، قَالَ: «كَانُوا يُحِبُّونَ أَنْ يُعْفُوا اللِّحْيَةَ إِلَّا فِي حَجٍّ أَوْ عُمْرَةٍ» (مصنف ابن ابي شيبة:الرقم: 25482، سنده صحيح )
تابعی جلیل جناب عطا بن ابی رباح(م
114 ه) بیان کرتے ہیں کہ وہ (ہمارے زمانے کے لوگ یعنی صحابہ کرام و تابعین عظام) صرف حج و عمرے کے موقع پر اپنی مشت سے زائدداڑیاں کاٹنا پسند کیا کرتے تھے

۔
محترم،
نحر کا جو لغت سے اپ نے معنی کیا ہے وہ بھی یہی بنتا ہے کہ سینہ کے اوپر کے جو حلق کا آخری حصہ کھلاتا ہے نحر کہلاتا ہے تو میں نے یہی میں نے عرض کیا تھا کہ اگر ڈارھی نحر تک بھی ہو تو وہ مشت سے اوپر ہو جاتی ہے میں اس لیے جانتا ہوں کہ میری خود کی ڈارھی مشت تک ہے۔دوسری بات میں نے مضمون پڑھا ہے اس لیے عرض کیا تھا کہ یھ حج عمرہ کے ساتھ کیوںنکہ اگر اپ جمھور صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کا عمل لین گے تو وہ حج عمرہ کے ساتھ خاص ہے جیسا اپ ہی کی پیش کی ہوئی روایت میں نے نقل کی ہے اور اس کے ایک جملے کو واضح بھی کیا ہے یہ حج اور عمرہ سے خاص کیا گیا ہے اگر یہ عمل عام حالت میں جائز تھا تو پھر اس روایت کا جواز ختم ہو جائے گا کیونکہ اور اگر عموم والی روایات کو مانا جائے گا تو پھر حج اور عمرہ کا مخصوص کرنا بے سود ہے اور اگر حج عمرہ کے ساتھ خاص ہے ان روایات کو کیا کیجیئے گا جو عموم پر دلالت کرتی ہیں
اس لیے عموم والی روایات خاص کے مقابلے میں کمزور ہے جیسا حسن بصری کے قول میں اشعث ہے اس کی روایت کو اپ نے حسن کہا ہے جبکہ البانی صاحب نے اسکی روایات کو ضعیف الادب المفردمیں نقل کیاہے اور ابو ھریرہ رضی اللہ عنہ والی روایت بھی حسن ہے جو عموم پردلالت کرتی ہے اس لیے میرا موقف یہی ہے کہ یہ حج کے ساتھ خاص ہے جیسا امام شافعی وغیرہ کا موقف ہے واللہ اعلم
 
شمولیت
مارچ 17، 2015
پیغامات
19
ری ایکشن اسکور
3
پوائنٹ
36
میرے علم کے مطابق اس سلسلے میں درست بات یہ ہے کہ ایک مشت سے زائد ہو جائے تو آثار صحابہ کے صحیح ہو جانے پر ایک مشت سے زائد کو کاٹ سکتے ہیں لیکن نہ کاٹنا ہی بہتر و مستحب ہے یعنی یہ صرف جائز ہے اولی نہ کاٹنا ہی ہے
لیکن
اگر کوئی اس جواز کا انکار کرتا ہے
تو
ان سے میرا صرف دو سوال ہے
ایک یہ کہ صحابہ کرام کیا حرام کام کا ارتکاب کرتے تھے
دوسرا یہ کہ اگر کسی کی داڑھی ناف سے نیچے چلی جائے جس سے داڑھی کی بےحرمتی ہوتی ہو
تو وہ کیا کرے گا حضور والا۔۔۔۔؟؟؟؟
 

abdullah786

رکن
شمولیت
نومبر 24، 2015
پیغامات
428
ری ایکشن اسکور
25
پوائنٹ
46
میرے علم کے مطابق اس سلسلے میں درست بات یہ ہے کہ ایک مشت سے زائد ہو جائے تو آثار صحابہ کے صحیح ہو جانے پر ایک مشت سے زائد کو کاٹ سکتے ہیں لیکن نہ کاٹنا ہی بہتر و مستحب ہے یعنی یہ صرف جائز ہے اولی نہ کاٹنا ہی ہے
لیکن
اگر کوئی اس جواز کا انکار کرتا ہے
تو
ان سے میرا صرف دو سوال ہے
ایک یہ کہ صحابہ کرام کیا حرام کام کا ارتکاب کرتے تھے
دوسرا یہ کہ اگر کسی کی داڑھی ناف سے نیچے چلی جائے جس سے داڑھی کی بےحرمتی ہوتی ہو
تو وہ کیا کرے گا حضور والا۔۔۔۔؟؟؟؟

محترم ،
میرے اور اپ کا موقف تقریبا ایک ہی ہے مگر صرف اختلاف یہ ہے کے اپ اس کو عموم پر لے رہے ہے اور میں اس کو حج اور عمرہ کے ساتھ خاص کر رہا ہوں اس حوالے سے چند باتیں عرض ہیں
اضطرابی کیفیت یا کسی خاص حالت کا حکم یہ حالات کو کبھی عموم پر دلالت نہیں کرتے ہیں آج مسلمانوں کی آبادی ١٥٠ ارب سے اوپر ہے اس میں اگر ١٠٠٠٠ لوگوں کی ڈار ھی غیر معمولی طور پر بڑھ کر بے ادبی کے زمرے میں آ گئی ہے تو اس سے پر قیاس کر کے ہر کسی کے لئے اس کو جائز نہیں قرار دیا جا سکتا ہے حکم وہی رہے گا اضطرابی کفیت کی الگ سے دیکھا جائے گا .
دوسری بات اپ نے لکھا کے صحابہ کرام کیا ایک حرام کام کا ارتکاب کرتے تھے
صحابہ سے جو ثابت ہے وو یہی ہے کہ حج یا عمرہ وغیرہ میں اس کی تراشتے تھے اپ نے اس کو اپنے قیاس سے عام حالات پر قیاس کر لیا جبکہ میں لکھ چکا تھا کہ عموم کی دلیل کمزور ہے مثل ابوہریرہ رضی الله عنہ والی روایت جو مصنف ابن ابی شیبہ میں ہے اس میں ابو زرعہ (عمرو بن جریر ) کا سماع ابوہریرہ رضی الله عنہ سے ثابت نہیں ہے اگر مان بھی لیا جائے تو یہ حسن روایت حج اور عمرہ کی تخصیص والی صحیح روایات کے مقابلے میں نہیں آ سکتی ہے اس لئے تراش کو حج اور عمرہ کے ساتھ خاص ہی رکھنا چاہیے
دوسری بات اپ نے جو قیاس کیا ہے کہ کیا حج میں ایک حرام فعل کرنا جائز ہو گا جبکہ اگر یہ عام حالات میں منع ہے تو حج میں بھی منع ہو گا اور اگر حج و عمرے میں جائز ہے تو اپنے عموم میں بھی جائز ہے
متعدد ایسے احکام ہے جو حج میں جائز ہیں مگر عام حالت میں نا پسندیدہ ہیں
(١) بیوی شوہر کے لئے اور شوہر بیوی کے لئے خاص تعلق ممنوع ہے جبکہ عام حالت میں جائز ہے بلکہ اللہ اس سے خوش ہوتا ہے.
(٢) دو نماز جمع کرنا عام حالت میں درست نہیں اپنے وقت پر ہی پڑھنی چاہیے مگر حج میں اسی دو ملا کر ہی پڑھنی ہیں .
(٣) حج میں عورتوں کو چہرہ ڈھکنا حرام ہے مگر عام حالت میں ضروری ہے کے چہرہ چھپائے.
اس طرح کی اور بھی باتیں ہیں تو جو جہاں عموم میں اور خاص میں حکم بدلتا ہے اس لئے ڈار ھی کی تراش خراش بھی حج کے ساتھ خاص ہے جیسے صحابہ کرام رضی الله عنہ کے صریح آثار موجود ہیں جن کی میں نشاندہی اس سے پہلی پوسٹ میں اپ کے پیش کیے حوالے سے کر آیا ہوں تو جو مخصوص ہے اسے عموم میں داخل نہ اور جمہور کی اور خود شیخ العثمین کا فتویٰ بھی یہی ہے کہ اس کو نہ چھیڑنا بہتر ہے واللہ اعلم
 

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,100
ری ایکشن اسکور
1,460
پوائنٹ
344
اگر ڈارھی نحر تک بھی ہو تو وہ مشت سے اوپر ہو جاتی ہے میں اس لیے جانتا ہوں کہ میری خود کی ڈارھی مشت تک ہے۔
میرے بھائی آپ کی یہ بات میری سمجھ میں نہیں آ رہی ہے،شاید آپ ٹھوڈی کو پکر مشت پوری کرتے ہوں گے،یہ مشت داڑی نہیں ہے بلکہ ٹھوڑی کو چھوڑ کر مشت پوری ہوتی ہے
اس لیے عرض کیا تھا کہ یھ حج عمرہ کے ساتھ کیوںنکہ اگر اپ جمھور صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کا عمل لین گے تو وہ حج عمرہ کے ساتھ خاص ہے
یعنی اگر کوئی شخص پانچ دن بعد عمرہ کرے تو وہ داڑی کاٹ سکتا ہے؟
جیسا حسن بصری کے قول میں اشعث ہے اس کی روایت کو اپ نے حسن کہا ہے جبکہ البانی صاحب نے اسکی روایات کو ضعیف الادب المفردمیں نقل کیاہے
جناب میں اس کے لیے دیگر صحابہ کرام کے آثار جیسے ابن عمر،ابوہریرہ،سیدنا علی،عمر بن خطاب،ابراہیم نخعی وغیرہم کو شاہد بنایا ہے
 

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,100
ری ایکشن اسکور
1,460
پوائنٹ
344
اضطرابی کیفیت یا کسی خاص حالت کا حکم یہ حالات کو کبھی عموم پر دلالت نہیں کرتے ہیں آج مسلمانوں کی آبادی ١٥٠ ارب سے اوپر ہے اس میں اگر ١٠٠٠٠ لوگوں کی ڈار ھی غیر معمولی طور پر بڑھ کر بے ادبی کے زمرے میں آ گئی ہے تو اس سے پر قیاس کر کے ہر کسی کے لئے اس کو جائز نہیں قرار دیا جا سکتا ہے حکم وہی رہے گا اضطرابی کفیت کی الگ سے دیکھا جائے گا .
کس اضطرابی کیفیت کی بات کر رہے ہیں،اگر داڑی زیادہ لمبی ہو جائے تو حدیث کے عموم کے سامنے رکھ کر کاٹنا درست نہیں ہے،سکھوں نے رکھی ہیں،ہندوں نے رکھی ہیں،ایک مسلمان کو بھی رکھنی چاہیے؟؟؟؟؟؟؟
 

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,100
ری ایکشن اسکور
1,460
پوائنٹ
344
ضطرابی کیفیت یا کسی خاص حالت کا حکم یہ حالات کو کبھی عموم پر دلالت نہیں کرتے ہیں
کیا اللہ کے رسول اللہﷺ کو اس اضطرابی کیفیت کا علم نہیں تھا؟ کیا آپﷺ کے عہد میں لمبی لمبی داڑیاں نہیں ہوتی تھیں یا کہ آج کے دور میں داڑیاں زیادہ لمبی ہوتی ہیں؟؟؟؟
 
Top