• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ایک گدھے، ایک باندی (نوکرانی) اور اس کی مالکن کی حکایت مولانا رومی کی زبانی

شمولیت
اپریل 27، 2020
پیغامات
529
ری ایکشن اسکور
167
پوائنٹ
77
ایک گدھے، ایک باندی (نوکرانی) اور اس کی مالکن کی حکایت مولانا رومی کی زبانی

از قلم : مفتی اعظم صاحب

مثنوی کا نام سنا ہے ؟

مولانا رومی کا نام تو سنا ہی ہوگا یہ صوفیوں کی دنیا کے ٹاپ ۱۰ صوفیوں میں شمار ہوتے ہیں

مثنوی ان کی شاعری اور حکایات پر مبنی کتاب ہے اور مولانا رومی کی نسبت سے اس کو " مثنوی رومی " بھی کہتے ہیں

مولانا رومی کو تصوف کی دنیا میں وہ مقام حاصل ہے کہ صوفی کہتے ہیں کہ مولانا رومی صرف مسلمانوں نہیں بلکہ عیسائیوں اور یہودیوں کے بھی پیر ہیں اور وہ بھی آپ سے عقیدت رکھتے ہیں

مولانا رومی کی کتاب سے بھی صوفیوں کو بے حد عقیدت ہے اس کتاب کو صوفیوں میں اتنا بلند مقام حاصل ہے کہ اس کو "قرآن در زبان پہلوی " یعنی فارسی زبان کا قرآن کہتے ہیں

برصغیر میں مولانا رومی پر دیوبندیوں کا قبضہ ہے اور وہی اس کی تعلیمات اور مثنوی کو نشر کرتے اور پھیلاتے ہیں سب سے زیادہ فرقہ دیوبند کے بانی امداد اللہ مہاجر مکی اور مولانا اشرف علی تھانوی نے رومی کی تعلیمات کو پھیلایا ہے

اشرف علی تھانوی نے مولانا رومی کی مثنوی کی ۲۴ ضحیم جلدوں میں اردو ترجمہ و شرح بھی لکھی ہے جس کو "کلید مثنوی " کہتے ہیں

مولانا رومی کی مثنوی سے اشرف علی تھانوی کے ترجمے کے ساتھ میں ان شاء اللہ آپ کو ایک ایسا واقعہ سناوں گا جس سے آپ ایک عجیب روحانی و جسمانی کرنٹ محسوس کرو گے۔

تو جناب مثنوی میں مولانا رومی ایک گدھے اور ایک باندی (نوکرانی) اور اس کی مالکن کی حکایت نقل کرتے ہیں یہ حکایت میں سیم ٹو سیم مثنوی سے کوئی کمی بیشی کے بغیر آپ کی نذر کر رہا ہوں چونکہ آج کل لوگوں کی اردو کمزور ہے تو میں نے حسب ضرورت چند الفاظ کے آسان ترجمہ بھی کر دیا ہےجیسے جماع کا (سیکس) اور ذکر کا (آلہ تناسل )

چلیں اب اس شاندار حکایت کا لطف اٹھائے لکن یاد رکھو یہ تمام الفاظ مولانا رومی کے ہیں سیم ٹو سیم ہو بہو جو کہ آپ خود بھی دیکھ سکتے ہو :

ایک باندی نے اپنے اوپر گدھا چڑھا دیا
شہوت کی زیادتی اور تکلیف سے تنگ آکر

باندی نے اس گدھے کو جماع(سیکس) کی عادت ڈالی ہوئی تھی اور اس نے آدمی کی طرح جماع (سیکس) سیکھ لیا تھا

اس چالاک باندی کے پاس ایک کدو تھا جو اس نے خاص اندازے سےگدھے کے ذکر (آلہ تناسل ) میں پھسا دیا تھا

جب وہ گدھے سے سیکس کرتی تو کدو کو خاص اندازے سے پہنا دیتی جس سے گدھے کا آلہ تناسل آدھا اندر جاتا تھا

کیونکہ اگر گدھے کا پورا اس کے اندر جاتا تو اس کا رحم اور انتڑیاں تباہ ہوجاتی

گدھا دن بدن دبلا ہورہا تھا اور اس کی مالکن حیران تھی کہ گدھے کو کیا ہوگیا ہے کہ بال جیسا پتلا ہوتا جارہا ہے

اس نے ماہرین کو دکھایا لیکن وہ گدھے کی کوئی بیماری معلوم نہ کر سکے جس کی وجہ سے وہ دبلا ہورہا ہے

لیکن مالکن جستجو میں لگ گئی اور اس معاملے کا سراغ لگانے کی کوشس کرنے لگی

اب جب اس نے تحقیق کی تو پتہ چلا کہ باندی گدھے کے نیچے ہے اور گدھا اوپر

اس نے دروازے کی درز سے دیکھا کہ باندی نے خود پر گدھا چڑھایا ہوا ہے تو مالکن کو یہ منظر پسند آیا

گدھا باندی کے ساتھ ایسے سیکس کررہا تھا جیسا عورتوں کے مزاج کے مطابق ہوتا ہے

مالکن یہ دیکھ کر حسد میں مبتلا ہوگئی اور اس نے کہا میں اس کی زیادہ حقدار ہوں کیونکہ گدھا تو میرا ہے

اس نے سوچا گدھا یہ کام سیکھا ہوا ہے اور دسترخوان بچھا ہوا اور چراغ روشن ہے یعنی موقع بھی ہے اور لوازمات بھی

اس نے انجان بن کر دروازہ کھٹکھٹایا اور کہا ' ارے باندی اور کتنی دیر گدھے کے اصطبل کی جھاڑو لگاو گی؟"

اس نے جان بوجھ کر انجان بن کر کہا دروازاہ کھول باندی میں آرہی ہوں

باندھی نے جلدی جلدی سامان چھپایا اور دروازہ کھول دیا

باندی نے منہ لٹکایا اور ایسی شکل بنائی جیسے میں روزے دار ہوں اور ہاتھ میں جھاڑو بھی اٹھایا ہوا تھا

مالکن نے دل میں کہا تو بڑی استاد ہے یہ گدھا دیکھو چارے سے ہٹا ہوا ہے اور آدھے سیکس کے بعد غصے سے اپنا آلہ تناسل ہلا رہا ہے

اس کی آنکھیں دروازے پر ہے اور تیرا انتظار کر رہا ہے

لیکن اس نے باندی پر یہ بات ظاہر نہ کی اور اس سے ایسا برتاو کیا جیسے اسے کچھ نہیں پتہ

پھر اس نے باندی کو کہا اچھا ایسا کر سر پر چادر ڈال اور فلاں گھر جا کر میرا پیغام پہنچا

جب باندی گئی تو اس نے خوشی سے دروازہ بند کر دیا وہ شہوت اور مستی سے خوش تھی اور تنہائی پر شکر ادا کیا

اب اس کی شہوت بڑھ گئی اور وہ گدھے کےلئے شہوت کی چنگاری سے بیقرار ہوگی

اس نے گدھے کو اپنی طرف کھینچا اور مکان کے وسط میں لے آئی

اور باندی جس چوکی پر گدھے کے نیچے لیٹی تھی اسی پر گدھے کے آگے لیٹ گئی

گدھے نے اپنا آلہ تناسل نکالا اور پورا اندر گھسا دیا
مالکن میں گدھے کے آلہ تناسل سے آگ لگ گئی

گدھے نے اپنے انڈوں تک مالکن کے اندر کر دیا اور وہ وہی پر مر گئی

گدھے کے آلہ تناسل سے اس کا جگر پھٹ گیا اور انتڑیاں جدا ہوگی

چوکی ایک طرف اور عورت دوسری طرف گر پڑی اور دوسری سانس بھی نہ لی وہی مر گئی

گھر کا صحن خون سے بھر گیا اور عورت اوندھے منہ گر پڑی

باندی گھر آئی اور مالکن کو گدھے کے نیچے مرا ہوا دیکھا تو کہا "اے بیوقوف یہ تونے کیا کیا"

اگر استاد (یعنی مجھ) سے کچھ دیکھ لیا تھا تو اس کا راز جانے بغیر خود ہی شروع ہوگئی

تو نے گدھے کا آلہ تناسل شھد اور حلوے جیسا دیکھا لیکن وہاں پڑا ہوا کدو نہ دیکھا؟

تو گدھے کے عشق میں ایسے مدہوش ہوئی کہ کدو نظر ہی نہ آیا۔


(کلید مثنوی جلد ۱۷-۱۸ صفحہ ۲۱۴-۲۲۲)

FB_IMG_1689550269119.jpg

FB_IMG_1689550272810.jpg

FB_IMG_1689550276188.jpg

FB_IMG_1689550279432.jpg

FB_IMG_1689550282601.jpg


FB_IMG_1689550285801.jpg

FB_IMG_1689550289207.jpg

FB_IMG_1689550292841.jpg

FB_IMG_1689550296211.jpg

FB_IMG_1689550299264.jpg


کیوں مزا آیا ؟ آج کے بعد مغربیوں کو گالیاں تو نہیں دو گے کہ ایسی فلمیں بناتے ہیں جس میں عورتیں خود پر گدھے چڑھاتی ہیں کیونکہ ایسی فلمیں آپ کے صوفی بزرگ صدیوں پہلے ڈائریکٹ کر کے مارکیٹ میں پیش کر چکے بس فرق اتنا ہے کہ تب کیمرا نہیں تھا تو قلم سے کام چلا لیا ورنہ اگر کیمرا ہوتا تو مولانا رومی ضرور اس کی ریکارڈنگ بھی کر لیتا جب کہانی گڑھ لی پورا منظر لکھ دیا تو فلمانا کونسا مشکل تھا ایک دو اداکارائیں اور ایک کھوتا لے کر رومی امت کو سمجھانے کی خاطر یہ واقعہ ضرور فلماتا ! اور پھر یہ بھی دیکھو کہ مولانا اشرف علی تھانوی نے ہو بہو ترجمہ اور تشریح بھی کر ڈالی اور یہ کتاب ہر پانچویں مذہبی دیوبندی کے گھر میں پڑی ہوتی ہے بلکہ کراچی کے شاہ حکیم اختر تو اس کا پڑھنا اور پڑھانا اپنے مریدوں پر لازم کرتے تھے سو یہ گھروں میں ان کی مائیں بہنیں اور بیٹیاں بھی پڑتی ہوں گی اور بہشتی زیور میں جو پورن بیان کرنا باقی رہ گیا تھا وہ یہاں سیکھتی ہوں گی ، یہ ہیں بزرگ یہ ہیں پہنچے ہوئے جس کو اشرف علی تھانوی عارف باللہ کا لقب دیتا ہے یعنی اللہ کا عارف ! اور خود اشرف علی تھانوی کو دیوبندیوں نے حکیم الامت کا لقب دیا ہوا یے اور یہاں امت کا حکیم امت کی عورتوں کو سمجھا رہا ہے کہ گدھے کا کیسے اندر لینا ہے اور کتنا لینا ہے۔
 
Top