• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

بابرکت و باسعادت بڑھاپا

شمولیت
اکتوبر 25، 2014
پیغامات
350
ری ایکشن اسکور
30
پوائنٹ
85
نماز کی رخصتیں
اِستطاعت سے زیادہ بوجھ سے اِستثناء کا حق:
سیدنا ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’جب کوئی تم میں سے نماز پڑھائے (جماعت کروائے) تو ہلکی نماز پڑھے اس لیے کہ جماعت میں بچے، بوڑھے، ناتواں اور بیمار ہوتے ہیں۔ اور جب اکیلے نماز پڑھے تو جس طرح جی چاہے پڑھے‘‘۔ (صحيح مسلم: 467، صحيح البخاري: 703)
نماز ہلکی اور مختصر ہونے کا مفہوم یہ ہے کہ قراءت مختصر اور اذکار تسبیحات کی تعداد مناسب حد تک کم ہو، اہم شرط یہ ہے کہ ارکان میں اعتدال و اطمینان ہو کیونکہ عدم اعتدال سے نماز باطل ہو جاتی ہے۔
غور کیجیے: شریعت میں نماز جیسی اس عظیم عبادت میں بھی معمر افراد کا خیال رکھتے ہوئے اسے مختصر کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔
لہذا بڑھاپے کے باوجود باجماعت نماز کا اہتمام کرنا بڑھاپے کو بابرکت و باسعادت بنانے کے لیے ضروری ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین۔
(ماخوذ: بابرکت و باسعادت بڑھاپا، عمدہ کاغذ کلر پرنٹیڈ کتاب ریاعتی ہدیہ پر دستیاب ہے، جنہیں لینا ہووہ واٹس اپ 03262366183 کریں)۔
 
شمولیت
اکتوبر 25، 2014
پیغامات
350
ری ایکشن اسکور
30
پوائنٹ
85
نماز کی رخصتیں:

اعصابی کمزوری اور جوڑوں کا درد کی وجہ سے:
عمر رسیدہ افراد اعصابی کمزوری اور جوڑوں کے درد میں مبتلا ہوتے ہیں جس کی وجہ سے انہیں نماز کے دوران قیام، رکوع، سجود وغیرہ کی ادائیگی میں جوڑوں میں درد محسوس ہوتا ہے اور وہ نماز کے ان ارکان کو صحیح طور پر ادا کر نہیں پاتے تو اس بارے میں شریعت میں خصوصی رعایت موجود ہے۔ عمران بن حصین ﷟ کو بواسیر کا مرض تھا تو انہوں نے آنحضرت ﷺ سے نماز پڑھنے کے بارے میں دریافت کیا، تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ: ’’ کھڑے ہو کر نماز پڑھا کرو اگر اس کی بھی طاقت نہ ہو تو بیٹھ کر اور اگر اس کی بھی نہ ہو تو پہلو کے بل لیٹ کر پڑھ لو‘‘ ۔ (صحيح البخاري: 1117)

ایسے ہی ایک روایت میں آیا ہے کہ نبی رحمت ﷺ ایک مریض کی عیادت کے لیے تشریف لے گئے تو آپ نے دیکھا کہ وہ ایک لکڑی پر نماز پڑھ رہا ہے اور (سجدہ کرتے وقت) اپنی پیشانی اس پر ٹیکتا ہے، آپ ﷺ نے اس کی طرف اشارہ کیا اور لکڑی کو پھینک دیا، اس نے تکیہ پکڑ لیا، آپ ﷺ نے فرمایا:’’اس کو ہٹا دے، اگر تجھے زمین پر سجدہ کی طاقت ہے تو ٹھیک، وگرنہ اشارے سے نماز پڑھ اور سجدوں کے لیے رکوع کی بہ نسبت زیادہ جھک‘‘۔ (سلسلہ احاديث صحيحہ، ترقیم البانی: 323)

اسی طرح حالت قیام میں یا ایک رکن سے دوسرے رکن کی طرف انتقال میں بیساکھی یا کسی ستون یا ہاتھوں کا سہارا لیا جائے تو اس میں بھی حرج نہیں، خود رسول اللہ ﷺ جب تکلیف میں ہوتے تو چار زانو ہوکر بیٹھتے پھر نماز پڑھتے۔ ام المؤمنین عائشہ ﷝ کہتی ہیں کہ میں نے نبی اکرم ﷺ کو پالتی مار کر بیٹھ کر نماز پڑھتے دیکھا۔(سنن نسائي: 1662)

ایک اور حدیث میں ام المؤمنین عائشہ صدیقہ ﷝ سے روایت ہے، آپؓ نے فرمایا کہ آپ نے رسول اللہ ﷺ کو کبھی بیٹھ کر نماز پڑھتے نہیں دیکھا البتہ جب آپ ضعیف ہو گئے تو قراءت قرآن نماز میں بیٹھ کر کرتے تھے، پھر جب رکوع کا وقت آتا تو کھڑے ہو جاتے اور پھر تقریباً تیس یا چالیس آیتیں پڑھ کر رکوع کرتے۔ (صحيح البخاري: 1118)

اور ہلال بن یساف کہتے ہیں: میں رقہ میں گیا، میرے ساتھیوں نے مجھے کہا: کیا تجھے کسی صحابی سے ملاقات کرنے کی رغبت ہے؟ میں نے کہا: یہ تو غنیمت ہے۔
چنانچہ ہم سیدنا وابصہ رضی اللہ عنہ کے پاس پہنچے۔ میں نے اپنے رفیق سے کہا: ہم پہلے اس کی ظاہری وضع قطع پر نگاہ ڈالیں گے۔ (ہم کیا دیکھتے ہیں کہ) ان کے سر پر دو پھندنوں یا کونوں والی دو پلی ٹوپی ہے اور خاکی رنگ کا اونی اور آستین دار کرتا پہنا ہوا ہے اور وہ اپنی لاٹھی پر ٹیک لگا کر نماز ادا کر رہے ہیں۔ ہم نے سلام کہا اور (نماز میں لاٹھی کا سہارا لینے کے بارے میں) پوچھا۔ انہوں نے کہا: سیدہ ام قیس بنت محصن رضی اللہ عنہا نے مجھے بیان کیا کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عمر رسیدہ ہوئے اور آپ کا جسم بھاری ہو گیا تو ایک ستون کا سہارا لے کر نماز پڑھتے تھے۔ (سلسلہ احاديث صحيحہ ترقیم البانی: 3036)

لہذا ہم بھی بڑھاپے کی ضعف اور کمزوری میں نبی کریم ﷺ کی ان سنتوں کو اپنا سکتے ہیں اور اپنا بڑھاپا بابرکت و باسعادت بنا سکتے ہیں۔
ماخوذ: کتاب بابرکت و باسعادت بڑھاپا، اس کتاب کی پرنٹیڈ ہارڈ کاپیاں موجود ہیں جولینا چاہتے ہوں وہ مجھ سے رابطہ کرسکتے ہیں ، واٹس اپ 03262366183 پر۔
 
شمولیت
اکتوبر 25، 2014
پیغامات
350
ری ایکشن اسکور
30
پوائنٹ
85
نماز کی رخصتیں:

سلسل البول ، سلسل الریاح ، رسنے والا زخم وغیرہ کی وجہ سے رخصتیں

بہت سے بزرگ افراد ان عارضوں میں مبتلا ہوتے ہیں۔ سلسل البول میں پیشاپ کے قطرات گرتے رہتے ہیں ، سلسل الریاح میں ریاح کو روکنے پر کنٹرول نہیں ہوتا اور رسنے والا زخم جس سے خون رستا رہتا ہے۔ ان عارضوں میں مبتلا لوگوں کا وضو برقرار نہیں رہتا، جبکہ نماز کے لیے وضو شرط ہے لیکن جو شخص ایسے کسی عارضے میں مبتلا ہو تو وہ شرعاً معذور ہے۔

ان کا حکم یہ ہے کہ وہ ہر نماز کے لیے نماز کے وقت ہونے پر تازہ وضو کر کے نماز ادا کرلے، پھر وقت کے اندر اندر جس قدر چاہے نماز ادا کرے، جتنا چاہےقرآن پاک پڑھے۔ جب تک وقت باقی ہے، وضو نہیں ٹوٹے گا، ہاں کسی اور وجہ سے وضو ٹوٹ سکتا ہے لیکن جونہی وقت ختم ہوا وضو جاتا رہا۔ اب نئے وقت کی نماز کے لیے از سر نو وضو کرے۔ ایسے شخص کے لیے ضروری ہے کہ وہ ہر نماز کے لیے اس کا وقت ہونے پر تازہ وضو کرے یعنی پانچ وقت کی نماز کے لیے پانچ مرتبہ تازہ وضو کرے۔

بعض علما کہتے ہیں کہ سلسل بول کا مریض انڈر ویئر وغیرہ پہن لے اور اس میں کوئی کپڑا وغیرہ رکھ لے، ہر نماز کے وقت وہ کپڑا تبدیل کر لے۔ پہلے والے کپڑے کو پانی سے دھو کر پاک کرنے کے بعد سُکھا کر دوبارہ استعمال کر سکتا ہے۔ جب بھی وضو کرے صرف وہ کپڑا تبدیل کر لے، پورا لباس تبدیل کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ آج کل بعض لوگ ڈایاپر اور پیمپر بھی استعمال کرتے ہیں، لیکن یہ ہر نماز سے پہلے تبدیل کرنا ضروری ہوگا۔ ڈایاپر اور پیمپر صرف ایک مرتبہ استعمال کرنے کے لیے بنایا جاتا ہے لیکن پھر بھی اگر کوئی پیمپر کو پانی کے ذریعے پاک کرکے اور سُکھا کر دوبارہ استعمال کرنا چاہے تو کوئی حرج نہیں۔ نوٹ: نیز اگر آپ مندرجہ بالا عوارض میں سے کسی میں مبتلا ہیں تو بہتر ہے کہ کسی باشرع مستند ڈاکٹر اور کسی مفتی سے مشورہ کرکے شریعت میں دی گئی رخصت سے فائدہ اٹھائیں۔ اس طرح آپ کو مشورہ کرنے کا ثواب بھی ملے گا ، حجت بھی قائم ہو جائے گی اور آپ گناہ گار ہونے سے بھی بچ جائیں گے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں علماء حق سے مستفید ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

ماخوذ: کتاب بابرکت و باسعادت بڑھاپا، اس کتاب کی پرنٹیڈ ہارڈ کاپیاں موجود ہیں جولینا چاہتے ہوں وہ مجھ سے رابطہ کرسکتے ہیں ، واٹس اپ 03262366183 پر۔
 
شمولیت
اکتوبر 25، 2014
پیغامات
350
ری ایکشن اسکور
30
پوائنٹ
85
نماز کی رخصتیں:

مرض نسیان کی وجہ سے رخصتیں

بہت سے بزرگ افراد طویل العمری کے باعث مرض نسیان یعنی بھولنے کی بیماری میں مبتلا ہو جاتے ہیں، انکی یادداشت کمزور ہوجاتی ہے ، وہ زیادہ دیر تک کچھ یاد نہیں رکھ پاتے، بھول جاتے ہیں کہ انہوں نے وضو کیا تھا یا نہیں، نماز پڑھ لی ہے یا نہیں، یا کتنی رکعت پڑھی ہیں، کتنے سجدے کیے ہیں وغیرہ وغیرہ، یعنی وہ کوئی بھی بات صحیح طور پر یاد نہیں رکھ پاتے، تو شریعت میں ان کے لیے یہ رخصت ہے کہ وہ جس قدر یاد رکھ پائیں اسی قدر کے مکلف ہیں اور جو کچھ وہ بھول جاتے ہیں یاد کرنے کے باوجود یاد نہیں کرپاتے تو وہ اس کے مکلف نہیں ہوں گے، اگر اس کی وجہ سے ان کی کوئی، سجدہ، رکعت یا نماز رہ جائے تو وہ معاف ہے، (ان شاء اللہ) ۔ علما کی اکثریت کا اسی پر اتفاق ہے۔

ابوذرغفاری ﷛ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’اللہ تعالیٰ نے میری امت سے بھول چوک اور جس کام پہ تم مجبور کر دیے جاؤ معاف کر دیا ہے‘‘۔ (سنن ابن ماجہ: 2043)

یعنی جو کام بھول چوک سے غلط ہوجائے اس پر گناہ نہیں البتہ اس کا حکم باقی رہے گا، مثلاً: نماز فرض ہوگی لیکن اگر بھول سے رہ جائے تو اس پر گناہ نہ ہوگا، البتہ اگر بھول سے ایسا کام ہوجائے جس سے کسی کا نقصان ہوجائے تو نقصان کی تلافی واجب ہوگی، اگرچہ نقصان کرنے پر گناہ نہ ہوگا۔

ابوبردہ نے کہا کہ میں نے (اپنے والد) ابوموسیٰ اشعری ﷛ سے بارہا سنا۔ وہ کہا کرتے تھے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ ’’جب بندہ بیمار ہوتا ہے یا سفر کرتا ہے تو اس کے لیے ان تمام عبادات کا ثواب لکھا جاتا ہے جنہیں اقامت یا صحت کے وقت یہ کیا کرتا تھا‘‘۔ (صحيح البخاري: 2996)

مرض نسیان بڑھاپے کی بیماریوں میں سے ایک ہے۔ لہذا جو شخص ساری زندگی حالتِ صحت میں اللہ تعالیٰ کی عبادت میں گزاری ہو، اب پڑھاپے میں پہنچ کر اگر وہ مرض نسیان یا کسی اور بیماری کی وجہ سے پہلے جیسی عبادت نہ کر پائے یا عبادت کرنے میں اس سے بھول چوک ہوجائے تو مندرجہ بالا حدیث کے مطابق اللہ تعالیٰ اپنی فضل سے اسے پہلے جیسی عبادات کرنے کا ثواب دے دیں گے۔ البتہ ایسے افراد کو بکثرت یہ دعا کرتے رہنا چاہیے:

رَبَّنَا لَا تُؤَاخِذْنَا إِن نَّسِينَا أَوْ أَخْطَأْنَا ۚ رَبَّنَا وَلَا تَحْمِلْ عَلَيْنَا إِصْرًا كَمَا حَمَلْتَهُ عَلَى الَّذِينَ مِن قَبْلِنَا ۚ رَبَّنَا وَلَا تُحَمِّلْنَا مَا لَا طَاقَةَ لَنَا بِهِ ۖ وَاعْفُ عَنَّا وَاغْفِرْ لَنَا وَارْحَمْنَا ۚ أَنتَ مَوْلَانَا فَانصُرْنَا عَلَى الْقَوْمِ الْكَافِرِينَ ‎(٢٨٦) سورة البقرة
’’اے ہمارے رب! اگر ہم بھول جائیں یا خطا کر بیٹھیں تو ہماری گرفت نہ فرما، اے ہمارے پروردگار! اور ہم پر اتنا (بھی) بوجھ نہ ڈال جیسا تو نے ہم سے پہلے لوگوں پر ڈالا تھا، اے ہمارے پروردگار! اور ہم پر اتنا بوجھ (بھی) نہ ڈال جسے اٹھانے کی ہم میں طاقت نہیں، اور ہمارے (گناہوں) سے درگزر فرما، اور ہمیں بخش دے، اور ہم پر رحم فرما، تو ہی ہمارا کارساز ہے پس ہمیں کافروں کی قوم پر غلبہ عطا فرما ‘‘۔
ماخوذ: کتاب بابرکت و باسعادت بڑھاپا، اس کتاب کی پرنٹیڈ ہارڈ کاپیاں موجود ہیں جولینا چاہتے ہوں وہ مجھ سے رابطہ کرسکتے ہیں ، واٹس اپ 03262366183 پر۔
 
شمولیت
اکتوبر 25، 2014
پیغامات
350
ری ایکشن اسکور
30
پوائنٹ
85
نماز کی رخصتیں:

بینائی اور سماعت کی کمزوری کے باعث رعایت

بعض عمر رسیدہ افراد کی بینائی کمزور ہو جاتی ہے اور بعض کی سماعت ، جس کی وجہ سے وہ تنہا مسجد جانے میں حادثات کا شکار ہوسکتے ہیں۔ اور اگر انہیں مسجد تک لانے لے جانے والا کوئی نہ ہو تو ایسے افراد کے لیے رخصت یہ ہے کہ جہاں وہ ہوں وہیں نماز پڑھ لیا کریں کیونکہ وہ مسجد پہنچنے سے معذور ہیں۔

محمود بن ربیع انصاری نے بیان کیا ہے کہ عتبان بن مالک انصاری ﷛ رسول اللہ ﷺ کے صحابی اور غزوہ بدر کے حاضر ہونے والوں میں سے تھے، وہ نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہا یا رسول اللہ! میری بینائی میں کچھ فرق آ گیا ہے اور میں اپنی قوم کے لوگوں کو نماز پڑھایا کرتا ہوں لیکن جب برسات کا موسم آتا ہے تو میرے اور میری قوم کے درمیان جو وادی ہے وہ بھر جاتی ہے اور بہنے لگتی ہے تو میں انہیں نماز پڑھانے کے لیے مسجد تک نہیں جا سکتا، یا رسول اللہ! میری خواہش ہے کہ آپ ﷺ میرے گھر تشریف لائیں اور (کسی جگہ) نماز پڑھ دیں تاکہ میں اسے نماز پڑھنے کی جگہ بنا لوں۔ راوی نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے عتبان ﷛ سے فرمایا، انشاء اللہ تعالیٰ میں تمہاری اس خواہش کو پورا کروں گا۔
عتبان ﷛ نے بیان کیا کہ چنانچہ اگلی صبح نبی کریم ﷺ ابوبکر ﷛ کے ساتھ جب سورج کچھ بلند ہو گیا تو تشریف لائے اور نبی کریم ﷺ نے اندر آنے کی اجازت چاہی، میں نے اجازت دے دی۔ جب آپ گھر میں تشریف لائے تو بیٹھے بھی نہیں اور پوچھا کہ تم اپنے گھر کے کس حصہ میں مجھ سے نماز پڑھنے کی خواہش رکھتے ہو۔ عتبان ﷛ نے کہا کہ میں نے گھر میں ایک کونے کی طرف اشارہ کیا، تو رسول اللہ ﷺ (اس جگہ) کھڑے ہوئے اور تکبیر کہی ہم بھی آپ کے پیچھے کھڑے ہو گئے اور صف باندھی، پس آپ نے دو رکعت (نفل) نماز پڑھائی پھر سلام پھیرا۔ (صحيح البخاري: 425، صحيح مسلم:33)
نوٹ: البتہ نماز جمعہ کے لیے بہتر ہے کہ کسی بھی طرح مسجد پہنچنے کا اہتمام کیا جائے۔
ماخوذ: کتاب بابرکت و باسعادت بڑھاپا، اس کتاب کی پرنٹیڈ ہارڈ کاپیاں موجود ہیں جولینا چاہتے ہوں وہ مجھ سے رابطہ کرسکتے ہیں ، واٹس اپ 03262366183 پر۔
 
شمولیت
اکتوبر 25، 2014
پیغامات
350
ری ایکشن اسکور
30
پوائنٹ
85
مسجد میں جانے سے رخصت
جب بڑھاپے میں بیماری کی وجہ سے نقاہت اور کمزوری بڑھ جانے یا موسم کی تبدیلی یا شدت کی وجہ سے بیماری بڑھ جانے کا اندیشہ ہو تو اس حالت میں مسجد میں جماعت سے پیچھے رہنا جائز ہے، اگرچہ مسجد قریب ہی کیوں نہ ہو۔ ایک مرتبہ بیماری کی حالت میں خود رسول اللہ ﷺ مسجد میں جماعت کے لیے حاضر نہ ہوسکے، البتہ گھر میں ہی جماعت کا اہتمام کرلیا، جیسا کہ ام المؤمنین عائشہ ﷝ سے نے روایت کیا ہے کہ’’ رسول اللہ ﷺ نے ایک مرتبہ بیماری کی حالت میں میرے ہی گھر میں نماز پڑھی۔ آپ ﷺ بیٹھ کر نماز پڑھ رہے تھے اور لوگ آپ ﷺ کے پیچھے کھڑے ہو کر پڑھ رہے تھے‘‘ ۔ آپ ﷺ نے ان کو بیٹھنے کا اشارہ کیا اور نماز سے فارغ ہونے کے بعد فرمایا کہ ’’امام اس لیے ہے کہ اس کی پیروی کی جائے۔ اس لیے جب وہ رکوع میں جائے تو تم بھی رکوع میں جاؤ اور جب وہ سر اٹھائے تو تم بھی سر اٹھاؤ اور جب وہ بیٹھ کر نماز پڑھے تو تم بھی بیٹھ کر نماز پڑھو‘‘ ۔ (صحيح البخاري: 688)

نوٹ: واضح رہے یہ سب رخصتیں ہیں ان افراد کے لیےہے جو عام حالت اختیار کرکے نماز ادا نہیں کرسکتے۔

نیز اگر آپ مندرجہ بالا عوارض میں سے کسی میں مبتلا ہیں تو بہتر ہے کہ کسی باشرع مستند ڈاکٹر اور کسی مفتی سے مشورہ کرکے شریعت میں دی گئی رخصت سے فائدہ اٹھائیں۔ اس طرح آپ کو مشورہ کرنے کا ثواب بھی ملے گا اور حجت بھی قائم ہو جائے گی اور آپ گناہ گار ہونے سے بھی بچ جائیں گے۔ اس کے ساتھ ہی شریعت میں دی گئی رخصتوں سے فائدہ اٹھانے سے پہلے ذیل میں درج احادیث کو بھی مد نظر رکھنا ضروری ہے:
  • عمران بن حصین ﷟ نے کہا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے کسی آدمی کے بیٹھ کر نماز پڑھنے کے بارے میں پوچھا کہ آپ ﷺ نے فرمایا کہ ’’ افضل یہی ہے کہ کھڑے ہو کر پڑھے کیونکہ بیٹھ کر پڑھنے والے کو کھڑے ہو کر پڑھنے والے سے آدھا ثواب ملتا ہے اور لیٹے لیٹے پڑھنے والے کو بیٹھ کر پڑھنے والے سے آدھا ثواب ملتا ہے‘‘ ۔ (صحيح البخاري: 1115)
  • ابوہریرہ ﷛ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’جماعت کے ساتھ نماز پڑھنے میں گھر کے اندر یا بازار (دوکان وغیرہ) میں نماز پڑھنے سے پچیس گنا ثواب زیادہ ملتا ہے۔ کیونکہ جب کوئی شخص تم میں سے وضو کرے اور اس کے آداب کا لحاظ رکھے پھر مسجد میں صرف نماز کی غرض سے آئے تو اس کے ہر قدم پر اللہ تعالیٰ ایک درجہ اس کا بلند کرتا ہے اور ایک گناہ اس سے معاف کرتا ہے۔ اس طرح وہ مسجد کے اندر آئے گا۔ مسجد میں آنے کے بعد جب تک نماز کے انتظار میں رہے گا۔ اسے نماز ہی کی حالت میں شمار کیا جائے گا اور جب تک اس جگہ بیٹھا رہے جہاں اس نے نماز پڑھی ہے تو فرشتے اس کے لیے رحمت خداوندی کی دعائیں کرتے ہیں: «اللَّهُمَّ اغْفِرْ لَهُ اللَّهُمَّ ارْحَمْهُ » ۔۔ ’’ اے اللہ! اس کو بخش دے، اے اللہ! اس پر رحم کر ، جب تک کہ ریح خارج کر کے (وہ فرشتوں کو) تکلیف نہ دے‘‘۔ (صحيح البخاري: 477)
  • ابوہریرہ ﷛ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’جب کوئی شخص اچھی طرح وضو کرے، پھر مسجد آئے، اور نماز ہی اس کے گھر سے نکلنے کا سبب ہو، اور وہ نماز کے علاوہ کوئی اور ارادہ نہ رکھتا ہو، تو ہر قدم پہ اللہ تعالیٰ اس کا ایک درجہ بلند کرتا ہے اور ایک گناہ مٹاتا ہے، یہاں تک کہ مسجد میں داخل ہو جائے، پھر مسجد میں داخل ہو گیا تو جب تک نماز اسے روکے رکھے نماز ہی میں رہتا ہے‘‘۔ (سنن ابن ماجہ: 774)
  • عبداللہ بن سعد ﷛ کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم ﷺ سے پوچھا: ’’دونوں میں کون افضل ہے گھر میں نماز پڑھنا یا مسجد میں؟ آپ ﷺ نے فرمایا:’’ تم میرے گھر کو نہیں دیکھتے کس قدر مسجد سے قریب ہے، اس کے باوجود بھی مجھے فرض کے علاوہ نفلی نمازیں گھر میں پڑھنی زیادہ محبوب ہیں‘‘ (یعنی فرض نماز یں مسجد میں جبکہ نفلی نمازیں گھر میں پڑھنا افضل ہے)۔ (سنن ابن ماجہ: 1378) ۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ نوافل کا گھر میں پڑھنا زیادہ افضل ہے۔
  • ابوہریرہ ﷛ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’مسجد میں جو جتنا ہی دور سے آتا ہے، اس کو اتنا ہی زیادہ اجر ملتا ہے‘‘۔ (سنن ابن ماجہ: 782)
  • انس بن مالک ﷛ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’ آدمی کی نماز اپنے گھر میں ایک نماز کے برابر ہے، محلہ کی مسجد میں پچیس نماز کے برابر ہے، اور جامع مسجد میں پانچ سو نماز کے برابر ہے، اور مسجد اقصی اور میری مسجد (مسجد نبوی ﷺ) میں پچاس ہزار نماز کے برابر ہے، اور خانہ کعبہ میں ایک لاکھ نماز کے برابر ہے‘‘۔ (سنن ابن ماجہ: 1413)
ان احادیث کے ذریعہ مساجد کے مراتب اور ان میں نماز پڑھنے کے ثواب کے فرق و درجات کا پتہ چلتا ہے۔ چنانچہ فرمایا گیا ہے کہ سب سے کم تر درجہ تو خود کسی کے گھر کا ہے یعنی اگر کوئی آدمی مسجد کے بجائے اپنے گھر میں نماز پڑھتا ہے تو اسے صرف اسی ایک نماز کا ثواب ملتا ہے اور اگر کوئی آدمی اپنے محلہ کی مسجد میں نماز ادا کرتا ہے تو اسے پچیس نمازوں کا ثواب دیا جاتا ہے اسی طرح جامع مسجد میں نماز پڑھنے والے کو پانچ سو اور بیت المقدس و مسجد نبوی ﷺ میں نماز پڑھنے والے کو اس کی ایک نماز کے بدلے میں پچاس ہزار نمازوں کا ثواب دیا جاتا ہے اور اگر کوئی آدمی مسجد حرام میں نماز پڑھنے کی سعادت حاصل کرے پھر تو اس کے وارے نیارے ہو جاتے ہیں یعنی اسے ایک نماز کے عوض ایک لاکھ نمازوں کا ثواب دیا جاتا ہے۔
لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ مسجد حرام میں چند دن نماز پڑھ کر ایک لاکھ کے حساب سے بقیہ دنوں میں نماز پڑھنا چھوڑ دیا جائے، جیسا کہ بعض لوگ عمرہ و حج پہ جاتے ہیں اور مسجد حرام میں چند دن نماز ادا کرکے سمجھتے ہیں کہ ایک لاکھ کے حساب سے ساری زندگی کی نمازیں ادا کرلیے، اب انہیں مزید نماز پڑھنے کی ضرورت نہیں ، یہ جہالت اور گمراہی ہے۔ فرض نماز موت کےبستر میں موت کے وقت تک پڑھنا فرض ہے۔
اللہ تعالیٰ ہمیں سمجھنے اور عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
ماخوذ: کتاب بابرکت و باسعادت بڑھاپا، اس کتاب کی پرنٹیڈ ہارڈ کاپیاں موجود ہیں جولینا چاہتے ہوں وہ مجھ سے رابطہ کرسکتے ہیں ، واٹس اپ 03262366183 پر۔
۔
 
شمولیت
اکتوبر 25، 2014
پیغامات
350
ری ایکشن اسکور
30
پوائنٹ
85
وضو میں رخصتیں

احادیث میں پگڑی اور موزہ یا جراب پر مسح کا حکم عام ہے۔ اس کی کوئی عذر یا علت بیان نہیں کی گئی ہے کہ صرف مجبوری میں یا سردی سے بچنے کے لیے یا مرض کی وجہ سے مسح کرسکتے ہیں۔ لہذا آدمی بیمار ہو یا تندرست، مقیم ہو یا مسافر، معذور ہو یا غیر معذور، پگڑی یا عمامہ اور موزہ یا جراب پر بلا کسی عذر اور بغیر کسی مجبوری کے کسی بھی موسم میں مسح کرسکتا ہے ۔ عمر رسیدہ افراد وضو کے معاملے میں ان رخصتوں سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ مسح کرنے کا طریقہ اور کس طرح کی موزہ پر مسح کرنا جائز ہے اس کی تفصیل یہاں بیان نہیں کی گئی ہے، اپنے علاقے کے کسی عالم سے اس بارے میں معلومات حاصل کرلیں۔
 
شمولیت
اکتوبر 25، 2014
پیغامات
350
ری ایکشن اسکور
30
پوائنٹ
85
روزے کی رخصتیں

روزہ رکھنے کی بجائے فدیہ ادا کرنا: بوڑھے اور ضعیف افراد جو روزہ رکھنے کی طاقت نہیں رکھتے یا جنہیں روزہ رکھنے کی وجہ سے اپنی استطاعت سے زیادہ مشقت برداشت کرنی پڑتی ہے تو ان کے لیے رخصت یہ ہے کہ وہ روزہ رکھنے کی بجائے فدیہ ادا کر دیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

أَيَّامًا مَّعْدُودَاتٍ ۚ فَمَن كَانَ مِنكُم مَّرِيضًا أَوْ عَلَىٰ سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِّنْ أَيَّامٍ أُخَرَ ۚ وَعَلَى الَّذِينَ يُطِيقُونَهُ فِدْيَةٌ طَعَامُ مِسْكِينٍ ۖ فَمَن تَطَوَّعَ خَيْرًا فَهُوَ خَيْرٌ لَّهُ ۚ وَأَن تَصُومُوا خَيْرٌ لَّكُمْ ۖ إِن كُنتُمْ تَعْلَمُونَ ‎(١٨٤) سورة البقرة
’’چند مقرر دنوں کے روزے ہیں، پس اگر تم میں سے کوئی بیمار ہو یا سفر پر ہو تو دوسرے دنوں (کے روزوں) سے گنتی پوری کر لے، اور جنہیں اس کی طاقت نہ ہو ان کے ذمے ایک مسکین کے کھانے کا بدلہ ہے، پھر جو کوئی اپنی خوشی سے نیکی کرے تو وہ اس کے لیے بہتر ہے، اور تمہارا روزہ رکھ لینا تمہارے لیے بہتر ہے اگر تمہیں سمجھ ہو‘‘

اس سے مراد ’’بہت بوڑھا مرد یا بہت بوڑھی عورت ہے جو روزے کی طاقت نہ رکھتی ہو، انہیں چاہیے کہ ہر روزہ کے بدلے ایک مسکین کو کھانا کھلا دیں‘‘ ۔ (صحیح بخاری:4505 )
یعنی فدیہ دے دیں ۔ البتہ اگر کوئی عمر رسیدہ شخص روزہ رکھنے کی طاقت رکھتا ہو تو اس پر روزہ رکھنا فرض ہے کیونکہ اس کے بعد والی آیت میں (آیت نمبر ۱۸۵ سورۃ البقرۃ) کے ذریعے جو بھی روزہ رکھنے کی طاقت رکھتا ہو اس پر روزہ فرض کیا گیا ہے۔

روزہ کی حالت میں سر پر پانی ڈالنا: نبی ﷺ کے کسی صحابی سے روایت ہے، انہوں نے کہا:’’ میں نے مقام عرج پر نبی ﷺ کو حالت روزہ میں پیاس یا گرمی کی وجہ سے سر پر پانی ڈالتے ہوئے دیکھا‘‘۔ (سنن ابي داود: 2365)۔
لہذا کمزور عمر رسیدہ افراد اگر روزے سے ہوں تو پیاس اور گرمی کی شدت کم کرنے کے لیے سر پر پانی ڈال سکتے ہیں۔
 
شمولیت
اکتوبر 25، 2014
پیغامات
350
ری ایکشن اسکور
30
پوائنٹ
85
حج وعمرہ کی رخصتیں

حج بدل :
اگر کسی عمر رسیدہ شخص کے پاس اتنا مال ہو یا کہیں سے آجائے جس سے وہ سفر حج کے اخراجات پورے کرسکتا ہولیکن وہ کمزوری یا بیماری یا دونوں کی باعث سفر حج کی طاقت نہ رکھتا ہو تو وہ کسی کو اپنا نائب بنا دے اور اپنی جگہ اسے حج پر روانہ کردے، جیسا کہ سیدنا ابن عباس ﷟ نے کہا کہ:حجۃ الوداع کے موقع پر قبیلہ خشعم کی ایک خاتون نے کہا: اللہ کے رسول فریضہ حج نے میرے والد کو پالیا ہے، جو بوڑھا ہے، سواری پر نہیں بیٹھ سکتا، تو کیا میں اسکی طرف سے حج کرلوں؟ آپ نے فرمایا: ہاں۔ (صحيح البخاري: 1854)
ابورزین عقیلی لقیط بن عامر رضی الله عنہ نبی اکرم ﷺ کے پاس آ کر عرض کیا: اللہ کے رسول! میرے والد بہت بوڑھے ہیں، وہ حج و عمرہ کرنے اور سوار ہو کر سفر کرنے کی طاقت نہیں رکھتے۔ (ان کے بارے میں کیا حکم ہے؟) آپ ﷺ نے فرمایا:تم اپنے والد کی طرف سے حج اور عمرہ کر لو۔ (سنن ترمذي: 930 )
عذر کی بنا پر میں احرام کھول دینے کی رخصت
اگر کوئی حج کے لیے نکلنا چاہتا ہو لیکن راہ سفر میں یا دوران حج بیماری وغیرہ کا اندیشہ ہو، تو احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کے بعد حج کے لیے نکل جائے، جیسا کہ سیدہ عائشہ فرماتی ہیں کہ: رسول اللہ ﷺ تشریف لائے ضباعہؓ بنت زبیر کے پاس اور فرمایا: کہ تم نے ارادہ کیا ہے حج کا؟ انہوں نے کہا کہ ہاں قسم ہے اللہ کی لیکن میں اکثر بیمار ہو جاتی ہوں۔ تو آپ ﷺ نے فرمایا: کہ حج کرو اور شرط کرو اور یوں کہو کہ اے اللہ! احرام کھولنا میرا وہیں ہے جہاں تو مجھے روک دے۔ (صحيح مسلم: 1207)
طواف اور سعی میں رخصتیں
اگر کسی کو، خاص کر عمر رسیدہ شخص کو طواف میں رمل (تیز چلنا) ایسے ہی صفا و مروہ کے درمیان سعی میں دوڑنے کی طاقت نہ ہو تو چل لے، جیسا کہ کثیر بن جہمان (تابعی) رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ میں نے ابن عمر کو سعی میں عام چال چلتے دیکھا تو میں نے ان سے کہا: کیا آپ صفا و مروہ کی سعی میں عام چال چلتے ہیں؟ انہوں نے کہا: اگر میں دوڑوں تو میں نے رسول اللہ ﷺ کو دوڑتے بھی دیکھا ہے، اور اگر میں عام چال چلوں تو میں نے رسول اللہ ﷺ کو عام چال چلتے بھی دیکھا ہے، اور میں کافی بوڑھا ہوں۔ (سنن ترمذي: 864، سنن ابي داود: 1904، سنن ابن ماجہ: 2988)
عبداللہ بن عمر کے قول کا یہ مطلب ہے کہ دوڑنا اور معمولی چال سے چلنا دونوں ہی رسول اللہ ﷺ کی سنت ہے، اور میں چونکہ ناتواں بوڑھا ہوں اس لیے میرے لیے چلنے میں حرج نہیں (کہ یہ بھی سنت ہے)۔
سواری پر طواف اور سعی کرنے کی آسانی
اور اگر چلنے کی بھی طاقت نہ ہو تو سواری کے ذریعے طواف اور سعی کرنے کی اجازت ہے، جیسا کہ ام المؤمنین ام سلمہ کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے (حجۃ الوداع میں) اپنی بیماری کا شکوہ کیا (میں نے کہا کہ میں پیدل طواف نہیں کر سکتی) تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ لوگوں کے پیچھے رہ اور سوار ہو کر طواف کر۔ پس میں نے طواف کیا ۔ (صحیح بخاری: 464، صحيح مسلم: 1276)
وقوفِ مزدلفہ اور منیٰ روانگی میں رخصتیں
عمر رسیدہ کمزور مرد و خواتین مزدلفہ سے منی کے لیے رات میں ہی روانہ ہوسکتے ہیں تاکہ رش اور دھکم پیل سے بچ جائیں، جیسا کہ سالم رحمہ اللہ نے کہا: عبداللہ بن عمر اپنے گھر کے کمزوروں کو پہلے ہی بھیج دیا کرتے تھے اور وہ رات ہی میں مزدلفہ میں مشعر حرام کے پاس آ کر ٹھہرتے اور اپنی طاقت کے مطابق اللہ کا ذکر کرتے تھے، پھر امام کے ٹھہرنے اور لوٹنے سے پہلے ہی (منیٰ) آ جاتے تھے، بعض تو منیٰ فجر کی نماز کے وقت پہنچتے اور بعض اس کے بعد، جب منیٰ پہنچتے تو کنکریاں مارتے اور عبداللہ بن عمر فرمایا کرتے تھے کہ رسول اللہ ﷺ نے ان سب لوگوں کے لیے یہ اجازت دی ہے۔ (صحیح بخاری: 1676)

یہ چند رخصتیں ہیں جو بطور مثال کے پیش کی گئی ہیں۔ ان کے علاوہ بھی کئی رخصتیں ہیں جن کا تعلق عمر رسیدہ، کمزوروں اور بیماروں سے ہے، یہاں ایسے افراد کے لیے آسانیاں پیدا کرنے کی نیت سے شریعت میں جو رخصتیں دی گئی ہیں ان میں بعض کو لکھ دیا گیا ہے۔ دین اسلام آسان ہے۔ لہذا ان سے فائدہ اٹھائیں اور اپنے بڑھاپے کو آسان، بابرکت و باسعادت بنائیں۔
ماخوذ: کتاب بابرکت و باسعادت بڑھاپا، اس کتاب کی پرنٹیڈ ہارڈ کاپیاں موجود ہیں جولینا چاہتے ہوں وہ مجھ سے رابطہ کرسکتے ہیں ، واٹس اپ 03262366183 پر۔
۔
 
شمولیت
اکتوبر 25، 2014
پیغامات
350
ری ایکشن اسکور
30
پوائنٹ
85
بڑھاپے کے ہلاک کردینے والے گناہ

[حَبْطِ اَعْمال یعنی وہ گناہ جس سے تمام نیکیاں ضائع ہوجاتی ہیں]
گناہ گار شخص کی زندگی سے خیر و برکت اٹھ جاتی ہے۔ اکثر ایسا بھی ہوتا ہے کہ بعض لوگ ساری زندگی نیک اعمال کرتے رہتے ہیں لیکن بڑھاپے میں کسی ایسے گناہ میں ملوث ہوجاتے ہیں جس کی وجہ سے ان کی ساری زندگی کی نیکیاں برباد ہوجاتی ہیں۔ اس لیے ایسے گناہوں کو جاننا اور ان سے بچنا خاص طور پر بڑھاپے میں بہت ضروری ہے۔ اس باب میں ہم اسی نکتے پر بات کریں گے۔
 
Top