• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

بدعات اور ان کا پوسٹ مارٹم

ناصر رانا

رکن مکتبہ محدث
شمولیت
مئی 09، 2011
پیغامات
1,171
ری ایکشن اسکور
5,454
پوائنٹ
306
7۔ نماز برائے دفع خصومت
اگر کسی شخص کا کسی سے جھگڑا ہو گیا ہو او رپھر وہ جھگڑے کو رفع دفع کرنا چاہے تو اس کے لئے بھی یار لوگوں نے ایک نماز ایجاد کر لی ہے میں نے اس نمازکا ذکر بھی غنیہ الطالبین ہی میں پڑھا ہے اس کتاب میں اس نماز کے بارے میں لکھا ہے
’’اگر کوئی خصومت کو دور کرنا چاہے تو وہ ایک سلام کے ساتھ چاررکعت ادا کرے اور پہلی رکعت میں سورئہ فاتحہ اور سورئہ اخلاص گیارہ مرتبہ پڑھے ، دوسری میں سورئہ فاتحہ اور سورئہ اخلاص دس بار پڑھے اور تین بار سورئہ کافرون پڑھے ، تیسری رکعت میں سورئہ فاتحہ اور سورئہ اخلاص دس بار اورا یک دفعہ اَلْہٰکُمُ التَّکَاثُر پڑھے اور چوتھی رکعت میں سورہ فاتحہ اور سورئہ اخلاص پندرہ بار پڑھے اورایک دفعہ آیۃ الکرسی پڑھنے کے بعداس کا ثواب اپنے دشمنوںکو بخش دے ۔ قیامت کے دن اللہ نے چاہا تو وہ اس کے کام میں کافی ہو گا
اور جو نماز مذکور ہوئی ہے اس کو ان سات وقتوں میں پڑھے ، رجب کے مہینے کی پہلی رات میں ،ماہ شعبان کی پندرھویں رات میں ، ماہِ رمضان کے آخری جمعہ میں ، دونوں عیدوں کے دنوں میں اور عرفہ و عاشورہ کے دنوں میں ‘‘ میںنے اکثر صوفیوں کو ان مذکورہ تاریخوںمیں بکثرت نمازیں پڑھتے دیکھا ہے ہو سکتا ہے کہ وہ لوگ یہی نماز پڑھتے ہوں ۔ بہرکیف نبی اکرمﷺ سے اس نماز کی ادائیگی کا کوئی ثبوت اور احادیث شریفہ و صحیحہ میں مجھے نہیں مل سکا اور نہ ہی کوئی ایسا فرمانِ گرامی کہ جس میں آپؐ نے ایسی نماز پڑھنے کا حکم دیا ہو یا ایسی نماز پڑھنے کی فضیلت بیان فرمائی ہو لہٰذا ثابت ہوا کہ یہ نماز بدعت اور پڑھنے والے بدعتی ہیں ۔
 

ناصر رانا

رکن مکتبہ محدث
شمولیت
مئی 09، 2011
پیغامات
1,171
ری ایکشن اسکور
5,454
پوائنٹ
306
8۔ صلوٰۃِ رجب
غنیہ الطالبین میں مذکور ہے
کہ ’’پیغمبرؐ نے ماہِ رجب میں چاند دیکھااور فرمایا کہ اے مسلمان ! اگر کوئی مومن او رمومنہ رجب کے مہینے میں تیس رکعت نماز پڑھے اور ہر رکعت میں ایک دفعہ سورۃ فاتحہ، تین دفعہ قُلْ ہُوَ اﷲُ اَحَدٌ اور تین دفعہ قُلْ یَاَیُّہَا الْکَافِرُوْنَ پڑھے تو اللہ تعالیٰ اس کے سارے گناہ معاف کر دے کا اور اس کو اس قدر ثواب عطا کرے کا کہ جس قدر مہینہ بھر روزہ رکھنے والے آدمی کو ملتا ہے اور آئیندہ سال کے نماز گزاروں میں اس کا نام لکھ لیا جائے گا اور ہر روز اسکے اعمال نامے میں اتنا عمل لکھا جائے گا کہ جس قدر بدرؔ کے شہیدوںمیں سے ایک کو ملا ہے اور ہر ایک روزے کے عوض اس کو ایک سال کی عبادت کا ثواب بھی عطا کرے گا اور ایک ہزار درجے بھی بڑھا دیں گے اور اگر کوئی سارا مہینہ ہی روزے رکھے گا اور مہینہ بھر ہی نماز پڑھے گا تو اللہ تعالیٰ اس کو دوزخ کی آگ سے نجات دے گا اور بہشت اس کے حق میں واجب کر دے گا اور اس کو اللہ تعالیٰ کی حضوری بھی نصیب ہو گی ‘‘
اس روایت کی حقیقت مجھے احادیث صحیحہ میں کہیں بھی نہیں مل سکی بلکہ موضوعات کبیر میں ملا علی قاریؔ نے رجب و شعبان کی تمام نمازوں اور انکی روایات کو موضوع قرار دیا ہے ۔ نیز ’’اَلتَّحْذِیْرُ مِنَ الْبِدَعِ‘‘ میں سماحۃ الشیخ عبدالعزیز بن بازؔ مفتی اعظم سعودی عربیہ نے لکھا ہے
’’عبادت کے لئے شعبان کی پندرھویں شب یا رجب کی پہلی جمعرات یا شبِ اسراء و معراج کو خاص کرنا جائز ہوتا تو رسول اللہ ﷺ اپنی امت کو ضرور اس کی راہ نمائی کرتے یا خود یہ کام کرتے اور ان میں سے کوئی چیز آپؐ سے واقع ہوئی ہوتی تو صحابہ کرامؓ اس کو ضرور نقل کرتے اور اس کو امت سے نہ چھپاتے‘‘۔ (صفحہ ۳۹)
چونکہ رجب کی نماز کاکوئی ثبوت احادیث صحیحہ سے نہیں ملتا ہے لہہذا ہم محض صوفیا کی باتوں میں آکر اس پر عمل پیرا نہیں ہو سکتے اس لئے کہ عبادت وہ نہیں ہے جو کہ صوفیاء سے ثابت ہو عبادت وہ ہے جو کہ رسول اللہ ﷺ سے ثابت ہو ۔ رجب کی نماز یقینا بدعت ہے ۔ اور یہ بھی غنیہ الطالبین میں کی جانے والی تحریفات میں سے ایک تحریف دکھائی دیتی ہے اگر کوئی اس نماز کے بدعت ہونے پر یقین نہیں رکھتا ہے تو اس کو چاہئیے کہ پھر حدیث صحیحہ سے یا تو ثابت کر کے دکھائے یا پھر اس کو بدعت سمجھتے ہوئے ٹھکرا دے کہ ہدایت کی راہ یہی ہے ۔
 

ناصر رانا

رکن مکتبہ محدث
شمولیت
مئی 09، 2011
پیغامات
1,171
ری ایکشن اسکور
5,454
پوائنٹ
306
9۔ صلوٰۃ الحولی
صوفیائے فارس و پاک و ہند میں ایک نماز صلٰوۃ الحولی کے نام سے معروف ہے کہتے ہیں
کہ یہ نماز سال میں صرف ایک بار پڑھی جاتی ہے یہ اس لئے کہ پورے برس کے دن اس نماز کی برکات کے سبب امن سے گزریں ۔ نیز گزرے ہوئے برس کے دنوں کے گناہ معاف ہوں ۔
میں نے مختلف باطنی سلسلوں سے تعلق رکھنے والے صوفیوں کو اس نماز کا عادی پایا ہے نیز اس نماز کے فضائل ان کی زبانی سنے ہیں ہوسکتا ہے کہ یہ فضائل کسی کتاب میں بھی درج ہوں لیکن میری نظر سے ایسی کوئی کتاب نہیں گزری ۔
میں نے صوفیاء کی معروف کتب میں اسے بہت تلاش کیا ہو سکتا ہے کہ اس کا ذکر کسی ایسی کتاب میں جس کا میں نے مطالعہ نہ کیا ہو اور ہو سکتا ہے کہ اس کے فضائل و مناقب باطنی روایات کے مطابق سینہ بسینہ چلے آ رہے ہوں ۔
بہر کیف رسول اللہ ﷺ سے یہ امر ثابت نہیں ہے ۔ آپؐ نے صلوٰۃ الحولی کے نام سے نبوت و رسالت کی ساڑھے تئیس برس کی زندگی میں کوئی نماز ادا نہیں فرمائی نہ ہی ایسی کسی نماز کے فضائل بیان فرمائے نہ آپ کے فیض یافتہ اور تربیت یافتہ صحابہ کرامؓ سے ایسی نماز انفرادی و اجتماعی طور پر ثابت ہے نہ ہی تابعین کرام سے اس کا ثبوت ملتا ہے پھر ایسی صورت میں ہمارا یہ کہناکیوں کر غلط ہو سکتا ہے کہ صلوٰۃ الحولی بدعت اور اس کے اداکرنے والے بدعتی ہیں ۔
 

ناصر رانا

رکن مکتبہ محدث
شمولیت
مئی 09، 2011
پیغامات
1,171
ری ایکشن اسکور
5,454
پوائنٹ
306
10۔ صلوٰۃ الالفیہ
اس نماز کو صوفیاء صلاۃ الخیر بھی کہتے ہیں اس نماز کے بارے میں غنیہ الطالبین میں لکھا ہے کہ
’’ وہ نماز جو نصف شعبان میں وارد ہے وہ سو رکعت ہے جس میں ایک ہزار بار قُلْ ہُوَ اﷲُ اَحَدٌ پڑھی جائے گی ، ہر رکعت میں دس مرتبہ اس نماز کو صلاۃ الخیر کہتے ہیں ۔ اس کی برکات پھیلتی ہیں اور سلف صالح اس نماز کو جماعت کے ساتھ پڑھتے ، ا سکے لئے جمع ہوتے ۔ اس میں بہت بڑی فضیلت اور بہت بڑا ثواب ہے ۔
(بحوالہ شب برأت ایک تحقیقی جائزہ از حبیب الرحمن کاندھلوی)
علاوہ ازیں غنیہ الطالبین مں سیدنا حسن بصریؒ سے ایک حدیث بھی منقول ہے جس میں وہ فرماتے ہیں ’’حَدَّثَنِیْ ثَلاَثُوْنَ مِنْ اَصْحَابِ رَسُوْلِ اﷲِ ﷺ اِنَّ مَنْ صَلّٰی ہٰذِہِ الصَّلاَۃَ فِیْ ہٰذِہٖ اللَّیْلَۃَ قَضٰی اﷲُ لَہٗ سَبْعِیْنَ حَاجَۃً لَّہٗ اَدْنَاہَا الْمَغْفِرَۃُ‘‘ یعنی مجھ سے تیس صحابہ کرامؓ نے بیان کیا کہ جو شخص اس رات کو یعنی نصف شبان کی شب کو یہ نماز ادا کرے کا اللہ تعالیٰ اس کی سترحاجتیں پوری فرمائے گا جن میں ادنیٰ ترین اس کی مغفرت ہے ۔ (بحوالہ کتابِ مذکور) ۔
غنیہ الطالبین کی اس روایت کو اور حسن بصریؒ کی بیان کردہ اس حدیث کو محدثین کرام اور فقہائے اسلام کی ایک بہت بڑی تعداد نے مسترد کر دیا ہے جس کسی کو اس کی حقیقت جاننی ہو تو وہ کتابِ مذکور شب برأت ایک تحقیقی جائزہ کی طرف مراجعت کرے ۔ باوجود یہ کہ اس کتاب کے مصنف کی نیت درست نہیںہے اس نے اس کتاب کے ذریعے قاری کو احادیث سے برگشتہ کرنے کی کوشش کی ہے نیز احادیث ضعیفہ کے ساتھ ساتھ احادیث صحیحہ کا صفایا کرنے کی مہم بھی اس نے چلا رکھی ہے لیکن چونکہ شعبان سے متعلق روایات واقعتا ضعیف ہی ہیں لہٰذا اسی وجہ سے ہم نے اس کتاب پر ان ضعیف روایات پر جرح کے سلسلے میں اعتماد کیا ہے ۔ چنانچہ علامہ ابن الجوزیؒ، علامہ حافظ ذہبیؒ، ملا علی قاری حنفیؒ، علامہ ابن القیمؒ، علامہ محمد طاہر بن علی ہندیؔ وغیرہ سب کے فیصلے ہیں کہ یہ نماز بدعت ہے اور احادیث صحیحہ سے اس کا کوئی ثبوت نہیں ملتا ہے ۔ ان علماء کا فیصلہ ہے کہ صلوٰۃ الالفیہ سے تعلق رکھنے والی روایات سب کی سب موضوع ہیں ۔ علاوہ ازیں
علامہ شوکانیؒ نے لکھا ہے کہ ’’یہ حدیث موضوع ہے کہ اے علیؒ شعبان کی پندرھویں شب کو جو سو رکعت ادا کرے اور ہ رکعت میں سورئہ فاتحہ اور دس دفعہ قُلْ ہُوَ اﷲُ اَحَدٌ پڑھے اللہ تعالیٰ اس کی ہر ایک حاجت پوری کرے گا اس حدیث کے صریح الفاظ میں اس شب کے عامل کے لئے اس قدر ثواب کا ذکر ہے کہ صاحبِ تمیز اس کے موضوع ہونے میں شک نہیں کر سکتا اور اس کے راوی مجہول ہیں ۔
دو اور طریق سے بھی یہ حدیث مروی ہے تمام کی تمام موضوع اور ان کے راوی مجہول ہیں‘‘۔
(الفوائد المجموع بحوالہ التحذیر مِنَ البدع)
نیز سماحۃ الشیخ عبدالعزیز بن بازؔ نے اس نماز پر جرح کرتے ہوئے تحریر فرمایا ہے کہ اس سے متعلق تمام روایات باطل او رموضوع ہیں ۔ (التحذیر من البدع)
ان تمام حقائق کی روشنی میں کیا یہ امر اب واضح نہیں کہ صلوٰۃ الالفیہ یا صلاۃ الخیر ایک کھلی بدعت ہے ؟ اس کا نبی کریم ﷺ سے احادیث صحیحہ سے کوئی ثبوت نہیں ملتا ہے لہٰذا ہمارے لئے اب اس کے سوا کوئی چارئہ کار نہیں رہتا کہ ہم اس بدعت کو ترک کر دیں اگر ہم واقعتا نبی علیہ السلام کے فرماں بردار ہیں ۔
 

ناصر رانا

رکن مکتبہ محدث
شمولیت
مئی 09، 2011
پیغامات
1,171
ری ایکشن اسکور
5,454
پوائنٹ
306
۱۱:۔ قیام نصف شعبان:۔
اس بدعت پر ہم نے بدعات اور ان کا تعارف میں جرح کی تھی جس کا عنوان ’’شب برأت‘‘ تھا ۔ اس عنوان کے تحت شبِ برأت سے متعلق بدعات مثلاً حلوہ پکانا ، آتش بازی کرنا ، مساجد پر چراغاں اور ان میں نوافل کا اہتمام وغیرہ پر جرح و تنقید کی تھی اور یہ بتایا تھا کہ یہ امور اللہ کے رسول ﷺ سے ثابت نہیں ہیں لیکن بعد میں چند کرم فرماؤں نے اس امر پر اعتراض کیا کہ قیام نصف شعبان کو بدعت نہیں لکھنا تھا اس لئے کہ احادیث ضعیفہ سے بہر حال ان کا ثبوت ملتا ہے اور ایسی صورت میں اس قیام کو بدعت نہیں کہا جا سکتا ۔ چنانچہ اس پر مزید وضاحتیں حسب توفیق الہٰی معترضین کی خدمت میںپیش کرتا ہوں :
اندازِ بیاں گرچہ بہت شوخ نہیں ہے
شاید کہ تیرے دل میں اتر جائے میری بات
سب سے پہلی بات یہ ہے کہ کیا عبادت میں احادیث ضعیفہ قابلِ عمل ہیں ؟ جیسا کہ معترضین نے احادیث ضعیفہ کی بنیاد پر قیام نصف شعبان کو بدعت تسلیم کرنے سے انکار کیا ہے ۔ اسی اعتراض پر عالم ربانی عبدالعزیز بن بازؔ نے التحذیر من البدع میں بحث کی ہے اور لکھا ہے کہ
’’عبادات میں ضعیف حدیث اس وقت قابل عمل ہوتی ہے جب صحیح دلائل سے اس کی اصل بنیاد (شرع سے) ثابت ہو ۔ یہ جلیل القدر قاعدہ شیخ الاسلام امام ابو العباس ابن تیمیہؒ نے ذکر کیا ہے‘‘۔ (صفحہ ۲۹ مترجم)
میں امم ابن تیمیہؒ کے اس قاعدے کی روشنی میں معترضین کی خدمت میں بصد ادب عرض کرتا ہوں کہ کیا وہ قیام نصف شعبان کو احادیث صحیحہ مرفوعہ کے دلائل سے ثابت کر سکتے ہیں تاکہ شرع سے ہمیں اسکی اصل بنیاد مل جائے ؟ فَاْتُوْا بُرْہَانَکُمْ !
پھر شیخ نے اسی کتاب میں لکھا ہے ’
’اس شب کے بار ے میں ضعیف اور غیر معتبر روایات مروی ہیں اور اہل علم نے بتایا ہے کہ اس شب میں نماز پڑھنے کی فضیلت کے متعلق احادیث تمام کی تمام موضوع او رمن گھڑت ہیں‘‘۔ (صفحہ ۲۷،۲۸ مترجم)
نیز اسی کتاب میں لکھا ہے
’’اس مسئلے کے بارے میں حالم ابن رجبؒ نے اپنی کتاب لطائف المعارف میں فرمایا ہے کہ اسرائیلی روایات کی بناء پر اہل شام کے بعض تابعین خالد بن معدان ، مکحول ، لقمان بن عامر وغیرہم اس شب کی عظمت بیان کرتے اور عبادت کا اہتمام کرتے ، انہی سے دوسرے لوگوں نے حاصل کیا اور جب یہ چیز دوسرے شہروں میں مشہور ہو گئی تو اہل بصرہ وغیرہ کے پعض عابد و زاہد لوگوں نے اس کی موافقت کی اور اسے قبول کر لیا لیکن اکثر علمائے حجاز عطاء او رابن ابی سلیکہ اور فقہائے مدینہ منورہ اور اصحاب امام مالکؒ نے اسکی تردید کی ہے ا ور اسے بدعت قرار دیا ہے ۔
اس شب کو زندہ رکھنے کی کیفیت کے بارے میں علمائے اہل شام کے دو قول ہیں:
1:۔ مساجد میں باجماعت نماز مستحب ہے ۔ خالد بن معدان، لقمان بن عامرؔ وغیرہ اس شب میں بہترین کپڑے پہنتے ، خوشبو اور سرمہ لگاتے اور پوری رات قیام کرتے ۔ حرب کرمانیؔ نے اپنے مسائل میں نقل کیا ہے کہ اسحق بن بن راہویہؒ نے اس مسلئے میں ان کی موافقت کی ہے اور فرمایا کہ مساجد میں اس شب کا قیام بدعت نہیں ہے ۔
2:۔ اہل شام کے عالم و فقیہہ اور امام اوزاعی ؒکا قول یہ ہے کہ نماز قصہ گوئی اور دعا کے لئے اس شب میں مسجدوں میں جمع ہونا مکروہ ہے اور تنہا نماز پڑھنا مکروہ نہیں ہے اور انشاء اللہ یہی قول درست ہے ۔ اس شب کے بارے میں امام احمد بن حنبلؒ سے کچھ منقول نہیں ہے ۔ شبِ عید الفطر و عید الاضحی کے قیام کے بارے میں امام احمدؒ سے دو روایات منقول ہیں اسی سے شبِ پندرھویں شعبان کے متعلق دو روایت کا استنباط کیاجا سکتا ہے ایک روایت میںاس شب کا قیام مستحب نہیں کیونکہ رسول اللہ ﷺ اور صحابہ کرامؓ سے منقول نہیں ہے او ردوسری روایت میں عبدالرحمن بن یزید الاسود تابعی کے فعل و عمل کی وجہ سے امام احمدؒ نے مستحب سمجھا ہے ۔ اسی طرح شعبان کی پندرھویں شب کے قیام کے متعلق رسول اللہ ﷺ سے کچھ ثابت نہیں ہے ۔ اہل شام کے بڑے بڑے فقہاء و تابعین سے اس شب کے متعلق ثابت ہے‘‘۔
(التحذیر من البدع صفحہ ۳۳ مترجم استاذی محترم مولانا کرم الدین السلفیؒ)
حافظ ابن رجب کے اس کلام سے درج ذیل امور ثابت ہوئے :۔
(1) پندرھویں شب کا قیام رسول اللہ ﷺ اور آپ کے صحابہ سے قطعاً ثابت نہیں ہے ۔
(2) پندرھویں شعبان کے قیام کی بدعت اہل شام نے نکالی ہے اور اس کی اصلی اسرائیلی روایات ہیں نہ کہ قرآن و حدیث ہیں ۔
(3) اس بدعت کا ارتکاب کرنے والے اور اپنانے والے صوفی عابد اور زاہد قسم کے لوگ تھے جبکہ علماء و فقہاء نے اس کی تردید کی اور اسے بدعت قرار دیا ۔
(4) خالد بن معدانؔ، مکحولؔ، لقمان بن عامرؔ، اسحق بن راہویہؔ، امام اوزاعیؔ، عبدالرحمن بن یزید الاسودؔ اور دیگر اہل شام سے اس شب کی عبادت ثابت ہے ۔ (پس صرف ان حضرات سے ثبوت دلیل نہیں کہلا سکتا اس لئے کہ یہ غیر نبی ہیں ان کا فعل شرعاً حجت نہیں ہے)۔
اب سوال یہ ہے کہ جو عبادت رسول اللہ ﷺ سے ثابت نہیں ہے کیا اسے اس بنیاد پر عبادت تسلیم کر لیا جائے اور اس پر عمل کیا جائے کہ وہ مذکورہ بالا بزرگ ہستیوں سے تو کم از کم ثابت ہے ؟ اگر معترضین ہاں کہتے ہیں تو میں کہتا ہوں کہ اس کے لئے شریعت سے دلیل پیش کرو جو کہ نص قطعی ہو ۔ اس لئے کہ یہ معاملہ ہمارے گھر کا نہیں بلکہ اللہ کے دین کاہے او رکان کھول کر سن لیجئے کہ نبی اکرم ﷺ نے کسی بھی شخص کو اس قسم کا اختیار نہیں دیا ہے کہ وہ دنیا سے آپ کے چلے جانے کے بعد آپ کی شریعت میں عبادات و احکام وغیرہ کے اضافے کرے بلکہ آپ کا واضح فرمان ہے
’’مَنْ اَحْدَثَ فِیْ اَمْرِنَا ہٰذَا مَالَیْسَ مِنْہٗ فَہُوَ رَدٌّ‘‘ (متفق علیہ)
یعنی جس نے ہماری شریعت میں ایسی نئی چیز نکالی جو اس میں پہلی سے نہیں تھی تو وہ نئی بات مردود ہے
لہٰذا اس حدیث کی روشنی میں ہمارا یہ فیصلہ ہے کہ ہر اس بدعت کو پائے استحقار سے ٹھکرا دیا جائے جو شریعت اسلامی کو مسخ کر رہی ہو اور پندرھویں شعبان کی یہ عبادت بھی اسی لائق ہے ۔
اسی شب سے متعلق امام ابو بکر طرطوشیؔ نے لکھا ہے ’’ابنِ وضّاحؒ نے زید بن اسلمؔ کا قول نقل کیا ہے کہ میں نے اپنے مشائح و فقہاء میں کسی ایک کو بھی پندرھویں شعبان کی رات اور مکحولؔ کے طر عمل کی طرف توجہ کرتے ہوئے نہیںپایا ۔ اور وہ اس رات کو دوسری راتوں پر کوئی فضیلت نہیں دیتے تھے ۔ ابن اب ملیکہؔ سے کہا گیا کہ زیاد نمیریؔ کہتاہے کہ پندرھویں شعبان کی رات کا ثواب شب قدر کے برابر ہے ۔ اس نے کہا اگر میں اس کو سنتا اور میرے ہاتھ میں لاٹھی ہوتی تو میں اس کو ضرور مارتا کیونکہ زیاد قصہ گو تھا‘‘۔ (الحوادث والبدع بحوالہ التحذیر من البدع مترجم صفحہ ۳۴)
حافظ عراقیؒ نے فرمایا ’’شب نصف شعبان کی نماز کے بارے میں حدیث رسول اللہ ﷺ پر من گھڑت ہے‘‘ ۔ نیز امام نوویؒ نے الجموع مین کہا ہے کہ صلوٰۃ الرغائب کی نمازِ مشہور جو رجب کی پہلی جمعرات کو بارہ رکعت مغرب و عشاء کے درمیان میں پڑھی جاتی ہے اور نصف شعبان میں سور رکعت کی نماز، بدترین بدعت ہیں‘‘۔ (بحوالہ التحذیر من البدع صفحہ۳۷)
علامہ محمد طاہر پٹنیؒ نے لکھا ہے ’’ابن العربیؔ نے حدیث عائشہؓ کو جو کہ شعبان کی نصف رات کو مطلقاً اس نماز کے بارے میں ہے ضعیف ہے جس کے الفاظ ہیں کہ بنو کلب کی بھیڑوں کے بالوں کے لوگ جہنم کی آگ سے آزاد کئے جاتے ہیں ۔ (تذکرۃ الموضوعات ص۴۶) علامہ عینی حنفی نے لکھا ہے ’’البتہ وہ تمام احادیث جو کہ پندرھویں شعبان کی رات کی نمازوں سے متعلق روایات کی گئی ہیں تو ابو الخطاب بن دحیہؔ نے ان کے بارے میں کہا ہے کہ وہ سب من گھڑت یعنی موضوع ہیں ان میں ایک حدیثِ ترمذی بھی ہے جو دو مقامات سے منقطع ہے‘‘۔ (فتح الملہم شرح مسلم جلد سوم مترجم)
ملا علی قاری حنفی نے اپنی موضوعات کبیرمیں امام ابن قیم الجوزیؔؒ کا یہ قول نقل کیا ہے جو موضوع روایات کے بارے میں ہے ’’ان موضوع روایات میںپندرھویں شب شعبان کی نمازیں ہیں جیسے یہ حدیث ’’اے علیؓ جسنے نصف شعبان کی شب میں سو رکعت نماز بڑھی اور اس میں ایک ہزاربار قل ہو اللہ احد پڑھی تو اللہ تعالیٰ ہر وہ حاجت پوری فرمائے گا جو وہ اس رات طلب کرے گاپھر اس راوی نے بہت بکواس کی‘‘ اس کے بعد مزید فرماتے ہیں تعجب ہے اس شخص پر کہ جسے علم سنت کی خوشبو بھی پہنچی ہو گی وہ اس قسم کی بکواس سے دھوکہ کھائے گا اور اس نماز کو پڑھے یہ نماز اسلام میں چار سو سال کے بعد وضع کی کئی اور اسکی ابتداء بیت المقدس سے ہوئی اس کے لئے چند حدیثیں وضع کی گئیں‘‘۔ (بحوالہ شب برأت ایک تحقیقی جائزہ از حبیب الرحمن کاندھلوی)

صاحب تحفت الاحوذی شرح جامع ترمذی عبدالرحمن مبارکپوریؔ نے لکھا ہے کہ ’’ملا علی قاری مرقاۃؔ میں لکھتے ہیں کہ نصف شعبان میں سو رکعت پڑھنا یا کسی قسم کی نماز پڑھنا ، اس سلسلہ میں نہ کوئی حدیث ہے اور نہ کوئی صحابیؓ کا قول ، جتنی روایات بھی ہیں سب ضعیف یا موضوع ہیں ‘‘۔(تحفہ الاحوذی جلد دوم صفحہ ۵۳ بحوالہ شب برأت ایک تحقیقی جائزہ)۔
محمد سلیمان کیلانیؔ نے نورٌ مبین عن روایات الطیبین میں سیدنا علیؓ کی روایت جو کہ ابن ماجہؔ میں درفضیلت پندرھوں شبِ شعبان وارد ہوئی ہے اس پر جرح کرتے ہوئے اپنے حاشیے میں لکھا ہے ’’مختصر طور پر سمجھ لینا چاہئیے کہ نصف شعبان کے متعلق جتنی بھی حدیثیں ہیں سب کمزور ہیں‘‘۔ (نور مبین عن روایات الطیبین صفحہ ۲۴۰ مترجم)
عثمان بن حسن بن احمد الخویریؒ نے بیان کیا ہے ’’اور نماز جو کہ اس شب کو جماعت سے پڑھی جاتی ہے اور صلوٰۃ البراء کہلاتی ہے وہ بدعت ہے اس کی وجہ اس کا دور صحابہ کرامؓ میں واقع نہ ہونا ہے اور نہ ہی تابعین رَحِمَ اللہ علیہم سے ثابت ہے بلکہ یہ ہجرت کے چار سو برس کے بعد ایجاد ہوئی ہے ۔ یہ نماز مسجد اقصیٰ میں ۴۴۸؁ھ میں ایجاد ہوئی ہے اور اس کی حقیقت امام طرطوسیؒ نے بیان کیا ہے کہ ایک آدمی بیت المقدس آیا اور شعبان کی پندرھویں رات کو مسجد اقصیٰ میں کھڑا ہو کر نماز پڑھنے لگا اس کو دیکھ ایک اور آدمی آیا اور اس کے پیچھے کھڑا ہو گیا پھر اس کی دیکھا دیکھی دوسرا آیا پھر تیسرا آیا اور جب اس نے نماز ختم کی تو اس کے ساتھ ایک بڑی تعداد لوگوں کی تھی پھر یہ شخص ایک سال کے بعد آیا تو اس کے ساتھ خلق کثیر نے یہ نماز پڑھی پھر یہ نماز دیگر مساجد میں بھی پھیل گئی اور وہاں سے مختلف شہروں میں پھیل گئی جہاں عابدوں اور زاہدوں نے اسے اپنا لیا جبکہ علماء کرام نے اس کی سخت مذمت کی اور اس کی وضاحت کی کہ یہ نماز بدعت ہے‘‘۔ (دُرَّۃٌ النَّاصِحِیْن صفحہ ۲۶۹ مترجم)
امام شیخ ابو محمد عبدالرحمن بن اسماعیل المقدسیؔ نے ان دونوں نمازوں کے رد میں (یعنی رجب وشعبان کی نمازیں) ایک نفیس کتاب تصنیف کی ہے بہت اچھا اور عمدہ لکھاہے۔ (از شیخ عبدالعزیز بن بازؔ بحوالہ التحذیر من البدع)
سماحۃ الشیخ عبدالعزیز بن بازؔ نے لکھا ہے ’’شعبان کی پندرھویں شب کو نماز یا کسی اور چیز کے لئے محفل منعقد کرنا اور اس کے دن روزے کے لئے خاص کرنا اہل علمکے نزدیک قابل مذمت بدعت ہے اور شرع شریف میں اس کی کوئی اصل نہیں ہے ۔ بلکہ اسلام میں صحابہ کرامؓ کے دور مسعود کے بعد یہ بدت پیداہوئی ہے ۔ اس مسئلہ او ردیگر تمام مسائل کے متعلق حق چاہنے والے کے لئے اللہ تعالیٰ کا یہ قول ’’اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ‘‘ اور اس مضمون کی دیگرآیات اور رسول اللہ ﷺ کا یہ قول ’’مَنْ اَحْدَثَ فِیْ اَمْرِنَا ہٰذا مَا لَیْسَ مِنْہٗ فَہُوَ رَدٌّ‘‘ اور اس مفہوم کی دیگر احادیث کافی ہیں ۔ (التحذیر من البدع صفحہ ۳۷، ۳۸مترجم)
ملاعلی قاریؔ نے بحوالہ ’’المختصر‘‘ لکھا ہے ’’اسی طرح شعبان کی پندرھویں رات میں سو رکعت نماز پڑھنا اور ہر ایک میں سورۃ اخلاص دس بار پڑھنا اور نمازوں کا ذکر جو قوت القلوبؔ یا احیا العلومؔ میں ہے اس سے کوئی دھوکہ نہ کھائے ‘‘۔ (موضوعاتِ کبیر صفحہ ۴۷۵) امام ابن قیمؔ فرماتے ہیں ’’اور یہ روایت کہ جو شعبان کی پندرھویں رات میں تیرہ رکعت نماز پڑھے اور ہر رکعت میں تیس بار قُل ْ ہُوَ اﷲُ اَحَدٌ پڑھے تو اسے دس آدمیوں کی شفاعت کی اجازت دی جائے گی جن کے لئے دوزخ واجب ہو چکی ہو کی اور اس قسم کی دیگر روایات ہیں کہ ان میں سے ایک بھی صحیح نہیں‘‘ (موضوعات کبیر صفحہ ۵۴۲ مترجم)
شیخ عبدالعزیز بن بازؔ نے مزید فرمایا ہے ’’آپ نے علمائے کرام کے کلام سے ابھی معلوم کر لیا کہ رجب کی پہلی جمعرات اور نصف شعبان کی شب کی فضیلت کے بارے میں رسول اللہ ﷺ اور صحابہ کرامؓ سے کچھ بھی ثابت نہیں ہے ۔ معلوم ہوگیا کہ ان دونوں راتوں میں محفلیں منعقد کرنا او رکسی قسم کی عبادت کے لئے خاص کرنا اسلام میں نکالی ہوئی بدترین بدعت ہے‘‘۔ (التحذیر من البدع صفحہ ۴۰)
 

ناصر رانا

رکن مکتبہ محدث
شمولیت
مئی 09، 2011
پیغامات
1,171
ری ایکشن اسکور
5,454
پوائنٹ
306
علامہ عبدالسلام بستویؔؒ نے ایک سوال کے جواب میں تحریر فرمایا ہے کہ
’’شعبان کی پندرھویں شب کی فضیلت کے بارے میں بہت حدیثیں آئی ہیں لیکن وہ سب کمزور ہیں ۔ اسی طرح پندرھویں شعبان کو روزہ رکھنے کی فضیلت جن احادیث میں آئی وہ بھی کمزور بلکہ موضوع ہیں ۔
بعض علماء نے اس رات میں تنہاء عبادت کرنے نفل پڑھنے اور تلاوت کرنے کو جائز کہا ہے لیکن اجتماعی صورت میں عبادت کرنا بدعت بتایا ہے ۔ بعض مقامات پر پندرھویں شب میں نماز باجماعت یہ صلوٰۃ البرأت کے نام سے پڑھی جاتی ہے ا سکا وجود خیر القرون میں نہیں پایا جاتا ۔
صاحب مجالس الابرارؔ نے اس سلسلے میں تفصیل بتاتے ہوئے لکھا ہے کہ ’’صلوٰۃ البرأۃ کی ابتداء چوتھی صدی ہجری کے بعد بیت المقدس میں اس طرح ہوئی کہ ایک نابلسی آدمی بیت المقدس میں آیا اور شب برأت میں نفل نماز پڑھنے کھڑا ہو گیا تو ایک شخص اس کی اقتداء میں کھڑا ہو گیا پھر دوسرا پھر تیسرا اورچوتھا اسی طرح نماز پوری کرنے سے پہلے ایک بڑی جماعت اسکی مقتدی بن گئی پھر وہ شخص اگلے سال آیا تو بہت سے لوگوں نے اس کے پیچھے نماز ادا کی اس طرح یہ رسم دوسری مسجدوں اور شہروں میں پھیل گئی اور لوگوں نے اس کو سنت سمجھ کر ادا کرنا شروع کر دیا (حالانکہ یہ بدعت ہے) علمائے متاخرین نے اس کی مذمت بیان کی ہے اور اس میں بڑی خرابیاں بتائیں ہیں (ترجمہ مجالس الابرار صفحہ ۱۷۵) بعض مقامات پر اس رات میں سو رکعتیں باجماعت پڑھی جاتی ہیں اس کو صلوٰۃ الرغائب کے ساتھ موسوم کیا جاتا ہے یہ بھی بدعت ہے اس سلسلہ میں نہ صحیح حدیث ہے اور نہ کوئی اثر‘‘ (اخبار ترجمان دہلی جلد ۱۰ شمارہ ۵ بحوالہ فتاویٰ علمائے اہل حدیث جلد ششم باب احکام شعبان صفحہ ۴۷۴)
امام مجدالدین فیروز آبادیؒ نے کہا کہ ماہِ رجبؔ وشعبان و رمضان کی ہر رات میں اور شب معراج میں کسی مخصوص نماز کی کوئی بات سرے سے ثابت ہی نہیں ہے۔ (بدعات او ران کا شرعی پوسٹمارٹم) شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ نے ستائیسوں رجب کی رات اور اس جیسی دوسری راتوں کی بابت فرمایا کہ اس کے غیر مشروع ہونے پر تمام ائمہ کرام متفق ہیں ۔ معتبر علمائے کرام نے اس بات کو بیان کیاہے اس طرح کاکام صرف جاہل بدعتی ہی کر سکتا ہے (بدعات اور انکا شرعی پوسٹمارٹم صفحہ ۶۰)
علامہ شیخ احمد بن حجر قاضی محکمہ شرعیہ حکومتِ قطر نے لکھا ہے کہ ’’حاصل یہ کہ تمام علمائے محققین مثلاً امام نوویؔ، علامہ ابن حجر ہیثمیؒ، شیخ الاسلام ابن تیمیہؔ، ابن الجوزیؔ، علامہ ابن حجر عسقلانیؒ، اور تمام اہل علم اس بات پر متفق ہیں کہ رجب، شبِ معراج ، شعبان خصوصاً شعبان کی پندرھویں رات اور رمضان کے سلسلے میں لوگوں نے جو مخصوص نمازیں اور اذکار ایجادکر لئے ہیں وہ اختراعی بدعات ہیں ان کی دلیل نہ کسی صحیح حدیث سے ہے نہ صحابہ و تابعین کے عمل سے ۔ اگر کوئی جاہل اذکار و ادعیہ اور نمازوں کے متعلق وارد شدہ عمومی احکام سے استدلال کرے مثلاً اللہ تعالیٰ کے مندرجہ ذیل قول سے کہ :
یَآیُّہَا الَّذِیْن اٰمَنُوْا اذْکُرُوْا اﷲَ ذِکْرًا کَثِیْرًاوَّسَبِّحُوْہٗ بُکْرَۃً وَّاَصِیْلاً
(الاحزاب ۴۲)
اِنَّ اﷲَ وَمَلاَئِکَتَہٗ یُصَلُّوْنَ عَلَی النَّبِیِّ یٰاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا صَلُّوْا عَلَیْہِ وَسَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا (الاحزاب ۵۶)
وَاِذَا سَألَکَ عِبَادِیْ عَنِّیْ فَاِنِّیْ قرِیْبٌ اُجِیْبُ دَعْوَۃَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِیْ
(غافر ۶۰)
ایک صحیح حدیث میں ہے کہ ’’اَلصَّلاَۃُ خَیْرُ مَوْضُوْعٍ‘‘
مذکورہ بالاآیات و حدیث سے استدلال کرتے ہوئے کوئی جاہل شخص یہ کہے کہ اندنوں اور راتوں میں یعنی پندرھویں شعبان ، ستائیسویں رجب وغیرہ کے دنوں اور راتوں میں ، میں مندرجہ بالا آیات و حدیث کے عموم پر عمل کرتے ہوئے ذکر و اذکار ، دعائیں اور نمازیں پڑھتا ہوں تو اس کا جواب یہ ہے کہ جس پر قرآن نازل کیا گیا ہے یعنی محمد رسول اللہ ﷺ ان پر اور ان کے صحابہؓ پر سال بہ سال کتنے رجب شعبان اور رمضان کے مہینے گزرے لیکن انہوں نے بدعات مذکورہ میں سے کوئی چیز نہیں کی نہ انہوں نے عید میلادالنبیؐ منائی اور نہ اس کے لئے محفل رچائی نہ معراج اور پندرھویں شعبان وغیرہ کے سلسلے میں اس طرح کے اوراد ، وظائف اور اذکار سے انہوں نے سروکار رکھا ۔ زیادہ سے زیادہ یہ ثابت ہے کہ رسول اللہ ﷺ شعبان کے مہینے میں بکثرت روزے رکھتے تھے جیسا کہ حضرت عائشہؓ ام المؤمنین سے مروی حدیث میں ہے ۔ (بحوالہ بدعات اور ان کا شرعی پوسٹ مارٹم صفحہ ۴۵۱،۴۵۲)
شیخ نے آگے چل کر ’’ماہِ شعبان کی بدعات‘‘ کے عنوان کے تحت اس شب کی عبادتوں اور جھوٹی روایتوں پر تنقید کرتے ہوئے لکھا ہے :
’’پندرھویں شعبان کی رات کا نام لوگ ’’شبِ برأت‘‘رکھے ہوئے ہیں اور یہ گمان رکھتے ہیں کہ اس رات میں گناہ بحشے جاتے ہیں ، عمریں بڑھائی جاتی ہیں روزیوں میں اضافہ کیاجاتاہے ۔ بنا بریں لوگ رات بھر جاگ کر زور زور سے دعائیں کرتے ہیں ان دعاؤں کو لوگوں نے ازخود گھڑ لیا ہے جن میں عمر اور روزی میں اضافہ کی درخواست کی جاتی ہے ۔ پھر لوگ قبروں کی زیارت کرتے ہیں ، چراغ جلاتے ہیں ، قبروں پر پھول چڑھاتے ہیں، گذشتہ شعبان سے موجودہ شعبان تک جو لوگ مرے ہوئے ہوتے ہیں ان کے نام رجسٹر میں درج کرتے ہیں، حلوہ بناتے ہیں، بیوہ عورت یہ سمجھتی ہے کہ اس کے شوہر کی روح پندرھویں شعبن کی رات میں آئے گی، اس لئے اس کے واسطے کھانا پکاتی ہے اور اس کے انتظار میں بیٹھتی ہے۔
علمائے سوء اس رت کے لئے شب قدر جیسی فضیلتیں بیان کرتے ہیں اور لوگوں کے ذہن میں یہ بات ڈالتے ہیں کہ شب قدر میں جس روح کے نزول کا ذکر قرآن مجید میں ہے اس سے مراد مردوںکی ارواح ہیں‘‘ ۔ (بحوالہ بدعات اور ان کا شرعی پوسٹ مارٹم صفحہ ۶۸۵)
فضیلۃ الشیخ علامہ عبداللہ بن زید المحمود رئیس المحاکم الشرعیہ والشؤن الدینیۃ دولۃ قطر نے لکھا ہے ’’اسی طرح پندرھویں شعبان کی فضیلت اور اس قسم کی باتیں کہ اسی موقع پر عمروں کا اندراج کیا جاتا ہے اور بنو کلب کی بکریوں کے بالوں کے برابر گناہوں کی مغفرت ہو جاتی ہے یہ اور اس قسم کی روایتیں باطل بھی ہیں اور ہر گز صحیح نہیں ہیں یوں ہی اس رات کی فضیلت کا تصور کر کے اکٹھا ہونا بدعت ہے اور اللہ نے اس کا کوئی ثبوت نہیں فرمایا ہے‘‘۔(بحوالہ اردو ترجمہ الحکم الجامعۃ لِشَتَّی العلوم النّافعہ صفحہ ۴۷۷)
امام محمد بن وَضَّاح القرطبیؔ اپنی تالیف ’’الابداع والنھی عنہا‘‘ میں عبدالرحمن بن زیدبن اسلم سے روایت نقل کرتے ہیںکہ ہمارے مشائخ وفقہاء نصف شعبان کی طرف کوئی توجہ نہیں دیا کرتے تھے اور نہ ہی ایسی باتوں (نمازوں) کا اہتمام کیا کرتے تھے ۔ دوسری روایت ابن ابی ملیکہ سے بیان کرتے ہیں کہ زیاد نمیری کہتا ہے کہ نصف شعبان کی رات کا ثواب رمضان کی لیلۃ القدر جتنا ہے تو ابن ابی ملیکہؔ نے کہا کہ اگر میں اس سے یہ بات سنتا اور اس وقت میرے ہاتھ میں ڈنڈا ہوتا تو میںاسے اس سے مارتا (جبکہ یہ زیاد اس وقت قاضی کے عہدے پر فائز تھا)۔ (البدع والنھی عنہا صفحہ ۴۶ بحوالہ قبولیت عمل کی شرائط)
امام شوکانیؒ نے نصف شعبان کی رات پڑھی جانے والی سو رکعت کی نماز کو اپنی تحقیق کی روشنی میں جعلی او رمن گھڑت قرار دیا ہے ۔ (الفوائد المجموعہ فی الاحادیث الموضوعہ صفحہ ۵۰،۵۱)
امام جلال الدین سیوطیؔ نے من گھڑت روایات کے مجموعے پر مشتمل کتاب ’’اللائی المضوعۃ فی الاحادیث الموضوعہ‘‘ میں نصف شعبان کی رات میں پڑھی جانے والی سو رکعتوں اورہر رکعت میں دس مرتبہ قُلْ ہُوَ اﷲُ اَحَدٌ والی مسند الفردوس دیلمیؔ کی روایت کو موضوع کہاہے اور ذکر کیاہے کہ اس کی سند کے تمام راوی مجہول ہیں اور ساتھ ہی بارہرکعتوں اور چودہ رکعتوں والی نماز پر مشتمل روایات کو بھی موضوع و من گھڑت قرار دیا ہے ۔ (بحوالہ قبولیت عمل کی شرائط از محمد منیر قمرؔ)
صاحب الابداعؔ تحریر فرماتے ہیں ’’المختصر شعبان کی پندرھویں رات میں پڑھی جانے والی مخصوص عدد کی رکعات اور مخصوص عدد کی سورئہ اخلاص والی نمازیں کسی صحیح حدیث سے ثابت نہیں نہ باجماعت نہ بلا جماعت ، نہ سراً نہ جہراً اور اس رات بعض مخصوص دعائیں یَاذلمنّ…الٰہی بِالتجلی الاعظم… کی جاتی ہیں جو کہ خود ساختہ ہیں ۔ صفحہ ۲۶۷ (بحوالہ قبولیت عمل کی شرائط ص۳۴۰)
امام طرطوسی فرماتے ہیں کہ میں نے امام مقدسّی سے پوچھا کیا آپ نے لوگوں کو یہ نماز (شب نصف شعبان کی نماز) باجماعت ادا کرتے ہوئے خود دیکھا ہے ؟ تو انہوں نے کہا ہاں ۔ اور اس پر اللہ سے مغفرت کی دعاء بھی فرمائی اور استغفر اللہ کہا ۔ (الابداع للشیخ علی المحفوظ ص۲۸۸ بحوالہ قبولیت عمل کی شرائط)
امام نوویؒ نے تحریر کیا ہے کہ صلاۃ الرغائب کے نام سے معروف نماز جو ماہ رجب کے پہلے جمعہ کی رات کو مغرب اور عشاء کے مابین پڑھی جاتی ہے جس کی بارہ رکعتیں ہوتی ہیں اور پندرہ شعبان کی رات کو ایک نماز سو رکعتوں پر مشتمل پڑھی جاتی ہے ، یہ دونوں نمازیں بدترین بدعت ہیں او رکتاب قوت القلوب اور احیاء علوم الدین میں ان نمازوں کے مذکور ہونے سے دھوکہ نہ کھایاجائے اور ان نمازوں کے بارے میں بیان کی جانے والی روایت سے بھی دھوکہ میں نہیں آنا چاہئیے کیونکہ یہ سب باطل ہیں اور اہل علم میں سے ایک صاحب پر ان نمازوں کی حقیقت و شرعی حیثیت مشتبہ ہو گئی اور انہوں نے چند اوراق پر مشتمل ایک رسالہ بھی لکھ مارا جس میں ان نمازوں کا استحباب ذکر کر دیا ، اس رسالے کے فریب میں نہ آئیں ( کیونکہ وہ ذلات العلماء کی قبیل سے ہے) اس میں انہوں نے مغالطہ سے کام لیا ہے اور امام ابو محمد عبدالرحمن بن اسماعیل المقدسی نے ان کی رد میں ایک نفیس کتاب لکھی ہے جس میں بڑے عمدہ پیرایہ میں ان کا بطلان ثابت کیا ہے ‘‘۔ (الابداع للشیخ علی المحفوظؔ)
امام ابو بکر طرطوشی نے اپنی کتاب الحوادث والبدع میں امام ابو محمد عبدالرحمن مقدسّی سے نقل کرتے ہوئے لکھا ہے ’’بیت المقدس میںیہ نماز صلاۃ الرغائب نہیں پڑھی جاتی تھی جوکہ رجب میں پڑھی جاتی ہے اور نہ ہی پندرہ شعبان کی رات والی نماز کا رواج تھا اور ہمارے ہاں شعبان والی نماز تو ۴۴۸؁ھ میں ایجاد کی گئی ۔ (بحوالہ قبولیت عمل کی شرائط صفحہ ۲۳۵)
امام شہاب الدین المعروف ابو شامہ نے اپنی کتاب ’’الباعث علی انکار البدع والحوادث‘‘ میں ما ہ رجب والی صلاۃ الرغائب او راس شعبان والی نماز جسے انہوں نے صلاۃ الالفیہ کہا ہے ، ان دونوں کی پرزور تردید کی ہے اور ثابت کیا ہے کہ یہ بدعت ہیں ۔ اور ان کے بارے میںپائی جانے والی اور بیان کی جانے والی روایات ضعیف ہیں اور موضوع و من گھڑت ہیں ۔ (صفحہ ۳۳۶ بحوالہ قبولیت عمل کی شرائط)
شیخ الاسلام امام ابن تیمیہؒ لکھتے ہیں ’’جامع مسجد یا محلون ، راستوں اور بازاروں کی دیگر مساجد میں یہ جو الصلاۃ الالفیہ کے لئے اکٹھا ہوا جاتا ہے یہ مُحَدث ہے اور یہ اجتماع جو ایک مقررہ وقت ، مقررہ رکعت اور مقررہ قرأت والی نفلی نماز کے لئے ہے ، یہ غیر مشروع اور بدعت ہے ۔ اور الصلاۃ الالفیہ والی روایت اہل علم حدیث کے اتفاق کے ساتھ من گھڑت ہے (الاقتضاء جلد ۲ صفحہ ۶۲۸،۶۳۵ بحوالہ قبولیت عمل کی شرائط)
مولانا شمس الحق عظیم آبادی اپنے فتاویٰ میں تحریر فرماتے ہیں :۔
’’الحاصل ماہِ شعبان کا تمام مہینہ بزرگ ہے او ر اس میں روزے رکھنا مسنون ہے مگر روزے رکھنے کے لئے کوئی تاریخ معین و مقرر کرنااور بالتخصیص صرف پندرھویں تاریخ میںروزہ رکھنا احادیث سے ثابت نہیں ہے بلکہ تیرہ چودہ پندرہ تاریخوں میں جن کو ایام بیض کہتے ہیں ان میں روزے رکھے اور چاہے تو اس پر بھی زیادتی کرے کیونکہ اس مہینہ میں کثرتِ صیام ثابت ہے‘‘۔ (فتاویٰ شمس الحق عظیم آبادی صفحہ ۱۸۲)
مولانا محمد سعید بنارسیؔ مرحوم فرماتے ہیں :۔
میں نے رسالہ مولوی عبدالفغور صاحب کو دیکھا اور اس کی صحت کی ، فضائل شعبان وغیرہ میں مولوی صاحب نے خوب لکھا ہے ۔واقعی فضائل شعبان میں بہت احادیث صحیحہ آئی ہیں ۔ صوم نصف شعبان میں کوئی حدیث صحیح نہیں ۔ تخصیص اس کی ٹھیک نہیں جیسا کہ مولانا شمس الحق صاحب نے لکھا ہے میں بھی ان کا ہم قال ہوں ‘‘۔ (فتاویٰ شمس الحق عظیم آبادی صفحہ ۱۸۳)
الامام الاکبر علامہ محمود شلتوتؒ تحریر فرماتے ہیں :۔
اور جودرست اس بارے میں نبیﷺ سے اور آپ کے صحابہ سے جن کی روایات محفوظ ہیں اور جنہیں اہل علم نے قبول کیا ہے وہ یہ ہے کہ شعبان تو سارا ہی مہینہ فضیلت والا ہے اس کی کسی رات کو کسی رات سے فضیلت حاصل نہیں ہے اس میں خاص وجوہ سے روزہ مطلوب ہے ۔ نفس کی تدریب کے لئے اور رمضان کے استقبال کی تیاری کے لئے یہاں تک کہ لوگوں پر یہ بھای نہ ہوجائے اور یہ ان پر دشوار نہ ہو جائے ۔ بے شک رسول اللہ ﷺ سے یہ پوچھا گیا تھا کہ رمضان کے بعد کون سے روزے افضل ہیں تو آپ نے فرمایا ’’شعبان کے تعظیم رمضان کے لئے‘‘ اور تعظیم رمضان صرف یہ ہے کہ اس کا حسنِ استقبال ہو اس کی طرف تدرب کے ذریعے اطمینان ہو اور اس سے بیزاری نہ ہو البتہ عبادت کے لئے نص شعبان کو مخصوص کرنا ، اس رات کو زندہ کرنے کے لئے جمع ہونا ، اس میں نماز پڑھنا اور اس کی دعائیں وغیرہ تواس بارے میں رسول اللہ ﷺ سے صحیح روایات میں کچھ ثبوت نہیں اور صدر اول میں ایسے کسی کو ہم جانتے نہیں (جو ان مذکورہ کا حامل و عامل رہاہو) مترجم حوالہ (الفتاویٰ محمدو شلتوت صفحہ ۱۹۱ مطبوعہ داراشروق قاہرہ)
عالم جلیل الشیخ محمد عبدہؒ ’’اللیلۃ المبارکۃ‘‘ کی تفسیر میں لکھتے ہیں :۔
البتہ بہت سے لوگ جو یہ کہتے ہیں کہ لیلہ مبارکہ جس امرحکیم فرق ہوتا ہے وہ نصف شعبان کی رات ہے اور وہ امور جو کہ تفیق ہوتے ہیں وہ رزق اور عمر کے یصلے ہیں اور اسی طرح یہ لوگ لیلۃ القدر کے بارے میں بھی کہتے ہیں یہ ان کی جرأت ہے اللہ کے کلام پر بغیر کسی حجتِ قاطعہ کے اور ہمارے لئے جائز نہیں ہے کہ ہم یہ اعتقاد رکھیں جب تک کہ رسول معصوم ﷺ سے کوئی حدیث متواتر نہ مل جائے اور اس رات کے لئے کوئی م تواتر حدیث وارد نہیں ہوئی ہے سوائے مضطرب اور ضعیف روایات کے جن کو عقائد کے باب میں اخذ کرنادرست نہیں (الفتاویٰ شلتوت ص۱۹۲)
(21) علاوہ ازیں ہم نے اس شب کے بارے میں قدرے اختصار سے تنقیداً چار صفحات لکھے تھے جوکہ بہت سے لوگوں کی طبع نازک پر گراں گزرے یہ چال صفحات ’’بدعات اور ان کا تعارف‘‘ میں شامل ہیں حالانکہ ہم نے اسوقت ان روایات کی حقیقت کشائی نہیں کی جن شبراتی حضرات کے مذہب کا دارومدار ہے اور ابھی بھی ہم نے اس شاخ کو قطع نہیںکیا ہے جس پر اہل بدعت نے آشیانہ بنایاہے ابھی تک تو سارے دلائل جو ہم نے پیش کئے ہیں وہ سب علماء کے اقوال ہں جو اس امر کی وضاحت کر رہے ہیں کہ اس شب کا قیام احادیث صحیحہ سے ثابت نہیں ہے ۔ ابھی تک ہم نے ان روایات کی روشنی میں اس بدعت اور اس کے عاملوں کا پوسٹ مارٹم نیہں کیا تھا لیکن یہ مرحلہ اب آگیا ہے چنانچہ وہ روایات ملاحظہ فرمائیں جن میں بقول ان حضرات کے اس شب کے نام نہاد فضائل وارد ہوئے ہیں پہلی روایت ترمذیؔ کی ہے ام المؤمنین عائشہؓ فرماتی ہیں :۔
فقدت رسول اﷲﷺ لیلۃ فخرجت فاذا ہو بالبقیع فقال ! اکنت تخافین ان یحیف اﷲ علیکِ ورسولہ؟ قلت یا رسول اﷲ ظننت انک اتَیتَ بعض نساء ک ، فقالؐ ان اﷲ تبارک وتعالیٰ ینزل لیلۃ النصف من شعبان الیٰ السماء الدنیا فیغفر لاکثر من عدد شعر غنم کلب (ترمذی جلد۱)
ترجمہ: میں نے ایک رات رسول اللہﷺ کو گم پایا ، پس میں آپ کی تلاش میں نکلی پس دیکھا کہ آپؐ بقیع قبرستان میں ہیں ، پس مجھ سے آپ نے فرمایا کہ کیا تو اس بات کا خوف رکھتی ہے کہ اللہ اور اس کا رسولؐ تیرے ساتھ زیادتی کریں گے، پھر فرمایا کہ بے شک اللہ تبارک وتعالیٰ نصف شعبان کی شب نزول فرماتا ہے آسمان دنیا کی طرف پس مغفرت فرماتا ہے اتنی بڑی تعداد کی جو بنو کلب کی بھیڑوں کے بالوں سے زیادہ ہیں ۔ پھر اس حدیث پر جرح کرتے ہوئے امام ترمذیؒ نے لکھا ہے کہ ’’حدیث عائشہ لا نعرفہ الا من ہٰذا الوجہ من حدیث الحجاج وسمعت محمداؒ یقول یضعف ہذا الحدیث‘‘
وَیَحْیٰ بن ابی کثیر لم یسمع من عروۃ قال محمد والحجاج لم یسمع من یحیٰ بن ابی کثیر‘‘ (ترمذی جلد اوّل)
ترجمہ :۔ ہم حدیث عائشہؓ کو اس سند کے علاوہ کسی اور سند سے نہیں پہچانتے ۔ البتہ حجاج کی سند سے اور میں نے محمد یعنی امام بخاریؒ کو فرماتے سنا وہ اس کو ضعیف بتلاتے تھے اور آپ نے فرمایا کہ یحییٰ بن ابی کثیر نے عروہ سے سماعت نہیں کی نیز محمد نے فرمایا کہ حجاج نے یحییٰ بن ابی کثیر سے سماعت نہیں کی ۔ امام ترمذیؒ کی اس جرح سے ثابت ہواکہ وہ خود اس حدیث کو حجت تسلیم نہیں کرتے وگرنہ وہ اس کی سند پر جرح نہ کرتے پھر اوروں کے لئے اس حدیث سے حجت پکڑنا کہاں سے ثابت ہو گیا ۔ دوسری بات یہ کہ ام المؤمنین عائشہؓ نے کتنی بار رسول اللہ ﷺ کو اپنے بستر سے گم پایا ؟ اگر یہ پہلی ہی بار تھی تو یہ وسوسہ ان کے دل میں کیوں گزرا کہ آپؐ انکی باری میں انہیں سوتا چھوڑ کر اپنی کسی دوسری زوجہ کے پاس چلے گئے ہوں گے ۔ جبکہ آپؐ نعوذ باللہ خائن نہ تھے آپﷺ کی امانت اور صداقت کی گواہی تو آپ کے جانی دشمن بھی دیا کرتے تھے؟ ایسا وسوسہ اور خیال تو اسی صورت میں آسکتا تھا جب آپ کی امانت، آپ کا صدق اور آپکا کردار لائق اعتماد نہ ہوتا ، لیکن حاشا وکلاّ آ پ کا کردار ایسا ہر گز نہیں تھا ۔ تیسری بات یہ کہ اگر یہ تسلیم کر لیا جائے کہ ام المؤمنین نے آپﷺ کو بستر پر گم اور قبرستان میں موجود پایا تو سوال یہ ہے کہ آپﷺ قبرستان میں کیا کررہے تھے؟ ترمذی کی اس روایت میں اس کا کوئی جواب نہیں ملتا ہے البتہ ابن ماجہؔ کی روایت میں ہے کہ ’’فَاِذَا ہُوَ بِالْبَقِیْعِ رافع راسہٖ اِلٰی السمائ‘‘ یعنی آپ کی طرف اپنا سر اٹھائے کھڑے تھے ۔ اس روایت سے ثابت ہوتا ہے کہ آپ نے اس شب کوئی عبادت نہیں فرمائی سوائے آسمان کی طرف سر اٹھانے کے ، لہٰذا وہ لوگ جو ان ضعیف احادیث سے عبادت کی دلیل پکڑتے ہیں انہیں چاہئیے کہ ہر پندرھویں شعبان کو قبرستانوں میں بیویوں کو سوتا چھوڑ کر جایا کریں اور آسمان کی طرف سر اٹھا کر کھڑے ہو جایا کریں ۔ اس لئے کہ ان ضعیف روایات سے یہی ثابت ہو رہاہے چوتھی بات یہ کہ اللہ تعالیٰ اس رات بنوکلب کی بھیڑوں کے بالوں سے زیادہ افراد کی مغفرت فرماتا ہے ان بالوں سے متعلق عرض ہے کہ بنو کلب کی بھیڑیں بہت زیادہ بالوں والی تھیں ۔ ایک بھیڑ کے بدن پر کروڑوں بلکہ اربوں بال ہوتے ہیں جو کہ شمار بھی نہیں کئے جا سکتے ہیں ۔ روایت کے مطابق جب اللہ کے رسولؐ نے یہ کلام فرمایا اس وقت مسلمان مدینہ اور اس کے مضافات میں آباد تھے ایک معمولی سی تعداد مکے میں اور دیگر علاقوں میں آباد تھی ۔ اگر حساب لگایا جائے تو اس وقت مسلمانوں کی تعداد چند ہزار سے بڑھ کر نہیں تھی بلکہ آپﷺ کی وفات کے وقت تک کل مسلمانوں کی تعداد ڈیڑھ اور دو لاکھ کے درمیان تھی ۔ لہٰذا یہ بات عقل سلیم کیونکر تسلیم کر سکتی ہے کہ مجموعی تعداد مسلمانوں کی اس وقت لاکۃ بھی نہیں تھی اور بخشش اربوں کھربوں بلکہ ان سے بھی زیادہ تعدادکی ہو رہی تھی ۔ کیا اللہ کے رسولؐ کو اتنابھی علم نہیں تھا کہ جتنے لوگوں کی مغفرت کی خبر وہ اس شب میں دے رہے ہیں اتنی بڑی تعداد میں مسلمان تو مسلمان مشرک اور کافر اقوام کے لوگ بھی اس وقت روئے زمین پر آباد نہیں تھے ۔ لاریب یہ حدیث صرف ضعیف ہی نہیں بلکہ اللہ کے رسولﷺ پر افتراء ہے ۔ میں کہتا ہوں کہ روئے زمین پر آج بھی اتنی بڑی تعداد میں مسلمان آباد نہیں ہیں جن کا بنی کلب کی بھیڑوں کے ساتھ باعتبار تعداد موازنہ کیاجائے پھر دوسری بات یہ کہ اگر اتنی بڑی تعداد ہر پندرھویں شعبان کو بخشی جاتی ہے تو پھر قرآن مجید کی اس آیت کے بارے میں شبراتی کیا کہتے ہیں ’’لأَمْلَئَنَّ جَہَنَّمَ مِنَ الْجِنَّۃِ وَالنَّاسِ اَجْمَعِیْنَ‘‘ (الم سجدہ) میں ضرورجہنم کو جنوں اور انسانوں سے بھروں گا۔ اور یہ آیت ’’یَوْمَ نَقُوْلُ لِجَہَنَّمَ ہَلِ مْتَلأْتِ وَتَقُوْلُ ہَلْ مِّنْ مَّزِیْدٍ‘‘ (ق) جس دن ہم جہنم سے پوچھیں گے کہ کیا تو بھر گئی؟ وہ کہے گی کہ کیا اور ہیں؟ اور بخاریؔ میں تو ہے کہ جہنم کا پیٹ اس وقت تک نہیں بھرے گا جب تک کہ حق تعالیٰ اپنی بائیں ٹانگ اس میں داخل نہیں فرمائے گا ۔ علاوہ ازیں حدیث صحیح میں یہ بھی ہے کہ ’’ اللہ تعالیٰ آدم سے کہے گا کہ اے آدم! وہ کہیں گے میں حاضر ہوں اورتیری خدمت کے لئے مستعد ہوں او رتمام بھلائیاں تیرے دونوں ہاتھوں میں ہیں ۔ اللہ تعالیٰ فرما ئے گا آگ میں جانے والوں کا لشکر نکال ۔ آدم کہیں گے کہ آگ کے لشکر کی مقدار کیاہے ؟ حق تعالیٰ فرمائے گا کہ ہر ہزار میں سے نو سو ننانوے ‘‘ (بخاری ومسلم بحوالہ مشکوٰۃ جلد سوم مترجم باب الحشر صفحہ ۵۳)
اب بتائیے کہ اگر بنی کلب کی بھیڑوں کے بالوں سے زیادہ افراد اس شبِ نام نہاد میں بخشے جاتے ہیں تو پھر یہ ہزار میں سے نو سوننانوے جہنم میں جانے والے کونسی دنیا میں پیدا ہو رہے ہیں اور اس شب کی مغفرتوں سے یہ لوگ کیونکر محروم کئے جا رہے ہیں ؟ حقیقت سوائے اس کے کچھ نہیں کہ یہ روایت جھوٹ کا پلندہ ہے ۔
پھر ذرا غور فرمائیے ! کیا یہ بات عقلِ سلیم باور کر سکتی ہے کہ شبِ نصف شعبان کو محض قبرستان میں جا کر صرف اونچا سر کر کے کھڑے ہوجانے سے اتنی بڑی تعداد میں لوگوں کی مغفرت کی جاتی ہے؟ کیا یہ تمام امور اس امر کی نشاندہی نہیں کر رہے کہ حدیث عائشہؓ جو کہ ترمذی شریف میں وارد ہوئی ہے وہ روایت اور درایت کے اعتبار سے محض افتراء اور جھوٹ کاپلندہ ہے ۔ جو حضرات اس کے ضعف سے چشم پوشی کر رہے اور اسے محاسنِ و فضائلِ نصف شعبان میں شمار کررہے ہیں وہ اتنا یاد رکھیں کہ وہ اسطرح دین کی کوئی خدمت نہیںکر رہے ہیں ۔ کیا اس ضعیف حدیث سے یہ ثابت نہیں ہو رہا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اس شب کے فضائل صحابہ کرامؓ کو نہیں بتائے نہ ہی اپنی ازواج مطہرات کو اس شب کی فضیلت سے آگاہ فرمایا بلکہ چپکے سے بستر پر سے اٹھ کر بقیع کے قبرستان جلے گئے وہ تو اگر (روایت کے مطابق) ام المؤمنینؓ آپ کی تلاش میں نہ نکلتیں اور آپ کو قبرستان میں نہ پا لیتیں تو آج ساری امت اس شب کے فضائل سے بے خبر ہوتی ملاحظہ فرمائیں کہ نبی اکرمﷺ پر کتنا بڑا بہتان لگایا جا رہا ہے یہ شب روایت مذکورہ بالا کے مطابق اگر ایسی برگزیدہ تھی تو آپؐ نے اپنے صحابہ کرامؓ کو اس حقیقت سے اس شب کی فضیلت سے آگاہ کیوں نہیں فرمایا؟ انہیں آپﷺ اپنے ساتھ لے کر بقیع کے قبرستان یا اپنی مسجد کی طرف کیوں نہیں نکلے؟ کیا کوئی شبراتی ان سوالات کے جوابات احادیث سے دے سکتا ہے؟ کیاکوئی شبراتی کسی صحیح حدیث سے یہ ثابت کر سکتا ہے کہ اس شب کی فضیلت جان لینے کے بعد ام المؤمنین عائشہ صدیقہؓ نے اس شب کو اہتمام عبادت فرمایا تھا؟ میں کہتا ہوں کہ سورج مشرق کی بجائے مغرب سے نکل سکتا ہے لیکن کوئی شبراتی ایک بھی حدیث اپنے اس قول کی تائید میں پیش نہیں کر سکتا کہ ام المؤمنینؓ نے اس شب میں کبھی اہتمام نوافل وغیرہ فرمایا ہو اور نہ ہی کسی صحابئ رسولﷺ سے احادیث میں ایسا ثبوت ملتا ہے ۔ لہٰذا میں بغیر کسی قسم کی لاگ ولپیٹ کے حقائق کی روشنی میں یہ لکھنے پر مجبور ہوں کہ اس ضعیف روایت کو حجت تسلیم کرنے والے پھر اس کا بیان کرنے والے مفتری ہیں خواہ وہ کسی بھی مکتب فکر سے متعلق ہوں ان کا افتراء بہت عظیم ہے ۔ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو اور ام المؤمنین عائشہؓ کو اپنے افتراء کا نشانہ بنایا ہے ۔ مجھے نہیں معلوم کہ بروز محشر یہ اس افتریٰ پردازی کے حق میں کیا عذر لائیں گے ۔ بہر حال میں ان کے لئے حق تعالیٰ کے حضور ہدایت کا دعاء گو ہوں ۔
اس موضوع پر دوسری روایت ابن ماجہؔ کی ہے یہ بھی ام المؤمنین عائشہ صدیقہؓ سے مروی ہے ۔ فرماتی ہیں :۔
’’فقدت النبی ﷺ ذات لیلۃ فخرجت اطلبہ فاذا ہو بالبقیع رافع راسہٖ الی السماء فقال یا عائشہ اکنت تخافین ان یحیف اللہ علیک ورسولہ ، قالت، قلبت وما بی ذالک ولکن ظننت انک اتیت بعض نسائک ،فقال ان اﷲ تعالیٰ ینزل لیلۃ النصف من شعبان فیغفر لاکثر من عدد شع غنم کلب‘‘ (ابن ماجہ مصر جلد اوّل)
چند الفاظ کے اضافے کے علاوہ اس روایت کے تقریباًوہی الفاظ ہیں جو کہ ترمذیؔ کی مذکورہ بالا روایت کے ہیں اور راوی بھی وہی ہیں جو کہ ترمذیؔ کی سند میں ہیں ۔ ان روات پر محدثین کی جرح کے سبب یہ حدیث بھی ضعیف ہے اور ان ہی اسقام سے بھرپور ہے جو کہ ترمذیؔ کی سند میں پائے جاتے ہیں ۔
علاوہ ازیں غنیہ الطالبین مترجم میں صفحہ ۶۹۲ پر ایک اور طویل ترین روایت محاسنِ شب برأت پر ام المؤمنینؓ سے مروی ہے جسے میں نہایت اختصار کے ساتھ لکھتا ہوں ۔ ’’جب نصف شعبان کی شب تھی تو رسول اللہ ﷺ میرے بستر سے چپ چاپ نکل گئے ، میں نے دل میں یہ خیال کیا کہ اپنی بعض ازواج کے پاس تشریف لے گئے ہیں ۔ پس میں اٹھی اور گھر میں (اندھیرے میں) آپ کو ٹٹولنے لگی ، پس میرے ہاتھ آ پ کے قدموں تک بڑھے اس حال میں کہ آپﷺ سجدے میں تھے اور وہ دعا جو آپ سجدے میں پڑھ رہے تھے میں نے یاد کر لی ۔ آپ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ صبح تک مسلسل کھڑے ہوتے اور بیٹھتے رہے یہاں تک کہ آپﷺ کے قدم متورّم ہو کئے ۔ میں آپ کے بدن کو دباتی تھی او رکہتی تھی کہ میرے ماں باپ آپ پر قربان ، کیا اللہ نے آپ کے اگلے پچھلے گناہ معاف نہیں فرمائے؟ کیا اللہ تعالیٰ نے آپ کے ساتھ ایسے ایسے (انعامات و کرامات) نہیں فرمائے؟ آپﷺ نے فرمایا کیا میں شکر گزار بندہ نہ بنوں؟ اے عائشہ کیا تجھے علم ہے کہ اس رات میں کیا کچھ ہوتا ہے ؟ میں نے پوچھا کیا ہوتا ہے؟ اس رات میں؟ آپﷺنے فرمایا کہ اس شب میں اس سال پیداہونے والوں اور مرنے والوں کے نام لکھے جاتے ہیں ۔ اسی شب میں رزق نازل ہوتا ہے اور ا عمال و افعال اٹھائے جاتے ہیں ۔ میں نے پوچھا اے اللہ کے رسول کیا کوئی بھی شخص اللہ کی رحمت کے بغیر جنت میں داخل نہیں ہو گا ؟ فرمایا ہاں ۔ میں نے کہا اور آپﷺ؟ فرمایا میں بھی نہیں جب تک اللہ اپنی رحمت میں مجھے ڈھانپ نہ لے‘‘۔
اس روایت کا موازنہ ترمذی اور ابن ماجہ کی روایت سے جب کیا جاتا ہے تو ایک اور شگوفہ کھلتا ہے کہ رسول اللہﷺ گھر سے غائب ہی نہیں ہوئے تھے ۔ لہٰذا اس روایت کی بنیاد پر قبرستان جانے والی روایت جھوٹ قرار پاتی ہے اور قبرستان جانے والی روایت کی بنیاد پر یہ روایت جھوٹ قرار پاتی ہے کیا شبراتیوں کے پاس اس حیص بیص سے نکلنے کا کوئی راستہ ہے؟
اس روایت سے چند اور امور بھی ثابت ہوتے ہیں جو اہل بدعت کے ہاں خاصے مشہور ہیں مثلاً اس شب میں پیدا ہونے والوں اور مرنے والوں کے نام لکھے جانا، رزق نازل ہونا، اعمال وافعال کا اٹھایا جانا وغیرہ ان امور پرہم آگے چل کربحث کریں گے فی الوقت فضائل شب برأت کی ایک اور روایت ملاحظہ فرمائیں یہ روایت بھی غنیہ الطالبین سے لی گئی ہے لیکن اختصار کے ساتھ ۔ ’’ام المؤمنین عائشہؓ فرماتی ہیں کہ ان سے رسول اللہ ﷺ نے پوچھا ، اے عائشہؓ جانتی ہے یہ کونسی رات ہے؟ انہوں نے کہاکہ اللہ اور اس کے رسول زیادہ جانتے ہیں ۔ آپنے فرمایا کہ یہ نصف شعبان کی ر ات ہے اس رات میں دنیا اور بندوں کے اعمال اٹھائے جاتے ہیں اس رات میں بنو کلب کی بھیڑوں کے بالوں کی تعداد کے برابر لوگ اللہ کی طرف سے جہنم سے آزاد کئے جاتے ہیں ۔ پھر آپؐ نے فرمایا کیا تو مجھے آج رات رخصت دے گی؟ میںنے کہا ہاں ، پھرآپؐ نے نماز پڑھی اور بہت مختصر قیام کیا ۔ سورۃ الفاتحہ پڑھی اور چھوٹی سورہ پڑھی پھر آدھی رات تک سجدہ کیاپھر دوسری رکعت کے لئے اٹھے اور مث پہلی رکعت کے قرأت کی پھر سجدہ کیا اور یہ سجدہ صبح صادق تک رہا ۔ آپؓ فرماتی ہیں کہ میں دیکھتی رہی یہاں تک کہ مجھے خیال آیا کہ شاید اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کی روح قبض فرما لی ہے میں آپ کے قریب گئی آپؐ کے قدموںکو چھوا تو میں نے آپ کو سجدے میں یہ فرماتے سنا ……‘‘ (غنیہ الطالبین مترجم صفحہ ۶۸۸)
غنیہ الطالبین کی یہ روایت جہاں دیگر روایات سے متصادم ہے وہاں خود غنیہ الطالبین کی اس روایت سے متصادم ہے جو اس سے پہلے ہم نے درج کی ہے ۔ ملاحظہ ہو کہ پہلی روایت میں ہے کہ میرے بستر سے چپ چاپ نکل گئے اور اس دوسری روایت میں ہے کہ آپ نے مجھ سے عبات کرنے کے لئے رخصت طلب کی ۔ حقیقت یہ ہے کہ جھوٹ کے پاؤں نہیں ہوتے ہیں ۔ جھوٹ بولنے والے کو یہ یاد رہنا بڑا مشکل ہے کہ اس نے پہلے کیا کہا تھا اور اب کیاکہہ رہا ہے ۔ غنیہ الطالبین کی اس روایت سے ایک اور امر ثابت ہو رہا ہے کہ یہ نماز جو آپ نے اس شب کو پڑھی وہ جہری تھی سرّی نہیں تھی جبکہ شبراتی اس نماز کو سرّاً پڑھتے ہیں نیز آپؐ نے اس نماز میں رکوع بھی نہیں فرمایا جبکہ تمام ہی شبراتئے نصف شعبان کی نماز میں رکوع کرتے ہیں علاوہ ازیں آپؐ نے پوری شب میں دو رکعات ادا کیں حالانکہ شبراتئے اس شب کو سورکعات پڑھتے ہیں ۔
غنیہ الطالبین کی اس روایت سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ یہ عبادت صرف اور صرف رسول اللہ ﷺ ہی کے لئے مخصوص تھی وگرنہ آپؐ ام المؤمنین کو بھی تلقین فرماتے کہ تم بھی اٹھ کر نماز پڑھو لیکن ایسا نہیں ہوا بلکہ آپؐ نے ان سے عبادت کرنے کے لئے رخصت طب کی ۔ اسی طرح غنیہ الطالبین کی سابقہ روایت سے ثابت ہو رہا ہے کہ آپؐ اندھیرے میں صبح تک نماز پڑھتے رہے لیکن ام المؤمنین کو آپؐ نے نہ حکم دیا اور نہ ہی ان کو یہ نماز پڑھنے کی تلقین فرمائی اور نہ ہی ام المؤمنین نے بھی یہ نماز پڑھنے کی کوئی ضرورت محسوس فرمائی ۔ حالانکہ آپؓ عبادت کی حریص تھیں اور خود بھی بکثرت نوافل پڑھا کرتی تھیں ۔
یہ وہ روایات ہیں جن پر بدعتی حضرات نے اپنی اس عبادت کو سنت قرار دیتے ہوئے فروغ دیا ہے حالانکہ ان میں ایک بھی روایت صحیح نہیں ہے ۔
شیح عبدالعزیز بن بازؔ مفتی اعظیم سعودی عرب کا فتویٰ سابقہ سطور میں گزر چکاہے کہ یہ روایات تمام کی تمام موضوع او رمن گھڑت ہیں لیکن مقام حیرت و افسوس ہے کہ ایک نہیں بلکہ بہت سے مؤحد ومحقق باوجود دعوائے اتباعِ سنت و احادیث کے، ان موضوع روایات پر نہ صرف عمل پیرا ہیں بلکہ اس بدعت کوسنت قرار دینے پر مصر ہیں ۔ چنانچہ نصف شعبان کی فضیلت میں شائع ہونے والے اخباروں اور رسالوں میں ہر سال شعبان کے موقع پر اس شب کے موضوع اور من گھڑت فضائل درج کئے جاتے ہیں اور بندگان الٰہی کو قرآن و سنت کی آڑ میں اس بدعت پر عمل کی دعوت دی جاتی ہے ۔ علاوہ ازیںکئی جماعتوں اور ایک شبراتی مولوی کی طرف سے اس بدعت کی تائید میں پمفلٹ بھی سال بہ سال تکرار سے شائع ہوتے رہتے ہیں ۔
میں اپنے مسلمان بھائیوں سے گزارش کرتا ہوں کہ للہ اپنی توحید اور دعوائے توحید کا بھرم رکھئے اس بدعت پر صرف اس لئے عمل نہ کریں کہ بہت سے علماء اس کو سنت قرار دیتے ہیں اگر آپ بغیر تحقیق کے اسی طرح علماء کی اتباع کرتے رہے تو پھر آپ میں اور دیگر مقلدوںمیں کیا فرق رہ جائے گا؟۔
ذرا ان روایات کی گہرائی میں جائیے تو آپ کو معلوم ہوکہ اس شب کی حقیقت کیا ہے اس شب کی حقیقت یہ نہیں ہے کہ اس شب اللہ تعالیٰ آسمان دنیا پر نزول فرماتاہے ، اس کا نزول تو ہر شب آسمان دنیا پر ہوتا ہے ۔ (مشکوٰۃ) اس شب کی فضیلت یہ نہیں ہے کہ وہ اس شب گنہگاروں کی مغفرت فرماتا ہے وہ تو ہر شب استغفار کرنے والوںکی مغفرت فرماتا ہے (مشکوٰۃ) اس شب کی فضیلت و حقیقت یہ نہیں ہے کہ اس شب کو موت و زندگی کے فیصلے ہوتے ہیں۔ یہ فیصلے ایکبارگی میں ہی ہو چکے ہیں اور اب یہ عالم ہے کہ رُفِعَتِ الاَقْلاَمُ وَجُفّتِ الصُّحُفُ () قلم اٹھائے جا چکے ہیں اور صحیفے خشک ہو چکے ہیں ۔ اس شب کی حقیقت یہہے کہ اس شب میں رافضیوں کے بارھویں امام مہدیؔ نے شیعہ روایات کے مطابق جنم لیا ۔ اس مزعومہ امام غائب کی پیدائش کی خوشی میں رافضی اس دن حلوہ پکاتے ہیں رات کو اپنے گھروں پر دئیے جلا کر چراغاں کرتے ہیں اور ہمارے شہر کراچی میں رات کے پچھلے پہر نیٹی جیٹی پل پر جمع ہو کر امام غائب کے نام آٹے کی گولیوں میں لپٹی ہوئی عرضیاں ڈالتے ہیں ۔ درحقیقت شب برأت کا تعلق ہی روافض سے ہے اس کی فضیلت میں انہوں نے اس قدر روایات گھڑی ہیں کہ انہیں لکھنے کے لئے ایک وسیع دفتر درکار ہے ۔ میں انشاء اگلے صفحات میں ان میں سے چند روایات نقل کروں گا ۔
اس شب کا نام لیلۃ البرأۃ بھی اس سلسلے میں ایک عمدہ دلیل ہے ۔ لیلۃ البرأۃ کے معنی ہیں تبرّے والی رات ۔ اس رات رافضی قرآن مجید پر تبرّا بھیجتے ہیں جسے اس بات کی دلیل درکار ہو وہ اس شب نیٹی جیٹی پر اس امرکا اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کر لے جیسے رواض ۲۲رجب کو جعفر صادق کے نام کے کونڈے بھرتے اور خوشیاں مناتے ہیں ظاہراً انکی خوشی جعفر صادق کی نذرونیاز کی ہوتی ہے لیکن یہ دل خراش حقیقت لاکھ پردوں میں بھی چھپائے نہیں چھپتی کہ وہ اس دن سیدنا امیر معاویہؓ کی وفات کی خوشیاں مناتے ہیں ۔ بعینہٖ یہ معاملہ شب برأتکا ہے روافض اور نام نہاد سنی اس دن حلوے پر سیدالشہداء حمزہؓ کی فاتحہ دلاتے ہیں حالانکہ یہ دن نہ ان کی پیدائش کاہے اور نہ ہی ان کی شہادت کا ہے۔ ان کی شہادت تو غزوئہ احد میں ہوئی تھی جو کہ شوال کے مہینے میں واقع ہوا تھا ۔ حقیقت اس حلوے کی وہی ہے جومیں نے پہلے درج کی کہ یہ ان کے امام غائب کی پیدائش کی خوشی میں پکتاہے ۔ مجھے سخت افسوس ہوتا ہے کہ ہمارے سنی بھائی بغیر کسی تحقیق کے اس دن روافض کی پھیلائی ہوئی جھوٹی روایات کے شکار ہو کر اپنے اپنے گھروں میں حلوہ پکاتے اور جا بجا کھاتے پھرتے ہیں ۔ ہمارا روافض کے امام سے کیا تعلق ہے جوہم ان کے نام کی نذر و نیاز کریں؟ نذرو نیاز اورفاتحہ کے کھانے جو غیر اللہ سے منسوب ہوتے ہیں اللہ تعالیٰ نے ان کھانوں کو قرآن مجید میں یہ فرماتے ہوئے حرام قرار دے دیا ہے ’’وَمَا اُہِلَّ بِہِٖ لِغَیْرِ اﷲِ‘‘۔
اس شب کے فضائل و محاسن میں جتنی بھی روایات وارد ہوئی ہیں ان سب میں غالی قسم کے رافضی راوی پائے جاتے ہیں مثلاً ابن ماجہؔ، ترمذیؔ اور غنیہ الطالبین کی روایات میں اکثر راوی رافضی ہیں ۔ ان رافضی راویوں نے اپنی موضوع اور من گھڑت روایات کو ام المؤمنین عائشہ صدیقہؓ سے زیادہ تر اس لئے منسوب کیا ہے کہ اس طرح انکی کردار کشی کی جائے یعنی جب بھی ان روایات کو پڑھا جائے گااور سنایا جائے گا یہی تاثر ابھرے گا کہ ام المؤمنینؓ نبی اکرمﷺ کی امانت داری پر شک کیا کرتی تھیں ، آپﷺ کا تعاقب کیا کرتی تھیں اور آپ پر اعتماد نہیں کرتی تھیں ۔ (نعوذ باللہ ) اس طرح ان لوگوں نے ایک تیر سے دو شکار کئے ۔ جھوٹی ، ضعیف اور موضوع روایات کو پھیلایا اور ام المؤمنین کے پاکیزہ کردار کو اپنے زعم باطل میں داغدار کیا ۔ پھر انہیں اس سلسلے میں دشواری بھی پیش نہیں آئی کہ بہت سے روایت پسند اور لکڑ پتھر ہضم کرنے والے نادان مولویوںنے اپنے اپنے کاروبار لات و منات کو فروغ دینے کے لئے ان روایات کو ہاتھوں ہاتھ لیا پھر ان روایات پر عمل ہی نہیں بلکہ اپنے ایمان کی بنیادیں بھی قائم کر دیں ۔
 

ناصر رانا

رکن مکتبہ محدث
شمولیت
مئی 09، 2011
پیغامات
1,171
ری ایکشن اسکور
5,454
پوائنٹ
306
روایات روافض در فضیلت عبادت شب برأت
روایات روافض در فضیلت شب برأت :۔
شیعہ مذہب کی معتبر کتاب ’’تحفۃ العوام‘‘ میں مرقوم ہے کہ ’’شب نیمۂ شعبان اور روز نیمۂ شعبان دونوں بے حد مبارک ہیں ۔ پندرھویں شب جو کہ شب برأت کے نام سے موسوم و مشہور ہے بڑی مبارک ر ات ہے ۔ حضرت امیر المؤمنین علیہ السلام سے منقول ہے کہ جناب رسالت مآب ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ شعبان کی پندرھویں رات کو عبادت میں بسر کرو اور دن کو روزہ رکھو یقینا اوّل شب سے آخر شب تک خدا کی جانب سے یہ نداکی جاتی ہے کہ آیا کوئی استغفار کرنے والا ہے کہ اپنے گناہوں کی بخشش طلب کرے تاکہ میں اس کے گناہوں کو بخشوں ؟ آیا کوئی ایساا ہے کہ روزی طلب کرے او رمیں اس کی روزی زیادہ کروں ؟ حضرت امام زین العابدین علیہ السلام سے منقول ہے کہ جو شخص چاہے کہ ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبروں کی روحیں اس سے مصافحہ کریں تووہ شعبان کی پندرھویں شب کو حضرت امام حسین علیہ السلام کی زیارت کرے ۔ لہٰذاہر مومن کو چاہئیے کہ حضرت امام حسین علیہ السلام کی زیارت پڑھے (جو زیارات کے باب میں مذکور ہے) اور چونکہ اس شب کی بڑی فضیلت و عظمت یہ ہے کہ حضور امام آخر الزمان صاحب الامر ع لیہ السلام کی ولادت باسعادت اس شب کی صبح کو واقعہ ہوئی‘‘۔ (جدید تحفۃ العوام مصدّقہ صفحہ ۳۶۶، ۳۶۷)
دوسری روایت
منجملہ اعمال اس شب کے زیارت امام حسین علیہ السلام کی ہے کہ پیغمبران و ملائکہ اس شب خدا سے رخصت لے کر آنحضرتؑ کی زیارت کو آتے ہیں پس خوشحال اس کا جو ان بزرگوں سے مصافحہ کرے‘‘۔
(تحفۃ العوام بحوالہ شب برأت ایک تحقیقی جائزہ صفحہ ۵۸۶)
تیسری روایت
اور حضرت امام حسین علیہ السلام کی زیارت او رغسل زیارت اس روز مستحب ہے اور تیرہویں شب دورکعت نماز اور چودھویں شب چار رکعت نماز اور پندرھویں شب چھ رکعت پڑھنا سنت ہے‘‘ ۔ (جدید تحفۃ العوام صفحہ ۳۶۶)
چوتھی روایت
حضرت امام باقر علیہ السلام نے فرمایا کہ جو شخص اس شب میں سو مرتبہ سبحان اللہ اور سو مرتبہ الحمدللہ اور سو مرتبہ اللہ اکبر اور سو مرتبہ لآ الٰہ الا اللہ کہے تو خداوند عالم اس کے گزشتہ گناہ بخش دے گا اور دنیا و آخرت کی حاجتیں برلائے گا‘‘ ۔(تحفۃ العوام صفحہ ۳۶۸)
پانچویں روایت
وارد ہے کہ اس شب کو چار رکعت نماز پڑھے دو سلام سے اور ہر رعت میں بعد الحمدللہ سو مرتبہ قل ہو اللہ احد پڑھے اور بعد نمازیہ دعا پڑھے اَللّٰہُمَّ اِنِّیْ اِلَیْکَ فَقِیْرٌ…اِلٰی آخرہٖ (تحفۃ العوام ص۳۶۷)
چھٹی روایت
وارد ہے کہ شب نیمۂ شعبان میں دس رکعت نماز دو دو کر کے پڑھیں اور ہر رکعت میں سورۃ الحمد کے بعد دس مرتبہ سورۃقل ھو اللہ احد پڑھیں پھر سجدہ کریں اور یہ دعا پڑھیں ۔ اَللّٰہُمَّ لَکَ سَجَدَ سَوادِی وَاخَیَالِیَ وَبَدَاضِی…اِلٰی آخِرہٖ‘‘ (تحفۃ العوام صفحہ ۳۶۸)
ساتویں روایت
’’بہترین دعا اس شب میں بلکہ ہر شب جمعہ میں دعائے کمیل ہے جو ادعیہ ماثورۃ کے باب میں درج ہے ۔ غرض کہ اس شبِ مبارکہ میں جاگنا اور تلاوت قرآن او ردعاء و نماز میں بسر کرنا آتش جہنم سے آزادی او ردعا مقبول ہونے کا باعث ہے پھر علی الصباح اس عریضہ کا پیش کرنا معمول مومنین ہے جو حضور صاحب الامر علیہ السلام کی خدمت اقدس میں استغاثہ ہے جو حسب ذیل ہے :۔

’’عریضہ ٔ حاجت‘‘

بحضور پرنور شہنشاہِ دوران حضرت صاحب العصر والزمان عجَّل اللہ فرجہٗ
بسم اللہ الرحمن الرحیم
کَتَبْتُ اِلَیْکَ یَا مَولاَیَ صَلَوَاتُ اﷲِ عَلَیْکَ مُسْتَغِیْثًا بِکَ وَشََرْتُ وَانَزَلَ بِیْ مُسْتَجِیْرًا بِاﷲِ عَزَّوَجَلَّ ثُمَّ بِکَ مِنْ اَمْرٍ قَدْ وَہَمَنِیْ وَاَشْغَلَ قَلْبِیْ وَاَطَالَ فِکْرِیْ وَسَلِیْنِیْ بَعْضَ لُبِّی وَغَیْرَ خَطِیْرَ نِعْمَۃَ اﷲِ عنْدِیْ وَاَسْلَمَنِیْ عِنْدَ تَخَیُّلِ وِرْدِہٖ الْخَلِیْلُ وَتَبَرَّأَ مِنِّیْ عِنْدَ تَرَآئِیْ اِقْبَالِہٖ اِلَیَّ الْحَمِیْم وَعَجَزَتْ عَنْ رِفَاعِہٖ حِیْلَتِیْ وَخَنَنَی فِیْ تَحَمُّلِہٖ صَبْرِیْ وَقُوَّتِْ فَلْجِئْتُ فِیْہٖ اِلَیْکَ وَتَوَکَّلْتُ وَتَوَسَّلْتُ فِیْ الْمَسْئَلَۃِ اﷲِ ثَنَآؤُہٗ عَلَیْہٖ وَعَلَیْکَ فِیْ دِفَاعِہٖ عَنِّیْ عِلْمًا بِمَکَانِکَ مِنَ اﷲِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ وَلِیَّ التَّدْبِیْرِ وَمَالِکِ الاُمُوْرِ وَاثِقًا بِکَ فِیْ الْمَسَارِعَۃِ فِیْ الشَّفَاعۃِ اِلَیْہِ جَلَّ ثَنَآؤُہٗ فِیْ اَمْرِیْ مُتَیَقِّنًا لِاِجَابَتِہٖ تَبَارَکَ وَتَعَالٰی اِیَّاکَ بِاَعْطَآئِ سُؤْلِیْ وَاَنْتَ یَا موَْلاَیَ صَلَوَاتُ اﷲِ عَلَیْکَ جَدِیْدٌ بِتَحْقِیْقٌ ظَنِّیْ وَتَصْدِْقِ اَمَلِیْ فِیْکَ فِیْ اَمْرٍ …… (یہاں اپنی حاجات و پریشانیاں لکھیں) …… فِیْمَا لاَ طَاقَۃَ لیْ بِحَمْلِہٖ وَلاَ صَبْرَلِیْ عَلَیْہٖ وَاِنْ کُنْتُ مُسْتَحِقًّا لَہٗ وَلِاِضْعَافِہٖ بِقَبِیْحِ اَفْعَالِیْ وَتَفْرِیْطٰی فِیْ الْوَاجِبَاتِ الَّتِیْ ﷲِ عَزَّوَجَلَّ فَاَغِثْنِیْ یَامَوْلاَیَ صَلَوَاتُ اﷲِ وَسَلاَمُہٗ عَلَیْکَ عِنْدَ اللَّہْفِ وَقَدِّم الْمَسْئَلۃَ ﷲِ عَزَّوَجَلَّ فِیْ اَمْرِی قَبْلَ حُلوْلِ التَّلْفِ وَشَمَاتَۃِ الاََعْدَآئِ فَبِکَ بُسِطَتِ النِّعْمَۃُ عَلَیَّ وَاسْئَلِ اﷲَ جَلَّ جَلاَلَہٗ لِیْ نَصْرًا عَزِیْزًا وّفَتْحًا قَرِیْبًا فِیْہِ بُلوعُ الاٰمَالِ وَخَیْرُ لمَبادِی وَخَوَاتِیْمِ الاَعْمَالِ وَالاَمْنُ مِنَ الْمَخَاوِفِ کُلِّہَا فِیْ کُلِّ حَالٍ اَنَّہٗ جَلَّ ثَنَآؤُہٗ
لِمَا یَشَآئُ فَعَّالٌ لِّمَا یُرِیْدُ وَہُوَ حَسْبِی وَنِعْمَ الْوَکِیْلُ فِیْ الْمَبْداء وَالْمَال مَاشَائَ اﷲُ لا حَوْلَ وَلاَ قُوَّۃَ اِلاَّ بِاﷲِ الْعَظِیْمِ…
(یہاں اپنا نام لکھیں)…۔
ھدایات :۔
زعفران سے عریضہ کے درمیان اپنی حاجات لکھ کر نیچے اپنانام لکھے اور خوشبو یعنی عطر لگاکر آٹے یاپاک مٹی میں رکھ کر دریا یا نہر یا گہرے کنوئیں میں علی الصبح ڈالے جس وقت عریضہ دریا میں ڈالنے کا ارادہ کرے بتوجہ تمام پکارے :
یَا حُسین بن روح! اور یہ دعا پڑھ کر عریضہ ڈال دے:۔
یَاحُسَیْن بْنَ رَوْحٍ سَلاَمٌ عَلَیْکَ اَشْہَدْ اَنَّکَ وَفَاتَکَ فِیْ سَبِیْلِ اﷲِ وَاَنَّکَ حَیٌّ عِنْدَ اﷲِ مَرْزُوْقٌ وَقَدْ خَاطَبْتُکْ فِیْ حَیٰوتِکَ الَّتِیْ عِنْدَ ا ﷲِ عَزَّوَجَلَّ فَہٰذِۂ رُقْعَتِیْ وَحَاجَتِیْ اِلٰی مَوْلٰینا صَاحِبِ الاَمْرِ علَیْہِ السَّلاَمُ فَسَلِّمْہَا اِلَیْہِ فَاَنْتَ الثِّقَۃُ الاَمِیْنُ (بحوالہ تحفۃ الاعوام صفحہ ۳۶۹)
 

ناصر رانا

رکن مکتبہ محدث
شمولیت
مئی 09، 2011
پیغامات
1,171
ری ایکشن اسکور
5,454
پوائنٹ
306
12 ۔ ہفت ہیکل
یہ ایک عربی عبارت ہے جس میں چند قرآنی آیات اور سورتیں ترتیب دی گئی ہیں اس ہفت ہیکل کے فضائل صوفیا اور اہل بدعت میں بہت معروف ہیں چنانچہ بہت سے بدعتی باقاعدہ اس ہفتِ ہیکل کا ورد کرتے ہیں اور وہ مسنون وظائف جو کہ سنن و احادیث سے مرفوعاً ثابت ہیں انہیں حقیر اور کمتر جان کر چھوڑ دیتے ہیں صرف اس لئے کہ ان مسنون وظائف میں اجر و ثواب کے بارے میں زمین و آسمان کے قلابے نہیں ملائے گئے ہیں جیسے کہ اہلِ بدعت اپنی ایجاد کردہ بدعات کے اجر و ثواب میں مبالغہ آرائی کرتے ہیں بعینہٖ معالملہ ہفت ہیکل کا ہے۔ اس کے بارے میں جاہل صوفیاء نے بڑی مبالغہ آرائیاں کی ہیں ۔ چنانچہ یازدہ شریف نامی کتاب میں مذکور ہے ۔
’’مروی ہے کہ ایک روز رسول اللہ ﷺ مدینہ منورہ کی مسجد میں بیٹھے ہوئے تھے کہ اتنے میں جبرئیل علیہ السلام نازل ہوئے اور کہا یا رسول اللہ ﷺ اللہ تعالی نے آپﷺ کو سلام بھیجا ہے اور فرمایا ہے کہ اے میرے حبیب اس ہفت ہیکل کو آپ کر نازل کرتا ہوں جو کوئی اس ہفت ہیکل کو ہر روز پڑھے گا یا اپنے ساتھ رکھے گا اللہ تعالی اس کو اور اس کے والدین کو عذاب دوزخ سے آزاد کریگا ۔ یامحمد ﷺ جس گھر میں یہ ہفت ہیکل ہو گا اس گھر میں دیو اور پری کا کبھی دخل نہ ہو گا۔ یا محمد (ﷺ) جو کوئی اس ہفت ہیکل کو لکھ کر اپنے ساتھ رکھے گا وہ مرگِ مفاجات سے اور مصیبتوں سے بچا رہے گا اور جو کوئی اس ہفت ہیکل کو لکھ کر اپنے کر اپنے پاس رکھے گا وہ ہیشہ سرخرو اور باعزت رہے گا اور جان کنی کے وقت سکراتِ موت اس شخص پر آسان ہو گی۔ یا محمد (ﷺ) جو کوئی ہر روز اس ہفت ہیکل کو پڑھے گا یا اگر پڑھنا نہ جانتا ہو تو اس کو لکھ کر اپنے پاس رکھے گا تو ثواب ستر ہزار ختم کلام اللہ کا اور ستر ہزار شہیدوں کا، ستر ہزار حج کا ، ستر ہزارآدمیوں کاروزہ افطار کرانے کا ، ستر ہزار عالموں کا ، ستر ہزار عابدوںکا ، ستر ہزار فرشتوں کا ، ستر ہزار دانش مندوں اور چاروں ملک مقرب یعنی جبرئیل ، میکائیل، اسرافیل اور عزرائیل کا پائے گا۔ یا محمد مصطفی ! جو کوئی اس ہفت ہیکل کو اپنی عمر میں ایک دفعہ دیکھے گا یا اپنے پاس رکھے گا اللہ تعالی اس کے اعمال نامے میں ستر ہزار نیکی کا ثواب لکھے گا۔ یا محمد مصطفی ! جو کوئی اس ہفت ہیکل کو اپنے پاس رکھے گا تو اللہ تعالی اس بندے کو چغل خوروں اور غیبت کرنے والوں اور تمام بلیات سے بچائے گا ۔ اگر وہ مقروض ہو گا تو اللہ تعالی اس کو قرض سے نجات دیگا اور اس کے دشمنوں کو مقہور کریگا ۔ (صفحہ ۱۰۰)
فضائل ہفت ہیکل کی مذکورہ عبارت احادیث شریفہ کی کسی بھی معتبر کتاب میں موجود نہیں ہے جس سے ثابت ہوتا ہو کہ یہ روایت موضوع ہے اور اس کا وضَّاع اللہ اور اس کے رسول پر افتراء باندھنے والا اور نہایت ہی پرلے درجے کا کذاب ہے ۔
اس روایت کے موضوع اور جھوٹ ہونے کاپہلا ثبوت تو یہی ہے کہ یہ احادیث کی کسی بھی معتبر کتاب میں نہیں،
دوسرا ثبوت یہ ہے کہ اس میں اللہ تعالیٰ اپنے محبوب پیغمبر کو یا محمّد کہہ کر مخاطب کرتا ہے جو کہ اللہ کی سنت نہیں ۔
قرآن مجید میں ایسے بہت سے مقامات ہیں جہاں اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب پیغمبر کو پکارا ہے لیکن یا محمد کہہ کر نہیں بلکہ یا ایہا المزمل ، یا ایھا المدثر، یٰسن، یا ایہا الرسول، یاایہا النبی وغیرہ کی پیاری پیاری نواؤں سے پکا را ہے مبادا کہ لوگ میرے محبوب کا نام بے ادبی سے نہ لیں ۔ یہ دوسرا ثبوت ا س امر کی جانب بھی اشارہ کرتا ہے کہ اللہ اور اس کے رسول پر یہ جھوٹ کس بے حیا نے گھڑا ہے یہ جھوٹ اس نے گھڑا ہے جس کے نزدیک یا محمد کی صدا لگانا ، نعرہ لگانا اور اس پکار کو مختلف جگہوں پر لکھنا جائز ہے ۔ لاریب یہ لوگ صرف بدعتی ہی نہیں بلکہ اللہ اور اس کے رسول پر جھوٹ باندھنے والے بھی ہیں ۔ اس ہفت ہیکل کو ایجاد کرنے والے لکھنے والے ، اس کی تلقین کرنے والے ، اس پر یقین رکھنے والے او راس کو پڑھنے والے صرف بدعتی ہی نہیں بلکہ اللہ کے رسول پر افتراء باندھنے والے ہیں انہیں اس ہفت ہیکل پر مبینہ اجر و ثواب تو بہت دور کی بات ہے کسی قسم کی امید ثواب نہیں رکھنی چاہئیے باوجود یہ کہ اس ہفت ہیکل میں قرآنی آیات و سورتوں کے علاوہ کچھ اور نہیں لیکن چونکہ یہ مسنون نہیں اور ساتھ ہی جھوٹے اجر و ثواب کے ساتھ مذکور ہے لہٰذا اس کا نہ پڑھنا اس کے پڑھنے سے بہتر ہے ۔ اس ہفت ہیکل کی تفصیل کچھ اس طرح ہے ۔
ہیکل اوّل:۔ بسم اﷲ الرحمن الرحیم ، اعیذ نفسی باﷲ العلی العظیم پھر آیت الکرسی
ہیکل دوم:۔ بسم اﷲ الرحمن الرحیم ، اعیذ نفسی باﷲ العلی العظیم پھر سورہ آل عمران کی آیت ۲۵اور بنی اسرائیل کی آیت ۷۷تا۸۰۔
ہیکل سوم:۔ بسم اﷲ الرحمن الرحیم ، اعیذ نفسی باﷲ العلی العظیم پھر سورئہ بقرہ کی آخر آیات اٰمن الرسول سے آخری آیت تک ۔
ہیکل چہارم :۔ بسم اﷲ الرحمن الرحیم ، اعیذ نفسی باﷲ العلی العظیم پھر سورہ بنی اسرائیل کی آیت ۸۱ تا آیت ۸۵۔
ہیکل پنجم :۔ بسم اﷲ الرحمن الرحیم ، اعیذ نفسی باﷲ العلی العظیم پھر سورئہ مریم کی آیت ۴تا آیت ۶ پھر سورۃ الفتح آیت ۲۷ ۔
ہیکل ششم :۔ بسم اﷲ الرحمن الرحیم ، اعیذ نفسی باﷲ العلی العظیم پھر سورئہ جن شروع تا آیت ۱تا۴۔
ہیکل ہفتم :۔ بسم اﷲ الرحمن الرحیم ، اعیذ نفسی باﷲ العلی العظیم پھر سوئہ نون کی آخری آیات ، سورئہ طارق ، سورئہ لہب، سورئہ اخلاص، سورئہ فلق ، سورئہ الناس۔

میں قارئین کو دعوت غور و فکر دیتا ہوں اس ہفت ہیکل میں جوکچھ ہے وہ قرآن سے ہے لیکن جو اجروثواب اس ہفت ہیکل کا عوام الناس میں مشہور ہے وہ قرآن مجید کی تلاوت پر نہیں ۔ رسول اللہ ﷺ نے قرآن مجید کی تلاوت کے جو فضائل بیان فرمائے ہیں وہ سب مل کر بھی اس ہفت ہیکل کے اجر و ثواب تک نہیں پہنچتے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ اہل بدعت کی غرض و عائت عامۃ المسلمین کو قرآن مجید کی مسنون تلاوت سے دور کرنااور انہیں ہفت ہیکل کی غیر مسنون تلاوت میں الجھانا ہے ہر وہ شخص جو خود کو اہل سنت یا مسلم و مومن مؤحد کہتا ہے اس کا یہ فریضہ بنتا ہے کہ ایسی بدعات سے نہ صرف خود دور ہے بلکہ لوگوں کو بھی ان کی حقیقت سے باخبر کرتا رہی ۔
 

ناصر رانا

رکن مکتبہ محدث
شمولیت
مئی 09، 2011
پیغامات
1,171
ری ایکشن اسکور
5,454
پوائنٹ
306
13۔ شش قفل:۔
ہفت ہیکل کی طرح صوفیا او راہل بدعت میں ایک غیر مسنون وظیفہ شش قفل کے نام سے مشہور ہے اس کے فضائل بازاروں میں ملنے والے پنج سورہ شریف، یازدہ سورئہ شریف اور تائل شریف نامی کتابوں میں بکثرت ملتے ہیں ششقفل کے بار میں یازدہ سورہ شریف میں لکھا ہے:۔
’’ حضرت عبداللہ بن نعمان سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جو کوئی اس شش قفل کو ہر شب پڑھے گا اور اگرپڑھنا نہ جانتاہو تو اپنے ساتھ رکھے اللہ تعالیٰ اس شخص کے واسطے بے حساب رحمت عطا فرمائے گا اور تمام آفات وبلیات سے محفوظ رکھے گا اس شخص کی دعا ہمیشہ مستجب و قبول ہو گی اور دنیا میں بھی عزت و حرمت کے ساتھ رہے گا‘‘ (یازدہ سورہ شریف)
اس کے بعد یہ شش قفل حسب ترتیب درج ہے :۔
قفل اوّل
بسم اﷲالرحمن الرحیم بسم اللہ السَّمِیْعِ الْبَصِیْرَ الَّذِیْ لَیْسَ کَمِثْلِہٖ شَئٌ وَّہُوَ بِکُلِّ شَئٍ عَلِیْنمٌ بِرَحْمَتِکَ یَآاَرْحَمُ الرَّحِمِیْنَ وَصَلَّی اﷲُ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَآلِہٖ اَجْمَعِیْنَ ۔
قفل دوم
بِسْمِ اﷲالرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم بِسْمِ اﷲِ الْخَالِق العَلِیم الَّذِی لَیْسَ کَمِثْلِہٖ شَیْیئٌ وَّ ھُوَ الْفَتَّاحُ الْعَلِیْم بِرَحْمَتِکَ یٰآ اَرْحَمَ الرَّاحِمِیْنَ
قفل سوئم
بِسْمِ اﷲالرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم بِسْمِ اﷲِ الْسَمِیْعِ الْعَلِیم الَّذِی لَیْسَ کَمِثْلِہٖ شَیْیئٌ وَّ ھُوَ الْعَزِیْزُ الْکَرِیْم بِرَحْمَتِکَ یٰآ اَرْحَمَ الرَّاحِمِیْنَ
قفل چہارم
بِسْمِ اﷲالرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم بِسْمِ اﷲِ الْعَزِیز الْکَرِیْم الَّذِی لَیْسَ کَمِثْلِہٖ شَیْیئٌ وَّ ھُوَ الْعَزِیْزُ الْکَرِیْم بِرَحْمَتِکَ یٰآ اَرْحَمَ الرَّاحِمِیْنَ
قفل پنجم
بِسْمِ اﷲالرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم بِسْمِ اﷲِ الْسَمِیْعِ الْعَلِیم الَّذِی لَیْسَ کَمِثْلِہٖ شَیْیئٌ وَّ ھُوَ الْعَلِیْم الْخَبِیْر بِرَحْمَتِکَ یٰآ اَرْحَمَ الرَّاحِمِیْنَ
قفل ششم
بِسْمِ اﷲالرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم بِسْمِ اﷲِ الْعَزِیْز الرَّحِیْم الَّذِی لَیْسَ کَمِثْلِہٖ شَیْیئٌ وَّ ھُوَ الْعَزِیْزُ الْغَفُوْر بِرَحْمَتِکَ فَاﷲِ خَیْرٌ حَافظاً وَّھُوَ اَرْحَمُ الرَّاحِمِیْن۔

یہ شش قفل باوجود بڑی تلاش و جستجو کے کسی بھی معتبر کتب حدیث میں نہیں ملا ہے ۔ جس سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ روایت بھی ہفت ہیکل کی طرح موضوع ہے ۔
اس کے موضوع ہونے کا ایک ثبوت اس کا فارسی نام بھی ہے اگر یہ وظیفہ اور ہفت ہیکل والا وظیفہ رسول اللہ ﷺ کا تلقین کردہ ہوتا تو اس کا نام عربی زبان میں ہوتا۔
دوسرا ثبوت اس کے اور ہفت ہیکل کے موضوع ہونے کا یہ ہے کہ اس میں اللہ اور اس کے رسول کی جانب سے کہا جاتا ہے کہ جو کوئی اس کو پڑھے اور اگر پڑھنا نہ جانتا ہو تو اس کو اپنے لکھ رکھے تو جو شخص پڑھنا نہ جانتا ہو گا وہ اس شش قفل کو یا ہفت ہیکل کو لکھے گا کیسے ؟ نیز یہ کلام اللہ یا کلام الرسول ﷺ کا انداز نہیں کہ اگر کوئی پڑھنا نہ جانتا ہو تو وہ لکھ کر تعویذ بنا کر رکھ لے۔ ثبوت کے طور پر کلام اللہ ، احادیثِ قدسیہ و احادیثِ شریفہ کا مطالعہ کیا جا سکتا ہے۔ پھر تیسرا ثبوت اس کے موضوع اور بدعت ہونے کا یہ ہے کہ اس کا نام اپنے مضمون سے مطابقت نہیں رکھتا۔ ۔ نام سے تو ایسا لگتا ہے کہ اس میں کوئی ایسا وظیفہ ہے کہ بند تالوں کے سامنے کھڑے ہو کر پڑھیں تو وہ ’’کھل جا سم سم‘‘ والے علی بابا کے وظیفے کی طرح کھلتے چلے جائیں لیکن اس وظیفے میں ایسی کوئی بات نہیں۔ الغرض یہ لکھنے میں مجھے کوئی باک نہیں کہ ہفت ہیکل کی طرح شش قفل پڑھنا اور اپنے پاس لکھ رکھنا ایک واضح اور کھلی ہوئی بدعت ہے ۔
 

ناصر رانا

رکن مکتبہ محدث
شمولیت
مئی 09، 2011
پیغامات
1,171
ری ایکشن اسکور
5,454
پوائنٹ
306
14۔ دعائے گنج العرش
’’یازدہ شریف میں مذکور ہے کہ جبرئیل نے یہ دعا جو عرش معلی پر لکھی ہوئی تھی بحکم رب العالمین رسول اللہ ﷺکو سکھائی تھی ۔ اسی واسطے اس دعا کو دعائے گنج العرش کہتے ہیں جس کے معنی ہیں عرش کا خزانہ۔
یہ واقعی عرش کا خزانہ ہے اور اس میں یہ خاصیت بتائی جاتی ہے کہ جو مسلمان صدق دل سے کسی کامل بزرگ صاحبِ تاثیر سے اجازت لے کر پڑھے گا تو اللہ تعالی اس کو پانچ چیزیں عطا فرمائے گا ۔ اوّل حصول مطلبِ دینوی و دنیوی۔ دوم آسانی مہمات و مشکل مشکلات ۔ سوئم کشائش رز و دافع تنگی۔ چہارم مقہوری دشمن اور مغلوبی شیطان۔ پنجم محفوظی جمیع بلیات و آفات۔ پس جو شخص اس دعائے متبرکہ کو ہر روز بلا ناغہ بعد تلاوت قرآنِ مجید پڑھنے کا التزام رکھے گا ان شاء اللہ العزیز اس کے جملہ مطالب و حاجات بر آئیں گی۔ اس کے بعد یہ دعا لکھی ہے : ۔
بسم اﷲ سبحان اﷲ الملک القدوس ، لاَ اِلہٰ اِلاَّ اﷲ العزیزِ الجبَّار
لاَ اِلہٰ اِلاَّ اﷲ سُبحَانَ الرَّؤُف الرَّحِیم ، لاَ اِلہٰ اِلاَّ اﷲ ُ سُبْحَانَ الغَفورِ لحَلِیم

یہ دعا کافی طویل ہے یہاں نمونہ کے طور پر ابتدائی چند سطور نقل کی گئی ہیں تاکہ قارئین اس کے متن سے با خبر ہو جائیں۔ اس دعا میں بظاہر کوئی شرک والی بات نہیں ہے ۔ تمام کی تمام دعا اللہ کے مقدس ناموں پر اور اس کی تنزیہہ پر مبنی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ بہت سے نام نہاد مؤحد بھی اس کا ورد کرتے ہیں ۔ خصوصاً دیوبندی حضرات اور ان میں بھی تبلیغی جماعت سے تعلق رکھنے والے حضرات بکثرت دعائے گنج العرش پڑھتے ہیں ۔ جب ان حضرات کو اس دعا کے پڑھنے سے روکا جاتا ہے تو کہتے ہیں کہ اس میں ایسی کونسی شرکیہ عبارت ہے کہ اسے نہ پڑھا جائے ؟ میں کہتا ہوں کہ شرکیہ عبارت سے بڑھ کر اس میں اللہ پر اور اس کے رسول ﷺ پر جو افتراء ہے وہ کسی ظلم عظیم سے کم نہیں ہے۔ یہ دعا نہ عرشِ معلی پر مکتوب ہے نہ جبرئیل علیہ السلام نے وہاں سے پڑھی اور نہ ہی اللہ کے حکم سے رسول اللہ ﷺ کو سکھائی۔ اللہ کا عرش نہ ہوا کوئی بلیک بورڈ یا نوٹس بورڈ ہو گیا کہ وہاں ہر چیز لکھ دی جاتی ہے۔ یہ اہل بدعت کا وطیرہ ہے کہ جب کسی چیز کو قرآن و حدیث سے ثابت نہیں کر سکتے تو اسے عرش پر لکھوا دیتے ہیں۔ عامۃ المسلمین کو یہ بات جان رکھنی چاہیئے کہ جہاں صوفیاء اور دین فروش مولوی کسی شے کے عرش پر مکتوب ہونے کی بات کریں سمجھ لیں کہ یہ شے ضرور بالضرور بدعت ہے۔ اللہ کے عرش کا خزانہ تو سورۃ الفاتحہ اور سورۃ البقرہ کی آخری آیات ہیں ۔ اس کے علاوہ کوئی دعا ، کوئی وظیفہ ، کوئی دورد ، عرش کا خزانہ نہیں۔ احادیث شریفہ میں سورۃ الفاتحہ اور سورۃ البقرہ کے علاوہ کسی اور شے کو عرش کا خزانہ نہیں بتایا گیا ہے
لہذا اس دعا کا پڑھنا، لکھنا اور اس کی تلقین کرنا نہ صرف بدعت ہے بلکہ پیارے پیغمبر پر افتراء بھی ہے ۔
 
Top