روح القدس کی تعبیرات
روح القدس، جمہور مفسرین کے نزدیک حضرت جبرئیل ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :
وَلَقَدْ آتَيْنَا مُوسَى الْكِتَابَ وَقَفَّيْنَا مِن بَعْدِهِ بِالرُّسُلِ ۖ وَآتَيْنَا عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ الْبَيِّنَاتِ وَأَيَّدْنَاهُ بِرُوحِ الْقُدُسِ (سورة البقرة)
اور البتہ ہم نے موسٰی علیہ السلام کو کتاب دی، اس کے بعد پے در پے پیغمبر بھیجے۔ اور ہم نے عیسٰی ابن مریم کو کھلے کھلے معجزے دیے اور پاک روح یعنی جبرئیل علیہ السلام کے ذریعے سے ہم نے اس کی تائید کی۔
جمہور مفسرین کے نزدیک ’’روح القدس ‘‘ حضرت جبرئیل ہیں، ابن عباس رضی اللہ عنہ، قتادہ، ضحاک سدی وغیرہ کا قول یہی ہے، اور اس قول کی دلیل یہ ہے :
وَإِذَا بَدَّلْنَا آيَةً مَّكَانَ آيَةٍ ۙ وَاللَّـهُ أَعْلَمُ بِمَا يُنَزِّلُ قَالُوا إِنَّمَا أَنتَ مُفْتَرٍ ۚ بَلْ أَكْثَرُهُمْ لَا يَعْلَمُونَ ﴿١٠١﴾ قُلْ نَزَّلَهُ رُوحُ الْقُدُسِ مِن رَّبِّكَ بِالْحَقِّ لِيُثَبِّتَ الَّذِينَ آمَنُوا وَهُدًى وَبُشْرَىٰ لِلْمُسْلِمِينَ (سورة النحل)
اور جب ہم کسی آیت کی جگہ کوئی دوسری آیت بدل کر لاتے ہیں تو اللہ تعالیٰ اپنے منزلات کی حکمت و مصلحت سے خوب واقف ہوتا ہے مگر وہ کہتے ہیں کہ تو افترا پرداز ہے۔ حق بات یہ ہے کہ ان میں سے اکثر خود بے علم ہیں۔ اے رسول ان سے کہو کہ اسے روح القدس نے تیرے پروردگار کی طرف سے حق کے ساتھ نازل کیا ہے تاکہ اللہ تعالیٰ مومنوں کو مضبوط کرے اور یہ مسلمانوں کے لیے ہدایت و بشارت ہے۔
ضحاک نے ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے، کہ ’’روح القدس‘‘ ایک ’’اسم‘‘ ہے جس سے عیسٰی علیہ السلام مردوں کو زندہ کیا کرتے تھے"۔ عبدالرحمٰن ابن زید بن اسلم سے مروی ہے کہ ’’وہ انجیل ہے ‘‘۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :
أُولَـٰئِكَ كَتَبَ فِي قُلُوبِهِمُ الْإِيمَانَ وَأَيَّدَهُم بِرُوحٍ مِّنْهُ (سورة المجادلة)
یہی لوگ ہیں جن کے دلوں میں اللہ تعالیٰ نے ایمان نقش کر دیا اور اپنی روح سے ان کی تائید کی۔
وَكَذَٰلِكَ أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ رُوحًا مِّنْ أَمْرِنَا ۚ مَا كُنتَ تَدْرِي مَا الْكِتَابُ وَلَا الْإِيمَانُ وَلَـٰكِن جَعَلْنَاهُ نُورًا نَّهْدِي بِهِ مَن نَّشَاءُ مِنْ عِبَادِنَا (سورة الشورى)
اور اسی طرح ہم نے تیری طرف اپنے حکم سے ایک روح وحی کی۔ تجھے تو اتنا بھی معلوم نہ تھا کہ کتاب کیا ہوتی ہے اور ایمان کس حقیقت کا نام ہے؟ لیکن ہم نے اس روح یعنی قرآن کو ایک نور بنایا جس کے ذریعے سے ہم اپنے بندوں میں سے جسے چاہتے ہیں، راہ ہدایت دکھاتے ہیں۔
يُنَزِّلُ الْمَلَائِكَةَ بِالرُّوحِ مِنْ أَمْرِهِ عَلَىٰ مَن يَشَاءُ مِنْ عِبَادِهِ (سورة النحل)
وہ اپنے حکم سے فرشتوں کو وحی دے کر اپنے بندوں میں سے جس کے پاس چاہتا ہے بھیجتا ہے۔
سو اللہ تعالیٰ جو چیز اپنے انبیاء کے قلوب میں نازل کرتا ہے اور جو ایمان خالص سے ان کے دلوں کو زندہ کرتی ہے اس کا نام اس بزرگ و برتر ذات نے ’’روح‘‘ رکھا ہے، اور یہ وہ چیز ہے جس کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی تائید بھی کرتا ہے تو پھر مرسلین اور مسیح جیسے اولوالعزم بندوں کی تائید کیوں نہ کرتا اور مسیح علیہ السلام تو جمہور انبیاء و رسل کی نسبت اس تائید کے زیادہ مستحق ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے :
تِلْكَ الرُّسُلُ فَضَّلْنَا بَعْضَهُمْ عَلَىٰ بَعْضٍ ۘ مِّنْهُم مَّن كَلَّمَ اللَّـهُ ۖ وَرَفَعَ بَعْضَهُمْ دَرَجَاتٍ ۚ وَآتَيْنَا عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ الْبَيِّنَاتِ وَأَيَّدْنَاهُ بِرُوحِ الْقُدُسِ (سورة البقرة)
ان رسولوں میں سے ہم نے بعض کو بعض پر فضیلت دی، ان میں سے بعض کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے کلام کیا اور بعض کے درجات بلند کیے اور عیسٰی ابن مریم کو ہم نے کھلے کھلے معجزے دیے اور پاک روح کے ساتھ اس کی تائید کی۔
زجاج نے اس تائید کی تین صورتیں بیان کیں، ایک یہ کہ اس نے اپنے امر اور اپنے دین کے اظہار کے لیے مسیح علیہ السلام کی تائید کی۔ دوسرے یہ کہ جب بنی اسرائیل نے مسیح علیہ السلام کے قتل کا ارادہ کیا تو اللہ تعالیٰ نے ان سے بچانے میں مدد کی۔ تیسرے یہ کہ مسیح علیہ السلام کے جمیع حالات میں اس کی تائید فرمائی۔
یہ ایک کھلی ہوئی حقیقت ہے کہ ’’ابن‘‘ کا لفظ ان کی نسبت میں مسیح علیہ السلام کے ساتھ مختص نہیں ہے۔ بلکہ ان کی رائے ہے کہ اللہ تعالیٰ نے توراۃ میں اسرائیل سے بھی کہا ہے، کہ تو میرا اولین بیٹا ہے، اور مسیح علیہ السلام فرمایا کرتے تھے، ’’میرا باپ اور تمہارا باپ‘‘۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کو سارے لوگوں کا باپ بناتے تھے اور جس طرح اپنے آپ کو اللہ کا بیٹا کہتے تھے، اسی طرح دوسروں کو بھی کہتے تھے۔ سو معلوم ہوا کہ مسیح علیہ السلام کو اس باب میں کوئی خصوصیت حاصل نہیں ہے لیکن نصارٰی تو یہ کہتے ہیں کہ مسیح اللہ کا طبعی بیٹا ہے اور دوسرا جو شخص بھی ہے، وہ اس کا وضعی بیٹا ہے۔ حالانکہ ان کے پاس یہ فرق قائم کرنے کے لیے کوئی دلیل موجود نہیں ہے۔ مزید براں مسیح علیہ السلام کو طبعی بیٹا قرار دینے سے بعض محالات عقلی و سمعی لازم آتے ہیں جن سے اس قول کا بطلان بالصراحت معلو م ہو جاتا ہے۔