ماریہ انعام
مشہور رکن
- شمولیت
- نومبر 12، 2013
- پیغامات
- 498
- ری ایکشن اسکور
- 377
- پوائنٹ
- 164
وَقَالَ يَا بَنِيَّ لَا تَدْخُلُوا مِن بَابٍ وَاحِدٍ وَادْخُلُوا مِنْ أَبْوَابٍ مُّتَفَرِّقَةٍ ۖ وَمَا أُغْنِي عَنكُم مِّنَ اللَّـهِ مِن شَيْءٍ ۖ إِنِ الْحُكْمُ إِلَّا لِلَّـهِ ۖ عَلَيْهِ تَوَكَّلْتُ ۖ وَعَلَيْهِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُتَوَكِّلُونَ ﴿٦٧﴾ وَلَمَّا دَخَلُوا مِنْ حَيْثُ أَمَرَهُمْ أَبُوهُم مَّا كَانَ يُغْنِي عَنْهُم مِّنَ اللَّـهِ مِن شَيْءٍ إِلَّا حَاجَةً فِي نَفْسِ يَعْقُوبَ قَضَاهَا ۚ وَإِنَّهُ لَذُو عِلْمٍ لِّمَا عَلَّمْنَاهُ وَلَـٰكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ ﴿٦٨﴾
ترجمہ:اور (یعقوب علیہ السلام) نے کہا اے میرے بچو! تم سب ایک دروازے سے نہ جانا بلکہ کئی جدا جدا دروازوں میں سے داخل ہونا۔ میں اللہ کی طرف سے آنے والی کسی چیز کو تم سے ٹال نہیں سکتا۔ حکم صرف اللہ ہی کا چلتا ہے۔ میرا کامل بھروسہ اسی پر ہے اور ہر ایک بھروسہ کرنے والے کو اسی پر بھروسہ کرنا چاہئے (67) جب وه انہی راستوں سے جن کا حکم ان کے والد نے انہیں دیا تھا، گئے۔ کچھ نہ تھا کہ اللہ نے جو بات مقرر کر دی ہے وه اس سے انہیں ذرا بھی بچا لے۔ مگر یعقوب (علیہ السلام) کے دل میں ایک خیال (پیدا ہوا) جسے اس نے پورا کر لیا، بلاشبہ وه ہمارے سکھلائے ہوئے علم کا عالم تھا لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے (68)
سورۃ یوسف کی یہ آیت تقدیر اور تدبیر کی آپس میں نسبت بیان کرتی ہے۔۔۔حقیقت یہ ہے کہ اس نسبت کا تعیین بہت اہم ہے اور ہمارے عقیدے کا لازمہ بھی ۔۔۔بہت سے فرقوں کی گمراہی کی بنیاد یہی ہے۔۔۔کچھ لوگ تقدیر کی انتہاء پر گئے توجبریہ کہلائے اور بعض نے تدبیر کو تقدیر پر فوقیت دی تو قدریہ سے موسوم ہوئے۔۔۔
فورم پر موجود اہلِ علم خواتین وحضرات سے گذارش ہے کہ اس مسئلہ پر بحث کریں۔۔۔امید ہے بہت سوں کا فائدہ ہو گا۔
ترجمہ:اور (یعقوب علیہ السلام) نے کہا اے میرے بچو! تم سب ایک دروازے سے نہ جانا بلکہ کئی جدا جدا دروازوں میں سے داخل ہونا۔ میں اللہ کی طرف سے آنے والی کسی چیز کو تم سے ٹال نہیں سکتا۔ حکم صرف اللہ ہی کا چلتا ہے۔ میرا کامل بھروسہ اسی پر ہے اور ہر ایک بھروسہ کرنے والے کو اسی پر بھروسہ کرنا چاہئے (67) جب وه انہی راستوں سے جن کا حکم ان کے والد نے انہیں دیا تھا، گئے۔ کچھ نہ تھا کہ اللہ نے جو بات مقرر کر دی ہے وه اس سے انہیں ذرا بھی بچا لے۔ مگر یعقوب (علیہ السلام) کے دل میں ایک خیال (پیدا ہوا) جسے اس نے پورا کر لیا، بلاشبہ وه ہمارے سکھلائے ہوئے علم کا عالم تھا لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے (68)
سورۃ یوسف کی یہ آیت تقدیر اور تدبیر کی آپس میں نسبت بیان کرتی ہے۔۔۔حقیقت یہ ہے کہ اس نسبت کا تعیین بہت اہم ہے اور ہمارے عقیدے کا لازمہ بھی ۔۔۔بہت سے فرقوں کی گمراہی کی بنیاد یہی ہے۔۔۔کچھ لوگ تقدیر کی انتہاء پر گئے توجبریہ کہلائے اور بعض نے تدبیر کو تقدیر پر فوقیت دی تو قدریہ سے موسوم ہوئے۔۔۔
فورم پر موجود اہلِ علم خواتین وحضرات سے گذارش ہے کہ اس مسئلہ پر بحث کریں۔۔۔امید ہے بہت سوں کا فائدہ ہو گا۔