عامر عدنان
مشہور رکن
- شمولیت
- جون 22، 2015
- پیغامات
- 921
- ری ایکشن اسکور
- 263
- پوائنٹ
- 142
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
اس تحریر کو رومن اردو میں پڑھنے اور اسکین پیجیس کے لئے یہاں کلک کریں
https://ahlehadithhaq.wordpress.com/2016/12/22/talqeen-al-mayyat-لقنوا-موتاكم-yani-apne-marne-wale-ko-talqeen-karo-se-murad-qareeb-ul-maut-log-hain-murde-nahi/
دفن کرنے کے بعد میت کو تلقین کرنا بدعت سیئہ اور قبیحہ ہے،قرآن اور حدیث میں اس کی کوئی اصل نہیں،صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اور ثقہ تابعین عظام رحمہم اللہ سے یہ فعل قطعاً ثابت نہیں،یہ کامل و اکمل دین میں اضافہ اور زیادتی ہے، اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے پیش قدمی ہے :
فرمان باری تعالی ہے :
"يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تُقَدِّمُوا بَيْنَ يَدَيِ اللَّهِ وَرَسُولِهِ ۖ وَاتَّقُوا اللَّهَ ۚ إِنَّ اللَّهَ سَمِيعٌ عَلِيمٌ"
اے ایمان والو! اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے پیش قدمی نہ کرو اور اللہ سے ڈرو،یقیناً اللہ تعالی خوب سننے والا خوب جاننے والا ہے.[سورہ حجرات آیت ۱]
یاد رہے دفن کے بعد میت کو تلقین کرنا کسی دلیل شرعی سے ثابت نہیں ہے،اہل بدعت کے دلائل کا علمی و تحقیقی جائزہ یہاں سے ملاحظہ کریں
http://forum.mohaddis.com/threads/تلقین-المیت-سے-متعلق-روایات-کا-تحقیقی-جائزہ.34408/
بعض احادیث میں "لقّنوا موتاکم لا اله الا الله" کا ذکر ہے اور اہل بدعت ان احادیث سے مردے کو تلقین کرنا مراد لیتے ہیں جو کہ بالکل بھی درست نہیں جب کہ اس عبارت کا اصل معنی ہے کہ اپنے قریب الموت لوگوں کو لا الہ الا اللہ کی تلقین کرو اور ان شاء اللہ اس کو ثابت کیا جائے گا،اہل بدعت میت کو تلقین کرنے سے متعلق یہ روایت پیش کرتے ہیں:
"حدثنا بشر بن المفضل، حدثنا عمارة بن غزية، عن يحيى بن عمارة، قال: سمعت أبا سعيد، يقول: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " لقنوا موتاكم قول لا إله إلا الله "
سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اپنے قریب الموت لوگوں کو لا الہ الا اللہ کی تلقین کرو.[مسند احمد ج ۱۷ ص ۱۹ حدیث ۱۰۹۹۳،صحیح مسلم ج ۱ ص ۳۰۰ حدیث ۹۱۶،سنن ابی داود حدیث ۳۱۱۷،سنن ترمذی حدیث ۹۷۶،سنن نسائی حدیث ۱۸۲۸،سنن ابن ماجہ ۱۴۴۵]
تبصرہ: اس بات پر مسلمانوں کا اتفاق ہے کہ یہ تلقین قریب الموت انسان کو کی جائے گی،نہ کہ مردہ کو،جیسا کہ خود نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل مبارک سے ثابت ہے:
"حدثنا عفان، حدثنا حماد، قال: أخبرنا ثابت، عن أنس، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم عاد رجلا من الأنصار، فقال: " يا خال، قل: لا إله إلا الله "، قال: خال أم عم؟ قال: " بل خال "، قال: وخير لي أن أقولها؟ قال: " نعم "
سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک انصاری آدمی کی تیمارداری کی،فرمایا،اے ماموں جان ! لا الہ الا اللہ کہہ دیں،اس نے کہا،ماموں یا چچا؟فرمایا،بلکہ ماموں،اس نے کہا،کیا یہ (لا الہ الا اللہ) کہنا میرے لئے بہتر ہوگا؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا،ہاں.[مسند احمد ج ۲۱ ص ۳۲۸ حدیث ۱۳۸۲۶ وسندہ صحیح]
امام ہیثمی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
"رواه أبو يعلى والبزار، ورجاله رجال الصحيح"
کہ اس حدیث کو امام ابو یعلٰی اور امام بزار نے بیان کیا ہے اور اس کے راوی صحیح (بخاری) کے راوی ہیں.[مجمع الزوائد ج ۲ ص ۳۲۵]
امام بوصیری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
"رواه أبو يعلى والبزار بسند الصحيح"
کہ اس حدیث کو امام ابو یعلی اور امام بزار نے صحیح سند کے ساتھ بیان کیا ہے.[اتحاف الخيرة المهرة ج ۲ ص ۴۲۷ رقم ۱۸۲۹]
امام ترمذی رحمہ اللہ اس حدیث پر یوں باب قائم کرتے ہیں:
"باب ما جاء في تلقين المريض عند الموت، والدعاء له عنده"
کہ مریض کو موت کے وقت (لا الہ الا اللہ) کی تلقین کرنے اور اس کے لئے دعا کرنے کا بیان.[جامع الترمذی ج ۱ ص ۵۴۴]
نیز فرماتے ہیں:
"وقد كان يستحب أن يلقن المريض عند الموت قول لا إله إلا الله وقال بعض أهل العلم: إذا قال ذلك مرة، فما لم يتكلم بعد ذلك، فلا ينبغي أن يلقن، ولا يكثر عليه في هذا"
کہ موت کے وقت مریض کو لا الہ الا اللہ کی تلقین کرنا مستحب ہے،بعض اہل علم کا کہنا ہے کہ آدمی ایک مرتبہ کہہ دے تو جب تک وہ اس کے بعد کلام نہ کرے،اسے تلقین نہ کرنی چاہئے،نہ ہی اسے زیادہ کہنا چاہئے.[جامع الترمذی ج ۳ ص ۲۹۸]
امام ابن حبان رحمہ اللہ نے اس حدیث پر یہ باب قائم کیا ہے:
"ذكر الأمر بتلقين الشهادة من حضرته المنية"
کہ قریب المرگ کو لا الہ الا اللہ کی تلقین کرنے کے حکم کا بیان.[صحیح ابن حبان ج ۷ ص ۲۷۱]
حافظ ابوالعباس احمد بن عمر بن ابراہیم القرطبی رحمہ اللہ (متوفی ۶۵۶ ھ) فرماتے ہیں:
"قوله صلى الله عليه وسلم : لقنوا موتاكم لا اله الا الله، أى قولوا لهم ذلك وذكروهم به عند الموت وسماهم صلى الله عليه وسلم موتى، لأن الموت قد حضرتهم،وتلقين الموتى هذه الكلمة سنة مأثورة، عمل به المسلمون، وذلك ليكون آخر كلامه : لا اله الا الله، فيختم له بالسعادة، وليدخل فى عموم قوله صلى الله عليه وسلم : من كان آخر كلامه : لا اله الا الله دخل الجنة"
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان کہ اپنے مرنے والوں کو لا الہ الا اللہ کی تلقین کرو،اس کا مطلب یہ ہے کہ موت کے وقت ان کو یاد دلاؤ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قریب الموت لوگوں کو مردہ کہہ دیا ہے،کیونکہ موت انکے پاس حاضر ہو چکی ہوتی ہے،مرنے والوں کو اس کلمہ کی تلقین کرنا سنت ماثورہ ہے،مسلمانوں کا اس پر عمل رہا ہے،اس کا مقصد یہ ہے کہ مرنے والے کا آخری کلام لا الہ الا اللہ ہو جائے،یوں اسی کلمہ پر اس کا خوش بختی کے ساتھ خاتمہ ہو جائے اور وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اس عمومی فرمان میں داخل ہو جائے کہ جس کا آخری کلام لا الہ الا اللہ ہو جائے،وہ جنت میں داخل ہو جائے گا.[المفھم ج ۲ ص ۵۷۰،۵۶۹،نیز دیکھیں زھر الربی للسیوطی ص ۵۱۴]
امام نووی رحمہ اللہ اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں:
"معناه من حضره الموت والمراد ذكروه لا إله إلا الله لتكون آخر كلامه كما في الحديث من كان آخر كلامه لا إله إلا الله دخل الجنة والأمر بهذا التلقين أَمْرُ نَدْبٍ وَأَجْمَعَ الْعُلَمَاءُ عَلَى هَذَا التَّلْقِينِ"
کہ اس کا مطلب ہے جو قریب المرگ ہو اسے لا الہ الا اللہ یاد کروائیں،تاکہ اسکا آخری کلام یہی ہو جائے،جیسا کہ حدیث جس کا آخری کلام لا الہ الا اللہ ہوگا،وہ جنت میں داخل ہو گیا،تلقین کرنے کا یہ حکم استحبابی ہے،علماء کا اسی (طریقہ) تلقین پر اجماع ہے.[شرح صحیح مسلم ص ۵۹۵]
عبدالرحمن شرف الحق عظیم آبادی رحمہ اللہ اس حدیث کی شرح میں فرماتے ہیں:
"أي ذكروا من حضره الموت منكم بكلمة التوحيد أو بكلمتي الشهادة بأن تتلفظوا بها أو بهما عنده ليكون آخر كلامه كما في الحديث من كان آخر كلامه لا إله إلا الله دخل الجنة وقال السندي المراد من حضره الموت لا من مات"
کہ اس سے مراد یہ ہے کہ جو مرنے کے قریب ہوں،موت اس کے سر پر پہنچ چکی ہو،انہیں کلمہ توحید لا الہ الا اللہ یا شہادت کے دونوں کلموں یعنی : لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ اس طرح اسے یاد دلاؤ،کہ اس کے سامنے یہ کلمہ پڑھو،تاکہ یہ کلمہ اس کا آخری کلام ہوجائے،جیسا کہ حدیث شریف میں ہے کہ : جس کا آخری کلام لا الہ الا اللہ ہوا،وہ جنت میں داخل ہوگا،اور علامہ سندھی حنفی فرماتے ہیں اس تلقین سے مراد یہ ہے کہ اس شخص کو کلمہ کی تلقین کرو جو قریب الموت ہو،نہ کہ وہ جو مرچکا ہو(یعنی تلقین زندہ کو کرنی ہے،مردہ کو نہیں).[عون المعبود علی سنن ابی داود ص ۱۳۳۱]
صاحب ھدایہ جناب برھان الدین ابو الحسن علی بن ابو بکر المرغیانی فرماتے ہیں:
"المراد الذي قرب من الموت"
کہ اس سے قریب الموت مراد ہے.[الھدایہ شرح بدایتہ المبتدی ج ۲ ص ۱۳۸]
محشئ ھدایہ جناب عبدالحی لکھنوی رحمہ اللہ صاحب ھدایہ کی اس عبارت کے تحت فرماتے ہیں:
"دفع توهم من يتوهم أن المراد به قراءة التلقين على القبر"
کہ اس سے اس انسان کا وہم دور کرنا مقصود ہے جو یہ سمجھ بیٹھا ہے کہ قبر پر تلقین کرنا چاہئے.[حاشیہ الھدایہ ج ۲ ص ۱۳۸]
تلقین المیت : لقنوا موتاکم یعنی اپنے مرنے والے کو تلقین کرو سے مراد قریب الموت لوگ ہیں مردے نہیں
اس تحریر کو رومن اردو میں پڑھنے اور اسکین پیجیس کے لئے یہاں کلک کریں
https://ahlehadithhaq.wordpress.com/2016/12/22/talqeen-al-mayyat-لقنوا-موتاكم-yani-apne-marne-wale-ko-talqeen-karo-se-murad-qareeb-ul-maut-log-hain-murde-nahi/
دفن کرنے کے بعد میت کو تلقین کرنا بدعت سیئہ اور قبیحہ ہے،قرآن اور حدیث میں اس کی کوئی اصل نہیں،صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اور ثقہ تابعین عظام رحمہم اللہ سے یہ فعل قطعاً ثابت نہیں،یہ کامل و اکمل دین میں اضافہ اور زیادتی ہے، اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے پیش قدمی ہے :
فرمان باری تعالی ہے :
"يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تُقَدِّمُوا بَيْنَ يَدَيِ اللَّهِ وَرَسُولِهِ ۖ وَاتَّقُوا اللَّهَ ۚ إِنَّ اللَّهَ سَمِيعٌ عَلِيمٌ"
اے ایمان والو! اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے پیش قدمی نہ کرو اور اللہ سے ڈرو،یقیناً اللہ تعالی خوب سننے والا خوب جاننے والا ہے.[سورہ حجرات آیت ۱]
یاد رہے دفن کے بعد میت کو تلقین کرنا کسی دلیل شرعی سے ثابت نہیں ہے،اہل بدعت کے دلائل کا علمی و تحقیقی جائزہ یہاں سے ملاحظہ کریں
http://forum.mohaddis.com/threads/تلقین-المیت-سے-متعلق-روایات-کا-تحقیقی-جائزہ.34408/
بعض احادیث میں "لقّنوا موتاکم لا اله الا الله" کا ذکر ہے اور اہل بدعت ان احادیث سے مردے کو تلقین کرنا مراد لیتے ہیں جو کہ بالکل بھی درست نہیں جب کہ اس عبارت کا اصل معنی ہے کہ اپنے قریب الموت لوگوں کو لا الہ الا اللہ کی تلقین کرو اور ان شاء اللہ اس کو ثابت کیا جائے گا،اہل بدعت میت کو تلقین کرنے سے متعلق یہ روایت پیش کرتے ہیں:
"حدثنا بشر بن المفضل، حدثنا عمارة بن غزية، عن يحيى بن عمارة، قال: سمعت أبا سعيد، يقول: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " لقنوا موتاكم قول لا إله إلا الله "
سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اپنے قریب الموت لوگوں کو لا الہ الا اللہ کی تلقین کرو.[مسند احمد ج ۱۷ ص ۱۹ حدیث ۱۰۹۹۳،صحیح مسلم ج ۱ ص ۳۰۰ حدیث ۹۱۶،سنن ابی داود حدیث ۳۱۱۷،سنن ترمذی حدیث ۹۷۶،سنن نسائی حدیث ۱۸۲۸،سنن ابن ماجہ ۱۴۴۵]
تبصرہ: اس بات پر مسلمانوں کا اتفاق ہے کہ یہ تلقین قریب الموت انسان کو کی جائے گی،نہ کہ مردہ کو،جیسا کہ خود نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل مبارک سے ثابت ہے:
"حدثنا عفان، حدثنا حماد، قال: أخبرنا ثابت، عن أنس، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم عاد رجلا من الأنصار، فقال: " يا خال، قل: لا إله إلا الله "، قال: خال أم عم؟ قال: " بل خال "، قال: وخير لي أن أقولها؟ قال: " نعم "
سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک انصاری آدمی کی تیمارداری کی،فرمایا،اے ماموں جان ! لا الہ الا اللہ کہہ دیں،اس نے کہا،ماموں یا چچا؟فرمایا،بلکہ ماموں،اس نے کہا،کیا یہ (لا الہ الا اللہ) کہنا میرے لئے بہتر ہوگا؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا،ہاں.[مسند احمد ج ۲۱ ص ۳۲۸ حدیث ۱۳۸۲۶ وسندہ صحیح]
امام ہیثمی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
"رواه أبو يعلى والبزار، ورجاله رجال الصحيح"
کہ اس حدیث کو امام ابو یعلٰی اور امام بزار نے بیان کیا ہے اور اس کے راوی صحیح (بخاری) کے راوی ہیں.[مجمع الزوائد ج ۲ ص ۳۲۵]
امام بوصیری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
"رواه أبو يعلى والبزار بسند الصحيح"
کہ اس حدیث کو امام ابو یعلی اور امام بزار نے صحیح سند کے ساتھ بیان کیا ہے.[اتحاف الخيرة المهرة ج ۲ ص ۴۲۷ رقم ۱۸۲۹]
امام ترمذی رحمہ اللہ اس حدیث پر یوں باب قائم کرتے ہیں:
"باب ما جاء في تلقين المريض عند الموت، والدعاء له عنده"
کہ مریض کو موت کے وقت (لا الہ الا اللہ) کی تلقین کرنے اور اس کے لئے دعا کرنے کا بیان.[جامع الترمذی ج ۱ ص ۵۴۴]
نیز فرماتے ہیں:
"وقد كان يستحب أن يلقن المريض عند الموت قول لا إله إلا الله وقال بعض أهل العلم: إذا قال ذلك مرة، فما لم يتكلم بعد ذلك، فلا ينبغي أن يلقن، ولا يكثر عليه في هذا"
کہ موت کے وقت مریض کو لا الہ الا اللہ کی تلقین کرنا مستحب ہے،بعض اہل علم کا کہنا ہے کہ آدمی ایک مرتبہ کہہ دے تو جب تک وہ اس کے بعد کلام نہ کرے،اسے تلقین نہ کرنی چاہئے،نہ ہی اسے زیادہ کہنا چاہئے.[جامع الترمذی ج ۳ ص ۲۹۸]
امام ابن حبان رحمہ اللہ نے اس حدیث پر یہ باب قائم کیا ہے:
"ذكر الأمر بتلقين الشهادة من حضرته المنية"
کہ قریب المرگ کو لا الہ الا اللہ کی تلقین کرنے کے حکم کا بیان.[صحیح ابن حبان ج ۷ ص ۲۷۱]
حافظ ابوالعباس احمد بن عمر بن ابراہیم القرطبی رحمہ اللہ (متوفی ۶۵۶ ھ) فرماتے ہیں:
"قوله صلى الله عليه وسلم : لقنوا موتاكم لا اله الا الله، أى قولوا لهم ذلك وذكروهم به عند الموت وسماهم صلى الله عليه وسلم موتى، لأن الموت قد حضرتهم،وتلقين الموتى هذه الكلمة سنة مأثورة، عمل به المسلمون، وذلك ليكون آخر كلامه : لا اله الا الله، فيختم له بالسعادة، وليدخل فى عموم قوله صلى الله عليه وسلم : من كان آخر كلامه : لا اله الا الله دخل الجنة"
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان کہ اپنے مرنے والوں کو لا الہ الا اللہ کی تلقین کرو،اس کا مطلب یہ ہے کہ موت کے وقت ان کو یاد دلاؤ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قریب الموت لوگوں کو مردہ کہہ دیا ہے،کیونکہ موت انکے پاس حاضر ہو چکی ہوتی ہے،مرنے والوں کو اس کلمہ کی تلقین کرنا سنت ماثورہ ہے،مسلمانوں کا اس پر عمل رہا ہے،اس کا مقصد یہ ہے کہ مرنے والے کا آخری کلام لا الہ الا اللہ ہو جائے،یوں اسی کلمہ پر اس کا خوش بختی کے ساتھ خاتمہ ہو جائے اور وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اس عمومی فرمان میں داخل ہو جائے کہ جس کا آخری کلام لا الہ الا اللہ ہو جائے،وہ جنت میں داخل ہو جائے گا.[المفھم ج ۲ ص ۵۷۰،۵۶۹،نیز دیکھیں زھر الربی للسیوطی ص ۵۱۴]
امام نووی رحمہ اللہ اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں:
"معناه من حضره الموت والمراد ذكروه لا إله إلا الله لتكون آخر كلامه كما في الحديث من كان آخر كلامه لا إله إلا الله دخل الجنة والأمر بهذا التلقين أَمْرُ نَدْبٍ وَأَجْمَعَ الْعُلَمَاءُ عَلَى هَذَا التَّلْقِينِ"
کہ اس کا مطلب ہے جو قریب المرگ ہو اسے لا الہ الا اللہ یاد کروائیں،تاکہ اسکا آخری کلام یہی ہو جائے،جیسا کہ حدیث جس کا آخری کلام لا الہ الا اللہ ہوگا،وہ جنت میں داخل ہو گیا،تلقین کرنے کا یہ حکم استحبابی ہے،علماء کا اسی (طریقہ) تلقین پر اجماع ہے.[شرح صحیح مسلم ص ۵۹۵]
عبدالرحمن شرف الحق عظیم آبادی رحمہ اللہ اس حدیث کی شرح میں فرماتے ہیں:
"أي ذكروا من حضره الموت منكم بكلمة التوحيد أو بكلمتي الشهادة بأن تتلفظوا بها أو بهما عنده ليكون آخر كلامه كما في الحديث من كان آخر كلامه لا إله إلا الله دخل الجنة وقال السندي المراد من حضره الموت لا من مات"
کہ اس سے مراد یہ ہے کہ جو مرنے کے قریب ہوں،موت اس کے سر پر پہنچ چکی ہو،انہیں کلمہ توحید لا الہ الا اللہ یا شہادت کے دونوں کلموں یعنی : لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ اس طرح اسے یاد دلاؤ،کہ اس کے سامنے یہ کلمہ پڑھو،تاکہ یہ کلمہ اس کا آخری کلام ہوجائے،جیسا کہ حدیث شریف میں ہے کہ : جس کا آخری کلام لا الہ الا اللہ ہوا،وہ جنت میں داخل ہوگا،اور علامہ سندھی حنفی فرماتے ہیں اس تلقین سے مراد یہ ہے کہ اس شخص کو کلمہ کی تلقین کرو جو قریب الموت ہو،نہ کہ وہ جو مرچکا ہو(یعنی تلقین زندہ کو کرنی ہے،مردہ کو نہیں).[عون المعبود علی سنن ابی داود ص ۱۳۳۱]
صاحب ھدایہ جناب برھان الدین ابو الحسن علی بن ابو بکر المرغیانی فرماتے ہیں:
"المراد الذي قرب من الموت"
کہ اس سے قریب الموت مراد ہے.[الھدایہ شرح بدایتہ المبتدی ج ۲ ص ۱۳۸]
محشئ ھدایہ جناب عبدالحی لکھنوی رحمہ اللہ صاحب ھدایہ کی اس عبارت کے تحت فرماتے ہیں:
"دفع توهم من يتوهم أن المراد به قراءة التلقين على القبر"
کہ اس سے اس انسان کا وہم دور کرنا مقصود ہے جو یہ سمجھ بیٹھا ہے کہ قبر پر تلقین کرنا چاہئے.[حاشیہ الھدایہ ج ۲ ص ۱۳۸]
Last edited: