- شمولیت
- اپریل 27، 2013
- پیغامات
- 26,582
- ری ایکشن اسکور
- 6,752
- پوائنٹ
- 1,207
حدیثوں پر غیرت اور ان کا انکار
عجیب بات ہے کہ جنہیں حدیثوں پر غیرت آتی ہے اور اس غیرت کے سبب حدیثوں کا انکار شروع کر دیتے ہیں، انہیں آیتوں پر غیرت نہیں آتی بلکہ وہاں ایمان یاد آ جاتا ہے، فیا للعجب،،،
چھوٹی عمر کی لڑکی کا نکاح تسلیم نہیں ہے کیونکہ یہ حدیث میں آیا ہے لیکن چھوٹی عمر کے لڑکے کو بلاوجہ قتل کرنے پر ہم ایمان لائیں گے کہ یہ قرآن میں آیا ہے۔ یہ وہ تذبذب ہے کہ جس کا شکار آج کے منکرین حدیث اور متجددین ہیں۔
حضرت خضر علیہ السلام کا نابالغ بچے کو قتل کرنا، حضرت جبرئیل کا مریم علیہا السلام کی تنہائی میں مرد کی صورت میں آ جانا، حضرت لوط علیہ السلام کا اپنی بیٹیوں کو اپنی قوم پر پیش کرنا وغیرہ جیسے قرآنی واقعات میں توہین، عقل، منطق سب بھول جاتا ہے، صرف ایمان یاد رہ جاتا ہے۔
تو غیرت، عقل اور منطق کے جس ترازو سے حدیث کو تول رہے ہو، اسی ترازو سے اگر قرآن مجید کو بھی تولو گے تو تمہارے بوجھے میں کچھ نہیں بچے گا سوائے الحاد کے،،،
اور حقیقت یہی ہے کہ رویے اصل میں دو ہی ہیں یا ایمان یا الحاد۔ اور جو ان کے بیچ کا ہے تو وہ سراسر منافقت ہے۔ قرآن بھی خبر ہے اور حدیث بھی خبر ہے۔ خبر کے اصولوں پر دونوں کو پرکھ لو۔
اگر حدیث کو غیرت اور عقل کے اصولوں پر پرکھو گے اور اپنے اس روہے میں مخلص ہوئے تو ضرور بالضرور قرآن کا بھی انکار کرو گے کہ قرآن میں وہ باتیں زیادہ صراحت سے موجود ہیں کہ جن کا تم احادیث میں انکار کر چکے ہو۔
بشکریہ: محترم شیخ @ابوالحسن علوی