ابو داؤد
رکن
- شمولیت
- اپریل 27، 2020
- پیغامات
- 538
- ری ایکشن اسکور
- 169
- پوائنٹ
- 77
حدیث ترمذی اور گروہ "الفئة الباغية"
سیدنا عمار بن یاسر ؓ کو شہید کرنے والا باغی گروہ مالک اشتر نخعی اور ابن سباء یہودی کا تھا جنہوں نے خلیفہ وقت سیدنا عثمانؓ کے خلافت بغاوت کی تھی۔
یہ سارے باغی مرزا جہلمی کے اباؤاجداد میں سے ہیں ۔
حقیقت یہی ہے ان لوگوں نے سیدنا عثمان ؓ کی خلافت کا انکار کیا اور بغاوت کرتے ہوئے انکے خلاف خروج کیا اسکے بعد ان لوگوں نے سیدنا علی ؓ و سیدنا معاویہ ؓ کے درمیان آگ لگائی اور جنگیں کروائی اور اب یہ بےغیرت سارا ملبہ صحابی رسول ﷺ پہ ڈال کر اپنے جہنمی اباؤاجداد کو بری کرنا چاہتے ہیں ۔
حالانکہ یہی مالک اشتر اور ابن سباء یہودی ہی فئۃ باغیۃ حدیث کے مصداق ہیں جو سیدنا عثمان ؓ کی خلافت کے پکے باغی اور خروج کرنے والے تھے ورنہ امیر معاویہ ؓ نے نہ تو سیدنا علی ؓ کی خلافت کا انکار کیا اور نہ خروج۔ مقلدین مرزا کیلئے لمحہ فکریہ ہے۔
3800 : حدثنا ابو مصعب المدني، حدثنا عبد العزيز بن محمد، عن العلاء بن عبد الرحمن، عن ابيه، عن ابي هريرة رضي الله عنه، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:
" ابشر عمار تقتلك الفئة الباغية ". قال ابو عيسى: وفي الباب عن ام سلمة، وعبد الله بن عمرو، وابي اليسر، وحذيفة، قال: وهذا حسن صحيح غريب حديث العلاء بن عبد الرحمن.
سیدنا ابوہریرہ رضی الله عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: “عمار! خوش خبری ہو، باغی گروہ تمہیں شہید کرے گا۔ ”
امام ترمذی فرماتے ہیں:اس باب میں سیدہ ام سلمہ،عبداللہ بن عمرو، ابوایسر اور حذیفہ رضی الله عنہم سے بھی روایت ہے۔
امام ترمذی رحمہ اللہ نے فرمایا : یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے ۔علاء بن عبدالرحمٰن کی روایت سے ۔
اس حدیث فوائد کے تحت فضیلۃ الشیخ حافظ فاروق الرحمن یزدانی حفظہ اللہ لکھتے ہیں :
(1) اللہ تعالیٰ کے رسول ﷺ کی یہ پیشن گوئی سیدنا عمار بن یاسر ؓ کے حق میں حرف بحرف پوری ہوئی ۔
سیدنا عثمان ذوالنورین ؓ کے دور خلافت میں جن لوگون نے بغاوت کر کے امت مسلمہ کے امن و سکون کو غارت کیا حتیٰ کہ سیدنا عثمان ؓ کو بڑی ہی مظلومیت کی حالت میں شہید کر دیا، بعد ازاں اسی گروہ (الفیۃ الباغیۃ) نے اپنا تحفظ کرتے ہوئے امت کی قابل صد احترام ہستی سیدنا علی المرتصی ؓ کو بیعت خلافت لینے پر مجبور کردیا ۔
(2) ان حالات میں سیدنا امیر معاویہ ؓ نے سیدنا عثمان ؓ کے خون کے قصاص کا مطالبہ کر دیا جو کہ کئی لحاظ سے جائز اور ان کا حق تھا، سیدنا علی المرتضیٖؓ بھی اس کے لیے تیار تھے لیکن یہ گروہ (فئۃ باغیۃ) اس قدر طاقتور تھا کہ انہوں نے ان دونوں جلیل القدر صحابہ کی اس خواہش کو ثمر آور نہ ہونے دیا، اب اس باغی گروہ نے سمجھ لیا کہ سیدنا امیر معاویہ ؓ اور سیدنا علی المرتضی ؓ دونوں ہی قاتلین عثمان سے قصاص کا لینے کا فیصلہ کر چکے ہیں تو انہوں نے ایک گہری سازش کے تحت ایسا اختلاف کا بیج بویا کہ کئی ایک غلط فہمیوں کی وجہ سے بات جنگ و جدل تک پہنچ گئی جس کے نتیجے میں “ جنگ جمل ” اور “ جنگ صفین ” کی صورت میں امت کو المناک حادثے سے دوچار ہونا پڑا۔
چونکہ یہ گروہ صرف اپنا تحفظ چاہتا تھا انہیں اسلام اور مسلمانوں سے خیرخواہی تو درکنار ان کا ادب و احترام بھی ان کے ہاں نابود و مفقود تھا، چنانچہ جنگ صفین میں جب سیدنا عمار بن یاسر ؓ نے لوگوں کو اللہ تعالیٰ کی رضا و خوشنودی کو حاصل کرنے اور دنیا کے مال و متاع کا لالچ نہ کرنے کی نصیحت فرمائی تو اس “ فئۃ باغیۃ ” کو خطرہ پیدا ہوا کہ کہیں ان کی تقاریر اور خطابات دونوں گروہوں میں صلح نہ ہو جائے، کیونکہ صلح کا مطلب باغی گروہ کی سرکوبی اور قلع قمع تھا، تو انہوں نے سیدنا عمار بن یاسر ؓ کو شہید کر کے صلح کی امیدوں پر ناصرف کہ پانی پھیر دیا بلکہ باہمی اختلاف کو مزید ہوادی ۔
(3) اس حدیث کی آڑ میں راف،ضیوں اور بعض ان کے سہولت کار اور رافضیت کے بہی خواہ، سیدنا امیر معاویہ ؓ اور دوسرے کئی ایک جلیل القدر صحابہ کرام ؓ پر زبان طعن دراز اور قلم کی آبرو کو پامال کرتے ہیں حالانکہ یہ مقدس ہستیاں قطعی طور پر اس قضیے سے بری اور امام الانبیاء محمد رسول اللہ ﷺ کی زبان مبارک سے کئی قسم کی بشارتوں کو حاصل کر چکے ہیں، سب سے بڑھ کر کہ “ شرف صحابیت ” جیسا بے مثال اعزاز بھی رکھتے ہیں، رضی اللہ عنھم ، اس لیے بھی ہر مسلمان کو ان کے متعلق دل میں کوئی نامناسب خیال لانے سے بھی پہلے ہزار بار سوچنا چاہیے، اللہ تعالٰی ہم سب کو ہدایت نصیب فرمائے اور قیامت کے دن صحابہ کرام کی معیت میں جناب محمد رسول اللہ ﷺ کے جھنڈے (لواءالحمد) کے نیچے جمع فرمادے (آمین)
( تنویر الاحوذی اردو شرح جامع ترمذی شریف :جلد 4 / 3800 صفحہ 706, 707 )
تحریر : حافظ عمر السلفی