ایک روایت کو ایک محدث ضعیف قرار دیتا ہے اور اُسی روایت کو دوسرے محدث نے صحیح یا حسن قرار دیا ہوتا ہے تو ایک عام آدمی جو احادیث کی تحقیق کے اصولوں سے واقف نہیں تو وہ کس کی بات مانے؟
ایک عام آدمی ایک روایت کی سند کو ضعیف سمجھتے ہوئے اس پر عمل نہیں کرتا کچھ عرصہ بعد اسے معلوم ہو جاتا ہے کہ وہ حدیث صحیح ہے تو جتنا عرصہ وہ عمل سے محروم رہا اس کا کیا ثواب ملے گا؟یا دوسری صورت میں ایک حدیث کو ایک عام آدمی صحیح سمجھ کر عمل کرتا رہا لیکن بعد میں اسے پتہ چلا کہ وہ ضعیف ہے تو کیا اس کا گناہ ہو گا؟
اس اہم مسئلے کی قرآن و حدیث کی روشنی میں وضاحت کریں۔
تحقیق حدیث سے متعلق جو سوال آپ نے پیش کیا ہے یہی سوال فہم حدیث سے متعلق بھی پیش کیا جاسکتا یعنی یوں کہا جاسکتا:
ایک مسئلہ میں ایک فقیہ عدم جواز کی بات کرتا ہے اور اسی مسئلہ میں دوسرا فقیہ استحباب یا جواز کا فتوی دیتا ہے ۔ تو ایک عام آدمی جو فقہ کے اصولوں سے واقف نہیں تو وہ کس کی بات مانے؟
ایک عام آدمی ایک مسئلہ کو ناجائز سمجھتے ہوئے اس پر عمل نہیں کرتا کچھ عرصہ بعد اسے معلوم ہو جاتا ہے کہ اس مسئلہ پر عمل درست وصحیح ہے تو جتنا عرصہ وہ عمل سے محروم رہا اس کا کیا ثواب ملے گا؟یا دوسری صورت میں ایک مسئلہ کو ایک عام آدمی صحیح سمجھ کر اس پرعمل کرتا رہا لیکن بعد میں اسے پتہ چلا کہ وہ مسئلہ غلط ہے تو کیا اس کا گناہ ہو گا؟
اس اہم مسئلے کی قرآن و حدیث کی روشنی میں وضاحت کریں۔
میرے خیال سے تحقیق حدیث ہو یا فھم حدیث دونوں میں اختلافات ہوتے ہیں اس لئے دونوں سے متعلق مذکورہ سوال پیداہوتاہے ، جیساکہ میں نے درج ذیل لنک پر بھی کہا:
حدیث کو صحیح وضعیف کہنے میں محدثین کا اختلاف ،عام آدمی کیا کرے؟
اب رہا مسئلہ یہ کہ اس سوال کا جواب کیا ہے تو میں اپنی طرف سے کچھ نہ کہتے ہوئے علامہ البانی رحمہ اللہ کا کلام اوراس کاترجمہ پیش کردینا کافی سمجھتاہوں۔
جرح وتعدیل میں ایک مسئلہ اٹھتا ہے کہ ابن حبان رحمہ اللہ کی توثیق کے بارے میں کیا موقف اپنایا جائے ، تو اس سلسلے میں دارانی نامی ایک صاحب نے اپنا موقف پیش کیا جس پر علامہ البانی رحمہ اللہ نے رد کیا اور اسی ضمن میں یہ عمومی اصول پیش کیا کہ کسی بھی فن میں اختلاف ہو تو لوگوں کو کیا کرنا چاہئے ، ملاحظہ ہو علامہ البانی رحمہ اللہ کا کلام اردو ترجمہ کے ساتھ:
علامہ البانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
الناس في هذا العلم وعلي غيره علي ثلاثة أنواع.
- عالم مجتهد
- طالب متبع
- جاهل مقلد
فالأول:يجتهد فيما اختلف فيه الناس ، لأنه باستطاعته أن يعرف صوابه من خطئه .
والثاني: يتبع من يثق بعلمه وتقواه وصلاحه ، ويحاول وأن يتعرف به علي الصواب ، ليکون علي بصيرة من دينه ، ولا يتنطع و يدعي العلم کما فعل الداراني.
والثالث :يقلد عالما ويحاول أن يکون من النوع الثاني ۔
وهذا کمبداء عام . والا فمثله لايحتاج أن يسائل مثل هذا السؤال الذي يترتب عليه تصحيح الحديث أو تضعيفه کما هو ظاهر.
[
صحيح موارد الظمآن للعلامہ الالبانی : ص 53 , 54].
ترجمہ :
علم حدیث اوردیگرعلوم کے معاملے میں لوگوں کی تین قسمیں ہوتی ہیں:
- مجتہدعالم(اجتہاد کرنے والا عالم)
- متبع طالب علم(اتباع کرنے والاطالب علم)
- مقلدجاہل (تقلیدکرنے والاجاہل)
- جو شخص پہلی قسم والوں میں سے ہو وہ ان امور میں اجتہاد کرے گا جن میں لوگوں نے اختلاف کیا ہے کیونکہ وہ صحیح و غلط میں فیصلہ کرنے پر قادرہے ۔
- اورجو دوسری قسم والوں میں سے ہوگا وہ ان مجتہدین کی پیری کرے گا جن کے علم ، تقوی اوردینداری پر اسے اعتماد ہوگا ، اورکوشش کرے گا کہ ان کے ذریعہ صحیح بات تک پہونچے، تاکہ بصیرت کے ساتھ اپنے دین پر عمل پیراہو۔ لیکن یہ شخص بڑی بڑی باتیں نہ بولے اورعلم کا دعوی نہ کرے ، جیسے دارانی وغیرہ نے کیا ۔
- اورجوشخص تیسری قسم والوں میں سے ہوگا وہ اہل علم کی تقلید کرے گا اورکوشش کرے گا کہ دوسری قسم والوں میں سے بنے ۔
یہ عمومی اصول ہے ورنہ جاہل جیسے لوگوں کا یہ کام نہیں کہ وہ اس جیساسوال کریں جس پر حدیث کی تصحیح وتضعیف کا دارومدارہو ، جیساکہ واضح ہے۔
[صحيح موارد الظمآن للعلامہ الالبانی : ص 53 , 54].
میں سمجھتاہوں کہ علامہ البانی رحمہ اللہ نے بہت ہی عمدہ اورزبردست بات کہی ہے ۔
علامہ البانی رحمہ اللہ کی وضاحت کی روشنی میں ہرشخص اپنے ساتھ انصاف کرے اوردیکھے کہ وہ اوپرذکردہ کس قسم میں سے ہے ، پھر وہ اپنے آپ کو جس قسم میں سے پائے اس قسم سے متعلق پیش کردہ اصول پرعمل کرے ۔